Powered By Blogger

ہفتہ, جنوری 14, 2023

یادوں کے چراغ جلد سوم ___✍️مولانا رضوان احمد ندوی

یادوں کے چراغ جلد سوم ___
اردو دنیا نیوز٧٢ 
✍️مولانا رضوان احمد ندوی 
مولانا مفتی محمد ثناءالہدیٰ صاحب قاسمی، امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ کے نائب ناظم، ہفتہ وار نقیب کے مدیر مسؤل، اردو کے مشہور صاحب قلم اور شگفتہ زبان مقرر وخطیب ہیں، ان کے قلم سے چار درجن سے زائد کتابیں شائع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں، پیش نظر کتاب ”یادوں کے چراغ“ کی تیسری جلد منصہ شہود پر آئی ہے ، جس میں انہوں نے ان معاصر شخصیات پر اپنے احساسات وتاثرات کو قلمبند کیا ہے، جو سب زیر خاک جا چکے ہیں، ان میں کچھ بزرگ بھی ہیں، کچھ خورد بھی، عالی جناب اور عالی مقام شخصیتیں بھی ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کو یاد رکھنے والے مفتی صاحب جیسے چند با وضع وباوفا اس دنیا میں رہ گئے ہیں۔
اس طرح اس مجموعہ میں ہر رنگ اور ہر میدان کے لوگ ہیں، اس لئے مفتی صاحب نے ان اصحاب کے وہی پہلو بیان کئے ہیں جو پسندیدہ اور قبول عام کے مستحق ہیں اس لحاظ سے کتاب کی ایک تاریخی حیثیت بھی ہو گئی ہے ، ان میں متعدد نام ایسے ہیں جن کی یاد اس مجموعہ کے ذریعہ باقی رہے گی، کتاب کے آغاز میں مصنف نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر کیا کہ ”یہ کتاب جو ابھی آپ کے ہاتھ میں ہے، ان میں بہت سارے نامور حضرات کی کتاب زندگی کو مختصر خاکوں کی شکل میں پیش کیا گیا ہے، بعض گمنام لوگوں کے بھی اوراق حیات کو پلٹا گیا ہے، تاکہ عام لوگوں کی زندگی میں جو روز مرہ کے معاملات ومشاہدات ہیں، ان سے بھی سبق حاصل کیا جا سکے“۔ (صفحہ ۸)
 اس مجموعہ میں جناب ڈاکٹر قاسم خورشید ماہر تعلیم وسابق ہیڈلینگویجز ایس سی ای آرٹی بہار کا فاضلانہ پر مغز مقدمہ ” مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی - آدھی ملاقات اور یادوں کے چراغ کی روشنی میں“ کے عنوان سے بڑا ہی گرانقدر ہے ، جس میں انہوں نے لکھا کہ ”مفتی صاحب متعدد شخصیتوں کے حصار میں رہے، ان کے اثرات بھی قبول کئے اور بڑی بات یہ بھی ہے کہ جس شخص سے رشتہ قائم کیا، پوری شدت کے ساتھ نبھاتے بھی رہے اور مستقل یادوں کے چراغ بھی روشن کرتے رہے، ہنوز یہ سلسلہ قائم ہے ۔ (صفحہ ۱۱)
اس لئے جب بھی کسی ممتاز شخصیت کے سانحہ ارتحال کی خبر گردش کرتی ہے، مفتی صاحب کا قلم حرکت میں آجاتا ہے، اور کبھی کبھی تو ایسا شبہ ہونے لگتا ہے کہ گویا مضمون پہلے سے تیار تھا، یہ ان کے کمال درجہ کی فنی مہارت کی علامت ہے۔
بہر حال زیر تبصرہ مجموعہ کے بیشتر سوانحی خاکے ہفتہ وار نقیب پٹنہ کے علاوہ دوسرے جرائد ورسائل کی زینت بن چکے ہیں، جنہیں اب کتابی صورت میں طبع کر دیاگیا ہے، مصنف نے کتاب کو چار ابواب وفصول میں تقسیم کیا ہے، باب اول میں علماءومشائخ کے احوال وآثار کا تذکرہ ہے ، ان میں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی ، حضرت مولانا ابو سلمہ شفیع، علامہ محمد حسن باندوی ، قاضی جسیم الدین رحمانی، شیخ ثانی حضرت مولانا عبد الحق اعظمی، مولانا محمد یونس جونپوری سمیت 32اصحاب فضل وکمال کا ذکر ہے، باب دوم میں شعراء، ادباءسیاست داں اور ماہرین تعلیم جیسے پروفیسر لطف الرحمن ، جناب محمد عبد الرحیم قریشی ، ڈاکٹر سید حسن ، الحاج محمد شفیع قریشی، بیکل اتساہی، ڈاکٹر ثوبان فاروقی ، انور جلال پوری کی ادبی ، فکری اور عملی کارناموں کو بیان کیا گیا ہے، باب سوم میں 4 بھولے بسرے لوگوں جناب محمد ہاشم انصاری، حاجی محمد اسلم آرزو ، حاجی محمد اسلم (اڈیشہ) اور ایک خدا ترس خاتون (والدہ مولوی ممتاز احمد امارت شرعیہ) کو شریک اشاعت کیا گیا ہے، اور آخری باب میں داغہائے سینہ کے عنوان سے مفتی صاحب نے اپنے والد ماجد حاجی محمد نور الہدیٰ رحمانی اور برادر اکبر ماسٹر محمد ضیاءالہدیٰ رحمانی کی سیرت، کردار وعمل پر سیر حاصل گفتگو کی ہے، اس طرح یہ مجموعہ ہر لحاظ سے قابل دید اور سیرت وسوانح سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔
کتاب کا دوسرا رخ، خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے کہ اس مجموعہ کی طباعت دسمبر ۲۲۰۲ءمیں ہوئی اور ان میں جن مرحومین کے تذکرہ کے ذیل میں کسی زندہ شخصیت کا ذکر آیا ان میں بعض ایسے لوگ ہیں جو داغ مفارقت دے چکے ہیں، ان کے نام کے آگے زندوں کے القاب وآداب تحریر ہیں، جس سے قارئین کو شبہ ہو سکتا ہے کہ کیا ابھی بھی وہ بقید حیات ہیں، اس لئے کتاب کی ترتیب وتدوین اور تسوید کے وقت اس پہلو پر نظر رہنی چاہئے تھی جس کی طرف بے توجہی برتی گئی ، گرچہ اردو میں چھپنے والی کتابوں میں اس طرح کی غلطی کوئی نئی چیز نہیں ہے، جس کا شکوہ کیا جائے، مگر سونے کے تاروں سے بنی چادروں پر معمولی داغ بھی نگاہوں میں کھٹکنے لگتا ہے۔
 بہر حال کتاب اپنے موضوع پر عمدہ اور قابل قدر کاوش ہے اوراس کے لیے ناشر کتاب حضرت مولانا مفتی مبین احمد قاسمی بانی مدرسہ طیبہ قاسم العلوم بردی پور، سمری، دربھنگہ (بہار) بھی بجا طور پر شکرے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے کتاب کو اپنے ادارہ کی طرف سے طبع کراکر مفتی صاحب کے ذہنی الجھن کو ہلکا کر دیا،ویسے بھی مفتی صاحب کو اس فن میں کمال درجہ کی مہارت حاصل ہے کہ کونسی کتاب کہاں سے اور کیسے شائع کروانی ہے، ہم جیسوں کے لیے یہ درس عبرت ہے، بہر کیف ہم ان دونوں بزرگوں کی صحت وعافیت کے لئے دعاءخیر کرتے ہیں کہ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ہو، طابع کو مزید وسعت عطا فرمائے۔ آمین ۔
232 صفحات پر مشتمل اس کتاب کا گیٹ اپ وشیٹ اپ جاذب نظر ، کاغذ معیاری اور گرد پوش پرکشش ہے، جس کی قیمت 400روپے طبع ہے، ضرورت مند وخواہش مند اصحاب ذوق مکتبہ امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ یا براہ راست مصنف کتاب کے موبائل نمبر 9304919720پر رابطہ کرکے طلب کر سکتے ہیں۔

نیپال کی نئی حکومت ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف

نیپال کی نئی حکومت ___
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مفتی  محمد  ثناء  الہدیٰ  قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف  
 نیپال میں وزیر اعظم کے طور پر پشپ کمال داہال عرف پر چنڈ نے نئی حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی ہے ، انہوں نے حکومت بنانے کے لیے سابق وزیر اعظم کے پی شرما او لی سے ایک سمجھوتہ کیا ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ڈھائی سال پر چنڈ حکومت میں رہیں گے اور اس کے بعد نیپال میں سی پی ایم+ یو ایم ای کی حکومت بنے گی ، جس کے سر براہ اُولی بھی بن سکتے ہیں۔
 پر چنڈ کی بحیثیت وزیر اعظم یہ تیسری تاج پوشی ہے، پہلی بار 2008ءمیں وہ وزیر اعظم بنے تھے، لیکن یہ مدت کار صرف ایک سال رہی ، دوسری بار2016ءمیں وزیر اعظم بنے، لیکن ایک سال میں ہی وزیر اعظم کی کرسی انہیں چھوڑنی پڑی، اب تیسری باری ہے اور بظاہر سمجھوتے کے مطابق مدت کا ر ڈھائی سال ہو گی ، اس درمیان اتار چڑھاؤ اور اُتھل پُتھل سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا، ہندوستان میں ہم مایا وتی اور بی جے پی کے درمیان نصف نصف مدت کے لئے اقتدار کے سمجھوتے کے اثر کو دیکھ چکے ہیں، جب مایا وتی نے نصف مدت گذرنے کے بعد اقتدار کی منتقلی سے انکار کر دیا تھا، ہم نے محبوبہ مفتی اور بی جے پی کے بے جوڑ اشتراک کا حشر بھی دیکھا ہے ، اس لیے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ پر چنڈ آسانی سے اس سمجھوتہ پر عمل کے لیے تیار ہوجائیں گے ، اس قسم کے اشتراک کے پیچھے پر چنڈ کی یہ منشا بھی ہو سکتی ہے کہ ابھی تو خیر سے گذرتی ہے آگے کی خبر خدا جانے ۔
پر چنڈ کے اسی خیال کی وجہ سے ان کا وزیر اعظم بننے کا خواب پورا ہوا، ور نہ صحیح اور سچی بات تو یہ ہے کہ نیپالی کانگریس کے شیر بہادر دیو باکو وزیر اعظم ہونا چاہیے تھا؛ کیوں کہ دو سو پچھہتر(275)ارکان کی نیپالی پارلیمان میں دیوباکی پارٹی کو نواسی (89)سیٹیں ملی تھیں جب کہ پر چنڈ کی ماؤں وادی کمیونسٹ پارٹی صرف بتیس (32)سیٹیں ہی حاصل کر پائی تھی، انتخاب میں پرچنڈ اور دیو با کی پارٹی کا اتحاد بھی تھا، پر چنڈ بضد تھے کہ وزیر اعظم وہی بنیں گے اور صدر بھی انہیں کی پارٹی کا ہوگا، یہ بات دیو با نہیں مان سکتے تھے، اس لیے پر چنڈ اپنے پرانے کمیونسٹ ساتھی اُولی کے گھر پہونچ گیے اور وہاں ان کی دال گل گئی اور وہ وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہو گیے۔اس واقعہ کو ہندوستانی سیاسی پس منظر میں دیکھیں تو جس طرح مہاراشٹر میں شیو سینا اور بھاجپا نے ساتھ الیکشن لڑا تھا؛لیکن کافی اتار چڑھاؤ کے بعد مہا اگھاری وکاس کی حکومت بن گئی اور وہ بھی شیو سینا کے ایک حصہ کی بغاوت کی وجہ سے ٹوٹ گئی، نیپال میں بھی ایسا ہی ہوا کہ الیکشن پر چنڈنے دیو با کے ساتھ لڑا اور حکومت اُولی کے ساتھ بنایا۔
ہندوستان کی طویل سر حد نیپال سے لگتی ہے ، پاسپورٹ کے بغیر آمد ورفت کی سہولت کی وجہ سے ہندو نیپال کی عوام کے رشتے ایک دوسرے سے انہتائی مضبوط ہیں اور کہنا چاہیے کہ ان کے درمیان بیٹی، روٹی کا رشتہ ہے، یعنی رشتہ داریاں اور تعلقات خوب ہیں، اور معاشی اعتبار سے ایک کا دوسرے سے رشتہ بھی مضبوط ہے، حکومتی سطح پر در آمد ، بر آمد کا تناسب اس قدر ہے کہ ہندوستان ، نیپال کا سب سے بڑا تجارتی شریک ہے ، 2021ءمیں نیپال جن اشیاءکی سپلائی غیر ملکوں میں کرتا ہے، اس کا 53.1فی صد ہندوستان کو برآمد کیا تھا، اور ہندوستان سے اس نے 68.3فی صد در آمد کیا تھا۔
1996سے 2006تک نیپال خانہ جنگی کا شکار تھا، ہندوستان نے اس بد ترین صورت حال کو درست کرنے میں اہم رول ادا کیا تھا، نومبر 2006میں نیپال کی حکومت اور سات ماؤنواز پارٹیوں کے درمیان نئی دہلی میں ایک معاہدہ پر دستخط کے نتیجے میں وہاں پھر سے جمہوری حکومت کے قیام اور استحکام کی راہ ہموار ہوئی تھی اور اس کا سارا سہرا ہندوستان کو جاتا ہے ؛ لیکن پر چنڈ اور اُولی ہندوستان کی اس جد وجہد کو ماضی میں فراموش کرتے رہے ہیں، ان کا جھکاؤ چین کی طرف زیادہ ہے، انہوں نے اپنے سابقہ دور میں ہندوستان کے کالا پانی ، لییو لیکھ لمپا دھورا پر اپنا دعویٰ پیش کر دیا تھا اور نیپال کے نقشہ میں ان علاقوں کو شامل کر دیا تھا، ہند نزاد نیپالی شہری مدھیشی کا معاملہ بھی ان کے دور میں گرمایا تھا، اگر ان کے نظریات میں تبدیلی ہوئی تو ہندوستان سے تعلقات اچھے رہیں گے ، اور اس کی ہمہ جہت ترقی کی راہ ہموار ہو سکے گی اور اگر نیپال نے چین کا رخ کیا تو یقینی طور پر ہندوستان سے تعلقات بگڑ یں گے ، کیوں کہ ہند، چین تنازعہ ان دنوں شباب پر ہے اور دشمن کے دوست کو دشمن سمجھنے کی روایت قدیم ہے، اس کا خمیازہ نیپال کو بھگتنا پڑے گا ، کیوں کہ چین کی پالیسی ملکوں کو قرض کے جال میں پھنسا کر اسے بے بس کرنے کی رہی ہے، اسے سری لنکا کے حالات وواقعات سے سبق سیکھنا چاہیے، ہندوستان سے دوستی نیپال کے لیے ہر حال میں خیر کا باعث ہوگا۔وزیر اعظم نریندر مودی کا پر چنڈ کو سب سے پہلے مبارک باد دینے کی یہی معنویت ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...