Powered By Blogger

بدھ, دسمبر 01, 2021

ایک تھا غافل جس نے کردیا بیدار*بچپن میں ہوش سنبھالتےہی جس نام نے سوچنے پر مجبور کیا وہ غافل ہے۔مجھے اچھی طرح یہ بات یاد ہے کہ میں نے اپنے والد گرامی قدر سے بچپنے میں پوچھ لیاکہ ابو! لوگ ہارون رشید بھائی کو غافل کیوں کہتے ہیں؟

*ایک تھا غافل جس نے کردیا بیدار*
بچپن میں ہوش سنبھالتےہی جس نام نے سوچنے پر مجبور کیا وہ غافل ہے۔مجھے اچھی طرح یہ بات یاد ہے کہ میں نے اپنے والد گرامی قدر سے بچپنے میں پوچھ لیاکہ ابو! لوگ ہارون رشید بھائی کو غافل کیوں کہتے ہیں؟
 والد صاحب میری عمر اور سمجھ کو دیکھ کر اس وقت گول مول سا جواب دیےکہ وہ شعر کہتے ہیں، اس لیے انہیں لوگ غافل کہتے ہیں۔
والد صاحب کے جواب سے میں بالکل بھی مطمئن نہیں تھا،اسی وقت سے میں نے خود موصوف مرحوم کو پڑھنے کی کوشش کی اور مجھے غافل شناسی کی فکر دامنگیر رہی۔
مرحوم رشتہ میں بھائی تھے، دروازہ پر نکلتے ہی چند گز کے فاصلے پر موصوف کا مکان واقع ہے۔گھر سے باہر قدم رکھتے ہی نظر آجاتے،بار بار اور ایک دن میں کئی ہم آمنے سامنے ہوتے، اوران کی سرگرمیوں کو سمجھنے کی کوشش بھی ہوتی۔
کبھی کالے کوٹ میں ہیں تو ایڈووکیٹ ہیں، کبھی لمبی ٹوپی سر پر رکھے شال کندھے پر ہےتوآپ شاعر ہیں، جلسہ کے اسٹیج پر مائک ہاتھ میں ہےاور سب سے آگے ہیں تو بہترین ناظم ہیں، رکشا پر مائک ہے اعلان ہورہا ہے اسمیں آپ کی آواز آرہی ہے تو بہترین اناؤنسر ہیں، لکچر دے رہے ہیں تو بہترین پروفیسر ہیں۔
دیکھنے اور محسوس کرنے پر آپ سب کچھ معلوم ہوتے ہیں مگر غافل کہیں سے نظر نہیں آئے ہیں۔
اور ایسا غافل میں نے اپنی عمر میں نہیں دیکھا جو ہمیشہ بیدار رہتا ہو اور لوگوں کو بیدار کرتا رہتا ہو۔کہاں کیا ہوا؟کس کا انتقال ہوا؟کس کو کسن نے گولی ماری؟ گاؤں سے لیکر دنیا بھر کی اہم خبروں کووہ مقامی زبان کلہیا میں منظوم سنایا کرتے تھے، اور بچوں کو اپنے پیچھے لیکر جلوس کی شکل میں بھی چلا کرتے۔
اپنی عمر کے پندرہویں سال سے سے ہی شعر کہنا شروع کیا تھا،ولادت 5مئی 1965ءمیں ہوئی اور 1980ءمیں مقامی زبان پرآپ نےشاعری کی ابتدا کی ہے۔مقامی بولی کا بڑا فائدہ  آپ کویہ ملا کہ عوام الناس کو اپنی بات سمجھانے میں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا، یہی وجہ ہے کہ اس بات پر انہیں بہت فخر تھا کہ وہ کلہیا زبان کے شاعر ہیں۔
اردو زبان میں بھی آپ کی شاعری نےاپنے گاؤں سماج اور علاقے کی ہی نمائندگی کی ہےاور لوگوں کو بیداری کا پیغام دیا ہے۔ایک غریب ماں کے درد کو یوں بیان کیا ہے، 
ع غریب ماؤں کی عزت بھی اب نہیں محفوظ 
زمین قلب میں تو برپا زلزلہ کردے۔
زندگی کے تعلق سے کتنا قیمتی شعر کشید کیا ہے، ملاحظہ ہو،
کیا بتاؤں میں کہ کیا ہے زندگی 
اک مسلسل تجربہ ہے زندگی ۔
ناامیدی کے لیے مذہب اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔مرحوم شاعر نے اپنے سماج ومعاشرہ کو بہت قریب سے دیکھا اور کتنا حوصلہ بخش شعر کہا ہے:
نا امیدی کس کو کہتے ہیں مجھے معلوم کیا
تم نےیارو مجھ کو دیکھا ہے مغموم کیا 
جس نے سمجھا ہی نہیں مجھکو کبھی اچھی طرح 
وہ سمجھ پائے گا مظلوم کیا معصوم کیا 
معاف کردینا مجھے غافل سمجھ کردوستو!
بیخودی میں میں نے جانے کردیا منظوم کیا۔
آپ ریڈیائی صحافت سے 1987ءمیں ہی وابستہ ہوگئے تھے، 1992ءمیں آکاش وانی پورنیہ سے وابستہ ہوئے۔اس اسٹیج سے پورے بہار کے لوگوں میں بیداری کا فریضہ انجام دیتے رہے۔
1990ء میں جب ارریہ باضابطہ ضلع بنا تو آپ نے اپنا محور خاص طور پر اسے بنالیا۔یوم آزادی اوریوم جمہوریہ کے موقع پر آپ شبھاس اسٹیڈیم میں سرکاری اناؤنسر ہوا کرتے، ہم سبھی پورے گاؤں سے جاکر سنتے دیکھتے اور محظوظ ہوا کرتے، اپنے بیدار، تیاراور ہوشیار غافل پر فخر کیا کرتے تھے۔اللہ نے بڑی صلاحیت سے مالامال کیا تھا،جس جگہ جو بولتے اور جیسا اشارہ کرتے وہی درست معلوم ہوتا تھا، پورے مجمع کو اپنی جانب کھینچ لیا کرتے اور جو جہاں ہوتا وہیں صرف آپ کی طرف دیکھ رہا ہوتا تھا۔آبروئے سیمانچل کے ساتھ ساتھ شان ارریہ ایوارڈ سے بھی نوازے گئے۔
1999ءمیں باضابطہ شاکچھرتا ابھیان کی شروعات کی اور علاقے کا طوفانی دورہ شروع کیا، گھر گھرجاکر لوگوں کو یہ کہتے ریے،
غافل ہوں بیدار کروں گا، 
اور،
 پڑھے گی رضیہ پڑھے گا ہریا،شاکچھر ہوگا ضلع ارریہ۔
اس کی پسماندگی کا خیال موصوف کو تاحیات کچوکے لگاتا رہا۔اور رہ رہ کر حوصلہ کمزور بھی ہوا مگر آپ کمزور نہیں ہوئے بلکہ یوں گویا ہوئے:
نئی امید نئی زندگی عطا کردے
بلند میرا ہمالہ سے حوصلہ کردے۔
قدم قدم پہ جو فانوس بن سکے میرا 
تو میرے ساتھ کوئی ایسا قافلہ کردے۔
گیاری گاؤں سے کئی لوگ دارالعلوم ندوةالعلماء لکھنؤ میں زیر تعلیم تھے۔مولانا مصور عالم صاحب ندوی اور ناچیز جب فراغت کے بعد گاؤں آئے، اتفاق سے کئی اجلاس میں مرحوم بڑے بھائی جناب ہارون رشید صاحب غافل کے ساتھ ہم دونوں بھی شریک اجلاس ہوئے، تو انہیں شاید یہ محسوس ہوا کہ میری دعا قبول ہوگئی ہے، اور میں اکیلا نہیں ہوں  اب یہ قافلہ بن گیا ہے، برملا موصوف نے اس کا اظہار کردیا اور برجستہ یہ کہا کہ: گیاری میں میری دو آنکھیں ہیں، ایک مولانامصور صاحب اور دوسری میں ناچیز کی طرف اشارہ تھا۔
آپ کے انتقال کا واقعہ بھی تاریخی بنا ۔اچانک یہ خبر آئی کہ انتقال ہوگیا ہے، پھر یہ خبر آئی کہ سانس چل رہی ہے۔اسمیں بھی سمجھنے والوں کے لئے بڑا پیغام ہے۔جو آدمی علم کی خدمت کے لئے اپنے کووقف کردیتا ہے وہ حدیث کی روشنی میں نہیں مرتا ہے، مرنے کے بعد بھی ان کی علمی سانس چلتی رہتی ہے۔اللہ جملہ خدمات کو قبول کرے اور جنت الفردوس نصیب فرمائے۔آمین 
ایں دعا از من وجملہ جہاں آمین باد۔
ہمایوں اقبال ندوی ،ارریہ 
رابطہ، 9973722710

شاکر کریمی- ادب کا ایک ستون گرگیامفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہعصر حاضر کے ممتاز شاعر، ادیب، نامور افسانہ نگار اور ایک درجن سے زائد کتابوں کے مصنف جناب شاکر کریمی کا طویل علالت کے بعد ۱۳؍ نومبر ۲۰۲۱ء کو ان کے آبائی شہر بتیا مغربی چمپارن میں انتقال ہو گیا

شاکر کریمی- ادب کا ایک ستون گرگیا
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
عصر حاضر کے ممتاز شاعر، ادیب، نامور افسانہ نگار اور ایک درجن سے زائد کتابوں کے مصنف جناب شاکر کریمی کا طویل علالت کے بعد ۱۳؍ نومبر ۲۰۲۱ء کو ان کے آبائی شہر بتیا مغربی چمپارن میں انتقال ہو گیا،جنازہ کی نماز بعد نماز ظہر مدرسہ یتیم خانہ بدریہ بتیا میں ادا کی گئی، مولانا علی احمد قاسمی سابق امام جامع مسجد بتیا نے نماز پڑھائی، اور گنج نمبر ایک کے چھوٹی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ ،ایک لڑکا ڈاکٹر نوشاد احمد کریمی اور ایک لڑکی طلعت فاطمہ کریمی کو چھوڑا، صاحبزاہ ڈاکٹر نوشاد احمد کریمی گلاب میموریل کالج بتیا میں اردو کے لکچرر ہیں۔
 شاکر کریمی کے قلمی نام سے مشہور امتیاز احمد کریمی بن مولوی محمد عنایت کریم بَرتَر آروی بن شیخ مولانا بخش (کواتھ) بن حکیم ظہور احمد(غازی پور) ۱۰؍ مارچ ۱۹۴۲ء کو مغربی چمپارن کے شہر بتیا میں پیدا ہوئے، ان کے والد کو اتھ آرہ سے نقل مکانی کرکے بسلسلہ ملازمت بتیا آئے، اور یہیں کے ہو کر رہ گیے، بتیا راج میں منشی تھے، یہیں ان کی شادی حافظ سلامت علی کی صاحب زادی کریم النساء سے ہوئی،میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کی دلچسپی شاعری سے ہو گئی ، ’’ریزۂ مینا‘‘(مطبوعہ ۱۹۸۵) ان کی شاعری کا مجموعہ ہے اور مقبول ہے، اس کی مقبولیت کی وجہ اس کی تغزل آمیز جدیدیت ہے، اس کے اشعار میں محبت کی زیریں لہریں، فرقت کی کسک اور عصری حسیت کی بھر پور عکاسی ملتی ہے،۱۹۷۰ء سے قبل شاعری سے زیادہ ان کا وقت افسانہ نگاری پر صرف ہونے لگا اور ۱۹۷۰ء آتے آتے وہ ملک کے نامور افسانہ نگار بن گیے ،ایک زمانہ تک بتیا کی ادبی عظمت کا اقرار عظیم اقبال اور شاکرکریمی کے افسانوں کے ذریعہ ہوا کرتا تھا، جس زمانہ میں خوشتر گرامی بیسویں صدی نکالا کرتے تھے ان دونوں (عظیم اقبال اور شاکر کریمی )کے افسانے کثرت سے اس میں چھپا کرتے تھے، ان کے افسانے سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی وغیرہ کی طرح نہیں ہیں، شاکر کریمی کے یہاں حقائق کو بے لباسی کے ساتھ بیان کرنا جرم تھا، ان کے افسانوں میں مقصدیت ہے اور اس کی تہہ داری قاری کو اپنی طرف متوجہ کیا کرتی ہے ، ان کے کئی افسانوی مجموعے پر دے جب اٹھ گئے (۲۰۱۷)، ایک دن کا لمبا سفر اور صحرا(۲۰۱۴)، پیاس اور تنہائی(۲۰۰۹) خاص طور پر قابل ذکر ہیں، انہوں نے ناول نویسی پر بھی اپنا وقت صرف کیا، ان کی ایک ناول ’’جشن کی رات‘‘(۲۰۰۹) کے عنوان سے طبع بھی ہوئی تھی، بتیا میں کتاب کی رسم اجراء کی تقریب کا آغاز ان کے افسانوی مجموعہ’’ اپنی آگ‘‘(۱۹۹۱) سے ہوا تھا۔ان کے افسانے کا مواد ہمارے گرد وپیش کا ہوتا ہے ، ان میں مقصدیت ہوتی ہے، اس لیے اس سے سماجی اصلاح کا کام بھی لیا جا سکتا ہے۔
 شاعری انہوں نے مختلف اصناف میں کی، لیکن نظم اور غزل کے شاعر کی حیثیت سے اہل علم وادب میں متعارف ہوئے، یادیں، دعوت، چلے بھی آؤ ، تم بن، تلاش، کانٹے، شہنائی اور پھر ایسا ہوا، نیز احساس وغیرہ کا شمار ان کی کامیاب نظموں میں ہوتا ہے ۔
 جن افسانوں کی وجہ سے ان کو شہرت ملی ان میں ایک اور گوتم، ایک دن کا لمبا سفر، اگر تم نہ آئے، وہ کون ہے، واردات، بھٹکا ہوا آدمی ، ٹوٹی ہوئی عورت، زخموں کی مہک ، آگ ہی آگ، ذراسی بات، پھر وہی جھوٹی انا ، خوشبو تیرے بدن کی ، پردہ ، انہونی بات  خاص طور سے قابل ذکر ہیں، اس طرح کہنا چاہیے کہ وہ بیک وقت شاعر ، افسانہ اور ناول نگار تھے، وہ پوری زندگی اصناف ادب کی مشاطگی اور اردو کے فروغ کے لیے کوشاں رہے، ان کی تخلیقات ملک کے مؤقر رسائل وجرائد میں شائع ہوا کرتی تھیں، واقعہ یہ ہے کہ ان کی ادبی خدمات کو نہ تو نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی فراموش ۔
ان کی حیات وخدمات پر ۲۰۰۳ء میںاقبال جاوید کولکاتہ نے تحقیقی مقالہ لکھ کر بھیم راؤ امبیڈکر بہار یونیورسیٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، شاکر کریمی کا تخلیقی شعور کے نام سے ڈاکٹر عدیلہ نسیم مئو ناتھ بھنجن نے بھی ایک کتاب مرتب کی ہے۔ 
شاکر کریمی صاحب کپڑوں کی تجارت کرتے تھے ان کی شادی ۴؍ اپریل ۱۹۶۵ء کو احمد علی صاحب سیتامڑھی کی دختر نیک اختر حفصہ خاتون سے ہوئی، جو حی القائم ہیں۔
 جناب شاکر کریمی سے میری ایک ہی ملاقات تھی ، لیکن تفصیلی تھی، میں ان دنوں مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور میں استاذ تھا اور بزم احباب ادب ویشالی کے ذمہ داروں میں تھا، ہم لوگوں نے فیصلہ کیا کہ ایک آل بہار مشاعرہ کرانا چاہیے، ڈاکٹر عبد الرؤف ، مولانا مظاہر عالم قمر، مولانا رئیس اعظم سلفی اور راقم الحروف  (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی )نے طے کیا کہ مشاعرہ چونکہ مدرسہ کے احاطہ میں ہے اس لیے نہ تو شاعرات کو مدعو کیا جائے گا اور نہ ہی شرابی شاعر کو، اس موقع سے  دونوں بھائی شاکر کریمی اور صابر کریمی کو مشاعرہ میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی، اور انہوں نے تشریف لا کر ہماری حوصلہ افزائی فرمائی تھی، مشاعرہ کے ایک حصہ کی نظامت ان کے بھائی صابر کریمی نے کیا تھا، دونوں بھائی کی شرافت، محبت اور ان کی فنی عظمت سے بھر پور شاعری کو میرے لیے بھُلانا آج بھی ممکن نہیں ہے ، ان دنوں مجھے بڑے لوگوں سے آٹو گراف لینے کا شوق دیوانگی کی حد تک پہونچا ہوا تھا، میں نے جناب شاکر کریمی کو آٹو گراف بک بڑھایا، انہوں نے درج ذیل شعر لکھ کر اپنے دستخط ثبت کیے۔
لاؤں بھی تو کہاں سے لاؤں لکھنے کا انداز نیا
قلم پُرانا ہو تو شاکر بنتی ہے تحریر نئی
صابر کریمی نے لکھا 
فلک پہ ذکر تیرااور زمیں پہ حکم چلے 
ترے وجود کا مقصد ہے فقر میں شاہی 
یہ مشاعرہ ۲۵؍ مارچ ۱۹۸۹ء کو ہوا تھا اور بہت کامیاب تھا، پہلے دور میں ہی رات ختم ہو گئی تھی، آج شاکر کریمی ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن ان کا تخلیقی ادب خواہ وہ شاعری ہو یا افسانے ، ان کی خدمات کے زریں اور تابندہ نقوش ہیں، اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل دے آمین۔ یا رب العالمین

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...