Powered By Blogger

بدھ, اپریل 27, 2022

رمضان کا الوداعی پیغام

رمضان کا الوداعی پیغام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
 مسلمانو! میں جا رہا ہوں۔ نوجوانو! میں جا رہا ہوں۔ کیا پتہ پھر تمہیں میری رفاقت نصیب ہو نہ ہو۔ آؤ! اس سے پہلے کہ میں تم سے بچھڑ جاؤں۔ مجھے گلے سے لگا لو۔ میرے فیوض و برکات سے اپنے سینوں کو منور کر لو۔ دیکھو! اللہ کے صالح اور نیک بندے، عابد و زاہد بندے اپنی صالحیت کے باوجود رو رو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہے ہیں، گڑگڑا رہے ہیں، گناہوں سے توبہ کر رہے ہیں۔ آئندہ گناہوں سے بچنے کی توفیق طلب کر رہے ہیں۔ اللہ سے رحمت و مغفرت کی، اس کے جود و سخا کی بھیک مانگ رہے ہیں۔تاریخ کے صفحات پلٹ کر دیکھو۔ انبیاء، رسل، صحابہ کرام، اولیاء اللہ جن کی صالحیت کی قسمیں کھائی جاتی ہیں، اعمالِ صالحہ کی کثرت کے باوجود اللہ سے رو رو کر اُس کی رحمت طلب کرتے تھے۔ کیا تمہارے اعمال ان پاک نفوس سے بھی تجاوز کر چکے ہیں کہ تمہیں اپنے رب کو راضی کرنے کی فکر نہیں۔۔۔؟مسلمانو! ائے قوم کے غیور نوجوانو! میں تمہاری تربیت کے لیے آیا ہوں۔ کیا تمہیں نہیں پتہ کہ ایک فوجی کو سخت ترین فوجی تربیت اسی لیے دی جاتی ہے کہ وہ اپنی سرحد کی حفاظت کر سکے۔ تم بھی دین و شریعت کے ایک فوجی ہو، ایک سپہ سالار ہو۔ اسلام تمہاری سرحد ہے۔ شیطان اور تمہارا سرکش نفس ہر لحظہ تمہاری سرحد میں داخل ہو کر تمہیں بے گھر کرنے کی فراخ میں ہے۔ آؤ، قسم کھا لو، مجھے یقین دلا دو کہ تم اپنے ایمان کی سرحد میں شیطان اور اپنے سرکش نفس کو داخل نہیں ہونے دو گے۔ 
 مسلمانو! ائے میرے عزیز نوجوانو! میں جا رہا ہوں لیکن جاتے جاتے تمہیں تقویٰ کی صفت سے متصف دیکھنا چاہتا ہوں۔ کیوں کہ میرے آنے کا مقصدِ اولین تمہارے اندر تقوے کی صفت پیدا کرنا ہے۔ قرآن کے اوراق پلٹ کر دیکھو وہ کیا کہتا ہے۔’’ائے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھے تاکہ تم متقی اور پرہیز گار بن جاؤ۔‘‘(سورۃ البقرۃ)۔ آؤ میں تمہیں قرآن کی ہی زبانی بتاتا ہوں کہ متقی کسے کہتے ہیں۔ سورۃ البقرۃ کی ابتدائی آیات کے مفہوم پر غور کرو۔:
 الف۔ لام۔ میم۔ یہ کتابِ الٰہی ہے۔ اس کے کتاب ہونے میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت ہے متقیوں کے لیے۔ جو ایمان رکھتے ہیں غیب پر، نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کچھ ہم نے انہیں بخشا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘(سورۃ البقرۃ)
 غور کرو۔ قرآن متقیوں کی تین صفتیں بتا رہا ہے۔ غیب پر ایمان لانا۔ نماز قائم کرنا اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنا۔ اپنے اندر اتر کر خود کا جائزہ لو کہ کیا میری تربیت کے بعد تمہارے اندر یہ تین صفتیں پیدا ہو سکی ہیں یا نہیں؟؟ اب بھی وقت ہے۔ اپنے رب کو منا لو۔ دنیا بہت مانگ لی۔ اب ذرا اپنا دستِ سوال تقویٰ و پرہیزگاری مانگنے کے لیے بھی دراز کر لو۔ ایک بھکاری کی طرح اُس کے در پر ڈٹ جاؤ کہ بغیر لیے نہیں جاؤں گا۔ اپنے دامن کو آنسوئوں سے بھر دو۔ شاید اسے ترس آ جائے۔ شاید اُس کی رحمت جوش میں آجائے۔ شاید کہ عرقِ انفعال کے قطرے موتی سمجھ کر چن لیے جائیں ۔دیکھو دیکھو، محسوس کرو، کوئی آواز دے رہا ہے کہ’ ہے کوئی ہدایت کا متلاشی جسے ہدایت بخش دی جائے، ہے کوئی خیر کا متلاشی جسے خیر و عافیت عطا کی جائے۔‘ دوڑو، لپکو، اگر اب بھی محروم رہ گئے تو تم سے بڑا بدنصیب کوئی نہیں ہوگا:
لے کے خود پیرِ مغاں ہاتھ میں مینا آیا
مے کشو! شرم کہ اس پربھی نہ پینا آیا
 ائے میرے چاہنے والو! جاتے جاتے مجھ سے وعدہ کرو کہ میرے جانے کے بعد مجھے بھول نہیں جاؤ گے۔ مساجد کو ویران نہیں ہونے دو گے۔ شیطان کو اپنی سرحد میں داخل ہونے سے باز رکھو گے۔ قرآن سے اپنا تعلق نہیں توڑو گے۔ غرباء و مساکین پر دست شفقت رکھو گے۔ ہدایت کو عام کرو گے۔ مظلوموں کا ساتھ دو گے۔ ظالموں کے خلاف اٹھ کھڑے ہو گے۔ اپنے اعمال سے یہ ثابت کروگے کہ ’’میری نماز، میری قربانی، میرا جینا و مرنا سب اللہ کے لیے ہے۔‘‘مجھ سے وعدہ کرو۔۔ ۔۔ مجھے یقین دلا دو تاکہ میں ہنسی خوشی تم سے رخصت ہو سکوں۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کامران غنی صبا

احتجاج : مسلم پرسنل لا بورڈ نے یونیفارم سول کوڈ کو غیر آئینی قرار دیا ، کہا ۔ مہنگائی اور بے روزگاری سے توجہ ہٹانے کی کوشش

احتجاج : مسلم پرسنل لا بورڈ نے یونیفارم سول کوڈ کو غیر آئینی قرار دیا ، کہا ۔ مہنگائی اور بے روزگاری سے توجہ ہٹانے کی کوشش

مرکزی حکومت کی طرف سے ملک میں یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کی تیاریوں کے درمیان مسلم پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) کا بڑا بیان سامنے آیا ہے۔ بورڈ نے اس کی مخالفت کی ہے اور اسے آئین اور اقلیتوں کے خلاف قرار دیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ حکومت عوام کی توجہ مہنگائی، معیشت اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری سے ہٹانے کے لیے یہ راگ الاپ رہی ہے۔

مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ اتراکھنڈ اور اتر پردیش حکومتوں نے بھی یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا سیف اللہ رحمانی نے ایک بیان جاری کرکے سخت مخالفت کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے آئین میں ملک کے ہر شہری کو اس کے مذہب کی بنیاد پر زندگی گزارنے کی آزادی دی گئی ہے اور یہ بنیادی حقوق میں بھی شامل ہے۔

رحمانی نے کہا کہ آئین میں اقلیتوں اور قبائلی ذاتوں کو اپنی مرضی اور روایت کے مطابق مختلف پرسنل لاز کی اجازت دی گئی ہے۔ اس سے اکثریت اور اقلیتوں کے درمیان باہمی اتحاد اور باہمی اعتماد کو برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

بورڈ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اتراکھنڈ اور اتر پردیش اور مرکزی حکومتوں کی طرف سے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا غصہ ملک کے عوام کی توجہ مہنگائی، بے روزگاری، گرتی ہوئی معیشت سے ہٹانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔ نفرت کا ایجنڈا بورڈ نے کہا کہ وہ حکومت سے اپیل کرتا ہے کہ وہ ایسی حرکتوں سے باز رہے۔

قابل ذکر ہے کہ اتراکھنڈ کے سی ایم پشکر سنگھ دھامی نے کہا ہے کہ یکساں سول کوڈ (یو سی سی) کی تیاری کے لیے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی بنائی جائے گی، جو اس کا مسودہ تیار کرے گی۔ ہماچل کے وزیر اعلی جئے رام ٹھاکر نے بھی پیر کو کہا کہ ریاست میں یو سی سی کے نفاذ کی جانچ کی جا رہی ہے۔

یونیفارم سول کوڈ کیا ہے؟
یکساں سول کوڈ ہندوستان میں شہریوں کے ذاتی قوانین بنانے اور نافذ کرنے کی تجویز ہے۔ اس میں ملک کے تمام شہریوں پر ان کے مذہب اور جنس کی بنیاد پر امتیاز کے بغیر یکساں طور پر لاگو کرنے کا منصوبہ ہے۔ اس وقت مختلف کمیونٹیز کے پرسنل لاز ان کی مذہبی کتابوں کے مطابق چل رہے ہیں۔ یکساں سول کوڈ آئین کے آرٹیکل 44 کے تحت آتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ ملک میں شہریوں کے لیے یکساں سول کوڈ بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ بی جے پی طویل عرصے سے اس کا مطالبہ کر رہی ہے۔ یہ ان کے 2019 کے انتخابی منشور کا بھی ایک حصہ ہے

ڈاکٹر عباد الرحمن نشاطمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند پھلواری شریف پٹنہ

ڈاکٹر عباد الرحمن نشاط
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند پھلواری شریف پٹنہ 
 ام القریٰ یونیورسیٹی مکہ معظمہ کنگ خالد یونیورسیٹی ابہا سعودی عرب، ناردن الّی نو اے یونیورسیٹی (NORHERN ILLINOIS UNIVARCITY)کے سابق پروفیسر ، ندوۃ العلمائ، لکھنؤ کی مجلس انتظامی ونظامت کے سابق رکن، مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ کے دست گرفتہ، صحبت وبیعت مجاز اور معتمد خاص ، کئی کتابوں کے مصنف ومترجم ڈاکٹر عباد الرحمن نشاط نے ۲۵؍ رمضان المبارک ۱۴۴۳ھ مطابق ۸؍ مئی ۲۰۲۱ء کو اس دنیا سے رخت سفر باندھا، اس طرح علم وعمل اورفکر ونشاط کے اس پیکر خاکی کو لحد نے اپنے اندر سما لیا، لیکن ان کی خدمات ، تصوف سے ان کا شغف، خانوادۂ حضرت علی میاں ؒ سے قربت، تاریخ کا حصہ ہے اور اسے کسی طور فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔
ڈاکٹر عباد الرحمن نشاط بن شاہ افضال الرحمن کا مولد ومسکن لکھمنیاں بیگو سرائے بہار ہے،  بعد میں اوکھلادہلی کو انہوں نے اپنا مستقر بنالیا تھا۔ ۱۰؍ جون ۱۹۴۲ء کو اس عالم رنگ وبو میں تشریف آوری ہوئی، والد علاقہ کے مشہور زمیندار اور ایک اسکول میں استاذ تھے، لیکن ابھی ڈاکٹر عباد الرحمن نے عمر کی چھ بہاریں ہی دیکھی تھیں، کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، دس سال کے ہوئے تو والدہ بھی داغ مفارقت دے گئیں ، اس کے باوجود ڈاکٹر عباد الرحمن نے اپنی تعلیم مکمل کی اور ۱۹۷۰ء میں انگریزی زبان وادب سے آپ نے ایم اے کیا اور لکچرر کی حیثیت سے ایک کالج میں بحال ہو گیے، انگریزی زبان وادب میں کمال پیدا کرنے کے لیے انہوں نے امریکہ کا تعلیمی سفر کیا ، وہاں سے فراغت کے بعدسعودی عرب اور امریکہ کے کئی کالج اور یونیورسیٹیوں میں تدریسی خدمات انجام دیں اور انگریزی زبان وادب کے رمز شناش اور ماہر تعلیم کی حیثیت سے علمی دنیا میں اپنا مقا م بنایا اور پوری زندگی صدق وصفا کے ساتھ گذار دی۔
 ڈاکٹر صاحب اصطلاحی اور رسمی طو پر عالم نہیں تھے، لیکن ان کا خانوادہ اللہ والوں کا تھا، اور یہ نسبت نسلا بعد نسل منتقل ہو کر ڈاکٹر صاحب تک پہونچی تھی، ڈاکٹر صاحب کا نسبی تعلق حضرت شیخ سلطان مجددی بلیاوی بہاری سے تھا، جو عہد شاہ جہانی اور عالمگیری کے ممتاز ترین بزرگ تھے۔شیخ صاحب حضرت سید آدم بنوری (م ۱۰۵۳) کے خلفا میں سے تھے، ان کے ایک دوسرے خلیفہ خانوادۂ حضرت علی میاں ؒ کے مورث اعلیٰ سید شاہ علم اللہ حسنی رائے بریلوی (م ۱۰۹۶) تھے، ان دونوں خاندانوں میں جو قربت بڑھی اور حضرت مولانا علی میاں ؒ کی جو توجہ خاص ڈاکٹر عباد الرحمن نشاط کو ملی اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی۔
 ڈاکٹر عباد الرحمن نشاط انگریزی زبان وادب کے آدمی تھے، لیکن ان کی فکر اسلامی تھی ،عہد شباب سے ہی انہیں علماء اور بزرگان دین کے احوال وکوائف کے مطالعہ کا شوق تھا، اس شوق نے ان کی رہنمائی حضرت مولانا ؒ کی کتاب ’’سوانح حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری‘‘ تک کی، اس کے مطالعہ کے بعد ان کا ذہن تصوف کی طرف مائل ہوا، سوانح  مولانا محمد زکریا کاندھلوی ؒ کے مطالعہ سے تصوف کے رموز ونکات کے سمجھنے اور عملی طور پر برتنے کا شعور پیدا ہوا، حضرت مولانا علی میاں ؒ سے بیعت کا تعلق قائم ہوا، حضرت نے تصوف کے چاروں مشہور سلاسل تصوف قادریہ، چشتیہ،سہروردیہ، نقشبندیہ کے ساتھ حضرت آدم بنوری کے خاص سلسلہ ’’احسنیہ‘‘ میں بھی بیعت لیا، اور بعد میں ان تمام سلاسل میں خلافت عطا فرمائی اس خلافت کے پاس ولحاظ اور آخرت سنوانے کی فکر کی وجہ سے دم واپسیں تک ڈاکٹر صاحب نے سلوک وتصوف کے رموز ونکات کو سمجھنے اور برتنے میں لگا دیا، عمر کے آخری دور میں ڈاکٹر عباد الرحمن نشاط کی ذکر وفکر کے ساتھ اصلاحی اور تربیتی مجلس لگا کر لی تھی، یہ مجلسیں عموما احمد عبد اللہ عثمانی کے گھر پر ہفتہ واری ہوا کرتی تھیں۔
 مزاجی اعتبار سے آپ انتہائی نرم واقع ہوئے تھے، مسکراتا ہوا چہرہ گفتگو کا سلیقہ ، آواز میں نرمی ، لہجے کی مٹھاس، ریا ونمود ونمائش سے دور، ان کی عملی زندگی اور اصلاح حال کے لیے ان کے جذبے کی صداقت سے جو پیکر اور مجسمہ تیار ہوا وہ لوگوں کے لیے انتہائی پر کشش تھا اور لوگ ان کی طرف کھنچے ہوئے چلے آتے تھے۔
 ڈاکٹرصاحب کو اللہ تعالیٰ نے ایمانی، اسلامی، احسانی زندگی کے ساتھ انگریزی میں تصنیف وتالیف اور ترجمہ نگاری کا بہت اچھا ملکہ دیا تھا، چنانچہ انہوں نے حضرت مولانا علی میاں ؒ کی کئی کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور مغربی دنیا تک اسے پہونچایا، انہوں نے سید احمد شہید ؒ کی اسلامی تحریک کا جامع تعارف انگریزی زبان میں ، سید احمد شہید-تحریک اور اثرات SAYYID AHMAD SHAHEED : LIFE MISSION AND COTRIBUTINS  کے نام سے کرایا، اس کے علاوہ تعدد ازدواج ، حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوری کی تعلیمات پر ان کی کتابیں مشہور ہیں، انہوں نے آخری عمر میں ایک جامع کتاب اپنے جد امجد حضرت شیخ سلطان مجددی لکھمنیاوی کی سیرت اوصاف اور تعلیمات پر لکھی جو ان کی آخری مطبوعہ کتاب ہے، اس کتاب پر مولانا محمد کلیم صدیقی پھلتی دامت برکاتہم کا مقدمہ ہے، انہوں نے ڈاکٹر صاحب کے ذاتی احوال واوصاف کے حوالہ سے جو کچھ لکھا ہے، اس پر اپنی بات ختم کرتا ہوں، لکھتے ہیں: ’’انہیں حضرت شاہ سلطان کے احفاد میں ہونے کی نسبت حاصل ہے اور اس سے زیادہ خود وہ تعلق مع اللہ اور سنت وشریعت کے معاملہ میں حد درجہ محتاط اور ورع وتقویٰ کے لحاظ سے بھی اس دینی وروحانی دولت کے نمونہ اور امین ہیں جو اس مجددی سلسلہ کا امتیاز ہے‘‘۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...