Powered By Blogger

ہفتہ, اگست 27, 2022

مفت کی ریوڑی ___مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی

مفت کی ریوڑی ___
مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
urduduniyanews72.
 ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی اصطلاحات کے وضع کرنے، جملے پھینکنے اور رائے دہندگان کو لبھانے کے لیے نت نئی تعبیرات وتدابیر اختیار کرنے میں دنیا کے ممتاز ترین لوگوں میں ہیں، ان کے جملے پھینکنے کی ادا سے لوگ اس قدر مانوس ہو گیے ہیں کہ وہ خوب سمجھتے ہیں کہ مودی جی قول وعمل کے تضاد کے شکار ہیں، اس لیے ان کی باتوں سے لطف اندوز ہونے میں کوئی بُرائی نہیں ہے ۔
 وزیر اعظم نے جو اصطلاح وضع کی ہے ان میں سے ایک مفت کی ریوڑی کی تقسیم بھی ہے ، دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے اپنی ریاست میں بعض خدمات کو عوام کے لیے فری کر دیا ہے ، بجلی، پانی مفت فراہم کرنے کی مقدار متعین کی ، سرکاری اسکولوں کی تعلیم کو معیاری بنانے کے ساتھ بڑی حد تک فیس وغیرہ سے آزا د کر دیا ، یہی نعرہ انہوں نے گجرات میں دیا، پنجاب میں ان کی حکومت میں بہت ساری سہولتیں دی جارہی ہیں، لیکن یہ بات مودی جی کو پسند نہیں ہے ، ان کا خیال ہے کہ رائے دہندگان کو لبھانے کے لیے یہ مفت کی ریوڑی تقسیم کی جا رہی ہے اور اس کلچر کو فروغ دینے سے حکومت کے اوپر غیر معمولی بوجھ پڑے گا۔
 عوام کی سوچ یہ ہے کہ ریاست کو عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اسلام کا اصول تو یہ ہے کہ امرا سے زکوٰۃ کی رقم لے کر غرباء پر خرچ کیا جائے، ہمارے وزیر اعظم کا معاملہ الٹا ہے وہ غریبوں سے لے کراسے امراء تک پہونچاتے ہیں، ان کے قرض معاف کر دیتے ہیں، ارب پتیوں کے دس لاکھ کڑوڑ قرضے معاف کر نے کی بات عوام وخواص کے علم میں ہے ، سرکار نے غذائی اجناس کو بھی جی اس ٹی کے دائرہ میں لا دیا ہے، جس کی وجہ سے عام ہندوستانیوں کو پریشانیوں کا سامنا ہے، ایسے میں ایک محدود مقدار میں مفت ضروری سامانوں کی سپلائی کو مفت کی ریوڑی کہہ کر مذاق نہیں اڑایا جا سکتا ۔
 عوام تک مفت ضروریات زندگی کی فراہمی کی روایت انتہائی قدیم ہے، سرکاری اسکولوں میں مفت تعلیم، سرکاری اسپتالوں میں مفت علاج ، ہر ماہ مفت راشن ، مختلف سرکاروں کے ذریعہ آزادی کے بعد سے ہی فراہم کیا جاتا رہا ہے، کیا ان سب کو مفت کی ریوڑی سے تعبیر کیاجا سکتاہے اور کیاایسا کہہ کر عوام اور ان سرکاروں کی توہین نہیں کی جا رہی ہے، جنہوں نے اس اسکیم کو رائج کیا ۔
 در اصل مودی جی نے اروند کیجرال کے فری اسکیم کا مذا ق اڑا کر ملکی معیشت کی زبوں حالی کا اقرار کیا ہے ۔ اگنی پتھ اسکیم لا کر فوجیوں کے پنشن سے پہلو تہی کرنا اسی زبوں حالی کا لازمی نتیجہ ہے ۔تازہ اطلاع کے مطابق یہ معاملہ سپریم کورٹ پہونچ گیا او رعدالت نے اس معاملہ پر اپنا موقف واضح کرتے ہوئے کہہ دیا کہ وہ انتخابی وعدوں پر پابندی نہیں لگا سکتی، اس سے کیجریوال کو تھوڑی راحت ضرور ملی ہے، لیکن اس سے سیاسی پارٹیوں کے جھوٹے وعدے کرنے کا ایک مقابلاتی دوڑ شروع ہو گیا ہے، جو پہلے بھی کم نہیں تھا۔

اسلام میں یتیم بے سہارا نہیں ہے ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ

اسلام میں یتیم بے سہارا نہیں ہے 
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
رابطہ، 9973722710
اردو دنیا نیوز٧٢
میرےجواں سال پڑوسی جناب حافظ رہبر صاحب مظاہری اس دنیا میں نہیں رہے،موصوف نہایت شریف اور سادہ انسان تھے،بنگلہ مسجد گیاری میں امامت اوربچوں کو قرآن پڑھانا مشغولیت رہی،زندگی بڑی عسرت بھری ملی، میرے بچوں کے بھی مرحوم استاد رہے،عمر بہت ہی مختصر ملی،تقریبا سال بھر بیماررہےاورجوانی میں ہی سفر آخرت پر روانہ ہوگئے، انتقال کے دوسرے دن ہی مرحوم کےگھر دوسرے بیٹے کی ولادت ہوئی ہے,یہ واقعی اس بچہ کے لئے بھی تکلیف دہ گھڑی ہے کہ وہ یتیم پیدا ہوا ہے،لوگ یہ کہ رہے ہیں کہ حافظ جی کے دونوں بچے بے سہارا ہوگئے ہیں۔
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے پہلے ہی آپ کے والد وفات پاچکے تھے، قرآن کریم کی سورت "الضحى" میں آپ صلی علیہ وسلم کی  یتیمی کو موضوع سخن بنایا گیا ہے، اور رب کریم نےبطور احسان یہ بتلایا ہے کہ ہم نے آپ کو اس یتیمی سےنکالا ہے،سیرت کی کتابوں میں یہ لکھا ہوا ہے کہ چھ سال کی عمر میں آپ کی والدہ کا انتقال ہوجاتا ہےتودادا کی کفالت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مل جاتی ہے،پھر آٹھ سال کی عمر میں دادا کی وفات ہوتی ہے تو شفیق چچا خواجہ ابوطالب کی بے پناہ شفقت نصیب ہوجاتی ہے، یہ سلسلہ وار سرپرستی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہی ہے قرآن کی زبان میں خاص فضل الہی اور انعام خداوندی ہے ،بظاہر ایک انسان بے یار ومددگار نظر آتا ہے، مگر خدا کا فضل جب اس کے ساتھ ہوتا ہے تو وہ دنیا وآخرت کی کامیابیوں سے ہمکنار ہوجاتا ہے،چنانچہ سورة الضحى میں کہا گیا ہے، اے محمد! لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ تیرے رب نے تجھے چھوڑ دیا ہے اور تو بے سہارا ہوگیا ہے، یہ بات درست نہیں ہے، یتیمی کی حالت میں بھی تیرے رب نے سہارا دیا ہے اور مضبوط ٹھکانہ نصیب کیا ہے، آپ یتیمی کے درد کو خوب محسوس کرتے ہیں ،یہ خاص مشن آپ کا ہوناچاہئے،یتیم کےساتھ دلداری اور دلجوئی کا معاملہ کیجئے،سختی نہ کیجئے، جیسا ہم نے آپ کے ساتھ کیا ہے وہی آپ یتیموں کے ساتھ کیجئے۔ 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیموں کی کفالت فرمائی ہے، اور یہ ارشاد فرمایا ہے: یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں میرے ساتھ ہوگا، (بخاری )
آپ صلی علیہ وسلم نےیتیم کےسرپرپراپناپیارا ہاتھ رکھا ہے،یہ حکم بھی فرمایا ہے کہ یتیم کے سر پر ہاتھ رکھو، اس عمل سے تمہارے دلوں میں نرمی پیدا ہوتی ہے،( رواہ احمد)
حدیث شریف میں بہترین گھروہ ہےجسمیں یتیم کے ساتھ حسن سلوک ہوتا ہے،جہاں یتیم کے ساتھ بدسلوکی ہوتی ہےاسے بدترین گھر قرار دیا ہے(ابن ماجہ )
قرآن وحدیث کا مطالعہ یہ کہتا ہے کہ مذہب اسلام میں ایک یتیم بے سہارا نہیں ہے،آج ہر آدمی یتیم کے تعلق سے یہی کہتا ہے کہ وہ بے سہارا ہے،بے سہارا کو سہارا چاہئے ،اس کی فکر دامنگیر نہیں ہوتی ہے۔گزشتہ دو تین سالوں سے جوانوں کی بکثرت اموات دیکھنے میں آئی ہیں، شکم مادر میں بچہ چھوڑ کر جوان فوت ہورہا ہے، مال واسباب اکٹھا کرنے کا اسے موقع نہیں مل سکا ہے ،ہر گاؤں اور ہرعلاقے میں یتیم ہیں جو نادار ہیں، انہیں مسلم سماج کی نصرت واعانت کی سخت ضرورت ہے مگر دانشوروں کی نظرکبھی ادھر نہیں جاتی ہے۔ڈھیر ساری مسلم  تنظیمیں ہیں اور تحریکیں ہیں ،مگر انکے پاس  یتیموں کو سہارا دینے کے لئے خاکہ ہے اور نہ کوئی پروگرام ہے، آج اس عنوان پر بیداری پیدا کرنے کی سخت ضرورت ہے۔

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
رابطہ، 9973722710

شہادتِ راہ خدا سے بھی قرض معاف نہیں ہوتاشمشیر عالم مظاہری دربھنگوی

شہادتِ راہ خدا سے بھی قرض معاف نہیں ہوتا
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار 
اردو دنیا نیوز٧٢
 رسول اللّٰہ ﷺ نے ایک طرف تو اصحابِ وسعت کو ترغیب دی کہ وہ ضرورت مند بھائیوں کو قرض دیں اور اس کی ادائیگی کے لئے مقروض کو مہلت دیں کہ جب سہولت ہو ادا کرے اور نادار مفلس ہو تو قرضہ کاکل یا جز معاف کر دیں اور اس کا بڑا اجر وثواب بیان فرمایا اور دوسری طرف قرض لینے والوں کو آگاہی دی کہ وہ جلد سے جلد قرض ادا کرنے اور اس کے بوجھ سے سبکدوش ہونے کی فکر اور کوشش کریں اگر خدانخواستہ قرض ادا کئے بغیر اس دنیا سے چلے گئے تو آخرت میں اس کا انجام ان کے حق میں بہت برا ہوگا کبھی کبھی آپ ﷺ نے اس کو سنگین ترین اور نا قابلِ معافی گناہ بتلایا اور کبھی ایسا بھی ہوا کہ کسی میت کے متعلق آپ ﷺ کو معلوم ہوا کہ اس پر کسی کا قرضہ ہے جس کو اس نے ادا نہیں کیا ہے تو آپ ﷺ نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھنے سے انکار فرمادیا ظاہر ہے کہ یہ آپ ﷺ کی طرف سے آخری درجہ کی تنبیہ تھی
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ کے پاس جب نمازِ جنازہ کے لئے ایسا میت لایا جاتا جو مقروض تھا تو آپ ﷺ دریافت فرماتے کہ کیا اس نے اپنا قرض ادا کرنے کے لئے مال چھوڑا ہے اگر بتایا جاتا کہ اس نے اتنا مال چھوڑا ہے کہ قرض ادا کرنے کے لئے کافی ہے تو اس پر نمازِ جنازہ پڑھتے ورنہ آپ صحابہ کرام سے فرما دیتے کہ اس پر تم نماز پڑھ دو (صحیح مسلم)
حالانکہ ان لوگوں کا قرض بھی کچھ حد سے زیادہ نہ ہوتا تھا اور وہ ضرورت ہی میں قرض لیتے تھے پھر بھی آپ ﷺ اس قدر سختی فرماتے۔ آج فضول رسموں اور بے جا خرچوں کے واسطے لوگ بڑے بڑے قرضے لیتے ہیں اور مر جاتے ہیں اور وارث بھی کچھ فکر نہیں کرتے
صحیح حدیث میں ارشاد ہے کہ مومن کا جب تک قرض ادا نہ کر دیا جائے اس کی روح کو (ثواب یا جنت میں داخلہ سے)روکا جاتا ہے ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللّٰہ ﷺ میرے بھائی کا انتقال ہوگیا اور چھوٹے بچے چھوڑ گیا ہے کیا میں ان پر مال خرچ کروں؟ اور قرض ادا نہ کروں آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارا بھائی قرض کی وجہ سے مقید ہے قرض ادا کرو (مفید الوارثین بحوالہ مشکوۃ شریف)
 حضرت سلمۃ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول اللّٰہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ایک میت کا جنازہ لایا گیا اور عرض کیا گیا کہ حضرت اس کی نمازِ جنازہ پڑھا دیجئیے آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ اس آدمی پر کچھ قرض ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ کچھ قرض نہیں ہے تو آپ ﷺ نے اس جنازہ کی نماز پڑھا دی۔ پھر ایک دوسرا جنازہ لایا گیا اس کے بارے میں آپ ﷺ نے پوچھا کہ اس میت پر کسی کا قرضہ ہے؟ عرض کیا گیا کہ ہاں اس پر قرض ہے تو آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کیا اس نے کچھ ترکہ چھوڑا ہے جس سے قرض ادا ہوجائے لوگوں نے عرض کیا کہ اس نے تین دینار چھوڑے ہیں تو آپ ﷺ نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھا دی۔ پھر تیسرا جنازہ لایا گیا تو آپ ﷺ نے اس کے بارے میں بھی دریافت فرمایا کہ اس مرنے والے پر کچھ قرضہ ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ہاں اس پر تین دینار کا قرضہ ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس نے کچھ ترکہ چھوڑا ہے جس سے قرض ادا ہو سکے لوگوں نے عرض کیا کہ کچھ نہیں چھوڑا ہے تو آپ ﷺ نے حاضرین صحابہ سے فرمایا کہ اپنے ساتھی کی نمازِ جنازہ تم لوگ پڑھ لو تو ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ حضور اس کی نماز پڑھا دیں اور اس پر جو قرضہ ہے وہ میں نے اپنے ذمّہ لے لیا میں ادا کروں گا تو اس کے بعد آپ ﷺ نے اس جنازے کی بھی نماز پڑھا دی (صحیح بخاری)
  صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مجمع میں اللہ کے رسول ﷺ  نے کھڑے ہو کر ایک خطبہ پڑھا جس میں فرمایا کہ راہ خدا کا جہاد اور اللہ پر ایمان لانا تمام اعمال سے بہتر و افضل ہے یہ سن کر ایک صحابی کھڑے ہوگئے اور دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ اگر میں خدا کے لئے جہاد میں قتل کردیاجاؤں تو کیا میرے تمام گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا؟ آپ نے فرمایا ہاں بیشک اگر تو راہ خدا کے جہاد میں مار ڈالا گیا اور تھا تو صبر کرنے والا ثوابِ آخرت کی جستجو کرنے والا آگے بڑھنے والا نہ کہ پیچھے ہٹنے والا تو بلا شک و شبہ تیرے سارے گناہ معاف ہو جائیں گے پھر آپ نے اس سے دوبارہ پوچھا کہ تم نے کیا سوال کیا تھا؟ تو اس نے اپنا سوال پھر دہرایا تو آپ نے پھر اپنا جواب بھی دہرایا لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ قرض معاف نہیں ہوگا ( ابھی ابھی)  جبرئیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھ پر یہ وحی خداوندی نازل کرگئے (مسلم)
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللّٰہ ﷺ  نے ہمیں ایک مرتبہ خطبہ سنایا جس میں فرمانے لگے یہاں فلاں قبیلے کا کوئی شخص ہے؟ کسی نے جواب نہ دیا پھر دریافت فرمایا پھر سب خاموش رہے تیسری مرتبہ سوال کیا یہاں فلاں قبیلے میں سے کوئی شخص ہے؟  ایک صاحب بولے کہ یارسول اللہ میں موجود ہوں آپ نے فرمایا پھر دو بار تم نے کیوں جواب نہیں دیا؟  میں کوئی بری بات تمہیں پہنچانے والا نہ تھا سنو! تم میں سے فلاں  صاحب جن کے ذمّے کچھ قرض تھا اور وہ انتقال کر گئے تھے میں نے انہیں دیکھا کہ جنت کے دروازے پر روک دیئے گئے ہیں اب اگر تم چاہو تو وہ رقم ادا کرکے  اپنے والے کو چھڑالو اور اگر چاہو تو یونہی قیدی رہنے دو یہ سن کر ایک صحابی نے کہا یا رسول اللہ اس کا قرض میرے ذمّے اور اسی وقت ادا کر دیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اب میں دیکھ رہا ہوں کہ تمام طالب حق اس کے پاس سے ہٹ گئے سب کو ان کا حق مل گیا اب کوئی باقی نہیں رہا جو اس سے اپنے حق کا مطالبہ کرتا ہو
آج ہم اپنا جائزہ لیں اور ایمان سے بتلائیں ہم سے کوئی ہے جو کسی ادنیٰ درجے کے صحابی کی نیکیوں کا مقابلہ کر سکیں لیکن تاہم کچھ قرضہ جو باقی رہ گیا تھا اس کی وجہ سے وہ پکڑ لئے گئے آج ہم جو ہزاروں کے حقوق مارے بیٹھے ہیں بے فکر کیوں ہیں کیا ہم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہمارے یہ روزے نماز کافی ہیں ہماری توحید وسنت کا دعویٰ سب کچھ ہے اللہ سے ڈریں اور خیال کریں کہ ان پاکباز صحابہ پر بھی جنت کے دروازے بند ہوگئے یہ قیدکر لئے گئے اس بنا پر کہ کسی کے دو چار درہم کا قرضہ انکے ذمے رہ گیا تھا پھر ہمارا کیا حال ہوگا کہ کسی کا ورثہ دبا بیٹھے ہیں کسی تیم کا مال کھا گئے ہیں کسی کی زمین پر قبضہ کر لیا ہے کسی کا مال لے کر مکر گئے ہیں  امانت لے کر انکار کر دیا ہے قرض لے کر ادا نہیں کیا اٹھیں حق داروں کا حق اس سے پہلے ادا کردیں کہ آنکھیں بند ہوں اور یہ دنیا چھوٹ جائے

اسلام ایک فطری اور عقلی دین

اسلام ایک فطری اور عقلی دین ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
 جناب احمد علی اختر صاحب کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے ، جنہوں نے اپنی زندگی جماعت اسلامی کے ہدف، مقصد اور منصوبوں کو بہار کی زمین پر اتارنے میں لگا دیا، وہ سابق امیر جماعت اسلامی بہاربھی رہے اور اپنی تحریکی جد وجہد اور مسلمانوں میں دینی غیرت وحمیت ، ایمانی حرارت پیدا کرنے کے لیے اپنے رفقاء کے ساتھ مل کر جو خدمات انجام دیں وہ تاریخ کا روشن باب ہے، بہار میں جماعت اسلامی کی خدمات کا جب ذکر آئے گا تو جناب احمد علی اختر صاحب کو فراموش نہیں کیا جا سکتا، وہ مزاجا بھی نرم دل واقع ہوئے ہیں اور دوسری تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا جذبہ رکھتے رہے ہیں، خود امارت شرعیہ نے جب کسی موضوع پر انہیں آواز دیا تو وہ امارت شرعیہ تشریف لاتے رہے ہیں۔ امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ؒ سے وہ بہت قریب تھے، تنظیمی معاملات ومسائل میں دونوں میں خاصی ہم آہنگی تھی، جس کا مشاہدہ احقر (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی) نے بار بار کیا ہے ، اب یہ کام الحمد للہ مولانا رضوان احمد اصلاحی صاحب کر رہے ہیں اور ان کی سادگی ، گفتگو کا سلیقہ تواضع اور انکساری بھی اس دور میں خوش گوار حیرت میں ڈالا کرتی ہے۔
 ’’اسلام ایک فطری اور عقلی دین‘‘ جناب احمد علی اختر صاحب کی چھیانوے صفحات پر مشتمل ایک کتاب ہے جو بقامت کثیر اور بقیمت بہتر کی صحیح مصداق ہے ، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی سے اس رسالہ کی اشاعت ہوئی، طباعت ، کاغذ، سیٹنگ، ٹائٹل کی خوبصورتی اور دیدہ زیبی، مرکزی مکتبہ اسلامی کی طباعت کا طرۂ امتیاز رہا ہے جو اس کتاب میں بھی پورے طور پر جلوہ فگن ہے، قاری کو مطالعہ پر آمادہ کرنے میں ان چیزوں کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے ، جو کتاب طباعت کے اعتبار سے دیدہ زیب نہیں ہوتی انہیں ہاتھ لگاتے ہوئے قاری گھبراتا ہے ۔
 کتاب کا موضوع اسلام ہے، جو فطری بھی ہے اور عقلی بھی، اس کتاب میں اسی چیز کو سادہ، آسان زبان اور شستہ لب ولہجہ میں دلائل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ، انداز بیان اور دلائل کے پیش کرنے کے سلیقے کی وجہ سے یہ کتاب ’’ازدل خیزد بر دل ریز‘‘ کی صحیح مصداق بن گئی ہے ۔
 جناب احمد علی اختر صاحب نے اس کتاب کو جن لوگوں کے لیے لکھا ہے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’یہ مضمون میں نے ان لوگوں کے لیے لکھا ہے جو اسلام کے نظریۂ زندگی اور فلسفۂ حیات کا کوئی واضح تصور نہیں رکھتے، مبہم مبہم اور دھندھلا دھندلا ایک تصور ان کے ذہن میں ہے کہ اسلام میرا مذہب ہے ، وہ سمجھتے ہیں کہ آباؤ واجداد سے ملی ہوئی یہ قیمتی وراثت میرے پاس اجداد کی امانت ہے، اسے سنبھال کر رکھنا ہے ۔‘‘
 مولانا کے سامنے ایک دوسرا طبقہ بھی ہے اور وہ ہے مغربی تہذیب سے متاثر اور مرعوب طبقہ، جن کی آنکھیں سائنسی ترقیات سے اس قدر چکا چوند ہو گئی ہیں کہ انہیں اس سے آگے کچھ نظر ہی نہیں آتا ہے، وہ اسلام کو قدامت پسند سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ بدلے ہوئے حالات اور تغیر پذیر زمانہ میں اسلام کی اہمیت کم ہو گئی ہے ، اس احساس وخیالات کی وجہ سے وہ ایک قسم کی احساس کمتری میں مبتلا ہو گیے ہیں اور اسلام کو عقلیت سے دور ایک مذہب تصور کرتے ہیں، حالاں کہ اسلام میں عقل ونقل دونوں کی اہمیت ہے ، اسی لیے ہم روایت کے ساتھ درایت کا بھی خیال رکھتے ہیں، علماء اسلام نے اسلام عقل ونقل کی روشنی میں مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں اور احکام خدا وندی کے اسرار ورموز کی طرف عقلی طور پر ہماری رہنمائی کی ہے ، امام غزالی کی احیاء العلوم ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی حجۃ اللہ البالغہ، حضرت مولانااشرف علی تھانوی ؒ کی المصالح العقلیہ جس کا جدید ایڈیشن اسلام عقل کی روشنی میں آیا ہے مشہور ومعروف ہیں۔
 جناب احمد علی اختر صاحب کی یہ کتاب اسی سلسلۃ الذہب کی ایک کڑی ہے، جس میں انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ اسلام دین فطرت ہے، جس کی وجہ سے اس پر عمل آسان ہے اور پھر جو احکام بھی دیے گیے ہیں ان کی عقلی توجیہہ بھی ہے جو قرآن وحدیث میں غور وفکر کرنے سے اہل علم پر واضح ہوجاتی ہے ، البتہ انسانی عقل کے مختلف مدارج ہیں اور ان احکامات کو سمجھنے کے لیے ایک خاص قسم کی استعداد وصلاحیت کی ضرورت ہے، ہر آدمی سے یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ احکام اسلام کی عقلی توجیہہ تک پہونچ جائے، اسی لیے قرآن کریم میں بار بار تدبر اور تفکر پر زور دیا گیا ہے ، تاکہ اس کی تہہ تک انسانوں کی رسائی ہو سکے ، اس کتاب کے بارے میں مولانا سید جلال الدین عمری صدر شریعۃ کونسل جماعت اسلامی ہند نے بجا لکھا ہے کہ ’’ اس (کتاب) میں اسلام کا وسیع اور جامع تعارف ہے ، اس کی تعلیمات کے احاطہ کی کوشش کی گئی ہے اور اس کے حق میں دلائل فراہم کیے گیے ہیں ، اس سے اسلام کی حقانیت اور صداقت واضح ہوتی ہے ، انداز دعوتی اور تاثراتی ہے ۔
مولانا جلال الدین عمری صاحب نے جناب احمد علی اختر صاحب کی تحریری صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ان کے اندر عمدہ تحریری صلاحیت بھی ہے ، لیکن ان کی اس طرف توجہ کم رہی ہے ، انہوں نے جو کچھ لکھا ہے ، اس سے ان کا دینی وادبی ذوق نمایاں ہے ، ان کی تحریروں میں بڑی شگفتگی اور ادبی چاشنی پائی جاتی ہے ‘‘۔
 پیش لفظ اور تعارف کوچھوڑ کر بیالیس (۴۲)عنوانات کے تحت اسلام کے فطری اور عقلی ہونے پر روشنی ڈالی ہے ، جس کے ذیل میں اسلام کے بنیادی عقائد ، قرآن ہدایت کی آخری کتاب ، زندگی پر عقیدۂ توحید کے اثرات، ڈارون کا نظریۂ ارتقائ، انسان کی تخلیق کے سلسلے میں قرآن کا نظریۂ اسلام کے تعزیراتی قوانین جسے اہم مضامین کتاب میں ایک خاص ترتیب سے زیر بحث آئے ہیں، اسلام کی فطری اور عقلی بنیادوں کو عصر حاضر میں جدید معروضی اور منطقی اسلوب میں سمجھنے کے لیے یہ کتاب انتہائی مفید ہے اور اس لائق ہے کہ ہر گھر میں اس کو پڑھا جائے، رکھا جائے، تاکہ نئی نسل دین بیزار نہ بنے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...