Powered By Blogger

اتوار, ستمبر 10, 2023

** گھرآنگن کی شاعری***
اردودنیانیوز۷۲ 
      ✍️       ٭ انس مسرورؔانصاری 

           ہندوستان کی مہذ ب زبانوں میں شاعری کےبیشتر حصّےعورت کےذکرسےعبارت ہیں لیکن جیساکہ ‘‘گھرآنگن’’میں کرشن چند ر نےلکھاہے:
          ‘‘شاعراپنی محبوبہ کو جنگل جنگل،صحراصحراتلاش کرتاہےمگرکبھی وہاں نہیں تلاش کرتاجہاں وہ پائی جاتی ہے۔یعنی اپنےگھرمیں۔مزاحیہ یاطنزیہ شاعری میں گھرکی عورت کاذکر آتاہےلیکن اس تذکرےمیں عورت ہدفِ ملامت بن کراُبھرتی ہے۔رزمیہ شاعری میں عورت ایک نرس ہےیاروتی پیٹتی بیوہ ہے، بےبس اورمجبور،ماحول حشر کاہے،گھرکانہیں۔فلسفیانہ شاعری میں بالعموم عرش کےمسائل سے بحث کی جاتی ہےاور عورت بالعموم گھرکےفرش پرکام کرتی ہوئی پائی جاتی ہے۔کبھی کبھی فلسفی شاعرعورت کاذکرکردیتے ہیں تواکثراوقات اُس کی متلؤن مزاجی کاگلہ بھی کرتےہیں۔کیوں کہ عظیم فلسفیانہ شاعری صرف مردوں نےکی ہے۔اس لیےاُنہیں  حق پہنچتاہےکہ جوچاہیں کہہ دیں۔عورت تک فلسفی شاعرکے افکارنہی پہنچتے،کیونکہ وہ اُس کاکھاناتیارکرنےمیں مصروف ہوتی ہے۔’’ 
      کرشن چندرکایہ تبصرہ حقائق پرمبنی ہے۔یہ خلاء نہ صرف ہندوستانی زبانوں میں پایاجاتاہےبلکہ دنیا کی قدیم وجدیدزبانوں کی شاعری،گھر آنگن کےموضوع سےتقریباّّ محروم ہے۔ہم دنیابھرکی شاعری میں عورت کوڈرائنگ روم یا کافی ہاؤس میں مشروبات سے شغل کرتےہوئے،پرائے مردوں سےہنس ہنس کرباتیں کرتے ہوئے،کئی روپ میں دیکھ سکتے ہیں لیکن ہمیں وہ عورت کہیں نظرنہیں آتی جواپنی فطری حیا وشرم کےباعث بعض مرتبہ اپنے شوہرسےبھی آنکھ نہیں ملاپاتی۔شاعری میں شوخ وچنچل، قاتل،بے رحم اورستم گرحسینہ تونظرآجاتی ہےلیکن اس وفا شعاراورپاکبازبیوی کادوردورتک پتانہیں جوگھرمیں چلتی پھرتی،اٹھتی بیٹھتی،کھاناتیار کرتی،شرٹ کی ٹوٹی ہوئی بٹن ٹانکتی،حسدورقابت میں جلتی ہوئی،بچوں کویونیفارم پنہاکر اسکول بھیجتی اوررات گئےتک اپنےشوہر،اپنے مجازی خداکے انتظارمیں اونگھتی اوردیرسے گھرلوٹنےپرکھاناگرم کرتی ہوئی ہوتی ہے۔ 
       ہم یہ بات مان بھی لیں کہ مغربی تہذیب میں اس عورت کاوجودکبھی نہیں رہامگر مشرق میں پائی جانےوالی اس حقیقت کوہم کیسےفرامو ش کرسکتے ہیں۔دورکیوں جایئےصرف اردو شاعری کامطالعہ کرلیجئےجو عورت کےذکرسےبھری پڑی ہے، لیکن ہمیں گھرکی عورت کہیں بھی نظرنہیں آ تی اوراگرعورت جیسی کسی مخلوق کوشاعروں نے پیش کیاہےتووہ آسمان کی حورہوکررہ گئی ہےیاایک قاتل اورخنجربکف حسینہ کی صورت اختیارکیےہوئےہے۔عورت ہمیں کہیں نہیں ملتی۔اس کےعشوہ واندازاورنازونیازکاذکرتوملتاہے لیکن اس کے تقدس،پاکیزگی، نازک جذبات واحساسات، اس کی فطری شرافت اوروفاداری کاذکرنہیں ملتا۔کیونکہ ہماری شاعری میں عورت کبھی کنوارپن سےآگے نہیں بڑھ سکی۔یعنی عورت کوکبھی اس کے اصل رنگ وروپ اورصحیح مقام سےپیش نہیں کیاگیا۔ہمیشہ اس کی صورت پہلے مسخ کی گئی، پھراسے سامنے لایاگیا۔
          اُردوشاعری میں عورت کبھی ماورائی اورقابلِ پرستش مخلوق رہی ہےاورکبھی لائقِ صد نفریں۔!میں سمجھتاہوں کہ شاعروں نےاپنی بےوفامحبوبہ  کوکبھی وفاشعاربیوی بننےکاحق  اورموقع نہیں دیا۔یہ شاعر کی بےایمانی اورحقائق سےچشم پوشی ہے
اُردوشاعری میں اس خلاکوپُرکرنےکی اوّلین کوشش فراقؔ گورکھپوری کی ہے۔نداؔ فاضلی کی توجہ بھی اس طرف ہوئی اوراحمدندیم قاسمی نے بھی عورت کےصحیح خدوخال ابھارنےکی سعی کی لیکن وہ بھی اس قتا لۂ عالم حسینہ کو صرف محبوبہ بنا سکے،اس سے شادی کرنےکی جرأت قاسمی میں بھی نہیں ہوئی۔انھوں نے البتہ اتناکیاکہ عرش کی حورکو فرش پراتارکراسےغورسےدیکھا اورلب کشاہوئے ۔
 دیکھ ری توپنگھٹ پرجاکرمیرا ذکرنہ چھیڑاکر
میں کیاجانوں وہ کیسےہیں کس کوچےمیں رہتےہیں
 میں نےکب تعریفیں کی ہیں اُن کےبانکےنینوں کی 
وہ اچھےخوش پوش جواں ہیں،میرےبھیّا کہتےہیں 
       قاسمی نےاتناتوکیاکہ شاعری کی الّھڑاورشوخ وچنچل دوشیزہ کوایک بھائی عطاکردیا لیکن وہ گھریلوعورت ہمیں پھر بھی کہیں دکھائی نہیں دیتی جس کےوجودکو اقبالؔ نےتصویرِ کائنات کارنگ کہا ہے۔ 
   ‘‘وجودِزن سے ہےتصویرِ کائنات میں رنگ۔’’ 
 لیکن اقبال کی شاعری میں زن یعنی عورت کاکوئی اہم کردار نہیں۔اکثرشاعروں نےگھرکی عورت کونظرانداز کیا۔اردوشاعری میں اس کمی کو جاں نثاراخترؔ(1974/1914) نےپوراکرنےکی کوشش کی اور شاعری میں پہلی بارایساہواکہ گھریلوعورت کوموضوعِ سخن بنایاگیا۔
     جاں نثاراخترؔکی رباعیات کا مجموعہ‘‘گھرآنگن’’ کی شاعری عائلی اورگھریلوموضوعات سے عبارت ہے۔یہ دیکھ کرخوشی ہوتی ہےکہ غالبؔ واقبالؔ اور دیگر شعرائےاردوکی نظرانداز کی ہوئی شوخ وچنچل اورسربرہنہ لڑکی کو اخترؔ نےپہلی بارسہاگن کاروپ دیااوراس سےشادی کرکے اس کےسرپردوپٹّہ ڈال کراپنے گھرلےگئےاوراس سےجی بھرکے پیارکیا۔عورت جوشاعری میں ہمیشہ ایک محبوبہ اورشراب پلانےولی (ساقی)رہی ہے،اختر نےاسےآوارگی کی دلدل سےنکال کراس کےساتھ ایک خوبصورت ساگھربسایا۔اس کےرنج وراحت کےشریک ہوئے۔اپنےدکھ سکھ میں اسےشامل کیا۔عورت کواس کاصحیح مقام اخترؔ نےدیا۔             
       ۔۔گھرآنگن۔۔کی عورت ہماری اپنی محبوب بیوی اورشریکِ حیات ہےجوہمارےدکھ سےدکھی اورہمارےسکھ سےسکھی ہے،اور جورات گئےتک ہماراانتظارکرتی، کھاناگرم کرکےہمیں پیارسےکھلا تی ہے۔دیر سےگھرآنےکی شکایت کرتی ہے۔ہم سےلڑتی جھگڑتی ہے۔روٹھتی اورمناتی ہے۔ہمارے بچوں کواسکول پہنچاتی ہے۔ہم سےلڑتی ہےاورہمیں جی جان سے ٹوٹ کرپیاربھی کرتی ہے۔ یہ عورت پھولوں کی گلابی اور سُرمئی وادیوں کےبجائےہمارے اپنےگھرمیں رہتی ہے۔      
         اخترؔکاکمال یہ ہےکہ انھوں نےعورت کواس کےتمام فطری تقاضوں اورنسائی حسن کےساتھ پیش کیاہے۔خوبیوں اور خامیوں کےساتھ۔!مکمّل ایک عورت جوشوہرکی نینداُچٹ جانےکےخوف سےاپنےکپڑوں کی سرسراہٹ بھی روک لیتی ہےاور بہت خاموشی کے ساتھ اپنے ‘‘اُن’’کوچادراڑھادیتی ہے۔ 
  کپڑ و ں کو سمیٹے ہو ئے اُ ٹھی ہے مگر
  ڈ ر تی ہے کہیں اُ ن کو نہ ہو جا ئے خبر
  تھک کرابھی سوئےہیں کہیں جاگ نہ جائیں
  د ھیر ے سے اُ ڑھا رہی ہے اُ ن کو چا د ر 
         عورت کےاندررشک وحسد اوررقابت کاجذبہ شدیدہوتاہے۔وہ برداشت نہیں کرسکتی کہ دو سراکوئی اس کےشوہرکوآنکھ بھی اٹھاکردیکھے۔شوہر سےاُس کی بےپناہ محبت کایہ بھی ایک اندازہے۔
ہرچاند نی را ت اُ س کے د ل کو د ھڑکائے 
 بھولےسےبھی کھڑکیوں کےپردے نہ ہٹائے
ڈ رتی ہے کسی وقت کو ئی شو خ کر ن
چپکے سے نہ اُ ن کے پا س آ کر سو جا ئے 
        مردگھرکےباہرکاکام کرتاہے لیکن عورت بھی ازدواجی زندگی کوخو ش گواربنانےکے لیےگھرکےاندر کچھ کم محنت نہیں کرتی۔ہم گھرکےآنگن میں اسےکام کرتےہوئےدیکھ سکتے ہیں۔وہ خنجرچلانےکےبجائے کچن کی صفائی کرتی اوربرتن مانجھتی ہےاوراپنے شوہرکا بوجھ ہلکا کرتی ہے ؂
گاتی ہوئی ہاتھوں میں یہ سنگر کی مشین
قطر و ں سے پسینے کے شر ا بو ر جبین
مصروف کسی کام میں دیکھوں جوتجھے
تو ا و ر بھی مجھ کو نظر آ تی ہے حسین
       کل کی بےنیازخنجربکف محبوبہ شادی کےبعدایسی محبت کرنےوالی شریکِ حیات بن جاتی ہےجوشوہرکےقدموں کی آہٹ پاکراپنی سُدھ بُدھ کھو بیٹھتی ہے،یہاں تک کہ اُن کے قدموں کی آہٹ سےچونک پڑتی ہےاورکچن میں توےپرجلتی ہوئی روٹی چھوڑکراپنے ہم سفر کااستقبال خوش دلی سےکرتی ہے ؂
آہٹ مرے قدموں کی جوسن پائی ہے
 بجلی سی تن بد ن میں لہر ا ئی ہے
دوڑی ہے ہراک بات کی سدھ بسراکے
روٹی، جلتی، تو ے پر چھو ڑ آ ئی ہے
       یہ کوئی ماورائی مخلوق نہیں،بلکہ ہمارےدرمیان دھرتی پرچلتی پھرتی ہوئی حساس عورت ہےجوچائےپراپنےشوہر کاانتظارکرسکتی ہےاوردیر ہونےپرطرح طرح کےوہم اورخدشات میں مبتلاہوکر بےقرارہوسکتی ہے؂
ہر ا یک گھڑ ی شا ق گز ر تی ہو گی
سو طر ح کے و ہم کر کے مر تی ہو گی
گھرجانےکی جلدی تو نہیں مجھ کومگر
و ہ چا ئے پہ ا نتظا ر کر تی ہو گی 
           گھرآنگن کی عورت مختلف اندازمیں ہمارےسامنے آتی ہے۔شریکِ حیات کی تمام ترذمّہ داریوں کےساتھ ! ؂
پانی کبھی دے رہی ہے پھلواری میں
کپڑے کبھی رکھ رہی ہے الماری میں
تو کتنی گھر یلو سی نظر آ تی ہے
لپٹی ہوئی ہاتھ کی دھلی ساری میں 
                                              ****
 ا شکوں سے بھرے نین کلا ئی سے چھپائے
 کہتی ہےمیں کیامانگوں بس اب اس کےسوائے
 جا تے ہو تو سینے سے لگا کر ا ک با ر
 یوں بھینچ لو مجھ کو کہ مرا د م گھُٹ جائے
                                                 *****
فکروں سے اُ تر گئی ہے صورت اُ ن کی
اُ لجھی ہو ئی ر ہتی ہے طبیعت اُ ن کی 
آ ئے گی سکھی کہا ں سے ہمت اُ ن میں
میں ہی نہ بندھا ؤں گی جوہمت اُ ن کی
       جاں نثاراخترؔ کی ر باعیوں میں خالص ہندوستانی تہذیب وتمدن اورعام گھریلوزندگی کے نشیب وفرازکی جھلکیاں پوری آب وتاب کےساتھ نظرآتی ہیں۔اُن کےاُسلوب میں آبشارکی سی ترنم ریزی ہے۔ڈاکٹر زیبامحمود لکھتی ہیں:
         ‘‘جاں نثاراخترکےفن پارےاس امرکی تصدیق کرتےنظرآتےہیں کہ انسان جذبات وخیالات کامجموعہ ہے۔جاں نثار اخترکی شخصیت رومان پرور ہے۔اُن کےرومانی خیالات میں جوخلوصِ درداورترنّم ملتاہےوہ اُن کی اپنی یادوں کامرہونِ منت ہے۔جاں نثاراخترجہاں ایک طرف مارکسی فکرونظرسےمرعوب نظرآتےہیں تودوسری طرف ہندیائی عناصرکی خوشبوسے بھی اُن کاکلام معطّر ہے۔وہ ڈاکٹرکشورسلطانہ کی تحریرکے حوالےسےکہتی ہیں کہ غالب نے اُردوزبان کوسلیس اُسلوبِ بیان عطاکیاہےاور مراسلہ کومکالمہ بنادیاہے۔جاں نثاراخترنےاپنی نظم کومکالمہ بنادیاہے۔اُنھوں نے اپنی شاعری میں جدیدروش اختیارکرکےسادگی اور سلاست کےایسےخوشنمابیل بوٹےکھلائے ہیں جنھیں اُردوشاعری کی زینت کہاجاسکتاہے۔’’ 
      زیبا محمودلکھتی ہیں کہ ‘‘بنیادی طورپروہ محبت کے شاعرہیں اورامن ومحبت اُن کاپسندیدہ موضوع ہے۔بیان کی سادگی،صداقت وسلاست سے مزین ہے،اُن کا اندازِبیان دل پزیر ہے۔رومانی جذبات نگاری میں سماجی شعورسمونےمیں اُن کو یدِطولیٰ حاصل ہےاوراس اعتبار سےاُن کی شاعری میں رومان کا ایک نمایاں اورمربوط پہلوسامنے آیاہے......جاں نثاراخترکی رومانیت یک رخی نہیں بلکہ ہشت پہلونگینےکی وقعت رکھتی ہےجس سےمعنی ومفہوم کی شعاعیں پھوٹتی نظرآتی ہیں۔اُن کی شاعری میں اُن کا دھیمالہجہ رومانی تلخی میں شرابور ہے۔جاں نثاراخترکی شاعری کی دنیاپُرکیف کیفیات کا اظہارہےاورجب وہ سیاسی اور انقلابی میدان میں قدم رکھتے ہیں تواُن کی شاعری اُن کے فطری مزاج سے ہم آہنگ نظرآتی ہےاوراُن کافطری رجحان لفظیات پرحاوی ہے۔اُنھوں نے رومان اور انقلاب کےاحساس کوانتہائی خوبصورت جمالیاتی پیکرعطا کیاہےجواُن کی شاعرانہ شخصیت کی تشکیل میں اساسی اہمیت رکھتاہے۔اُن کی شاعری میں ایک صاحبِ دل کا جوش وخروش ہےاوراُن کی شعری صدامیں عزم واستقلال کی گونج ہے۔درحقیقت وہی فن پارہ پائدارہوتاہےجومحض فن کے معیارپرنہیں بلکہ زندگی کی کسوٹی پربھی پورااُترےاورجاں نثاراخترنےاپنےفن پاروں میں رومان اورافادیت دونوں کو ملحوظ رکھاہے۔زندگی کی صداقتوں سےلبریزاُن کےشعری فن پارےگراں قدراہمیت کےحامل ہیں اوراس دورکی حسیت کے بھر پورترجمان بھی۔رومانیت کی تواناآوازبھی۔جس میں شدت بھی ہےاوردل بستگی بھی ۔’’
    ‘‘انتقادیات،،ص،73/68۔۔ڈاکٹرزیبا محمود) 
         جاں نثاراخترکاشعری اُسلوب نہایت نرم مگرتواناہے۔وہ انقلاب کی بات بھی کرتےہیں تو بہت نرم لہجے میں۔ترقی پسند شاعرہونےکےباوجوداُن کی شاعری میں گھن گرج نہیں بلکہ شیتل پانی کی پُرسکون طراوت ہے۔ایک برفیلی آگ ہےجواُن کے شعری پیکروں میں آتش فشانی کرتی ہے۔بلاشبہ وہ محبت کے نغمہ نگارہیں۔محبت کی دیوی کےپجاری ہیں۔سب سےبڑی اور اہم بات یہ ہےکہ دوسرےشاعروں کی طرح اُنھیں کسی خیالی محبوبہ کی بھی ضرورت نہیں۔وہ مقدرکےسکندرتھےکہ صفیہ باجی(مجازؔ کی بہن) جیسی محبت کرنےوالی ہم سفربیوی ملیں جو ہمیشہ اُن کےحوصلوں کوتقویت دیتی رہیں۔اُن کی رحلت کےبعدجاں نثاراخترکو خدیجہ،آپاجیسی چاہنےوالی شریکِ حیات ملیں۔اُن کےجیسا خوش نصیب شاعرکون ہوگا۔ان ، حالات میں اگروہ آتش وآہن کی بات کرتےتوواقعی تعجب ہوتا۔ 
تو د یش کے مہکے ہو ئے آ نچل میں پلی 
 ہرسوچ ہےخوشبوؤں کےسانچےمیں ڈھلی
ہا تھو ں کو یہ جو ڑ نے کا د ل کش ا نداز
ڈ ا لی پہ کنو ل کی جس طر ح بند کلی 
                                               ****
 یہ تیر ا سبھا ؤ یہ سلیقہ یہ سر و پ
 لہجےکی یہ چھاؤں،گرم جذبوں کی یہ د ھوپ
 سیتا بھی ، شکنتلا بھی ، ر ا د ھا بھی تو
 یگ یگ سے بد لتی آ ئی ہے تو ر و پ
      درج بالارباعیات کےمطالعہ کےبعدہم یہ کہہ سکتےہیں کہ اردوشاعری میں پہلی بارعورت کواس کےاصلی اورنسائی روپ میں پیش کرنےکی ایک کامیاب اور فعال کوشش کی گئی ہےاور یہ جاں نثاراخترؔ کاحصّہ ہے۔             
       سردارؔ جعفری،ساحرؔلدھیا نوی،مخدوم محی الدین اوراخترؔ الایمان جیسےبلندآہنگ شاعروں کےدرمیان رہ کراپنی شاعری کو گھن گرج سےبچانامشکل تھا لیکن یہ مرحلہ بھی اُنھوں نے سرکیا۔ان کی شاعری چاندنی کی طرح ٹھنڈی اور پانی کی طرح شیتل ہے،پہاڑی ندی کی طرح پُرشور نہیں بلکہ سمندر کی طرح پُرسکون اور گمبھیر۔! 
                                 *******    

      ٭ انس مسرورؔانصاری

قومی اُردوتحریک فاؤنڈیشن(انڈیا)
                 رابطہ:۔ ب9453347784/

کوئی تبصرے نہیں:

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...