Powered By Blogger

ہفتہ, ستمبر 11, 2021

وسیم رضوی کے خلاف غیر ضمانتی وارنٹ جاری

شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیئرمین وسیم رضوی کو آج اس وقت زبردست جھٹکا لگا جب ایک معاملہ میں انھیں اور ان کے تین ساتھیوں کے خلاف غیر ضمانت وارنٹ جاری کیا گیا۔ ایڈیشنل چیف جسٹس نے یہ وارنٹ سال 2015 میں درج ایک معاملے کی سماعت کے دوران جاری کیا۔ میڈیا ذرائع سے موصول ہو رہی خبروں کے مطابق یہ معاملہ شاہین خان نامی ایک خاتون نے درج کرایا تھا جس میں وسیم رضوی اور ان کے ساتھیوں پر مار پیٹ کے ساتھ ساتھ بدسلوکی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

 

شاہین خان کے ذریعہ داخل عرضی میں بتایا گیا ہے کہ وہ 2015 میں رستم نگر واقع درگاہ حضرت عباس کی زیارت کے لیے گئی تھیں، تبھی وسیم رضوی اور ان کے ساتھیوں نے مار پیٹ کی اور بدسلوکی بھی کی تھی۔ واضح رہے کہ وسیم رضوی کئی وجہ سے ایک متنازعہ شخصیت رہے ہیں۔ ان پر ڈرائیور کی بیوی کے ساتھ عصمت دری کرنے کا الزام بھی عائد کیا جا چکا ہے، اور قرآن سے کچھ آیات کو نکالے جانے کا مطالبہ کرنے پر انھیں مسلم طبقہ کی تنقید کا بھی نشانہ بننا پڑا۔ قرآن کے خلاف دیے گئے وسیم رضوی کے بیان کو دیکھتے ہوئے ان کے گھر والوں نے بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔

اکل کوا میں دارالقضاء کا افتتاح

اکل کوا میں دارالقضاء کا افتتاح

مولاناخالدسیف اللہ رحمانی
مولاناخالدسیف اللہ رحمانی
  • (اردو دنیا نیوز۷۲) ندوربار

ریاست مہاراشٹر کے ضلع ندوربار کے قصبہ اکل کوا میں واقع ملک کی عظیم دینی درسگاہ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی زیرنگرانی صوبہ مہاراشٹر کے 26ویں دارالقضاء کا قیام عمل میں آیا۔

افتتاحی اجلاس اور حلف برداری تقریب کی صدارت مولانا غلام محمد وستانوی   نے فرمائی۔

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی (کارگزار جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ) نے دورنبوی سے اب تک نظام قضاء کی تاریخ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر کسی علاقہ میں نظام قضاء نہ ہو اور مسلمان غیرشرعی تصفیہ پر مجبور ہوتے ہوں تو ظن غالب ہے کہ اس خطہ و علاقہ کے علماء و عمائدین عنداللہ ماخوذ ہوں گے۔

 مولانا عتیق احمد بستوی (کنوینر دارالقضاء کمیٹی) نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ کارقضاء ایک اہم ترین دینی فریضہ ہے، مجھے خوشی ہے کہ ملک کی اس عظیم دینی درسگاہ اور اس علاقہ کے لئے دارالقضاء کا قیام عمل میں آیا۔

awaz

مولانا نے فرمایا کہ اس دارالقضاء کے قیام پر صدر بورڈ مولاناسید محمد رابع حسنی ندوی نےاپنی خوشی و مسرت و دعائیہ کلمات ارشاد فرمائے۔

مولانا تبریز عالم (آرگنائزر دارالقضاء کمیٹی) نے نظام قضاء کے قانونی و سماجی پہلو پر گفتگو کرتے ہوئے دارالقضاء کو ملک و سماج کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔

 مولانا حذیفہ وستانوی نے اجلاس کی نظامت فرمائی۔

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے مولانا مفتی محمد جعفر ملی قاضی شریعت اور مولانا مفتی محمد دانش کو نائب قاضی شریعت کا حلف دلایا۔

مولانا مفتی عبیداللہ اسعدی ،شیخ الحدیث جامعہ عربیہ ہتھورا باندہ کی دعا پر اجلاس اختتام پذیر ہوا۔

بہار:ایک ایساگائوں جہاں ہرخاندان کے پاس ہے نائو

بہار:ایک ایساگائوں جہاں ہرخاندان کے پاس ہے نائو

بہار:ایک ایساگائوں جہاں ہرخاندان کے پاس ہے نائو
بہار:ایک ایساگائوں جہاں ہرخاندان کے پاس ہے نائو

دربھنگہ: دربھنگہ ضلع کے کوشیشورستھان میں ایک گاؤں ہے گورا، جہاں تقریبا ہر خاندان کی اپنی ذاتی کشتی ہے۔ اس گاؤں کو اب ’نائووالا گائوں' بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا اصل نام گورا گاؤں ہے ، جو کوشیشور کی اورائی پنچایت کے تحت آتا ہے۔

یہاں رہنے والے لوگ کشتیاں پہلے خریدتے ہیں اور سائیکل و بائیک بعد میں خریدتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ گاؤں نہ صرف چھ سے نو ماہ تک مکمل طور پر ایک جزیرے میں تبدیل رہتا ہے بلکہ سیلاب کا پانی کئی گھروں میں بھی داخل ہو جاتا ہے۔

ایسی حالت میں گائوں کے کسی بھی شخص کے لیے گھر سے باہر نکلنے کے لیے کشتی ہی واحد سہارا ہوتی ہے۔ یہاں رہنے والے لوگ گھر چھوڑ کر کشتی کے ذریعے مرکزی سڑک پر پہنچ جاتے ہیں۔ پھر وہ سڑک کے کنارے پانی میں کام کرنے نکل جاتے ہیں۔

خواتین اور بچے کشتیوں کو جانوروں کے چارے کے ساتھ ساتھ دیگر اہم کاموں کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ہر کوئی جانتا ہے کہ کشتی کیسے چلانا ہے۔ بوڑھے ہوں یا بچے ، عورتیں ہوں یا مرد سب اپنی اپنی کشتی میں سوار ہو کر آتے اور جاتے ہیں۔

اس گاؤں میں کسی بھی کام کے لیے گھر سے باہر نکلنے میں کشتی ہی واحد سہارا ہے۔ گاؤں کے محمد گلشن عالم نے بتایا کہ یہاں پانی تقریبا نو ماہ تک بھرا رہتا ہے۔ ہر قسم کا کام صرف کشتی کے ذریعے کرنا پڑتا ہے۔ کام پر جانا ہو یا بچوں کو اسکول لے جانا ہو یا بیمار کو ہسپتال لے جانا ہو ، تمام کام کشتی کی مدد سے ہوتے ہیں۔

اس گاؤں کے بارے میں بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ گاؤں کو مرکزی سڑک سے جوڑنے کے لیے نہ تو سڑک ہے اور نہ ہی پل۔ کئی دہائیوں سے لوگ یہاں سڑک کے ساتھ پل بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن انہیں یقین دہانی کے سوا کچھ نہیں ملا۔

دیہاتیوں کے مطابق ان لوگوں کے لیے ایک سرکاری کشتی بھی دستیاب نہیں ہے۔ ایسی صورت حال میں لوگ پہلے تقریبا بیس ہزار مالیت کی کشتیاں خریدتے ہیں ، بعد میں وہ سائیکل یا موٹر سائیکل خریدنے کا سوچتے ہیں۔

جن کے پاس اپنی کشتی نہیں ہے ، وہ کشتی والوں کی مدد کے محتاج ہیں۔ گورا گاؤں میں تقریبا200 سے 250 گھر ہیں اور آبادی 1000 سے زیادہ ہے ، جو کہ کوشیشور کی اورائی پنچایت کے تحت آتا ہے۔


پین کارڈکوآدھار سے جوڑنے کی آخری تاریخ 30ستمبر

پین کارڈکوآدھار سے جوڑنے کی آخری تاریخ 30ستمبر

PAN-card

نئی دہلی11ستمبر:(اردو دنیا نیوز۷۲)ابھی تک آپ نے اپنے آدھار کارڈ کے ساتھ پین کارڈکولنک نہیں کیا ہے ، تو فوری طور پر یہ کام کریں ، کیونکہ آدھار نمبر کو پین کے ساتھ جوڑنے کی آخری تاریخ 30 ستمبر ہے۔ اس ڈیڈ لائن کو ختم ہونے میں صرف 20 دن باقی ہیں۔ اگر آپ کا پین کارڈآپ کے آدھار سے منسلک نہیں ہے تو اب آپ کو ایک ہزار روپے تک جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔

نیز ایل آئی سی ، میوچل فنڈز جیسی بہت سی چیزوں میں پریشانی ہوسکتی ہے۔ اگر یہ کام 30 ستمبر سے پہلے نہیں کیا گیا تو جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ اس سے قبل مرکزی حکومت نے کئی بار پین کو آدھار سے جوڑنے کی آخری تاریخ میں توسیع کی ہے ، لیکن اب عدم تعمیل کی صورت میں جرمانہ عائد کرنے کی شق متعارف کرائی گئی ہے۔ ساتھ ہی کارڈ ہولڈر کا پین کارڈبھی غلط قرار دیا جائے گا۔ اس سے آپ کو بینک کھاتوں سے لے کر پنشن تک نئی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرنا بھی ممکن نہیں ہوگا۔

پی ایم مودی 15 ستمبر کو پارلیمنٹ ٹی وی لانچ کریں گے ، لوک سبھا اور راجیہ سبھا ٹی وی اس میں ہو گئے ضم

پی ایم مودی 15 ستمبر کو پارلیمنٹ ٹی وی لانچ کریں گے ، لوک سبھا اور راجیہ سبھا ٹی وی اس میں ہو گئے ضم

پی ایم مودی 15 ستمبر کو پارلیمنٹ ٹی وی لانچ کریں گے ، لوک سبھا اور راجیہ سبھا ٹی وی اس میں ہو گئے ضموزیر اعظم نریندر مودی 15 ستمبر کو لوک سبھا ٹی وی اور راجیہ سبھا ٹی وی کا مجموعہ نیا پارلیمنٹ ٹی وی لانچ کریں گے۔ موصولہ معلومات کے مطابق کانگریس کے سینئر لیڈر کرن سنگھ ، ماہر معاشیات بیبیک ڈیبروئے ، نیتی آیوگ کے سی ای او امیتابھ کانت اور وکیل ہیمنت بترا اس نئے چینل پر الگ الگ شوز کی میزبانی کریں گے۔

ایک ذریعہ نے بتایا کہ پارلیمنٹ ٹی وی کو ایک معلوماتی چینل کے طور پر قائم کیا جا رہا ہے جو ملک کے جمہوری اقدار اور اداروں سے متعلقہ موضوعات پر قومی اور بین الاقوامی سامعین کے سامنے اعلی معیار کا مواد پیش کرے گا۔پھر لوک سبھا اور راجیہ سبھا کی کارروائی ہوگی۔ پارلیمنٹ ٹی وی کے دو چینلز پر براہ راست نشریات

ذرائع نے بتایا کہ چینل کو باضابطہ طور پر وزیر اعظم مودی ، نائب صدر ایم وینکیا نائیڈو اور لوک سبھا اسپیکر اوم برلا کی موجودگی میں لانچ کیا جائے گا۔ کرن سنگھ مختلف مذاہب پر پروگرام کریں گے جبکہ بیبیک ڈیبروے تاریخ پر پروگرام کریں گے اور امیتابھ کانت ہندوستان کی تبدیلی پر۔ ہیمنت بترا قانونی موضوعات پر پروگرام کا انعقاد کریں گے۔

وزارت خزانہ کے پرنسپل ایڈوائزر سنجیو سانیال معیشت پر پروگرام کریں گے اور امبریش میتھائی ، اینڈو کرینولوجی کے معروف ڈاکٹر ، صحت کے مسائل پر۔ انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس کے ایک ریٹائرڈ افسر اور وزارت ٹیکسٹائل کے سابق سیکرٹری روی کپور پارلیمنٹ ٹی وی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیں جبکہ لوک سبھا سیکریٹریٹ میں جوائنٹ سیکرٹری منوج اروڑا اس کے خصوصی ڈائریکٹر ہیں

ناندیڑ کے بلولی میں بجرنگ دل کارکنان کی حالات کوخراب کرنے کی کوشش‘ملزمین کی گرفتاری کیلئے احتجاجی ریلی

بلولی ابرار بیگ ) بلولی شہر کے ایک مسلم بستی میں گزشتہ 6 ستمبرکو پولا تہوار کے دن گائے کے گوشت ہونے کی شک میں ایک مسلم گھر میں بجرنگ دل کے کارکنان گائے کی حفاظت کے نام پر داخل ہوئے تھے جس کے بعد یہاں پرحالات کشیدہ ہوگیے تھے۔اور دوگروپ میں معمولی جھگڑابھی ہواتھا جس میں کچھ نوجوان زخمی ہوئے تھے لیکن پولیس موقع واردات پر پہونچنے سے حالات مزید خراب نہیں ہوئے ۔

بعد ازاں پولس کی جانب سے دونوں ہی سماج کے 20 سے زائد نوجوانوں پر مقدمات درج کئے گئے۔ اور زائد مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا اور بجرنگ دل کے چنندہ کارکنان گرفتار کیے گئے جبکہ شہر کے حالات خراب کرنے و الے اصل ملزمین کو پولس نے ابھی تک گرفتار نہیں کیا ہے۔

اسی سلسلہ میں آج 11 ستمبر کو صبح گیارہ بجے ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کے مجسمہ سے تحصیل آفس تک ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی اسریالی سے مفتی ایوب صاحب، مولانا مبین صاحب،سماجی کارکن ولی اولدین فاروقی، کونسلر جاوید قریشی، شیخ سلیمان، ساجد قریشی،سابق سدر بلدیہ بھیم راوجٹے، سندیپ کٹارے، لاکھیے ، ودیگر افراد نے خطاب کیا اور ان سماج دشمن عناصر پر روک لگاتے ہوئے اصل ملزمین کو جلد سے جلد گرفتار کرنے کا مطالبہ تحصیلدار کو دیے گئے میمورنڈم میں کیاگیا۔ اس احتجاجی ریالی میں دو ہزار سے زائد مسلمانوں نے شرکت کی ۔یادرہے کہ بلولی شہر کی تاریخ میں آج تک کوئی فرقہ وارانہ فساد رونماء نہیں ہوا مگر بجرنگ دل ‘وی ایچ پی کے کارکنان کی جانب سے شہر کے پر امن ماحول کوخراب کرنے کی ہرممکن کوشش کی جارہی ہے۔چندچھ ماہ قبل بھی تعلقہ کے متنیال گاوں میں معمولی جھگڑے کو فساد میں تبدیل کرنے کی واردات پیش آئی تھی۔ سماج دشمن عناصر کی ان حرکتوں سے نہیں رکاگیاتو مستقبل میں بلولی میں حالات مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ اس واقع کے دو دن بعد ہندو تنظیم کی جانب سے بلولی میں ایک جلسہ لیا گیا تھا جس میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیان بازی کرتے ہوئے ماحول کو بگاڑنے کی کوشش کی گئی تھی۔

 

بتیس مہینوں بعد دلہن پاکستان سے ہندوستان پہنچی

جیسلمیر ، 11 ستمبر (اردو دنیا نیوز۷۲) شادی کے بتیس مہینوں بعد ایک دلہن پاکستان سے ہندوستان پہنچی اور اس نے جمعہ کی شام اٹاری سرحد پر ہندوستان کی چوکھٹ چومی ۔ اس کے ہندوستان پہنچنے پراتنے لمبےعرصے سے دلہن کا انتظار کر رہے جیسلمیر کے بائیا گاؤں کے رہنے والے وکرم سنگھ اور ان کے خاندان کے افراد میں خوشی کا ٹھکانا نہ رہا ۔ دلہن نرملا کنور کا اس کے رشتہ داروں نے روایتی راجستھانی انداز میں استقبال کیا۔ منہ میٹھا کر کے ان کا استقبال کیا۔

پاکستان میں پھنسی اس دلہن کو لانے کے لیے وزیر مملکت برائے زراعت کیلا چودھری نے انتھک کوششیں کی ہیں ۔ انہوں نے مرکزی وزارت داخلہ کے ذریعے ہندوستان سفارت خانے سے رابطہ کرکے جیسلمیر کی اس دلہن کو اس کےسسرال میں لانے کے لیے گزشتہ کئی مہینوں سےہرممکن کوشش کی۔ نرملا کنور کی ہندوستان آمد پران کے استقبال کے لئے رکن پارلیمان سیوا کیندر ، باڑمیر میں دوپہر میں ان کے استقبال کے لیے ایک استقبالیہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ان کا استقبال کیا گیا۔

قابل ذکر ہے کہ جیسلمیر کے بائیا گاؤں کے رہنے والے وکرم سنگھ اور اس کے بھائی نیپال سنگھ نے پاکستان کے سندھ علاقے میں جنوری 2019 میں شادی کی تھی ۔ اس دوران جموں و کشمیر میں پلوامہ حملہ ہوا اوردونوں ممالک کے تعلقات خراب ہو گئے ۔ ٹرین ، بس اور ہوائی سفر بند ہوگیا ۔اس وجہ سے 4-5 مہینے تک وکرم سنگھ سسرال میں ہی رہا ، آخر کار بیوی کو ویزا نہیں ملا تو وہ اکیلا ہی ہندوستان واپس آیا۔ امید تھی کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ٹھیک ہونے کے بعد ان کی اہلیہ ہندوستان آئے گی ، لیکن وکرم سنگھ کی اہلیہ نرملا کنور کا پاسپورٹ بلیک لیسٹڈ ہونے کی وجہ سے وہ ہندوستان نہیں آ سکی۔

گزشتہ 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر وکرم سنگھ کے بھائی نیپال سنگھ اور باڑ میر کے رہنے والے مہندرسنگھ کی بیویاں پاکستان سے ہندوستان آ گئی تھیں ، لیکن نرملا کنور پاسپورٹ کی وجہ سے پاکستان میں پھنس گئی ۔ پاکستان میں ہی پیدا ہوئے وکرام سنگھ کے بیٹے راج ویرسنگھ کوویزا ملنے پرگزشتہ مارچ میں اسے ہندوستان لے آئے تھے ۔ حال ہی میں نرملا کنورکا پاسپورٹ پاکستان کی طرف سے بحال کر دینے کے بعد وہ ہندوستان آ گئی۔

گجرات : سی ایم وجے روپانی نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا

گجرات : سی ایم وجے روپانی نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیاگجرات : سی ایم وجے روپانی نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیااحمد آباد گجرات میں انتخابی مہم سے قبل ریاست کے وزیر اعلیٰ وجے روپانی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اگلے سال گجرات میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں ، ایسے میں وجے روپانی کے استعفیٰ کو بی جے پی کے لیے بڑا دھچکا سمجھا جا رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دینے کے بعد وجے روپانی نے کہا ، میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے میرے جیسے پارٹی کارکن کو وزیر اعلیٰ کے عہدے کی ذمہ داری دی۔ میرے دور میں وزیر اعظم مودی جی کو خصوصی رہنمائی مل رہی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی رہنمائی میں گجرات نے جامع ترقی کی راہ پر آگے بڑھ کر ایک نئی جہت کو چھوا ہے۔

دہلی ۔ این سی آر اور ملحقہ علاقوں میں شدید بارشوں کا سلسلہ

دہلی ۔ این سی آر اور ملحقہ علاقوں میں شدید بارشوں کا سلسلہ

دہلی ۔ این سی آر اور ملحقہ علاقوں میں شدید بارشوں کا سلسلہ
: دہلی اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ہفتہ کی صبح بھاری بارش ہوئی اور کئی مقامات پر پانی جمع ہو گیا۔ محکمہ موسمیات نے صبح کے وقت ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ ''دہلی، این سی آر (بہادر گڑھ، گڑگاؤں، مانیسر، فرید آباد، بلبھ گڑھ) کے کئی مقامات اور ملحقہ علاقوں میں درمیانی سے بھاری بارش اور تیز ہوائیں چلتی رہیں گی۔''دہلی کے علاوہ محکمہ موسمیات نے ہریانہ کے کچھ علاقوں میں بھاری بارش کی پیشن گوئی کی ہے، جبکہ اتر پردیش کے کچھ علاقوں میں ہلکی شدت کی بارش ہونے کی امید ہے۔ آئی جی آئی (اندرا گاندھی انٹرنیشنل) ایئرپورٹ کے آس پاس جنوبی دہلی کے علاقہ میں واٹر لاگنگ کی وجہ سے سڑکوں پر گاڑیوں کی آمد و رفت متاثر ہو گئی ہے۔دہلی پولیس نے الرٹ جاری کرتے ہوئے کہا، ''جی جی آر / پی ڈی آر میں پانی بھر جانے کے سبب سڑکوں پر بھاری ٹریفک ہے۔ رنگ روڈ پر ڈبلیو ایچ او کے پاس پانی بھرا ہوا ہے۔ برائے کرم ٹریفک جام سے بچیں۔'' محکمہ موسمیات کے عہدیداروں کے مطابق، ویک اینڈ میں بھاری بارش کا امکان ہے اور راجدھانی میں اس مہینے ریکارڈ بارش درج کی جا سکتی ہے۔اس سال کے مقابلہ دہلی میں 2020 کے مانسون میں 576.5 ملی میٹر اور 2019 میں 404.3 ملی میٹر بارش ہوئی تھی۔ مرکزی آلودگی کنٹرول بورڈ کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق دہلی میں فضائی آلودگی میں بہتری آئی ہے اور اب یہ 79 تک پہنچ گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ شہر کی آلود گی 'اطمینان بخش' ہے۔

بڑی خبر : ممبئی میں آبروریزی متاثرہ نے توڑ دیا دم انربھیا ' جیسی ہوئی تھی درندگی

بڑی خبر : ممبئی میں آبروریزی متاثرہ نے توڑ دیا دم انربھیا ' جیسی ہوئی تھی درندگیبڑی خبر : ممبئی میں آبروریزی متاثرہ نے توڑ دیا دم انربھیا ' جیسی ہوئی تھی درندگیممبئی(اردو دنیا نیوز۷۲): ممبئی کے نواحی علاقے ساکی ناکہ میں ایک آبروریزی متاثرہ خاتون کی موت ہوگئی ہے۔ ٹیمپو کے اندر 34 سالہ خاتون کے آبروریزی کی گئی تھی۔ حادثہ کے بعد خاتون کی حالت اتنی زیادہ خراب ہوگئی تھی کہ انہیں وینٹیلٹر پر رکھنا پڑا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ خاتون اتنی بری طرح سے زخمی ہوگئی تھی کہ ان کے جسم سے کافی زیادہ مقدار میں خون بہنے لگا۔ ہفتہ کو خاتون نے آخری سانس لی۔ یہ حادثہ 2012 کے 'نربھیا' سانحہ کی یاد دلاتی ہے۔ پولیس نے جمعہ کو یہ جانکاری دی۔ ایک افسر نے بتایا کہ حادثہ کے کچھ ہی گھنٹوں کے اندر ملزم موہن چوہان کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ جمعہ کی صبح پولیس کنٹرول روم کو فون آیا کہ خیرانی روڈ پر ایک شخص ایک خاتون کی پٹائی کر رہا ہے۔ افسر نے بتایا کہ خاتون کا پتہ لگانے کے لئے پولیس ٹیم موقع پر پہنچی۔ خون سے شرابور خاتون کو میونسپل کارپوریشن کے ماتحت راجا واڑی اسپتال لے جایا گیا۔ ابتدائی جانچ میں پتہ چلا کہ خاتون کے ساتھ آبروریزی کی گئی اور اس کے پرائیوٹ پارٹ (عضو خاص) میں لوہے کی چھڑ سے حملہ کیا گیا۔

ابتدائی جانچ میں پتہ چلا کہ خاتون کے ساتھ آبروریزی کی گئی اور اس کے پرائیوٹ پارٹ (عضو خاص) میں لوہے کی چھڑ سے حملہ کیا گیا۔

خاتون کی سنگین حالت جان کر ممبئی کی میئر کشوری پیڈنیکر بھی اس کی خیریت معلوم کرنے اسپتال پہنچی تھیں۔ انہوں نے اس بابت میڈیا سے بات چیت میں کہا، 'ساکی ناکہ پولیس اسٹیشن علاقے میں 9 ستمبر کی رات کو جو حادثہ پیش آیا، وہ بے حد مایوس کن ہے۔ دہلی میں اس طرح کا حادثہ ہوا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ خاتون کے جسم سے کافی خون بہہ گیا۔ اس کی اتڑیاں نکل گئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایسا حادثہ کسی کے ساتھ دوبارہ نہ ہو۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ملزم موہن چوہان کے ساتھ خاتون 10 سے 12 سال تک پہلے ساتھ میں تھی۔

پولیس کے پاس سی سی ٹی وی فوٹیج کہا جا رہا ہے کہ حادثہ کی رات متاثرہ 8 بجے اپنے گھر سے اپنی بہن کے یہاں جانے کے لئے نکلی تھی۔ حادثہ کے سی سی ٹی وی فوٹیج کو ممبئی پولیس نے ضبط کرلیا ہے۔ سی سی ٹی وی میں واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ ملزم نوجوان خاتون کو بڑی بے رحإی سے پیٹ رہا ہے۔ ایک دیگر سی سی ٹی وی فوٹیج میں ملزم ٹیمپو سے باہر نکلتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے۔ اس کے بعد وہ وہاں سے بھاگنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ویکسین پہنچانے کے لئے تلنگانہ میں ڈرون کا استعمال

ویکسین پہنچانے کے لئے تلنگانہ میں ڈرون کا استعمالوقارآباد _ ملک میں پہلی مرتبہ تلنگانہ کے وقارآباد ضلع میں "میڈیسن فرم دی اسکائی" پروگرام کے تحت فضاء سے کورونا کے ٹیکے اور دوائیں پہنچانے کے لئے ڈرون ٹکنالوجی کا استعمال کیا گیا۔ اس تجرباتی پروگرام کا وقارآباد کے پولیس پریڈ گراونڈ میں مرکزی وزیر شہری ہوابازی جیوتیر آدتیہ سندھیا اور ریاستی وزیر آئی ٹی و انڈسٹریز کے ٹی راماراو نے افتتاح کیا۔ میڈیسین فرم دی اسکائی پروگرام کے ذریعہ ہنگامی حالات میں ادویات اور ٹیکے دور دراز علاقوں تک پہنچانے کیلئے یہ پروگرام شروع کیا جارہا ہے جس سے وقت کی کافی بچت ہوگی اور ٹریفک کا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ یہ ڈرون 500 تا 700 میٹر اونچائی سے فضا میں سفر کرتے ہوئے متعلقہ مرکز تک ادویات اور ٹیکوں کو پہنچائے گا

وہ ٹھگ جس نے بیوی کا انتقام لوگوں سے لینا شروع کردیا


مسلم اکیڈمی ملتان ایک قدیم تعلیمی ادارہ تھا جو گذشتہ کئی دہائیوں سے پرائیویٹ سیکٹر میں اپنی عملی خدمات سرانجام دے رہا تھا۔ یہ ادارہ اگرچہ پرائیویٹ نوعیت کا تھا لیکن اس کے منتظمین نے اسے کاروبار کی غرض سے نہیں بنایا تھا۔ ان کا طریقہ تعلیم اور سالانہ بہترین نتائج، اس بات کا عملی مظہر تھے کہ یہ ادارہ کسی اعلیٰ مقصد کی تکمیل کے لیے بنایا گیا ہے۔

مسلم اکیڈمی کے مالک پروفیسر ڈاکٹر الماس ایک منکسرالمزاج اور علم دوست شخصیت تھے۔ انہوں نے اردو ادب اور اسلامیات میں ڈبل ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر رکھی تھی۔ الماس صاحب طلبہ و طالبات کی مخلوط تعلیم کے حق میں نہیں تھے، اس لیے انہوں نے مسلم اکیڈمی میں طلبہ اور طالبات کے لیے الگ الگ کیمپس بنائے ہوئے تھے۔ دور دراز سے آنے والے طلبہ کے لیے ہاسٹل کا بندوبست بھی موجود تھا، جس میں اقامتی بچوں کو بہترین تربیت اور متوازن خوراک فراہم کی جاتی۔

اقامتی طلبہ کی جسمانی نشوونما کے لیے بیڈمنٹن، فٹ بال اور والی بال میں سے کسی ایک کھیل کا انتخاب ضروری تھا۔ ہاسٹل کے ساتھ ایک خالی پلاٹ تھا جہاں فٹ بال کی پریکٹس کروائی جاتی جبکہ ہاسٹل کے اندر چھوٹے سے گارڈن میں والی بال اور بیڈمنٹن کے نیٹ لگوائے گئے تھے جہاں باقاعدگی سے میچوں کا انعقاد ہوتا۔

یوں یہ ادارہ طلبہ کی مروجہ تعلیم کے ساتھ ساتھ صحت اور کردار سازی پر بھی خصوصی توجہ دیتا۔پروفیسر ڈاکٹر الماس مسلم اکیڈمی کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ، اکیڈمی کے منتظم اعلیٰ اور پرنسپل بھی تھے۔

2005 کے آخر میں محبوب عباسی نامی ایک شخص ان کے دفتر آیا۔ بھرا ہوا جسم، 50 سال کے قریب عمر اور شکل و صورت کے اعتبار سے معتبر شخص دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے الماس صاحب کو سب سے پہلے مبارک باد دی کہ وہ جس جذبے کے ساتھ، بغیر کسی دنیاوی لالچ کے علم کی دولت بانٹنے میں اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہیں وہ یقیناً قابلِ تحسین ہے۔

پروفیسر الماس صاحب نے پہلے تو یہ سمجھا کہ شاید یہ شخص اپنے کسی بچے یا رشتہ دار کو اکیڈمی میں داخل کروانا چاہتا ہے، چنانچہ انہوں نے اسی حوالے سے انہیں مسلم اکیڈمی کے قیام، علم دوست ماحول اور سالانہ نتائج کی تفصیلات بتانا شروع کر دیں۔ الماس صاحب نے دیوار پر آویزاں ’آنرز بورڈ‘ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہر سال ہماری اکیڈمی کے دو تین بچے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ میں پوزیشن ہولڈرز ضرور ہوتے ہیں۔ پچھلے چھ سال کے دوران ملتان بورڈ میں ہماری اکیڈمی کے پوزیشن ہولڈر بچوں کے نام اس بورڈ پر دیکھ سکتے ہیں۔

اچانک محبوب عباسی نے بلک بلک کر رونا شروع کر دیا۔ الماس صاحب، ایک نرم دل انسان ہونے کے ناطے اس شخص کے پاس آئے، اس کی پشت پر ہاتھ رکھ کر ڈھارس بندھاتے ہوئے کہنے لگے کہ مسلم اکیڈمی میں ایسے طلبہ بھی زیر تعلیم ہیں جو غربت کے باعث تعلیم کے اخراجات کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے، اگر وہ اس وجہ سے پریشان ہیں تو انہیں بالکل پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔

محبوب عباسی نے اپنی عینک اتاری اور اپنی قمیص کے ساتھ اس کا شیشہ صاف کرتے ہوئے کہنے لگا: ’سر، میری داستان بہت دردناک ہے لیکن میں اپنا دکھ درد ہر شخص کے سامنے بیان نہیں کر سکتا، آپ کیونکہ اہل درد انسان ہیں۔ اس لیے میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں آپ کے سامنے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لوں۔‘

الماس صاحب نے پانی کا گلاس محبوب عباسی کی طرف بڑھایا اور اسے تسلی دی کہ وہ اپنی بات بلاجھجک کھل کر بتائے۔ محبوب عباسی نے ایک طویل ٹھنڈی آہ بھری اور بولنا شروع کیا۔

’میرا نام محبوب عباسی ہے، میں مظفرآباد، کشمیر کا رہنے والا ہوں۔ میری عباسی کلاتھ ہاؤس کے نام سے مظفرآباد شہر میں کپڑے کی بہت بڑی دکان تھی، اللہ نے مجھے دو بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا تھا۔ بیٹی بچوں میں سب سے بڑی تھی اور چین میں ایم بی بی ایس کر رہی تھی۔ میرے دونوں بیٹے 14 سالہ احسن اور 11 سالہ محسن، انگریزی سکول میں بالترتیب نویں اور ساتویں کلاس کے طالب علم تھے۔ بڑا بیٹا سی ایس ایس کر کے پولیس آفیسر بننا چاہتا تھا جبکہ چھوٹے بیٹے کو فوج میں افسر بننے کا شوق تھا۔‘

’ستمبر 2005 تک زندگی عیش و آرام سے گزر رہی تھی۔ اللہ نے اپنے فضل و کرم سے، ہر طرح کی تکلیف، آزمائش اور پریشانی سے کوسوں دور رکھا ہوا تھا۔ مجھے ہر دو تین ماہ کے بعد گارمنٹ فیکٹریوں سے حساب کتاب چکتا کرنے اور نئے مال کی بکنگ کروانے کے لیے، دو تین روز کے لیے فیصل آباد جانا پڑتا تھا۔‘

’چھ اکتوبر کی رات میں اپنے مینیجر کے ساتھ مظفرآباد سے فیصل آباد کے لیے روانہ ہوا۔ اگلی صبح ہم فیصل آباد پہنچ گئے۔ فیکٹریوں سے حساب کتاب چکتا کرنے میں ہمیں دو دن لگ گئے۔ اگلے دن ہم نے نئے مال کی بکنگ کروا کر واپس مظفر آباد آنا تھا کہ وہ بدقسمت گھڑی آ گئی جو وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ مجھے ایک ساتھی دکاندار کا فون آیا کہ مظفرآباد میں زلزلے کے باعث میرا گھر ملیا میٹ ہو چکا ہے اور میرا پورا خاندان، ملبے کے نیچے آ کر ختم ہو چکا ہے۔ میرا سب کچھ ختم ہو گیا سر۔ سارے خواب۔ جینے کا جواز نہیں رہا کوئی۔‘

اس کے ساتھ ہی محبوب عباسی نے دوبارہ رونا شروع کر دیا۔ پروفیسر الماس صاحب، اس کی ڈھارس بندھاتے ہوئے خود بھی آبدیدہ ہو گئے۔

محبوب عباسی نے مزید بتایا کہ وہ اپنےاہل خانہ کو سپرد خاک کرنے کے بعد نیم پاگل ہو گیا اور ایک عرصے تک مختلف رشتے داروں کے پاس مقیم رہا جو اس کا ماہر نفسیات سے علاج کرواتے رہے۔ پھر اس نے دکان بھی فروخت کر دی کیونکہ اب وہ اس قابل نہیں تھا کہ کاروبار کو جاری رکھ سکتا۔ بالآخر جب طبعیت کچھ سنبھلی تو لاہور میں ایک خیراتی ادارے میں خدمت گار بن کر کام کرتا رہا۔ دکان بیچ کر جو لاکھوں روپے ملے تھے وہ بھی لاہور میں ایک یتیم خانے کو دے دیے۔

محبوب نے بتایا کہ ’خیراتی ادارے میں کچھ بے ضابطگیاں نظر سے گزریں تو اسے بھی خیر آباد کہہ کر ایک ہفتہ پہلے ملتان آ گیا ہوں۔‘

پروفیسر صاحب نے اسے تسلی دی کہ وہ اس کی ہر ممکن معاونت کے لیے تیار ہیں۔

محبوب عباسی نے کہا کہ ’مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ میرا اس دنیا میں اب کوئی نہیں رہا۔ بیٹی نے ایم بی بی ایس اور سپشلائزیشن کے بعد چین میں ہی میڈیکل کالج میں نوکری کرلی تھی اور اپنے ایک قطری کلاس فیلو کے ساتھ شادی کرکے وہیں سیٹل ہو گئی ہے، میں نے آپ کے ادارے اور آپ کی شخصیت کے بارے میں سنا تو جی چاہا کہ اپنی خدمات آپ کو پیش کروں۔‘

اس کہا کہ ’میں نے پرانے وقتوں کا بی اے کر رکھا ہے۔ میٹرک تک ریاضی کے علاوہ تمام مضامین پڑھا سکتا ہوں۔ مجھے کوئی تنخواہ وغیرہ نہیں چاہیے، اس قوم کے سب بچے میرے احسن، محسن ہیں، میں انہیں عملی زندگی کے لیے تیار کرنے کا جذبہ رکھتا ہوں تاکہ وہ ڈاکٹر، انجینیئر، بیوروکریٹ بن کر قوم و ملک کی خدمت کر سکیں۔‘

اس نے الماس صاحب سے وعدہ لیا کہ وہ اس کی غمزدہ داستان کسی کے ساتھ شیئر نہیں کریں گے کیونکہ وہ خوددار آدمی ہے اور اسے ہمدردیاں سمیٹنے کی عادت نہیں۔

پروفیسر الماس صاحب پر محبوب عباسی کی باتوں کا اتنا اثر ہوا کہ انہوں نے مسلم اکیڈمی کے ہاسٹل وارڈن کو بلا کر کہا کہ محبوب عباسی صاحب ہمارے نئے فیکلٹی ممبر ہیں، انہیں ہاسٹل میں فیکلٹی روم الاٹ کر دیا جائے۔ پروفیسر صاحب نے اگلے روز ایک سینیئر استاد کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ محبوب عباسی صاحب کو اکیڈمی کے تمام سیکشنز میں لے جائے اور اساتذہ اور طلبہ سے متعارف کروائے۔

محبوب عباسی جس کلاس میں جاتا وہاں ایک جامع تقریر کرتا۔ بچوں میں آگے بڑھنے کا جذبہ ابھارتا۔ اس کے خیالات سن کر بچے تو بچے، اساتذہ کا بھی دل پسیج جاتا۔

چند دنوں میں، محبوب عباسی، اکیڈمی کی مقبول اور محبوب ترین شخصیت بن گیا۔ اس کی مقبولیت سے متاثر ہو کر پروفیسر الماس صاحب نے اسے ’موٹیویشنل سپیکر‘ کی ذمہ داریاں سونپ دیں۔ جنہیں وہ بخوبی نبھانا جانتا تھا۔

دن کے اوقات میں محبوب عباسی کا زیادہ وقت الماس صاحب کے دفتر میں گزرتا۔ وہ انہیں اکیڈمی کو بہتر بنانے، اخراجات میں کمی لانے کے ایسے ایسے نسخے بتاتا کہ الماس صاحب اس کی ذہانت کی داد دیے بغیر نہ رہ پاتے۔

دو ماہ کے اندر محبوب عباسی کو وائس پرنسپل بنا دیا گیا۔ پروفیسر الماس صاحب زبردستی اس کی جیب میں ہر ماہ کچھ نہ کچھ رقم ڈال دیتے مگر وہ اس رقم سے بھی اکیڈمی کی تزئین و آرائش کے لیے کچھ نہ کچھ خرید لاتا۔

الماس صاحب نے وائس پرنسپل ہونے کے ناطے محبوب عباسی کو اکاؤنٹس سے متعلقہ معاملات کی نگرانی بھی سونپ دی جس میں بچوں کے داخلے، ماہانہ فیس کی کلیکشن، اساتذہ کی تنخواہوں اور یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگیاں بھی شامل تھیں۔

رفتہ رفتہ الماس صاحب کا محبوب عباسی پر اعتماد بڑھتا گیا، اگر اساتذہ میں سے کوئی الماس صاحب سے محبوب عباسی کے پس منظر کی بابت پوچھتا تو الماس صاحب یہ کہہ کر بات ختم کرتے کہ ہمارے قریبی عزیز ہیں، گاؤں میں تھے سو انہیں اپنی معاونت کے لیے بلایا ہے۔

مسلم اکیڈمی میں تین سوزوکی کیری ڈبے بھی موجود تھے جنہیں اقامتی طلبہ کو کہیں لانے لے جانے، یا اکیڈمی میس کا راشن لانے کے لیے استعمال میں لایا جاتا۔ اکیڈمی کا اکاؤنٹ مسلم کمرشل بینک میں تھا۔ محبوب عباسی ہر ماہ وصول شدہ فیسوں کی رقم، بینک میں جمع کروانے کے لیے، اکثر اکاؤنٹنٹ کے ساتھ جاتا اور واپسی پر جمع شدہ رقم کی تمام رسیدیں، الماس صاحب کو پیش کرتا۔

الماس صاحب بہت خوش تھے کہ انہیں، محبوب عباسی کی شکل میں ایک پرخلوص اور قابلِ اعتماد شخص مل گیا ہے جو ان کا سارا کام دیکھ رہا ہے اور انہیں ایک ایک چیز سے باخبر بھی رکھے ہوئے ہے۔ اساتذہ اور طلبہ بھی پرنسپل کی بجائے محبوب عباسی سے بات کرنے میں سہولت محسوس کرتے۔

یہ سلسلہ یونہی کوئی چھ ماہ تک چلتا رہا۔ پھر اچانک ایک دن الماس صاحب کے دفتر کے نمبر پر فون آیا۔ الماس صاحب نے فون اٹھایا تو دوسری جانب سے ندیم نامی شخص نے محبوب عباسی سے بات کروانے کا کہا۔

الماس صاحب نے اسے محبوب عباسی کے موبائل نمبر پر رابطہ کرنے کو کہا۔ ندیم نے ذرا درشت لہجے میں کہا، ’میں رات سے اس کے موبائل نمبر پر کال کر رہا ہوں، مگر نمبر بند جا رہا ہے۔ مجھے ہر حال میں گاڑی کے کاغذ چاہییں۔‘

الماس صاحب نے اس سے پوچھا، ’کھل کر بتاؤ بھائی، کیا چاہتے ہوں، کون سی گاڑی کے کاغذوں کی بات کر رہے ہو؟‘

ندیم نے بتایا: ’میں اقصٰی شو روم کا مالک ہوں۔ کل آپ کے وائس پرنسپل نے کیری ڈبہ بیچا تھا اور گاڑی کے کاغذ شام تک پہنچانے کا وعدہ کیا تھا مگر ابھی تک کاغذوں کا ملنا تو درکنار، رابطہ تک نہیں ہو رہا۔ اوپر سے ہم نے آپ کے ادارے کی شہرت کو سامنے رکھتے ہوئے ساڑھے چار لاکھ کی پیمنٹ بھی کر دی تھی۔‘

الماس صاحب کا ذہن ماؤف ہو چکا تھا۔ ان کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا تھا، انہوں نے اپنے موبائل فون سے محبوب عباسی کے نمبر پر متعدد کالز کیں مگر وہ بند ملا۔

الماس صاحب نے فوراً ہاسٹل سے چیک کروایا تو چوکیدار نے بتایا کہ وہ کل رات سے ہاسٹل نہیں آئے اور کمرے میں ان کا سامان اور لیپ ٹاپ بھی نہیں ہے۔

الماس صاحب نے فیکلٹی کی ہنگامی میٹنگ بلائی اور تمام اساتذہ سے محبوب عباسی کی بابت پوچھا مگر کہیں سے کچھ سراغ نہ مل سکا۔

ادھر اکاؤنٹنٹ نے الماس صاحب کو بتایا کہ کل فیسوں کی مد میں جمع شدہ 12 لاکھ روپے محبوب عباسی صاحب بینک اکاؤنٹ میں جمع کروانے کے لیے لے کر گئے تھے مگر ابھی تک انہوں نے رسید نہیں دی۔ الماس صاحب نے تصدیق کے لیے فوراً بینک مینیجر سے رابطہ کیا۔ بینک مینیجر نے ریکارڈ چیک کرنے کے بعد بتایا کہ رواں ماہ ان کے اکاؤنٹ میں کوئی رقم جمع نہیں ہوئی۔

پروفیسر الماس صاحب کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ انہوں نے ایک اجنبی شخص پر اس قدر اعتماد کیسے کر لیا۔

رفتہ رفتہ سکول کے اساتذہ کو بھی خبر مل چکی تھی کہ محبوب عباسی پروفیسر الماس صاحب کو لاکھوں روپے کا چونا لگا کر رفو چکر ہو چکا ہے۔

پروفیسر الماس صاحب نے اساتذہ کے اصرار پر متعلقہ ایس ایچ او ہونے کے ناطے مجھے فون کر کے اپنے ساتھ ہونے والی افسوس ناک واردات کا خلاصہ بتاتے ہوئے ملنے کا وقت مانگا۔

میں نے مسلم اکیڈمی کے حوالے سے پروفیسر الماس صاحب کا نام سن رکھا تھا۔ میں نے جواباً انہیں کہا کہ میں خود آپ کے پاس اکیڈمی آ رہا ہوں۔ کیس خاصا عجیب و غریب تھا اس لیے میں تمام تفصیلات جاننا چاہتا تھا، چنانچہ میں تھوڑی ہی دیر میں مسلم اکیڈمی پہنچ گیا۔

پرنسپل پروفیسر الماس اپنے کمرے میں انتہائی غمزدہ حالت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے انہیں تسلی دی کہ انشا اللہ جلد ملزم قانون کی گرفت میں ہو گا۔ لیکن آپ کو تمام تفصیلات الف سے ی تک بتانا ہوں گی۔

پروفیسر صاحب نے مجھے محبوب عباسی سے ہونے والی ابتدائی ملاقات سے لے کر وقوعے کے روز تک پیش آمدہ تمام تفصیلات سے آگاہ کیا جو آپ نے اوپر پڑھیں۔

انہوں نے درخواست کی کہ ان کی اکیڈمی کا ایک نام ہے، لوگ ان کی نیک نامی کی وجہ سے اپنے بچوں کو یہاں داخل کروانے کو ترجیح دیتے ہیں ورنہ ملتان میں ایک سے بڑھ کر ایک ادارہ موجود ہے۔ اگر یہ ساری تفصیلات ایف آئی آر میں درج کی گئیں تو ہماری ساکھ متاثر ہو گی۔ پہلے پندرہ بیس لاکھ کا نقصان ہو چکا ہے، اب عزت بھی جاتی رہے گی لہذا وہ قانونی کارروائی نہیں چاہتے۔

میں نے انہیں تسلی دیتے ہوئے یقین دلایا کہ یہ آپ کا نہیں میرا نقصان ہے اور انہیں یہ بھی یقین دلایا کہ ان کی یا ان کے ادارے کی ساکھ پر کوئی آنچ نہیں آنے گی، مگر مقدمہ درج نہ کروانے سے ملزم کی حوصلہ افزائی ہوگی اور وہ مزید آپ جیسے شرفا کو اپنے جال میں پھنسائے گا۔

میں نے لیگل برانچ سے مشورہ کر کے انہیں بتایا کہ وہ مقدمے کی درخواست بطور مہتمم مسلم اکیڈمی کی بجائے بطور عام شہری دے سکتے ہیں تاکہ ادارے کا نام بھی نہ آئے اور ملزم کے خلاف مقدمہ درج کرکے ضابطے کی کارروائی بھی عمل میں لائی جا سکے۔

بالآخر بڑے رد و کد کے بعد پروفیسر الماس صاحب اندراج مقدمہ کے لیے تیار ہوگئے۔

الماس صاحب کے پاس محبوب عباسی کے شناختی کارڈ کی کاپی کے سوا کوئی ڈاکومنٹ موجود نہیں تھا۔ وہ کاپی بھی شاید الماس صاحب نے ان کا جوائنٹ بینک اکاؤنٹ کھلوانے کے لیے لی تھی مگر بعد میں محبوب عباسی کے انکار پر اس کو عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔

پروفیسر الماس صاحب کی مدعیت میں مقدمہ زیر دفعہ 420/468 /471 /406 تعزیرات پاکستان درج ہوا۔ الماس صاحب کی خواہش کے مطابق ایف آئی آر میں مدعیت کے خانے میں ان کا نام اور شناختی کارڈ کے مطابق آبائی گھر کا پتہ درج کیا گیا تھا۔

تفصیلات سے واضح تھا کہ ملزم انتہائی چالاک، ہوشیار اور پختہ کار تھا۔ میں نے الماس صاحب سے محبوب عباسی کے شناختی کارڈ کی کاپی لی۔ شناختی کارڈ پر مظفرآباد کا ایڈریس دیا ہوا تھا۔

میں نے نادرا ہیڈکوارٹر اسلام آباد میں تعینات ایک دوست کو فون کیا اور محبوب عباسی کے شناختی کارڈ کا ڈیٹا اور اس کے دیگر اہل خانہ کے کوائف فراہم کرنے کی درخواست کی۔

میرا خیال تھا کہ کچھ نہ کچھ سرا ہاتھ آئے گا مگر نادرا آفس کی طرف سے جو جواب آیا وہ سخت مایوس کن تھا۔ اس شناختی کارڈ کی معلومات میں کوئی خاندانی معلومات درج نہیں تھیں۔

میں نے مظفرآباد کے رہائشی اپنے ایک پرانے یونیورسٹی کلاس فیلو کو بذریعہ فون اس واردات کی تفصیلات بتائیں اور شناختی کارڈ پر درج ایڈریس کے مطابق ملزم کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کی درخواست کی۔

میرے پیشہ وارانہ تجربے کے مطابق اگر کوئی ملزم کسی دوسرے صوبے یا علاقے کا رہائشی ہو تو اس علاقے کی پولیس سے رابطہ کرنے سے پہلے اس ملزم کے بارے میں معلومات کے لیے کسی مقامی سورس کو استعمال کیا جانا زیادہ سودمند ثابت ہوتا ہے۔

اگلے چند گھنٹوں میں میرے دوست نے مجھے دوسری مایوس کن خبر سنائی کہ شناختی کارڈ پر دیا گیا ایڈریس نہ صرف جعلی ہے بلکہ پورے علاقے میں اس نام کا کوئی شخص سکونت پذیر نہیں رہا۔

مجھے یقین ہو چکا تھا کہ یہ شناختی کارڈ جعلی نام سے بنایا گیا ہے اور اس میں درج تمام کوائف بھی فرضی ہیں، لہٰذا ان کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا محض وقت ضائع کرنے کے مترادف تھا۔ میں نے سب سے پہلے نادرا کے ذریعے اس شناختی کارڈ کو بلاک کروایا تاکہ ملزم اس شناختی کارڈ کو کہیں اور استعمال نہ کرسکے۔

میں نے پروفیسر صاحب سے رابطہ کر کے انہیں کہا کہ وہ سٹاف سے بھی رابطہ کریں اور ریکارڈ بھی چیک کریں شاید کہیں ملزم محبوب عباسی کا کوئی فنگر پرنٹ مل جائے کیونکہ شناختی کارڈ پر دی گئی تمام معلومات فیک ہیں۔

اس تفتیش کو آگے بڑھانے کے لیے کسی نئی شہادت کا ملنا انتہائی ضروری تھا۔

اللہ کا کرم ہوا اور ایک گھنٹے کے بعد پروفیسر الماس صاحب نے بذریعہ فون بتایا کہ پڑتال ریکارڈ سے دو ماہ قبل کا ایک سٹامپ پیپر مل گیا ہے جس پر بطور گواہ محبوب عباسی کے دستخط اور نشان انگوٹھا موجود ہیں۔

میرے لیے یہ ایک بہت بڑی خبر تھی۔ پروفیسر الماس صاحب نے بتایا کہ ہم نے اکیڈمی کے ساتھ ملحقہ اڑھائی مرلے کا ایک قطعہ اراضی دو ماہ قبل پانچ لاکھ کے عوض ایک پارٹی سے خریدا تھا کیونکہ ہمیں پارکنگ کے لیے جگہ کی اشد ضرورت تھی۔ محبوب عباسی ہی اس وقت میرے ساتھ تھا اس نے بطور گواہ ایگریمنٹ ڈیڈ پر دستخط کیے اور سٹامپ فروش کے اصرار پر اسے مجبوراً انگوٹھا بھی ثبت کرنا پڑا، اگرچہ وہ اس پر آمادہ نہیں تھا۔

میں نے نادرا ہیڈکوارٹر میں تعینات اپنے اسی دوست سے دوبارہ مدد کی درخواست کی اور اسی کی ہدایت پر سٹامپ پیپر دے کر اے ایس آئی (تفتیشی افسر) کو نادرا ہیڈکوارٹر اسلام آباد بھجوایا۔ جب ان فنگر پرنٹس کی جانچ پڑتال کی گئی تو مفید دو باتیں سامنے آئیں۔ ایک تو یہ کہ یہ نشان انگوٹھا محبوب عباسی کے آئی ڈی کارڈ پر لگائے گئے نشان انگوٹھا سے قطعی مختلف تھا، چنانچہ میرا شک درست ثابت ہوا۔ یہ شناختی کارڈ مکمل طور پر فیک تھا۔

دوسری طرف سٹامپ پیپر پر لگا ہوا نشان انگوٹھا ایک اور آئی ڈی کے ساتھ سو فیصد میچ کر گیا۔ جو معلومات سامنے آئیں ان کے مطابق اس شخص کا نام اسلم اقبال ولد محمد اقبال تھا اور یہ فیصل آباد کا رہنے والا تھا۔ اس کے ساتھ ہمیں اس شخص کے پورے خاندان کا ریکارڈ بھی مل گیا۔

اب گتھیاں سلجھ رہی تھیں۔ ملزم تک رسائی کے امکانات روشن ہو رہے تھے۔ اب ہمیں اسلم اقبال المعروف محبوب عباسی بطور ملزم مطلوب تھا۔

ہم نے اسلم اقبال ولد محمد اقبال کا ریکارڈ تھانہ غلام محمد آباد فیصل آباد سے چیک کروایا۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق وہ عدم ریکارڈ یافتہ تھا یعنی اس کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں تھا۔ یہ بات بھی میرے لیے انتہائی حیران کن تھی۔

ہم اس کے نشان انگوٹھا سے سامنے آنے والی نئی تفصیلات، نام، ولدیت، گھر کا پتہ سب خفیہ طور پر تصدیق کروا چکے تھے جبکہ ملزم کے اہل محلہ نے اس کی تصویر دیکھ کر اس کی شناخت کی تصدیق بھی کر دی تھی۔

میں نے افسران بالا کو ساری صورت حال سے آگاہ کیا اور خود اللہ کا نام لے کر فیصل آباد کے لیے روانہ ہو گیا۔ وہاں پہنچ کر حسب ضابطہ ملزم کے رہائشی تھانہ میں رپورٹ درج کی اور مقامی پولیس کو ساتھ لے کر ملزم کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔

ہمارا ایک مقامی مخبر ہمیں ملزم کے حوالے سے لمحہ بہ لمحہ رپورٹ دے رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ ملزم اسلم اقبال اس وقت اپنے گھر کی بجائے ریلوے کالونی میں اپنے بڑے بھائی کے گھر پر موجود ہے، چنانچہ ہم نے مخبر کے بتائے ہوئے پتے پر فوری چھاپہ مارا اور ملزم کو گرفتار کرلیا۔

ملزم اسلم اقبال نے دوران تفتیش ہوش ربا انکشافات کیے۔ اس نے دوران تفتیش بتایا کہ اس کی تعلیم صرف میٹرک ہے اور اس نے کمپیوٹر میں ڈپلوما کر رکھا ہے اور وہ گذشتہ دس سالوں سے صرف نوسربازی کے ذریعے عیش کی زندگی گزار رہا ہے۔

اس نے لاہور، شیخوپورہ، گوجرانوالہ، ایبٹ آباد، ساہیوال اور ملتان میں 18 وارداتوں کا انکشاف کیا۔

پوچھ گچھ سے سامنے آیا کہ اسلم اقبال ایک انتہائی مکار شخص تھا، اس نے ہر واردات ایک نئے نام، نئے طریقے اور نئے سکرپٹ کے ساتھ کی۔ واردات سے قبل وہ اپنے ہدف پر ایک ماہ تک کام کرتا، حکمت عملی ترتیب دیتا اور پھر واردات کا ارتکاب کرتا۔

چونکہ اس نے کسی واردات میں بھی اپنا اصل نام کبھی ظاہر نہیں کیا تھا، اس لیے اس کے رہائشی تھانے میں بھی اس کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ موجود نہیں تھا۔ اس کا کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں تھا، وہ واردات میں لوٹے گئے پیسوں کو سٹاک مارکیٹ میں بروکر کے ذریعے انویسٹ کرتا تھا یا آن لائن کرپٹو کرنسی خرید لیتا تھا۔

مسلم اکیڈمی سے لوٹے ہوئے پیسوں میں سے بھی صرف چار لاکھ روپے برآمد ہو سکے جو اس نے اقصٰی شو روم میں گاڑی فروخت کر کے لیے تھے۔ باقی رقم کی وہ کرپٹوکرنسی خرید چکا تھا۔ میں نے مدعی مقدمہ پروفیسر الماس صاحب کو سمجھایا کہ وہ ایک نئے مقدمے کے اندراج کے لیے ایف آئی اے میں درخواست دائر کریں کیونکہ اس کا آن لائن ناجائز دھندہ سائبر کرائم کے زمرے میں آتا ہے جو پولیس کی بجائے ایف آئی اے کا دائرہ اختیار ہے۔

لیکن شاید الماس صاحب اپنے ادارے کی ساکھ کے متاثر ہونے کے پیش نظر ہچکچاہٹ کا شکار تھے اور انہوں نے اسی چار لاکھ کی برآمدگی کو غنیمت جانا۔

ملزم اسلم اقبال کے اہل علاقہ یہی جانتے تھے کہ اسلم اقبال گذشتہ دس سال سے چین میں کاغذ بنانے اور امپورٹ کرنے والی ایک بڑی پارٹی کے ساتھ منسلک ہے، اس لیے اس کے لمبے عرصے تک غائب ہونے پر یہی تاثر جاتا کہ کہ وہ ملک سے باہر گیا ہوا ہے۔

ملزم نے بتایا کہ وہ شروع میں مختلف پرائیویٹ کمپنیوں میں کمپیوٹر آپریٹر کے طور پر کام کرتا رہا ہے۔ 1994 میں اس کی شادی ہوئی، لیکن انتہائی کم تنخواہ اور لمبے اوقات کار کی وجہ سے اس کی اکثر اوقات گھر میں لڑائی رہتی، یہ شادی بمشکل آٹھ ماہ چلی اور پھر اس کی بیوی اسے چھوڑ کر چلی گئی۔ اس کے بعد سے اس نے کمپیوٹر آپریٹر کی نوکری چھوڑ کر انتقاماً نوسرباز بننے اور دولت جمع کرنے کا فیصلہ کیا۔

ہم نے اس کی تفتیشی رپورٹ تمام انکشافات کے ساتھ ان تمام تھانوں کو ارسال کی جہاں وہ وارداتوں کا ارتکاب کر چکا تھا۔ ملزم اسلم اقبال کو تمام ثبوتوں کے ساتھ مقدمے میں چالان کیا گیا۔ اسے فراڈ، دھوکہ دہی کے جرم میں عدالت کی جانب سے تین سال قید بامشقت اور جرمانے کی سزا سنائی گئی۔

آخری اطلاعات تک وہ کسی اور فراڈ کے مقدمے میں ایبٹ آباد کی جیل میں قید تھا

مستقبل کے جہاز کيسے ہوں گے؟ چھ پروں والے ہوائی جہاز کی منفرد خصوصیات

ہر دن کروڑوں لوگ فضائی سفر کرتے ہيں۔ کورونا کی وبا نے اس صنعت کو بھی بری طرح متاثر کيا ہے مگر ايک نئی ٹيکنالوجی مسافر جہازوں ميں ايندھن کا استعمال ستر فيصد تک کم کرسکتی ہے اور يوں ايئر لائن کمپنيوں کے اخراجات بھی۔ تو کيا آپ بيٹھنا پسند کريں گے مستقبل کے چھ پروں والے ہوائی جہاز پر۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...