Powered By Blogger

جمعہ, جون 03, 2022

پٹرول پمپ ملازمین کسٹمر کے ساتھ کر رہے ہیں دھوکہ دہی ، جانئے کس طرح جھونک رہے آنکھوں میں دھول

پٹرول پمپ ملازمین کسٹمر کے ساتھ کر رہے ہیں دھوکہ دہی ، جانئے کس طرح جھونک رہے آنکھوں میں دھولعام لوگ پہلے ہی پٹرول کی قیمتوں سے پریشان ہیں۔ پٹرول پمپوں پر اس کے ساتھ ہونے والا فراڈ ان کی مشکلات میں اضافہ کر رہا ہے۔ کچھ پٹرول پمپ ملازمین مختلف طریقوں سے صارفین کو بے وقوف بنا کر اپنی جیبیں گرم کر رہے ہیں۔ اگر ہم کرناٹک کی راجدھانی بنگلورو کی بات کریں تو یہاں کے پٹرول پمپ ملازمین نے دھوکہ دہی کا ایک الگ طریقہ نکالا ہے۔ صارفین کی آنکھوں میں دھول جھونک کر یہ ملازمین بڑی آسانی سے انہیں لوٹ رہے ہیں۔ دھاندلی والے میٹر (Rigged Meters) ایک ایسا ہی طریقہ ہے جس کی مدد سے پٹرول پمپ کے ملازمین لوگوں کو دھوکہ دینے کا کام کر رہے ہیں۔ دکن ہیرالڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق جب کوئی کسٹمر اپنی گاڑی میں پٹرول بھروانے آتا ہے تو پمپ کا ملازم ایندھن بھرنے کے دوران پیٹرول کا بہاؤ روک دیتا ہے۔ آپ اسے اس طرح سمجھ سکتے ہیں۔ اگر کوئی کسٹمر 1000 روپے کا پٹرول مانگتا ہے تو پمپ کا ملازم پہلے 400 روپے کا پیٹرول ڈالتا ہے۔ پھر اس دوران وہ گاہک کو بتاتا ہے کہ بجلی چلی گئی ہے یا کوئی اور مسئلہ آ گیا ہے۔ اس لیے پٹرول گاڑی کی ٹنکی میں نہیں جا رہا ہے۔ پھر کچھ دیر بعد وہ وہاں سے دوبارہ پٹرول ڈالنا شروع کر دیتا ہے اور 600 روپے پر رک جاتا ہے، جب کہ اسے زیرو سے شروع کرنا چاہیے تھا۔ اس کے بدلے وہ کسٹمر سے 1000 روپے لیتا ہے جبکہ حقیقت میں وہ صرف 600 روپے کا پٹرول ڈالتا ہے۔ باقی 400 روپے پیٹرول پمپ کا ملازم اپنی جیب میں رکھتا ہے۔ خام تیل 10ڈالر سستا، کیا Petrol۔Diesel کی قیمتیں بھی ہوئیں کم، جانئے آج کے نئے دام

چانچ ہوئی تیز
ایک حکام کا کہنا ہے کہ پچھلے دو سالوں میں ریاست میں پٹرول پمپس پر دھوکہ دہی کے معاملات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ افسر کا کہنا ہے کہ کورونا وبا کے دوران پیٹرول پمپ کے معائنہ کے کام میں کمی آئی تھی جس کا فائدہ پمپ کے ملازمین نے اٹھایا تاہم اب دوبارہ تحقیقات تیز کردی گئی ہیں۔



پمپ آپریٹر نے کیا کہا؟
وہیں پیٹرول پمپ آپریٹرز petrol pump operators کا کہنا ہے کہ ملازمین کی دھوکہ دہی کی وجہ سے ان پر اکثر جرمانے لگائے گئے ہیں۔ آل کرناٹک فیڈریشن آف پٹرولیم ٹریڈرس کے صدر کے ایم۔ بسوے گوڑا کا کہنا ہے کہ الیکٹرانک میٹر کی وجہ سے دھوکہ دہی کا امکان بہت کم ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر پیرول پمپ چلانے والوں نے 25 ملی لیٹر پلس یا مائنس کا غلط استعمال کیا ہے تو اس پر کوئی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ لیکن حکام صرف 10 ملی لیٹر کی کمی پر ہی مقدمہ درج کرلیتے ہیں۔ پٹرول پمپ آپریٹرز نے گزشتہ سال بھی اس کی مخالفت کی تھی۔

یوپی کے یوگی___ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

یوپی کے یوگی___
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
یوپی کی یوگی حکومت مرکزکی مودی حکومت سے مسلم مخالف فیصلے لینے اور کرنے میں آگے بڑھنا چاہتی ہے، تاکہ وہ فرقہ پرست تنظیموں اور آر ایس ایس کی منظور نظر بن جائے، اور ریاست سے مرکز تک پہونچنے کا خواب حقیقت کا روپ دھارن کر سکے، اس کے لیے پہلا فرمان اپنے پہلے دور حکومت میں مدارس اسلامیہ کے لیے یوگی جی نے جاری کیا کہ مدارس والے اپنی معلومات ویب پورٹل پر اپ لوڈ کریں، مدارس کے ذمہ داران بھی اپنے طرز پر جینے کے عادی ہیں، اس لیے اپ لوڈ کرنے کی تاریخ میں توسیع کے با وجود اس کام کو کرکے نہیں دیا ۔
اتر پردیش میں حکومت سے منظور شدہ مدارس کی تعداد ۱۹۱۴۳ہے، حکومت سے امداد صرف پانچ سو ساٹھ مدارس کو ملتی ہے، ڈاٹا اپ لوڈ کرنے کا حکم منظور شدہ سبھی مدارس کے لیے تھا ، ۱۶۴۶۱ مدارس نے ہی اس حکم کو تسلیم کیا ، ۲۶۸۲ مدارس کی تفصیلات اپ لوڈ نہیں ہوئیں، جن میں عالیہ سطح کے ۸۳۶ غیر امدادیافتہ مدارس بھی شامل ہیں، جب کہ عالیہ سطح کے منظور شدہ مدارس کی تعداد وہاں ۴۵۳۶ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف ۳۷۰۰ نے ہی ان میں سے ڈاٹا آن لائن اپ لوڈ کیا ہے۔ خبر ہے کہ وزیر تعلیم نے ایک بار پھر ڈاٹا فراہم کرنے کی تاریخ میں توسیع کر دی ہے اور کہا ہے کہ مدارس کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے حکومت کے پاس تفصیلات کا ہونا ضروری ہے ، اس کا مطلب ہے کہ حکومت کی نیت صاف ہے ، اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ہمیں تو کچھ دال میں کالا ہی نظر آتا ہے ، اور اس کو تقویت اس فرمان سے ملتی ہے جس میں مدارس کو حب الوطنی کے ثبوت کے طور پر ۲۶؍ جنوری اور ۱۵؍ اگست کے پروگرام کی دیڈیو گرافی کرکے بھیجنے کو کہا گیا تھا۔اپنی نئی پاری میں یوگی جی نے نئے مدارس کو منظور ی دینے سے صاف انکار کر دیا ہے، اب کسی نئے مدرسہ کا الحاق نہیں ہوگا، اور نہ تنخواہ دی جائے گی۔
 مدارس والوں کو پریشان کرنے کے لیے یوگی حکومت نے ایک دوسرا فرمان یہ جاری کیا ہے کہ مدارس اسلامیہ میں بھی دوسرے مذاہب کے تہواروں کے موقع سے چھٹی دی جائے گی، اس کے لیے مدارس کی معمولات والی تعطیلات میں کٹوتی کرکے نئے سال کے لیے فرصت کی فہرست سازی کی گئی ہے،  اور ۹۲ سے گھٹا کر ۸۶ کر دیا گیا ہے، اس کی وجہ سے رمضان ، عید، بقرعید کی چھٹیاں کم ہو گئی ہیں اور درگا پوجا، دیوالی، ہولی پر مدارس بند رکھنے کا فرمان جاری کیا گیا ہے، ایسا کسی دوسری ریاست میں نہیں ہے، یوگی حکومت کی مسلم مخالفت کا یہی حال رہا تو ممکن ہے آسام کی طرح جمعہ کی چھٹی منسوخ کرکے اتوار کو تعطیل کا دن نہ قرار دے دیا جائے، حالاں کہ اتوار بھی ہندو تو کے لیے کوئی ’’شبھ‘‘ دن تو ہے نہیں، اس فرمان پر مدارس والوں نے احتجاج درج کرایا تو اعلان آیا ہے کہ چھٹیاں کم نہیں کی گئی ہیں، بڑھا دی گئی ہیں، لیکن اس بڑھانے کے نتیجے میں تعلیم وتدریس کے ایام مزید کم ہوجائیں گے ، اور طلبہ کا سخت تعلیمی نقصان ہوگا، جو پہلے ہی اساتذہ کے غیر تدریسی کاموں میں مشغول ہو نے کی وجہ سے نصابی تعلیم کی تکمیل میں رکاوٹ کا سبب رہا ہے۔ 
تیسرا فرمان عدالت کے حکم کی روشنی میں مذہبی مقامات پر لاؤڈ اسپیکرسے متعلق آیا ہزاروں مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ آواز کی ترسیل کے چونگے اتار لیے گیے ہے اس فرمان کا اثر دوسرے مذاہب پر تو ہونے سے رہا ، وہ مثل مشہور ہے کہ ’’سیاں بھئے کوتوال اب ڈرکاہے کا‘‘ ان کے لیے تو یہی معاملہ ہوگا، رہ گیے مسلمان تو اس حکم کا اطلاق اس سختی سے مسلمانوں پر ہوگا، کہ مسجد کے منارے مائیک سے خالی ہو جائیں گے اورمحلہ کے لوگ اذان کی آواز سننے کے لیے ترس جائیں گے، دوسری اقلیتوں کو بھی فوری طور پر اس کام کے لیے تگ ودو شروع کرنی چاہیے، تاکہ بعد میں ان کے لیے مسائل نہ کھڑے ہوں، یہ توقع کرنا کہ یوگی جی کا یہ فرمان آخری ہے، بیوقوفوں کی دنیا میں رہنے کے مترادف ہوگا،کیوں کہ خود ان کی اپنی ذہنیت فرقہ واریت کے جراثیم سے تیار ہوئی ہے، دوسرے وہ اپنے آقا کو خوش کرنے کے لیے کوئی بھی حکم دے سکتے ہیں اور چوں کہ وہ بھاری اکثریت سے یوپی کی گدی پر براجمان ہوئے ہیں، اس لیے ان کا فرمان نافذ العمل بھی ہوگا۔اب اتر پردیش کی صور ت حال یہ ہے کہ سڑکوں پر جمعہ اور عیدین کی نمازوں پر بھی پابندی لگی ہوتی ہے ۔
ضرورت مسلمانوں کو تحمل برداشت کے ساتھ حالات سے مقابلہ کرنے کی ہے، وہاں کے علماء اور تنظیم کے ذمہ داروں کو بہت سوچ سمجھ کر منصوبہ بندی کرنی چاہیے، تاکہ مسلمانوں میں جو مایوسی پائی جا رہی ہے اس کو دور کیا جا سکے، اور اس بات کی کوشش کی جائے کہ مسلمانوں کے لیے وہاں عرصۂ حیات تنگ نہ ہو، مسلمانوں نے انتخاب کے موقع سے منصوبہ بندی نہیں کی، اس کی سزا وہ بھگت رہے ہیں، کم از کم جینے اور زندگی گزارنے کی منصوبہ بندی تو ایسی کرلیں کہ نئی نسلوں کے ایمان کی حفاظت ہو سکے، اور وہ پورے مذہبی اقدار کے ساتھ زندگی گذارنے کے لائق رہ سکیں۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...