Powered By Blogger

بدھ, ستمبر 14, 2022

بے قابو ٹرک چائے کی دکان پر پلٹا ، تین کی موقع پر ہی موت

(اردودنیانیوز۷۲) Urduduniyanews72

سلطانپور،14ستمبر:اترپردیش کے سلطانپور کے کورے بھار قصبے میں بدھ کی صبح ایک خوفناک سڑک حادثہ پیش آیا۔ جہاں تیز رفتار ٹرک چائے کی دکان پر الٹ گیا۔ ایک آٹو رکشہ بھی اس کے نیچے آگیا۔ اس حادثے میں 3 افراد کی موقع پر ہی موت ہو گئی، جبکہ 7 زخمی ہو گئے۔ زخمیوں کو ضلع اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مرنے والوں کی لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیجا جا رہا ہے۔بتایا جا رہا ہے کہ یہ حادثہ صبح تقریباً 5.00 بجے اس وقت پیش آیا جب پریاگ راج سے ایودھیا جا رہا ایک گٹی سے بھرا ٹرک بیلوائی مارگ سے ہالیا پور کی طرف جا رہے بھرے ٹرک سے ٹکرا گیا۔ جس کی وجہ سے وہ بے قابو ہو کر چوک پر واقع چائے کی دکان پر الٹ گیا۔ جس کی وجہ سے آٹو ڈرائیور راجن تیواری ساکنہ چمورکھا ساکنہ چمورکھا، راجیش اگرہری ساکنہ مقامی قصبہ، دکان پر چائے پی رہے راکیش کاسووندھن ٹرک کے نیچے آکر ہلاک ہوگئے۔ جبکہ سات دیگر زخمی ہوئے ہیں۔ زخمیوں میں شبھم، رام کیلاش، رادھے شیام، عقیل، دکاندار پون، مہیش پانڈے اور ٹرک سے ٹکرانے والے ٹرک کا ایک نامعلوم ڈرائیور شامل ہیں۔حادثے کی اطلاع ملتے ہی دو تھانوں کی پولیس فورس مقامی لوگوں کی مدد سے راحت اور بچاؤ کے کاموں میں لگی ہوئی ہے۔ حادثے کے بعد جام ہے۔ پولیس ملبہ اور حادثے کا شکار گاڑیوں کو ہٹانے اور ٹریفک کو بحال کرنے میں مصروف ہے۔

مساجد ، مکاتب ، مدارس کا تحفظ اور ان کی سلامتی کی فکر کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت: مولانا محمد شمشاد رحمانی قاسمی*

*مساجد ، مکاتب ، مدارس کا تحفظ اور ان کی سلامتی کی فکر کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت: مولانا محمد شمشاد رحمانی قاسمی* 
اردو دنیا نیوز٧٢
 *مساجد کے نظام کو نبوی فکر کے وسیع تناظر میں دیکھنے کی ضرورت:مولانا محمد شبلی القاسمی* 
 ضلع سیتا مڑھی کے ائمہ مساجد اور مدارس و مساجد کے ذمہ داران کا ایک تربیتی و مشاورتی اجلاس مورخہ 13 ستمبر 2022 کو مدرسہ رحمانیہ مہسول سیتا مڑھی میں حضرت مولانا محمد شمشاد رحمانی قاسمی صاحب نائب امیر شریعت بہار ، اڈیشہ و جھارکھنڈ کی صدارت میں منعقد ہوا ۔ اپنے صدارتی خطاب کے دوران حضرت نائب امیر شریعت نے امارت شرعیہ کے خود کفیل نظام مکاتب کی اہمیت اور موجودہ زمانے میں اس کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سماج کے ہر شخص خواہ و عورت ہو یا مرد، بچہ ہو یا بوڑھا، لڑکا ہو یا لڑکی کے دین و ایمان کی حفاظت اور ان کو بنیادی دینی تعلیم دلانا جس سے ان کے ایمان و عقیدہ کی حفاظت ہو سکے اور وہ ایک مسلمان بن کر زندگی گزار سکیں بہت ضروری ہے ۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ ہر آبادی میں بنیادی دینی تعلیم کے مکاتب سماج کے لوگ اپنے خرچے پر قائم کریں ۔ جس طرح سے روٹی ، کپڑا اور مکان بنیادی ضرورت ہے اور ہر شخص اس بنیادی ضرورت کی فکر کرتا ہے ، اسی طرح دین کی تعلیم حاصل کرنا بھی بنیادی ضرورت ہے اور اس کی فکر بھی ہر شخص کو خود کرنی چاہئے ۔ آپ نے مسجدوں کے اندر مکتب قائم کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے کہا کہ مسجدیں فقط نماز پنجگانہ اور جمعہ ادا کرنے کے لیے نہیں ہیں ، بلکہ سماج کی دیگر تعلیمی ، معاشرتی اور تہذیبی ضرورتوں کی تکمیل بھی ا ن کے ذریعہ ہونی چاہئے ، اس لیے ہر مسجد کو اشاعت علم دین کا مرکز بنایا جائے ۔انہوں نے کہا کہ آج ہر طرف باطل قوتوں کی یلغار مساجد ،  مکاتب اور مدارس کے خلاف ہو رہی ہے اور ان کے وجود کو مٹانے کی سازشیں ہو رہی ہیں ۔ ایسے میں ان سب دینی و مذہبی اداروں کا تحفظ اور ان کی سلامتی کی فکر کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ امیر شریعت بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب نے وقت کے اس اہم موضوع پر توجہ دی ہے اور ان کی فکر ہے کہ تما م مساجد کے ائمہ اور ذمہ داران امارت شرعیہ سے مربوط ہوں تاکہ ہم ایک دوسرے کے مسائل سے واقف ہوں اور مل جل کر مسائل کا حل تلاش کریں ۔انہوں نے ائمہ مساجد کی مالی مشکلات پر ذمہ داران مساجد کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ ائمہ حضرات مشکل حالات میں قلیل تنخواہوں پر کام کر رہے ہیں ، اس لیے ذمہ داران مساجد کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی مالی گراں باری کی طرف توجہ کریں اور ان کی تنخواہوں میں اضافہ کریں ۔
جناب مولانا محمد شبلی القاسمی صاحب قائم  مقام ناظم امارت شرعیہ نے اپنے خطاب میں مساجد کے تحفظ اور سماج میں آپسی بھائی چارگی اورمحبت کے فروغ پر زور دیا ۔ آپ نے کہا کہ جس طرح ہم سب اپنے گھروں ، دکانوں اور زمینوں کے تحفظ کی فکر کرتے ہیں اسی طرح اللہ کے گھر کے تحفظ پر بھی توجہ دینی چاہئے ۔ جب بھی سروے کا کام ہو تو مساجد کا بھی ضرورسروے کرائیں اور کاغذ میں واضح طور پر مسجد لکھوائیں ، مسجدوں کی طرح مقابر، مدارس، خانقاہوں ، مکاتب ، امام باڑوں، قبرستانوں اور دیگر مذہبی مقامات کا بھی  زمینی سروے کرا کر  سرکاری دستاویز میں واضح طور پر مسجد، مکتب، قبرستان ، امام باڑہ وغیرہ لکھوایا جائے ۔  انہوں نے کہا کہ مساجد کے نظام کو نبوی فکر کے وسیع تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے ذریعہ جو جو کام کیا ، کل کے مقابلہ آج زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ مساجد کو ان مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔
انہوں نے کہا آپسی بھائی چارے کے فروغ پر توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ سماج میں مختلف مذہب و مسلک کے ماننے والے لوگ  رہتے ہیں ، ہر ایک کی ضرورت ایک دوسرے سے وابستہ ہے ، اگر ہم ایک دوسرے سے کٹ کر اور نفرت کے ساتھ زندگی گزاریں گے تو ہماری سماجی زندگی مشکل ہو جائے گی ، اس لیے سماج میں محبت  قائم کریں ، اگر کوئی جھگڑا وغیرہ کبھی ہو جائے تو اشتعال میں نہ آئیں بلکہ سمجھدار لوگ بیٹھ کر تنازع کو ختم کریں اور کوشش کریں کہ نفرت اور اشتعال نہ پھیلنے پائے۔ بہت سے شر پسند لوگ لڑانے اور اشتعال دلانے کے لیے افواہیں پھیلاتے ہیں ،افواہوں کے جال میں نہیں پھنسنا ہے ۔ سمجھداری اور ہوشمندی سے کام لینا ہے ۔ محبت کے ذریعہ ہی سماج مضبوط ہو سکتا ہے اور ملک ترقی کر سکتا ہے ۔انہوں نے کہا آج مدارس اسلامیہ شر پسند وں کی نگاہ میں کھٹک رہے ہیں ، اس لیے ان کا تحفظ بہت ضروری ہے ، امیرشریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب کی قیادت میں مدارس کے تحفظ کے لیے امارت شرعیہ جو کوششیں کرسکتی ہے ضرور کرے گی۔
مولانا مفتی محمد سہراب ندوی صاحب نے دار القضاء امارت شرعیہ کی اہمیت و ضرورت پر توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ  دار القضاءکے قیام کا مقصد معاشرہ میں انصاف کو عام کرنا اور انصاف کی راہ کو آسان بنانا ہے ۔ انصاف جس قدر عام ہو گا، معاشرہ میں اسی قدر امن و سکون قائم ہو سکے گا ، اس وقت مختلف جہتوں سے شریعت اسلامی کو داغدار کرنے اور نئی نسل کے ذہن ودماغ کو اپنے دین وشریعت سے بیزار کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں ، ایسے حالات میں ہمیں نئے جذبۂ ایمانی کے ساتھ اپنے دین و شریعت پر عمل کے لیے تیار رہنا چاہئے ۔اور اپنے تنازعات کے حل کے لیے صرف دارا لقضاء سے ہی رجوع کرنا چاہئے۔ان حضرات کے علاوہ مولانا عبد المنا ن قاسمی  مہتمم مدرسہ اشرفیہ راجو پٹی نے اصلاح معاشرہ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب کے لیے لازم ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کےا حکام کی اتباع کریں اور اپنے آپ کو شریعت کا پابند بنائیں ، آج ہم سب جن پریشانیوں میں مبتلا ہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو دین اور شریعت سے دور کر دیا ہے ، جب کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری کامیابی و کامرانی اپنے دین اور شریعت کی اتباع میں مضمر رکھی ہے ۔ مولانا اظہار صاحب رکن شوریٰ و مجلس عاملہ امارت شرعیہ نے امارت شرعیہ کے قیام کے پس منظر اور امار ت شرعیہ کے مقاصد و اغراض پر روشنی ڈالی اور بانی امارت شرعیہ حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد رحمۃ اللہ علیہ کی فکر اور ان کی دور اندیشی کا تفصیل سے تذکرہ کیا۔مولانا محمد عمران قاسمی قاضی شریعت دار لقضاء امارت شرعیہ بالا ساتھ سیتا مڑھی نے استقبالیہ کلمات پیش کیے اور تمام آنے والوں کا شکریہ ادا کیا۔ اس اجلاس کی نظامت مولانا نصیرا لدین مظاہری نے کی انہوں نے اپنی ابتدائی گفتگو میں ائمہ کرام کے مسائل اور ان کی مالی مشکلات  پر توجہ دلائی، انہوں نے امارت شرعیہ کے شعبہ امور مساجد کا تعارف کراتے ہوئے اس کےا غراض و مقاصد پر بھی روشنی ڈالی ۔ اس اجلاس کو کامیاب بنانے والوں میں ڈاکٹر ساجد علی خان رکن شوریٰ امارت شرعیہ ، مولانا مشتاق صاحب نائب صدرتنظیم ، جناب  ظفر صاحب سکریٹری مدرسہ رحمانیہ مہسول ،اور مدرسہ کے جملہ اساتذہ کرام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اجلاس میں ضلع سیتا مڑھی کے سیکڑوں علماء کرام و ائمہ مساجد شریک ہوئے ۔ آخر میں حضرت نائب امیر شریعت کی دعا پر اجلاس کا اختتام ہوا۔

دارالعلوم دیوبند : مجلس شوری نےدی 43 کروڑ روپئےکے بجٹ کو منظوری

دارالعلوم دیوبند : مجلس شوری نےدی 43 کروڑ روپئےکے بجٹ کو منظوری
اردو دنیا نیوز٧٢
دیو بند : دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوری نے آج اپنا سالانہ بجٹ منظور کر لیا ہے ، شوری کی میٹنگ کا آج دوسرا دن تھا، جس میں بجٹ سمیت کئی اہم امور پر گفت و شنید ہوئی ۔ اس کی اطلاع دیوبند سے مجلس شوری کے رکن مفتی اسماعیل قاسمی نے دی ۔ انہوں نے بتایا کہ آج بجٹ میٹنگ رئیس الجامعہ اشاعت العلوم اکل کوا کے صدر مولانا غلام محمد وستانوی کی صدارت میں میٹنگ منعقد ہوئی جس میں بجٹ منظور کیا گیا۔ یہ بجٹ 43کروڑ 53 لاکھ 80 ہزار روپے کا ہے۔ گزشت تین، چار سال کے تناظر میں اس مرتبہ دارالعلوم دیوبند کے بجٹ میں انصاف کیا گیا ہے۔
مفتی اسماعیل قاسمی نے بتایا کہ شوری کے اس بجٹ اجلاس میں دارالعلوم دیوبند کے نام مولانا مفتی ابوالقاسم بنارسی ، مولانا بدرالدین اجمل، مولانا ابراہیم ملک، مولانا رحمت الله مولانا محمود راجستھان ،مولانا انوار الرحمان بجنوری، حکیم کلیم الله ،مولانا حبیب الله باندہ اور مولانا غلام محمد وستانوی موجود تھے ۔ اس کے دوران دارالعلوم دیوبند سے جڑے اندرونی کئی معاملات و مسائل پر گفتگو کی گئی تعلیمی ، قانونی کمیٹیوں کے معاملات طے کئے گئےگئے۔

حال ہی میں اتر پردیش حکومت کی جانب سے مدارس کا جو سروے شروع کیا گیا ہے ا س پر بھی گفت و شنید ہوئی اور یہ طے پایا کہ 18 ستمبر کو دارالعلوم دیوبند میں اتر پردیش کے 400 سے زائد دینی مدارس کا جو اجلاس کلب کیا گیا ہے اس میں مستقبل کا لائی عمل طے کیا جائے گا۔ اس کے بعد نومبر میں کل ہند رابطه مدارک دین کا اجلاس بھی دیوبند میں طلب کیا گیا ہے جس میں ملک بھر کے مندوبین اور مدارس کے ذمہ داران شرکت کریں گے اور پیداشدہ صورتحال پر غور وخوض کیا جائے گا۔

دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوری نے دینی مدارس کے ذمہ داران کو اپنے مدارس کا حساب کتاب اور آڈٹ سمیت ، سالانہ کام کاج شفافیت کے ساتھ ریکارڈ میں محفوظ رکھنے کی بھی صلاح دی ۔

مولانا نسیم اختر شاہ قیصر - خاموش ہو گیا ہے چمن بولتا ہوا

مولانا نسیم اختر شاہ قیصر - خاموش ہو گیا ہے چمن بولتا ہوا
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
دار العلوم (وقف) دیو بند کے استاذ، نامور ادیب ، بہترین صحافی ، مشہور خاکہ نگار، مایہ ناز مضمون نگار، اچھے مقرر، خلیق وملنسار، خاندانی وراثت کے امین، مولانا نسیم اختر شاہ قیصر بن مولانا سید ازہر شاہ بن علامہ انور شاہ کشمیری رحہم اللہ کا ۱۱؍ ستمبر ۲۰۲۲ء بروز سوموار شام کے ساڑھے پانچ بجے ان کے آبائی مکان واقع خانقاہ محلہ دیو بند میں انتقال ہو گیا، کمر درد اور دوسرے اعذار تو پہلے ہی سے تھے، جس کی وجہ سے اٹھنے بیٹھنے میں تکلیف تھی، لیکن یہ ایسی بیماری نہیں تھی کہ فوری بلاوے کے بارے میں سوچا جاتا، معمول کے مطابق عصر بعد ناشتہ وغیرہ کیا، بات چیت بھی کر رہے تھے، اچانک دل کے درد کی شکایت کی اور پانچ سے سات منٹ کے اندر بیماریِ دل نے ان کا کام تمام کر دیا، زبان پر کلمہ طیبہ جاری تھا اور روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ، شریعت کا حکم تدفین میں عجلت کا ہے؛ اس لیے وارثوں نے اس کا پورا پورا خیال رکھا اور گیارہ بجے رات میں جنازہ کی نماز معہد انور میں ان کے صاحب زادہ مفتی عبید انور استاذ معہد انور نے پڑھائی اور مزارانوری کے احاطہ میں جو دیو بند عیدگاہ کے پاس ہے ، تدفین عمل میں آئی ، اسی احاطہ میں حضرت علامہ انورشاہ کشمیری کے ساتھ ان کے دونوں نامور صاحب زادے ، مولانا ازہر شاہ قیصرؒ اور حضرت مولانا انظر شاہ کشمیریؒ، ان کی اہلیہ اور خاندان کے دوسرے لوگ دفن ہیں، پس ماندگان میں اہلیہ ، پانچ لڑکیاں اور تین لڑکوں کو چھوڑا ، ایک عالم ، مفتی ، دوسرا انجینئر اور تیسرا ابھی زیر تعلیم ہے۔
مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کی پیدائش ۲۱؍ ربیع الاول ۱۳۸۲ھ مطابق ۲۵؍ اگست ۱۹۶۲ء کو دیو بند میں ہوئی، بنیادی دینی تعلیم دار العلوم دیوبند سے حاصل کرنے کے بعد دیو بند ہی میں واقع اسلامیہ اسکول کارخ کیا، لیکن دسویں کلاس تک پہونچتے پہونچتے عصری تعلیم سے طبیعت اوب گئی،چنانچہ انہوں نے دسویں کا امتحان نہیں دیا اور ۱۹۷۶ء میں دا رالعلوم دیو بند میں داخل ہو کر درس نظامی کی کتابیں پڑھنی شروع کیں ۱۴۰۱ھ مطابق ۱۹۸۱ء میں حضرت مولانا نصیر احمد خان ؒ اور دیگر نامور اساتذہ سے دورۂ حدیث کی کتابیں پڑھ کر سند فراغ حاصل کیا، جامعہ اردو علی گڈھ کا امتحان دے کر ادیب، ادیب ماہر اور ادیب کامل کی سند پائی، اس کا دورانیہ ۱۹۷۳سے ۱۹۷۵ تک رہا، اس زمانہ میں مولانا اعجاز صاحب اسلامیہ اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے، جامعہ اردو علی گڈھ کے امتحانات کا مرکز یہیں ہوا کرتا تھا، حضرت مولانا محمد سالم قاسمی ؒ کا ایک ادارہ دیو بند میں جامعہ دینیات تھا،اس کی اسناد بھی بعض یونیورسیٹیوں میں منظور تھیں، چنانچہ مولانا نسیم اختر شاہ قیصر نے ۱۹۷۶ء میں ادھر کا رخ کیا، اور ۱۹۷۸ء تک تین سال میں عالم دینیات، ماہر دینیات اورفاضل دینیات کیا، ۱۹۹۰ء میں انہوں نے آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے کر لیا، ۱۹۸۷ء میں دار العلوم وقف دیو بند کے استاذ مقرر ہوئے اور دم واپسیں تک اپنے فرائض انجام دیتے رہے، تدریس سے انہیں فطری مناسبت نہیں تھی، اس لیے عربی درجات کی ابتدائی کتابیں اور ترجمہ قرآن وغیرہ ان کی زیر درس رہا کرتی تھیں۔
 ان کا اصلی مزاج صحافت کا تھا ، جو انہیں اپنے نامور صحافی والد مولانا ازہر شاہ قیصر سے ورثہ میں ملا تھا، مولانا بتیس ، تینتیس سال دارالعلوم دیو بند کے مدیر رہ چکے تھے، چنانچہ صحافت کے اسرار ورموز ، موثر رپوررٹنگ اور ہر قسم کے مضامین لکھنے کے طور طریقے انہوں نے اپنے والد سے سیکھااور صرف تیرہ سال کی عمر میں پہلا مضمون لکھا ، ۱۹۷۹ء میں وہ پندرہ روزہ اشاعت حق کے نائب مدیر بنائے گیے، ۱۹۸۵ء تک اس حیثیت سے کام کرنے کے بعد مدیر کی ذمہ د اری سنبھالی اور ۱۹۹۶ء تک اس عہدہ پر کام کرتے رہے، ۱۹۸۳ء میں انہوں نے ماہنامہ ’’طیب‘‘ جاری کیا، جس کی سر پرستی ان کے نامور والد فرما تے تھے، ماہنامہ ’’طیب‘‘ کے بند ہونے کے بعد دوبارہ پندرہ روزہ اشاعت حق کو اپنی خدمات دیں، لیکن ۱۹۹۳ء میں و ہ بھی بند ہو گیا، زمانہ دراز تک وہ ماہنامہ ندائے دار العلوم کی مجلس ادارت کے رکن رہے، ان کے مضامین ہندو پاک کے تمام مشہور وغیر مشہور رسائل وجرائد میں پابندی سے شائع ہوا کرتے تھے اور قدر ومنزلت کی نگاہ سے پڑھے جاتے تھے، انہوں نے روزنامہ ہندوستان اکسپریس دہلی میں تین سال اور روزنامہ ہمارا سماج دہلی میں دو سال کالم نگاری کا بھی کام کیا ، لیکن ان کو جو شہرت ملی وہ ان کی خاکہ نگاری تھی، ان کے خاکوں کے مجموعے میرے عہدکے لوگ، جانے پہچانے لوگ، خوشبو جیسے لوگ، اپنے لوگ ، کیا ہوتے یہ لوگ خاصے مقبول ہوئے اور ہندوستان بھر کے ادباء نے ان کی خاکہ نگاری کو پسند کیا، ہندوستان کے خاکہ نگاروں کی مختصر سے مختصر فہرست تیار کی جائے گی تو ان کا نام اس میں ضرور شامل ہوگا۔
 ان کی دوسری تصنیفات میں حرف تابندہ ، خطبات شاہی، مقبول تقریریں، سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم واقعات کے آئینے میں، میرے عہد کا دار العلوم، دو گوہر آبدار، شیخ انظر : تاثرات ومشاہدات، اکابر کا اختصاصی پہلو، وہ قومیں جن پر عذاب آیا، اسلام اور ہمارے اعمال ، اعمال صالحہ، اسلامی زندگی، اور اق شناشی کل بائیس کتابیں بشمول خاکوں کے مجموعے مشہور اور معروف ہیں، ان کے علاوہ ان کے ریڈیائی نشریات ہیں، انہوں نے مرکز نوائے قلم قائم کیا، جس میں طلبہ کو مضمون نویسی سکھائی جاتی تھی ،د ار العلوم وقف میں جب شعبہ صحافت قائم کیا گیا تو وہ اس کے ذمہ دار قرارپائے ۔
مولانا مرحوم’’ فقیری‘‘ میں ’’شاہی‘‘ کے قائل تھے، ان کے گھر میں آرائشی زیب وزینت کے سامان کم تھے، چٹائی پر سادگی کے ساتھ بیٹھ جانے میں ان کوتکلف نہیں تھا، سادہ زندگی گذارنے کے عادی تھے، ان کے یہاں لباس کا وہ رکھ رکھاؤ بھی نہیں تھا، جو ان کے چچا محترم اور چچازاد بھائیوں کا امتیاز تھا، ان کا مزاج شاہانہ اس وقت سامنے آتا، جب کوئی مہمان آجاتا، عمدہ قسم کی ضیافت کرتے، خواہش ہوتی کہ ان کے سامنے بہت کچھ پیش کریں، مزاج کا یہ شاہانہ پن ان کے مضامین اور کالموں میں بھی جھلکتا، نثر میں پر شکوہ الفاظ اور ادبی صنعتوں کا استعمال خوب کرتے، لیکن آمد ہی آمد ہوتی، پر تکلف آورد کا دور دور تک پتہ نہیں ہوتا، واقعہ یہ ہے کہ ان کی خوبصورت نثر قاری کو اس طرح گرفت میں لے لیتی ہے کہ وہ ان کا مداح اور کتاب ختم کیے بغیر آزاد ہو ہی نہیں سکتا۔
 مولانا دور طالب علمی میں ہمارے ہم عصر تھے،درسی اعتبار سے ایک سال سینئر تھے اور سندی عمر کے اعتبار سے کم از کم مجھ سے چار سال بڑے، لیکن بے تکلفی کبھی نہیں رہی، مجھے ان کی قہقہہ زار مجلسوں میں باریابی کے مواقع بھی کم ہی ملے، البتہ ۱۹۸۰ء میں بعد نماز عصر سے مولانا ازہر شاہ قیصر ؒ کے دربار میں مغرب تک میری حاضری ہوتی تو مولانا نسیم اختر شاہ قیصر بھی اس مجلس میں شریک رہتے، موقع عربی ششم کے سال میری پہلی تصنیف ’’فضلاء دار العلوم اور ان کی قرآنی خدمات‘‘ پر تصحیح کا ہوتا، اس کتاب پر مقدمہ حضرت مولانا سید انظر شاہ ؒ نے لکھاتھا، اور پیش لفظ مولانا ریاست علی بجنوری ؒ نے، لیکن طالب علمانہ تحریر کو حرفا حرفا پڑھ کر اصلاح کاکام مولانا مرحوم کے والد گرامی قدر نے کیا تھا، اور اس کے لیے کئی ہفتے تک عصر تا مغرب میری حاضری ہوتی رہی تھی، ظاہر ہے اس مجلس میں گھلنے ملنے اور مولانا کی بذلہ سنجی سے مستفیض ہونے کا کوئی موقع نہیں تھا، افتاء کے بعد بہار آگیا تو دیو بند آنا جانا ہی کم ہو گیا اور بہت ملاقات کا موقع نہیں مل سکا۔
مولانا اب ہمارے درمیان نہیں ہیں، انہوں نے بڑی اچھی زندگی گذاری اور اچھی موت پائی، طاب حیا وطاب میتا، اسی کو کہتے ہیں۔ اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...