Powered By Blogger

ہفتہ, دسمبر 17, 2022

پروفیسر ڈاکٹر معراج الحق برقؔ

پروفیسر ڈاکٹر معراج الحق برقؔ
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
پروفیسر ڈاکٹر معراج الحق برقؔ نے ۲؍ دسمبر ۲۰۲۲ء بروز جمعہ بوقت ۳؍ بجے سہ پہر بھاگل پور میں بڑے بیٹے امجد حیات برقؔ کی رہائش گاہ پر اپنی آنکھیں موند لیں، ایک وقت کی نماز نہیں چھوٹی، بستر پر لیٹ کر آنکھیں بند کیں تو ڈاکٹر نے بتایا کہ اس دنیا میں تو اب یہ آنکھ نہیں کھل سکے گی، نہ درد نہ بے چینی، نہ نزع کی تکلیف، نہ آہ وفغان، زندگی میں بھی پُر سکون رہتے تھے اور اسی سکون کی کیفیت کے ساتھ آخرت کے سفر پر روانہ ہو گیے ، جنازہ ان کے مکان واقع زکریا کالونی سعد پورہ مظفر پور رات کے ڈیڑھ بجے پہونچا، لڑکے اور لڑکی کو دہلی اور پنجاب سے آنا تھا، اس لیے جنازہ میں تاخیر ہوئی اور سنیچر کے دن بعد نماز مغرب تجہیز وتکفین میں شرکت کے بعد احقر (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی) نے جنازہ کی نماز پڑھائی اور مقامی قبرستان میں چہار دیواری سے اتر جانب متصل تدفین عمل میں آئی، اہلیہ ۲۷؍ جون ۲۰۱۲ء میں انتقال کر چکی تھیں، پس ماندگان میں تین لڑکے امجد حیات برقؔ ، سر ور حیات برقؔ ، انور حیات برقؔ اور ایک صاحب زادی کو چھوڑا، ایک لڑکا ارشد حیات چھ سال کی عمر میں استھانواں میں ہی فوت ہو گیا تھا۔
 ڈاکٹر معراج الحق برقؔ بن حکیم محمدعبد اللہ (م ۲۷؍ رمضان المبارک ۱۴۱۵ء ۔ اپریل ۱۹۹۴ء ) بن ممتاز حسین بن سخاوت علی بن مراد علی بن من اللہ کی ولادت بیندبلاک کے قریبی موضع میرہ چک ضلع نالندہ میں یکم اپریل ۱۹۳۷ء کو ہوئی ، تعلیم کا آغاز والد صاحب کے ذریعہ ہوا، کچھ دنوں بعد مقامی پاٹھ شالہ میں داخل ہوئے، لیکن کم وبیش چھ ماہ کے بعد بیند ہائی اسکول کے پہلے درجہ میں منتقل ہو گیے، یہ سال ۱۹۴۴ء کا تھا، ۱۹۴۶ء میں درجہ چہارم تک پہونچے ، ۱۹۴۶ء میں ہندو مسلم فساد کی وجہ سے برقؔ صاحب کے والد نقل مکانی کرکے استھانواں منتقل ہو گیے ، کیوں کہ میرہ چک میں صرف پانچ خاندان بستے تھے فساد کے بعد یہ تعدادگھٹ کر صرف دو رہ گئی تھی، بقیہ سارے غیر مسلم تھے، معاملہ بتیس دانت کے بیچ ایک زبان کا تھا، دانتوں سے زبان کا کٹنا نادر الوقوع ہے، لیکن غیر مسلموں کے ذریعہ اس زمانہ میں بھی اور آج بھی یہ شاد ونادر نہیںہے ، جس پر الشاذ کالمعدوم کہہ کر بات آگے بڑھادی جائے۔
۱۹۴۶ء کے خون ریز فساد کے بعد برقؔؔ صاحب کو بیند ہائی اسکول چھوڑ دینا پڑا ، میرا چک سے استھانواں کی منتقلی برقؔ صاحب کی زندگی میں ایک ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا، اور آپ کی تعلیم اسکول کے بجائے مدرسہ محمدیہ استھانواں ضلع نالندہ میں ہونے لگی، اس زمانہ میں مولانا عزیز احمد صاحب بھنڈاری مدرسہ محمدیہ کے ناظم تھے، یہاں برقؔ صاحب کا داخلہ تحتانیہ دوم میں ہوا، اور اسی مدرسہ سے آپ نے بہار اسٹیٹ مدرسہ اکزامنیشن بورڈ کے نصاب کے مطابق عالم تک تعلیم پائی، اس وقت یہ مدرسہ تعلیم وتربیت کے ا عتبار سے مثالی سمجھاجاتا تھا، یہاں برقؔ صاحب نے جن اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور علم وادب سیکھا، ان میں مولانا فصیح احمد ، مولانا رضا کریم، مولانا وصی احمد ، حافظ حفیظ الکریم رحمہم اللہ کے اسماء گرامی خاص طور سے قابل ذکر ہیں، مولانا فصیح احمد اور مولانا رضا کریم جن کا شمار جید علماء میں ہوتا تھا اور جو تقویٰ طہارت امانت ودیانت میں بھی ممتاز سمجھے جاتے تھے، ان سے برقؔ صاحب نے نحو وصرف، حدیث وتفسیر، فقہ وعقائد منطق وفلسفہ اور فارسی کی تعلیم حاصل کی، حافظ عبد الکریم نے گلستاں ، بوستاں، اخلاق محسنی، پند نامہ ، عطار کے اسباق پڑھا کر فارسی زبان وادب سے دلچسپی پیدا کی، انگریزی کی تعلیم ماسٹر انوار الحق استھانواں ، ماسٹر عبد الودود اکھدمی، ماسٹر عبد الصمد بہار شریف ، ماسٹر علی کریم استھانوی اور مشتاق بھائی ملک ٹولہ سے پائی، ان حضرات کی محنت سے انگریزی زبان وادب میں ایسی مہارت پیدا ہوئی کہ بعد کے دنوں میں فارسی کے استاذ ہونے کے باوجود لڑکے ان سے انگریزی کی ٹیوشن لیا کرتے تھے، ہندی اور حساب میں بھی گروسہائے پرشاد اکبر پوری نے خاصہ درک پیدا کر دیا تھا۔
برقؔ صاحب نے۱۹۵۹ء میں عالم کی ڈگری مدرسہ سے پانے کے بعد ۱۹۶۰ء میں میٹرک میں کامیابی حاصل کی، ۱۹۶۳ء میں دربھنگہ کے پُرکھوپٹی پرائمری اسکول میں ملازمت مل گئی، اس کے باوجود ۱۹۷۷ء تک تعلیم کے مراحل طے کرتے رہے ، ڈبل ایم اے کرنے کے ساتھ ۱۹۶۶ء میں ٹیچر ٹریننگ کا دو سالہ کورس مکمل کیا، بی اے آنرس فارسی، ایم اے فارسی، ایم اے اردو میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب رہے، ایم اے فارسی میں ٹوپر کے ساتھ یونیورسٹی کے سابقہ ریکارڈ توڑنے میں بھی انہیں کامیابی ملی ، ۱۹۷۸ء میں امتیازی نتائج امتحان کی وجہ سے بہار یونیورسیٹی مظفر پور کے آر ڈی اس کالج میں آپ کی بحالی عمل میں آئی اور آپ نے قریب کے محلہ پوکھر یا پیر مظفر پور میں زاہدہ منزل کے کرایہ کے ایک کمرہ میں بود وباش اختیار کر لیا اور کالج کے اوقات کے علاوہ طلبہ کو انگریزی کا ٹیوشن کراتے تھے او رواقعہ یہ ہے کہ ان سے اردو وفارسی کے طلبہ کم اور انگریزی کے طلبہ زیادہ فائدہ اٹھا رہے تھے۔
میں جب دار العلوم دیو بند سے فارغ پاکر مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی میں تدریسی خدمات پر مامور ہوا تو کئی سال رمضان المبارک میں پوکھریا پیر کی مسجد میں تراویح میںقرآن سنانے کا اتفاق ہوا، وہ ان دنوں میرے مقتدی ہوا کرتے تھے او ربقیہ وقت مسجد میں خالصتا لوجہ اللہ امامت بھی کیا کرتے تھے، میں نے اپنی زندگی میں کسی پروفیسر کو اس پابندی کے ساتھ امامت کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ۲۰۰۰ء میں وہ اردو فارسی کے صدر شعبہ کی حیثیت سے آر ڈی اس کالج سے ہی ریٹائر ہوئے، سبکدوشی سے پہلے ۱۹۹۲ء میں انہوں نے زکریا کالونی سعد پورہ مظفر پور میں ایک قطعۂ آراضی حاصل کرکے مکان تعمیر کرالیا تھا، اور وہیں آخری عمر تک رہے، اہلیہ کی وفات کے بعد اپنے بڑے صاحب زادہ امجد حیات برقؔ کے ساتھ رہا کرتے تھے، جہاں جہاں ان کا تبادلہ ہوتا وہ ان کے ساتھ وہاں قیام پذیر ہوجاتے، چند مہینے قبل تک دربھنگہ تھے، پھر جب امجد حیات صاحب کا تبادلہ بھاگلپور ہو ا تو وہ ان کے ساتھ چلے گیے ، امجد حیات رجسٹرار کے عہدہ پر فائز ہیں، میری بھتیجی طلعت جہاں آرا عرف سوئیٹی بنت ماسٹر محمد رضا الہدیٰ رحمانی ان کے دوسرے صاحب زادہ سرور حیات کے نکاح میں ہے، میری ایک چچازاد بہن اور چھوٹے بھائی ماسٹر محمد نداء الہدیٰ کی اہلیہ زینت آرا عرف نوروزی نے ان کی رہنمائی میں عارف ماہر آروی پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، میرے ایک بھائی ماسٹر محمد فداء الہدیٰ فدا نے بھی ان کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کے لیے رجسٹریشن کروا رکھا تھا، لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شد۔
 ڈاکٹر معراج الحق برقؔ فطری طور پر شاعر تھے، اسی لیے کم سنی سے ہی باوزن اور بے وزن اشعار کی پرکھ پیدا ہو گئی تھی ، ۱۹۵۵ء میں یاد رفتگاں کے نام سے ایک نظم لکھی تھی، گاہے گاہے طلب پر سہرا یا موضوعاتی نظم لکھتے رہے ، لیکن شاعری کبھی بھی ان کے لیے ذریعہ عزت نہیں رہی ، پروفیسر ثوبان فاروقی کی بیٹی کی ولادت پر انہوں نے سولہ اشعار پر مشتمل تہنیت نامہ لکھا تھا ، اس کے جواب میں پچاس اشعار پر مشتمل منظوم خط پروفیسر ثوبان فاروقی سابق صدر شعبہ اردو آر این کالج حاجی پور نے ان کو ارسال کیاتھا، برقؔ صاحب نے اس کے جواب میں چھہتر اشعار پر مشتمل دوسرا مکتوب ان کی خدمت میں ارسال کیا، ان تینوں کو ڈاکٹر امام اعظم نے تمثیل نو جنوری ۲۰۲۱ء تا جون ۲۰۲۲ء کے شمارہ میں شائع کر دیا ہے اسی شمارہ میں ’’کھینی امان اللہ‘‘ کے عنوان سے بھی ایک نظم ہے ، جن سے ان کی قادر الکلامی ، برجستہ گوئی، رفعت تخیل اور ندرت افکار کا پتہ چلتا ہے۔
برقؔ صاحب کی نانی ہال میر غیاث چک تھی ،ا ن کے والد حکیم عبد اللہ صاحب نے یکے بعد دیگرے تین شادی کی تھی ، برقؔ صاحب محل اولیٰ سے تھے ، ان کے ایک اور بھائی سراج الحق تھے، جو ان سے بڑے تھے، جن کا انتقال ۲۰۱۲ء میں ہوا، ان کے تین علاتی یعنی باپ شریک بھائی اور ہیں جن کے نام اعجاز الحق، اظہار الحق اور نثار الحق ہیں،برقؔ صاحب کی شادی باڑھ سب ڈویزن کے گاؤں کنہائی چک ضلع پٹنہ میں دسمبر ۱۹۶۹ء میں ہوئی تھی ۔
 برقؔ صاحب کا اصلاحی تعلق حضرت مولانا شمس الہدیٰ صاحب راجوی دربھنگوی دامت برکاتہم سے تھا، مظفر پور میں جب پروفیسر برقؔؔ صاحب کا قیام ہوتا مولانا کے ارادت مندوں کی مجلس ِمراقبہ اور ذکر پروفیسر برقؔ صاحب کے گھر پر ہی لگا کرتی تھی، گاہے گاہے وہ حضرت سے ملاقات کے لیے گنور وغیرہ کا سفر بھی کیا کرتے تھے، پرفیسر برقؔ تکبیر اولیٰ کے ساتھ مسجد میں با جماعت نماز کے انتہائی پابند تھے، زکریا کالونی کے امام مفتی آصف قاسمی جب کبھی رخصت پر ہوتے تو وہاں کی امامت انہیں کے ذمہ ہوتی تھی اور تمام مقتدی ان کی امامت میں نماز کی ادائیگی سعادت سمجھتے تھے، جب گھٹنوں میں تکلیف رہنے لگی تو بھی مسجد کی حاضری نہیں چھوٹی، پہلی صف میں تکبیر اولیٰ کے ساتھ کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھا کرتے تھے۔
 برقؔ صاحب نے پی اچ ڈی تصوف پر کیا تھا، اس لیے ان کے مزاج میں صوفیت کا غلبہ تھا، وہ کم سخن نہیں، کم گو تھے، زیادہ سنتے اور کم بولتے، غیبت وغیرہ کی مجلسوں سے دور رہتے، مولانا شمس الہدیٰ راجوی سے اصلاحی تعلق کے بعد اس کیفیت میں اضافہ ہو گیا تھا، تصوف کے رموز ونکات پر ان کی گہری نظر تھی ، وہ اپنے مرشد کی طرف سے دیے گیے اوراد ووظائف کے پڑھنے کا بڑا اہتمام کرتے تھے، انہوں نے اپنی مختصرآپ بیتی بعنوان ’’یاد ماضی عذاب ہے یا رب‘‘ مولانا طلحہ نعمت ندوی استھانواں کی فرمائش پر لکھا تھا۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ان کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل دے آمین۔ یا رب العالمین

پئے تفہیم (شعری مجموعہ) کا تنقیدی وتجزیاتی مطالعہ

پئے تفہیم (شعری مجموعہ) کا تنقیدی وتجزیاتی مطالعہ 
اردو دنیا نیوز٧٢ 

مضمون نگار : محمد ضیاء العظیم قاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم پھلواری شریف پٹنہ ،برانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن (رجسٹرڈ) پٹنہ 
موبائل نمبر :  7909098319 

تمام تعریفیں اس رب کے لیے ہیں جس نے انسانوں کو قوت گویائی عطا کی ،جس سے انسان اپنے احساسات وجذبات کا اظہار کرتا ہے ۔اور یہ اظہار کبھی نثر میں کرتا اور کبھی نظم میں ۔نظم کے ذریعہ جو اظہار خیال کرتا ہے وہ شاعر کہلاتا ہے، شاعر کو قدرت کی جانب وہ نعمتیں عطا کی گئی ہیں جن سے وہ اپنے احساسات وجذبات کو ایک نیا رنگ وآہنگ دے کر اسے خوبصورت پیرائے میں ڈھال کر دلچسپ بنا دیتا ہے ۔اسے وہ تخیلاتی وتصواراتی پرواز حاصل ہے جو اسے ممتاز بنا دیتا ہے، ایک شاعر جب شاعری کی زبان میں اپنی گفتگو کرتا ہے تو وہ بیک وقت ماضی حال اور مستقبل تینوں پر گفتگو کرجاتا ہے ۔
کیوں کہ شاعری نام ہے ذہن وقلب، دل ودماغ میں اٹھتے تجربات مشاہدات اور اپنے ان احساسات وجذبات کو خوبصورت اور پر لطیف انداز میں پرونے کا جو بظاہر خود کے معلوم ہوتے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ دنیا میں موجود خلق خدا کی ترجمانی ہوتی ہے جو ان مسائل ومصائب سے دو چار ہیں، یا آسائش سے آسودہ ہیں ۔ شاعر کو وہ بصارت و بصیرت، تصورات وتخیلات،تجربات ومشاہدات عطا کیا گیا ہے جن سے وہ ان کیفیات کا مشاہدات کرتا ہے جو عام انسانوں کے اختیارات میں نہیں ہیں ، انہیں وجوہات کی بنا پر شاعر کو دور اندیش، صاحب بصیرت وبصارت، حکیم وفلسفیانہ ذہنیت کا مالک تصور کیا جاتا ہے ۔

مظہر وسطوی ؔکا نام اردو دنیا کے لئے کسی تعارف کا محتاج نہیں، وہ ریاست بہار کے ضلع ویشالی سے تعلق رکھتے ہیں جن کی پہلی تصنیف،، پئے تفہیم،، (شعری مجموعہ) شائع ہو کر مقبولیت حاصل کر چکی ہے ۔ ان کا شمار ویشالی کے ممتاز شاعروں  میں اور عمومی طور پر صوبہ بہار کے معیاری شاعروں میں ہوتا ہے،آپ علمی وادبی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔آپ کو دبستان عظیم آباد کے بہت مشہور ومعروف اور بزرگ شاعر محترم قوس صدیقی کے شاگردی کا شرف حاصل ہے ۔آپ نے اپنی شعری تصنیف کے ذریعہ اپنا ایک الگ مقام پیدا کیا ہے، آپ درس وتدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں، آپ کو ادبی خدمات پر انعامات و اعزازات بھی مل چکے ہیں ۔خصوصاً ہندی ساہتیہ سمیلن کی جانب سے،، پروفیسر ثوبان فاروقی ایوارڈ 2018 ۔

ہمارے سامنے آپ کی تصنیف کردہ شعری مجموعہ،،، پئے تفہیم،،، کی سنہری تحریریں روح میں اتر کر تازگی کے ساتھ دل ودماغ کو معطر کر رہی ہیں ۔

پئے تفہیم(شعری مجموعہ) 92/صفحات پر مشتمل یہ شعری مجموعہ جسے اردو ڈائریکٹوریٹ، محکمہ کابینہ سکریٹریٹ، پٹنہ کے مالی تعاون سے شائع کیا گیا ہے۔
 اس میں ایک حمد، دو نعتیہ کلام ، پینسٹھ (۶۵) غزلیں ،اور سات نظمیں شامل ہیں ، کتاب کا انتساب ’’نئی تشکیلات کے نمائندہ استاذ الشعراء محترم قوس صدیقی کے نام‘‘ ہے،  کتاب کی شروعات حرفِ ابتدا میں مصنف شاعر نے وجہ تصنیف و تالیف کے ساتھ ساتھ شعر وادب سے وابستگی، شعر وادب کے تئیں احساسات وجذبات  کے اظہار ان الفاظ میں کیا کہ میں شاعری روح کی تسکین اور طمانیت قلب کے لئے کرتا ہوں، شاعری میری نگاہ میں تجارت وزراعت نہیں بلکہ عبادت کا درجہ رکھتی ہے ۔ہم اس سے ان کے جذبات واحسات کی بلندی اور عظمت کا اندازہ لگا سکتے ہیں
کے ساتھ ساتھ اپنے معاونین کا جنہوں نے اس تصنیف میں ان کے قدم سے قدم ملا کر چلے سب کا شکریہ ادا کیا ۔

پئے تفہیم کے حرف ابتدا کے بعد،، مظہر وسطوی کے ذوق سخن کی بالیدگی،، کے نام سے عنوان قائم کرکے ڈاکٹر بدر محمدی نے بڑے تفصیلات سے شاعر کا تعارف، وصف شاعری، انداز شاعری، پیغام شاعری غرضیکہ کہ مظہر وسطوی کے فن شاعری کے تمام پہلوؤں کو مدلل ومفصل انداز میں  تبادلہ خیال کرتے ہوئے  بہترین تجزیہ پیش کیا ہے، جو مظہر وسطوی کو اور ان کے فن کو سمجھنے میں بہت معاون ثابت ہوگا ۔بعدہ نذرالاسلام نظمی (سابق مدیر، رابطہ، نئی دہلی) چین پور، ویشالی نے اس تصنیف کے تئیں اظہار خیال کیا ۔مشہور ومعروف  وبیباک شاعر وادیب وصحافی ڈاکٹر کامران غنی صبا اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو نیتیشور کالج مظفّر پور، ڈاکٹر ارشد القادری اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ فارسی لکھنؤ یونیورسٹی، لکھنؤ، اور ڈاکٹر عطا عابدی نے بھی آپ کی شاعری وفن پر مثبت تاثرات سے نوازتے ہوئے اس تصنیف پر مباکبادی پیش کی ہے ۔
آپ کی شاعری کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوا کہ آپ اپنے فن کو بر محل برتنے اور خیالات کو الفاظ کا سہارا ووسیلہ دے کر شاعری میں کس طرح حسن وجاذبیت پیدا کی جائے اس ہنر سے بہ خوبی واقف ہیں ۔ اس کتاب میں شامل غزلیں، شاعر کے فکر وفن کی پختگی کی بھر پور نمائندگی کرتی ہے،روانی وتسلسل کا عالم یہ ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایسی سواری پر سوار ہیں جو برق رفتاری سے اپنی منزل کی جانب گامزن ہے،  لیکن ذرہ برابر بھی کہیں تھکاوٹ اور جرکن کا احساس نہیں ہورہا ہے ۔ کہیں کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے یہ شاعری ہمارے زبان کے راستے دل ودماغ تک اتر کر روح میں پیوست کر گئی ہے ۔اس کم عمری میں بھی شاعر کو  زندگی کا مکمل ادراک حاصل ہے۔  شعورو بیداری کے دائرے میں تخیلاتی پرواز تراش کر اپنے اندر کےاحساسات وجذبات وخیالات، اپنی خوشیاں، اپنے رنج وغم اور دکھ تکلیف کو حقیقی پیرائے میں آپ بیتی کے ذریعہ جگ بیتی پیغام سنانے کا ہنر رکھتے ہیں ۔لا محالہ وہ اپنی غزل میں اپنی عمر، اپنے عہد کے اٹھنے والے کئ مسائل ومصائب ، اور سماج ومعاشرے کی بھر پور ترجمانی اور نمائندگی کرتے ہیں ۔ بعض جگہوں پر،، خیر الکلام ما قل ودل،، کا بھی عکس ملتا ہے ۔شاعر نے دو مصرعوں میں پوری کائنات اور پورے عہد کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے ۔اچھی شاعری کی یہی مظہر وجوہر ہے ۔ لفظوں کا پیچ وخم، ضخیم تعبیرات کے بجائے بات کو سادگی سے بیان کرنے کا عادی ہے۔ زبان کی سلاست، روانی اور مختصر بحروں کے ساتھ اس نے غزل کو ایک نیا رنگ وآہنگ عطا کیا ہے۔
کتاب کی شروعات حصول وبرکت کے لئے حمد و نعت سے کی گئی ہے ۔حمد و نعت کے چند اشعار 
ہر شئے میں سمایا ہوا کردار وہی ہے 
خالق بھی وہی مالک ومختار وہی ہے، 
ہر سمت ہیں جلوے بھی، تماشے بھی اسی کے 
ہر منظر پر نور میں ضو بار وہی ہے ۔

زمیں پر ان کے آنے سے جہانوں میں نکھار آیا 
تڑپتے ذرے ذرے کو سکوں آیا قرار آیا، 

خاتم الانبیاء حق کے پیارے رسول 
سارے عالم کے والی ہمارے رسول 
چاروں جانب اجالا اجالا ہوا 
ایسے چمکے قدم کے ستارے رسول ۔

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انسانی تخیلاتی وتصوراتی پرواز جہاں بلند وبالا ہوں گے وہاں ان کا معیار اور مقام بھی متعین ہوتا ہے۔ اور بلند تخیلات وتصورات اور تجربات کے مشاہدات کے ذریعہ حاصل ہوتے ہیں، مطالعے سے حاصل ہوتے ہیں ۔
الطاف حسین حالی اپنی کتاب مقدمہ شعروشاعری میں کہتے ہیں ” قوت متخیلہ یا تخیل جس کو انگریزی میں امیجینیشن کہتے ہیں۔ یہ قوت جس قدر شاعر میں اعلیٰ درجے کی ہو گی اسی قدر اس کی شاعری اعلیٰ درجے کی ہوگی اور جس قدر ادنیٰ درجے کی ہو گی اسی قدر اس کی شاعری ادنیٰ ہوگی”۔

 یہ موصوف محترم کی پہلی کتاب ہے۔ ابھی انہیں اونچی اڑان طے کرکے مزید کامیابی وکامرانی کی طرف جانا ہے، اور یقیناً وہ اپنے ہم عصروں کے لیے شعر و ادب کی دنیا میں ایک معتبر حوالہ بنے گا۔
غزل کے چند اشعار 

غریبی میں بھی یوں خوش ہیں بسا اوقات ہنس ہنس کے 
قناعت کی کوئی بوسیدہ چادر اوڑھ لیتے ہیں، 
جومنصف بن کے آتے ہیں محلے کے تنازع میں 
جب اپنے گھر میں ہوتے ہیں تو بستر اوڑھ لیتے ہیں ۔

یہ انداز محبت ہے ادائیں بات کرتی ہیں، 
ملاقاتیں نہیں ہوتی ہیں آہیں بات کرتی ہیں
عجب عالم ہے اس دل کا عجب عالم ہے اُس دل کا، 
زباں خاموش رہتی ہیں نگاہیں بات کرتی ہیں ۔
دل کی باتیں ساتھ کریں گے گھر آنا 
رستے میں کیا بات کریں گے گھر آنا، 

اگر سچائی کے حق میں تمھارا فیصلہ ہوگا
محبت کاصلہ پھر اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا، 
حسیں خوابوں کے نرغے سے سلامت میں نکل آیا
حسینوں کے قبیلے میں بڑا چرچا ہوا ہوگا، 

زمانہ بہت اب خراب آرہا ہے
ترقی کو تھامے عذاب آرہا ہے
محبت کی رسمی علامت ہے یہ بھی
کہ پرزے میں سوکھا گلاب آرہا ہے، 
کس نےکہا کہ آج کی دنیا مزے میں ہے
ہر شخص جانتا ہے وہ کتنا مزے میں ہے۔
جذبۂ انسانيت باقی کہاں ہر دل میں ہے
اس لیے تو آج کل ہر آدمی مشکل میں ہے۔

چند متفرق اشعار 

پیار الفت کی زبان لشکری اچھی لگی 
سب زبانوں میں زبان مادری اچھی لگی، 
اس کی شیرنی کی قائل آج ہے ساری زباں 
اس سبب اردو زباں کی برتری اچھی لگی، 

حاجیو! اعلیٰ مقدر آپ کو میرا سلام 
رہ گذار نقش انور، آپ کو میرا سلام، 
آپ کی آمد مبارک، مرحبا صد مرحبا 
آپ ہیں کعبہ کے زائر، آپ کو میرا سلام، 

وہ ننھا پرندہ 
شاخ پر چپ چاپ 
کیوں بیٹھا ہوا ہے 
بہت خاموش اور رنجیدہ! 

وہ کلیم درد، میر کارواں رخصت ہوا 
پاسبان عظمت اردو زباں رخصت ہوا، 

اک ادائے خوش بیاں کی نغمگی جاتی رہی 
باغ اردو سے اچانک سر خوشی جاتی رہی، 

باکمال فکر وفن، محبوب انور محترم 
شاعر طرز سخن، محبوبِ انور محترم، 

شاعر کا ایک اپنا انداز وبیاں ہوتا ہے کبھی وہ تجاہل عارفانہ کے ذریعہ سوالی بن کر خود اس کا جواب دیتا ہے، کبھی وہ بیمار ہوکر خود ہی شفا پاجاتا ہے ۔کبھی زندگیوں کی تلخیاں کا تذکرہ کرتا ہے،اور کبھی زیست کی لذت سے متعارف کراتا ہے، غرضیکہ شاعری کے موضوعات کے دائرے بہت وسیع ہوتے ہیں، 
 اس کا سنجیدہ انداز بیان اور بلند خیالی اسے موجودہ دور کے معتبر ناموں کے درمیان منفرد اور نمایاں کرتی ہے۔ اس کے کلام کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ زندگی کے مسائل ومصائب اور محبت میں آنے والے نشیب وفراز، اذیت و کرب کو محسوس تو بہت شدت سے کرتا ہے مگر اظہار اس انداز میں کرتا ہے کہ یہ ہر ایک کے مسائل ومصائب ہیں، گویا وہ آپ بیتی پیغام جگ بیتی کے ساتھ سنا جاتا ہے ۔ سوز وگداز اور ظاہری وباطنی کشمکش کا اظہار بڑے فنکارانہ انداز میں کرتا ہے ۔ کتاب کا ٹائٹل، سر ورق دیدہ زیب اور کتابت معیاری ہے،مزید اس نئی نسل کے شاعر کو اور ان کے فن کو سمجھنے کے لئے ان کی کتاب کا مطالعہ ضروری ہے، نئی نسل کے شاعر وادیب یہ ادب کے عظیم سرمایہ ہوتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی بہت ضروری ہے ۔اردو زبان وادب سے منسلک ہر ہر فرد کی ذمہ داریاں ہیں کہ وہ نئے قلمکاروں کی بھر پور حوصلہ افزائی کریں، تاکہ ان حوصلوں سے ان کے فن پر نکھار آئے ۔اور یہی نئی نسل کے شاعر وادیب زبان وادب کے لئے سرمایہ ہوں گے ۔ہم اپنی جانب اور ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے مظہر وسطوی کے اس کار کردگی پر انہیں مبارکبادی پیش کرتے ہیں ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...