Powered By Blogger

اتوار, ستمبر 10, 2023

نفرت کی کاشت- ملک کے لئے خطرناک 
Urduduniyanews72 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ

آپ نے مختلف قسم کے فصلوں کی کاشت کے بارے میں پڑھا اور سنا ہوگا، اس کے لہلہانے کی تدبیر یں بھی آپ کو بتائی گئی ہوں گی، کتنا پانی، کتنا کھاد، کتنی نکیونی اور کیسی آب وہوا کس فصل کے لیے چاہیے، اس کی واقفیت آپ کو مجھ سے زیادہ ہے، اہل فن نے اس پر کتابیں لکھی ہیں اور مختصر مدت میں زمین سے کس قد رزائد پیدا وار حاصل کر سکتے ہیں، اس کا علم ہمارے کسان کما حقہ رکھتے ہیں، تبھی تو ہندوستان غذائی اجناس میں خود کفیل ہوگیا ہے۔
 ہندوستان میں گذشتہ چند دہائیوں سے ہمارے حکمراں اور سیاست دانوں نے ایک اور کاشت شروع کی ہے، یہ کاشت ہماری زمین پر نہیں، دل ودماغ پر کی جا رہی ہے، یعنی اس کاشت کے لیے جس زمین کا استعمال کیا جا تا ہے، وہ دل اور دماغ کی زمین ہے، یہ نفرت کی کاشت ہے، ہندوستان کے اکثریتی طبقات کے دل ودماغ میں پہلے یہ بیج ہندتوا کے نام پر ڈالا جاتا ہے، فرقہ پرست افراد اور تنظیمیں گرم گرم تقریروں اور اسلام دشمن بیانات کے ذریعہ اس کو کھاد پانی فراہم کرتی ہیں، سپریم کورٹ آڑے آتا ہے تو ان کو یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ہوتا کہ ہم کسی کی اجازت کے پابند نہیں ہیں، بابری مسجد انہدام سے لے کر نوح میوات کے فسادات تک سر کشی اور قانون کی خلاف ورزی اس طرح کی گئی ہے کہ اگر اقلیتیں کرتیں تو آج کی پوری قیادت جیلوں میں سڑ رہی ہوتی، لیکن اکثریتی طبقہ اور شر پسندوں کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہو رہا ہے، احمد آباد کے فسادی قانون کی گرفت سے عموما باہر رہے، بابری مسجد کے انہدام کے مجرمین کو سزا نہیں دی جا سکی، بلقیس بانو کے خاندان کو تہہ تیغ کرنے اور اس کی اجتماعی آبروریزی کے مجرمین عمر قید کی سزا کے باوجود جیل سے باہر آکر دندناتے پھر تے ہیں۔
نفرت کی اس کاشت کو پروان چڑھانے اور اسے بار آور کرنے کے لیے فرقہ پرستوں نے الگ الگ طریقے ایجاد کر رکھے ہیں، کہیں مسلمانوں کو دیکھ کر جے شری رام کا نعرہ لگائیں گے ، کہیں مسلم آبادی سے گذرتے ہوئے دل آزار جملے پھینکیں گے، بے وجہ کسی مسلمان پر الزام لگا کر ماب لنچنگ کر دیں گے، کہیں مسلمانوں کو دوکان ومکان اور علاقہ خالی کرنے کی نوٹس دیںگے، کہیں پنچایت میں مسلمانوں کو بُرا بھلا کہہ کر اپنی بھڑاس نکالیں گے اور کبھی مسلمانوں کے بائیکاٹ کا فیصلہ سنائیںگے کہ ان سے کاروباری معاملات نہ کرو، ان سے سودا سلف نہ لو تاکہ وہ خود ہی علاقہ خالی کرکے چلتے بنیں اور نفرت کی یہ کاشت پروان چڑھتی رہے، مسلمانوں کو اس قدر خوف کی نفسیات میں مبتلا کر دیا جائے کہ وہ چوں نہ بولیں اور ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ کی عملی تصویر بن کر رہیں یا کم از کم اپنی مذہبی اور تہذیبی شناخت سے دست بردار ہو جائیں۔ 
ادھر نفرت کی کھیتی کے لیے ایک او رزمین فرقہ پرستوں نے منتخب کر لی ہے اور وہ ہے ابتدائی درجات کے اسکولوں میںنفرت کا ماحول پیداکرنا، پہلے یہ اونچے درجات کے تعلیمی اداروں میں ہوا کرتا تھا، لیکن اب نفرت کی کھیتی کے لیے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو اسکول میں تیار کیا جا رہا ہے، انہیں مسلمانوں کے خلاف تقریریں رٹائی جارہی ہیں اور پھر انہیں اسکول کے کلچر پروگرام اور طلبہ کی صلاحیتوں کے مظاہرے کے نام پر عوام کے سامنے پیش کرایا جاتا ہے اور تالیوں کی گرگراہٹ آئندہ اس مہم کو جاری رکھنے کا حوصلہ بچوں میں پیدا کرتا ہے، مسلم بچے جن اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں، ان کو نفسیاتی طورپر بے عزت کیا جاتا ہے، تازہ واقعہ ۲۴؍ اگست کو مظفر نگر ضلع کے نہا پبلک اسکول خبر پور کا ہے ، یہ گاؤں منصور پور سے قریب واقع ہے، اس اسکول کی پرنسپل تریپتا تیاگی نے ون کے جی کے ایک مسلم طالب علم التمش ولد محمد ارشاد کو پورے کلاس کے ہندو طلبہ سے تھپڑ لگوایا اور تلقین کرتی رہی کہ اور زور سے مارو، قصور یہ تھا کہ وہ ہوم ورک کرکے نہیں لایا تھا، اسکولی طلبہ میں یہ جرم اتنا بڑا نہیں ہے کہ اس کی سزا کے طورپر غیر مسلم بچوں سے پٹائی کرائی جائے، سزا وہ استانی خود بھی دے سکتی تھی ، کہتی ہے کہ میں معذور ہوں، اس لیے اٹھ نہیں سکتی تھی، یہ ایسا عذر لنگ ہے، جس کو کوئی بھی عقل مند تسلیم نہیں کرے گا، اگر وہ معذور ہے تو اسکول کیسے آتی ہے اور پرنسپل کی ذمہ داری کس طرح سنبھالتی ہے، چلیے تھوڑی دیر کے لیے مان لیتے ہیں کہ وہ اٹھ نہیں سکتی تھی، لیکن کیا وہ بچے کو اپنے پاس بلا کر بیٹھے بیٹھے تنبیہ نہیں کر سکتی تھی ، اس کے علاوہ اسکول میں تو مار پٹائی قانونا جرم ہے، وہ تو ایسے ہی قانون کے خلاف ورزی کر رہی تھی اور مسلم لڑکے کو صرف ذلیل کرنا چاہتی تھی، اس کے رونے گڑ گڑانے معافی مانگنے تک کا اس پر کوئی اثر نہیںہوا، بچے کا چہرہ سوج گیا۔
 مسلم بچے کے ساتھ اس ذلت آمیز سلوک کی ویڈیو اسکول کے ہی کسی نے بنایا اورسوشل میڈیا پر وائرل ہوا، ویڈیو بنانے والا بھی فرقہ پرست ہی ہوگا، چنانچہ اس نے مسلمانوں کو نفسیاتی طورپر اپنی ہتک محسوس کرانے کی غرض سے اسے عام کر دیا ، بات جب گلے پڑنے لگی تو اس کی مختلف تاویلیں کی جانے لگیں، حد یہ ہے کہ اتر پردیش کے وزیر تعلیم اس کی حمایت میں آگیے اور کہا کہ تریتبا نے معافی مانگ لی تو بات ختم ہو گئی، بھلا کوئی کسی کی عزت سے کھلواڑ کرے، معصوم ذہنوں میں نفرت کی بار آوری کرے اور اسے معاف کر دیا جائے، چاہیے تو یہ تھا کہ اس استانی کو فوری طور سے گرفتار کیا جاتا اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھ کر غیر جانبدارانہ تحقیق کی جاتی ، لیکن جب وزیر تعلیم ہی کلین چٹ دے رہے ہیں تو کون اس معاملہ کو اٹھا پائے گا، البتہ خبر یہ آ رہی ہے کہ معاملہ کو رفع دفع کرنے کے لیے اسکول کو بند کر دیا گیا ہے، التمش کے والد نے اس بچے کا نام اسکول سے کٹوا دیا ہے، لیکن وہ نا مزد ایف آئی آر درج کرنے کو تیار نہیں ہوئے، وہ بھی خوف کی نفسیات میں مبتلا ہوگیے اور انہیں لگا کہ یوگی کے راج میں انصاف کا ملنا دشوار ہے، اس لیے انہوں نے کوئی مقدمہ درج نہیں کرایا، جب اصل متاثر سامنے نہ آئے تو مقدمہ ایسے ہی کمزور ہوجاتا ہے۔ 
دھیرے دھیرے یہ معاملہ سرد پڑجائے گا، لیکن اس عورت کی اس ذلیل حرکت کی وجہ سے یہ بچہ تا زندگی ایک خاص نفسیات میں مبتلا رہے گا، وہ مایوسی اور ڈپریشن کا شکار ہوکر زندگی گذارے گا، اور جن بچوں سے اس عورت نے اسے پٹوایا وہ پوری زندگی مسلمانوں کو لقمۂ تر سمجھ کر ان کے ساتھ ظلم وزیادتی کرتے رہیں گے اور پھر نفرت کی یہ کاشت امربیل کی طرح پھیلتی چلی جائے گی ، جس سے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب جو اب نام کی حد تک ہی باقی ہے؛ بالکلیہ ختم ہو کر رہ جائے گی۔
اس واقعہ سے ہندوستان کی جو شبیہ خراب ہوئی تھی اسے کم کرنے اور مسلم سماج کے غصے کو کم کرنے کے لیے کٹھوا جموں کشمیر میں مبینہ طورپر ایک مسلم استاذ کے خلاف افواہ پھیلائی گئی کہ اس نے بلیک بورڈ پر جے شری رام لکھنے والے بچے کی پٹائی کی اور آئندہ ایسا کرنے پر جان سے مارنے کی دھمکی بھی دی اور اس میں وزن پیدا کرنے کے لیے ایک خاص مذہب کے لوگوں کے ذریعہ سڑک پر احتجاج کرایا گیا اورپوری کوشش کی گئی کہ اس کو بنیاد بنا کر مظفر نگر کے واقعہ کو ہلکا کیا جائے، لیکن ایسانہیں ہو سکا، البتہ کٹھوا کے واقعہ پر باضابطہ ایف آئی آردرج ہوا، اور جانچ شروع ہو گئی، مظفر نگر کے واقعہ پر مسلمانوں نے احتجاج نہیں درج کرایا اور نہ متاثر طالب علم کے والد نے کوئی ایف آئی آر درج کرائی، واقعتا ہم لوگ اس قدر پُر امن ہیں کہ ہر حال میں شانت رہتے ہیں، ایسا قانون کے احترام اور خوف کی نفسیات کی وجہ سے ہوتا رہا ہے، اور شاید آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔
** گھرآنگن کی شاعری***
اردودنیانیوز۷۲ 
      ✍️       ٭ انس مسرورؔانصاری 

           ہندوستان کی مہذ ب زبانوں میں شاعری کےبیشتر حصّےعورت کےذکرسےعبارت ہیں لیکن جیساکہ ‘‘گھرآنگن’’میں کرشن چند ر نےلکھاہے:
          ‘‘شاعراپنی محبوبہ کو جنگل جنگل،صحراصحراتلاش کرتاہےمگرکبھی وہاں نہیں تلاش کرتاجہاں وہ پائی جاتی ہے۔یعنی اپنےگھرمیں۔مزاحیہ یاطنزیہ شاعری میں گھرکی عورت کاذکر آتاہےلیکن اس تذکرےمیں عورت ہدفِ ملامت بن کراُبھرتی ہے۔رزمیہ شاعری میں عورت ایک نرس ہےیاروتی پیٹتی بیوہ ہے، بےبس اورمجبور،ماحول حشر کاہے،گھرکانہیں۔فلسفیانہ شاعری میں بالعموم عرش کےمسائل سے بحث کی جاتی ہےاور عورت بالعموم گھرکےفرش پرکام کرتی ہوئی پائی جاتی ہے۔کبھی کبھی فلسفی شاعرعورت کاذکرکردیتے ہیں تواکثراوقات اُس کی متلؤن مزاجی کاگلہ بھی کرتےہیں۔کیوں کہ عظیم فلسفیانہ شاعری صرف مردوں نےکی ہے۔اس لیےاُنہیں  حق پہنچتاہےکہ جوچاہیں کہہ دیں۔عورت تک فلسفی شاعرکے افکارنہی پہنچتے،کیونکہ وہ اُس کاکھاناتیارکرنےمیں مصروف ہوتی ہے۔’’ 
      کرشن چندرکایہ تبصرہ حقائق پرمبنی ہے۔یہ خلاء نہ صرف ہندوستانی زبانوں میں پایاجاتاہےبلکہ دنیا کی قدیم وجدیدزبانوں کی شاعری،گھر آنگن کےموضوع سےتقریباّّ محروم ہے۔ہم دنیابھرکی شاعری میں عورت کوڈرائنگ روم یا کافی ہاؤس میں مشروبات سے شغل کرتےہوئے،پرائے مردوں سےہنس ہنس کرباتیں کرتے ہوئے،کئی روپ میں دیکھ سکتے ہیں لیکن ہمیں وہ عورت کہیں نظرنہیں آتی جواپنی فطری حیا وشرم کےباعث بعض مرتبہ اپنے شوہرسےبھی آنکھ نہیں ملاپاتی۔شاعری میں شوخ وچنچل، قاتل،بے رحم اورستم گرحسینہ تونظرآجاتی ہےلیکن اس وفا شعاراورپاکبازبیوی کادوردورتک پتانہیں جوگھرمیں چلتی پھرتی،اٹھتی بیٹھتی،کھاناتیار کرتی،شرٹ کی ٹوٹی ہوئی بٹن ٹانکتی،حسدورقابت میں جلتی ہوئی،بچوں کویونیفارم پنہاکر اسکول بھیجتی اوررات گئےتک اپنےشوہر،اپنے مجازی خداکے انتظارمیں اونگھتی اوردیرسے گھرلوٹنےپرکھاناگرم کرتی ہوئی ہوتی ہے۔ 
       ہم یہ بات مان بھی لیں کہ مغربی تہذیب میں اس عورت کاوجودکبھی نہیں رہامگر مشرق میں پائی جانےوالی اس حقیقت کوہم کیسےفرامو ش کرسکتے ہیں۔دورکیوں جایئےصرف اردو شاعری کامطالعہ کرلیجئےجو عورت کےذکرسےبھری پڑی ہے، لیکن ہمیں گھرکی عورت کہیں بھی نظرنہیں آ تی اوراگرعورت جیسی کسی مخلوق کوشاعروں نے پیش کیاہےتووہ آسمان کی حورہوکررہ گئی ہےیاایک قاتل اورخنجربکف حسینہ کی صورت اختیارکیےہوئےہے۔عورت ہمیں کہیں نہیں ملتی۔اس کےعشوہ واندازاورنازونیازکاذکرتوملتاہے لیکن اس کے تقدس،پاکیزگی، نازک جذبات واحساسات، اس کی فطری شرافت اوروفاداری کاذکرنہیں ملتا۔کیونکہ ہماری شاعری میں عورت کبھی کنوارپن سےآگے نہیں بڑھ سکی۔یعنی عورت کوکبھی اس کے اصل رنگ وروپ اورصحیح مقام سےپیش نہیں کیاگیا۔ہمیشہ اس کی صورت پہلے مسخ کی گئی، پھراسے سامنے لایاگیا۔
          اُردوشاعری میں عورت کبھی ماورائی اورقابلِ پرستش مخلوق رہی ہےاورکبھی لائقِ صد نفریں۔!میں سمجھتاہوں کہ شاعروں نےاپنی بےوفامحبوبہ  کوکبھی وفاشعاربیوی بننےکاحق  اورموقع نہیں دیا۔یہ شاعر کی بےایمانی اورحقائق سےچشم پوشی ہے
اُردوشاعری میں اس خلاکوپُرکرنےکی اوّلین کوشش فراقؔ گورکھپوری کی ہے۔نداؔ فاضلی کی توجہ بھی اس طرف ہوئی اوراحمدندیم قاسمی نے بھی عورت کےصحیح خدوخال ابھارنےکی سعی کی لیکن وہ بھی اس قتا لۂ عالم حسینہ کو صرف محبوبہ بنا سکے،اس سے شادی کرنےکی جرأت قاسمی میں بھی نہیں ہوئی۔انھوں نے البتہ اتناکیاکہ عرش کی حورکو فرش پراتارکراسےغورسےدیکھا اورلب کشاہوئے ۔
 دیکھ ری توپنگھٹ پرجاکرمیرا ذکرنہ چھیڑاکر
میں کیاجانوں وہ کیسےہیں کس کوچےمیں رہتےہیں
 میں نےکب تعریفیں کی ہیں اُن کےبانکےنینوں کی 
وہ اچھےخوش پوش جواں ہیں،میرےبھیّا کہتےہیں 
       قاسمی نےاتناتوکیاکہ شاعری کی الّھڑاورشوخ وچنچل دوشیزہ کوایک بھائی عطاکردیا لیکن وہ گھریلوعورت ہمیں پھر بھی کہیں دکھائی نہیں دیتی جس کےوجودکو اقبالؔ نےتصویرِ کائنات کارنگ کہا ہے۔ 
   ‘‘وجودِزن سے ہےتصویرِ کائنات میں رنگ۔’’ 
 لیکن اقبال کی شاعری میں زن یعنی عورت کاکوئی اہم کردار نہیں۔اکثرشاعروں نےگھرکی عورت کونظرانداز کیا۔اردوشاعری میں اس کمی کو جاں نثاراخترؔ(1974/1914) نےپوراکرنےکی کوشش کی اور شاعری میں پہلی بارایساہواکہ گھریلوعورت کوموضوعِ سخن بنایاگیا۔
     جاں نثاراخترؔکی رباعیات کا مجموعہ‘‘گھرآنگن’’ کی شاعری عائلی اورگھریلوموضوعات سے عبارت ہے۔یہ دیکھ کرخوشی ہوتی ہےکہ غالبؔ واقبالؔ اور دیگر شعرائےاردوکی نظرانداز کی ہوئی شوخ وچنچل اورسربرہنہ لڑکی کو اخترؔ نےپہلی بارسہاگن کاروپ دیااوراس سےشادی کرکے اس کےسرپردوپٹّہ ڈال کراپنے گھرلےگئےاوراس سےجی بھرکے پیارکیا۔عورت جوشاعری میں ہمیشہ ایک محبوبہ اورشراب پلانےولی (ساقی)رہی ہے،اختر نےاسےآوارگی کی دلدل سےنکال کراس کےساتھ ایک خوبصورت ساگھربسایا۔اس کےرنج وراحت کےشریک ہوئے۔اپنےدکھ سکھ میں اسےشامل کیا۔عورت کواس کاصحیح مقام اخترؔ نےدیا۔             
       ۔۔گھرآنگن۔۔کی عورت ہماری اپنی محبوب بیوی اورشریکِ حیات ہےجوہمارےدکھ سےدکھی اورہمارےسکھ سےسکھی ہے،اور جورات گئےتک ہماراانتظارکرتی، کھاناگرم کرکےہمیں پیارسےکھلا تی ہے۔دیر سےگھرآنےکی شکایت کرتی ہے۔ہم سےلڑتی جھگڑتی ہے۔روٹھتی اورمناتی ہے۔ہمارے بچوں کواسکول پہنچاتی ہے۔ہم سےلڑتی ہےاورہمیں جی جان سے ٹوٹ کرپیاربھی کرتی ہے۔ یہ عورت پھولوں کی گلابی اور سُرمئی وادیوں کےبجائےہمارے اپنےگھرمیں رہتی ہے۔      
         اخترؔکاکمال یہ ہےکہ انھوں نےعورت کواس کےتمام فطری تقاضوں اورنسائی حسن کےساتھ پیش کیاہے۔خوبیوں اور خامیوں کےساتھ۔!مکمّل ایک عورت جوشوہرکی نینداُچٹ جانےکےخوف سےاپنےکپڑوں کی سرسراہٹ بھی روک لیتی ہےاور بہت خاموشی کے ساتھ اپنے ‘‘اُن’’کوچادراڑھادیتی ہے۔ 
  کپڑ و ں کو سمیٹے ہو ئے اُ ٹھی ہے مگر
  ڈ ر تی ہے کہیں اُ ن کو نہ ہو جا ئے خبر
  تھک کرابھی سوئےہیں کہیں جاگ نہ جائیں
  د ھیر ے سے اُ ڑھا رہی ہے اُ ن کو چا د ر 
         عورت کےاندررشک وحسد اوررقابت کاجذبہ شدیدہوتاہے۔وہ برداشت نہیں کرسکتی کہ دو سراکوئی اس کےشوہرکوآنکھ بھی اٹھاکردیکھے۔شوہر سےاُس کی بےپناہ محبت کایہ بھی ایک اندازہے۔
ہرچاند نی را ت اُ س کے د ل کو د ھڑکائے 
 بھولےسےبھی کھڑکیوں کےپردے نہ ہٹائے
ڈ رتی ہے کسی وقت کو ئی شو خ کر ن
چپکے سے نہ اُ ن کے پا س آ کر سو جا ئے 
        مردگھرکےباہرکاکام کرتاہے لیکن عورت بھی ازدواجی زندگی کوخو ش گواربنانےکے لیےگھرکےاندر کچھ کم محنت نہیں کرتی۔ہم گھرکےآنگن میں اسےکام کرتےہوئےدیکھ سکتے ہیں۔وہ خنجرچلانےکےبجائے کچن کی صفائی کرتی اوربرتن مانجھتی ہےاوراپنے شوہرکا بوجھ ہلکا کرتی ہے ؂
گاتی ہوئی ہاتھوں میں یہ سنگر کی مشین
قطر و ں سے پسینے کے شر ا بو ر جبین
مصروف کسی کام میں دیکھوں جوتجھے
تو ا و ر بھی مجھ کو نظر آ تی ہے حسین
       کل کی بےنیازخنجربکف محبوبہ شادی کےبعدایسی محبت کرنےوالی شریکِ حیات بن جاتی ہےجوشوہرکےقدموں کی آہٹ پاکراپنی سُدھ بُدھ کھو بیٹھتی ہے،یہاں تک کہ اُن کے قدموں کی آہٹ سےچونک پڑتی ہےاورکچن میں توےپرجلتی ہوئی روٹی چھوڑکراپنے ہم سفر کااستقبال خوش دلی سےکرتی ہے ؂
آہٹ مرے قدموں کی جوسن پائی ہے
 بجلی سی تن بد ن میں لہر ا ئی ہے
دوڑی ہے ہراک بات کی سدھ بسراکے
روٹی، جلتی، تو ے پر چھو ڑ آ ئی ہے
       یہ کوئی ماورائی مخلوق نہیں،بلکہ ہمارےدرمیان دھرتی پرچلتی پھرتی ہوئی حساس عورت ہےجوچائےپراپنےشوہر کاانتظارکرسکتی ہےاوردیر ہونےپرطرح طرح کےوہم اورخدشات میں مبتلاہوکر بےقرارہوسکتی ہے؂
ہر ا یک گھڑ ی شا ق گز ر تی ہو گی
سو طر ح کے و ہم کر کے مر تی ہو گی
گھرجانےکی جلدی تو نہیں مجھ کومگر
و ہ چا ئے پہ ا نتظا ر کر تی ہو گی 
           گھرآنگن کی عورت مختلف اندازمیں ہمارےسامنے آتی ہے۔شریکِ حیات کی تمام ترذمّہ داریوں کےساتھ ! ؂
پانی کبھی دے رہی ہے پھلواری میں
کپڑے کبھی رکھ رہی ہے الماری میں
تو کتنی گھر یلو سی نظر آ تی ہے
لپٹی ہوئی ہاتھ کی دھلی ساری میں 
                                              ****
 ا شکوں سے بھرے نین کلا ئی سے چھپائے
 کہتی ہےمیں کیامانگوں بس اب اس کےسوائے
 جا تے ہو تو سینے سے لگا کر ا ک با ر
 یوں بھینچ لو مجھ کو کہ مرا د م گھُٹ جائے
                                                 *****
فکروں سے اُ تر گئی ہے صورت اُ ن کی
اُ لجھی ہو ئی ر ہتی ہے طبیعت اُ ن کی 
آ ئے گی سکھی کہا ں سے ہمت اُ ن میں
میں ہی نہ بندھا ؤں گی جوہمت اُ ن کی
       جاں نثاراخترؔ کی ر باعیوں میں خالص ہندوستانی تہذیب وتمدن اورعام گھریلوزندگی کے نشیب وفرازکی جھلکیاں پوری آب وتاب کےساتھ نظرآتی ہیں۔اُن کےاُسلوب میں آبشارکی سی ترنم ریزی ہے۔ڈاکٹر زیبامحمود لکھتی ہیں:
         ‘‘جاں نثاراخترکےفن پارےاس امرکی تصدیق کرتےنظرآتےہیں کہ انسان جذبات وخیالات کامجموعہ ہے۔جاں نثار اخترکی شخصیت رومان پرور ہے۔اُن کےرومانی خیالات میں جوخلوصِ درداورترنّم ملتاہےوہ اُن کی اپنی یادوں کامرہونِ منت ہے۔جاں نثاراخترجہاں ایک طرف مارکسی فکرونظرسےمرعوب نظرآتےہیں تودوسری طرف ہندیائی عناصرکی خوشبوسے بھی اُن کاکلام معطّر ہے۔وہ ڈاکٹرکشورسلطانہ کی تحریرکے حوالےسےکہتی ہیں کہ غالب نے اُردوزبان کوسلیس اُسلوبِ بیان عطاکیاہےاور مراسلہ کومکالمہ بنادیاہے۔جاں نثاراخترنےاپنی نظم کومکالمہ بنادیاہے۔اُنھوں نے اپنی شاعری میں جدیدروش اختیارکرکےسادگی اور سلاست کےایسےخوشنمابیل بوٹےکھلائے ہیں جنھیں اُردوشاعری کی زینت کہاجاسکتاہے۔’’ 
      زیبا محمودلکھتی ہیں کہ ‘‘بنیادی طورپروہ محبت کے شاعرہیں اورامن ومحبت اُن کاپسندیدہ موضوع ہے۔بیان کی سادگی،صداقت وسلاست سے مزین ہے،اُن کا اندازِبیان دل پزیر ہے۔رومانی جذبات نگاری میں سماجی شعورسمونےمیں اُن کو یدِطولیٰ حاصل ہےاوراس اعتبار سےاُن کی شاعری میں رومان کا ایک نمایاں اورمربوط پہلوسامنے آیاہے......جاں نثاراخترکی رومانیت یک رخی نہیں بلکہ ہشت پہلونگینےکی وقعت رکھتی ہےجس سےمعنی ومفہوم کی شعاعیں پھوٹتی نظرآتی ہیں۔اُن کی شاعری میں اُن کا دھیمالہجہ رومانی تلخی میں شرابور ہے۔جاں نثاراخترکی شاعری کی دنیاپُرکیف کیفیات کا اظہارہےاورجب وہ سیاسی اور انقلابی میدان میں قدم رکھتے ہیں تواُن کی شاعری اُن کے فطری مزاج سے ہم آہنگ نظرآتی ہےاوراُن کافطری رجحان لفظیات پرحاوی ہے۔اُنھوں نے رومان اور انقلاب کےاحساس کوانتہائی خوبصورت جمالیاتی پیکرعطا کیاہےجواُن کی شاعرانہ شخصیت کی تشکیل میں اساسی اہمیت رکھتاہے۔اُن کی شاعری میں ایک صاحبِ دل کا جوش وخروش ہےاوراُن کی شعری صدامیں عزم واستقلال کی گونج ہے۔درحقیقت وہی فن پارہ پائدارہوتاہےجومحض فن کے معیارپرنہیں بلکہ زندگی کی کسوٹی پربھی پورااُترےاورجاں نثاراخترنےاپنےفن پاروں میں رومان اورافادیت دونوں کو ملحوظ رکھاہے۔زندگی کی صداقتوں سےلبریزاُن کےشعری فن پارےگراں قدراہمیت کےحامل ہیں اوراس دورکی حسیت کے بھر پورترجمان بھی۔رومانیت کی تواناآوازبھی۔جس میں شدت بھی ہےاوردل بستگی بھی ۔’’
    ‘‘انتقادیات،،ص،73/68۔۔ڈاکٹرزیبا محمود) 
         جاں نثاراخترکاشعری اُسلوب نہایت نرم مگرتواناہے۔وہ انقلاب کی بات بھی کرتےہیں تو بہت نرم لہجے میں۔ترقی پسند شاعرہونےکےباوجوداُن کی شاعری میں گھن گرج نہیں بلکہ شیتل پانی کی پُرسکون طراوت ہے۔ایک برفیلی آگ ہےجواُن کے شعری پیکروں میں آتش فشانی کرتی ہے۔بلاشبہ وہ محبت کے نغمہ نگارہیں۔محبت کی دیوی کےپجاری ہیں۔سب سےبڑی اور اہم بات یہ ہےکہ دوسرےشاعروں کی طرح اُنھیں کسی خیالی محبوبہ کی بھی ضرورت نہیں۔وہ مقدرکےسکندرتھےکہ صفیہ باجی(مجازؔ کی بہن) جیسی محبت کرنےوالی ہم سفربیوی ملیں جو ہمیشہ اُن کےحوصلوں کوتقویت دیتی رہیں۔اُن کی رحلت کےبعدجاں نثاراخترکو خدیجہ،آپاجیسی چاہنےوالی شریکِ حیات ملیں۔اُن کےجیسا خوش نصیب شاعرکون ہوگا۔ان ، حالات میں اگروہ آتش وآہن کی بات کرتےتوواقعی تعجب ہوتا۔ 
تو د یش کے مہکے ہو ئے آ نچل میں پلی 
 ہرسوچ ہےخوشبوؤں کےسانچےمیں ڈھلی
ہا تھو ں کو یہ جو ڑ نے کا د ل کش ا نداز
ڈ ا لی پہ کنو ل کی جس طر ح بند کلی 
                                               ****
 یہ تیر ا سبھا ؤ یہ سلیقہ یہ سر و پ
 لہجےکی یہ چھاؤں،گرم جذبوں کی یہ د ھوپ
 سیتا بھی ، شکنتلا بھی ، ر ا د ھا بھی تو
 یگ یگ سے بد لتی آ ئی ہے تو ر و پ
      درج بالارباعیات کےمطالعہ کےبعدہم یہ کہہ سکتےہیں کہ اردوشاعری میں پہلی بارعورت کواس کےاصلی اورنسائی روپ میں پیش کرنےکی ایک کامیاب اور فعال کوشش کی گئی ہےاور یہ جاں نثاراخترؔ کاحصّہ ہے۔             
       سردارؔ جعفری،ساحرؔلدھیا نوی،مخدوم محی الدین اوراخترؔ الایمان جیسےبلندآہنگ شاعروں کےدرمیان رہ کراپنی شاعری کو گھن گرج سےبچانامشکل تھا لیکن یہ مرحلہ بھی اُنھوں نے سرکیا۔ان کی شاعری چاندنی کی طرح ٹھنڈی اور پانی کی طرح شیتل ہے،پہاڑی ندی کی طرح پُرشور نہیں بلکہ سمندر کی طرح پُرسکون اور گمبھیر۔! 
                                 *******    

      ٭ انس مسرورؔانصاری

قومی اُردوتحریک فاؤنڈیشن(انڈیا)
                 رابطہ:۔ ب9453347784/

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...