Powered By Blogger

اتوار, جون 05, 2022

گستاخانِ رسالتﷺ بھاجپا سے برخاست گیند قائدین کے پالے میں

گستاخانِ رسالتﷺ بھاجپا سے برخاست گیند قائدین کے پالے میں 
الحمدللہ ایک اچھی خبر آرہی ہے کہ ابھی ابھی بھارتیہ جنتا پارٹی نے گستاخِ رسولﷺ نوپور شرما کو بھاجپا کی پرائمری ممبرشپ کےساتھ پارٹی سے برخاست کردیاہے، یہی اپڈیٹ ملعون اور دریدہ دہن نوین جندل کے متعلق بھی ہے 
 عالمی پریشر کام کرگیا ہے، کیونکہ عالمِ عرب پوری طرح سے مودی سرکار کےخلاف بھڑک اٹھا ہے اور عربی دنیا میں ہندوستانی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چل پڑی ہے، اس بیداری کے لیے کام کرنے والے ہر عاشقِ رسولﷺ کو سلام ! 
 لیکن اب یہاں سے ترجیحی طورپر قائدین کی ذمہ داری شروع ہوتی ہے، نوپور شرما اور نوین جندل نے علانیہ طورپر اللہ کے رسولﷺ کی ناموس اور امّاں عائشہؓ کی عفت پر بحیثیت بھاجپا لیڈر حملہ کیا تھا لیکن اب وہ دونوں ملعون بھاجپا کے ممبر نہیں رہےہیں، یہاں تک کی لڑائی غیّور اسلامی برادری نے لڑی، اب اس کے آگے کم از کم ملّی قیادتیں میدان سنبھال لیں، نوپور شرما اور نوین جندل کو جیل بھجوا کر ایک سخت ترین مثال قائم کریں جس سے کہ آئندہ چھٹ بھیّے سنگھیوں کو اللہ کے رسولﷺ پر بھونکنے کی جسارت نہ ہوسکے، 
 جمعیۃ علمائےہند، بریلوی سنّی قائدین، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور جماعتِ اسلامی ہند کے ذمہ داران اگر متحدہ طورپر اس کے لیے کوششیں کریں تو آئندہ گستاخئ رسالتﷺ جیسے تکلیف دہ واقعات رونما. نہیں ہوں گے، 
 کلمہ پڑھنے کےبعد مسلمانوں پر اللہ کے رسولﷺ کی ناموس کی حفاظت ایک اہم ترین اور حسّاس فریضہ ہے، اگر وہ ناموسِ رسولﷺ اور ناموسِ امہات المومنین سے بےحِسی برتیں گے تو اللہ کے غضب کو دعوت دیں گے، اسلیے میں پھر سے اپیل کروں گا کہ گستاخئ رسالتﷺ کےخلاف اتنے مراحل عام مسلمانوں، عربی ممالک کے پریشر اور نوجوانوں کی تڑپ سے عبور ہوئے ہیں، معاملہ ان گستاخوں کےخلاف بیان جاری کرنے کےبعد ان کی پارٹی سے برخاستگی تک جاپہنچا ہے، یہ سب بھاجپا جیسی انتہائی مسلم دشمن پارٹی کو کرنا پڑرہا ہے تو سوچیے کتنا پریشر بنا ہوگا اب گرفتاری کا مرحلہ ہے جسے قیادت پر فائز حضرات اگر چاہیں تو انجام دےسکتے ہیں، پکا پکایا کھانا ہے صرف تناول کرنا ہے اور پھر شاباشی بھی ملے گی _
✍: سمیع اللہ خان
ksamikhann@gmail.com

کانپورتشدد۔اٹھ سو سے سے زائد پر مقدمہ درج ' 24 گرفتار۔پولیس جوان پی ایف آئی لنک کی جانچ کررہی ہے

کانپورتشدد۔اٹھ سو سے سے زائد پر مقدمہ درج ' 24 گرفتار۔پولیس جوان پی ایف آئی لنک کی جانچ کررہی ہے

پولیس نے بتایاکہ کم ازکم 40لوگ بشمول 20پولیس جوان جھڑپوں کے دوران زخمی ہوئے ہیں
کانپور /لکھنو۔ اترپردیش پولیس نے 800لوگوں پر مقدمہ درج کیا ہے اور24افراد کو گرفتار اور12کو تحویل میں لیا ہے تاکہ کانپور میں تشدد اورفسادکے ضمن میں پوچھ تاچھ کرسکے۔

کانپور پولیس کمشنر وی ایس مینا نے کہاکہ ملممین کے خلاف سخت نیشنل سکیورٹی ایکٹ اور گینگسٹر ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیاجائے گا وہیں پوپلر فرنٹ آف انڈیا(پی ایف ائی) جیسے گروپس کے امکانی رول کی بھی جانچ کی جارہی ہے۔

ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل (لا ء اینڈ آرڈر) پرشانت کمار نے کہاکہ تشدد میں جو لوگ ملوث ہوں گے ان کی جائیدادوں کو یا تو منہدم کردیاجائے گا یا ضبط کرلیاجائے گا۔

کانپور پولیس کمشنر نے کہاکہ "ہم نے تشدد میں ملوث36افراد کی سی سی ٹی وی فوٹیج اور واقعات کے دیگر ویڈیو ریکارڈنگس سے شناخت کرلی ہے۔ اب تک جملہ 24لوگوں کو گرفتار کیاگیا ہے جس میں سے 18لوگ جمعہ کے روز گرفتار کئے گئے ہیں"۔

گرفتار کئے گئے لوگوں میں حیات ظفر ہاشمی' ایک مقامی سماجی گروپ جوہر فیانس اسوسیشن کے مولانا محمد علی (ایم ایم اے) بھی شامل ہیں۔ہاشمی پر تشدد کے پس پردہ ماسٹر مائنڈ ہونے کا شبہ ہے' لکھنو کے حضرت گنج علاقے سے دیگر تین کے ساتھ گرفتار کیاہے۔

افیسر نے کہاکہ "گرفتارکئے گئے افراد کو عدالت میں پیش کیاجائے گا اور ہم 14دنوں کی پولیس تحویل حاصل کریں گے تاکہ واقعہ کے پس پردہ سازش کے متعلق تفتیش کی جاسکے۔ ہم مختلف زاویوں سے پی ایف ائی جیسے گروپس او ردیگر کے ان واقعات میں ملوث ہونے کی جانچ کررہے ہیں۔

جوکوئی بھی خاطی پایاجائے گا اس کو نہیں بخشا جائے گا"۔

مینا نے کہاکہ پولیس تشدد کو روکنے میں فورس کے رول میں کوتاہی کی بھی جانچ کررہی ہے۔ایڈیشنل کمشنر آف پولیس(لاء اینڈ آرڈر) انند پرکاش تیواری نے کہاکہ "مذکورہ علاقہ پرامن ہے اور ہم ہر وقت کے لئے چوکسی اختیار کئے ہوئے ہیں"اور مزیدکہاکہ تین ایف ائی آر برائے تشدد' فساد بیکون گنج پولیس اسٹیشن میں درج کی گئی ہیں۔

پہلی ایف ائی آر بیکون گنج اسٹیشن ہاوز افیسر نواب احمد کی شکایت پر تقریبا500افراد کے خلاف مہلک ہتھیاروں کے ساتھ تشدد کی درج کی گئی ہے۔

اس ایف ائی آر میں 36لوگوں کے نام ہیں جس میں ایم ایم اے جوہر فیانس اسوسیشن سربراہ حیات ظفر ہاشمی اور ا ن کے ساتھی یوسف منصوری اور عامر جاوید انصاری شامل ہیں۔

ایس ایچ او کے مطابق ہاشمی او ران کے ساتھیوں نے بی جے پی ترجمان کے شان رسالت ؐ میں گستاخی کے خلاف جمعہ کے روز دوکانیں بند کرنے کا اعلان کیاتھا۔ ایف ائی آر میں کہاگیاکہ دنگائیوں نے مہلک ہتھیاروں کااستعمال کیا' پٹرول بم پھینکنے اورسڑکوں پراترے' علاقے میں خوف اوردہشت کا ماحول پید ا کیاہے۔

دوسری ایف ائی آر سب انسپکٹر آصف رضا کی شکایت کی درج کی گئی ہے۔

اس ایف ائی آر میں 20لوگوں کے نام ہیں اور 350نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیاگیاہے۔

دوسری ایف ائی آر میں کہاگیاہے کہ یوسف منصوری اور عامر جاوید انصاری کے ساتھ ہاشمی نے داد میاں کراسنگ سے یتیم خانہ کی طرف بڑھے اور دوکانداروثں کو اپنی دوکانیں بند کرنے کے لئے مجبور کیا جو غیر قانونی ہے۔

تیسری ایف ائی آر چندیشوار ہاٹا کے ساکن مکیش کی شکایت پر درج کی گئی ہے جس میں الزام لگایاگیا ہ یکہ سینکڑوں مسلمان ہاتھوں میں لاٹھی اور سلاخیں اور مہلک ہتھیاروں کے ساتھ دوسری کمیونٹی کے لوگوں پر جان سے مارنے کی کوشش میں حملے کئے ہیں۔

اس میں کہاگیا ہے کہ "نامعلوم ہزاروں کا ایک ہجوم" ملزم ہے۔ مذکورہ ایف ائی آر ائی پی سی کی دفعات 147'307'332'336'353'427'504کے تحت درج کی گئی ہیں۔

پولیس کے بموجب بی جے پی ترجمان نوپور شرما کے ایک ٹیلی ویثرن مباحثہ کے دوران حال میں گستاخانہ کلمات پر بعض لوگوں کی جب سے زبردستی دوکانداروں کو دوکانیں بند کرنے کے لئے کہاگیا تب جمعہ کی نماز کے بعد شہر کے یتیم خانہ' نئی سڑک' پرید علاقوں میں تشدد کے واقعات رونما ہوئے تھے۔

پولیس نے بتایاکہ کم ازکم 40لوگ بشمول 20پولیس جوان جھڑپوں کے دوران زخمی ہوئے ہیں۔ مبینہ طور پر جنھوں نے زبردستی دوکانیں بند کرانے کی کوشش کی ان کی پولیس سے جھڑپ ہوئی اور انہیں منتشر کرنے کے لئے پولیس نے لاٹھی چارج کا استعمال کیاہے۔

بی جے پی کے ترجمان نُپور شرما کے ذریعے کیے گئے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نازیبا تبصرہ ناقابل برداشت ہے

بی جے پی کے ترجمان نُپور شرما کے ذریعے کیے گئے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نازیبا تبصرہ ناقابل برداشت ہے

بی جے پی کے ترجمان نُپور شرما کے ذریعے کیے گئے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نازیبا تبصرہ ناقابل برداشت ہے۔ کسی بھی ٹی وی ڈیبیٹ میں ان پر ایسے تبصرے سے بچنا چاہیے۔ بھارت کے کرڑوں ہندو بھائی پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام کرتے ہیں اور کلمہ گو مسلمان دل و جان سے ان کی عزت کرتا ہے۔ Unparliamentary Comment on the Prophet is Unacceptable

کانپور، اترپردیش: 3 جون بروز جمعہ کو کانپور میں ہونے والے دو فریقوں میں پتھر بازی و تشدد کے واقعات Communal Violence in Kanpur سامنے آئے جس کے بعد ریاست کے متعدد سیاسی رہنماؤں کا رد عمل سامنے آیا ہے۔ اترپردیش حج کمیٹی کے چیئرمین محسن رضا نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے کردار پر سوالیہ نشان قائم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس طریقے سے سی اے اے اور این آر سی مظاہرے میں ہونے والی پتھر بازی میں پی ایف آئی کا کردار سامنے آیا تھا اس طریقے سے کانپور میں ہونے والے تشدد میں پی ایف آئی شامل ہوسکتی ہے اس جہت سے بھی جانچ ہونی چاہیے۔ Unparliamentary Comment on the Prophet is Unacceptable

نبی کریم ﷺ پر غیر پارلیمانی تبصرہ ناقابل قبول: محسن رضا ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کانپور کی پولیس انتظامیہ نے ایک بہت بڑے تشدد کو روک کر اپنی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا ہے یہ تشدد ایسے وقت میں کانپور میں رونما ہوا ہے جب بھارت کے صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور وزیر اعظم نریندر مودی کان پور میں موجود تھے۔ پولیس انتظامیہ دیہی علاقوں میں موجود تھی تاہم شہری علاقوں میں پولیس انتظامیہ کی تعداد کم تھی اس کے باوجود بھی مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حالات کو قابو میں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی شرپسند عناصر ہیں ان پر سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔ حکومت اس معاملے میں پوری طریقے سے مستعد ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بی جے پی کے ترجمان نُپور شرما کے ذریعے کیے گئے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نازیبا تبصرہ ناقابل برداشت ہے۔ کسی بھی ٹی وی ڈیبیٹ میں ان پر ایسے تبصرے سے بچنا چاہیے۔ بھارت کے کرڑوں ہندو بھائی پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام کرتے ہیں اور کلمہ گو مسلمان دل و جان سے عزت کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اگر کوئی بھی قانون ہاتھ میں لے گا تو اس پر قانونی کارروائی کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں

واضح رہے کہ کانپور میں نماز جمعہ کے بعد اقلیتی طبقہ کے کچھ افراد جمعہ بعد بی جے پی کی ترجمان نپور شرما کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے جس کے بعد دکان بند کرانے کے سلسلے میں دو فریقوں میں پتھر بازی ہونی شروع ہوئی اور یہ معاملہ طول پکڑ گیا اور شہر کے متعدد علاقوں میں تشدد ہوئے۔ جس کو پولیس نے قابو میں کیا اب تک متعدد افراد کی گرفتاری ہوچکی ہے۔

فرقہ واریت کے خلاف دو اجتماعات

فرقہ واریت کے خلاف دو اجتماعات

پروفیسر اخترالواسع،نئی دہلی

اتوار (29مئی)کو دہلی سے دیوبند تک مسلمانوں کا موجودہ حالات میں کیالائحہ عمل ہو؟ فرقہ پرستوں اور اشرار کے خلاف ان کا کیا رویہ ہو؟ اس پر دو اہم اجتماعات میں غور و خوض ہوا۔

دیوبند کا اجتماع مولانا سید محمود اسعد مدنی کی قیادت والی جمعیۃ علماء ہند کے عہدیداروں کا دو روزہ اجلاس تھا اور اس کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ اس میں حضرت مولانا سید ارشد مدنی جو کہ جمعیۃ علماء ہند کے دوسرے گٹ کے سربراہ ہیں وہ بھی نہ صرف موجود تھے بلکہ انہوں نے دونوں جمعیۃ کے اتحاد اور انضمام کا جو اشارہ دیا وہ اس اجلاس میں موجود اور غیرموجود ہر شخص کے دل کی آواز تھی جس کا بلند و بانگ نعرہ ہائے تکبیر سے استقبال کیا گیا۔

ایک طرف مولانا سید ارشد مدنی صاحب نے یہ رہنمائی کی کہ موجودہ صورتحال میں مسلمانوں کا کیا طرز عمل ہونا چاہیے تو دوسری طرف مولانا سید محمود اسعد مدنی نے انتہائی جرأت اور فراست کے ساتھ بالکل صحیح کہا کہ مسلمان خوف، مایوسی اور جذباتیت سے دور رہ کر اپنے مستقبل کے تعمیر کی فکر کریں۔ وہیں مولانا ارشد مدنی صاحب نے بالکل صحیح کہا کہ ہماری لڑائی فرقہ پرست طاقتوں سے ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ہندوستان ابھی بھی عدل و انصاف کو چاہنے والوں سے خالی نہیں ہے۔ مولانا محمود مدنی نے واضح لفظوں میں کہا کہ ملک کے لیے ہماری جو ذمہ داری ہے ہم اسے ضرور نبھائیں گے۔ اگر اس ملک کی حفاظت کے لیے ہماری جان بھی جائے گی تو یہ ہمارے لیے سعادت کی بات ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی کو ہماری شناخت اور وطن سے ہماری محبت برداشت نہیںہے تو وہ کہیں اور چلے جائیں۔

میں یہ کہتا ہوں کہ یہ وطن ہمارا ہے اور ہماری سوچ اور فکر کی اکثریت یہاں رہتی ہے۔ اس اجلاس میں کشمیر سے کنیا کماری تک اور مشرق سے مغرب تک ہندوستان کے ہر علاقے سے جمعیۃ کے عہدیداران شامل ہوئے۔ اس اجلاس میں مسلم پرسنل لاء، برادرانِ وطن کے ساتھ ہم آہنگی اور ان کی غلط فہمیوں کے ازالے کے لئے طویل مدتی پالیسی، گیان واپی اور متھرا کی عیدگاہ پر بہت معنی خیز انداز سے اور وطن دوستی کے جذبے کے ساتھ قرار دادیں منظور ہوئیں جس میں یہ کہا گیا کہ ایودھیا تنازعہ کی وجہ سے پہلے ہی سماجی ہم آہنگی اور فرقہ وارانہ امن و امان کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ اب نئے تنازعات کے ذریعے محاذ آرائی اور اکثریتی غلبے کی منفی سیاست کو نئے مواقع فراہم نہ کیے جائیں۔

اس اجلاس میں جہاں ایک طرف اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق تجویز میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ جلد از جلد کوئی ایسا قانون وضع کرے جس سے نظم و نسق کی بے بسی اور لاچاری ختم ہو اور اس طرح شرمناک اور ناقابل بیان حرکتوں کا انسداد ہو اور ہر مذہب کے پیشواؤں کا احترام محفوظ رہنا چاہیے۔

اس اجلاس میں ہندی زبان کے حوالے سے بھی ایک بہت مثبت تجویز پاس کی گئی جس میں تمام مسلمانوں بالخصوص اہل علم حضرات سے اپیل کی گئی کہ اردو کے ساتھ ہندی اور علاقائی زبانوں کا استعمال کریں اور سب سے اہم بات یہ کہ تمام ائمہ اور واعظین سے یہ اپیل کی گئی کہ وہ اپنے خطبات میں مواعظ حسنہ کو ہندی میں بھی دیں تاکہ سب تک اسلام کی حقانیت اور انسان دوستی کا پیغام پہنچ سکے۔

جمعیۃ علماء ہند (مولانا سید محمود اسعد مدنی گروپ) کے اس اجلاس نے میرا خیال یہ ہے کہ ان تمام لوگوں کے شکوے شکایت کو دور کر دیا ہوگا جو مسلمانوں کی جماعتوں اورعلماء کرام سے ایک واضح رول کے متقاضی ہیں۔

دیوبند کے اس اجتماع میں مولاناسید ارشد مدنی کی پیرانہ سالی اور مولانا سید محمود اسعد مدنی کی جواں سالی نے اپنے جوش، جذبے، عزم اور حوصلے سے جو اثرات مرتب کئے ہیں وہ انشاء اللہ آنے والے دنوںمیں بہتر نتائج مرتب کریں گے۔ ویسے بھی مولانا ارشد مدنی ہوں یا مولانا محمود مدنی، دونوں اپنے اپنے انداز سے جس طرح جیلوں میں قید و بند کی زندگی گزار رہے معصوم اور مظلوم لوگوں کی قانونی چارہ جوئی کر رہے ہیں، ان کی رہائی کو یقینی بنا رہے ہیں وہ انتہائی قابل ستائش ہے۔

دہلی میں سابق ممبر راجیہ سبھا اور دلِ دردمند رکھنے والے حساس طبیعت محمد ادیب صاحب نے جس طرح انڈین مسلم انٹلکچول میٹ کا انعقاد کیا اور جس کے اندر سابق مرکزی وزراء، سابق بیروکریٹس، سابق جج، سیاسی اور سماجی افراد، تعلیم اور وکالت کے میدانوں سے وابستہ اہم افراد نے شرکت کی اور اس موقعہ پر جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے بہت صحیح کہا کہ جو لوگ یہاں پر جمع ہیں انہیں صرف مسلمانوںکی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کی فکر ہے۔

لوک سبھا کے ایم پی کنور دانش علی نے ایک ایسے لیگل فریم بنانے کی ضرورت پر زور دیا جس سے کہ جھوٹے مقدمات میں ماخوذ مسلم نوجوانوں کی مدد کر سکیں۔ انہوں نے ایک ایسا گروپ بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا جو ہندوستانی قوم کو متحد کر سکے اور امت کی رہنمائی کر سکے۔ اتراکھنڈ، اترپردیش اور میزورم کے سابق گورنر جناب عزیز قریشی نے بڑی بے باکی سے کہا جس کے لئے وہ جانے جاتے ہیں کہ کبھی اذان، حجاب کے مسئلے اٹھائے جاتے ہیں اور ہمیں خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

انہوں نے دو ٹوک لفظوں میں کہا کہ کوئی بھی سرکار یا کوئی طاقت ہمیں اس ملک سے الگ نہیں کر سکتی۔ موجودہ وقت کے تحت ہمیں اپنی لڑائی خود ہمت سے لڑنی ہوگی۔ سابق مرکزی وزیر جناب سلمان خورشید نے ایک غیرسیاسی تنظیم بنائے جانے پر زور دیا اور اس کے قیام کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا۔ انہوں نے اختلافات کو دور کرنے پر بھی زور دیا کیوں کہ بقول ان کے ''اگر ہم الگ الگ خیموں میں تقسیم رہے تو کبھی کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔'' سابق مرکزی وزیراور بزرگ سیاسی رہنما کے۔

رحمن خاں نے اس موقعے پر بڑے پتے کی بات کہی کہ ''ہمیں اپنے تجربات کے ساتھ ملک کا اسٹرکچر بنانے کی ضرورت ہے۔ ہماری جماعتوں کا منصوبہ کیوں فیل ہوا اس پر تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی نوجوانوں اور خواتین کو بھی جوڑنے کی ضرورت ہے۔ اتحاد ملت کونسل کے چیئرمین اور اعلیٰ حضرت فاضل بریلی مولانا احمد رضا خاںؒ کے نبیرہ مولانا توقیر رضا خاں نے کہا کہ یہ گھر میں بیٹھنے کا وقت نہیں ہے بلکہ گاندھی جی کے طریقے پر چل کر ستیہ گرہ کرنا ہوگا جو کہ ہمارا آئینی حق ہے۔

اس موقعے پر خواتین کی نمائندگی پدم شری ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید اور طالب علم رہنما صفورا زرگر، ثمینہ رعنا، ہدیٰ زرّیں والا، صدف جعفری اور ڈاکٹر فریدہ بیگم نے کی۔ ان کے علاوہ موجودہ ممبر پارلیمنٹ حسنین مسعودی اور شفیق الرحمن برق صاحب کے علاوہ سابق ارکانِ پارلیمنٹ جناب عزیز پاشا اور جناب انور علی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

یہ دو اجتماعات اگرچہ دوالگ الگ شہروںمیں منعقد ہوئے لیکن ان کے پیچھے جو مقصد کارفرماتھا اور وہ ایک ہی تھا کہ جس طرح مسلمانوں کو، ان کے دین کو، ان کے رسولؐ کو، ان کی شریعت کو، ان کی مساجد، اداروں اور درگاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اس کے خلاف کھل کر آواز اٹھائی جائے اور منظم ہو کر ان سب کا دفاع کیا جائے۔ آج سوال صرف مسلمانوں کا نہیں ہے بلکہ ہندوستان کا ہے۔

وہ لوگ جو بظاہر مسلمانوں ک خلاف ہیں وہ صرف مسلمانوں ہی کے خلاف نہیں ہیں بلکہ مہاتما گاندھی، دستورِ ہند اور ترنگے کے بھی خلاف ہیں۔ وہ دیگر اقلیتوں جیسے عیسائیوں، سکھوں،بودھوں اور دلتوں کے بھی خلاف ہیں اور اس سے بڑھ کر وہ اس ملک کی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے خلاف ہیں اور وہ یہ بھول رہے ہیں کہ ہندوستان کو اگر معاشی اعتبار سے ترقی کرنی ہے تو اس کے لئے پہلی لازمی شرط امن و امان اور خیرسگالی کی ہے۔

مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔ (

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...