Powered By Blogger

منگل, اگست 08, 2023

قتل وغارت گری کی گرم بازاری ____✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

قتل وغارت گری کی گرم بازاری ____
Urduduniyanews72 
✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

 ہندوستان میں مودی دور حکومت میں نفرت کی سودا گری کو جس طرح رواج ملا اور مسلمانوں کے خلاف شعلہ بار تقریروں کاجو سلسہ شروع ہوا، اس نے ہندوستان کی فرقہ وارانہ یک جہتی اور گنگا جمنی تہذیب کو اس قدر نقصان پہونچایا کہ صدیوں میں اس کو پاٹنا اور خون کے دھبوں کو دور کرنا ممکن نہیں ہوگا، خون کے یہ دھبے برسات کے پانی سے دھوئے نہیں جا سکتے، اور نفرت کی اس سوزش نے قتل وغارت گری کا جو بازار گرم کیا ہے، اس سے نمٹنا آسان نہیں ہوگا۔
 ابھی چند دنوں قبل ہریانہ کے نوح اور گروگرام میں جو فساد پھوٹا اور گروگرام میں مسجد میں آگ لگا کر اور امام کو مار مار کر جس طرح شہید کیا گیا اس نے ہندوستان کی سیکولر عوام کو اندر سے بلا کر رکھ دیا ہے، اس کے بعد جے پور سے ممبئی جا رہی ٹرین میں چن چن کر قانو ن کے محافظ چیتن سنگھ کے ذریعہ قتل کرناتاریخ کا بد ترین واقعہ ہے، جسے برسوں بھلایا نہیں جا سکے گا۔
اس واقعہ پرگودی میڈیا حسب معمول قسم قسم کی توجیہات کر رہی ہے ، چیتن سنگھ ذہنی طور پر دباؤ میں تھا، اس کی افسر سے جھڑپ ہو گئی تھی وغیرہ وغیرہ، لیکن جو ویڈیو کلپ اس موقع کی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے، اس میں وہ گولی مارتے وقت پاکستان سے آیا ہے، کہہ رہا ہے، پھر وہ تابڑ توڑ مسافروں پر گولیاں نہیں چلا رہا ہے، چن چن کر مسلمانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ کوچ کے دوسرے مسافر نہ تو اسے روک رہے ہیں اور نہ ہی اسے دبوچ رہے ہیں، بلکہ اطمینان سے تماشہ دیکھ رہے ہیں، جیسے انہیں یقین ہو کہ یہ جی آر ایف کا جوان اس کے ساتھ کچھ نہیں کرے گا۔ ایسی بے حسی جب کسی ملک کے شہریوں پر طاری ہوجائے تو اس ملک میں محبت ناپید ہوجاتی ہے اور نفرت کی کھیتی لہلہانے لگتی ہے۔
 گروگرام کے واقعہ میں پولیس کی موجودگی میں دو سو کی بھیڑ مسجد پر حملہ آور ہوتی ہے، امام مسجد حافظ سعد کو پہلے مار مار کر شہید کرتی ہے، پھر پٹرول چھڑک کر مسجد کو آگ لگادیتی ہے، پولیس خاموش تماشائی بنی رہتی ہے، اور پھر موقع سے فرار ہوجاتی ہے، نہ تو مسجد کو بچانے کی کوئی کوشش کرتی ہے اور نہ ہی امام کو بچانے کی، گویا قانون کے محافظ کے ذہن میں بھی نفرت گھس گئی ہے، اور وہ بھی دنگائیوں کے ساتھ ہوجارہے ہیں۔
نوح فساد کا اصل مرکز تھا، جسے بجرنگ دل کے علاقائی لیڈر مونو مانیسر نے ویڈیو کلپ بھیج بھیج کر بھڑکانے کا کا م کیا، مونو مانیسر 15فروری2023کو بھوانی میں جنید وناصر کو گاڑی میں زندہ جلانے کا فراری ملزم ہے، اس کا اصلی نام موہت یادو ہے، بجرنگ دل کا علاقائی لیڈر ہے، سیاسی آقاؤں کے اشارے پر اب تک اس کی گرفتاری نہیں ہو سکی ہے اور وہ کسی خفیہ مقام سے لوگو ں کو فساد کرنے پر اکسارہا ہے، سپریم کورٹ کی واضح ہدایت کے باوجود بجرنگ دل کے لوگ تھانہ کے سامنے مسلمان کرایہ داروں، حجاموں، ریڑھی اور ٹھیلہ والوں کو نکالنے کے نعرے لگا رہے ہیں اور پولیس گیٹ بند کرکے خاموش کھڑی ہے، یو سی سی کے مسئلہ پر ناکامی کے بعد بھاجپا کے پاس اب یہی ’’مدّا‘‘ رہ گیا ہے کہ فساد بھڑکا کر مسلمانوں میں خوف پیدا کرو اور اکثریتی رائے دہندگان کو متحد کر لو، اس کا مطلب ہے کہ یہ صرف ٹرائل ہے پوری فلم آنی ابھی باقی ہے۔
ان حالات میں متحدہ حکمت عملی تیار کرنے اور اس کو نافذ کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ ہم کب تک مسلمانوں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے، قانون کے دائرہ میں رہ کر ہمیں کچھ پالیسی تیار کرنی ہوگی، مسئلہ کا حل یہ نہیں ہے کہ ہم بے گناہ قیدیوںکی رہائی اور ان کے مقدمات لڑ نے پر اپنی توانائی صرف کریں، یہ ایک کام ہے اور اس محاذ پر بھی محنت ہونی چاہیے، لیکن مسئلہ کا حل یہ ہے کہ ہم حکومت کو یہ باور کرائیں کہ
ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
 خون پھر خون ہے بہتا ہے تو رنگ لاتا ہے
یا پھر یہ کہ
جب ظلم گذرتا ہے حد سے قدرت کو جلا ل آجاتا ہے
فرعون کا سر جب اٹھتا ہے موسی کوءی پیدا ہوتاہے

✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہموسم باراں شروع ہو گیا ہے

موسم باراں   ___
Urduduniyanews72
✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
موسم باراں شروع ہو گیا ہے ، سخت اْمَس اور تمازت کے بعد تھوڑی بہت بارش کے ہونے سے جسم وجاں کو سکون ملا ہے، فصلوں کے بہتر ہونے کے امکانات بھی بڑھے ہیں، خشک ندی اور تالاب میں پانی جمع ہونے کی وجہ سے پانی کی قلت دو ر ہوئی ہے، اور چرند وپرند نے بھی راحت کی سانس لی ہے ، گھنگھور گھٹائیں، رم جھم بارش، مرطوب ہوائیں دل میں بھی ایک کیف وسرور پیدا کرتی ہیں اور ہر شئی کو زندگی مل جاتی ہے ، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے۔ وجعلنا من المائ� کل شی حی ہم نے ہر جاندار چیز کو پانی سے بنایا، لیکن یہ پانی جب حد سے بڑھ جائے تو یہ زندگی کے ساتھ موت کا رقص بھی شروع کر دیتا ہے، اس کی کثرت سے کچے مکان گرجاتے ہیں، آب ودانہ اور غذائی اجناس کی قلت ہوجاتی ہے، آمد ورفت کے ذرائع مسدود ہونے کی وجہ سے جانوروں اور چھوٹے بچوں کی غذائی ضرورتوں کے پوری کرنے میں بھی دشواری ہوجاتی ہے ، لوگ یا تو کھلے آسمان کے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہو تے ہیں یا پھر اونچے مکان کی چھت پر پناہ گزیں ہوجاتے ہیں، یہ منظر بڑا درد ناک ہوتا ہے ، موسم باراں کا سارا کیف وسرور کافور ہوجاتا ہے اور آدمی اپنی ضروریات کے لیے دوسروں کی طرف تکتا اور دیکھتا رہتاہے۔
 بد قسمتی سے بہار اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے،  بہار میں نیپال کے ذریعہ چھوڑا ہوا پانی بے قابو ہو جاتا ہے اور کئی اضلاع کو متاثر کرجاتا ہے، نیپال کی پریشانی یہ ہے کہ اس کے یہاں پہاڑ ی ندیاں ہیں، جن میں گہرائی نہیں ہوتی، وہ اْتھلی ہوتی ہیں، ان کے اندر پانی کی لہروں اور روانی کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی ، ڈیم کے ذریعہ روک کر پانی کام میں لایا جاتا ہے اور بہت بڑھ جائے تو گیٹ کھول کر سرحدی اضلاع میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔
 بہار کی حکومت یقین دہانی کراتی ہے کہ امسال سیلاب پر قابو پانے کی کارگر ترکیبیں کی گئی ہیں، لیکن جب بارش ہونے لگتی ہے تو کار گر ترکیبیں حکومتی سطح کی دوسری ترکیبیوں کی طرح ناکام ہوجاتی ہیں، اور عوام کو مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بچاو¿ کی تدابیر اور ضروری سامانوں کی سپلائی کا بڑا حصہ ان سوراخوں کے ذریعہ جواب اس ملک کا مقدر بن گیے ہیں، ضرورت مندوں کے بجائے دوسروں تک پہونچ جاتے ہیں، اور ضرورت مند منہہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔
 امسال ابھی بارش شروع ہی ہوئی ہے متھلانچل کے علاقہ میں بھی سیلاب کی تباہ کاری کے امکانات ہیں، اگر اس کی نوبت آجائ� ے تو امداد وتعاون کے لیے قریب کی ان آبادیوں کو جن کو اللہ رب العزت نے اس پریشانی سے محفوظ رکھا ہے دست تعاون دراز کرنا چاہیے تاکہ فوری طور پر امداد رسانی کا کام ممکن ہو سکے ، ایسے موقع سے بعض تنظیمیں بھی آگے آتی ہیں، خصوصا امارت شرعیہ جس کا امتیاز ایسے موقع پر بڑے پیمانے پر راحت رسانی کا رہا ہے اور اس کے امداد بہم پہونچانے کی ایک روشن تاریخ رہی ہے ، یہ سب اہل خیر کی توجہ سے ہی انجام پاتا ہے ، اس موقع سے امارت شرعیہ کے ضلع اور بلاک کے صدر سکریٹری ، نقیب اور ارکان کے ساتھ عام مسلمانوں کو بھی مستعد رہنا چاہیے، کیوں کہ زمانے کی گردش سڑک پر چلنے کی طرح سیدھی سیدھی نہیں ہوتی، اس کی گردش دائرے کی شکل میں ہوتی ہے، جو لوگ ابھی بچے ہوئے ہیں اور گردش میں وہ دائرے کے اوپر والے حصے میں ہیں، اگر انہوں نے نیچے جانے والے پریشان حال لوگوں کا ہاتھ پکڑے نہیں رکھا تو اگلی گردش میں وہ نیچے ہوں گے اور چونکہ انہوں نے خود اوپر ہونے کے وقت نیچے والے کا ہاتھ نہیں پکڑے رکھا تھا، اس لیے اب جو مصیبت ان پر آئے گی، اس میں ان کا پرسان حال کوئی نہیں ہوگا، اس لیے ایسے موقعوں پر دست تعاون دراز کرنے کا مزاج بنائیے۔تعاون کا اصل اجر تو اللہ ہی کے پاس ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...