Powered By Blogger

منگل, نومبر 15, 2022

بڑا فائدہ سمجھ میں آیاہےہمایوں اقبال ندوی، ارریہ۱۴/نومبر ۲۰۲۲ء

بڑا فائدہ سمجھ میں آیاہے
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ
۱۴/نومبر ۲۰۲۲ء

جناب مفتی جمال الدین صاحب مظاہری کی دعوت پر باغ نگر گاؤں میں حاضری ہوئی ہے، موصوف" دارالمعارف اخوات المنور للبنات باغ نگر"کے بانی ومہتم ہیں، ماشاءاللہ یہ مدرسہ بچوں اور بچیوں سے بھرا پڑا ہےاور یہاں کی شدیدترین ضرورت ہے، باغ نگر شہر ارریہ سے دکھن سمت میں پندرہ کلومیٹرفاصلے پرواقع ہے،ندی کے کنارے آباد یہ گاؤں بہت خوبصورت ہے، زمین میں بڑی زرخیزی ہے، یہاں کی سبزیاں اور ترکاریاں ضلع ارریہ واطراف میں اپنی تازگی واچھائی میں مشہور بھی ہیں، گاؤں کے زیادہ لوگ کھیتی وکاشتکاری سے وابستہ ہیں، بڑے محنتی اورجفاکش ہیں،کھیتی باڑی پر زیادہ دھیان رکھنے والے ہیں اور وہاں تعلیم کی بڑی کمی ہے، دین کی بنیادی باتوں سےبھی ناواقف ہیں، 
بڑی خوشی کی بات ہے کہ مفتی جمال الدین صاحب مظاہری کو یہ فکر دامنگیر ہوگئی ہے، مفتی صاحب جہاں بچوں کی تعلیم وتربیت کے لیے ادارہ چلارہے ہیں، وہیں عام لوگوں میں بھی تعلیم کے تئیں بیداری پیدا کرنے کےلیےفکر مند ہیں،ہر مہینے اپنے ادارہ کے وسیع وعریض احاطہ میں دینی مجالس قائم کررہے ہیں، ایک مجلس مردوں کے لیے ہوتی ہے تو وہیں دوسری مجلس ہر مہینہ خواتین کے لیے خاص ہے،واقعی یہ بڑی بات ہے، میری معلومات کے مطابق ضلع ارریہ واطراف میں کہیں بھی اس طرح کی منظم کوشش نہیں ہورہی ہے،بالخصوص خواتین میں مفتی صاحب کا کام قابل تقلید اور لائق ستائش ہے۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی ہے،
 حدیث شریف میں یہ لکھا ہوا ہے ؛
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مرد حضرات ہی مستفید ہوا کرتے تھے، خواتین کو موقع کم ملتا تھا، اس بنا پر عورتوں نے درخواست کی کہ ہمارے لیےخاص دن مقرر فرمایا جائے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے درخواست منظور کی اور ان کےوعظ وارشادکے لیے ایک خاص دن مقرر ہوگیا،(سیرت النبی جلد /۲ ص۱۴۰)

ناچیز کی حاضری مردوں کو مخاطب کرنے کے لیے ہوئی ہے، معلوم ہوا کہ اس سے قبل خواتین کی مجلس ہوچکی ہے، مفتی صاحب نے یہ بتایا کہ الحمد للہ اس کا بڑا فائدہ سمجھ میں آیا ہے،خواتین میں دینی معلومات کے حصول کی خاطربڑاذوق و شوق پیدا ہو گیا ہے،اورسماج میں تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے،ظہر کی نماز کے بعد دوگھنٹے تک خواتین کی دینی مجلس رہتی ہے، سوال وجواب کا بھی سیشن رکھا جاتا ہے، خواتین بے باکانہ انداز میں باری باری سوال کرتی ہیں، بہت سارے مسائل انہیں معلوم ہوتے ہیں، رسوم ورواج سے متعلق انمیں پھیلی بہت سی غلط فہمیاں دور ہورہی ہیں، یہ مجالس بہت ہی مفید ثابت ہورہی ہیں ۔نہ کوئی اشتہار ہے اورنہ کوئی اناؤنسنگ کی جاتی ہے،نہ چندہ اکٹھا کرنے کے لیے کمیٹی بنائی جاتی ہے اور نہ کوئی کوپن چھپتا ہے،مفتی غفران حیدر صاحب مظاہری ناظم مدرسہ نور المعارف دیا گنج ارریہ مرد حضرات کو خطاب کرنے حاضر ہوجاتےہیں، ہر مہینہ کی دس تاریخ کو بعد نماز مغرب تا عشاء یہ مجلس رہتی ہے، خواتین کو خطاب کرنے کے لیےکسی ایک معلمہ کی خدمت لی جاتی ہے،مستورات کے لیے ہر مہینہ کی پچیس تاریخ کوبعد نماز ظہر دو گھنٹے کے لیےدینی مجلس منعقد کی جاتی ہے، سبھی مرد وخواتین حضرات کوپہلے سےہی اس کی جانکاری  ہے۔

ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے، صحابہ کرام کے دو حلقے قائم تھے،ایک قرآن خوانی اور ذکر ودعا میں مشغول تھااور دوسرے حلقے میں علمی باتیں ہورہی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دونوں عمل خیر کررہے ہیں، لیکن خدا نے مجھ کو صرف معلم بناکر مبعوث کیا ہے، یہ کہ کر علمی حلقے میں بیٹھ گئے،(سیرت النبی ج/۲ص:۱۴۱)
مذکورہ بالا حدیث سے جہاں تعلیمی مجلس کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے،وہیں اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ تعلیمی مجلس کی افادیت تعلیمی اجلاس سے کہیں بڑھ کر ہے،یہ تعلیمی حلقے جہاں سیکھنے اور سکھانے کا عمل ہوتا ہے، ہر آدمی کو سوال کرنے اور پوچھنے کی اجازت ہوتی ہے، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، علماء کرام جو وارثین انبیاء ہیں، آج اسی طرز پر کام شروع کرتے ہیں تواس کے ذریعہ سماج ومعاشرہ میں بڑی تبدیلی لائی جاسکتی ہے، 
مجالس نبوی میں شریک ہونے والے بدو اور دیہاتی بھی ہوا کرتے تھے اور بےباکانہ انداز میں سوال وجواب کیا کرتے تھے، اس سے علم کا ایک دریا بھی رواں ہوگیا ہے۔
آج بڑے بڑے اجلاس منعقد کئے جاتے ہیں،مگر فائدہ اور نتیجہ اس کا بڑا نہیں دکھ رہا ہے، تعلیمی بیداری کانفرنس سے بیداری نہیں پیدا ہورہی ہے،سیرت النبی کے اجلاس سے زندگی میں سنت رسول زندہ نہیں ہورہی ہے،عظیم الشان اجلاس عام کے نام ایک بڑی بھیڑ جمع ہوتی ہے اور مینا بازار لگ جاتا ہے،اسی بازار میں سنت وشریعت گم ہوجاتی ہے اور جلسہ کا مقصد بھیڑ کی نذر ہوجاتا ہے، کچھ صالح قسم کے مرد احباب وحضرات جو پنڈال کے اندر ہوتے ہیں، انہیں کچھ فائدہ پہونچ جاتا ہے مگر یہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں ۔جہاں تک خواتین کی بات ہے تو یہ بیچاری محروم ہی رہتی ہیں،اشتہارات میں یہ تو ضرور لکھا ہوا موجود ہوتا ہے کہ" مستورات کے لیے پردے کا معقول نظم ہے"مگر ایک الگ پنڈال بناکر حالات کے رحم وکرم پر انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے،اکثر مقررین حضرات کو یہ بھی خبر نہیں ہوتی ہے کہ سامعین میں خواتین بھی ہیں،نہ انہیں خطاب کیا جاتا ہے اور نہ خواتین سے متعلق ضروری باتیں پیش کی جاتی ہیں۔ان حالات میں جناب مفتی جمال الدین صاحب مظاہری واقعی قابل مبارکباد ہیں، 
    میرے قبیلے میں تعلیم کا رواج نہ تھا 
      میرے بزرگ مگر تختیاں بناتے تھے 

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ
۱۴/نومبر ۲۰۲۲ء

مدرسہ ضیاء العلوم میں یوم اطفال کے موقع پر تقریب کا انعقاد

مدرسہ ضیاء العلوم میں یوم اطفال کے موقع پر تقریب کا انعقاد 
اردو دنیا نیوز٧٢ 
پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 14/نومبر (پریس ریلیز) 

مدرسہ ضیاء العلوم (زیر اہتمام ضیائے حق فاؤنڈیشن) پٹنہ میں واقع ایک خالص دینی ادارہ ہے، جہاں طلبہ وطالبات کثیر تعداد میں  علمی پیاس بجھا رہے ہیں، یہاں ابتدائی دینیات سے اعلیٰ تعلیم کا بھی بہترین نظم ونسق ہے، 
سابقہ روایت کی طرح 14/نومبر 2022 کو یوم اطفال کے موقع پر تقریب  کا انعقاد کیا گیا ،بچوں نے پورے جوش وخروش کے ساتھ اس تقریب میں پیش پیش رہے، ادارہ کی جانب سے بچوں کے درمیان بطور اعزاز اور حوصلہ افزائی کے لئے انعامات بھی تقسیم کئے گئے، اس موقع پر ادارہ کے ڈائریکٹر محمد ضیاء العظیم نے بچوں کو یوم اطفال کا تاریخی منظر سے آشنا کراتے ہوئے انہیں اپنی اچھی مستقبل کے لئے جہد مسلسل کرنے کی ترغیب دلائی،یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مدرسہ ضیاء العلوم یہ ملک کے مشہور ومعروف تنظیم ضیائے حق فاؤنڈیشن (ٹرسٹ) کے زیر اہتمام چلنے والا ایک خالص دینی ادارہ ہے، اس موقع پر ضیائے حق فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن ڈاکٹر صالحہ صدیقی اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو سمستی پور کالج نے بھی غائبانہ طور پر تمام بچوں کو یوم اطفال کی مبارکبادی پیش کی ، آخر میں  محمد ضیاء العظیم قاسمی صاحب نے تمام بچوں کو دعا دیتے ہوئے اس تقریب کے اختتام کا اعلان کیا،

جھارکھنڈ اور امارت شرعیہ*مفتی محمد ثناء الہدی قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ

*جھارکھنڈ اور امارت شرعیہ*
اردو دنیا نیوز٧٢ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ

جھارکھنڈ کو ملک کے اٹھائیسویں  ریاست کی حیثیت سے15 نومبر 2000ء کو منظوری ملی تھی، اور بہار دو حصوں   میں   تقسیم ہو گیا تھا، جھارکھنڈ چوبیس اضلاع پر مشتمل ہے ، یہاں  کی کل آبادی 3,2988134 اور اس کا رقبہ 79714/کلو میٹر ہے، یہاں  مسلمانوں  کی کل آبادی4793994/اور ہندو نیز آدی باسی کی مجموعی آبادی 22376051 ہے، یہ اعداد وشمار 2011ء کے ہیں ، یہاں  کا آدی باسی سماج 47 مذہبی خانوں   میں   بٹا ہوا ہے،یہاں  کی دفتری سرکاری زبان ہندی ہے اور عوام مختلف بولیوں  کا استعمال کرتے ہیں ، جن  میں   ایک کھوٹّا بھی ہے، دو دہائی سے زیادہ مدت گذرنے کے بعد بھی اردو کو اس کا حق نہیں  مل سکا ہے، کہنے کو 2007 ء سے یہاں  کی دوسری سرکاری زبان اردو ہے،حکومت نے اس سلسلہ کا جو نوٹی فیکیشن جاری کیا اس کا نمبر  20/204-6807۔21 مورخہ 16/ اکتوبر 2007 ہے ۔  یہاں  اب تک نہ مدرسہ بورڈ قائم ہو سکا ہے اور نہ ہی اردو اکیڈمی وجود پذیر ہو سکی، وقف بورڈ بھی ایک سی او کے ذریعہ چلایا جا رہا ہے ، غربت کی وجہ سے یہاں  تعلیم کا تناسب مجموعی آبادی کے اعتبار سے کم ہے، حالاں  کہ جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی  میں   عیسائی مشنریوں  کے بہت سارے ادارے قائم ہیں ، جو مسلم بچوں  کو دین وایمان اور اسلامی اقدار سے دور کرنے  میں   موَثر رول ادا کر رہے ہیں  ۔ جھارکھنڈ میں   آٹھ یونیورسیٹیاں  کام کر رہی ہیں  اور ایک ٹکنالوجی انسٹی چیوٹ بھی ہے ، یہاں کے آدی باسی اپنی تہذیب وثقافت کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ، انہیں  خطرہ ہے کہ ہندو آبادی انہیں  اپنے  میں   ضم نہ کر لے، جھارکھنڈ  میں   قابل کاشت آراضی صرف اڑتیس لاکھ ہیکٹر ہے اور جنگلات 18423/ کیلو میٹر اسکوائر  میں   پھیلے ہوے ہیں ، جس کی وجہ سے یہاں  کے مناظر دلکش اور آب وہوا صحت کے لیے مفید ہے، جنگلات اور درختوں  کی فراوانی کی وجہ سے یہاں  فضائی آلودگی کم پائی جاتی ہے، جھارکھنڈ کی اسمبلی  میں   براسی(82)، راجیہ سبھا  میں   چھ(6) اور پارلیامنٹ کی چودہ (14)سیٹیں  ہیں ، جن  میں   مسلمانوں  کی نمائندگی انتہائی کم ہے ۔  جھارکھنڈ میں  پہلا اسمبلی انتخاب 2005ء  میں   ہوا تھا اور صرف دو ارکان اسمبلی جیت کر آئے تھے، 2009ء  میں   یہ تعداد پانچ تک پہونچی، لیکن 2014ء  میں   دوارکان نے جیت درج کرائی ،2020ء کے انتخاب  میں   چار مسلم ارکان اسمبلی پہونچ سکے، اور دو کو وزیر بننے کا موقع ملا، جن  میں   ایک سابق وزیر حسین انصاری صاحب مرحوم کے صاحب زادہ ہیں ،2011ء کی مردم شماری کے مطابق جھارکھنڈ  میں   مسلم آبادی کا تناسب کم از کم پندرہ فی صد ہے، دیو گھر ، گڈا، جام تاڑا، صاحب گنج، پاکوڑ، لوہر دگا اور گریڈیہہ میں   مسلمانوں  کی کثیر آبادی ہے، صاحب گنج اورپاکوڑ  میں   مجموعی آبادی  میں   مسلمانوں  کا تناسب تیس فی صد ہے، دیو گھر ، گڈا ، جام تاڑا، لوہر دگا ، گریڈیہہ اور رانچی  میں   مسلمانوں  کی آبادی سرکاری اعداد وشمار کے اعتبار سے بیس فی صد ہے، اس کے باوجودجھارکھنڈ سے ایک ہی مسلم ممبر، پارلیامنٹ پہونچ پاتے ہیں ، اس معاملہ میں   فرقان انصاری ہمیشہ خوش قسمت ثابت ہوتے رہے تھے ، اس بار ان کا ستارہ بھی گردش  میں   آگیا اور پارلیامنٹ  میں   مسلم نمائندگی صفر ہو گئی ۔

معاشی اعتبار سے بھی مسلمان یہاں پسماندہ ہیں ، مسلمانوں میں روزگار کی شرح یہاں صرف 5ء43 فی صد اور خواتین میں 8ء 18فی صد ہے، اس کی وجہ سے مسلمانوں کی غربت کی شرح 32 فیصد ہے جب کہ عام شہریوں میں 18 فیصد ہے ۔

امارت شرعیہ کے اکابر کی دور رس اور دور بیں نگاہوں نے جھارکھنڈ کے قیام بلکہ اس کی تحریک سے پہلے ہی جھارکھنڈ کے علاقہ پر اپنی توجہ مرکوز رکھی، اور کءی ذیلی دفاتر انہیں علاقوں میں قائم کیے گئے1967 کے فساد میں راحت رسانی اور آباد کاری کا مثالی کام امارت شرعیہ نے کیا، جھارکھنڈ بننے کے بعد دارالقضاء کے کاموں کو مختلف اضلاع میں وسعت دی گئی ، وفود کے دورے کثرت سے ہونے لگے ، جھارکھنڈ کے قیام کے بعد ’’جھارکھنڈ کانفرنس 13/مئی 2001 کومشن گراوَنڈ رانچی میں کرکے امارت شرعیہ کے اغراض ومقاصد عوام تک پہونچانے کا کام کیا گیا اور مکاتب وغیرہ کے قیام کے ذریعہ بنیادی دینی تعلیم کے کام کو فروغ بخشا گیا،معلمین کی تربیت کے لیے کئی کیمپ لگائے ، او ر وفاق المدارس کا بین المدارس اجتماع مدرسہ رشید العلوم چترا جھارکھند میں کرایا گیا23ْجنوری 2011ء کو انجمن اسلامیہ ہال رانچی میں امیر شریعت سادس کی صدارت میں تعمیر انسانیت کانفرنس بھی منعقد ہوئی، جس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم بھی تشریف فرما تھے،13مارچ 2016ء کو امیر شریعت  سابع حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب رحمہ اللہ کی صدارت میں دین ودستور بچاوَ کے عنوان سے عظیم الشان کانفرنس منعقد ہوئی جس میں راقم الحروف (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی) کے ساتھ وانم مشرام وغیرہ نے بھی شرکت کی تھی، لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا، اس کانفرنس نے دین ودستور بچانے کے سلسلے میں حساسیت پیدا کی ، اور اس کے انتہائی دور رس اثرات مرتب ہوئے،جب کبھی جھارکھنڈ میں کوئی زمینی یا آسمانی آفت آئی، امارت شرعیہ نے متاثرین میں راحت رسانی اور باز آباد کاری کا کام کیا، لاک ڈاوَن کی پریشانی تو ابھی کل کی بات ہے ، امارت شرعیہ نے بڑے پیمانے پر غذائی اجناس کی فراہمی اور تکالیف دور کرنے کے لیے مسلسل منظم اور مربوط جد وجہد کی، علماء ، ائمہ جو پریشان حال تھے، اس موقع سے ان کا بھی خیال رکھا گیا، رانچی مقامی دفتر کے ذمہ دار اور قاضی شریعت مفتی محمد انور قاسمی نے حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم کی ہدایت اور قائم مقام ناظم مولانا محمد شبلی قاسمی کی نگرانی میں جو خدمات انجام دیں ، اس کی وجہ سے بعض تنظیموں کے ذریعہ امارت شرعیہ کو توصیفی سند سے نوازا گیا، امارت شرعیہ نے مسلمانوں میں تعلیمی پس ماندگی دور کرنے کے لیے ’’تعلیمی ہب‘‘ سے مشہور رانچی کے ہند پیڑھی محلہ میں کثیر منزلہ عمارت کی تعمیر کرائی ،تاکہ یہاں دینی اور دنیاوی تعلیم کا مضبوط اور مستحکم نظام قائم کیاجا سکے ۔

جھارکھنڈ میں ’’ عشرہ برائے ترغیب تعلیم وتحفط اردو‘‘ یکم مارچ کو اختتام پذیر ہوا، امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کے قضاۃ اور کارکنان کے ذریعہ پورا عشرہ جھارکھنڈ کے چوبیس اضلاع میں بنیادی دینی تعلیم، عصری تعلیم کے اداروں کے قیام اور داخلی وخارجی سطح پر اردو کے فروغ وتحفظ کے لیے مہم چلائی گئی ، سبھی اضلاع میں کمیٹیاں بنائی گئیں اور کمیٹی کو ان تینوں امور پر عملی پیش رفت کا ہدف دیا گیا ۔

اس موقع سے حضرات علماء کرام نے جو پیغامات لوگوں کو دیے وہ بھی بہت قیمتی تھے ، انہوں نے کہا کہ مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی  نے ملت کی ترقی کے لیے جو سہ نکاتی فارمولہ دیا ہے وہ کافی اہم ہیں ، اور ہندوستان میں ملت اسلامیہ اس وقت جن خطرات سے دو چار ہے اس کے دور کرنے کے لیے ماسٹر کی اور شاہ کلید کی(Master Key) حیثیت رکھتی ہے، یاد رکھنے کی بات ہے کہ قرآن کریم کے نزول کے لیے سب سے پہلے جس جملے کا انتخاب اللہ رب العزت نے کیاوہ اقراء یعنی پڑھو ہے، تعلیم تمام برائیوں کو دور کرنے، ایمان پر جمنے اور اسلام پر ثابت قدم رکھنے کا الٰہی نسخہ ہے، تعلیم میں عصری علوم، جدید ٹکنالوجی وغیرہ سبھی کچھ شامل ہے، اس لیے  ہمیں ایک طرف دینی علوم حاصل کرنا ہے اور عصری تعلیمی محاذ پر بھی کام کرنا ہے، ہمارا بہت سارا علمی سرمایہ، ہماری تہذیب وثقافت کا بڑا حصہ اردو زبان سے متعلق ہے، اس لیے ہمیں تحفظ اردو کے سلسلے میں بھی اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے، اپنے گھروں اور کاموں میں اردوکا استعمال کرنا چاہیے اور عوامی سطح پر اسے مقبول بنانے کی کوشش کرنی چاہیے، اس دس روزہ ترغیب تعلیم وتحفظ اردو مہم سے عوام کی دلچسپی دیدنی تھی اور ان کا شوق وذوق مستقبل میں ان منصوبوں کو زمین پر اتارنے کا مزدہ سنا رہا تھا، کارواں چل پڑا ہے اور عزم یہ ہے کہ اب منزل پر ہی جا کر دم لیں گے ۔

اس عشرہ کے اختتام کے بعد 13،14 اور 15 مارچ کو جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی میں سہ روزہ پروگرام رکھا گیا تھا ، جس کے پہلے دن جھارکھنڈ کے ملی مسائل پر علماء ائمہ ودانشوروں کے ساتھ خصوصی مشاورتی اجتماع ہوا، دوسرے دن اس قسم کا اجتماع اردوکے تحفظ ، عوامی استعمال، تدریس سے متعلق مسائل پر ہوا جس میں پورے جھارکھنڈ کے اردو دوست حضرات شریک ہوءے اور ان کی قیمتی آرا کی روشنی میں آئندہ کے لیے لاءحہ عمل طے کیا گیا، 15 مارچ کو امارت پبلک اسکول کی سنگ بنیاد ہوجِر، ہلداما(اِربا) اوینا روڈ ضلع رانچی میں امیر شریعتِ مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی رحمہ اللہ نے رکھی تھی اور اس موقع سے بھی ایک اجلاس عام ہوا تھا، یہ اسکول اسلامی ماحول میں بنیادی دینی تعلیم کے ساتھ عصری علوم کی اقامتی درسگاہ کے طور پرجلد ہی کام کرنے لگے گا تعلیم کا آغاز ہو چکا ہے، حضرت امیر شریعت مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی  نے اپنے دور امارت میں جس کام کو  شروع کیا تھا،اور اس سلسلے کے دو اسکول جھارکھنڈ میں پہلے ہی قایم ہو چکے تھے ، ایک بن کھنجو گریڈیہہ میں اور دوسرا پسکا نگری ضلع رانچی میں ۔ اسے نو جودہ امیر شریعت تسلسل بخش رہے ہیں جلد ہی ہند پیڑھی رانچی میں ایک تعلیمی ادارہ کا آغاز بھی ہونے والا ہے،امارت کی تاریخ میں پہلی بار موجودہ امیر شریعت مفکر ملت حضرتِ مولانا احمد ولی فیصل رحما نی دامت برکاتہم  کے حکم سے مجلس شوریٰ کی میٹنگ ہو رہی ہے۔اس سے جھار کھنڈ میں ایک نیے دور کا انشاءاللہ آغاز ہوگا۔ خدمات او ربھی ہیں ، جس کی تفصیل پھر کبھی۔یار زندہ صحبت باقی ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...