Powered By Blogger

جمعہ, دسمبر 24, 2021

صاحب دل، قطب دوراں، استاذ الاساتذہ، *جناب الحاج مولوی محمد اسداللہ صاحب نوراللہ مرقدہ*

صاحب دل، قطب دوراں، استاذ الاساتذہ، 
*جناب الحاج مولوی محمد اسداللہ صاحب نوراللہ مرقدہ*
 (سرزمینِ چہونٹیا ضلع جامتاڑا جھارکھنڈ کی عظيم الشان اور قبلہ نما ہستی)

*راقم الحروف ✒جمشيد جوھر*

سال گزشتہ ایک صاحب کی تدفین میں مجھے اپنے گاٶں چہونٹیا کے پرانے قبرستان میں  شریک ہونے کا موقع ملا۔
تدفین کے عمل سے فارغ ہوا تو دفعتًا دل میں حاجی اسداللّٰہ صاحب نوراللّٰہ مرقدہٗ کے مزارِ مبارک کی زیارت کا شوق کچوکے لگانے لگا
 مگر مسٸلہ یہ تھا کہ آپؒ کی آرام گاہ تک لے جاۓ کون؟
چونکہ آپؒ کے گذرے ہوۓ اک زمانہ گذر چکا تھا
اور جب آپؒ نے پردہ فرمایا تھا تو میں مدرسہ اصلاح المسلمین سرکار ڈیہ دھنباد میں زیر تعلیم تھا۔
اس لۓ میری ناواقفیت کوٸی تعجب خیز نہ تھی۔
ابھی میں اسی اُدھیڑ بُن میں تھا کہ میرے سامنے صغیر بھاٸی آکھڑے ہوۓ
 علیک سلیک کے بعد میں نے اپنی معروضات ان کے سامنے رکھیں۔
بس انھوں نے جھٹ میرا ہاتھ تھاما اور بڑی سُرعت کے ساتھ رہبری کرتے ہوۓ ٹھیک حاجی صاحب کی قبر کے سرہانے لاکھڑا کردیا۔
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
عالمِ بےخودی میں سلام کے یہ الفاظ مجھ سے ادا ہوتے چلے گۓ۔

*میری تربت پہ وہ آگئے*
*آج جوھر! یہ کیا ہوگیا*

اب جن کیفیات کامشاہدہ  اس گنہگار نے کیا وہ بیان سے باہر ہے
۔قبر میں ایسی روحانیت دیکھنے کو کہاں ملتی ہے ؟
واللّٰہ
قبر کم اور گلزار زیادہ لگ رہی تھی
اس پر مستزاد یہ کہ
قبر مبارک کے ٹھیک بیچوں بیچ شاداب لہلہاتے ہوۓ تین خودرو تناور درخت {١شیشم،٢نیم،٣ٹھنکی} اُگ آۓ تھے۔ 
یہ سَدابَہار روح پرور منظر دیکھا تو بے ساختہ لبوں پر مرزا اسداللّٰہ خان غالب دھلوی کا شعر مچل گیا
*سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگٸیں*
*خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگٸیں*
ان درختوں کے برگ وبار سے مزار کے اوپر ایک گنبد نما چھتری کا گماں ہوتا تھا
میں نے ہمیشہ حاجی صاحبؒ کی زندگی میں دھوپ سےبچاٶ کے لۓ ہاتھ میں ایک عدد چھتری ضرور دیکھی تھی
جیسے چھتری سے یک گونا تعلق سا ہوگیا ہو 
کیا بعید ہےاسی واسطے قدرت نے بعد وفات کے آپ کی خاطر داری کا خیال کرتے ہوئے   دھوپ۔ گرمی۔ برسات سے تحفظ کے پیش نظر قدرتی چھتری کا انتظام کردیا ہو۔
مرورِ ایّام کے سبب قبر کی سرحدیں خستہ ہوچکی تھیں تاہم بہت حد تک محفوظ تھیں
کتبہ بغور دیکھا گیا تو حسب ذیل نتیجہ سامنے آیا 
  تاریخ وفات۔٢٩/ صفرالمظفر/ سنہ١٤٠٥ھجری
مطابق ۔3/ اکتوبر/ سنہ1984عیسوی 
بروز سوموار
 بوقت ١٠ بجے دن۔
میں فاتحہ پڑھ کر قبر کی بانڈری کی دیوار پکڑ کر انتہائی نیازمندانہ انداز میں کھڑا ہوگیا۔
صغیر بھاٸی حاجی صاحبؒ کے کارنامے گناتے رہے ۔
اور میں جذباتی ہوتا چلاگیا
میرے سرکی آنکھیں قبر کی مٹی دیکھ رہی تھیں 
اور دل کی آ نکھ کوٸی اور ہی شۓ کو تلاش کررہی تھی
بقول میر تقی میر کے
*آنکھیں تو کہیں تھیں، دلِ غم دیدہ کہیں تھا* 
فضا روح کو معطّر کررہی تھی
کسی جانب سے ہوا کا ایک جھونکا آیا اور
مجھے سرشار کرگیا۔
معاً
 غنودگی سی محسوس ہونے لگی اور نظر کے سامنے جھلملاتا ہوا اک ہیولا رقص کرنے لگا۔۔۔۔۔۔
لامبا قد ۔چھرہرا بدن۔گندُمی رنگ۔کلی دار گھٹنوں کے نیچے تک جھولتا بالکل سفید قمیص۔چارخانے کی تہبند۔سرپہ دوپلّی ٹوپی۔آنکھوں پہ لٹکتاہوا موٹے گلاس والا عینک۔شانے پر عربی رومال۔ پیرانہ سالی کے سبب جُھرّیوں کے باوجود نورانی چہرہ۔
پیشانی پر سِیمَاھُم فِی وُجُوھِھِم مِن اَثَرِ السُّجُود کی زندہ تفسیر۔ ایک ہاتھ میں چھتری دوسرے میں ریڈیم کے موٹے موٹے دانے والی تسبیح تھامے ہوۓ حاجی صاحبؒ اپنے دولت خانے {جو بظاہر فقير کی کٹیا لگتاتھا} سے خراما خراما چلے آرہے ہیں
*میرا مرشد ، میرا راہبر آگیا*
*بے خبر! دیکھ لے باخبر آگیا*
 جوں ہی مدرسہ کی حدود میں داخل ہوۓ 
طلبا ٕ کی جانب سے السلام السلام کا شور بلند ہونے لگا 
گویا اس روایتی سلام میں محض سلام ہی نہیں شدت کا اشتیاق بھی جیسے چھپا ہوا ہو۔
اور ہو بھی کیوں نہیں؟ آپؒ جو واقعی ایسے ہی طلبا پر  شفیق و مہربان رہتے تھے۔
یہی وجہ تھی کہ طلبا میں آپؒ حد درجہ مقبول تھے۔
 کیونکہ یہاں ضَرَبَ  یَضربُ کی گردان تھی ہی نہیں ۔
میں اس وقت ناظرہ خوان تھا
 اور حاجی صاحبؒ ابتدائی درجے ہی کے استاد تھے 
حالانکہ اس درجہ میں اور بھی اساتذہ تھے
مگر پتہ نہیں کیوں  سارے لڑکے اٹھ کے حاجی صاحبؒ ہی کے پاس سبق سنانے پہنچ جاتے تھے
حتی کہ جوبچے آپ کی آمد سے قبل کسی اور استاد کے پاس پہنچ چکے ہوتے
اگر انھیں بھی معلوم ہوتا کہ حاجی صاحبؒ آچکے ہیں
 تو سابق استاد کو چھوڑ کر بھاگ لیتے تھے
 اور یوں آپؒ کے پاس اک بھیڑ جمع ہوجاتی
 یہ منظر دیکھ کر تمام اساتذہ  ہنس پڑتے 
حاجی صاحبؒ کا اک تکیہ کلام اب تک میرے حافظہ میں محفوظ ہے کہ جب ہر بچہ سبق پوچھنے لگتا تو تنگ آکر اپنی مادری زبان( کھورٹھا) میں فرماتے
”  ناٸی سُوجھے ہو؟“
اتنے ہی پر بس کرتے
اور ان کا غصہ فرو ہوجاتا
 چھڑی پکڑنے کی نوبت ہی نہیں آتی ۔
اللّٰہ اکبر 
*اس سادگی پہ کون نہ مرجاۓ اے خدا؟*
*لڑتے ہیں مگر ہاتھ میں تلوار نہیں ہے*
اس زمانے میں مدرسہ انوارلعلوم چہونٹیا (جس کا قیام سنہ 1962عیسوی میں  ہوا )کی ایک ہی  عمارت تھی آفس۔ کلاس روم ۔اقامہ سب وہی تھی
بچے  صحن مدرسہ میں  آم کے درخت کے ساۓ میں پڑھتے تھے
 اس زمانے میں چہاردیواری بھی نہیں تھی
اب تو ماشإاللہ مدرسہ ھٰذا ترقی یافتہ نہ سہی مگر ترقی پزیر ضرور  ہے
مدرسہ کا جغرافیہ اور محل وقوع  بھی دیدہ زیب  ہے
یہ ایک مسطح سبزہ زار پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع ہے
اس کاصدر دروازہ پہاڑی کو کاٹ کر بنایا گیاہے
یہ پہاڑی سلسلہ شرق و غرب تک پھیلا ہواہے
مدرسہ انوار العلوم وہ مادر علمی ہے جس کے کوکھ سے بڑے بڑے فضلإ اور فن کار پیدا ہوۓ۔
مدرسہ ھذا کے بانیان میں دو خوش نصیب اور مخلص حجاج کا ذکر ملتا ہے 
ایک حاجی پینتو صاحب مرحوم سے موسوم ہیں 
دوسرے  حضرت حاجی اسداللّٰہ صاحبؒ ہیں
جس ماحول میں مدرسہ کا قیام عمل میں آیا
وہ بڑا پر فتن دور تھا
ایسے میں انوار العلوم جیسے ادارہ کا قیام 
 اک بڑا کارنامہ تھا 
حاجی صاحبؒ جہاں اک سچے علم دوست اور شریعت و سنت کے شیداٸی کےطور پر جانے جاتے تھے وہیں سماجی اور معاشرتی کا موں میں بھی خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے
آپؒ کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ گاٶں سے منسوب کسی قانونی چارہ جوٸی میں حُکّام کے نزدیک آپؒ ہی جواب دہ ہوتے تھے
یعنی معاملہ کسی کا بھی ہوتا تھانیدار آپ ہی سے رجوع کرتا تھا
اور یوں معاملہ رفع دفع ہوجاتا تھا
اس سے پتہ چلا آپؒ علاقہ کا اک با اثر اور ذمہ دار شخص تھے
آپؒ نرے زاہدِ خشک انسان  نہیں تھے
بلکہ ہرایک جہت پہ یکساں نظر رکھتے تھے
اس طرح آپ کی ذات دنیا والوں  کے لۓ مشعل راہ تھی
 چنانچہ آپ کے متعلق مجھے  معتبر ذرائع سے خبر پہونچی
 کہ آپ نراین پور ہاٸی اسکول  کا بھی سنگ بنیاد رکھنے میں شامل رہے 
اس عمل میں آپ کے ساتھ ہیڈ ماسٹر  نند کشور جی اور دوسرے لوگ بھی تھے
بقول کلیم عاجز کے
*اپنا تو کام ہے کہ جلاتے پھرو چراغ* 
*رستے میں دوست یا کسی دشمن کا گھر ملے*
نراین پور دراصل غیر منقسم بہار کا اک چھوٹا سا قصبہ ہے اور بلاک بھی
اس زمانے میں دُمکا ضلع کے تحت آتا تھا
 اور اب جامتاڑا جھارکھنڈ کے میں آتا ہے
یہ وہ مصر ہے جہاں جانوروں کا بازار بھی لگتا ہے
اور دیگر اشیاۓ خوردونوش کے سامان بھی ملتے ہیں 
اب تو ماشإاللہ یہاں اک عالیشان مسجد بھی ہے
اس مسجد کی خصوصيت یہ ہے کہ اس میں کٸی مسلک کے لوگ ایک ساتھ نماز جمعہ ادا کرتے ہیں
واقعی جمعہ کے روز یہاں  فرزندان توحید کا اک حسین سنگم نظر آتا ہے
یہ منظر بھی دیدنی ہوتاہے
نراین پور  چہونٹیا سے ٨ /کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے
اسی طرح آپؒ کے بارے میں آتا ہے کہ گوکھلا (جوہمارا پوسٹ آفس ہے) مڈل اسکول  کے سرکاری ٹیچر بھی تھے
اور تو اور آپؒ چہونٹیا بستی کے پہلے پردھان بھی رہ چکے ہیں 
نیز یہ بھی مشہور ہے
 کہ اللّٰہ نے آپؒ کو گاٶں کے پہلے جن وترن پرنالی کے ڈیلر کے منصب سے بھی نوازا تھا
شاید اسی کو دین و دنیا کی بھلاٸی کا نصیب ہونا کہتے ہیں
 جو حضرت حاجی صاحبؒ کو اللہ تعالی نے وافر مقدار میں عطا فرمایا تھا۔   
آپ باضابطہ عالم تھے یا نہیں ؟
یہ تو میں نہیں بتاسکتا
 تاہم یہ بتانے میں کوٸی عار نہیں کہ عالِم گَر ضرور تھے
البتہ یہ محقَّق ہے کہ آپؒ کی تعلیم  اسکول لاٸن سے مڈل تک تھی
حاجی صاحبؒ مدرسہ انوارالعلوم چہونٹیا کے بانی ہونے کے ساتھ ساتھ تاعمر مدرّس بھی رہے
 کہا جاتا ہے یہ ادارہ اس وقت قاٸم ہوا جب علاقہ میں ہر جگہ جہالت بدعات خرافات  رسوم اور اوھام پرستی عام تھی 
یہ بات تو زبان زدِ خاص و عام ہے کہ علاقہ میں سالانہ اک فقير آتا تھا اور وہ تمام گھروں کی چُھریوں پرایک بار دم کرکے چلا جاتا تھا 
ُان ہی چُھریوں سے سال بھر جانور حلال ہوتے تھے
استغفراللہ 
کیسی جہالت تھی۔
گویا اب بسم اللّٰہ سے بے نیاز ہوگۓ
اب میں اپنا دیکھاہوا واقعہ پیش کرتاہوں 
 یہ بات ہمارے یہاں بالکل عام تھی کہ لوگ لُنگی بنیاین میں دھڑلے سے نماز پڑھ لیتے تھے
اور کچھ سادہ لوح بناٸن کی جگہ انگوچھا {گمچھا}ہی سے کام چلا لیتے تھے
یعنی انگوچھا ہی کُرتا بھی ہوتا اور ٹوپی بھی
یہ حال تھا علاقہ کا
 ایسے میں "انوار العلوم" حاجی صاحبؒ کی کسی کرامت سے کم نہیں تھا
حاجی صاحبؒ اک مرجع خلاٸق صفت انسان تھے آپؒ کی ہستی قبلا نما تھی 
وجہ اس کی یہ تھی کہ آپؒ اک صاف مخلص اور سادہ آدمی تھے آپؒ کو تفرقہ بازی سے سخت نفرت تھی
 اسی لۓ بلاکسی تفریق ہرمکتبِ فکر کے لوگ آپؒ سے خوش تھے۔
اس زمانے میں بالاتفاق امام عیدین اور جمعہ آپؒ ہی ہوا کرتے تھے
آپؒ کا بیان بڑا پرسوز ہوا کرتاتھا
خورد نوازی کا اک واقعہ عرض کرتا چلوں جو متعدّد بارخود میرے ساتھ پیش آیا
وہ یہ کہ جب حاجی صاحبؒ جمعہ میں خطبہ سے قبل بیان فرماتے
 اور قرآن کی کوٸی آیت تلاوت فرماتے
 تو وہ میری طرف اشارہ کرکے فرماتے کہ پوچھ لو یہاں حافظ صاحب بیٹھے ہوۓ ہیں
قرآن کی آیت ہے کہ نہیں؟
میں عمومًا دوسری صف میں سامنے بیٹھا ہوتا 
اللہ اکبر کبیرا 
کیسی شان تھی انؒ میں
 جبکہ میں تو انؒ ہی کے علم  سے کشید کیا ہوا اک طفل مکتب تھا۔
اس زمانے میں حافظ بھی تو خال خال ہی ہوتے تھے 
حاجی صاحب کے استدلال سے لوگ میری طرف رشک آمیز نظروں سے دیکھنے لگتے
 اور مجھے محسوس ہوتا جیسے میں کوٸٕی آسمانی مخلوق ہوں
جو ابھی ابھی زمین پہ اترا ہوں
 عمر ہی کیاتھی یہی دس بارہ سال کے قریب۔
میں نے بارہا دیکھا انوارالعلوم کا پڑھاہوا جب کوٸی سینٸر طالب علم باہر سے
چھٹیوں میں گھر آکر مدرسہ ھذا کے اساتذہ سے بغرض ملاقات رخ کرتا
 تو جب حاجی صاحبؒ سے ملتا
 تو لگتا اُن ہی کا حقیقی بیٹا ہو
ہم لوگوں  کی طرف سے توجہ ہٹاکر اسی سے ہمہ تن گوش ہوجاتے
اور ہم لوگ سمجھتے لو بھٸی آج کا سبق گول ہوگیا
*اُٹھٸے کہ اب تو لذت خواب سحر گٸی۔۔۔۔*
اللّٰہ اکبر کیسا اونچا اخلاق تھا حضرتِ موصوفؒ کے اندر۔
حضرت حاجی صاحبؒ بڑے کھلے دل کے آدمی تھے۔
حاجی صاحبؒ کی کل چھ(٦) اولادیں تھی 
تین بیٹے اور تین بیٹیاں
بیٹے اس طرح ہیں
پہلے عبدالطیف صاحب جو پردھان اور پوسٹ مین بھی تھے
دوسرے عبدالرقیبصاحب جو پیداٸشی گونگے تھے 
دونوں مرحوم ہوچکے ہیں
 تیسرے اسلام صاحب ہیں جو الحمدللّٰہ ابھی حیات ہیں 
اور حاجی صاحب کی آخری نشانی ہیں
جن کا مکان گاٶں کے سب سے پرانے بزرگ ۔معمّر  اور بوڑهے برگد کے سامنے ہے ۔
اور بیٹیاں اس طرح ہیں
آمنہ بی بی۔
سیمون بی بی 
طیمون بی بی۔
یہ سب کے سب اللہ کو پیاری ہوچکی ہیں 
اللہ تعالی سب کو جنت نصیب کرے آمین
محترم ناظرین! 
آپ 
حضرت حاجی صاحب جیسے قدآور ہستی کی روداد پڑھ کر یہ محسوس کر رہے ہوں گے کہ آپ کا مکان بھی کو ٸی محل نما ہوگا
مگر نہیں ایسا کچھ نہیں ہے
بلکہ اک کھپڑیل ہے 
اسی کاخِ فقیری میں آپ نے پوری زندگی گذاردی
گویا زبانِ حال سےیہ شکستہ مکان بتا رہاہے
*دنیا میں ہوں، دنیا کا طلبگار نہیں ہوں*
*بازار سے گذرا ہوں خریدار نہیں ہوں* 

چلۓ محترم! مغرب کی اذان ہوا چاہتی ہے
 صغیر بھاٸی کے تخاطب نے فکر کے لامتناہی سلسلے کو ایک جھٹکے میں جدا کردیا ۔

اوووووووووووہ ۔۔۔۔۔۔۔ میرے اللہ 
بے ساختہ زبان سے اک سرد آہ نکل گٸی 
سچ کہاہے کہنے والے نے
*ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگٸے*
*کیسے کیسے ایسے ویسے ہوگٸے*

جھلملاتے ہوۓ جگنو جو استادِ گرامی کی یاد میں  پلکوں پہ جل اٹھے تھے، بڑی مشکل سے بجھاۓ،
الوداعی سلام کیا اور ہم قبرستان سے باہر نکل آۓ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔😭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آتی ہے ان کی یاد " میرے مطالعہ کی روشنی میں ✍️قمر اعظم صدیقی

" آتی ہے ان کی یاد " میرے مطالعہ کی روشنی میں 
✍️قمر اعظم صدیقی
                                   9167679924
انوار الحسن وسطوی کی شخصیت ادبی دنیا میں محتاج تعارف نہیں ۔ پچھلے چالیس برسوں سے تسلسل کے ساتھ آپ اردو کی خدمت انجام دے رہے ہیں ۔ درس و تدریس سے سبکدوشی کے بعد اردو کی خدمت کا دائرہ اور بھی وسیع ہو گیا ۔ صحت کی علالت کے باوجود آپ کی خدمت اردو کی لو مدھم نہیں ہوئ ہے ، آپ کے قلم کا جوہر آج بھی پورے آب و تاب کے ساتھ رواں دواں ہے۔ مسلسل آپ کے شخصی مضامین ، تبصرے و دیگر تحریریں پٹنہ سے شائع ہونے والے اردو روزنامہ قومی تنظیم، پندار ، تاثیر ، فاروقی تنظیم، عوامی نیوز و دیگر اخباروں میں منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔ آپ تقریباً 40 سالوں سے اردو تحریک سے منسلک رہ کر جو کارنامہ انجام دیا ہے وہ قابل تعریف بھی ہے اور قابل رشک بھی ان کے یہ کارنامے نئ نسلوں کے لیے سبق آموز ہیں ۔ آپ کی خدمت اردو کا اعتراف کئ نامور و مشہور ادیبوں نے کیا ہے ۔ مشہور و معروف ادیب و شاعر مرحوم پروفیسر ثوبان فاروقی صاحب سابق صدر شعبہ اردو آر این کالج ، حاجی پور نے جناب وسطوی کے تعلق سے آج سے چھ سال قبل لکھا تھا " انوار الحسن وسطوی ویشالی کے بابائے اردو ہیں " ۔ اپنے اس جملے کی وضاحت کرتے ہوۓ انہوں نے لکھا ہے : 
" انوار الحسن وسطوی کا شجرہ جنوں کئ واسطوں سے ہوتا ہوا مولوی عبدالحق سے جا ملتا ہے ۔ وہ یوں کہ انوار الحسن کا عشق اردو بھی حد جنون میں داخل ہوچکا ہے وہ اردو میں سوچتے ہیں اور خواب بھی اردو زبان میں ہی دیکھتے ہیں ۔ زبان اردو میں خواب دیکھنا بڑی بات ہے ۔ اس کا تعلق کسب و مجاہدہ سے نہیں ہے ، یہ فیضان قدرت ہے ، ایک عطیئہ خداوندی ہے ، جسے نصیب ہو جائے ۔ " ( ماخوذ : " نقوش قلم " کے بیک کور سے) 
 پروفیسر فاروق احمد صدیقی سابق صدر شعبہ اردو ، بہار یونیورسٹی ، مظفرپور نے جناب وسطوی کے تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے : 
"بہار میں اردو تحریک کا موجودہ منظر نامہ جن خادمان اردو کے ناموں سے معتبر اور منور ہے ، ان میں ایک بے حد اہم اور نمایاں نام جناب انوار الحسن وسطوی کا بھی ہے جو ایک معروف و ممتاز قلم کار کی حیثیت سے بھی اردو کے علمی اور ادبی حلقوں میں قدر و احترام کی نظروں سے دیکھے جاتے ہیں۔ اردو زبان و ادب سے ان کا والہانہ عشق کسی سوگند اور گواہ کا محتاج نہیں۔ وہ بڑے خلوص،خموشی اور تسلسل کے ساتھ اردو زبان و ادب کی بھی خدمت کر رہے ہیں۔" 
(ماخوذ : "انعکاس قلم " کے بیک کور سے )
زیر مطالعہ کتاب " آتی ہے ان کی یاد " ٥١ مرحومین کی یادوں کا مجموعہ ہے ۔  
 مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی ، نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ " آتی ہے ان کی یاد "
 کے تعلق سے لکھتے ہیں کہ :
 " فی الوقت وقت میرے سامنے مرحومین پر لکھے گئے ان (انوار الحسن وسطوی ) کے بیش قیمت مضامین کا مجموعہ " آتی ہے ان کی یاد " ( یاد رفتگاں ) موجود ہے ۔ یہ اکاون (٥١) مرحومین کے احوال و آثار پر مشتمل ہے - ان میں نامور ، گمنام ، اہم اور غیر اہم سبھی قسم کے لوگ ہیں ۔ ان میں وہ بھی ہیں جن سے انوار الحسن وسطوی صاحب کی ملاقات رہی ہے اور وہ بھی ہیں جن سے ان کی ملاقات نہیں ہو سکی ۔ وسطوی صاحب کا قلم دونوں پر یکساں چلا ہے اور خوب چلا ہے۔ سہل اسلوب اور وسیع الفہم تعبیر کے ذریعہ مرحومین کی ایسی تصویر کشی کی گئی ہے کہ حیات و خدمات اور احوال و آثار کا پورا مرقع سامنے آجاتا ہے ۔ سارے مضامین میں شخصیتوں کی محبت ، عقیدت و الفت کی جلوہ گری نے مندرجات کو خشک اور سپاٹ ہونے سے بچا لیا ہے۔ حرف حرف روشنی اور سطر سطر میں خلوص کا بحر بیکراں موجزن ہے ۔ ( فلیپ کور سے )
    ڈاکٹر ظفر انصاری ظفر اسسٹنٹ پروفیسر ، شعبہ اردو، الہ آباد یونیورسٹی لکھتے ہیں کہ 
 پیش نظر مجموعہ مضامین " آتی ہے ان کی یاد " ان کے ٥١ مضامین پر مشتمل ہے ، جس میں انہوں نے نے علم و ادب شعر و سخن اور سماجی و سیاسی خدمات سے وابستہ ٥١ شخصیتوں کا تفصیلی تعارف پیش کیا ہے ۔ ان میں کچھ ملک گیر بلکہ عالمگیر شہرت کی حامل شخصیات بھی ہیں اور کچھ علاقائی افراد و اشخاص بھی ہیں جو اپنی بیش بہا علمی ، ادبی ، سماجی و سیاسی خدمات کے باوجود پردہ خفا میں پڑے ہوۓ ہیں ۔ انہوں نے ایسی شخصیات کو اپنی توجہ کا مرکز بنا کر ایک اہم کارنامہ انجام دیا ہے ، جسکی انہیں ضرور داد ملنی چاہیے ۔ ( بیک کور سے )
زیر مطالعہ کتاب کے صفحہ چار ، پانچ پر مصنف کا سوانحی خاکہ درج ہے ، جبکہ صفحہ چھہ سے آٹھ تک مضامین کی فہرست ہے۔ پیش لفظ کی تحریر مصنف نے خود سپرد قلم کیا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کتاب کی اصل خوبی یہ ہے کہ مصنف نے غیر معروف لوگوں کو قدر کی نگاہوں سے دیکھا اور ان کی خوبیوں کو اجاگر کر کے پکی روشنائی میں قلم بند کر دیا اور ہمیشہ کے لیے ان کی خدمات کو محفوظ کر دیا۔
بڑے ادیبوں ، شاعروں ، افسانہ نگاروں ، تنقید نگاروں ، صحافیوں ، علمائے کرام ، دانشور حضرات پر تو بہت لکھا جاتا رہا ہے ۔ اور لکھا جاتا رہے گا ۔ 
معروف شخصیتوں کے درمیان سے ویسے شخص کو تلاش کرکے ان کی خدمات کو منظرعام پر لانا جنہوں نے گمنامی کی زندگی گزاری اور اپنی خدمات کو اجاگر نہیں کر پائے یہ اپنے آپ میں ایک بڑا کام ہے ۔ مصنف کا یہ کارنامہ قابل قدر بھی ہے اور قابل ستائش بھی ہے۔ اس چھوٹی سی تحریر میں تمام مضامین کی تفصیل آپ حضرات کے سامنے لائی جائے یہ ممکن تو نہیں ہے لیکن بطور نمونہ چند گمنام شخصیتوں کے اوپر لکھی گئی چند باتیں آپ کے سامنے رکھنے کی سعی کرتا ہوں ۔
صفحہ 31 پر حمید ویشالوی کے تعلق سے اپنی تحریر میں مصنف نے لکھا ہے :
     " حمید ویشالوی ایک ماہر فن اور قادر الکلام شاعر تھے لیکن شہرت اور ناموری کی جانب سے ہمیشہ بے نیاز رہے۔ ادب کی دنیا میں اپنی پہچان بنانے کی کبھی کوشش نہیں کی " (ص - 31)
انوارالحسن وسطوی اپنے ہی موضع حسن پور وسطی کے غیر معروف شاعر جناب خیر وسطوی کے تعلق سے لکھتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی بھی تعلیمی سند نہ تھی اس کے باوجود وہ اپنی فطری ذہانت، ذاتی مطالعہ اور اہل علم و دانش کی صحبتوں میں بیٹھ کر اپنے اندر بہترین علمی صلاحیت پیدا کر لی تھی۔ ان کا مطالعہ اتنا وسیع تھا کہ قرآن و حدیث کے ترجمے اور تفسیر بہت ہی اعتماد کے ساتھ بیان کرتے تھے ۔وہ کہنہ مشق شاعر تھے ان کی باتیں عالمانہ اور مدلل ہوتی تھیں۔ انیس سو چھیالیس
(1946 ء) میں انہوں نے باضابطہ اپنی شاعری کا آغاز کردیا تھا ۔ کلکتہ اور اس کے اعتراف کے مشاعروں میں شریک ہونے کا بھی ذکر مصنف نے کیا ہے ۔ خیر وسطوی کو جگر مراد آبادی ، آرزولکھنوی ، ناطق لکھنوی ، جوش ملیح آبادی ، علامہ اقبال ، مولانا ابوالکلام آزاد ، محمد علی جناح ، گاندھی جی وغیرہم سے بھی ملاقات کا شرف حاصل تھا باوجود اس کے خیر وسطوی غیر معروف رہے۔ انوار الحسن وسطوی نے اپنی تحریر کے ذریعہ خیر وسطوی کی شخصیت کو اجاگر کرنے کی جو سعی کی ہے وہ قابل ستائش ہے ۔ 
      رحمت بہاری کے تعلق سے انوارالحسن وسطوی لکھتے ہیں کہ رحمت بہاری " اردو اور بجکا " زبان کے ایک زود گو ، قادرالکلام اور فی البدیہ شاعر تھے لیکن گوشۂ گمنامی کے اسیر رہ گۓ ۔ موصوف لکھتے ہیں : 
" رحمت بہاری کا کوئی مجموعہ کلام تو شائع نہیں ہوا لیکن وہ اپنے کلام کو کتابچہ ، پوسٹر اور ہینڈ بل کی شکل میں شائع کرایا کرتے تھے اور انہیں علاقے کی علمی و ادبی شخصیتوں کے درمیان تقسیم کر دیتے تھے ۔ جس کے سبب ان کی شاعری کا چرچا پورے علاقے میں ہوا اور ان کے انتقال کو نصف صدی سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی ان کے اردو اور بجکا کے اشعار لوگوں کی زبان پر ہیں۔ ان کی دو طویل نظمیں "زرنامہ" اور "معجون مرکب" بہت مشہور ہوئی تھیں جو اب بھی نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی، بکساماں مہوا میں موجود ہے "
 (ص - 60 )
مصنف نے زاہد جمال صاحب استی پور ، حاجی پور ، کے تعلق سے بھی بہت ہی تفصیلی معلومات فراہم کی ہیں ۔ زاہد جمال صاحب ایک کامیاب تاجر ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ہی خوش مزاج ، ملنسار اور مہمان نواز انسان تھے ۔ علما و دانشور حضرات کے قدر داں تھے ۔ غریب امیر کا آپ کے اندر کوئی امتیاز نہ تھا ۔ آپ کی اردو دوستی بھی قابل قدر تھی ۔ آپ انجمن ترقی اردو ضلع ویشالی کے عرصہ تک خازن بھی تھے ۔ اللہ نے آپ کو ایک حادثاتی موت کے بعد ہمیشہ ہمیش کے لیے اپنے پاس بلا لیا ۔ 
 " حافظ شمیم احمد کے تعلق سے مصنف موصوف لکھتے ہیں کہ:
     "حافظ شمیم صاحب نے محلہ مڑئ ،حاجی پور کی مسجد میں تقریباً ربع صدی تک امامت کے فرائض انجام دیے تھے۔ مرحوم نے محلہ باغ دلہن کی مسجد میں بھی چند برسوں امامت کی تھی ۔ موصوف چونکہ نابینا تھے اس لیے انہیں تنخواہ کی صورت میں جو کچھ مل جاتا تھا اسے وہ غنیمت سمجھتے تھے اور باشندگان محلہ حافظ صاحب کی اس مجبوری کا فائدہ اٹھا کر ان کا استحصال کرتے تھے " ( ص - 119 )
مصنف اپنے استاد محترم جناب محمد زبیر مرحوم سابق وائس پرنسپل ٹیچرس ٹرینگ کالج دگھی ، حاجی پور کے متعلق لکھتے ہیں کہ : 
        " زبیر صاحب مرحوم ایک مثالی شخصیت کے مالک تھے ۔ خود غرضی اور نفس پرستی سے انہیں دور کا بھی واسطہ نہیں تھا ۔ تکبر گھمنڈ کو انہوں نے کبھی اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیا ۔ اخوت ان کی ذات تھی اور محبت ان کا مسلک تھا ۔ حق گوئی اور بے باکی ان کا شیوہ تھا ۔ وہ محبت اور خلوص کے پیکر تھے ۔ ہر چھوٹے بڑے کے ساتھ سلام و کلام میں پہل کرنا ان کی عادت تھی جس پر وہ زندگی بھر عمل کرتے رہے ۔ 
مرحوم کے اندر گرچہ بہت ساری خوبیاں موجود تھیں لیکن ان کی ایک خوبی حد سے زیادہ قابل تعریف اور طریقہ رسول کے عین مطابق تھی وہ ہے ان کی قوت برداشت اور خطاؤں کو معاف و درگزر کرنے کا جزبہ ۔ ( ص - 203 )
مصنف نے موصوف کے تعلق سے مزید تحریر فرمایا ہے کہ : 
" مرحوم محمد زبیر صاحب حاجی پور کے مسلمانوں کی فلاح کے لیے بے حد خواہاں تھے ۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ حاجی پور کی مسلم بچیوں کے لیے کوئی اقلیتی ادارہ قائم کیا جائے جہاں یہ بچیاں اسلام کے دائرہ میں رہ کر تعلیم و تربیت حاصل کر سکیں ۔ باشندگان حاجی پور کی عدم توجہی کی وجہ سے مرحوم کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا " (صفحہ 205 )
اس طرح کے گمنام لوگوں کی اس کتاب میں بڑی تعداد موجود ہے ۔ جسے مصنف نے گوشۂ گمنامی سے نکال کر اس کتاب کی زینت بنایا ہے اور ان مرحومین شخصیتوں سے لوگوں کو متعارف کرایا ہے جس کے لیے میں پھر ایک بار جناب انوارالحسن وسطوی صاحب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ اس طرح کے لوگوں پر ضرور لکھا جانا چاہئے جس سے کہ آنے والی نسلیں ان کی خوبیوں کو جان سکیں اور ان کی زندگی کو اپنا مشعل راہ بنا سکیں ۔ 
بخوف طوالت یہاں تمام تحریروں کا ذکر کرنا ممکن نہیں ہے۔ ویسے غیر معروف لوگوں میں سید فصیح الدین احمد ، عبدالمغنی صدیقی ایڈوکیٹ ، شبیر احمد ، شمش الحق ، مولانا طاہر حسین ، مولانا محی الدین ، مولانا محمد شمس الہدیٰ ، محمود عالم ، محمد جمیل ایڈوکیٹ ، محمد نور الہدیٰ رحمانی ، محمد داؤد حسن ، محمد ذکریا ذکی ، محمد یوسف انجینیر ، مولانا نظام الدین خلش وغیرہم کے نام قابل ذکر ہیں جنہیں مصنف نے اپنی کتاب میں جگہ دی ہے اور ان تمام لوگوں کی خوبیوں کو اجاگر کر کے گوشۂ گمنامی سے نکالنے کی کوشش کی ہے ۔ 
ایسا نہیں ہے کہ مصنف نے صرف غیر معروف شخصیتوں کو ہی اپنی تحریر کا موضوع بنایا ہے بلکہ چند مشہور و معروف شخصیات کا ذکر بھی اس کتاب میں بہت ہی بہتر انداز میں کیا گیا ہے جن کے نام حسب ذیل ہیں : 
مولانا ابوالکلام آزاد ، ڈاکٹر ذاکر حسین ، ڈاکٹر رضوان احمد ، مولانا شفیع داؤدی ، عزیز بگھروی ، پروفیسر قمر اعظم ہاشمی ، قیوم خضر ، مولانا مظہر الحق ، مولانا محمد علی جوہر ، مولانا محمد سجاد رح ، ڈاکٹر مغفور احمد اعجازی ، پروفیسر وہاب اشرفی وغیرہم کے نام قابل ذکر ہیں۔
        " آتی ہے ان کی یاد " قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے مالی تعاون اور المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ دربھنگہ کے زیر اہتمام شائع ہوئی ہے جس کی کمپوزنگ احمد علی ، برلا مندر روڈ پٹنہ نے کی ہے ۔ اور طباعت روشان پرنٹرس نئ دہلی سے ہوئ ہے جو 288 صفحات پر مشتمل ہے۔ جسکی قیمت صرف 176 روپیہ ہے جو بہت مناسب معلوم ہوتی ہے۔ اس کتاب کا ٹائٹل پیج بھی بہت دلکش اور خوبصورت ہے۔ مصنف نے اس کتاب کا انتساب " ڈاکٹر ممتاز احمد خاں " سابق ایسو شی ایٹ پروفیسر، بہار یونیورسٹی ، مظفر پور کے نام کیا ہے۔ واضح ہو کہ ڈاکٹر ممتاز احمد خاں اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔ مرحوم نے اس کتاب کی اشاعت پر اپنی مسرت کا اظہار کیا تھا اور اسے بنظر تحسین دیکھا تھا ۔ 
امید قوی ہے کہ دوسری کتابوں کی طرح انوار الحسن وسطوی کی زیر مطالعہ کتاب بھی بنظر تحسین دیکھی جایے گی ۔ سوانح نگاری سے شغف رکھنے والوں کے علاوہ رسرچ اسکالر بھی اس سے استفادہ کر سکتے ہیں ۔ کتاب کے تعلق سے مزید معلومات کے لیے مصنف کے موبائل نمبر 9430649112 سے رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔

ذات پر مبنی مردم شماری مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ذات پر مبنی مردم شماری 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 حکومت بہار نے مرکزی حکومت کے انکار کے باوجود بہار میں ذات کی بنیاد پر مردم شماری کا فیصلہ اپنے صرفہ سے لے لیا ہے،تیاری چل رہی ہے، خاکے بنائے جا رہے ہیں، جب ہر طرح سے تیاری مکمل ہوجائے گی تو تمام سیاسی پارٹیوں کی میٹنگ میں اسے آخری اور حتمی شکل دی جائے گی، اس سلسلے میں حکومت کو کسی دقت کا سامنا نہیں ہے، کیوں کہ اس معاملہ میں حزب مخالف بھی حکومت کے ساتھ ہے، جدیو ارکان پارلیامنٹ نے وزیر داخلہ کے توسط سے وزیر اعظم کو اس سلسلے میں مکتوب روانہ کیاتھا،اس کے باوجود ۲۰؍ جولائی ۲۰۲۰ء کو مرکزی حکومت نے پارلیامنٹ میں بیان دیا کہ ۲۰۲۱ء کی مردم شماری ذات کی بنیاد پر نہیں ہوگی، ۲۳؍ اگست کو تمام سیاسی پارٹیوں کے لیڈران کی ملاقات وزیر اعلیٰ کی قیادت میں وزیر اعظم سے ہوئی، اس ملاقات میں بہار سے بی جے پی کے وزیر معدنیات جنک رام نے بھی نمائندگی کی تھی، لیکن وزیر اعظم اپنی جگہ اٹل رہے، اور انہوں نے بہار ہی نہیں مہاراشٹر اسمبلی کی پاس شدہ تجویز کو بھی یہ کہہ کر رد کر دیا کہ دستور میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
اس سے قبل ۲۰۱۰ء میں پارلیامنٹ میں ذات کی بنیادپر مردم شماری کا سوال اٹھا تھا، اصولی طورپر حکومت نے اسے مان لیا تھا، لیکن یہ مردم شماری معاشی طورپر کمزور طبقات کے حوالہ سے کرائی گئی اوراس کے اعداد وشمار آج تک عام نہیںکئے گئے، وزیر اعظم نریندر مودی نے ۲۰۱۷ء میں روہنی کمیشن کی تشکیل کی، کمیشن نے پایا کہ دو ہزار چھ سو تینتیس(۲۶۳۳)پس ماندہ برادری میں سے ایک ہزار (۱۰۰۰)کو منڈل کمیشن کی سفارش کا فائدہ نہیں ملا ہے، اس کمیشن نے ۲۷؍ فی صد رزرویشن کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔
 ذات کی بنیاد پر مردم شماری کاکام نوے(۹۰) سال قبل ۱۹۳۱ء میں ہوا تھا، اس کے مطابق ہندوستان میں اونچی ذات کے برہمن ۷ئ۴، بھومی ہار ۹ئ۲، کائستھ ۲ء ۱ ؍ کل تیرہ (۱۳) فی صد تھے، اوسط معیار کی آبادیوں میں یادو ۰ئ۱۱، کوئری ۱ئ۴، کرمی ۶ئ۳، بنیا ۶ئ۰ کل ۳ء ۱۹؍ فی صد ہوا کرتے تھے، پس ماندہ برادری میں بڑھئی ۰ئ۱، دھانک ۸ئ۱، کہار ۷ئ۱، کانو ۶ئ۱، کمہار ۳ئ۱، لوہار ۳ء ۱، حجام ۶ئ۱، تتوا ۶ئ۱، ملاح ۵ئ۱، تیلی ۸ء ۲؍ فی صد تھے۔ایک فی صد سے نیچے رہنے والی پس ماندہ برادری ۱ء ۱۶، درج فہرست ذات۱ء ۱۴، درج فہرست قبائل ۱ء ۹، مسلمان ۵ئ۱۲، فی صد، اس فہرست میںدرج ہوئے تھے، منڈل کمیشن نے ذات کی بنیاد پر مردم شماری نہیں کرائی تھی، البتہ ہندوستان کی مجموعی آبادی پس ماندہ طبقات کا تخمینہ باون (۵۲) فی صد لگایا تھا، جسے ۲۷؍ فی صد رزرویشن دیا گیا تھا۔
ذات پر مبنی مردم شماری اگر ایمانداری سے کی گئی اور کسی کے ساتھ بھید بھاؤ نہیں برتا گیا تو اس کا فائدہ پس ماندہ طبقات کو ہوگا، محروم طبقات کی پہچان ممکن ہو گی اور سرکاری منصوبوںکی تیاری میں اس سے مدد ملے گی ، اور اگر سرکار کی یہ کوشش کامیاب ہوگئی تو بہار پورے ملک کے لیے رول ماڈل بن جائے گا، اور نتیش کے اس اعلان کو تقویت ملے گی کہ جو ہم پانچ سال قبل سوچتے ہیں، پورا ملک اس تک پانچ سال بعد پہونچتا ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...