Powered By Blogger

پیر, جنوری 15, 2024

مقامی ملی و رفاہی تنظیم تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ و پلاسی ارریہ

مقامی ملی و رفاہی تنظیم تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ و پلاسی ارریہ ہرموقع اور ناگزیر حالات کے موقع پر ملی رفاہی اور فلاحی امور کو انجام دینے کی کوششیں کرتی رہتی ہے 
Urduduniyanews72 
موسم سرما کے موقع پر ہرسال ضرورت مندوں تک گرم ملبوسات پہنائے جانے کا مکمل نظام بناتی ہے اور ان کے گھروں تک سامان ضرورت تنظیم کے کیڈر کے ذریعہ پہنچایا جاتا رہا ہے 
اس بار موسم سرما میں گرم کپڑوں کے انتظامات میں جوکی ہاٹ کے جن دوکانداروں اور مخیر حضرات نے غرباء کی حاجت روائی کے لئے گرم ملبوسات عطاء کیا ان میں حافظ محمد قیصر حافظ محمد سلمان، مولانا محمد رضوان، امیرجماعت حاجی مرغوب صاحب، محمد توحید، مولانا محمد مرشد، محمد شعیب، مفتی محمد ارشد مظاہری، محمد منظر، حاجی حافظ ابوطالب، حاجی جسیم الدین، مولانا محمد صابر، محمد منا، محمد ارشاد، محمد خالد، حافظ عبدالرحیم، محمد اقبال، حافظ عبدالواحد، حاجی محمد مظفر، حاجی عبدالصمد، مولانا عبداللہ سالم قمر قاسمی، محمد داؤد عالم، محمد خالد، ابوطالب بن محمد سرور، محمد افتخار، حاجی محمد شمیم، مولانا محمد شعیب، محمد عاشق، محمد تہذیب،  حافظ محمد افروز، 
وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں اور بھی افراد ہیں جن کا نام ذکر نہیں کیا گیا ہے 
اپنی تنظیم کی جانب سے مذکورہ دوکانداروں کا دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہوئے شکریہ ادا کرتا ہوں ، 
اس موقع پر مفتی محمد اطہر حسین قاسمی، قاری ایم رحمانی، مفتی محمد نعیم، عبدالقدوس راہی پریس، مولانا عبدالسلام عادل ندوی، مولانا محمد نوشاد مظاہری، مولانا شعیب مظاہری، عبدالحق عظیمی، حافظ سعود عالم، مولانا محمد رضوان، قاری محمد منظور، مولانا فیاض احمد راہی، قاری امتیاز، محمد توحید، حافظ محمد معصوم، حافظ محمد قیصر، حافظ عبدالحلیم، حافظ عبدالرحیم، حافظ مبشر، حافظ محمد اسلم، حافظ محمد جعفر، عظمت اللہ فیضی، وغیرہ شامل رہے

*****گلزار کی کہانی‘‘حساب کتاب’’******

******گلزار کی کہانی‘‘حساب کتاب’’******
Urduduniyanews72                            * انس مسرورانصاری

       عرصہ قبل اسّی کےدہےمیں گلزارکی نظموں کومیں
نےہندی میں پڑھاتھا۔ان نظموں کی سحرانگیزی کے اثرات اب تک میرےذہن میں تازہ ہیں،لیکن دودھ سے دھلی ہوئی ان نظموں کامطالعہ وتجزیہ مقصودنہیں ہے۔تذکرہ ‘‘راوی پار’’کاہےجوگلزارکی کہانیوں کامجموعہ ہے،بلکہ اس مجموعہ میں شامل گلزارکی ایک کہانی ‘‘حساب کتاب’’کاہے۔فلم نگری ہو یاشعروادب،گلزارکے آرٹ اورفن کےمظاہرپوری توانائی کےساتھ نظرآتےہیں ۔
‘‘حساب کتاب’’بظاہرایک معمولی اورغیر اہم سی کہانی لگتی ہے،جیساکہ گوپی چند نارنگ نے ‘‘راوی پار’’ کی اکثرکہانیوں کاجائزہ لیتےاورتبصرہ کرتےہوئے اس کہانی کونظرانداز کردیا۔ 
      گلزارکی جل پریاں(کہانیاں)فکشن نگاری میں انہیں ایک امتیازی مقام دلاتی ہیں۔روایت کےاحترام کے ساتھ سادہ اسلوب اوردل کش بیانیہ ان کی شناخت ہے۔انہیں  کہانی کہنےکاہنرآتاہے۔اپنےتخلیقی اظہارکےمحرکات و عوامل کےتعلق سےلکھتےہیں: 
            ‘‘افسانہ لکھنےکےلیےصبرکی ضرورت پڑتی ہے،جواس عمرمیں چاہےمل بھی جائےمگراس(بڑی)عمر میں بہت مشکل سےملتاہے۔کچھ اس طرح افسانہ نگاری شروع کی۔ہنرمندتوبہرحال کہیں نہ ثابت ہوئے،لیکن روزگارکی ضرورت کےتحت نثراس قدرلکھنی اور پڑھنی پڑی کہ شاعری گوشہ نشینی کی وجہ بن گئی۔جب بھی فلم اسکرپٹ اورمکالموں سےبھاگےتوشعرکی کٹیامیں پناہ لی۔گانےاتنےکبھی نہیں تھےلکھنےکے لیے۔اس لیے شاعری دھیمی دھیمی آنچ پرپکتی رہی۔ 
         افسانوں کایوں ہواکہ دورےکی طرح پڑتےتھے۔کبھی لمبےسفرپرنکلےتوکوئی افسانہ اپنی پوری تشکیل کےساتھ سامنےآگیا۔کبھی گاہے بہ گاہے لکھی ڈائری دہراتےہوئےصفحوں میں رکھامل گیا۔فلم اسکرپٹ لکھتے ہوئےکوئی نیاکردارسوجھایامشاہدے میں آیاتوجی چاہا اس پرافسانہ لکھیں،یااسکرپٹ کرتےہوئےبڑی انوکھی سچویشن پیداہوگئی۔انسانی زندگی کی جھلک روبرو آگئی،انسا نی رشتوں کی کوئی نئی پرت کھل گئی تو اس پرافسانہ لکھ لیا۔جوفلم میں نہیں سمایااسے الگ سےجمع کرلیا۔کچھ افسانےیوں ہوئےکہ پھوڑوں کی طرح نکلے۔وہ حالات،ماحول اورسوسائٹی کےدیئے ہوئے تھے۔کبھی نظم کہہ کےخون تھوک لیااورکبھی افسانہ لکھ کرزخم پرپٹّی باندھ لی۔مگر ایک بات ہے،نظم ہویا  افسانہ،ان سےعلاج نہیں ہوتا۔وہ آہ بھی ہیں،چیخ بھی،دُہائی بھی مگرانسانی زندگی کےدردکاعلاج نہیں ہیں۔’’ (راوی پار،،ص،18) 
       اُردوفکشن نگاری میں گلزارکانام زیادہ روشن نہیں ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہےکہ وہ بہت بعدمیں آئے ہیں۔فلمی شہرت اورمقبولیت نےان کی تخلیقات کی طرف لوگوں کومتوجہ کیا۔ایسانہیں ہےکہ گلزارکی شاعری یافکشن نگاری کمزورہےبلکہ ادب کی دنیا میں ان کی تشہیرکم ہوئی۔اپنے اسلوب اورتکنیک کےاعتبار سےان کی کہانی ‘‘بمل دا’’انفرادیت کااحساس دلاتی ہے۔‘‘راوی پار’’ میں مختلف النو ع موضوعات پران کی بہت اچھی کہانیاں موجودہیں اوردعوتِ فکرونظردیتی ہیں۔گلزاراوران کی کہانیوں کاذکرکرتےہوئےصلاح الدین پرویز لکھتے ہیں:
        ‘‘..ــــ.....میرےاوراس کےدرمیان ایک عظیم رشتہ ہےاوروہ رشتہ ہےخوشبواورپانچ ہزارسال کا.....اوراس پانچ ہزارسال پرانےآدمی کااردوسےوہی تعلق ہے جو سمندرکاموجوں سےہوتاہے،جومیرؔکاغم سےاورغالبؔ کامئےسےتھا.....یہ آدمی یوں تو عمرکے حساب سےمجھ سےبہت بڑاہے،لیکن میرادوست ہے......نہیں ،نہیں،وہ میرا دوست نہیں بلکہ اس کی شاعری میری دوست ہے،اس نےاردومیں جتنی اچھی،سچی شاعری کی ہےاورکہانی لکھی ہے،اس کی اسے دادنہیں ملی.....اس کی ایک وجہ نام نہادنقادوں کی گروہ بندی،غیرضروری فہرست سازی اورمدیروں کاتجاہل اورستم شعاری بھی ہوسکتی ہے...یااس کی وجہ کہیں وہ دنیاتونہیں جس میں وہ آج بھی مقیم ہے۔کاش،وہ میری طرح،میری دنیامیں،میرے گھر،میرےساتھ،رہنےلگے،کاش،یہ میرا بےربط مضمون پڑھ کراردوکےقارئین،اس سے وہ محبت کرنے لگیں جس  کاوہ مستحق ہے۔سچ کہتاہوں اگر آج کے تین،چارسچے شاعروں اورکہانی کاروں کانام لیاجائےتواس کانام ان میں سےایک ہوگا۔بس انہیں اس عینک کی ضرورت ہوگی جواس کےلگی ہوئی ہےاوروہ اس لیےکہ اس کے پاس ایک ان دیکھی خوشبواورپانچ ہزارسال ہیں۔۔۔۔لیکن اس وقت مسئلہ تواس کی عینک کاہےجومیرے خیال میں جل پریاں اٹھاکرلےگئی ہیں ....ائے جل پریو!کیاتم گلزارکی عینک واپس نہیں کروگی.....؟ 
      ارے میں یہ کیالکھ گیا،اصل میں یہ جل پریاں ہی توگلزارکی نظمیں اور کہانیاں ہیں۔گلزاربھائی!آپ نے سچ کہاتھا.....ایک ایک جل پری کی عمر پانچ پانچ ہزارسال ہوتی ہے........!’’ 
                  (‘‘راوی پار’’ص،15) 
گلزارکےچاہنےاورپسندکرنےوالوں کوشکایت ہےکہ فکشن اوربیانیہ ادب میں اُنہیں وہ مقام نہیں دیاگیا جس کےوہ مستحق ہیں۔اس کی ذمّہ دار ی وہ ناقدین ادب کی گروہ بندیوں پر ڈالتے ہیں۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ گلزارفکشن کی دنیا میں بہت بعدمیں آئے۔بےشک ان کی کہانیاں جل پریوں کی طرح خوبصورت ہیں،تاہم وہ اردوادب کوکوئی بڑی اورشاہکارکہانی نہیں دےسکے۔کوئی ایسی کہانی جولوگوں کے دلوں کومیوکرسکے۔کوئی ایسی کہانی جس کاذکرباربا رکیاجائےجودلوں کو اپنی گرفت میں رکھ سکے۔گلزارکی فلمی شہرت ہی نے بعض ناقدوں کوان کی طرف متوجہ کیا، ان کی کہانیوں نے نہیں۔!اس لیے یہ شکایت درست نہیں کہ انہیں نظراندازکیاگیاہے۔گلزارکی کہانیوں کاتجزیاتی مطالعہ پیش کرتےہوئےگوپی چندنارنگ لکھتے ہیں ـ:
           ‘‘گلزارکےفن کارہونےمیں شبہ نہیں،لیکن فن اورفن میں فرق ہوتا ہےاورہرفن کےتقاضےالگ ہیں۔ضروری نہیں کہ ایک زمرےکافن کاردوسرےزمرےمیں بھی اتناہی کامیاب ہو۔فلم کی شہرت اپنی جگہ،گلزار کہانی کےفن میں ایسےکھرےنکلیں گے،اس کاسان گمان بھی نہیں تھا۔’’ 
        وہ مزیدلکھتےہیں‘‘گلزارپُرفریب فنکارہے،ہرقدم پرجل دےجاتاہے۔ہرکہانی کےساتھ زندگی کااورزندگی کےتجربےکااُفق بدلتاہےاوروسیع سےوسیع ترہوتاجاتا ہے۔ 
 اکثرفلم والوں کودیکھاہےکہ جب لکھتےہیں تورومانس اورفارمولاسے باہرکم ہی قدم رکھ پاتےہیں،یعنی گھوم پھرکروہی فضاجس میں ان کی زندگی گزری ہے۔ان کے ذہن کورومانی موضوعات سےایک جکڑسی پیداہوجاتی ہےجواوّلین گناہ کی طرح ان سے چپک جاتی ہےاوروہ ہرگزاس سےاوپر نہیں اُٹھ سکتے۔لیکن گلزارکے یہاں تعجب ہوتاہے کہ مصنف اِس wavelengthیااُسwavelengthکاخالق نہیں ہے۔ان کےیہاں ہرکہانی کےساتھ زندگی کاایک نیاروپ،ایک نیارخ،ایک نئی سطح نظرآتی ہے۔ایک نیازاویہ،ایک تجربہ،ایک ایسےذہن وشعورکاپتادیتاہےکہ اس کالگاؤ اِس رخ یااُس رخ سےنہیں،بلکہ زندگی کی پوری سچائی سےہےیازندگی کےاس کھلےتجربےسےجوحدیں نہیں بناتا،حصارنہیں کھینچتا،رشتوں،طبقوں، نفرتوں اور محبتوں میں کسی ایک پرت پراکتفانہیں کرتابلکہ سچائیوں کےآرپاردیکھتاہےاورزندگی کواس کے پورے تنوع،بوقلمونی اورتجربےکواس کی تمام جہات کے ساتھ انگیزکرتاہے۔کسی بھی فنکارکے لیے یہ کمال معمولی نہیں۔غالب نےباجےکوراگوں سےبھراہواکہاتھا۔گلزارکی کہانیوں کوذراساچھیڑنےکی ضرورت ہے،زندگی کےسُر،ان میں سےنکلنےلگیں گے۔ایک ایسےفن کارکے لیے جس نے ساری زندگی فلم سازی میں کھپادی،یہ کارنامہ معمولی نہیں کہ اس نےایسی کہانیاں لکھیں جن میں زندگی کاسنگیت بھراہواہےاورہرکہانی میں زندگی کا ایک الگ روپ،الگ تجربہ سامنے آتاہے۔’’ 
                                  (‘‘راوی پار’’ص،۸۔۷) 
گلزارکی کہانیوں کامطالعہ،موضوعاتی گوناگونی،رنگا رنگی اوربوقلمونی ڈاکٹرگوپی چندنارنگ کےبیان کی تائیدوتوثیق کرتےہیں۔بلاشبہ ان کی تصوراتی گرفت اورمختلف ومتضادرنگ آمیزیوں کےسبب ان کی کہانیوں کاکینوس بہت وسیع ہوگیاہے۔شہروں کی شور مچاتی ہوئی سڑکوں،گلیوں ،کوچوں ،بندتاریک کمروں،فلمی رنگینیوں ،قصبوں اورگاوؤں کی دھول اُڑاتی ہوئی زندگیوں کوانہوں نےخوبصورتی کےساتھ عکس ریزکیاہے۔ ہرجگہ اورہر مقام پرکہانیاں اُنہیں تلاش کرلیتی ہیں۔  
             گلزارکی کہانیاں مختصرہوتی ہیں۔وہ قاری کوالجھاتےنہیں بلکہ اس کی انگلی تھام کر منظروں کی سَیرکرادیتےہیں۔پلاٹ میں بھی پیچیدگی نہیں ہوتی۔ سادہ بیانی ان کی بڑی خصوصیت ہے۔جہاں اتنی ساری خوبیاں پائی جاتی ہیں وہیں گلزارکہیں کہیں اپنے پڑھنےوالوں کوتھکابھی دیتےہیں۔بعض کہانیوں میں مکالمےاتنےکثیراورغیرضروری محسوس ہوتےہیں کہ قاری بوریت کاشکارہوجاتاہے۔بعض کہانیاں کسی کلائمکس کےبغیرختم ہوجاتی ہیں،جہاں قاری کوایک قسم کی تشنگی،ادھورےپن اوراپنےٹھگ اُٹھنےکا احساس ہوتاہے۔    
        ‘‘راوی پار’’کی ستّائس(27)کہانیوں میں‘‘حساب کتاب’’بظاہرایک فرسودہ موضوع پرلکھی گئی معمولی اورغیراہم سی کہانی ہے۔غالباََپیش افتادہ موضوع کے سبب ڈاکٹرگوپی چندنارنگ نےاپنی گفتگو میں دیگر کہانیوں کےساتھ‘‘حساب کتاب’’کاذکرنہیں کیاہے۔لیکن اس کہانی کاموضوع جس قدر پُرانااورفرسودہ ہےاسی قدرنیا اورسلگتاہواسابھی ہے۔ پُرانااس لیے کہ اس موضوع پرہزاروں کہانیاں لکھی جاچکی ہیں اورلکھی جارہی ہیں اورمضامین تحریر کیے جارہے ہیں۔ یہ آج بھی پہلے ہی کی طرح سلگتاہواتازہ دم ہے۔گلزارنےاسے بڑےسلیقےسےلکھاہے۔کہانی۔۔حساب کتاب۔۔پرتبصرہ کرتےہوئےمعروف نقادحقانی القاسمی لکھتےہیں۔ 
       ‘‘ایک سماجی مسئلےسےجڑی ہوئی کہانی ہے۔ایک پڑھی لکھی بی۔اے پاس لڑکی کوبھی شادی میں کیسی کیسی دقتیں پیش آتی ہیں اورجہیزکےناسورنےسماج کوکس طرح جکڑلیاہے،یہ اہم ترین مسئلہ ہی اس کہانی کی موضوعاتی اساس ہے۔جہیزنہ بھی لیاجائےتب بھی جہیزکی شکلیں برقراررہتی ہیں یعنی معاشرہ جہیز کی لعنت سے کسی بھی طورپاک صاف نہیں ہے۔حساب کتاب عنوان ظاہر کرتا ہے کہ جہیز بدل جائے مگرماہیت نہیں بدلتی۔نوعیت بدل جائے مگر حقیقت نہیں بدلتی۔جہیزصرف سونےاورزیورات کانام نہیں ہےبلکہ کچھ اور چیزیں بھی ہیں جوجہیز کے زمرے میں آتی ہیں۔،،          
                  (راوی پار،ص ۱۷۰) 
      جہیزہندوستانی سماج میں ایک بڑی لعنت ہی نہیں بلکہ ایساناسورہےجوہمیشہ رستارہتاہےاوراپنے فاسد مادّہ سےاسےپرا گندہ کرتارہتاہے۔اس کہانی کی ابتداء اس کےدوبڑےاوربنیادی کرداروں کےتعارف سےہوتی ہے۔
‘‘بابودیناناتھ نےاپنےبیٹےسرون کمارکی شادی ماسٹررام کمارکی بیٹی اوشاسےطےکردی! 
ماسٹررام کماربڑےخوش تھے۔پڑھالکھاکربیٹی کو بی۔اےکرادیاتھا۔اونچی تعلیم دلائی تھی اورسب سے بڑی بات کہ جب اوشانےنوکری کرنی چاہی توانہیں رتّی بھربھی اعتراض نہیں ہوا۔فوراََ اجازت دےدی۔فکرتھی توصرف اتنی کہ کل کوئی بر(رشتہ)اپنےآپ چن کرنہ لے آئے۔آخرتھی تو بچی ہی۔قدبت نکلنےسےہی بچےسمجھ دارتونہیں ہوجاتے۔لیکن اوشانےاس طرح کی کسی شکایت کاکوئی موقع نہیں دیابلکہ دوایک بارجب اس کےرشتےکی بات چلی تھی تواس نے گردن جھکاکے بڑے ادب سےکہہ دیا...‘‘آپ میرےلیےجوسوچیں گے میرےسر آنکھوں پر۔’’ 
        اوشاکونوکری کرتےہوئےتین چارسال ہوگئے۔اس نے اپنی تنخواہ کےذریعےگھرکابوجھ تواٹھالیاتھا لیکن اس کابوجھ ماسٹررام کمارپرآہستہ آہستہ بھاری ہونے لگا۔کئی جگہ رشتے کی بات چلی مگر ٹوٹ گئی۔ہرجگہ اس کےدام لگ جاتے۔کوئی پچاس ہزارکانقدجہیزمانگتااور کوئی لاکھ روپےکا۔ کوئی اسکوٹرکی فرمائش کردیتا۔ سونا،زیو رتوالگ ہی رہے۔ماسٹررام کماراپنی ساری پونجی اوشاکی تعلیم پرخرچ کرچکےتھے۔لے دیکے ان کایہی ایک رہائشی مکان تھا۔چھوڑدیں توپگڑی مل جائے گی لیکن پگڑی لےلیں توسرکہاں چھپائیں۔؟وہ بہت ساری فکروں میں گھیرےہوئےتھے۔اوشا ان کی اکلوتی بیٹی تھی۔ان کےلیےوہی سب کچھ تھی ۔اس کےلیے وہ ایک ایسےرشتہ کی تلاش میں تھےجوپڑھالکھابھی ہو اوردان دہیج کالالچی بھی نہ ہو۔اس زمانےمیں ایسی سوجھ بوجھ والےلڑکےکہاں ملتےہیں۔اچانک ماسٹررام کمارکی ملاقات دیناناتھ سےہوگئی۔دیناناتھ کی ایک دکان تھی جہاں سائن بورڈ بنانے،رنگنےاورلکھنےکاکام ہوتاتھا۔بیوپاراچھاخاصاچل رہاتھا۔آمدنی بھی بہت اچھی خاصی تھی۔چارپانچ کاریگرکام کرتےتھے۔ان کااکلوتالڑکاسرون کماربیوپارسنبھالتابھی خوب تھا۔مجال نہیں کبھی کسی انگریزی لفظ کی ہجّے غلط ہوجائے۔اب تواس نے کئی زبانوں کی لغتیں بھی دکان پررکھ چھوڑی تھیں۔سرون کمارکی تعلیم کااندازہ بخوبی لگایاجاسکتاتھا۔اس میں خوبی یہ تھی کہ وہ محنتی بہت تھا۔دکان کاسارابوجھ سنبھال رکھاتھا۔ ماسٹررام کماراپنےاسکول کاایک بورڈبنوانےگئےجہاں دیناناتھ سےان کی تفصیلی گفتگوہوئی۔وہ دونوں ایک دوسرےکےخیالات سےکافی متاثرہوئےاوریہیں سے دونوں کی خوب جمنےلگی۔دکان اورمکان میں ایک دوسرےکاآناجانابھی ہونےلگا۔دعوتیں بھی ہونےلگیں۔اس طرح یہ دونوں خاندان ایک دوسرےکےبہت قریب آگئے۔اورپھرایک دن بابودیناناتھ نےاپنےبیٹےسرون کمارکی شادی ماسٹررام کمارکی بیٹی اوشاسےطےکردی۔دونوں بہت خوش ہوئے۔کہانی کایہ آخری حصّہ بہت اہم ہے جس میں گلزارنےکہانی کےکرداروں کی تحلیلِ نفسی کی ہے۔ماسٹررام کماراپنی بیٹی سےکہہ رہےتھے:
        ‘‘بہت ہی اونچےخیالات ہیں بابودیناناتھ کے۔بتاؤ آج کےزمانےمیں اورملےتوملےایسےسسرملتےہیں کہیں؟کہنےلگےمجھےتوایک دھیلےکادہیج نہیں چاہیے۔ساڑھے تین کپڑوں میں لڑکی بھیج دیجیےاورلڑکی آپ کی پوری آزادی کےساتھ سروس کرتی رہےگی۔’’میں تو حیران ہوگیا۔بولے...‘‘ میری توشرط ہےکہ اوشااپنی سروس کےساتھ ہی میرےگھرکی بہوبنےگی۔مجھے رسوئی گھرکی باندی نہیں چاہیے۔’’ 
       اورادھردیناناتھ اپنی بیوی کوسمجھارہےتھے۔ ‘‘ناراض کیوں ہوتی ہوبھاگیوان!تمھارالایاسوناکیابچا؟کچھ دکان بنانےمیں اٹھ گیا،کچھ ٹیکس چکانےمیں!ہم توسانس لیتاسونالائےہیں دہیج میں...پنشن بندھ گئی۔ چودہ سوروپےتنخواہ کےلائےگی اورڈرائنگ بھی اچھی ہے اس کی۔بارہ سوروپےکاایک ورکرکم ہوادکان پر!کیوں۔؟’’ (حساب کتاب) 
        موجودہ بےرحم ہندوستانی سماج میں دیناناتھ جیسےلوگوں کی کمی نہیں۔شہرہویاگاؤں!قصبہ ہویا دیہات۔!گلزارکی یہ مختصرسی کہانی ہمیں بتاتی ہےکہ ہم کس وجہ سےپچھڑے پن کاشکارہیں۔سبب جہیز۔!
جہیزہندوستانی سماج کاایک ایساکینسرہےجوہماری نئی نسل کوتیزی کےساتھ نگل رہاہے۔زندہ درگورکررہا ہے۔غریب اورمتوسط طبقہ کی بچیاں والدین پربوجھ بنتی جارہی ہیں۔شادی کی عمریں نکل جاتی ہیں،بالوں میں سفیدی آجاتی ہےاورآنکھوں کےسارےسہانےخواب مر جاتےہیں۔اس دورکاخودغرض،وحشی اوربدترین سماج بچیوں کوجرم کی طرح دیکھتاہےاورغریب والدین کو مجرم کی طرح۔اس ترقی یافتہ عہدِجاہلیت میں بچیوں کاجس طرح استحصال ہورہاہےاس کی مثال معلوم تاریخ میں نہیں ملتی۔حدیہ کہ انھیں پیداہونے سےروکا جاریاہے۔زندہ جلایاجارہاہے۔اوریہ سب کچھ جہیزکے سبب ہورہاہے۔حکومتیں جہیزمخالف قانون بناتی ہیں لیکن وہ خوداس پرعمل کرتی ہیں اورنہ ان کےعوام۔ 
کہتےہیں کہ قومی ترقی تعلیم میں پوشیدہ ہےلیکن وہ بچےکس طرح تعلیم حاصل کریں جن کےوالدین اور خودان پرکئی بیٹیوں اورکئی بہنوں کابوجھ ہے۔جہیز کےبغیرجن کی شادیاں نہیں ہوسکتیں۔
         کسی ملک کی اصل ترقی نیچےسےشروع ہوتی ہےاوراوپرتک جاتی ہے۔جس عمارت کی بنیادکمزورہووہ عمارت مخدوش ہے۔جس دن بھارتی سماج جہیزکی لعنت سےآزادہوگاوہ ملک اورقوم کی اصل ترقی کاپہلا دن ہوگا۔تب غریب بچےپڑھ سکیں گے۔ان کےکاندھوں پرجہیزکابوجھ نہیں ہوگا۔وہ آزادہوں گے۔
            ***                 
              Anas Masroor Ansari
        Qaumi Urdu Tahreek Foundation
              Sakrawal Urdu Bazar, Tanda       
          Ambedkar Nagar U.P. (224190)
                     mo/9453347784

جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ میں محفل دعائیہ بحسن خوبی اختتام پذیر ہوا

جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ میں محفل دعائیہ بحسن خوبی اختتام پذیر ہوا 
Urduduniyanews72 
پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 15/جنوری 2024 (پریس ریلیز:محمد ضیاء العظیم ) 
قرآن کریم رب العالمين کی نازل کردہ وہ آخری آسمانی کتاب ہے  جسے رب العزت نے اپنے سب سے پیارے، چہیتے، اور آخری نبی و پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل تاریخ کے ساتھ نازل فرماکر پوری انسانیت کو یہ پیغام دیا کہ یہی وہ پیغامات ہیں جن پر کامیابیوں کی ضمانت پنہاں ہیں ۔قرآن کریم وہ دریچہ اور سرمایۂ حیات ہے جس میں ہم بیک وقت ہم ماضی حال اور مستقبل تینوں دیکھتے ہیں ۔قرآن کریم اور دوسری کتابوں کے درمیان فرق افضل مفضول اور اکمل وغیرہ کا نہیں بلکہ بنیادی فرق محفوظ اور غیر محفوظ کا ہے،کیونکہ اللہ تبارک وتعالی نے کسی بھی کتاب کی تحفظ وبقا کی ذمہ داریاں قبول نہیں کی، جبکہ قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ داریاں خود اللہ نے لی ہے ۔فرمان الٰہی ہے اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ
ترجمہ:
بیشک ہم نے  قرآن کو نازل کیا ہے اور  ہم خود اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔اس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ پہلی کتابیں وقت کے ساتھ ختم ہو جائیں گی اور قیامت تک کے لیے راہنمائی اسی کتاب سے حاصل کی جائے- اللہ رب العزت اپنے بندوں کے ذریعہ اس کتاب کی حفاظت فرماتے ہیں، اللہ کے نیک بندے اس کی تلاوت وسماعت کرتے ہیں، اسے سیکھتے ہیں اور دوسروں کو سکھا کر بندگی کے تقاضے پورے کرنے کی سعی کرتے ہیں ۔ایک ذریعہ اللہ رب العزت نے اس کی حفاظت چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کے سینے میں اسے محفوظ کرکے فرمایا ۔
واضح رہے کہ اس کڑی کا آغاز جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ کے دو طالب علموں نے "حافظ محمد افضل ابن محمد جمال،بیگوسراۓ، حافظ محمد شہزاد ابن محمد سہراب پٹنہ" ان دو طالب علموں نے جہد مسلسل کے ساتھ قرآن کریم حفظ کرنے کی سعادت حاصل کرکے اس بات کا واضح ثبوت دیا کہ 
 " وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى(39)سورہ نجم" 
ترجمہ: 
انسان جس چیز کی کوشش کرے وہ اس میں کامیابی حاصل کرتا ہے ۔
اس بابرکت موقع پر ایک دعائیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس میں قرآن، اہمیت قرآن، احکامات قرآن، پیغامات قرآن سے متعلق  بچوں کو خطاب کیا گیا۔
تمام اساتذہ وکارکنان، سرپرست ،والدین نے دونوں طالب علموں کو مبارکبادی پیش کرتے ہوئے ان کی روشن مستقبل کے لئے دعائیں دیں، 
مبارکبادی پیش کرنے والوں میں استاذ محمد ضیاء العظیم قاسمی، قاری عبدالواجد ،قاری عبد الماجد، مفتی نورالعظیم مظاہری وغیرہ کے نام شامل ہیں۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ ایک خالص دینی ادارہ ہے ،جس کی بنیاد محض خلوص وللہت پر ہے، یہاں مقامی وبیرونی طلباء اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں ،اس وقت جامعہ ہذا میں چوبیس طلباء ہاسٹل میں مقیم ہیں، مقامی تیس طلبہ وطالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں پانچ اساتذۂ کرام ان کی تعلیم وتربیت پر معمور ہیں جن کی مکمل کفالت مدرسہ ھذا کے ذمہ ہے اور مدرسہ اہل خیر خواتین وحضرات کے تعاون سے چل رہا ہے ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...