Powered By Blogger

منگل, نومبر 05, 2024

مسلم برادرہڈفاؤنڈیشن کو مبارکباد !

مسلم برادرہڈفاؤنڈیشن کو مبارکباد !
 Urduduniyanews72 
ممبئی شہر میں ٹاٹا ہسپتال کے سامنے مفت کھانا تقسیم ہورہا ہے، ایک لمبی لائن لگی ہوئی ہے، اسی بیچ ایک باحجاب مسلم خاتون بھی کھڑی ہے،ایک شخص خاتون سے یہ کہتا ہے کہ؛"جے شری رام کا نعرہ لگاؤ یا لائن سےہٹ جاؤ"یہ سن کر وہ بحث کرتی ہے کہ مفت کھانا دیا جارہا ہے پھر یہ شرط کیوں؟ میں نعرہ نہیں لگاسکتی، اسی لئےاسے کھانا نہیں ملتا ہے۔
 اس واقعہ کی ویڈیو گزشتہ کئی دنوں سے سوشل میڈیا میں وائرل ہورہی ہے، لاکھوں کروڑوں لوگوں نے اسے دیکھا ہے، کسی نےبھی اس عمل کو پسند نہیں کیاہے،نیزمیڈیا میں اپنے تبصروں کے ذریعہ  زبانی طور پر اس بات کا کھل کر اظہاربھی کیا ہے، یہ بھی ایک جواب ہے،اس پر تمام سیکولر اور انصاف پسند بھائیوں کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے،مگر مسلم برادرہڈ فاؤنڈیشن کے ذمہ داروں نےجوعملی جواب دیاہے وہ بہت ہی لائق تحسین اور قابل صد مبارکباد ہے۔
فاؤنڈیشن کے مسلم بھائیوں نے اپنے سروں پر ٹوپیاں رکھ کر مفت کھانا بلاتفریق بھوکوں میں تقسیم کیا ہے، یہ منظر بھی کیمرہ نے قید کرلیا ہے،ایک بھائی یہ کہ رہے ہیں کہ؛"اللہ اکبر بولنے کی ضرورت نہیں ہے، بھوک لگی ہے کھانا کھاؤ، کیا نام ہے تمہارا، شرن بھائی آپ بنداس کھاؤ ،ٹینشن مت لو ۰۰۰
اس کی ویڈیو بھی تیزی سے پھیلتی جارہی ہے، ہرکوئی پسندیدگی کی نگاہ سے اس عمل کو دیکھ رہا ہے، اس کے بعدہی ملک بھر میں مفت کھانا تقسیم کا سلسلہ جاری ہوگیا ہے، حتی کہ مسلم بھائی مندروں کے سامنے پہونچ کربھی بلاتفریق مذہب وملت اس عمل کو انجام دے رہے ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلم فاؤنڈیشن کا یہ مبارک مخلصانہ عمل قبولیت سے ہمکنار ہوگیا ہے، وہ اس لئے کہ انہوں نےصرف کھانا تقسیم نہیں کیا ہے بلکہ بھوکوں کو کھلانے کا اسلامی طریقہ نھی پیش کردیا ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے؛اور کھلانے ہیں کھانا اس کی محبت پر محتاج کو، یتیم کو اور قیدی کو۰۰
ہم جو تم کو کھلاتے ہیں سو خالص اللہ کی خوشی چاہیے نہ کہ تم سے ہم چاہیں بدلہ اور نہ چاہیں شکر گزاری،( سورہ الدھر )
مذکورہ آیات میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ ایمان والوں کی شان وپہچان یہ ہے کہ وہ ضرورت مندوں کو کھلاتے ہیں اور انمیں تفریق نہیں کرتے ہیں، تاریخ اسلام کا یہ واقعہ مشہور ومعروف ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بدر کے قیدیوں کے بارے میں یہ حکم دیا تھا کہ ان کےساتھ اچھا سلوک کرو، جو کھاتے ہو وہی کھلاؤ، چنانچہ صحابہ کرام نے اپنے سے اچھا کھانا انہیں کھلایا، جب کہ یہ مسلمانوں کی قید میں تھے اور غیر مسلم تھے۔
قرآن کریم یہاں پر اس چیز کی بھی وضاحت کرتا ہے کہ یہ کھلانے کا عمل ان کا خالص اللہ کی خوشی اور خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہوتا ہے، یہ کھلانے کے بعد بدلہ یا کسی طرح کا معاوضہ یا کوئی شکریہ ونعرہ کےامیدوار نہیں ہوتے ہیں۔
واقعی مسلم بردارہڈ فاؤنڈیشن نے اپنے عمل کے ذریعہ درحقیقت قرآن کی عملی تفسیر پیش کی ہے، بلاتفریق ضرورت مندوں کو کھلایا، اور یہ واضح پیغام دیا کہ ب کہ ہمیں تم سے نہ کوئی بدلہ چاہیے اور نہ  ہم کسی شکریہ کے امیدوار ہیں،نیز کھانے کے لئے تمہیں کوئی اسلامی نعرہ لگانے کی ضرورت نہیں ہے،تمہیں بھوک لگی ہے تم اس کھانے کے مستحق ہو، تمہارا نام شرن ہے یاشفیق ہے،یہ تمہارا واجبی حق ہے، تم ٹینشن نہ لو اور اس بات کی فکر نہ کرو کہ ہم مفت میں کھاریے ہیں۔
فاؤنڈیشن کے اس عمل کی ملک بھر میں پذیرائی ہورہی ہے، ساتھ ہی ساتھ اسلام کی سچی تصویر پوری دنیا میں گئی ہے، باری تعالٰی شرف قبولیت سے نوازے  اجر جزیل عطا فرمائے، دعا کیجئے کہ یہ عمل جاری وساری رہے، اس وقت وطن عزیز میں عملی دعوت کے ذریعہ ہی اسلام کی اشاعت کی جاسکتی ہے اور نفرت کا خاتمہ ممکن ہے۔ہمیں عمل کی توفیق نصیب ہو۔
آمین یارب العالمین 
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
جنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری 
۲/جمادی الاولی۱۴۴۶ مطابق ۵/نومبر ۲۰۲۴ء

*علیحدگی کے بجائے ہم آہنگی*

*علیحدگی کے بجائے ہم آہنگی*
Urduduniyanews72 
دنیا کے موجودہ حالات میں "ہم آہنگی" کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ عالمی سطح پر سیاست، مذہب، نسلی و ثقافتی اختلافات اور قومی مفادات کے باعث پیدا ہونے والے تنازعات نے دنیا کو شدید تقسیم کا شکار کر دیا ہے۔ مختلف اقوام اور فرقوں کے مابین بڑھتی ہوئی دوریوں نے معاشروں کے امن و امان اور ترقی کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس صورت حال میں علیحدگی کے بجائے ہم آہنگی کی ضرورت کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ مضمون اسی اہم موضوع پر روشنی ڈالتا ہے کہ ہم آہنگی کیسے انسانی فلاح و بہبود اور عالمی ترقی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
علیحدگی کا مطلب یہ ہے کہ اختلافات کو ختم کرنے کی بجائے مختلف گروہوں یا قوموں کو الگ کر دیا جائے۔ یہ رجحان افراد اور معاشروں کے درمیان دوریاں بڑھاتا ہے۔ علیحدگی اکثر غلط فہمیوں اور نفرت کو فروغ دیتی ہے، جو کہ معاشرتی ہم آہنگی کو ختم کر دیتی ہے۔ اس کے علاوہ، علیحدگی سے اقتصادی ترقی میں بھی رکاوٹ آتی ہے، کیونکہ جب معاشرے تقسیم ہو جاتے ہیں تو ان کے وسائل اور صلاحیتیں منتشر ہو جاتی ہیں۔
ہم آہنگی کا مطلب ہے کہ مختلف طبقات، گروہوں، یا قوموں کے درمیان باہمی احترام اور تعاون کا فروغ دیا جائے۔ یہ اصول انسانیت کی بنیادی اقدار کو اجاگر کرتا ہے جیسے کہ برداشت، صبر، انصاف اور مساوات۔ ہم آہنگی کے ذریعے مختلف لوگوں میں بھائی چارہ اور اتفاق پیدا ہوتا ہے جو کہ امن اور ترقی کے لیے لازمی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہم آہنگی کو فروغ دے کر ہی فلاحی معاشرے کی بنیاد رکھی گئی ہے۔
آج کے دور میں جب دنیا ایک عالمی گاؤں کی شکل اختیار کر چکی ہے، ہم آہنگی کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے ہمیں ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے، مگر بدقسمتی سے بعض سیاسی اور مذہبی مسائل نے ہمارے معاشروں میں تقسیم پیدا کر دی ہے۔ مثلاً مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں جاری کشیدگی، مذہبی انتہاپسندی اور عالمی سطح پر پناہ گزینوں کے مسائل، یہ سب مثالیں ہیں کہ ہم آہنگی کے بغیر مسائل کیسے پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔
اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں بچوں کو امن، برداشت اور بھائی چارے کی تعلیم دی جائے۔ اس سے نوجوان نسل میں ہم آہنگی کا شعور پیدا ہوگا اور وہ مستقبل میں معاشرتی مسائل کو بہتر انداز میں حل کر سکیں گے۔
مذاہب اور قومیتوں کے درمیان مکالمے کا فروغ ہم آہنگی کے لیے ضروری ہے۔ مکالمہ لوگوں کو ایک دوسرے کے خیالات کو سمجھنے کا موقع دیتا ہے اور غلط فہمیوں کو دور کرتا ہے۔
جب تک لوگوں کے حقوق کا تحفظ اور انصاف کا نظام مضبوط نہیں ہوگا، ہم آہنگی کا قیام ممکن نہیں ہو سکے گا۔ معاشرتی انصاف اور برابری کے بغیر کسی بھی معاشرے میں امن کا قیام ممکن نہیں ہے
میڈیا کو چاہیے کہ وہ عوام میں نفرت اور تفرقے کے بجائے امن اور ہم آہنگی کا پیغام دے۔ میڈیا کے   ذریعے مختلف قومیتوں اور مذاہب کے لوگوں کو قریب لایا جا سکتا ہےجب معاشرتی نظام میں مساوات اور معاشی انصاف ہو تو اس سے عوام میں سکون اور ہم آہنگی کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔
دنیا کے موجودہ حالات میں ہم آہنگی کی ضرورت ناگزیر ہے۔ جب مختلف گروہ اور قومیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں گی تو ہی ایک خوشحال، پر امن اور ترقی یافتہ معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔ علیحدگی کی سیاست اور منفی جذبات کو ترک کر کے ہمیں برداشت، بھائی چارے اور ہم آہنگی کو فروغ دینا ہوگا۔ یہ نہ صرف ہماری اجتماعی فلاح کے لیے ضروری ہے بلکہ عالمی امن اور سلامتی کے لیے بھی ایک لازمی امر ہے۔
طالب دعاء: احمد علی ندوی ارریاوی
استاذ خنساء اسلامک انگلش اسکول بہیڑہ ،دربھنگہ، بہار ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...