Powered By Blogger

اتوار, دسمبر 26, 2021

الوداع بپن راوتمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

الوداع بپن راوت
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 تینوں مسلح افواج کے سر براہ (C.D.S)بپن راوت ۸؍ دسمبر ۲۰۲۱ء کو بارہ بج کر بیس منٹ پر نیل گیری کے جنگل میں ہیلی کاپٹر حادثہ میں جاں بحق ہو گیے، ان کے ساتھ ان کی اہلیہ مدھو لیکا راوت اور بارہ جاں باز فوجی افسران نے بھی وجود سے عدم کی راہ اختیار کرلی، پورا ملک سوگوار ہے، اگلے دن بپن راوت اور ان کی اہلیہ کو ستر توپوں کی سلامی کے بعدایک ہی چتا پر ان کی بیٹیوں نے منہہ میں آگ دے کر آخری رسم ادا کی ، یوں بھی جلنے کے لیے بچا ہی کیا تھا۔
ہندوستان کی تاریخ میں یہ کوئی پہلا فضائی حادثہ نہیں ہے، ۱۹۸۰ء میں اس وقت کے وزیر اعظم اندرا گاندھی کے صاحب زادہ سنجے گاندھی، ۲۰۰۱ء میں سابق مرکزی وزیر مادھوراؤ سندھیا، ۲۰۰۲ء میں پارلیامنٹ کے صدر نشیں (اسپیکر)جی ایم سی بالیوگی، ۲۰۰۴ء میں میگھالیہ کے کابینی وزیر سی سنگما، ۲۰۰۵ء میں ہریانہ کے وزیر توانائی اوپی جندل، اور ۲۰۰۹ء میں آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ بھی فضائی حادثہ میں موت کی نیند سو چکے ہیں، ان سارے حادثات میں موسم کی خرابی کا بڑا دخل تھا، اس کے قبل ۲۲؍ نومبر ۱۹۶۳ء کو پونچھ میں ہونے والا ہیلی کاپٹر حادثہ سب سے بڑا فوجی حادثہ مانا جاتا رہاہے، جس میں فوج کے چھ بڑے افسران نے اپنی جان گنوائی تھی، اس کے قبل ۱۹۴۲ء میں بھی ایک فضائی حادثے میں لفٹنٹ جنرل اس ام ناگیش اور میجر جنرل کے ایس تِمیا کو بھی اپنی جان گنوانی پڑی تھی۔
لیکن تمل ناڈو کے کنور میں حادثہ کے شکار ایم آئی ۱۷؍ وی-۵، ہیلی کاپٹر کا معاملہ ان سب حادثات سے الگ اس لیے ہے کہ یہ فضائیہ کا سب سے محفوظ ہیلی کاپٹر تھا، یہ خراب موسم میں پرواز اور ہیلی پیڈ کے بغیر بھی زمین پر اتارا جا سکتا تھا، یہ روسی ساخت کا ناقابل تسخیر ہیلی کاپٹر تھا، اتنے محفوظ سفر میں حادثہ کا پیش آجانا اور فوجیوں کا اس طرح جل جانا کہ اس کی شناخت ڈی این اے کے ذریعہ ہو، یہ بتاتا ہے کہ اگر شیشہ پلائی ہوئی دیوار میں بھی کوئی ہوگا تو موت اسے آلے گی اور سکنڈوں کی تاخیر اس میںنہیں ہوگی، جنرل بپن راوت ان کی اہلیہ اور ان کے رفقاء کی موت کا وقت اور جگہ متعین تھا، چنانچہ متعینہ وقت اور جگہ پر ملک الموت نے اپنا کام مکمل کر دیا اور ہندوستان ،فضائیہ کے کئی جاں بازوں سے محرو ہوگیا۔
 جنرل بپن راوت کو وزیر اعظم نریندر مودی نے دو سینئر افسران کو نظر انداز کرکے بری فوج کا سربراہ بنایا تھا، نظر انداز کیے جانے والے افسر میں ایک مسلمان بھی تھا، ملازمت سے سبکدوش ہونے کے قبل مرکزی حکومت نے ایک عہدہ ’’سی ڈی اس‘‘ کا وضع کیااور سبکدوشی کے بعد یکم جنوری ۲۰۲۰ء کو انہیں اس عہدے پر مامور کرکے تینوں بری، بحری اور فضائی افواج کا مشترکہ سربراہ بنا دیاگیا۔حالانکہ رسمی طو پر ہی سہی صدر جمہوریہ تینوں فوج کا سربراہ ہوتا ہے جو’’ سول‘‘ سے ہوتا ہے، اس کی وجہ سے فوج کی بغاوت اور مارشل لا کے لگانے کے امکانات ختم ہوجاتے ہیں، جیسا پڑوسی ملک میں بار بار ہوتا رہا ہے۔بپن راوت کے گذر جانے کے بعد نئے سربراہ کی تلاش جاری ہے۔

بڑی خبر۔کرناٹک میں رات کا کرفیو ۔ نئے سال کی پارٹیوں پرپابندی

بڑی خبر۔کرناٹک میں رات کا کرفیو ۔ نئے سال کی پارٹیوں پرپابندیبنگالورو: ملک میں اومیکرون کے کیسس کے بڑھتے ہوئے کیسس کے پیش نظرکئی ریاستوں میں پابندیاں اوررات کا کرفیو نافذ کیا جارہا ہے۔ اترپردیش، مدھیہ پردیش میں رات کے کرفیوکا اعلان کردیا گیا ہے تازہ طورپراب اس فہرست میں ریاست کرناٹک بھی شامل ہوچکا ہے۔ کرناٹک میں 28 ڈسمبرسے دس دنوں تک رات کا کرفیوعائد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں آج احکامات جاری کردئیے گئے۔ کرفیو کے اوقات رات دس بجے سے صبح پانچ بجے تک رہیں گے۔ اسی طرح حکومت نے سال نو کی پارٹیوں اورہجوم کے جمع ہونے پرپابندی لگادی ہے۔

کہیں ہم دوسروں کو یہی سب کچھ تو نہیں دے رہے ہیں؟ کامران غنی صبا

کہیں ہم دوسروں کو یہی سب کچھ تو نہیں دے رہے ہیں؟ 
کامران غنی صبا 

یہ بالکل فطری اصول ہے کہ ہم دوسروں کو وہی چیز دیتے ہیں جو ہماری فطرت سے ہم آہنگ ہو. چنانچہ جس کی طبیعت میں فیاضی ہوگی آپ دیکھیں گے کہ وہ غربت میں بھی فیاض ہوگا اور جس کی طبیعت میں بخالت ہوگی وہ دولت مند ہو کر بھی اپنی مٹھی کھولنے کو آمادہ نہیں ہوگا. جس کی طبیعت میں محبت ہوگی وہ نفرت تقسیم نہیں کر سکتا اور جس کی طبیعت میں نفرت ہو اس سے محبت کی توقع فضول ہے. پھر یہ بھی خوب اچھی طرح یاد رکھیے کہ فطرت کے اس اصول میں بھی عمل اور ردعمل ہے. یعنی ہم جو دوسروں کو دیتے ہیں وہی حاصل بھی کرتے ہیں. یعنی محبت تقسیم کرنے والوں کو محبت ملتی ہے، آسانیاں تقسیم کرنے والوں کو آسانیاں. نفرت کرنے والوں کو نفرت اور عداوت کرنے والوں کو بدلے میں عداوت ہی ملتی ہے. جو لوگ ہر وقت دوسروں کا گلہ شکوہ کرتے ہیں، کئی جگہ ان کے بھی گلے شکوے ہو رہے ہوتے ہیں. اسی طرح منفی تنقید کرنے والوں کی بھی تنقید ہی ہوتی ہے.
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا ہر عمل ردعمل کا بیج ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس بیج کو خلوص کی مٹی میں بویا جائے. بعض دفعہ ہمارا عمل مصنوعی بھی ہوتا ہے. ہم دوسروں کی تعریف اس لیے کرتے ہیں کہ ہماری بھی تعریف کی جائے، ہم انہیں لوگوں کے کام آتے جن سے ہمیں توقع ہو کہ وہ بھی ہمارے کام آئیں گے. ہم دوسروں سے معاملات اس کی حیثیت کے مطابق کرتے ہیں. یاد رکھیے ہم خود کو تو فریب میں مبتلا کر سکتے ہیں، فطرت کو نہیں. مصنوعی عمل آخر کار وہی نتیجہ دیتا ہے جس نتیجے سے بچنے کے لیے ہم تصنع کا سہارا لیتے ہیں.
بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگ اپنی تعریف سننے کے لیے کچھ اچھے کام کرتے ہیں لیکن انہیں اپنی توقعات کے مطابق تعریف نہیں مل پاتی. آخر کار وہ اپنی پیٹھ خود ہی تھپتھپانے پر مجبور ہوتے ہیں. موقع بے موقع اپنی کارکردگیوں کو خود ہی بیان کرتے ہیں. اس طرح شخصیت بری طرح مجروح ہوتی ہے. اصل تعریف تو یہ ہے کہ لوگ ہمارے غائبانے میں ہمیں اچھے نام سے یاد کرنے پر مجبور ہوں. ایک استاد کی اصل تعریف یہ ہے کہ اس کے طلبہ سکوت نیم شب میں اس کے لیے دعا مانگنے پر مجبور ہوں.
قصہ مختصر یہ کہ ہم اپنے اعمال کے اخروی نتائج پر یقین رکھیں یا نہ رکھیں. دنیا میں بھی ہمیں وہی کچھ ملتا ہے جو ہم دوسروں کو دیتے ہیں. اس اصول کی روشنی میں ہم اپنا محاسبہ کر سکتے ہیں کہ ہمیں دوسروں سے کیا مل رہا ہے. اگر ہمیں دوسروں سے صرف شکایتیں، مایوسیاں اور محرومیاں مل رہی ہیں تو ہمیں غور کرنا چاہیے کہ کہیں ہم بھی دوسروں کو یہی سب کچھ تو نہیں دے رہے ہیں.......؟

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...