آپ زکوۃ کس طرح ادا کریں
وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلاَیُنْفِقُوْنَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ، یَوْمَ یُحْمٰی عَلَیْہَا فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ فَتُکْوٰی بِہَا جِبَاہُہُمْ وَجُنُوْبُہُمْ وَظُہُوْرُہُمْ ہٰذَا مَاکَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَاکُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ، (التوبہ:۳۴-۳۵)
آمَنْتُ بِاللّٰہِ، صَدَقَ اللّٰہُ مَوْلاَنَا الْعَظِیْمُ، وَصَدَقَ رَسُوْلُہُ النَّبِیُّ الْکَرِیْمُ وَنَحْنُ عَلٰی ذٰلِکَ مِنَ الشَّاہِدِیْنَ وَالشَّاکِرِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔
بزرگانِ محترم اور برادرانِ عزیز! عام طور پر لوگ رمضان المبارک کے مہینے میں زکوٰۃ نکالتے ہیں، لہٰذا اس اجتماع کامقصد یہ ہے کہ زکوٰۃ کی اہمیت، اس کے فضائل اور اس کے ضروری احکام اس اجتماع کے ذریعہ ہمارے علم میں آجائیں تاکہ اس کے مطابق زکوٰۃ نکالنے کا اہتمام کریں۔
زکوٰۃ نہ نکالنے پر وعید
اس مقصد کے لیے قرآن کریم کی دو آیتیں تلاوت کی ہیں، ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر بڑی سخت وعید بیان فرمائی ہے جو اپنے مال کی کما حقہ زکوٰۃ نہیں نکالتے، ان کے لیے بڑے سخت الفاظ میں عذاب کی خبر دی ہے، ل چنانچہ فرمایا کہ جو لوگ اپنے پاس سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے تو (اے نبی ﷺ) آپ ان کو ایک دردناک عذاب کی خبر دیدیجیے،
یعنی جو لوگ اپنا پیسہ، اپنا روپیہ، اپنا سونا چاندی جمع کرتے جارہے ہیں اور ان کو اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے ان پر اللہ تعالیٰ نے جو فریضہ عائد کیا ہے اس کو ادا نہیں کرتے، ان کو یہ خوش خبری سنادیجئے کہ ایک دردناک عذاب ان کا انتظار کر رہا ہے۔
پھر دوسری آیت میں اس دردناک عذاب کی تفصیل بیان فرمائی کہ یہ دردناک عذاب اس دن ہوگا جس دن اس سونے اور چاندی کو آگ میں تپایا جائے گا اور پھر اس آدمی کی پیشانی، اس کے پہلو اور اس کی پشت کو داغا جائے گا اور اس کو یہ کہا جائے گا کہ: ہٰذَا مَاکَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَاکُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ، یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا، آج تم خزانے کا مزہ چکھو جو تم اپنے لیے جمع کر رہے تھے، اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس انجام سے محفوظ رکھے آمین۔
یہ ان لوگوں کا انجام بیان فرمایا جو روپیہ پیسہ جمع کر رہے ہیں لیکن اس پر اللہ تعالیٰ نے جو فرائض عائد کیے ہیں ان کو ٹھیک ٹھیک بجانہیں لاتے، صرف ان آیات میں نہیں بلکہ دوسری آیات میں بھی وعیدیں بیان فرمائی گئی ہیں، چنانچہ سورۃ ’’ہمزہ‘‘ میں فرمایا:
وَیْلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِO نِالَّذِیْ جَمَعَ مَالاً وَّعَدَّدَہٗO یَحْسَبُ اَنَّ مَالَہٗ اَخْلَدَہٗO کَلاَلَیُنْبَذَنَّ فِی الْحُطَمَۃِO وَمَآاَدْرٰکَ مَالْحُطَمَۃِO نَارُ اللّٰہِ الْمُوْقَدَۃُ الَّتِیْ تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْئِدَۃِO
(سورۃ ہمزہ: ۱تا۷)
یعنی اس شخص کے لیے دردناک عذاب ہے جو عیب نکالنے والا ہے اور طعنہ دینے والا ہے، جو مال جمع کر رہا ہے اور گن گن کر رکھ رہا ہے (ہرروز گنتا ہے کہ آج میرے مال میں کتنا اضافہ ہوگیا ہے اور اس کی گنتی کرکے خوش ہورہاہے) اور یہ سمجھتا ہے کہ یہ مال مجھے ہمیشہ کی زندگی عطا کردے گا، ہرگز نہیں، (یاد رکھو! یہ مال جس کو وہ گن گن کر رکھ رہا ہے اور اس پر جو واجبات ہیں ان کو ادا نہیں کر رہا ہے، اس کی وجہ سے) اس کو روندنے والی آگ میں پھینک دیا جائے گا، تمھیں کیا پتہ کہ ’’حطمہ‘‘ کیا چیز ہوتی ہے؟ (یہ حطمہ جس میں اس کو ڈالا جائے گا) یہ ایسی آگ ہے جو اللہ کی سلگائی ہوئی ہے، (یہ کسی انسان کی سلگائی ہوئی آگ نہیں ہے جو پانی سے بجھ جائے یا مٹی سے بجھ جائے یا جس کو فائر بریگیڈ بجھادے، بلکہ یہ اللہ کی سلگائی ہوئی آگ ہے) جو انسان کے قلب و جگر تک جھانکتی ہوگی (یعنی انسان کے قلب و جگر تک پہنچ جائے گی) اتنی شدید وعید اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے، اللہ تعالیٰ ہرمسلمان کو اس سے محفوظ رکھے، آمین۔
یہ مال کہاں سے آرہاہے
زکوٰۃ ادا نہ کرنے پر ایسی شدید وعید کیوں بیان فرمائی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو کچھ مال تم اس دنیا میں حاصل کرتے ہو، چاہے تجارت کے ذریعہ حاصل کرتے ہو، چاہے ملازمت کے ذریعہ حاصل کرتے ہو، چاہے کاشت کاری کے ذریعہ حاصل کرتے ہو، یا کسی اور ذریعہ سے حاصل کرتے ہو، ذرا غور کرو کہ وہ مال کہاں سے آرہا ہے؟ کیا تمہارے اندر طاقت تھی کہ تم اپنے زور بازو سے وہ مال جمع کرسکتے؟ یہ تو اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا حکیمانہ نظام ہے، وہ اپنے اس نظام کے ذریعہ تمھیں رزق پہنچا رہا ہے۔
گاہک کون بھیج رہا ہے؟
تم یہ سمجھتے ہو کہ میں نے مال جمع کرلیا اور دکان کھول کر بیٹھ گیا اور اس مال کو فروخت کردیا تو اس کے نتیجے میں مجھے پیسہ مل گیا، یہ نہ دیکھا کہ جب دکان کھول کر بیٹھ گئے تو تمھارے پاس گاہک کس نے بھیجا؟ اگر تم دکان کھول کر بیٹھے ہوتے اور کوئی گاہک نہ آتا تو اس وقت کوئی بِکری ہوتی؟ کوئی آمدنی ہوتی؟ یہ کون ہے جو تمھارے پاس گاہک بھیج رہا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے نظام ہی ایسا بنایا ہے کہ ایک دوسرے کی حاجتیں، ایک دوسرے کی ضرورتیں ایک دوسرے کے ذریعہ پوری کی جاتی ہیں، ایک شخص کے دل میں ڈال دیا کہ تم جاکر دکان کھول کر بیٹھو، اور دوسرے کے دل میں یہ ڈال دیا کہ اس دکان والے سے خریدو۔
ایک سبق آموز واقعہ
میرے ایک بڑے بھائی تھے جناب محمد ذکی کیفی رحمۃ اللہ علیہ، اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، آمین، لاہور میں ان کی دینی کتابوں کی ایک دکان ’’ادارۂ اسلامیات‘‘ کے نام سے تھی، اب بھی وہ دکان موجود ہے، وہ ایک مرتبہ کہنے لگے کہ تجارت میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اور قدرت کے عجیب کرشمے دکھلاتا ہے، ایک دن میں صبح بیدار ہوا تو پورے شہر میں موسلا دھار بارش ہورہی تھی اور بازاروں میں کئی کئی انچ پانی کھڑا تھا، میرے دل میں خیال آیا کہ آج بارش کا دن ہے لوگ گھر سے نکلتے ہوئے ڈر رہے ہیں ، سڑکوں پر پانی کھڑا ہے، ایسے حالات میں کون کتاب خریدنے آئے گا اور کتاب بھی کوئی دنیاوی یا کورس اور نصاب کی نہیں بلکہ دینی کتاب جس کے بارے میں ہمارا حال یہ ہے کہ جب دنیا کی ساری ضرورتیں پوری ہوجائیں تب جاکر یہ خیال آتا ہے کہ چلو کوئی دینی کتاب خرید کر پڑھ لیں، ان کتابوں سے نہ تو بھوک مٹتی ہے نہ پیاس بجھتی ہے نہ اس سے دنیا کی کوئی ضرورت پوری ہوتی ہے، اور آج کل کے حساب سے دینی کتاب ایک فالتو مد ہے، خیال یہ ہوتا ہے کہ فالتو وقت ملے گا تو دینی کتاب پڑھ لیں گے، تو ایسی موسلا دھار بارش میں کون دینی کتاب خریدنے آئے گا، لہٰذا آج دکان پر نہ جاؤں اور چھٹی کرلیتا ہوں، لیکن چونکہ بزرگوں کے صحبت یافتہ تھے، حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت اٹھائی تھی، فرمانے لگے کہ اس کے ساتھ ساتھ میرے دل میں دوسرا خیال یہ آیا کہ ٹھیک ہے کوئی شخص کتاب خریدنے آئے یانہ آئے، لیکن اللہ تعالیٰ نے میرے لئے رزق کا یہ ذریعہ مقرر فرمایا ہے، اب میرا کام یہ ہے کہ میں جاؤں، جاکر دکان کھول کر بیٹھ جاؤں، گاہک بھیجنا میرا کام نہیں، کسی اور کا کام ہے، لہٰذا مجھے اپنے کام میں کوتاہی نہ کرنی چاہئے چاہے بارش ہورہی ہویا سیلاب آرہا ہو، مجھے اپنی دکان کھولنی چاہیے، چنانچہ یہ سوچ کر میں نے چھتری اٹھائی اور پانی سے گزرتاہوا چلا گیااور بازار جاکر دکان کھول کر بیٹھ گیا اور یہ سوچا کہ آج کوئی گاہک تو آئے گا نہیں، چلو بیٹھ کر تلاوت ہی کرلیں، چنانچہ ابھی میں قرآن شریف کھول کر تلاوت کرنے بیٹھا ہی تھا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ لوگ برساتیاں ڈال کر اور چھتریاں تان کر کتابیں خریدنے آرہے ہیں، میں حیران تھا کہ ان لوگوں کو ایسی کونسی ضرورت پیش آگئی ہے کہ اس طوفانی بارش میں اور بہتے ہوئے سیلاب میں میرے پاس آکر ایسی کتابیں خرید رہے ہیں جن کی کوئی فوری ضرورت نہیں، لیکن لوگ آئے اور جتنی بِکری روزانہ ہوتی تھی اس دن بھی اتنی ہی بِکری ہوئی، اس وقت دل میں یہ بات آئی کہ یہ گاہک خود نہیں آرہے ہیں، حقیقت میں کوئی اور بھیج رہا ہے، اور یہ اس لیے بھیج رہا ہے کہ اس نے میرے لیے رزق کا سامان ان گاہکوں کو بنایا ہے۔
کاموں کی تقسیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے
بہرحال، یہ درحقیقت اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کا بنایا ہوا نظام ہے جو تمہارے پاس گاہک بھیج رہا ہے، جو گاہک کے دل میں ڈال رہا ہے کہ تم اس دکان سے جاکر سامان خریدو، کیا کسی شخص نے یہ کانفرنس بلائی تھی اور اس کانفرنس میں یہ طے ہوا تھا کہ اتنے لوگ کپڑا فروخت کریں گے، اتنے لوگ جوتے فروخت کریں گے، اتنے لوگ چاول فروخت کریں گے، اتنے لوگ برتن فروخت کریں گے، اور اس طرح لوگوں کی ضروریات پوری کی جائیں گی، دنیا میں ایسی کوئی کانفرنس آج تک نہیں ہوئی، بلکہ اللہ تعالیٰ نے کسی کے دل میں یہ ڈالا کہ تم کپڑا فروخت کرو، کسی کے دل میں ڈالا کہ تم جوتے فروخت کرو،کسی کے دل میں ڈالا کہ تم روٹی فروخت کرو،کسی کے دل میں یہ ڈالا کہ تم گوشت فروخت کرو، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا کی کوئی ضرورت ایسی نہیں ہے جو بازار میں نہ ملتی ہو، دوسری طرف خریداروں کے دل میں یہ ڈالا کہ تم جاکر ان سے ضروریات خریدو اور ان کے لیے رزق کا سامان فراہم کرو، یہ اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا نظام ہے کہ وہ تمام انسانوں کو اس طرح سے رزق عطا کر رہا ہے۔
زمین سے اُگانے والا کون ہے؟
خواہ تجارت ہو یا زراعت ہو یا ملازمت ہو، دینے والا درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ زراعت کو دیکھیے! زراعت میں آدمی کا کام یہ ہے کہ زمین کو نرم کرکے اس میں بیج ڈال دے اور اس میں پانی دے دے، لیکن اس بیج کو کونپل بنانا، وہ بیج جو بالکل بے حقیقت ہے جو گنتی میں بھی نہ آئے، جو بے وزن ہے لیکن اتنی سخت زمین کا پیٹ پھاڑکر نمودار ہوتا اور کونپل بن جاتا ہے، پھر وہ کونپل بھی ایسی نرم اور نازک ہوتی ہے کہ اگر بچہ بھی اس کو انگلی سے مسل دے تو وہ ختم ہوجائے، لیکن وہی کونپل سارے موسموں کی سختیاں برداشت کرتی ہے گرم اور سرد اور تیز ہواؤں کو سہتی ہے، پھر کونپل سے پودا بنتا ہے، پھر اس پودے سے پھول نکلتے ہیں، پھولوں سے پھل بنتے ہیں اور اس طرح وہ ساری دنیا کے انسانوں تک پہنچ جاتا ہے، کون ذات ہے جو یہ کام کر رہی ہے؟ اللہ جل شانہٗ ہی یہ سارے کام کرنے والے ہیں ۔
انسان میں پیداکرنے کی صلاحیت نہیں
لہٰذا آمدنی کا کوئی بھی ذریعہ ہو، چاہے وہ تجارت ہو یا زراعت ہو یا ملازت ہو، حقیقت میں توانسان ایک محدود کام کرنے کے لیے دنیا میں بھیجا گیاہے، بس انسان وہ محدود کام کردیتاہے، لیکن اس محدود کام کے اندر کسی چیز کو پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے، یہ تو اللہ جل شانہٗ ہیں جو ضرورت کی اشیاء پیدا کرتے ہیں اور تمھیں عطا کرتے ہیں، لہٰذا جو کچھ بھی تمھارے پاس ہے وہ سب اسی کی عطا ہے۔
’’لِلّٰہِ مَافِی السَّمٰوٰتِ وَمَافِی الْاَرْضِ‘‘۔ (البقرہ:۲۸۴) ’’زمین آسمان میں جو کچھ ہے وہ اسی کی ملکیت ہے۔‘‘
مالکِ حقیقی اللہ تعالیٰ ہیں
اور اللہ تعالیٰ نے وہ چیز تمھیں عطا کرکے یہ بھی کہہ دیا کہ چلو تم ہی اس کے مالک ہو، چنانچہ سورۂ یٰسین میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَہُمْ مِمَّا عَمِلَتْ اَیْدِیْنَا اَنْعَامًا فَہُمْ لَہَا مَالِکُوْنَ، (یٰسین:۷۱) کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے بنادیے ان کے واسطے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیزوں سے چوپائے، پھر وہ ان کے مالک ہیں، مالکِ حقیقی تو ہم تھے ہم نے تمھیں مالک بنادیا، تو حقیت میں وہ مال جو تمھارے پاس آیا ہے اس میں سب سے بڑا حق تو ہمارا ہے، جب ہمارا حق ہے تو پھر اس میں سے اللہ کے حکم کے مطابق خرچ کرو، اگر اس کے حکم کے مطابق خرچ کروگے تو باقی جتنا مال تمھارے پاس ہے وہ تمہارے لیے حلال اور طیب ہے، وہ مال اللہ کا فضل ہے اللہ کی نعمت ہے، وہ مال برکت والا ہے، اور اگر تم نے اس مال میں سے وہ چیز نہ نکالی جو اللہ تعالیٰ نے تم پر فرض کی ہے تو پھر یہ سارا مال تمہارے لیے آگ کے انگارے ہیں اور قیامت کے دن ان انگاروں کو دیکھ لوگے، جب ان انگاروں سے تمھارے جسموں کو داغا جائے گا اور تم سے یہ کہا جائے گا کہ یہ ہے وہ خزانہ جس کو تم جمع کیا کرتے تھے۔
صرف ڈھائی فیصد ادا کرو
اگر اللہ تعالیٰ یہ فرماتے کہ: یہ مال ہماری عطاکی ہوئی چیز ہے، لہٰذا اس میں سے ڈھائی فیصد تم رکھو اور ساڑھے ستانوے فیصداللہ کی راہ میں خرچ کردو تو بھی انصاف کے خلاف نہیں تھا، کیونکہ یہ سارا مال اسی کا دیا ہوا ہے اور اسی کی ملکیت ہے، لیکن اس نے اپنے بندوں پر فضل فرمایا اور یہ فرمادیا کہ میں جانتا ہوں کہ تم کمزور ہو اور تمھیں اس مال کی ضرورت ہے، میں جانتا ہوں کہ تمھاری طبیعت اس مال کی طرف راغب ہے۔ لہٰذا چلو اس مال میں سے ساڑھے ستانوے فیصد تمہارا، صرف ڈھائی فیصدکا مطالبہ ہے، جب یہ ڈھائی فیصد اللہ کے راستے میں خرچ کروگے تو باقی ساڑھے ستانوے فیصد تمہارے لیے حلال ہے اور طیب ہے اور برکت والا ہے، اللہ تعالیٰ نے اتنا معمولی مطالبہ کرکے سارا مال ہمارے حوالے کردیا کہ اس کو جس طرح چاہو اپنی جائز ضروریات میں خرچ کرو۔
زکوٰۃ کی تاکید
یہ ڈھائی فیصدزکوٰۃ ہے، یہ وہ زکوٰۃ ہے جس کے بارے میں قرآن کریم میں بار بار ارشاد فرمایا: وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَآتُوا الزَّکٰوۃَ،
’’نماز قائم کرو اورزکوٰۃ ادا کرو۔‘‘
جہاں نماز کا ذکر فرمایا ہے وہاں ساتھ میں زکوٰۃ کابھی ذکر ہے،اس زکوٰۃ کی اتنی تاکید وارد ہوئی ہے، جب اس زکوٰۃ کی اتنی تاکید ہے اوردوسری طرف اللہ جل شانہٗ نے اتنا بڑا احسان فرمایا ہے کہ ہمیں مال عطا کیا اور اس کامالک بنایا اور پھر صرف ڈھائی فیصد کا مطالبہ کیا تو مسلمان کم از کم اتنا کرلے کہ وہ ڈھائی فیصد ٹھیک ٹھیک اللہ کے مطالبے کے مطابق ادا کردے تو اس پر کوئی آسمان نہیں ٹوٹ جائے گا، کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی۔
زکوٰۃ حساب کرکے نکالو
بہت سے لوگ تو وہ ہیں جو زکوٰۃ سے بالکل بے پرواہ ہیں، العیاذباللہ وہ تو زکوٰۃ نکالتے ہی نہیں ہیں، ان کی سوچ تو یہ ہے کہ یہ ڈھائی فیصدکیوں دیں؟ بس جومال آرہا ہے وہ آئے۔ دوسری طرف بعض لوگ وہ ہیں، جن کو زکوٰۃ کا کچھ نہ کچھ احساس ہے اور وہ زکوٰۃ نکالتے بھی ہیں، لیکن زکوٰۃ نکالنے کا جو صحیح طریقہ ہے وہ طریقہ اختیار نہیں کرتے، جب ڈھائی فیصد زکوٰۃ فرض کی گئی تو اب اس کا تقاضہ یہ ہے کہ ٹھیک ٹھیک حساب لگاکر زکوٰۃ نکالی جائے۔
بعض لوگ یہ سوچتے ہیں کہ کون حساب کتاب کرے، کون سارے اسٹاک کو چیک کرے، لہٰذا بس ایک اندازہ کرکے زکوٰۃ نکال دیتے ہیں، اب اس اندازے میں غلطی بھی واقع ہوسکتی ہے اور زکوٰۃ نکالنے میں کمی بھی ہوسکتی ہے، اگر زکوٰۃ زیادہ نکال دی جائے ان شاء اللہ مواخذہ نہیں ہوگا، لیکن اگر ایک روپیہ بھی کم ہوجائے یعنی جتنی زکوٰۃ واجب ہوئی ہے اس سے ایک روپیہ کم زکوٰۃ نکالی تو یاد رکھئے! وہ ایک روپیہ جو آپ نے حرام طریقے سے اپنے پاس روک لیا ہے، وہ ایک روپیہ تمہارے سارے مال کو برباد کرنے کے لیے کافی ہے۔
وہ مال تباہی کا سبب ہے
ایک حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب مال میں زکوٰۃ کی رقم شامل ہوجائے یعنی پوری زکوٰۃ نہیں نکالی بلکہ کچھ زکوٰۃ نکالی اورکچھ باقی رہ گئی تووہ مال انسان کے لیے تباہی اور ہلاکت کا سبب ہے، اس وجہ سے اس بات کا اہتمام کریں کہ ایک ایک پائی کا صحیح حساب کرکے زکوٰۃ نکالی جائے اس کے بغیر زکوٰۃ کا فریضہ کما حقہ ادا نہیں ہوتا، الحمد للہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد وہ ہے جو زکوٰۃ ضرورنکالتی ہے لیکن اس بات کا اہتمام نہیں کرتی کہ ٹھیک ٹھیک حساب کرکے زکوٰۃ نکالے، اس کی وجہ سے زکوٰۃ کی رقم ان کے مال میں شامل رہتی ہے اور اس کے نتیجے میں ہلاکت اور بربادی کا سبب بن جاتی ہے۔
زکوٰۃ کے دنیاوی فوائد
ویسے زکوٰۃ اس نیت سے نکالنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، اس کی رضا کا تقاضہ ہے، اور ایک عبادت ہے، اس زکوٰۃ نکالنے سے ہمیں کوئی منفعت حاصل ہو یا نہ ہو، کوئی فائدہ ملے یا نہ ملے، اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت بذاتِ خود مقصود ہے، اصل مقصود تو زکوٰۃ کا یہ ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ جب کوئی بندہ زکوٰۃ نکالتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو فوائد بھی عطافرماتے ہیں، وہ فائدہ یہ ہے کہ اس کے مال میں برکت ہوتی ہے، چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰی وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ۔ (البقرہ:۲۷۶) ’’یعنی اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتے ہیں اور زکوٰۃ اور صدقات کو بڑھاتے ہیں۔‘‘
ایک حدیث میں حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی بندہ زکوٰۃ نکالتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس کے حق میں یہ دعا کرتے ہیں کہ: اَللّٰہُمَّ اَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا وَاَعْطِ مُمْسِکًا تَلَفًا۔ (بخاری کتاب الزکوٰۃ باب قول اللّٰہ تعالٰی: فَاَمَّامَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی)
اے اللہ! جو شخص اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کر رہا ہے اس کو اور زیادہ عطافرمائیے، اور اے اللہ جو شخص اپنے مال کو روک کر رکھ رہا ہے اور زکوٰۃ ادا نہیں کر رہا ہے تو اے اللہ، اس کے مال پر ہلاکت ڈالئے، اس لیے فرمایا: مَانَقَصَتْ صَدَقَۃٌ مِنْ مَالٍ، ’’کوئی صدقہ کسی مال میں کمی نہیں کرتا۔‘‘
چنانچہ بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ ادھر ایک مسلمان نے زکوٰۃ نکالی دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے اس کی آمدنی کے دوسرے ذرائع پیدا کردیئے اور اس کے ذریعہ اس زکوٰۃ سے زیادہ پیسہ اس کے پاس آگیا، بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ زکوٰۃ نکالنے سے اگرچہ گنتی کے اعتبار سے پیسے کم ہوجاتے ہیں لیکن بقیہ مال میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی برکت ہوتی ہے کہ اس برکت کے نتیجے میں تھوڑے مال سے زیادہ فوائد حاصل ہوجاتے ہیں۔
مال میں بے برکتی کا انجام
آج کی دنیا گنتی کی دنیا ہے، برکت کا مفہوم لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا، برکت اس چیز کو کہتے ہیں کہ تھوڑی سی چیز میں زیادہ فائدہ حاصل ہوجائے، مثلاً آج آپ نے پیسے تو بہت کمائے لیکن جب گھر پہنچے تو پتہ چلا کہ بچہ بیمار ہے، اس کو لے کر ڈاکٹر کے پاس گئے اور ایک ہی طبی معائنہ میں وہ سارے پیسے خرچ ہوگئے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو پیسے کمائے تھے اس میں برکت نہ ہوئی، یا مثلاًآپ پیسے کماکر گھر جارہے تھے کہ راستہ میں ڈاکو مل گیااور اس نے پستول دکھاکر سارے پیسے چھین لیے، اس کامطلب یہ ہے کہ پیسے توحاصل ہوئے لیکن اس میں برکت نہیں ہوئی، یا مثلاً آپ نے پیسہ کماکر کھانا کھایا اور اس کھانے کے نتیجے میں آپ کو بدہضمی ہوگئی، اس کامطلب یہ ہے کہ اس مال میں برکت نہ ہوئی، یہ سب بے برکتی کی نشانیاں ہیں۔
برکت یہ ہے کہ آپ نے پیسے تو کم کمائے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان تھوڑے پیسوں میں زیادہ کام بنادیے اورتمہارے بہت سے کام نکل گئے، اس کانام ہے برکت، یہ برکت اللہ تعالیٰ اس کو عطافرماتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتا ہے، لہٰذا ہم اپنے مال کی زکوٰۃ نکالیں اور اس طرح نکالیں جس طرح اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں بتایا ہے اور اس کو حساب کتاب کے ساتھ نکالیں، صرف اندازہ سے نہ نکالیں۔
زکوٰۃکانصاب
اس کی تھوڑی سی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کا ایک نصاب مقرر کیا ہے کہ اس نصاب سے کم کا اگر کوئی شخص مالک ہے تو اس پر زکوٰۃ فرض نہیں، اگر اس نصاب کا مالک ہوگا تو زکوٰۃ فرض ہوگئی، وہ نصاب یہ ہے: ساڑھے باون تولہ چاندی یااس کی قیمت کا نقد روپیہ، یا زیور، یا سامان تجارت وغیرہ جس شخص کے پاس یہ مال اتنی مقدار میں موجود ہو تو اس کو ’’صاحبِ نصاب‘‘ کہا جاتا ہے۔
ہر ہر روپے پر سال کا گزرنا ضروری نہیں
پھر اس نصاب پر ایک سال گزرنا چاہیے، یعنی ایک سال تک اگر کوئی شخص صاحبِ نصاب رہے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، اس بارے میں عام طور پر یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہرہر روپے پر مستقل پورا سال گزرے، تب اس پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، یہ بات درست نہیں، بلکہ جب ایک مرتبہ سال کے شروع میں ایک شخص صاحبِ نصاب بن جائے، مثلاً فرض کریں کہ یکم رمضان کو اگر کوئی شخص صاحبِ نصاب بن گیا پھر آئندہ سال جب یکم رمضان آیا تو اس وقت بھی وہ صاحبِ نصاب ہے تو ایسے شخص کو صاحبِ نصاب سمجھا جائے گا، درمیان سال میں جو رقم آتی جاتی رہی اس کا کوئی اعتبار نہیں، بس یکم رمضان کو دیکھ لو کہ تمھارے پاس کتنی رقم موجود ہے اس رقم پر زکوٰۃ نکالی جائے گی، چاہے اس میں سے کچھ رقم صرف ایک دن پہلے ہی کیوں نہ آئی ہو،
تاریخ زکوٰۃ میں جو رقم ہو اس پر زکوٰۃ ہے
مثلاً فرض کریں کہ ایک شخص کے پاس یکم رمضان کو ایک لاکھ روپیہ تھا اگلے سال یکم رمضان سے دو دن پہلے پچاس ہزار روپے اس کے پاس اور آگئے اور اس کے نتیجے میں یکم رمضان کو اس کے پاس ڈیڑھ لاکھ روپے ہوگئے، اب اس ڈیڑھ لاکھ روپے پر زکوٰۃ فرض ہوگی، یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس میں پچاس ہزار روپے تو صرف دودن پہلے آئے ہیں اور اس پر ایک سال نہیں گزرا، لہٰذا اس پر زکوٰۃ نہ ہونی چاہیے، یہ درست نہیں بلکہ زکوٰۃ نکالنے کی جو تاریخ ہے اور جس تاریخ کو آپ صاحبِ نصاب بنے ہیں اس تاریخ میں جتنا مال آپ کے پاس موجود ہے اس پر زکوٰۃ واجب ہے، چاہے یہ رقم پچھلے سال یکم رمضان کی رقم سے زیادہ ہو یا کم ہو مثلاً اگر پچھلے سال ایک لاکھ روپے تھے، اب ڈیڑھ لاکھ ہیں تو ڈیڑھ لاکھ پر زکوٰۃ ادا کرو، اور اگر اس سال پچاس ہزار روپے رہ گئے تو اب پچاس ہزار پر زکوٰۃ ادا کرو، درمیان سال میں جو رقم خرچ ہوگئی، اس کا کوئی حساب کتاب نہیں اور اس خرچ شدہ رقم پر زکوٰۃ نکالنے کی ضرورت نہیں، اللہ تعالیٰ نے حساب کتاب کی الجھن سے بچانے کے لیے یہ آسان طریقہ مقرر فرمایا ہے کہ درمیان سال میں جو کچھ تم نے کھایا پیا اور وہ رقم تمہارے پاس سے چلی گئی تو اس کا کوئی حساب کتاب کرنے کی ضرورت نہیں، اسی طرح درمیان سال میں جو رقم آگئی اس کا الگ سے حساب رکھنے کی ضرورت نہیں کہ وہ کس تاریخ میں آئی اور کب اس پر سال پورا ہوگا؟ بلکہ زکوٰۃ نکالنے کی تاریخ میں جو رقم تمہارے پاس ہے، اس پر زکوٰۃ ادا کرو، سال گزرنے کا مطلب یہ ہے۔
اموالِ زکوٰۃ کون کون سے ہیں؟
یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ہم پر فضل ہے کہ اس نے ہرہرچیز پر زکوٰۃ فرض نہیں فرمائی، ورنہ مال کی تو بہت سی قسمیں ہیں ۔
جن چیزوں پر زکوٰۃ فرض ہے وہ یہ ہیں : (۱)نقد روپیہ، چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہوں ، چاہے وہ نوٹ ہوں یا سکے ہوں ۔ (۲)سونا چاندی، چاہے وہ زیور کی شکل میں ہوں یا سکے کی شکل میں ہوں، بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ رہتا ہے کہ جو خواتین کا استعمالی زیور ہے اس پر زکوٰۃ نہیں ہے، یہ بات درست نہیں، صحیح بات یہ ہے کہ استعمالی زیور پر بھی زکوٰۃ واجب ہے البتہ صرف سونے چاندی کے زیور پر زکوٰۃ واجب ہے، لیکن اگر سونے چاندی کے علاوہ کسی اور دھات کا زیور ہے، چاہے پلاٹینم ہی کیوں نہ ہو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں، اسی طرح ہیرے جواہرات پر زکوٰۃ نہیں جب تک تجارت کے لئے نہ ہوں بلکہ ذاتی استعمال کے لئے ہوں۔
اموال زکوٰۃ میں عقل نہ چلائیں
یہاں یہ بات بھی سمجھ لیناچاہئے کہ زکوٰۃ ایک عبادت ہے، اللہ تعالیٰ کا عائد کیا ہوا فریضہ ہے، اب بعض لوگ زکوٰۃ کے اندر اپنی عقل دوڑاتے ہیں اوریہ سوال کرتے ہیں کہ اس پر زکوٰۃ کیوں واجب ہے اور فلاں چیز پر زکوٰۃکیوں واجب نہیں؟ یاد رکھیے کہ یہ زکوٰۃ ادا کرنا عبادت ہے اور عبادت کے معنی ہی یہ ہیں کہ چاہے وہ ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے مگر اللہ کا حکم ماننا ہے، مثلاً کوئی شخص کہے کہ سونے چاندی پر زکوٰۃ واجب ہے تو ہیرے جواہرات پر زکوٰۃ کیوں واجب نہیں؟ اور پلاٹینم پر کیوں زکوٰۃ نہیں؟ یہ سوال بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص یہ کہے کہ حالتِ سفر میں ظہر اور عصر اور عشاء کی نماز میں قصر ہے اور چار رکعت کی بجائے دورکعت پڑھی جاتی ہے تو پھر مغرب میں قصر کیوں نہیں؟ یا مثلاً کوئی شخص کہے کہ ایک آدمی ہوائی جہاز میں فرسٹ کلاس کے اندر سفر کرتا ہے اور اس سفر میں اس کو کوئی مشقت بھی نہیں ہوتی مگر اس کی نماز آدھی ہوجاتی ہے، اور میں کراچی میں بس کے اندر بڑی مشقت کے ساتھ سفر کرتا ہوں ، میری نماز آدھی کیوں نہیں ہوتی؟ ان سب کا ایک ہی جواب ہے، وہ یہ کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے عبادت کے احکام ہیں، عبادات میں ان احکام کی پابندی کرنا ضروری ہے ورنہ وہ کام عبادت نہیں رہے گا، یا مثلاً کوئی شخص یہ کہے کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ ۹؍ذی الحجہ کو ہی حج ہوتا ہے؟ مجھے تو آسانی یہ ہے کہ آج جاکر حج کرآؤں اور ایک دن کے بجائے میں عرفات تین دن قیام کروں گا، اب اگر وہ شخص ایک دن کے بجائے تین دن بھی وہاں بیٹھا رہے گا، تب بھی اس کا حج نہیں ہوگا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عبادت کا جو طریقہ بتایا تھا اس کے مطابق نہیں کیا، یا مثلاً کوئی شخص یہ کہے کہ حج کے تین دنوں میں جمرات کی رمی کرنے میں بہت ہجوم ہوتا ہے اس لئے میں چوتھے دن اکٹھی سارے دنوں کی رمی کرلوں گا، یہ رمی درست نہیں ہوگی، اس لیے کہ یہ عبادت ہے اور عبادت کے اندر یہ ضروری ہے کہ جو طریقہ بتایاگیا ہے اور جس طرح بتایا گیا ہے اس کے مطابق وہ عبادت انجام دی جائے گی تو وہ عبادت درست ہوگی ورنہ درست نہ ہوگی، لہٰذا یہ اعتراض کرنا کہ سونے اور چاندی پر زکوٰۃ کیوں ہے اور ہیرے پر کیوں نہیں؟ یہ عبادت کے فلسفے کے خلاف ہے، بہرحال، اللہ تعالیٰ نے سونے چاندی پر زکوٰۃ رکھی ہے، چاہے وہ استعمال کا ہو، اور نقد روپیہ پر زکوٰۃ رکھی ہے۔
سامان تجارت کی قیمت کے تعین کا طریقہ
دوسری چیز جس پر زکوٰۃ فرض ہے وہ ہے ’’سامانِ تجارت‘‘ مثلاً کسی کی دکان میں جو سامان برائے فروخت رکھا ہوا ہے، اس سارے اسٹاک پر زکوٰۃ واجب ہے، البتہ اسٹاک کی قیمت لگاتے ہوئے اس بات کی گنجائش ہے کہ آدمی زکوٰۃ نکالتے وقت یہ حساب لگائے کہ اگر میں پورا اسٹاک اکٹھا فروخت کروں تو بازار میں اس کی کیا قیمت لگے گی، دیکھئے ایک ’’ریٹیل پرائس‘‘ ہوتی ہے اور دوسری ’’ہول سیل پرائس‘‘ تیسری صورت یہ ہے کہ پورااسٹاک اکٹھا فروخت کرنے کی صورت میں کیا قیمت لگے گی، لہٰذا جب دکان کے اندر جو مال ہے اس کی زکوٰۃ کا حساب لگایا جارہا ہو تو اس کی گنجائش ہے کہ تیسری قسم کی قیمت لگائی جائے، وہ قیمت نکال کر پھر اس کا ڈھائی فیصد زکوٰۃ میں نکالنا ہوگا، البتہ احتیاط اس میں ہے کہ عام ’’ہول سیل قیمت‘‘ سے حساب لگاکر اس پر زکوٰۃ ادا کردی جائے۔
مال تجارت میں کیا کیا داخل ہے؟
اس کے علاوہ مالِ تجارت میں ہروہ چیز شامل ہے جس کو آدمی نے بیچنے کی غرض سے خریدا ہو، لہٰذا اگرکسی شخص نے بیچنے کی غرض سے کوئی پلاٹ خریدا یا زمین خریدی یا کوئی مکان خریدا یا گاڑی خریدی اور اس مقصد سے خریدی کہ اس کو بیچ کر نفع کماؤں گا تو یہ سب چیزیں مال تجارت میں داخل ہیں، لہٰذا اگر کوئی پلاٹ، کوئی زمین کوئی مکان خریدتے وقت شروع ہی میں یہ نیت تھی کہ میں اس کو فروخت کروں گا تو اس کی مالیت پر زکوٰۃ واجب ہے، بہت سے لوگ وہ ہوتے ہیں جو ’’انویسٹمنٹ‘‘ کی غرض سے پلاٹ خرید لیتے ہیں اور شروع ہی سے یہ نیت ہوتی ہے کہ جب اس پر اچھے پیسے ملیں گے تواس کو فروخت کردوں گا اور فروخت کرکے اس سے نفع کماؤں گا، تو اس پلاٹ کی مالیت پر بھی زکوٰۃ واجب ہے، لیکن اگر پلاٹ اس نیت سے خریدا کہ اگر موقع ہوا تو اس پر رہائش کے لئے مکان بنالیں گے، یا موقع ہوگا تو اس کو کرائے پر چڑھادیں گے یا کبھی موقع ہوگا تو اس کو فروخت کردیں گے، کوئی ایک واضح نیت نہیں ہے بلکہ ویسے ہی خریدکر ڈال دیا ہے، اب اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ آئندہ کسی وقت اس کو مکان بناکر وہاں رہائش اختیار کرلیں گے اور یہ احتمال بھی ہے کہ کرائے پر چڑھادیں گے اور یہ احتمال بھی ہے کہ فروخت کردیں گے تو اس صورت میں اس پلاٹ پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے، لہٰذا زکوٰۃ صرف اس صورت میں واجب ہوتی ہے جب خریدتے وقت ہی اسکو دوبارہ فروخت کرنے کی نیت ہو، یہاں تک کہ اگر پلاٹ خریدتے وقت شروع میں یہ نیت تھی کہ اس پر مکان بناکر رہائش اختیار کریں گے، بعد میں ارادہ بدل گیا اور یہ ارادہ کرلیاکہ اب اس کو فروخت کرکے پیسے حاصل کرلیں گے تو محض نیت اورارادہ کی تبدیلی سے فرق نہیں پڑتا جب تک آپ اس پلاٹ کو واقعۃً فروخت نہیں کردیں گے اور اس کے پیسے آپ کے پاس نہیں آجائیں گے اس وقت تک اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔
بہرحال، ہروہ چیز جسے خریدتے وقت ہی اس کو فروخت کرنے کی نیت ہو، وہ مالِ تجارت ہے، اور اس کی مالیت پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ واجب ہے۔
کس دن کی مالیت معتبر ہوگی؟
یہ بات بھی یاد رکھیں، کہ مالیت اس دن کی معتبر ہوگی جس دن آپ زکوٰۃ کا حساب کر رہے ہیں مثلاً ایک پلاٹ آپ نے ایک لاکھ روپے میں خریدا تھا اور آج اس پلاٹ کی قیمت دس لاکھ ہوگئی، اب دس لاکھ پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ نکالی جائے گی، ایک لاکھ پر نہیں نکالی جائے گی۔
کمپنیوں کے شیئرز پر زکوٰۃ کا حکم
اسی طرح کمپنیوں کے ’’شیئرز‘‘ بھی سامانِ تجارت میں داخل ہیں، اور ان کی دوصورتیں ہیں ایک صورت یہ ہے کہ آپ نے کسی کمپنی کے شیئرز اس مقصد کے لیے خریدے ہیں کہ اس کے ذریعہ کمپنی کا منافع (Dividend) حاصل کریں گے اور اس پر ہمیں سالانہ منافع کمپنی کی طرف سے ملتا رہے گا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ آپ نے کسی کمپنی کے شیئرز ’’کیٹپیل گن‘‘ کے لئے خریدے ہیں، یعنی نیت یہ ہے کہ جب بازار میں ان کی قیمت بڑھ جائے گی تو ان کو فروخت کرکے نفع کمائیں گے، اگر یہ دوسری صورت ہے یعنی شیئرز خریدتے وقت شروع ہی میں ان کو فروخت کرنے کی نیت تھی تو اس صورت میں پورے شیئرز کی بازاری پوری قیمت پر زکوٰۃ واجب ہوگی مثلاً آپ نے پچاس روپے کے حساس سے شیئرز خریدے اور مقصد یہ تھا کہ جب ان کی قیمت بڑھ جائے گی تو ان کو فروخت کرکے نفع حاصل کریں گے، اس کے بعد جس دن آپ نے زکوٰۃ کا حساب نکالا، اس دن شیئرز کی قیمت ساٹھ روپے ہوگئی تو اب ساٹھ روپے کے حساب سے ان شیئرز کی مالیت نکالی جائے گی اور اس پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ اداکرنی ہوگی۔
لیکن اگر پہلی صورت ہے یعنی آپ نے کمپنی کے شیئرز اس نیت سے خریدے کہ کمپنی کی طرف سے اس پر سالانہ منافع ملتا رہے گا اور فروخت کرنے کی نیت نہیں تھی کہ اس صورت میں آپ کے لیے اس بات کی گنجائش ہے کہ یہ دیکھیں کہ جس کمپنی کے یہ شیئرز ہیں اس کمپنی کے کتنے اثاثے جامد ہیں مثلاً بلڈنگ، مشینری، کاریں وغیرہ، اورکتنے اثاثے نقد، سامانِ تجارت اور خام مال کی شکل میں ہیں، یہ معلومات کمپنی ہی سے حاصل کی جاسکتی ہیں، مثلاً فرض کریں کہ کسی کمپنی کے ساٹھ فیصد اثاثے نقد سامانِ تجارت، خام مال اور تیار مال کی صورت میں ہیں اور چالیس فیصد اثاثے بلڈنگ، مشینری اور کار وغیرہ کی صورت میں ہیں تو اس صورت میں آپ ان شیئرز کی بازاری قیمت لگاکر اس کی ساٹھ فیصد قیمت پر زکوٰۃ ادا کریں، مثلاً شیئرز کی بازاری قیمت ساٹھ روپے تھی اور کمپنی کے ساٹھ فیصد اثاثے قابلِ زکوٰۃ تھے اور چالیس فیصد اثاثے ناقابلِ زکوٰۃ تھے تو اس صورت میں آپ اس شیئرزکی پوری قیمت یعنی ساٹھ روپے کے بجائے =/۳۶ روپے پر زکوٰۃ ادا کریں، اور اگر کسی کمپنی کے اثاثوں کی تفصیل معلوم نہ ہوسکے تو اس صورت میں احتیاطاً ان شیئرز کی پوری بازاری قیمت پر زکوٰۃ ادا کردی جائے۔
شیئرز کے علاوہ اورجتنے فائینانشل انسٹرومنٹس ہیں، چاہے وہ بونڈز ہوں یا سرٹیفکٹس ہوں، یہ سب نقد کے حکم میں ہیں، ان کی اصل قیمت پرزکوٰۃ واجب ہے۔
کارخانہ کی کن اشیاء پر زکوٰۃہے؟
اگر کوئی شخص فیکٹری کا مالک ہے تو اس فیکٹری میں جو تیارشدہ مال ہے اس کی قیمت پر زکوٰۃ واجب ہے، اسی طرح تیاری کے مختلف مراحل میں ہے یا خام مال کی شکل میں ہے اس پر بھی زکوٰۃ واجب ہے، البتہ فیکٹری کی مشینری، بلڈنگ، گاڑیوں وغیرہ پر زکوٰۃ واجب نہیں۔
اس طرح اگر کسی شخص نے کسی کاروبار میں شرکت کے لیے روپیہ لگایا ہوا ہے، اوراس کاروبار کا کوئی متناسب حصہ اس کی ملکیت ہے تو جتنا حصہ اس کی ملکیت ہے اس حصے کی بازاری قیمت کے حساب سے زکوٰۃ واجب ہوگی۔
بہرحال، خلاصہ یہ کہ نقد روپیہ جس میں بینک بیلنس اور فائینانشل انسٹرومنٹس بھی داخل ہیں، ان پر زکوٰۃ واجب ہے، اور سامانِ تجارت، جس میں تیار مال، خام مال، اور جومال تیاری کے مراحل میں ہیں وہ سب سامانِ تجارت میں داخل ہیں، اورکمپنی کے شیئرز بھی سامانِ تجارت میں داخل ہیں، اس کے علاوہ ہرچیز جو آدمی نے فروخت کرنے کی غرض سے خریدی ہو وہ بھی سامانِ تجارت میں داخل ہے،زکوٰۃنکالتے وقت ان سب کی مجموعی مالیت نکالیں اور اس پر زکوٰۃ ادا کریں۔
واجب الوصول قرضوں پر زکوٰۃ
ان کے علاوہ بہت سی رقمیں وہ ہوتی ہیں جو دوسروں سے واجب الوصول ہوتی ہیں مثلاً دوسروں کو قرض دے رکھاہے، یا مثلاً مال ادھار فروخت کر رکھا ہے اور اس کی قیمت ابھی وصول ہونی ہے، تو جب آپ زکوٰۃ کا حساب لگائیں، اور اپنی مجموعی مالیت نکالیں تو بہتر یہ ہے کہ ان قرضوں کو اور واجب الوصول رقموں کو آپ ہی اپنی مجموعی مالیت میں شامل کرلیں، اگرچہ شرعی حکم یہ ہے کہ جو قرضے ابھی وصول نہیں ہوئے تو جب تک وہ وصول نہ ہوجائیں اس وقت تک شرعاً ان پر زکوٰۃ کی ادائیگی واجب نہیں ہوتی، لیکن جب وصول ہوجائیں تو جتنے سال گزر چکے ہیں ان تمام پچھلے سالوں کی بھی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی، مثلاً فرض کریں کہ آپ نے ایک شخص کو ایک لاکھ روپیہ قرضہ دے رکھا تھا، اور پانچ سال کے بعد وہ قرضہ آپ کو واپس ملا، تو اگرچہ اس ایک لاکھ روپے پر ان پانچ سالوں کے دوران تو زکوٰۃ کی ادائیگی واجب نہیں تھی، لیکن جب وہ ایک لاکھ روپے وصول ہوگئے تو اب گزشتہ پانچ سالوں کی بھی زکوٰۃ دینی ہوگی، تو چونکہ گذشتہ سالوں کی زکوٰۃ یک مشت ادا کرنے میں بعض اوقات دشواری ہوتی ہے، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ ہرسال اس قرض کی زکوٰۃ کی ادائیگی بھی کردی جایا کرے، لہٰذا جب زکوٰۃ کا حساب لگائیں تو ان قرضوں کو بھی مجموعی مالیت میں شامل کرلیا کریں۔
قرضوں کی منہائی
پھر دوسری طرف یہ دیکھیں کہ آپ کے ذمے دوسرے لوگوں کے کتنے قرضے ہیں، اور پھر مجموعی مالیت میں سے ان قرضوں کو منہا کردیں، منہا کرنے کے بعد جو باقی بچے وہ قابل زکوٰۃ رقم ہے، اس کا پھر ڈھائی فیصد نکال کر زکوٰۃ کی نیت سے ادا کردیں، بہتر یہ ہے کہ جو رقم زکوٰۃ کی بنے اتنی رقم الگ نکال کر محفوظ کرلیں، پھر وقتاً فوقتاً اس کو مستحقین میں خرچ کرتے رہیں، بہرحال زکوٰۃ کا حساب لگانے کایہ طریقہ ہے۔
قرضوں کی دوقسمیں
قرضوں کے سلسلے میں ایک بات اور سمجھ لینی چاہئے، وہ یہ کہ قرضوں کی دوقسمیں ہیں : ایک تو معمولی قرضے ہیں جن کو انسان اپنی ذاتی ضروریات اورہنگامی ضروریات کے لئے مجبوراً لیتا ہے۔
دوسری قسم کے قرضے وہ ہیں جو بڑے بڑے سرمایہ دار پیداواری اغراض کے لئے لیتے ہیں، مثلاً فیکٹریاں لگانے، یا مشینریاں خریدنے یا مالِ تجارت امپورٹ کرنے کے لیے قرضے لیتے ہیں، یا مثلاً ایک سرمایہ دار کے پاس پہلے سے دوفیکٹریاں موجود ہیں، لیکن اس نے بینک سے قرض لے کر تیسری فیکٹری لگالی، اب اگر اس دوسری قسم کے قرضوں کو مجموعی مالیت سے منہا کیا جائے، تو نہ صرف یہ کہ ان سرمایہ داروں پر ایک پیسے کی بھی زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی بلکہ وہ لوگ الٹے مستحق زکوٰۃ بن جائیں گے، اس لئے کہ ان کے پاس جتنی مالیت کا مال موجود ہے، اس سے زیادہ مالیت کے قرضے بینک سے لے رکھے ہیں، وہ بظاہر فقیر اور مسکین نظر آرہا ہے، لہٰذاان قرضوں کے منہاکرنے میں بھی شریعت نے فرق رکھا ہے۔
تجارتی قرضے کب منہا کئے جائیں
اس میں تفصیل یہ ہے کہ پہلی قسم کے قرضے تومجموعی مالیت سے منہا ہوجائیں گے، اور ان کو منہا کرنے کے بعد زکوٰۃ ادا کی جائے گی، اور دوسری قسم کے قرضوں میں یہ تفصیل ہے کہ اگر کسی شخص نے تجارت کی غرض سے قرض لیا، اور اس قرض کو ایسی اشیاء خریدنے میں استعمال کیا جو قابل زکوٰۃ ہیں مثلاً اس قرض سے خام مال خرید لیا، یا مال تجارت خرید لیا، تو اس قرض کو مجموعی مالیت سے منہاکریں گے، لیکن اگر اس قرض کو ایسے اثاثے خریدنے میں استعمال کیا جو ناقابلِ زکوٰۃ ہیں تواس قرض کو مجموعی مالیت سے منہا نہیں کریں گے۔
قرض کی مثال
مثلاً ایک شخص نے بینک سے ایک کروڑ روپے قرض لئے اور اس رقم سے اس نے ایک پلانٹ (مشینری) باہر سے امپورٹ کرلیا، چونکہ یہ پلانٹ قابلِ زکوٰۃ نہیں ہے اس لیے کہ یہ مشینری ہے تو اس صورت میں یہ قرضہ منہا نہیں ہوگا، لیکن اگر اس نے اس قرض سے خام مال خرید لیا تو چونکہ خام مال قابلِ زکوٰۃ ہے اس لیے یہ قرض منہا کیا جائے گا، کیونکہ دوسری طرف یہ خام مال ادا کی جانے والی زکوٰۃ کی مجموعی مالیت میں پہلے سے شامل ہوچکا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ نارمل قسم کے قرض تو پورے کے پورے مجموعی مالیت سے منہا ہوجائیں گے، اور جو قرضے پیداواری اغراض کے لیے لیے گئے ہیں، اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر اس سے ناقابل زکوٰۃ اثاثے خریدے ہیں تو وہ قرض منہا نہیں ہوگا، اور اگر قابلِ زکوٰۃ اثاثے خریدے ہیں تو وہ قرض منہا ہوگا، یہ تو زکوٰۃ نکالنے کے بارے میں احکام تھے۔
زکوٰۃ مستحق کو ادا کریں
دوسری طرف زکوٰۃ کی ادائیگی کے بارے میں بھی شریعت نے احکام بتائے ہیں، میرے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ زکوٰۃ نکالو، نہ یہ فرمایا کہ زکوٰۃ پھینکو، بلکہ فرمایا: ’’اٰتُوا الزَّکٰوۃَ‘‘ زکوٰۃ ادا کرو۔ یعنی یہ دیکھو کہ اس جگہ پر زکوٰۃ جائے جہاں شرعاً زکوٰۃ جانی چاہئے۔
بعض لوگ زکوٰۃ نکالتے تو ہیں لیکن اس کی پرواہ نہیں کرتے کہ صحیح مصرف پر خرچ ہورہی ہے یانہیں ؟ زکوٰۃ نکال کرکسی کے حوالے کردی اور اس کی تحقیق نہیں کی کہ یہ صحیح مصرف پر خرچ کرے گایا نہیں ؟ آج بے شمار ادارے دنیا میں کام کر رہے ہیں ، ان میں بہت سے ادارے ایسے بھی ہوں گے جن میں بسااوقات اس بات کا لحاظ نہیں ہوتا ہوگا کہ زکوٰۃ کی رقم صحیح مصرف پر خرچ ہورہی ہے یا نہیں ؟ اس لئے فرمایا کہ زکوٰۃ ادا کرو۔ یعنی جو مستحق زکوٰۃ ہے اس کو ادا کرو۔
مستحق کون؟
اس کے لئے شریعت نے یہ اصول مقرر فرمایا کہ زکوٰۃ صرف انہیں اشخاص کو دی جاسکتی ہے جو صاحبِ نصاب نہ ہوں، یہاں تک کہ اگران کی ملکیت میں ضرورت سے زائد ایسا سامان موجود ہے جو ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچ جاتا ہے تو بھی وہ مستحق زکوٰۃ نہیں رہتا، مستحق زکوٰۃ وہ ہے جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کی رقم یا اتنی مالیت کا کوئی سامان ضرورت سے زائد نہ ہو۔
مستحق کو مالک بناکر دیں
اس میں بھی شریعت کا یہ حکم ہے کہ اس مستحق زکوٰۃ کو مالک بناکر دو، یعنی وہ مستحق زکوٰۃ اپنی ملکیت میں خود مختار ہوکر جو چاہے کرے، اسی وجہ سے کسی بلڈنگ کی تعمیر پر زکوٰۃ نہیں لگ سکتی، کسی ادارے کے ملازمین کی تنخواہوں پر زکوٰۃ نہیں لگ سکتی، اس لیے کہ اگر زکوٰۃ کے ذریعہ تعمیرات کرنے اور ادارے قائم کرنے کی اجازت دے دی جاتی تو زکوٰۃ کی رقم سب لوگ کھاپی کر ختم کرجاتے، کیونکہ اداروں کے اندر تنخواہیں بے شمار ہوتی ہیں، تعمیرات پر خرچ لاکھوں کا ہوتا ہے، اس لیے یہ حکم دیا گیا ہے کہ غیرصاحبِ نصاب کومالک بناکر زکوٰۃ دو، یہ زکوٰۃ فقراء اور غرباء اور کمزوروں کا حق ہے! لہٰذایہ زکوٰۃ انھی تک پہنچنی چاہیے، جب ان کو مالک بناکر دوگے تو تمہاری زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔
کِن رشتہ داروں کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے؟
یہ زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم انسان کے اندر یہ طلب اور جستجو خودبخود پیداکرتا ہے کہ میرے پاس زکوٰۃ کے اتنے پیسے موجود ہیں، ان کو صحیح مصرف میں خرچ کرنا ہے، اس لیے وہ مستحقین کو تلاش کرتا ہے کہ کون کون لوگ مستحقین ہیں اور ان مستحقین کی فہرست بناتا ہے، پھر ان کو زکوٰۃ پہنچاتا ہے، یہ بھی انسان کی ذمہ داری ہے، آپ کے محلے میں ، ملنے جلنے والوں میں، عزیز و اقارب اور رشتہ داروں میں دوست احباب میں جو مستحق زکوٰۃ ہوں، ان کو زکوٰۃ ادا کریں، اوران میں سے سب سے افضل یہ ہے کہ اپنے رشتہ داروں کو زکوٰۃ ادا کریں، اس میں ڈبل ثواب ہے زکوٰۃ ادا کرنے کا ثواب بھی ہے اور صلہ رحمی کرنے کا ثواب بھی ہے، اور تمام رشتہ داروں کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں، صرف دورشتے ایسے ہیں جن کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی، ایک ولادت کا رشتہ ہے، لہٰذا باپ بیٹے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا اور بیٹا باپ کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا، دوسرا نکاح کا رشتہ ہے لہٰذا شوہر بیوی کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا اور بیوی شوہر کو زکوٰۃ نہیں دے سکتی، انکے علاوہ باقی تمام رشتوں میں زکوٰۃ دی جاسکتی ہے، مثلاً بھائی کو، بہن کو، چچا کو، خالہ کو، خالو کو، پھوپھی کو، ماموں کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ البتہ یہ ضرور دیکھ لیں کہ وہ مستحق زکوٰۃ ہوں اور صاحبِ نصاب نہ ہوں۔
بیوہ اور یتیم کو زکوٰۃ دینے کا حکم
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی خاتون بیوہ ہے تو اس کو زکوٰۃ ضرور دینی چاہیے، حالانکہ یہاں بھی شرط یہ ہے کہ وہ مستحق زکوٰۃ ہو اور صاحبِ نصاب نہ ہو، اگر بیوہ مستحقِ زکوٰۃ ہے تو اس کی مدد کرنا بڑی اچھی بات ہے، لیکن اگر ایک خاتون بیوہ ہے اورمستحق زکوٰۃ نہیں ہے تو محض بیوہ ہونے کی وجہ سے وہ مصرفِ زکوٰۃ نہیں بن سکتی، اسی طرح یتیم کو زکوٰۃ دینا اور اس کی مدد کرنا بہت اچھی بات ہے لیکن یہ دیکھ کر زکوٰۃ دینی چاہئے کہ وہ مستحق زکوٰۃ ہے؟ لیکن اگر کوئی یتیم ہے مگر وہ مستحق زکوٰۃ نہیں ہے بلکہ صاحبِ نصاب ہے تو یتیم ہونے کے باوجوداس کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی، ان احکام کو مدنظررکھتے ہوئے زکوٰۃ نکالنی چاہئے۔
زکوٰۃ کی تاریخ کیا ہونی چاہئے؟
ایک بات یہ سمجھ لیں کہ زکوٰۃ کے لئے شرعاً کوئی تاریخ مقرر نہیں ہے اور نہ کوئی زمانہ مقرر ہے کہ اس زمانے میں یا اس تاریخ میں زکوٰۃ ادا کی جائے بلکہ ہرآدمی کی زکوٰۃ کی تاریخ جدا ہوتی ہے۔ شرعاًزکوٰۃ کی اصل تاریخ وہ ہے جس تاریخ اورجس دن آدمی پہلی مرتبہ صاحبِ نصاب بنا، مثلاً ایک شخص یکم محرم الحرام کو پہلی مرتبہ صاحبِ نصاب بنا تو اس کی زکوٰۃ کی تاریخ یکم محرم الحرام ہوگئی اب آئندہ ہرسال اس کو یکم محرم الحرام کو اپنی زکوٰۃکا حساب کرنا چاہئے، لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کو یہ یاد نہیں رہتا کہ ہم کس تاریخ کو پہلی مرتبہ صاحبِ نصاب بنے تھے، اس لیے اس مجبوری کی وجہ سے وہ اپنے لیے کوئی ایسی تاریخ زکوٰۃ کے حساب کی مقرر کرلے جس میں اس کے لیے حساب لگانا آسان ہو، پھر آئندہ ہرسال اسی تاریخ کو زکوٰۃ کا حساب کرکے زکوٰۃ ادا کرے، البتہ احتیاطاً کچھ زیادہ ادا کردیں۔
کیا رمضان المبارک کی تاریخ مقرر کرسکتے ہیں؟
عام طور پر لوگ رمضان المبارک میں زکوٰۃ نکالتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیث شریف میں ہے کہ رمضان المبارک میں ایک فرض کا ثواب ستر گنا بڑھادیا جاتا ہے، لہٰذا زکوٰۃبھی چونکہ فرض ہے اگر رمضان المبارک میں ادا کریں گے تو اس کا ثواب بھی ستر گنا ملے گا، بات اپنی جگہ بالکل درست ہے اور یہ جذبہ بہت اچھا ہے، لیکن اگر کسی شخص کو اپنے صاحبِ نصاب بننے کی تاریخ معلوم ہے تو محض اس ثواب کی وجہ سے وہ شخص رمضان کی تاریخ مقرر نہیں کرسکتا، لہٰذا اس کو چاہیے کہ اسی تاریخ پر اپنی زکوٰۃ کا حساب کرے، البتہ زکوٰۃ کی ادائیگی میں یہ کرسکتا ہے کہ اگر تھوڑی تھوڑی زکوٰۃ ادا کر رہا ہے تو اس طرح ادا کرتا رہے اور باقی جو بچے اس کو رمضان المبارک میں ادا کردے، البتہ اگر تاریخ یاد نہیں ہے تو پھر گنجائش ہے کہ رمضان المبارک کی کوئی تاریخ مقرر کرلے البتہ احتیاطاًزیادہ ادا کرے، تاکہ اگر تاریخ کے آگے پیچھے ہونے کی وجہ سے جو فرق ہوگیا ہو وہ فرق بھی پورا ہوجائے۔
پھر جب ایک مرتبہ جو تاریخ مقررکرلے تو پھر ہرسال اسی تاریخ کو اپنا حساب لگائے اور یہ دیکھے کہ اس تاریخ میں میرے کیا کیااثاثے موجود ہیں، اس تاریخ میں نقدم رقم کتنی ہے، اگر سونا موجود ہے تو اسی تاریخ کی سونے کی قیمت لگائے اگر شیئرز ہیں تو اسی تاریخ کی ان شیئرز کی قیمت لگائے، اگر اسٹاک کی قیمت لگانی ہے تو اسی تاریخ کی اسٹاک کی قیمت لگائے اور پھر ہر سال اسی تاریخ کو حساب کرکے زکوٰۃ ادا کرنی چاہئے، اس تاریخ سے آگے پیچھے نہیں کرنا چاہئے۔
بہرحال، زکوٰۃ کے بارے میں یہ تھوڑی سی تفصیل عرض کردی۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان احکام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
مکمل مواد اصلاحی خطبات سے نقل کیا گیا ہے۔
بزم خطباء