Powered By Blogger

بدھ, اکتوبر 05, 2022

امروز کی شورش میں الجھی ہوئی ملتفیروز عالم ندوی


امروز کی شورش میں الجھی ہوئی ملت
فیروز عالم ندوی
اردو دنیا نیوز ٧٢
معاون اڈیٹر ماہنامہ پیام سدرہ،  چنئی
ہرے بھرے چراگاہوں کے درمیان سرسبز گھاس اور نرم پتوں سے لطف اندوز ہوتا ہوا کوئی ہرن جیسے ہی کسی خطرے کی آہٹ کو محسوس کرتا ہے وہ چوکنا ہو جاتا ہے ۔ اب اس کی توجہ کا مرکز پیش آمدہ خطرے سے نجات پانا ہو تا ہے۔ چراگاہ کی تمام شادابیاں اس کے نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہیں۔ زندگی پر منڈلا رہے خطرے کی وجہ سے وہ ایک خاص تناؤ (Stress) کا شکار ہو جاتا ہے جو اس کی فکر و نگاہ کو آس پاس میں موجود سبزا زاروں سے کاٹ کر اس بات پر مرکوز کر دیتی ہے کہ وہ خود کو اس خطرے سے باہر نکال سکے۔ جیسے ہی گھات میں بیٹھا درندہ اس پر حملہ آور ہوتا ہے، وہ اپنی پوری قوت کے ساتھ دوڑ لگا دیتا ہے اور اپنی رفتار کو تیز سے تیز تر کرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ خود کو خطرے سے محفوظ کر لیتا ہے۔ جب وہ محسوس کرتا ہے کہ اب وہ خطرے سے باہر آگیا ہے۔ دشمن کہیں دور ناکام تعاقب کے بعد تھک ہار کر بیٹھ چکا ہے۔ اس احساس کے ساتھ ہی وہ ہرن اپنی سابقہ Stress کی کیفیت سے بابر نکل آتا ہے اور پھر سے اپنے آس پاس میں دستیاب ہریالیوں سے لطف اندوز ہونے لگتا ہے۔
فطرت کا قانون ہے کہ کسی بھی قسم کا خطرہ پیدا ہونے پر ہر جاندار تناؤ کا شکار ہو جاتا ہے، یہ احساس اس کے تمام افکار کو ہر جانب سے کاٹ کر ایک خاص سمت میں متعین اور محدود کر دیتی ہے،  جو اسے اس خطرے سے باہر نکالنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔
اس معاملے میں انسانوں اور دیگر جانداروں کے درمیان ایک فرق ہے۔ وہ یہ کہ دیگر جانداروں کے دماغ کا تخیلاتی تانا بانا ایسا نہیں ہے جیسا کہ انسانوں کا ہے لہذا وہ خطرے کی حالت سے باہر آتے ہی  Stress free  ہو جاتے ہیں جبکہ انسان اپنی قوت تخیل کی بنا پر فرضی خطروں کے بوجھ کو ڈھوتا رہتا ہے اور خود کو غیر ضروری تناؤ میں مبتلا کئے رہتا ہے۔
میں جب سن شعور کو پہنچا تو میں نے پایا کہ ہماری ملی زندگی تناؤ کا شکار ہے۔ ہم فرضی خطرات کے خوف سے چیخ و پکار کر رہے ہیں۔ خود ساختہ سازشوں کے جال میں پھنسے ہوئے کسمسا رہے ہیں۔ یہ سلسلہ نہ کہیں تھما اور نہ رکا۔ پیشہ ور مقررین ، نام نہاد واعظین، پشتینی قائدین اور مفاد پرست رہنماؤں نے اسے ایک ہتھکنڈے کے طور پر جاری و ساری رکھا۔اگر وہ خطرات درست ہوتے، تخمینوں کے عین مطابق ہوتے تو ہم اب تک اپنا وجود کھو چکے ہوتے۔
اگر اس سے آگاہ کرنے والوں نے سہی آگاہی دی ہوتی اور اسی کے پیش نظر ہم نے اپنی سفر کا سمت متعین کیا ہوتا تو ہم آج Stress کی کیفیت سے بابر ہوتے اور معاشرتی برتری کی سعادتوں سے بہرور ہو رہے ہوتے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ سازشوں کے افسانے سنائے جاتے رہے، نادیدہ دشمنوں کے عفریتی ہیولے ہمارے پیچھے دوڑائے جاتے رہے اور بس۔ نہ کوئی لائحہ عمل اور نہ پلاننگ۔ نتیجتا ملک میں ہم بحیثیت امت  روزانہ کی بنیاد پر خراب سے خراب تر کا سفر کرتے رہے۔
آج کے خراب حالات ہماری گزشتہ کل کی کوتاہیوں کا نتیجہ ہیں اور مستقبل میں لاحق ہونے والی پریشانیاں آج کی بے عملی کا نتیجہ ہوں گی۔ کل کے حالات میں ہم ایسے الجھے کہ آج کے لیے تیاری نہیں کی۔ آج ایسے پریشان ہیں کہ آئندہ کل کے لیے کوئی لائحہ عمل اور پلان نہیں ہے۔
وہ تنظیم اور ادارے جو خود کو ریاستی اور ملک گیر سطح پر مسلمانوں کا رہنما سمجھتی اور دعوی کرتی ہیں ان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ موجودہ مسائل سے دو دو ہاتھ ہونے کے ساتھ ساتھ ملت کے لیے ایک مؤثر اور ہمہ جہت خاکہ تیار کریں۔ جس میں مستقل کی اچھی پلاننگ ہو۔ جو شامل اور کامل ہو۔ انھیں دو نوں محاذوں پر بیک وقت کام کرنا پڑے گا۔ یعنی آج کے ناموافق حالات سے روبرو ہونا اور مستقبل کے لیے ایک جامع لائحہ عمل پر عمل درآمدگی کو یقینی بنانا۔
تناؤ (Stress) خواہ انفرادی حیثیت کی ہو یا ملی اور قومی، اس کے لیے ایک سادہ سا اصول یہ ہے کہ فکر، شعور اور عمل کو ملا کر جو مثلث بنتا ہے اسے درست رکھا جائے۔ اس کی صحیح سائیکلنگ آپ کو تناؤ سے مغلوب نہیں ہونے دے گی اور زندگی کی گاڑی اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہے گی۔
تنگی کے ساتھ ساتھ آسانی(إن مع العسر يسرا) پر اگر واقعی ہم ایمان رکھتے ہیں تو ہمیں فوری طور پر خود کو Stress کی کیفیت سے بابر نکال کر موجود مواقع اور ذرائع کو استعمال کرنا چاہئے۔ شکوہ سنجی کی راہ کو چھوڑ کر مثبت فکر کو اپنانا چاہئے۔ فرضی خطرات اور سازشوں سے آزاد ہو کر واقعیت پسندی کو راہ دینی چاہیے۔ آج کے ناموافق حالات میں کل کے موافق حالات کے لئے تیاری کرنی چاہئے ۔

پیغام ِمحمدیﷺ.... سکستی انسانیت کا سہاراساجد حسین ندوی

پیغام ِمحمدیﷺ.... سکستی انسانیت کا سہارا

ساجد حسین ندوی

اسسٹنٹ پروفیسر،شعبہ اردو،نیوکالج،چینئی

اردو دنیا نیوز ٧٢

آج پوری دنیا میں مسلمانوں کی جوحالت ہے وہ کسی سے مخفی نہیں، ہرآدمی اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ بگاڑنے میں مصروف ہے، بلکہ پوری دنیا میں بڑے زور وشور کے ساتھ یہ آواز بلند کی جارہی ہے کہ اسلام کی تعلیمات نعوذباللہ فتنہ وفساد پر مبنی ہے، مسلمانوں کے اداروں میں لوگوں مارنے اور قتل کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے، ان کو باضابطہ اسی کے لئے ٹرینڈ کیا جاتاہے۔ اور نہ جانے کیسی کیسی بے سروپا کی باتیں کہی جاتی ہیں۔ جبکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے، اسلام امن وآشتی کا مذہب ہے، یہ خدائی پیغام ہے، آفاقی مذہب ہے، وحی الہی کے ذریعہ اس کو دنیا میں اتاراگیا۔ انسانوں کی رشد وہدایت اس کی تعلیمات میں مضمر ہے، اس کا پیغام کسی ایک قوم اور خطہ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ یہ اللہ نے اپنے آخری نبی محمد عربی ﷺ کے ذریعہ پوری دنیا میں عام کیا۔مشرق ومغرب، شمال وجنوب، کالے ،گورے ہر ایک شخص تک اس پیغام کو پہونچاگیا، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین جزیرۃ العرب سے نکل کر دنیا کے کونہ کونہ میں پھیل گئے اور جو فریضہ اللہ کے نبی ﷺ نے ان کے کاندھے پرڈالا انہوں نے اس کو بحسن وخوبی انجام دیا۔

علامہ سید سلیمان ندوی علیہ الرحمہ نے پیغام محمدی کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرمایا:

’’پیغام محمدی ﷺ دنیا میں خدا کا پہلااور آخری پیغام ہے جوکالے گورے، عرب وعجم ترک وتاتار، ہندی وچینی،زنگ وفرنگ سب کے لئے عام ہے، جس طرح اس کاخدا تمام دنیا کا خداہے ’’الحمد للہ رب العالمین‘‘ تمام دنیا کا پروردگار ہے ،ا سی طرح اس کا رسول ’’ رحمۃ للعالمین‘‘ تمام دنیا کے لئے رحمت ہے اور اس کاپیغام بھی تمام دنیا کے لئے پیغام ہے‘‘۔(خطبات مدراس)

مذکورہ بالا اقتباس میں صاف طور وضاحت کردی گئی ہے کہ اللہ رب العالمین ہے تو محمد ﷺ رحمۃ للعالمین ہیں۔ اور رحمۃ للعالمین کا پیغام آفاقی ہے، اسے ہر ہرقوم تک پہنچانا ہم امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ ہمیں خیر امت کے ساتھ ساتھ’’ اخرجت للناس‘‘ بھی کہاگیا مزید’’ امر بالمعروف نہی عن المنکر‘‘ کرنے والا بھی بناگیاہے۔ اس لئے ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ خدا کے اس پیغام کوہرفردِ بشر تک پہونچائیں۔اور اس کے ذہن ودماغ میں اسلام کی جو شبیہ غیروں نے پیش کی ہے،  ہم دلائل اور ثبوتوں کے ذریعہ اس کے سامنے صاف شفاف اس اسلام کو پیش کریں جوسراپارحمت ہے، نبی ﷺ کی اس تعلیمات سے روشناس کرائیں جس میں انسانیت کی قدروقیمت بتائی گئی ہے۔

اگر ہم نے صحیح طور پر احکامات خداوندی اور پیغام محمدی سے دنیا کو آشنا نہ کرایا تو ہمارے ساتھ بھی وہی کچھ ہوگا جو اندلس کے مسلمانوں کے ساتھ ہوا۔ اس لئے کہ اندلس کی آٹھ سو سالہ شان وشوکت اور اقتدار کے باوجود ہمارا نام ونشان مٹادیاگیا، سینکڑوں مسجدیں آج بھی اذانوں کو ترس رہی ہیں، مسلمانوں کے زوال کے بعد جو ظلم وستم اندلس میں کیا گیا اس کی نظیر نہیں ملتی، اندلس میں مسلمانوں کی تباہی، ان کے اقتدار وحکومت کے خاتمے اور ان کے وجود کے ناپید ہوجانے میں مختلف عوامل کار فرماتھیں، لیکن گہرائی اور گیرائی سے تاریخ کاتجزیہ کرنے سے یہ بات واضح طور پر عیاں ہوجاتی ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دور اقتدار اور عروج واقبال میں اسلام کی تبلیغ واشاعت ،پیغمبر اسلام ﷺ کی سیرت وتعلیمات کو اپنے برادران وطن تک پہونچانے اور ان کے دل ودماغ کو دین کی دعوت سے متأثر کرنے میں بڑی غفلت برتی نتیجہ یہ ہواکہ عیسائیت پیغمبر اسلام ﷺ کی تعلیمات سے بے خبر مسلمانوں سے انتقام لینے اور ان کو نیست ونابود کردینے کے جذبہ سے سرشار ہوتی چلی گئی۔ تاریخ شاہد کہ اندلس میں مسلمانوں پر جو گذری اس کا وہم وگمان بھی انہیں اپنے دور عروج میں نہ ہواہوگا۔

اس وقت ملک میں جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہورہے ہیں اس کی بھی نوعیت کچھ اسی طرح کی ہے۔ اس لئے کہ ہم نے برادران وطن کے سامنے صحیح طور پر اسلام کاتعارف پیش نہ کیا ، نبی کریم ﷺ کی تعلیمات سے باخبر نہ کیا، جس کی وجہ سے میڈیا کو اچھا موقع ہاتھ آگیااور اس نے اسلامی تعلیمات کا مذاق بنانا شروع کیا اور بھولی بھالی عوام میڈیا کی باتوں کو من وعن تسلیم کرتے چلے گئے جس کی وجہ اسلام کے خلا ف غلط فہمیاں ان کے ذہن ودماغ میں گھر کرلیا۔

اس ملک میں مسلمان کم وبیش ایک ہزار سال سے رہتے آرہے ہیں ، ہر گلی ،ہرمحلہ ، اسکول ،کالج، یونیورسٹی، بازار اور دیگر مقامات پر برادران وطن سے ملاقات ہوتی رہتی ہے، لیکن اس کے باوجود اکثر غیر مسلم کا نظریہ اسلام اور مسلمانوں کے تئیں یہ ہے کہ مسلمان ایک مثقف وشائستہ، شریف وبااصول انسان نہیں ہوسکتا۔ ان لوگوں کے دلوں میں نفرت وبعد، اور بہت سی غلط فہمیاں بیٹھی ہوئیں ہیں، مزید برآں سیاسی جد وجہد اس پر تیل کا کام کررہی ہے۔

یہ جوحالات پیدا ہورہے ہیں اس کا واحد علاج یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کو عام کیا جائے، لوگوں کے سامنے اس کے فوائد بیان کئے جائیں، نکاح اور طلاق کے تعلق سے جن غلط فہمیوں کا وہ شکار ہیں ان کو اس سے روشناس کرایا جائے، دلائل کے ساتھ یہ بتایا جائے کہ اسلام نے عورتوں  کوجو مقام ومرتبہ اور جوحقوق فراہم کیاہے اس کا دوسرے مذ اہب میں تصور بھی نہیں۔ کیونکہ برادران وطن میں سے ایک محدود طبقہ ہے جو مسلمانوں سے متنفر ہے اور وہ بھی اس لئے کہ وہ اسلام کی دعوت اور پیغمبر اسلام ﷺ کی تعلیمات سے ناآشنا ہے، اسے معلوم نہیں ہے کہ اسلام امن وسلامتی کا پیامبر ہے، وہ نفرت اور بغض وعداوت کو پسند نہیں کرتا، انسانوں کو ایک کنبہ قراردیتاہے، اس کے نزدیک انسانیت کے اعتبار سب برابرہیں کسی میں کوئی تفریق نہیں۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ولادت نبی ﷺ کو ذوق ونظر کی تسکین کا سامان اور اپنی تفریح کا مشغلہ نہ بناکر حضور کی تعلیمات وارشادات کی تبلیغ کی جائے۔

اس وقت پوری دنیا جس اخلاقی پستی اور لاعلاج بیماری میں مبتلا ہے اس کا علاج صرف شفاخانۂ نبوی ﷺسے مہیا ہوسکتاہے، اگر دم توڑتی ہوئی انسانیت کے حلق میں پانی کا کوئی قطرہ جونئی زندگی عطاکرنے کے لئے ٹپکایاجاسکتاہے تو وہ نبوت محمدی ﷺ کے چشمۂ حیواں ہی سے حاصل ہوسکتاہے، انسانیت کو سکون اور نئی زندگی عطاکرنے کے لئے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔

کیونکہ یہی وہ آوازہے جس سے شروع میں لوگوں کوکافی وحشت ہوئی تھی اوروہ اس سے دور بھاگ رہے تھے، اتنا نہیں بلکہ اس آواز کو بلند کرنے والے نبی امی محمد عربیﷺ پر اینٹ وپتھرکی بارش کررہے تھے ، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتاگیاوہ اس اجنبی آواز سے مانوس ہوتے گئے پھر جو ہوا وہ تاریخ کے اوراق  میں محفوظ ہے کہ اس آواز پر لبیک کہنے والے جو غلام تھے وہ آقاہوگئے، جو محکوم تھے حکمرانی ان کے ہاتھوں میں آگئی، علامہ سید سلیمان ندوی علیہ الرحمہ نے تحریر فرمایا:

’’رفتہ رفتہ یہ اجنبیت دورہوئی، بیگانگی کافور ہوئی، آواز کی کشش اور نوائے حق کی بانسری نے دلوں میں اثر کیا، کان والے سننے لگے سردھننے لگے یہاں تک کہ وہ دن آیا کہ سارا عرب اس کیفیت سے معمور ہوگیا اوراسلام کا مسافر اپنے گھر پہونچ کراپنے عزیزوں اوردوستوں میں ٹھہر گیا۔ اب وہ قافلہ بن کر آگے چلا، عرب کے ریگستانوں سے نکل کر عراق کی نہروں اور شام کے گلستانوں میں پہونچا، پھر آگے بڑھا اور ایران میں ٹھہرا، اس سے آگے بڑھاتو ایک طرف خراسان وترکستان ہوکر ہندوستان کے پہاڑوں اور ساحلوں پر اس کا جلوہ نظر آیا اور دوسری طرف افریقہ کے صحراؤں کو طے کرکے اس کا نور بحرظلمات سے چمکا۔‘‘

آج بھی وہی نور چمکے گا اور ہندوستان کے کونے کونے میں اس کی روشنی نظرآئے گی، لیکن شرط یہ ہے کہ ہمیں اس پیغام کو عملی جامہ پہنانا ہوگا جو پیغام آپ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر۔’’ الا فلیبلغ الشاہد الغائب‘‘ اور دوسرے مقام پر ’’ بلغوا عنی ولوآیۃ‘‘کے ذریعہ ہمیں عطافرمایاتھا۔

اللہم صل وسلم دائما ابدا علی حبیبک خیر الخلق کلہ۔


خیر البشر جہاں میں نہ آیا رسول سا __شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی

خیر البشر جہاں میں نہ آیا رسول سا __
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
اردو دنیا نیوز ٧٢
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار  
خیر البشر جہاں میں نہ آیا رسول سا ،  رتبہ کسی نبی نے نہ پایا رسول سا ، تاریخ یہ بتاتی ہے اسلام کی ہمیں ، صادق امین کوئی نہ آیا رسول سا  ۔ 
دنیا نے بہت سے بھلے انسان دیکھے بہت سے کامل بزرگ اس میں ہو گزرے اور ابھی ہونگے لیکن اس زمین کی پیٹھ پر اور اس آسمان کی چھت تلے ایسا کوئی ا مکمل اور بزرگ و  افضل تر انسان اب تک آیا نہ اب آئے گا جیسے حضرت محمد ﷺ  تھے خدا کی طرف سے بے شمار درود و رحمت آپ پر نازل ہو ۔ 
اللہ جل جلالہ نے ہمیں اپنی رحمت کاملہ سے اس پیغمبرِ اکرم ﷺ  کی امت میں پیدا کیا جس کی تعریف وہ خود کرتا ہے ،  جس کی مدح و ثنا خود قرآن کریم میں ہے، جس کے محاسن ومناقب خود پروردگار عالم بیان فرماتا ہے، جس کی تابعداری کو اپنی اطاعت بتلاتا ہے ،  جن کی اتباع کو اپنی قربت کا سبب فرماتا ہے ، جن کے ہر فرمان کو اپنی وحی بتلاتا ہے،  جن کے نہ ماننے والے کو کافر کہتا ہے، جن کا سا مرتبہ ، جن کا سا غلبہ دنیا میں کسی کو حاصل نہیں ہوا، جن کا سا علم و حلم کسی کو نہیں ملا،جن کی سی حکمت و معرفت کو کوئی نہیں پہنچتا ، سب پیشوا آپ کے پیرو، سب امام آپ کے مقتدی، سب بزرگ آپ کے سامنے خورد ، خورشید سے ذرہ کو تو کچھ نسبت ہے بھی لیکن کسی امتی کے علم کو آپ کے علم سے وہ نسبت دینی بھی مبالغہ سے خالی نہیں ، بس اتنا ہی کافی ہے کہ آج اگر خلیل اللہ اور کلیم اللہ اور روح اللہ بھی ہوتے تو حلقہ بگوش امتیوں کی صف میں کھڑے نظر آتے ( اللہم صل وسلم علیہ وعلیٰ کل انبیاء ک و رسلک) 
دنیا میں رحمت بن کر آنے والا، بھٹکے ہوؤں کو راہ پر لگانے والا ، رب کا پیارا، امت پر مہربانیوں والا، خدا کا کلام لانے والا، رب کا پیام سنانے والا، نبیوں میں سردار بننے والا، غیروں کا غم کھانے والا، دشمن پر رحم کرنے والا، بدخواہ کی خیر خواہی کرنے والا، غریبی کو امیری پر فقیری کو بادشاہی پر ترجیح دینے والا، بوریہ نشینوں کو تخت سلطنت دلوانے والا، گڈریوں کو عالم کا سلطان بنانے والا، امیوں کو علماء کا استاد بنانے والا، ظلمت کو نور سے، کفر کو ایمان سے، برائی کو بھلائی سے،بدی کو نیکی سے ، رات کو دن سے، خزاں کو بہار سے، اندھیرے  کو روشنی سے، شرک کو توحید سے، بد خصلتی کو خوش خلقی سے بدلنے والا، معراج کو جانے والا،معجزے  دکھانے والا، رحمت اللعلمین لقب پانے والا، ساری دنیا کی طرف بھیجا جانے والا ، دنیا کو آباد کرنے والا، ویرانوں کو بسانے والا، کفر کو توڑنے والا، اسلام کو پھیلانے والا، نیکی کی نیو رکھنے والا، خوش اخلاقیوں کا رواج دینے والا، رحمت کا نشیمن،  معرفت کا معدن، علم کا برتن، احسان کا مخزن، وہ جس نے خدا کی سلطنت پھیلائی، وہ جس نے پیتل کو سونا بنایا، وہ جس نے رب کی منادی سنائی، وہ جس نے حقانیت کی آواز لگائی، باطل کی طاقتوں کو جس نے میٹ دیا ، مغرورں کے غرور  ڈھا دئیے، باطل کے جھنڈے اکھاڑ دئیے، کفر کی قلعی کھول دی، شیطان کو منھ چھپاتے ہی بنی، ضلالت کو منھ کی کھانی پڑی، شرک کو جان کھونی پڑی، بد اخلاقی کا نام نہ رہا ، گناہوں کا کام نہ رہا ، جنات کی حکومت کا خاتمہ ہوا، برائیوں کے دئیے بجھ گئے، دھوکہ بازیوں کے چراغ گل ہو گئے، بت اوندھے منھ گرے ، شراب خانے ویران ہوئے ، قمار خانے خراب ہوئے، اڈے اٹھ گئے،بت خانے اجڑ گئے ، صلیبیں اتر آئیں ، رسم و رواج کے طوق الگ ہوگئے ،آبا ئی طریقے اٹھ گئے ، رحمت کی بدلیاں چھا گئیں ، فضل کی بارش برسنے لگی، لطف و کرم کا ایک نیا آسمان بنا ، فیض و برکت کی نئی زمین  قائم ہوئی ، کفر کے لشکر ہلاک ہوئے ، باطل کی دلیلیں ٹوٹیں ، شیطانی فوجیں بھاگیں ، جس کی آمد نے دنیا کو لرزہ براندام کردیا ، ایک ایک دل میں جس کی دہشت سما گئی، ایک ایک پتّہ پتّہ بن گیا ، ہر ایک بید کی طرح تھرانے  لگا ، صرف رعب سے جی بیٹھا جانے لگا ، جس کی شریعت صاف تھی، جس کی فطرت نیک تھی، جس کی عصمت خدا کے ہاتھ تھی، جس کی نیکی عام تھی ، جس کے کلام میں شیرینی تھی ، جس کے چہرے پر نورانیت تھی ، جس کے دل میں پاکیزگی تھی ،جس کا سینہ کھلا ہوا تھا ،جس کی سخاوت بڑھی ہوئی تھی ،جس کی شجاعت  بے نظیر تھی ، جس کی حقانیت کھلی ہوئی تھی، جس کی راہ  خطرے سے خالی تھی ، جس کے پاس خدا کی وحی آتی تھی ، جس کے گھر خدا کی آیتیں پڑھی جاتی تھیں ، جو گناہوں سے معصوم تھے ، جو خدا کی طرف سے محفوظ تھے ، جن کے ساتھ آسمانی لشکر تھے ، جن کی صحبت میں خدا کے چیدہ بندے تھے، جن کی زبان پر خدا کا کلام جاری تھا ، سارے عالم کے افسر، صاحب حوض و کوثر، سرور رسولاں ،  شاہ انس وجاں، یاسمین چمن محبوبیت ، اورنگ نشین انجمن مقبولیت ، بدرالدجی ، شمس الہدیٰ ، یگانۂ ہر بیگانہ ، ہماۓ ہر خانہ ، زہد و قناعت میں بے بدل، صبر و استقامت میں ضرب المثل، مقرب بارگاہِ ربانی،مخزن کمالاتِ انسانی،لطف ربانی سے مسرور، نظر صمدانی کے منظور، متواضع بےنظیر، محب فقر و فقیر، اکرام خداوندی سے سرفراز،منصب نبوت عامہ سے ممتاز، جس کی آمد کی بشارت ہر نبی نے دی، جس کی آمد کی خبر ہر کتاب میں لکھی گئی، جس کی رسالت کی گواہی بلند میناروں پر گونج رہی ہے، آؤ مل کر گواہی دیں کہ ہمارے بڑے اور ہمارے سردار رب کے محبوب اور سب کے سید حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ  ہیں۔  آپ کی نبوت سچی، آپ کی رسالت سچی، آپ کی تبلیغ سچی، آپ کی باتیں سچی،آپ کے وعدے سچے،  آپ کی پیشن گوئیاں سچی،آپ ہی کو خدا نے اپنی عام رسالت کے لئے چن لیا، آپ ہی پر اپنی آخری اور مکمل کتاب نازل فرمائی، آپ ہی کے ہاتھ پر اپنے دین کو کامل کیا ۔ آج ہم سچے محمدی بن جائیں تو آج بھی ہماری مٹھی بھر خاک ہزاروں توپوں کے دہانوں کو بند کر دے،آج بھی ہماری تکبیر ہوائی جہازوں کو زمین پر گرادے،آج بھی دنیا کا نقشہ ہم بدل دیں، لیکن اسے کیا کیا جائے کہ محمدی بننا تو ایک طرف ہم تو محمدی کہلوانے سے بھی بھاگنے لگے،یہودی ، نصرانی اپنے نبیوں کی طرف اپنی نسبت کرلیں لیکن ہم نے تو اپنے نبی کی طرف نسبت کرنا بھی بھول گئے ۔ کیوں کہ بدعت وہ بری بلا ہے جس کے بعد حوض کوثر کا جام میسر نہیں آ سکتا ۔  انسان کسی کام کو دین کا کام سمجھ کر کرے اور وہ دین میں نہ ہو مثلاً ربیع الاول کا مہینہ حضور کے زمانہ میں آتا رہا لیکن موجودہ رسمی مجالسِ میلاد میں سے کوئی مجلس نہ آپ ﷺ نے کی نہ کرائی نہ کوئی حکم دیا۔ محرم الحرام آتا رہا لیکن اس کی دسویں کو کوئی تعزیہ داری نہ کی گئی، نہ فرمان دیا گیا۔ شعبان کی پندرھویں کو نہ کوئی عید منائی گئی، نہ آتش بازی چھوڑی گئ،نہ  مردوں کے لیے حلوے پکائے گئے، حضور کا آخری بدھ کبھی نہیں منایا گیا، ربیع الثانی کی گیارہویں نہیں کی گئی، رجب کی ستائیسویں کو نہ کوئی عید منائی گئی نہ کونڈے کئے گئے ، مسلمان مرے، شہید ہوئے۔  لیکن نہ ان کا تیجہ کیا گیا نہ چالیسویں کی دھوم مچائی لہذا ان کاموں سے بچیں جو شریعتِ مطہرہ میں نہیں ہے ۔ اے نبیوں اور رسولوں کے بھیجنے والے اپنے آخری رسول پر درود و سلام نازل فرما مقام محمود والے شفاعت عامہ والے سب سے پہلے اپنی قبر سے اٹھنے والے سب سے پہلے تجھ سے دعا کرنے والے سب سے پہلے شفاعت کے لیے اٹھنے والے سب سے پہلے جنت میں جانے والے اپنے سب سے افضل رسول پر ہماری طرف سے سلام پہنچا ہماری گواہی ہے کہ ہمارے پیغمبر حضرت محمّد ﷺ  نے ہمیں تیرا سارا دین پہنچایا ہماری پوری خیر خواہی کی حق رسالت ادا کیا تیری خوشنودی کے تمام کاموں کو کرکے دکھلا کر بتلا کر کہہ کر سن کر ہمیں رغبتیں دلائیں ۔ تیری نا مرضی کے  تمام کاموں سے الگ رہ کر ان سے ڈرا دھمکا کر انہیں جتا بتا کر انہیں دکھا سنا کر ان سے روک کے ان سے منع کر کے ہمیں اس سے روکا تو ہمارے اس نبی کو اپنے حبیب کو ہماری طرف سے بہترین بدلے عنایت فرما خدایا جو ثواب و اجر تونے کسی امت کی طرف سے اس کے نبی کو دیا ہو اس سے بہت بہتر اس سے بہت افضل اس سے بہت بڑھ کر اجر وثواب حضرت محمّد ﷺ کو ہماری طرف سے عطا فرما ۔
الہٰی اپنے نبی آخرالزماں پر ہماری طرف سے درود و سلام نازل فرما ان کے چاروں خلیفوں پر، ان کی آل اولاد اور بیویوں پر، ان کے تمام صحابہ پر اپنی رضا اور رضوان نازل فرما قیامت کے دن ان سب کے دیدار سرخروئی سے ہمیں عطا فرما، اپنے نبی ﷺ  کے جھنڈے تلے جمع فرما، آپ کی شفاعت اور آپ ﷺ کے حوض کوثر کے بھرپور جام سے ہمیں نواز، دنیا میں بھی عزت دے، تندرستی دے، فراغت دے، صحت دے، راحت و آرام دے، دشمنوں کے شر سے، بری موت سے، برے وقت سے، محتاجی اور مفلسی سے بچا۔ آمین یا رب العالمین
گل ہے اگر بدن تو پسینہ گلاب ہے * صل علیٰ وہ جسم رسالت مآب ہے ۔

ڈاکٹروں کی درندگی ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ڈاکٹروں کی درندگی ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردودنیانیوز٧٢
 مریض اپنے کو صحت یابی کے لیے ڈاکٹروں کے سپرد کر دیتا ہے، غلط، صحیح وہ جیسی بھی تفتیش کرے اسے مان لیتا ہے ، آپریشن کی تجویز رکھے تو اسے بھی برداشت کر لیتا ہے، کیوںکہ وہ مرض سے نجات پانا چاہتا ہے، وہ سب کچھ کر گذرتا ہے، جس کی تلقین ڈاکٹر کرتا ہے، مریض کو اپنے معالج پرپورا اطمینان، اعتبار اور اعتماد ہوتا ہے۔
 گذشتہ چند سالوں میں بعض پیشہ وارانہ ڈاکٹروں کے رویے اور درندگی کی وجہ سے مریض کے اس اعتبار واعتماد میں بے انتہا کمی واقع ہوئی ہے، غیر ضروری جانچ اور متعینہ لیب سے جانچ کرانے اور نا مزد دوا خانوں سے دوا لینے کے لیے ڈاکٹر پہلے بھی مجبور کرتے رہے ہیں؛ تاکہ انہیں اس لیبارٹری یا دو کان سے کمیشن کے نام پر اچھی خاصی رقم فراہم ہو سکے ، مریض کو لوٹنے کی یہ شکل پہلے سے رائج ہے۔
 لیکن اب معاملہ اس سے آگے بڑھ گیا ہے، اب ڈاکٹروں نے آپریشن کے بہانے انسانی اعضاء کی تجارت شروع کر دی ہے ، کرتا ایک دو ہی ہے، لیکن بدنام پورا طبقہ ہوتا ہے، ابھی حال ہی میں ایسا ایک واقعہ متھرا پور، سکرا ضلع مظفر پور کا سامنے آیا ہے، یہاں کے ایک ڈاکٹر نے سوینتا دیوی ساکن پاتے پور ویشالی کے رحم (بچہ دانی) کے آپریشن کے دوران اس کے دونوں گردے نکال لیے، ڈاکٹر پون کمار اور ڈاکٹر آر کے سنگھ کی اس حرکت سے مریضہ جاں بلب ہو گئی اور اسے پٹنہ کے آئی جی ایم ایس میں ڈائلاسس پر رکھا گیاہے، محکمہ نے ڈاکٹروں کی اسناد اورنرسنگ ہوم رجسٹریشن کی جانچ شروع کر دی ہے، جانچ کے بعد اگر ڈاکٹر کو سزا بھی ہوجائے تو کیا مریضہ کی زندگی واپس ہو پائے گی، یہ اکلوتا واقعہ نہیں ہے، ایسی خبریں مسلسل آتی رہتی ہیں، جب مریض ڈاکٹر کی درندگی کے نتیجے میں اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھتا ہے، یا زندگی بھر کے لیے معذور اور مفلوج ہو رہا ہے ، جھولا چھاپ ڈاکٹروں کا ذکر ہی کیا، سند یافتہ ڈاکٹر بھی اس شرمناک واقعہ کو انجام دے رہے ہیں، اور مریضوں کی زندگی سے کھلواڑ کر کے ان کے اعضاء کی فروختگی سے موٹی رقمیں بنا رہے ہیں، ایسے ڈاکٹروں کو سخت اور عبرتناک سزا دینی چاہیے، تاکہ اس قسم کی درندگی کا سد باب ہو سکے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...