حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی علیہ رحمہ اکیسویں صدی کے ایک ایسے بزرگ تھے جن کی قیادت پر لوگوں کو بھروسہ تھااور جن کی لوگ دل سے قدر کرتے تھے کیوں کہ انہیں یقین تھا کہ یہ وہ شخضیت ہے جسے جرات و بےباکی ورثے میں ملی ہےاوروہ کسی بھی قیمت پر حالات سے سمجھوتہ نہیں کر سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کسی قیادت پر لوگوں کا بھروسہ اس قدر مضبوط ہو جاتا ہے تو" لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا" کے مصداق حالات سازگار ہوتے جاتے ہیں اور راستے کی تمام رکاوٹیں دور ہوتی چلی جاتی ہیں۔ حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی علیہ رحمہ بڑے عالم دین تھے یا بڑے سیاسی مدبر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل ہے کہ ان کی مضبوط شناخت ایک ملی رہنما کی حیثیت سے زیادہ ہےیا ایک بے باک مقرر اور خطیب کی حیثیت سےزیادہ ہے.اسی طرح یہ یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ وہ بڑے صحافی تھے یا بڑے مصلح قوم. لیکن یہ بات تو بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ قومی اور عالمی منظر نامے پر ان کی گہری نگاہ تھی۔ وہ طاقتور سے طاقتور حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرنا جانتے تھے. وہ چاہتے تھے کہ سیاسی تھپیڑوں سے مسلمانوں کوبچانے کے لئے انہیں ایک ایسا مضبوط پلیٹ فارم دیا جائے جو وقت آنے پر ان کے لئے ایک مضبوط ڈھال بن سکے۔
حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی علیہ رحمہ اکیسویں صدی کے اوائل کے ایسے واحد عالم دین، ملی اور. مذہبی رہنما تھےجن کے لئے ملت اسلامیہ کے افراد نےان کی زندگی میں بھی دھوپ کی تمازت برداشت کی اور انتقال کے بعد بھی ان کے لئے چلچلاتی دھوپ میں گھنٹوں کھڑے رہے. وہ لوگ جنہوں نے 15 اپریل 2018 کو گاندھی میدان کا اورپھر 4اپریل2021 کومونگیر میں خانقاہ رحمانی کا منظر دیکھا ہے وہ میری اس بات کی تصدیق کریں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی علیہ رحمہ اکیسویں صدی کے ایسے عالم دین اور رہنما تھے جنہوں نے "خلوت یا حجرہ نشینی" کے بجائے" صحرا نوردی" کو ترجیح دی اور ہمیشہ "میدان عمل" میں دوسروں کے ساتھ کھڑے نظر آئے. انہوں نے آخر وقت تک اپنے کندھوں پر ذمہ دار یوں کا کبھی ختم نہ ہونے والا بوجھ اٹھانے رکھا. وہ ہمیشہ شجر سے پیوستہ رہے اور بہار کی آمید رکھی. مجھے یقین ہے کہ 15 اپریل 2018 کو" دین بچاؤ دیش بچاؤ کانفرنس " کا خاکہ بھی حضرت امیر شریعت علیہ رحمہ نے "پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ " کو سامنے رکھ کر ہی بنایا ہوگا لیکن وہ اس موقع پر ٹھیک اسی طرح سازش کے شکار ہو ئے جس طرح نبی آخرالزماں صل اللہ علیہ وسلم ایک موقع پر شکار ہوئے تھے اور انہیں مجبور ہو کر" قنوت نازلہ" پڑھنی پڑی تھی۔
حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی علیہ رحمہ کاہر معاملے میں اپنا نقطہ نظر تھا اور اپنی فکر تھی. وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی مرکزی حکومت نے 2020 میں نئی قومی تعلیمی پالیسی بنائی توحضرت امیر شریعت پہلے ملی رہنما اور عالم دین تھے جنہوں نے اس کا اردو میں ترجمہ کرایا تا کہ عام اردو داں اس سے واقف ہو سکے اوریہ سمجھ سکےکہ یہ اس کے لئے نقصان دہ ہے یا مفید۔ اس قومی تعلیمی پالیسی کے بارے میں ان کا مضبوط خیال یہ تھا کہ یہ پالیسی ملک میں ایک خاص فکر اور نظریے کے فروغ کے لئے بنائی گئی ہے جو سیکولر تانے بانے کو ملیا میٹ کر دے گی اور اس سے سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہوگا. انہوں نے اس خطرے کو پوری شدت سے محسوس کر لیاتھا کہ اس قومی تعلیمی پالیسی کے نفاذ سے سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کے مذہبی تشخص کو پہنچے گا اور انہیں اپنے بچوں کو اپنی مذہبی اور ثقافتی شناخت برقرار رکھتے ہوئے جدید تعلیم حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا. اس لئے انہوں نے مختلف طرح کے تعلیمی ادارے کھو لنے کی کوششیں تیز کردی تھیں َاور اس کے لئے تعلیمی بیداری مہم بھی شروع کر دی تھی. وہ چاہتے تھے کہ تمام اضلاع میں مسلمانوں کے اپنے معیاری تعلیمی ادارے ہوں جہاں بچے بچیاں پورے اسلامی تشخص کے ساتھ جدید تعلیم حاصل کر سکیں؛لیکن حضرت امیر شریعت کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا. امید ہے کہ امارت شرعیہ کی نئی قیادت اس طرف توجہ دے گی۔
حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی علیہ رحمہ کو اپنی مادری زبان سے بھی گہرالگاؤ تھا وہ سرکاری سطح پر اردو کے ساتھ ہونے والی نا انصافی سے بے چین ہو جایا کرتے تھے. وہ چاہتے تھے کہ اردو ہر سطح پر پھلے پھولے. شاید یہی وہ بے چینی تھی جس نے اردو کو "اردو کارواں" کی شکل میں ایک مضبوط پلیٹ فارم عطا کیا جس کے تحت اردو کے لئے لڑائی لڑی جا سکے. وہ نوجوانوں پر مشتمل ایک" اردو دستہ" بھی بنانا چاہتے تھے جو سڑکوں پر آ کر جمہوری طریقے سے اردو کے حقوق کی لڑائی لڑ سکے. امارت شرعیہ کی موجودہ قیادت کو حضرت امیر شریعت علیہ رحمہ کے خاکے میں رنگ بھرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ حضرت امیر شریعت کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند کرے اور ان کی قربانیوں اورخدمات کو قبول فرمائے آمین۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں