Powered By Blogger

جمعرات, دسمبر 09, 2021

جمعیۃ علماء نندی پیٹ کے زیر اہتمام مسلم منڈل کمیونٹی کا قیام

جمعیۃ علماء نندی پیٹ کے زیر اہتمام مسلم منڈل کمیونٹی کا قیام

ملک کے بدلتے حالات دن بہ دن مسلمان لڑکیوں کے ارتداد اور غیرمسلموں سے عشق ومعاشقہ کے واقعات کے پیش نظر جمعیۃ علماء منڈل نندی پیٹ کے صدرحافظ عبدالرشید صاحب ودیگر ذمہ داران مفتی فیاض مولانافیروز حافظ مبین اور حافظ عمران نے سرجوڑ کر ان حالات پر اپنی گہری تشویش کا اظہارکیا اور عملی طورپر اس حوالہ سے کام کا آغاز کرتے ہوے اپنے منڈل اور اس کے تحت آنے والے تمام ہی قریہ جات ودیہاتوں کے دینی مذہبی فلاحی ورفاہی کاموں نیز اصلاح معاشرہ کے حوالہ سے فکر کرتے ہوے مسلم منڈل کمیٹی کی بنیاد ڈالی جس کے تحت ان شاء اللہ مساجد میں طلباء وطالبات کے لےء صباحی مسای مکاتب کاکام کیا جاے گا اسی طرح ہر پندری دن میں خواتین کا اجتماع منعقد کرکے دین اسلام اور اس کے احکامات سے واقف کرایا جاے گا نیز اسی کمیونٹی کے جملہ 11افراد مل کر مسلمان لڑکیوں کی بے راہ روی کو روکنے اور تعلیم نسواں سنٹرس قائم کرنے کا عزم کیا ہے

مزید مسلمان لڑکیوں کو ہنر مند بنانے کےلےء کارچوب مہندی ڈیزائن اور سلای سنٹرس کا قیام بھی عمل میں لایا جاے
آج یہاں جمع ہوے منڈل کے سماجی کارکنان مختلف تنظیموں سے تعلق رکھنے والے نوجوان اور بیس دیہاتوں کے ائمہ کرام ومساجد کے صدور نے جمع ہوکر ا س بات کا اعلان کیا کہ جو بھی ہماری قوم کا مسئلہ ہوگا اس کو پولیس اسٹیشن یا کورٹ اور عدالتوں کے بجاے اس کمیٹی کے سامنےپیش کریں ان شاء ہر ممکنہ حد تک جلد سے جلد اس کا حل نکالاجاے گا

الحمد للہ اس مشاورتی اجلاس کی صدارت مولاناسید سمیع اللہ صاحب صدرجمعیۃ علماء نے فرمای مولانااسماعیل عارفی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوءے کہا کہ باہمی مشاورت سے ہی ہمارے مسائل حل ہوسکتے ہیں اس لےء اس کمیٹی کا تعاون کریں جناب محمد افضل الدین آرگنائزر سکریٹری نے کہا کہ موجودہ حالات کو دیکھ کر ہمیں مستقبل میں دشمنان اسلام کی جانب سے ہونے والے حالات کا اندازہ کرکے ابھی سے سد باب کرنا بہت ضروری ہے سید محمد زکریا صاحب نے کہا کہ صرف نندی پیٹ ہی نہیں ضلع نظام آباد کے کئ مواضعات میں اس طرح مسلمان بچیوں کی بے راہ روی کے واقعات رونما ہوچکے ہیں ہم اس سلسلہ میں مستقل علماء کرام کی نگرانی میں کام کررہےہیں ان حالات میں ضروری ہیکہ پورے اتحاد واتفاق اور باہمی تعاون کے ذریعہ اس ارتدادی فتنہ کی سرکوبی کی جاے مولانا عبدالقیوم شاکر القاسمی نےکہا کہ اسلام ایک بہترین مذہب ہے اس کی تعلیمات باالکل صاف ستھری ہیں ہماری ذمہ داری ہیکہ ہم اپنوں اور برادران وطن تک اس کی تعلیمات کو عام کریں دین کے ابتدای بنیادی باتوں سے ہر مسلمان بچہ اور بچی کو واقف کرانا بیت ضروری ہے اس سوسائٹی کے قیام سے ان شاء اللہ بہت کام ہوگا

جناب نصیرالدین صاحب موظف لکچرارنے مخاطب کرتے ہوے کہا کہ کوی تحریک اور تنظیم جب تک علماء کرام سے مربوط ہوکر کام نہیں کرے گی وہ۔کامیاب نہیں ہوسکتی اس لےء کہ ماضی کی تاریخ کو اٹھاکر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہیکہ جنگ آزادی ہوں یا تحریک ریشمی رومال یا مدارس کے جال بچھانے کی تحریک اور ترک موالات ودیگر تحریکات ان سب کی کامیابی کے پیچھے علماءکرام کی قربانیاں ان کی دعائیں اور محنتیں ہیں ان شاء اللہ اس مسلم منڈل کمیٹی کے قیام سے بڑا نفع ہوگا اور علماء کرام کی قیادت سے ہم سب کو فائدہ اٹھانا چاہیے

اخیر میں صدراجلاس مولانا سید سمیع اللہ صاحب نے خطاب کرتے ہوے کہا کہ ان حالات سے ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اللہ سے اپنا تعلق مضبوط کرکے عملی اعتبارسے بیداری کا ثبوت دینا چاہیے مقامی عوام وخواص نے اپنے منڈل کی سیاسی سماجی دینی تعلیمی کیفیات کو بیان کرتے ہوےکہاکہ آپ لوگوں کی سرپرستی میں ہم ان شاء اللہ منڈل نندی پیٹ میں دینی ملی کاموں کا آغاز کرتے ہوے علاقہ کی ترقی کے لےء ہر ممکن کوشش کریں گے

عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق قانون منسوخ کیا جائے ، بی جے پی رکن پارلیمنٹ کا مطالبہ

عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق قانون منسوخ کیا جائے ، بی جے پی رکن پارلیمنٹ کا مطالبہ

نئی دہلی: اتر پردیش سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ہرناتھ سنگھ یادو نے جمعرات کے روز راجیہ سبھا میں اس قانون کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا، جسے 1991 میں 15 اگست 1947 سے پہلے موجود تمام عبادت گاہوں کی حفاظت کے لئے منظور کیا گیا تھا۔ ہرناتھ سنگھ یادو نے کہا کہ یہ قانون ملک کے باشندگان کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے اور انہیں متنازعہ عبادت گاہوں سے متعلق معاملوں میں عدالتی کارروائی کرنے پر روک لگاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''چونکہ بیرونی حملہ آوروں نے مندروں کی نوعیت کو تبدیل کر دیا تھا۔ متھرا میں کرشن جنم بھومی اس کی مثال ہے۔''

خیال رہے کہ قانون کی دفعہ 4 عبادت کے مقامات کے معاملوں میں عدالت کے دائرہ اختیار پر روک لگاتی ہے۔ حزب اختلاف نے اس پر احجاج ظاہر کیا، لیکن نائب چیئرمین نے کہا کہ ایوان کے چیئرمین نے معاملہ کی پہلے ہی اجازت دے دی ہے۔

آر جے ڈی کے رکن پارلیمنٹ منوج کمار جھا نے نظام کا مسئلہ اٹھایا اور کہا کہ ارکان 'پنڈورا باکس' کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم چیئرمین نے انکار کر دیا۔ اس کا جواب دیتے ہوئے وزیر ماحولیات بھوپیندر یادو نے کہا کہ رکن کو قواعد پر عمل کرنا چاہیے۔

ہرناتھ سنگھ یادو نے حال ہی میں ایوان کے باہر بھی یہ مسئلہ اٹھایا تھا اور سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو کو چیلنج کیا تھا کہ وہ اسٹیج سے عوامی طور پر یہ کہیں کہ متھرا بھگوان کرشن کی جائے پیدائش ہے اور مسجد غیر قانونی طور پر بنائی گئی تھی!متھرا میں شری کرشن کی جائے پیدائش مسجد سے مکمل طور پر آزاد ہونی چاہیے۔


عبادت گاہ (خصوصی انتظامات) قانون، 1991 کسی بھی عبادت گاہ میں تبدیلی سے منع کرتا ہے اور کسی بھی عبادت گاہ کے مذہبی کردار کو برقرار رکھنے کا انتظام کرتا ہے، جس حالت میں ہو 15 اگست 1947 کو موجود تھا۔ قانون کی دفعہ 5 ایودھیا کے بابری مسجد معاملہ پر قانونی چارہ جوئی کی چھوٹ دیتا ہے۔ اپوزیشن ارکان نے کہا کہ بی جے پی اتر پردیش کے انتخابات سے پہلے یہ مسئلہ اٹھا رہی ہے۔

آپ کا سم کارڈ ہوسکتا ہے بند ، حکومت نے طئے کی حد ، بدل گیا ہے موبائل میں سم رکھنے کا رول

آپ کا سم کارڈ ہوسکتا ہے بند ، حکومت نے طئے کی حد ، بدل گیا ہے موبائل میں سم رکھنے کا رول
نئی دہلی:
 ڈپارٹمنٹ آف ٹیلی کمیونی کیشن (DoT)کی جانب سے بدھ کو ایک نیا رول جاری کیا گیا ہے، جس میں زیادہ سم رکھنے کی چھوٹ کو ختم کردیا گیا ہے۔ ٹیلی کام ڈپارٹمنٹ کے نئے رولس کے مطابق، اب 9 سے زیادہ سم رکھنے والے یوزر کو سم کارڈ کا ویری فیکیشن کرنا لازمی ہوگیا ہے۔

اگر یہ سم کارڈ ویری فائی نہیں ہوتے ہیں تو اُنہیں بند کردیا جائے گا۔ بتادیں کہ جموں کشمیر (J&K) اور نارتھ ایسٹ (North East) کی ریاستوں کے لئے یہ تعداد صرف 6 ہی ہے۔ ٹیلی کام ڈپارٹمنٹ نے ٹیلی کام کمپنیوں کو اُن سبھی موبائل نمبر کو ڈیٹا بیس سے ہٹانے کے لئے کہا ہے جو رولس کے مطابق استعمال میں نہیں ہیں۔

جانیں کیا ہے DoTکا حکم؟
ٹیلی کام ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری حکم میں کہا گیا ہے کہ کسٹمرس کے پاس اجازت سے زیادہ سم کارڈ پائے جانے کی صورت میں انہیں اپنی مرضی کا سم جاری رکھنے اور باقی تمام کو بند کرنے کا آپشن دیا جائے گا لیکن اس کی لمٹ 9 سے زیادہ نہیں ہوگی۔
ٹیلی کام ڈپارٹمنٹ نے کہا ہے کہ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے کیے گئے سروے کے دوران اگر کسی گاہک کے پاس سبھی ٹیلی کام کمپنیوں کے سم کارڈ طئے کی گئی لمٹ سے زیادہ پائے جاتے ہیں تو سبھی سم کو پھر سے ویری فائی کیا جائے گا۔ ٹیلی کام ڈپارٹمنٹ نے یہ قدم فائنانشیل کرائم، متنازع کالس، آٹو میٹک کالس اور فراڈ کے واقعات کی جانچ کرنے کی مقصد سے کیا ہے۔

30 دنوں میں سم بند کرنے کا حکم
DoT نے سبھی ٹیلی کام آپریٹرس کو حکم دیا ہے کہ جن یوزرس کے پاس 9 سے زیادہ سم کارڈ ہیں، اُنہیں نوٹیفکیشن ب ھیجا جائے۔ ایسے سبھی سم کارڈ کی آوٹ گوئنگ کالس کو 30 دنوں کے اندر بند کردیا جائے۔ جب کہ ان کمنگ کال کو 45 دنوں کے اندر بند کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حالانکہ موبائل سم یوزرس کے پاس ایکسٹرا سم کو سرینڈر کرنے کا بھی آپشن ہوگا۔


قومی، بین الاقوامی اور جموں وکشمیر کی تازہ ترین خبروں کےعلاوہ تعلیم و روزگار اور بزنس کی خبروں کے لیے نیوز18 اردو کو ٹویٹر اور فیس بک پر فالو کریں ۔

اجتماعی زندگی کے تقاضے ______مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

اجتماعی زندگی کے تقاضے ______
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ(9431003131)
انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ فرد کی سوچ اپنے خاندان سے آگے نہیں بڑھ پاتی وہ اپنی ذات میں جیتا ہے، اپنے بال بچوں کے بارے میں سوچتا ہے، اس کے غور وفکر کا دائرہ انتہائی محدود ہوتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ میں اچھا تو سب اچھا، اس کی منصوبہ بندی اور ترقیاتی کام بھی اسی دائرہ میں محدود ہوتا ہے، سماج میں اس قسم کے افراد کثرت سے پائے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے خود غرضی عام ہو رہی ہے اور اپنا مفاد، اپنا بھلا سے بات آگے نہیں جاتی ۔
 اجتماعی زندگی میں انسان کی سوچ اپنی ذات خاندان؛ بلکہ رشتہ داری سے آگے بڑھ کر ملی ، سماجی اور معاشرتی دائرے میں آگے بڑھتی ہے، اس کے غور وفکر کا دائرہ وسیع ہوتا ہے، اور وہ اپنا نقصان کرکے بھی ملک وملت کے مفاد کو آگے بڑھتا دیکھنا چاہتا ہے اور اس کی عملی حصہ داری اس میں ہوتی ہے ، ایسے لوگ اس بات پر قادر ہوتے ہیں کہ مختلف طبقات کو جوڑ کر ایک ایسا اجتماعی نظام وجود میں لائیں، جس میں تشاور، توافق اور تعاون کا جذبہ پایا جاتا ہو، ایسے لوگ ملک وملت کے لیے انتہائی نفع بخش ہوتے ہیں، وہ بیج کی طرح کھیت میں دفن ہو کر سر سبز وشاداب فصلوں کے لہلہانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔
 انفرادی سوچ کو اجتماعی رخ دینے اور مختلف طبقات کو جوڑنے میں بڑی اہم چیز آپس کا مشورہ ہے ، یہ مشورہ عمومی ہونا چاہیے اور جن لوگوں کی اس ہدف تک پہونچانے میں ضرورت ہے سب کو جوڑ لینا چاہیے، اس سے ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھتا ہے اور کام کو عملی طور پر زمین میں اتارنے میں مدد ملتی ہے ، کاموں اور تنظیمی ڈھانچوں کے اعتبار سے کسی کا بڑا چھوٹا ہونا انتظامی ضرورت ہے، لیکن اجتماعی کاموں کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ مشوروں میں لوگوں کو شریک کیا جائے، پھر یہ مشورے بند کمروں میں سازشوں کی طرح نہ کیے جائیں، ان میں کُھلا پن لایا جائے، سب کی سنی جائے اور فیصلہ اکثریت پر نہیں قوت دلیل کی بنیاد پر کیا جائے، مشورے کے اس عمل سے مزاجی ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنے کے جذبے کو فروغ ملے گا، اسی کو اصطلاح میں توافق کہتے ہیں۔
مشورے اور موافقت کے بعد ضروری ہے کہ ایک مہم اور ٹیم کے طور پر کام کو آگے بڑھانے میں لگ جایا جائے، اورمربوط انداز میں کام کیا جائے، کام جس قدر آگے بڑھے اس کی اطلاع بھی ٹیم کے افراد کو رہے، تاکہ کام کے آگے بڑحنے پر حوصلہ افزائی کی جائے اور اگر کہیں کوئی رکاوٹ آ رہی ہے تواس کو دور کرنے کے لیے سب مل کر کوشش کریں۔
اسلام اجتماعی زندگی کا سب سے بڑا داعی ہے، اس کی عبادتیں اجتماعی زندگی گذارنے کا مظہر اتم ہیں، نماز با جماعت پڑھی جائے، مہینہ بھر کا روزہ ایک ساتھ رکھا جائے، کعبہ، منیٰ، عرفہ، مزدلفہ ہر دن اپنی جگہ پر موجود ہونے کے باوجود حج کے لیے پانچ دن کی تخصیص کا مفہوم بھی یہی ہے کہ اجتماعی طور پر اس عبادت کو انجام دیا جائے۔
 اجتماعی زندگی کو برپا کر نے کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ زندگی کے دوسرے کاموں کی طرح ہمارے لیے نمونہ عمل ہے، مومنین کے لیے انتہائی شفیق ، رحم دل بلکہ رحمۃ للعالمین نرم دل بنایا گیا تاکہ لوگ ان کے گرد جمع ہوجائیں ، لوگوں کو معاف کرنے اوران کے لیے مغفرت کی دعا کرنے کی ہدایت دی گئی ، مشورہ کرنے پر زور دیا گیا، اور پھر جب فیصلہ ہوجائے تو اسے اللہ پر بھروسہ کرکے کر گزرنے کی بات کہی گئی ۔
واقعہ یہی ہے کہ قائدین کا نرم دل ہونا ضروری ہے ، اللہ رب العزت نے اپنے محبوب کی یہ صفت خاص بیان کی کہ اللہ رب العزت نے اپنی رحمت سے آپ کو نرم دل بنایا، اگر آپ سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے پاس سے چَھٹ جاتے۔
 غلطیاں کام کرنے والے سے ہی ہوتی ہیں، شیخ سعدی نے لکھا ہے کہ ’’نہ کردن یک عیب وکردن صد عیب است‘‘یعنی اگر آپ کام نہیں کرتے تو یہ ایک عیب ہے کہ لوگ آپ کو ناکارہ کہہ کر گذر جائیں گے، لیکن اگر آپ تعمیری کاموں میں لگے ہوئے ہیں تو لوگ دس عیب نکالیں گے ، تنقیدیں کریں گے ، برا بھلا کہیں گے ، ظاہر ہے آپ اور ہم سب انسان ہیں، اس کے اثرات دل ووماغ پر پڑنا فطری ہے، اس سے حوصلے ٹوٹتے ہیں، کام کا جذبہ سرد پڑتا ہے، یہ اثرات دل ودماغ پر کم پڑیں یا نہ پڑیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے ساتھیوں کو معاف کر نے کا مزاج بنایا جائے، پھر چوں کہ ان کے طرز عمل سے اجتماعی کاموں میں رخنہ پیدا ہو گیا ہے ، اس لیے صرف دل سے معاف کر نا کافی نہیں ہے ، ان کے لیے مغفرت کی دعا بھی کرنی چاہیے، آپ کے معاف کرنے سے دنیاوی طور پر کام میں خلل نہیں واقع ہوگا اور آپ کی دعاء مغفرت اسے آخرت کے باز پرس سے بچانے کا سبب بنے گا۔
 معاف کرنے اور مغفرت کی دعا کرنے کے بعد بھی اجتماعی نظام کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ ان کو مشورے میں شریک کیا جائے، تاکہ وہ یہ نہ محسوس کریں کہ مجھے چھانٹ دیا گیا ہے ، چھانٹنے کے عمل سے بھی آدمی ٹوٹ کرانفرادی زندگی کی راہ پر چل پڑتا ہے، جو اجتماعی زندگی کو سبوتاژ کرنے کا عمل ہے ۔
 اتنے مراحل کے بعد جب مشورہ سے کوئی بات طے ہوجائے تو اللہ پر بھروسہ کرکے کام کا آغاز کردیا جائے اور اب لیت ولعل کا سہارا نہ لیا جائے، اللہ پر بھروسہ ہمارے کام کی اساس ہے، اخلاص کے ساتھ اس راہ پر آگے بڑھتے رہنا چاہیے۔بہت سارے لوگ اس کے بعد بھی کوشاں ہوتے ہیں کہ جو دن مقرر کیا گیا ہے اس تک پہونچنے میں رکاوٹیں کھڑی کریں اور ان کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ غیر ضروری مشورے دے کر کامیابی کے یقین کو تذبذب میں ڈالنے اور شکوک وشبہات پیدا کرنے میں اپنے تئیں ان کی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنے مفاد کے لیے اجتماعی منصوبوں کو انفرادیت کی طرف لے جائیں تاکہ ان کی اہمیت برقرار رہے۔ایسے لوگ اجتماعی زندگی کے تقاضوں کو نہیں سمجھتے ، وہ اپنے خول سے باہر نہیں نکل پاتے، بظاہر وہ اجتماعی زندگی سے جُڑے ہوتے ہیں، لیکن وہ اندرہی اندر اجتماعیت کو فنا کے گھاٹ اتارنے کے لیے کام کرتے ہیں، ایسے لوگوں سے ہمہ وقت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔
اجتماعی زندگی کی سب سے چھوٹی اکائی خاندان ہوتا ہے اور سب سے زیادہ جھگڑے اجتماعی زندگی کے تقاضوں کی ان دیکھی کی وجہ سے ہی پیدا ہوتے ہیں، خاندان کا سربراہ اگر ان امور کی رعایت کرے، ہرکام میں گھر کے لوگوں سے مشورہ لینے کے ساتھ ان کی بھول چوک کو نظر انداز کرنے کا مزاج  بنالے تو یہ جھگڑے ختم ہوجائیں گے ، لیکن وہاں بھی اپنی سرخروئی اور گارجین سے قریب ہونے کی خواہش کی وجہ سے افراد ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں اور خاندان ٹوٹ کر رہ جاتا ہے ، آج خاندانی انتشار اور بکھراؤ کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہاں بھی اجتماعی زندگی کے تقاضوں کو ملحوظ نہیں رکھا جارہا ہے۔
 اجتماعی زندگی کو مضبوط ، مربوط اور مستحکم کرنے کے لیے انابت الی اللہ بھی انتہائی ضروری ہے، کیوں کہ لوگوں کے قلوب تو اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہیں، سارے کام اسی کی مرضی اور مشیت سے ہوتے ہیں، ہمیں چوں کہ اللہ کی مرضی کا پتہ نہیں اس لیے اسباب کے اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، نتیجہ وہی آنا ہے جو مرضی مولیٰ ہے۔
 اجتماعی کاموں کو آگے بڑھانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ملکی قوانین کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے، اور منصوبہ بندی کرتے وقت مضبوطی سے قوانین کی پاسداری کی جائے، یقینا بہت سارے لوگ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے پر یقین رکھتے ہیں اور اس کی وجہ سے ہمیں پریشانیوں کا سامنا ہے، بلکہ رکاوٹیں اجتماعی کاموں پر کھڑی کی جا رہی ہیں، لیکن ہمارا عمل ملکی قوانین کے دائرے میں ہونا چاہیے، ہمارے بڑوں نے یہی سکھایا ہے اور یہی وقت کا تقاضہ بھی ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...