Powered By Blogger

ہفتہ, نومبر 25, 2023

اک پھول سے آجاتی ہے ویرانےرونقہلکاساتبسٌم بھی مری جان بہت ہے

***** کچھ تبسٌم ز یرِ لب(17)*****
Urduduniyanews72 
                     * انس مسرورانصاری

                        * بس میں بے بسی*


اک پھول سے آجاتی ہے ویرانےرونق
ہلکاساتبسٌم بھی مری جان بہت ہے

    بس میں بے بسی وہی جانے جس نے ہماری طرح بس میں بے بسی کودیکھااورجھیلاہو۔ریلوے اسٹیشن کی بھیڑبھاڑسےہمیں بڑی الرجی ہے۔لگتا ہے جیسے قیامت سے پہلے قیامت کےمیدان میں انٹری ہوگئی ہو۔ہرطرف بھاگم بھاگ۔دوڑدھوپ۔ دھکم پیل۔کولھوسےکولھوکا چھلنا۔سینےسےسینہ کاچسپاں ہونا۔ایک جیب کا مال دوسرے کی جیب میں پہنچنا۔اورکبھی کبھی کسی خاتون کاچانٹاکسی شریف نوجوان کے گال پر پڑنا۔۔۔وغیرہ،وغیرہ۔خدا کی پناہ۔۔۔۔۔۔اس لیے ریل گاڑی کے بجائےبس میں سفر ہمیں بہت مرغوب ہے۔لیکن بس کا وہ سفرہرگزنھیں جس کی داستانِ دل خراش وجگرخروش کاسناناہمیں مطلوب ہے۔
        بڑی اورچھوٹی گاڑیوں کےڈرائیوروں اورکنڈکٹر وں میں جویک جہتی ویکتائی اور بھائی چارہ ہےاس کی مثال کو ہم تلاش کرنےنکلےتوسخت مایوسی اورپشیمانی ہوئی کہ وہ بے مثال ہے۔
       ہماری بس آگےہی آگے بھاگتی جارہی تھی اور منزل قریب تھی۔ یعنی۔۔دوچارہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا،، سامنےسےآنےوالی بس نے ہمارےبس ڈرائیورکواشارہ کیا۔دونوں بسیں پہلوبہ پہلوکھڑی ہوگئیں۔پتاچلاکہ آگے آر،ٹی،یو،نےروڈکوبلاک کررکھاہے۔گاڑیوں کی چیکنگ ہورہی ہے۔شایدآر،ٹی،یوکی بیوی نےپھرکوئی نئی فرمائش کردی ہوگی۔ ہماری بس کا ڈرائیور بہت چالاک تھا۔اور ڈرئیور تو چالاک ہوتے ہی ہیں۔چنانچہ اس نے کچھ دورجاکر۔۔بائی پاس،کی طرف گاڑی کوموڑدیا۔چیکنگ افسرکی دلی آرزوکوتوڑدیا۔بائی پاس صرف سرجری ہی نھیں ہوتی بلکہ بائی پاس بہت کچھ ہوتاہے۔مثلاً ہمارا یہ بائی پاس سفر۔۔!بائی پاس سفرکی ایک خاص بات یہ بھی ہےکہ وہ کبھی کبھی جہنٌم کے دہانےتک پہنچادیتاہے۔
     کہتےہیں کہ ہماراملک ہندوستان گاؤں میں بستاہے۔ہمارا بائی پاس بھی گاؤں سےہوکرگزرتاتھا۔ہم نے سوچا کہ چلوآج اصل ہندوستان کو دیکھتے ہیں۔ ہماری بس تھوڑی دور چلی ہوگی کہ محسوس ہواکہ ہم جہنٌم کے راستےپرسفرکررہےہیں۔ سڑکیں کیاتھیں، محبوب کی الجھی ہوئی خم دار زلفِ گرہ گیرتھیں۔ بس کبھی دائیں کروٹ لینا چاہتی کبھی بائیں کروٹ۔نتیجے میں بس کےاندرسواریوں کی حالت دگرگوں تھی۔ایک بار بس اپنےبائیں پہلو پراس طرح جھکی کہ دوسری طرف کی سواریاں ہمای طرف لڑھک آئیں اور وہ مثل صادق ہوئی کہ۔۔من توشدم تومن شدی من تن شدم توجاں شدی،،بس کےاندر مختلف آوازیں گونجنے لگیں۔ 
              ۔۔ارے!ارے،خدا کی پناہ!بھیاجی،ذرا آہستہ چلاؤ۔مانا کہ یہ کوئی ٹٹوتوہےنھیں،بس ہے۔لیکن بس چلارہےہوکہ راکٹ۔خدارا ذرا عقل سے بھی تھوڑاکام لےلیاکرو۔علامہ اقبال نے یہ تو نھیں کہا تھا کہ ہمیشہ عقل کو بے لگام گھوڑی کی طرح کھولےرکھو۔انھوں نے تودوٹوک لفظوں میں صاف ہی صاف کہاتھا۔! 
            ہرچند سا تھ سا تھ ر ہے پا سبانِ  عقل 
         لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑدے
     پتانھیں اقبال نے پاسبان کوچھوڑنےکےلیےکہاتھایا عقل کو۔؟لیکن آپ ڈرائیور حضرات ہیں کہ دونوں کو گھاس چرنے کےلیےبالکل ہی کھلےچھوڑرکھاہے۔للٌہ ذرا عقل کے ناخن ہی لےلومیاں۔کیوں ننھی منی جانوں کے پیچھے ہاتھ دھوکرپڑگئےہو۔؟اگرآپ لوگوں کو اپنی جان کی پرواہ نھیں ہےتونہ سہی مگرخداکےواسطےدوسروں کی جان ہی کا خیال کرو۔شاید دوسروں کو اپنی جان عزیز ہو۔؟اف،خدایا،توبہ توبہ۔یہ بریک لگارہےہویاآسمان سےدھکٌےدےرہےہو۔؟ﷲ رحم کرے۔توبہ،استغفرﷲ۔ارے باباہم توپہلےہی سنگل پسلی کےہیں۔کیااسےبھی توڑدو گے۔کیوں ہماری ہڈیوں کا سرمہ بنانےپرتلےہو۔؟سرمےہی کاشوق ہےتوہزارپتےہم سےلو۔ہرطرح کےسرمےکانام بھی لکھوالو۔بریلی کےبازارکاجھمکاہی نھیں،وہاں کا سرمہ بھی تو بہت مشہور ہے،، 
          ۔۔اف،آہ،یاﷲتوبہ۔استغفرﷲ۔۔استغفرﷲ۔الہٰی خیر۔۔۔۔خداراخداراکچھ تورحم کھاؤ۔ابھی ہماراارادہ کچھ سال اورجینےکاہے۔ابھی ہم نے بہاریں ہی کتنی دیکھی ہیں۔کل ملاکر صرف باسٹھ سال۔!ابھی تو بہت کچھ دیکھناباقی ہے،، 
       ۔۔ ارےارےبھیاجی!بس کوروک لو۔ہمیں اترناہے۔باقاعدہ اترتولینےدو۔ابھی ایک پاؤں زمین پرسیدھےرکھا نھیں ہے۔دوسراپاؤں بس کےاندر ہی ہےکہ آپ حضرات بس چلادیتےہیں۔بنادیکھےبھالےکہ بس سےکون کامیابی کے ساتھ فاتح بن کراترسکاہےاورکون بس کےنیچےآکر عدم آبادبلاٹکٹ ہی چلاگیا۔مگر کون کہاں جاتاہے،آپ کی بلاسے۔کوئی جئے،کوئی مرے،بھلا آپ کوکیافکر۔!بس میں ایسی بےبسی۔ﷲ کی پناہ۔کسی مسافرکوخبرنھیں کہ آمدہ ساعت فنا کی ہےیابقاکی!،، 
     ۔۔ ارےﷲکےبندے!بس کوپوری طرح روک تولو۔مجھے اترناہےبھائی۔سنگل پسلی کامسافرہوں۔مگران باتوں سے بھلا آپ کوکیاغرض۔؟خیر خیر۔۔۔ خدا آپ لوگوں کو نیکی کی ہدایت اور توفیق عطا فرمائے۔آمین۔۔ثمٌہ آمین۔۔،، 
         بس کےاندرکی افراتفری کایہ سلسلہ قریب ایک گھنٹہ تک جاری رہا۔کئ مسافروں کی پتلون گیلی ہوئی۔ کئی سرایک دوسرےسےباربارٹکرائے۔کئی بارمسافرایک دوسرے کی آغوش میں آئے۔کئی بار ہم مسافرانِ بس ایک دوسرےسےبغلگیرہوئےمگر کسی نےبرانھیں مانا۔جب بس پچ روڈ(پکی سڑک)پرآئی تب مسافروں کی جان میں جان آئی۔*****
                          *انس مسرورانصاری
              قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (انڈیا) 
                            /9453347784/

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...