Powered By Blogger

جمعرات, مارچ 17, 2022

جاپان میں زلزلے کے شدید جھٹکے بلٹ ٹرین پٹری سے اترگئ،٢٠لآکھ گھر بجلی سے محروم

جاپان میں زلزلے کے شدید جھٹکے بلٹ ٹرین پٹری سے اترگئ،٢٠لآکھ گھر بجلی سے محروم

ٹوکیو: جاپان کے کئی شہروں میں گزشتہ روز زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کئے گئے۔ زلزلے کے باعث 2 افراد ہلاک جبکہ 88 زخمی ہو گئے۔ زلزلے کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بلٹ ٹرین پٹری سے اتر گئی۔ جاپان کے محکمہ موسمیات نے سونامی کی وارننگ جاری کر دی ہے۔

جاپان میں آنے والے اس زلزلہ کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.3 درج کی گئی ہے اور اس کا مرکز راجدھانی ٹوکیو سے 297 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع تھا۔ جاپان کے محکمہ موسمیات کے مطابق زلزلے کا مرکز سمندر سے 60 کلومیٹر کی گہرائی میں تھا۔ زلزلے کے جھٹکے سب سے زیادہ میاگی اور فوکوشیما شہروں میں محسوس کئے گئے۔ دونوں صوبوں میں لوگوں سے ساحلی علاقوں سے دور رہنے کی اپیل کی گئی ہے۔ فوکوشیما میں ہی زلزلے سے دو افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

جاپان کی بلٹ ٹرین آپریٹر کمپنی کے مطابق توہوکو میں بلٹ ٹرین پٹری سے اتر گئی۔ اس وقت ٹرین میں 100 مسافر سوار تھے۔ تاہم ان میں سے کوئی بھی زخمی نہیں ہوا۔ جاپان کی ایسٹ نیپون کمپنی کے مطابق کئی ایکسپریس ویز کو نقل و حرکت کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ ان میں اوساکی میں توہوکو ایکسپریس وے، میاگی پری فیکچر اور سوما اور فوکوشیما کا جوبن ایکسپریس وے شامل ہیں۔

حکام کی جانب سے رہائشیوں کو آئندہ ہفتے کے دوران ممکنہ آفٹر شاکس سے خبردار کیا گیا ہے۔ حکام نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ خطرے والے مقامات اور کسی بھی منہدم عمارت سے دور رہیں۔

زلزلے کے جھٹکوں کے بعد جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو کے 20 لاکھ گھروں میں اندھیرا چھا گیا۔ اے ایف پی نے ٹوکیو الیکٹرک پاور کمپنی کے حوالے سے بتایا ہے کہ جاپان میں زلزلے کے بعد ٹوکیو تاریکی میں ڈوب گیا۔ زلزلے کے ان جھٹکوں نے جاپان کے لوگوں کو 2011 کی یاد تازہ کر دی۔ 11 مارچ 2011 جاپان کے لیے بے مثال حادثے کا دن تھا۔ اس دن شمال مشرقی جاپان کے ساحل پر 9 شدت کا زلزلہ آیا جس سے سونامی آئی جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔ آج بھی جاپان اس حادثے سے سنبھل نہیں سکا ہے۔ ان زلزلوں کے آفٹر شاکس میں 18 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اکیسویں صدی کے"ولی"کو میں نے کیسا دیکھا-ریحان غنی

اکیسویں صدی کے"ولی"کو میں نے کیسا دیکھا-
ریحان غنی
حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی علیہ رحمہ اکیسویں صدی کے ایک ایسے بزرگ تھے جن کی قیادت پر لوگوں کو بھروسہ تھااور جن کی لوگ دل سے قدر کرتے تھے کیوں کہ انہیں یقین تھا کہ یہ وہ شخضیت ہے جسے جرات و بےباکی ورثے میں ملی ہےاوروہ کسی بھی قیمت پر حالات سے سمجھوتہ نہیں کر سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کسی قیادت پر لوگوں کا بھروسہ اس قدر مضبوط ہو جاتا ہے تو" لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا" کے مصداق حالات سازگار ہوتے جاتے ہیں اور راستے کی تمام رکاوٹیں دور ہوتی چلی جاتی ہیں۔ حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی علیہ رحمہ بڑے عالم دین تھے یا بڑے سیاسی مدبر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل ہے کہ ان کی مضبوط شناخت ایک ملی رہنما کی حیثیت سے زیادہ ہےیا ایک بے باک مقرر اور خطیب کی حیثیت سےزیادہ ہے.اسی طرح یہ یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ وہ بڑے صحافی تھے یا بڑے مصلح قوم. لیکن یہ بات تو بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ قومی اور عالمی منظر نامے پر ان کی گہری نگاہ تھی۔ وہ طاقتور سے طاقتور حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرنا جانتے تھے. وہ چاہتے تھے کہ سیاسی تھپیڑوں سے مسلمانوں کوبچانے کے لئے انہیں ایک ایسا مضبوط پلیٹ فارم دیا جائے جو وقت آنے پر ان کے لئے ایک مضبوط ڈھال بن سکے۔

ان کی خواہش تھی کہ اس ملک میں ملت اسلامیہ کے افراد احساس کمتری سے نکل کر اپنا راستہ خود تلاش کریں اور عصری تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم مسلم لڑکے اور لڑکیاں پورے اسلامی تشخص کےساتھ تعلیم حاصل کریں؛ لیکن وہ مخلوط تعلیم کے شدید مخالف تھے.اسی لئے انہوں نے لڑکیوں اور لڑکوں کے لئے الگ الگ تعلیمی ادارے قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا. وہ مسلم دلت اتحادکے لئے بھی آخر وقت تک کوشاں رہے. عالم دین ہونے کی حیثیت سے انہوں نے کوشش کی کہ وہ جن اداروں سے بھی وابستہ ہیں وہ ادارے مثالی ہوں، ان کی اپنی شناخت ہو، ان اداروں کے کارکنان مخلص ایماندار اور محنتی ہوں، ان میں قوم و ملت کے لئے کچھ کر گذرنے کا جذبہ ہو. حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی علیہ رحمہ امارت شرعیہ بہار اڑیسہ اور جھارکھنڈ کے امیر َ، خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشیں، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سیکریٹری اور کئی دوسرے بڑے اداروں کے سربراہ تھے۔ ان کے کندھوں پر ذمہ داریوں کا زبردست بوجھ تھا.وہ باد مخالف میں چراغ روشن رکھنے کا فن جانتے تھے۔ وہ جن اداروں سے بھی وابستہ رہے انہیں مضبوط اور قوم وملت کے لئے مفید اور کارآمد بنایا. یہی وجہ تھی کہ جب انہوں نے"دین بچاؤ دیش بچاؤ" کا نعرہ دیا تو کیا امیر کیا غریب سب کے سب دیوانہ وار آن کی طرف دوڑ پڑے اور15اپریل 2018 کو پٹنہ کے گاندھی میدان کو بھر دیا.یہ وہ تاریخ ہے جسے دنیا ہمیشہ یاد رکھے گی۔ آزادی کے بعد گاندھی میدان میں لوگوں نے مسلمانوں کا اتنا بڑا اجتماع پہلی مرتبہ دیکھا تھا. اس دن ایک مجاہد کی حیثیت سے ہرکوئی اپنے دین اور ملک کوبچانے کے لئے ایک دوسرےپرسبقت لے جانا چاہتا تھا۔ یہ اسی "ولی" کی کرامَت تھی جو ہم سب سے3اپریل2021 کو ہمیشہ کے لئے جدا ہو گیا۔

حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی علیہ رحمہ اکیسویں صدی کے اوائل کے ایسے واحد عالم دین، ملی اور. مذہبی رہنما تھےجن کے لئے ملت اسلامیہ کے افراد نےان کی زندگی میں بھی دھوپ کی تمازت برداشت کی اور انتقال کے بعد بھی ان کے لئے چلچلاتی دھوپ میں گھنٹوں کھڑے رہے. وہ لوگ جنہوں نے 15 اپریل 2018 کو گاندھی میدان کا اورپھر 4اپریل2021 کومونگیر میں خانقاہ رحمانی کا منظر دیکھا ہے وہ میری اس بات کی تصدیق کریں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی علیہ رحمہ اکیسویں صدی کے ایسے عالم دین اور رہنما تھے جنہوں نے "خلوت یا حجرہ نشینی" کے بجائے" صحرا نوردی" کو ترجیح دی اور ہمیشہ "میدان عمل" میں دوسروں کے ساتھ کھڑے نظر آئے. انہوں نے آخر وقت تک اپنے کندھوں پر ذمہ دار یوں کا کبھی ختم نہ ہونے والا بوجھ اٹھانے رکھا. وہ ہمیشہ شجر سے پیوستہ رہے اور بہار کی آمید رکھی. مجھے یقین ہے کہ 15 اپریل 2018 کو" دین بچاؤ دیش بچاؤ کانفرنس " کا خاکہ بھی حضرت امیر شریعت علیہ رحمہ نے "پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ " کو سامنے رکھ کر ہی بنایا ہوگا لیکن وہ اس موقع پر ٹھیک اسی طرح سازش کے شکار ہو ئے جس طرح نبی آخرالزماں صل اللہ علیہ وسلم ایک موقع پر شکار ہوئے تھے اور انہیں مجبور ہو کر" قنوت نازلہ" پڑھنی پڑی تھی۔
حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی علیہ رحمہ کاہر معاملے میں اپنا نقطہ نظر تھا اور اپنی فکر تھی. وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی مرکزی حکومت نے 2020 میں نئی قومی تعلیمی پالیسی بنائی توحضرت امیر شریعت پہلے ملی رہنما اور عالم دین تھے جنہوں نے اس کا اردو میں ترجمہ کرایا تا کہ عام اردو داں اس سے واقف ہو سکے اوریہ سمجھ سکےکہ یہ اس کے لئے نقصان دہ ہے یا مفید۔ اس قومی تعلیمی پالیسی کے بارے میں ان کا مضبوط خیال یہ تھا کہ یہ پالیسی ملک میں ایک خاص فکر اور نظریے کے فروغ کے لئے بنائی گئی ہے جو سیکولر تانے بانے کو ملیا میٹ کر دے گی اور اس سے سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہوگا. انہوں نے اس خطرے کو پوری شدت سے محسوس کر لیاتھا کہ اس قومی تعلیمی پالیسی کے نفاذ سے سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کے مذہبی تشخص کو پہنچے گا اور انہیں اپنے بچوں کو اپنی مذہبی اور ثقافتی شناخت برقرار رکھتے ہوئے جدید تعلیم حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا. اس لئے انہوں نے مختلف طرح کے تعلیمی ادارے کھو لنے کی کوششیں تیز کردی تھیں َاور اس کے لئے تعلیمی بیداری مہم بھی شروع کر دی تھی. وہ چاہتے تھے کہ تمام اضلاع میں مسلمانوں کے اپنے معیاری تعلیمی ادارے ہوں جہاں بچے بچیاں پورے اسلامی تشخص کے ساتھ جدید تعلیم حاصل کر سکیں؛لیکن حضرت امیر شریعت کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا. امید ہے کہ امارت شرعیہ کی نئی قیادت اس طرف توجہ دے گی۔
حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی علیہ رحمہ کو اپنی مادری زبان سے بھی گہرالگاؤ تھا وہ سرکاری سطح پر اردو کے ساتھ ہونے والی نا انصافی سے بے چین ہو جایا کرتے تھے. وہ چاہتے تھے کہ اردو ہر سطح پر پھلے پھولے. شاید یہی وہ بے چینی تھی جس نے اردو کو "اردو کارواں" کی شکل میں ایک مضبوط پلیٹ فارم عطا کیا جس کے تحت اردو کے لئے لڑائی لڑی جا سکے. وہ نوجوانوں پر مشتمل ایک" اردو دستہ" بھی بنانا چاہتے تھے جو سڑکوں پر آ کر جمہوری طریقے سے اردو کے حقوق کی لڑائی لڑ سکے. امارت شرعیہ کی موجودہ قیادت کو حضرت امیر شریعت علیہ رحمہ کے خاکے میں رنگ بھرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ حضرت امیر شریعت کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند کرے اور ان کی قربانیوں اورخدمات کو قبول فرمائے آمین۔

پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کے خلاف انوکھا احتجاج

پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کے خلاف انوکھا احتجاجحیدرآباد ۔ 17 ۔ مارچ : ( اردو دنیا نیوز۷۲ ) : ملک میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہوجانے اور مزید اضافہ کی قیاس آرائیوں کے بعد غریب و متوسط طبقہ کے افراد کافی پریشان ہیں اور گاڑیوں کے استعمال کے بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرنے یا متبادل سواری کا انتظام کرنے کی حکمت عملی تیار کررہے ہیں ۔ مہاراشٹرا میں واقع ایک کالج کے لیاب اسسٹنٹ نے منفرد انداز میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی بائیک کو گھر میں چھوڑ دیا اور گھوڑ سواری کرتے ہوئے کالج جارہا ہے ۔ جس کی ویڈیو سوشیل میڈیا میں تیزی سے وائرل ہوگئی ہے ۔ تفصیلات کے بموجب اورنگ آباد سے تعلق رکھنے والے شیخ یوسف نے لاک ڈاؤن کے دوران ' جگر ' نامی گھوڑے کو خریدا ۔ پٹرول کی قیمتیں سنچری پار کرلینے کے بعد اب گاڑی کے بجائے گھوڑے پر سوار ہو کر کالج جارہے ہیں ۔ جن کی ویڈیو کو اے این آئی نیوز ایجنسی نے ٹوئیٹر پر شیئر کیا ہے ۔ جو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگئی ہے ۔ شیخ یوسف نے بتایا کہ گھوڑ سواری سے پٹرول کا خرچ بچ گیا ہے اور ان کی فٹنس بھی بہتر ہوگئی ہے ۔۔ ن

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...