Powered By Blogger

ہفتہ, دسمبر 10, 2022

سی، ایم، بی، کالج میں عالمی یوم انسانی حقوق، کے موقع پر مذاکرہ کا انعقاد

سی، ایم، بی، کالج میں عالمی یوم انسانی حقوق، کے موقع پر مذاکرہ کا انعقاد
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مذہب اسلام میں اخوت ومساوات کی تعلیم روز اول سے دی گئی ہے . ڈاکٹر عبد الودود قاسمی
عالمی یوم انسانی حقوق کے موقع پراین، ایس، ایس، اکائی، سی ایم، بی کالج ڈیوڑھ گھو گھر ڈیہاکے زیر اہتمام ایک مذاکرہ کالج میں منعقد کیا گیا جس کی صدارت ڈاکٹر کیرتن ساہو(پرنسپل کالج) نے کی اور نطامت کے فرائض ڈاکٹر عبد الودود قاسمی نے انجام دی، پروگرام کا آغاز کر تے ہو ئے ڈاکٹر قاسمی نے اس دن کے منائےجانے کی اہمیت اور افادیت اور تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ 
 آج ١٠/دسمبر کو ہندوستان سمیت دنیا کے تمام ممالک میں  انسانی حقوق کا عالمی دن بڑے اہتمام سے منایا جارہاہے، یہ اخوت ومساوات اور انسانیت کے لئے بہت مثبت پہل اور بہتر قدم ہے. یہ دن آ ج سے 72/سال پہلے1948ءمیں اقوام متحدہ میں منظور کر دہ انسانی حقوق کے ایسے شاندار عالمی منشور کی یاد دلاتا ہے جسے یو نیورسل ڈیکلئریشن آ ف ہیومن رائٹس کا نام دیا گیا ہے. واضح رہے کہ 1948ء میں عالمی یوم انسانی حقوق منانے کی قراد داد پیش کی گئی تھی جس کے بعد 1950ء میں دسمبر کو اس کو قانونی حیثیت حاصل ہو ئی، اس اہم ڈے کو 28/ستمبر 1993ءکو ہندوستان میں بھی یوم انسانی حقوق کو نافذ کیا گیا، اسی سال بھارت میں 12/اکتوبر کو انسانی حقوق کمیشن کی تشکیل بھی عمل میں آئی تب سے لے کر آج تک ہندوستان میں بھی اس دن کو بڑے اہتمام سے منایا جاتا ہے،اس دن کے منانے کا مقصد دنیا بھر کے انسانوں کو قابل احترام مقام دینا ہے، انسانی حقوق کی پامالی کی روک تھام ہے، عوام میں ذمہ داریوں کا احساس پیدا کرنا ہے، مذہب اسلام آپسی محبت وروادار ی اور مساوات کا درس ابتدائے ایام سے دیتا آرہا ہے. اسلام کے پیغمبر نے اخوت ومساوات اور حقوق انسانی کی ادائیگی کا حکم یوں تو بالکل شروع دن سے ہی دیتے رہے،پیغمبر اسلام نے خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر انسانیت کی عظمت واحترام اور حقوق  پر مبنی جوابدی تعلیمات اور اصول عطا کیے وہ ساری دنیا کے لیے مشعل راہ ہیں اس پر اگر سو فیصد عمل کرلیا جایے تو کسی قسم کی ناہمواریاں سماج میں نہیں رہ جائیں گیں. کیونکہ ایک صحت مند معاشرے کا قیام ایک دوسرے کے حقوق وفرائض کی ادائیگی کے بغیر ناممکن ہے،مذکورہ باتیں ڈاکٹر عبدالود ود قاسمی (پروگرام آ فیسر این، ایس، ایس،سی، ایم، بی،کالج) نے اپنی باتوں میں کہیں ،پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر کیرتن ساہو نے کہا کہ دوسروں کے کام آنا ہی اصل زندگی ہے. کائنات کے تمام انسانوں کو برابر جینے اور زندگی گزارنے کا حق ہے. ڈاکٹر ہری شنکر رائے( بڑا بابو) نے کہا ہے دنیا میں جتنے مذاہب ہیں سب کے سب انسان دوستی اور آپسی بھائی چارے کی تعلیم دیتا ہے. کسی بھی بھید اور بھاو کی تعلیم کوئی مذہب نہیں دیتا، ڈاکٹر محمد نوشاد انصاری (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ سیاست) نے کہا کہ بنیادی طور پر اس کائنات میں بسنے لوگ سارے لوگ ایک انسان ہیں اور انسانیت سےبہتر کوئی مذہب نہیں. آئیے آج ہم سب یہ عہد کریں کہ ہم اس روئے زمین سے تمام بھید بھاوکو مٹانے کی اپنے طور پر کوشش کر تے رہیں گے. پروگرام سے خطاب کرنے والوں میں ڈاکٹر سجیت کمار، ڈاکٹر جیتندر کمار سنگھ، ڈاکٹر پروین کمار، ڈاکٹر بریندر کمار، ڈاکٹراپیندر کمار راوت، ڈاکٹر آلوک کمار، ڈاکٹر پریم سندر، ڈاکٹر پربھاکر، ڈاکٹر بھاگوت منڈل. کے نام اہم ہیں اس موقع پر کالج کے طلباء وطالبات کے علاوہ تدریسی وغیرتدریسی ملازمین بھی شامل رہے.

یادوں کے چراغڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی _____مفتی محمد ثنائ الہدیٰ قاسمی

یادوں کے چراغ
اردو دنیا نیوز٧٢ 
ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی _____
مفتی محمد ثنائ الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
شاہ فیصل اور شاہ ولی اللہ ایوارڈ یافتہ، ماہر معاشیات، علی گڈھ مسلم یونیورسٹی اور شاہ عبد العزیز یونیورسٹی جدہ کے سابق استاذ، اردو اور انگریزی میں درجنوں کتابوں کے مصنف ، مقاصد شریعت پر گہری نظر رکھنے والے نامور مفکر اور صف اول کے قائد مسلم مشاورت کے بانیوں میں سے ایک ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا ۲۱ نومبر ۲۲۰۲ءکو امریکہ میں انتقال ہو گیا، تدفین وہیں عمل میں آئی۔
 ڈاکٹر محمد نجات اللہ کا آبائی وطن اور جائے پیدائش گورکھپور ہے، ۱۳۹۱ءمیں ولادت ہوئی، ابتدائی تعلیم وطن میں حاصل کرنے کے بعد مرکز جماعت اسلامی رام پور یوپی تشریف لے گیے ، عربی کی تعلیم یہیں پائی، وہاں کے بعد مدرسة الاصلاح سرائے میر اعظم گڈھ کا رخ کیا اور وہاں کے جلیل القدر علماءواساتذہ سے کسب فیض کیا اور اسلامی معاشیات واقتصادیات کے رموز ونکات میں درک پیدا کیا، اعلیٰ عصری تعلیم کے حصول کے لیے علی گڈھ میں داخلہ لیا اور ۶۶۹۱ءمیں معاشیات میں پی اچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ،جب آپ ۱۶۹۱ءمیں شعبہ ¿ معاشیات میں لکچرر اور ریڈر مقرر ہوچکے تھے ، چند سال بعد ۸۷۹۱ءمیں شاہ عبد العزیز یونیورسیٹی جدہ میں اسلامی معاشیات کے شعبہ میں تقرری عمل میں آئی، ۱۰۰۲ءمیں سبکدوشی کے بعد وہ کیلوفورنیا چلے گئے اورکیلی فورنیا یونیورسٹی میں خدمات انجام دینے لگے ۔
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کئی زبانوں کے ماہر اور مختلف فنون پر گہری نگاہ رکھتے تھے، لیکن ان کے مطالعہ وتحقیق کا اصل میدان، مقاصد شریعة اور اسلامی معاشیات ہی رہا ، انہوں نے اسلامی غیر سودی بینک کاری پر زبر دست کام کیا،ا ن کی کتابوں کے تراجم مختلف زبانوں میں ہوئے اور ”ہوٹ کیک“ کی طرح ہاتھوں ہاتھ بکے، ان کتابوں میں انہوں نے اسلامی اقتصادیات سودی بینک کاری کی بہ نسبت زیادہ مفید اور انسانوں کے لیے نفع بخش قرار دیا ۔
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کو تصنیف وتالیف کی جو صلاحیت اللہ نے بخشی تھی اس کی وجہ سے پوری دنیا خصوصا عالم اسلام وعرب میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور مطالعات اسلامی کے شعبہ میں گراں قدر خدمات پر شاہ فیصل ایوارڈ سے ۲۸۹۱ءمیں نوازے گیے، ان کی تصنیفات میں اسلام کا معاشی نظام، اسلام کا نظریہ، ملکیت، غیر سودی بینک کاری، تحریک اسلامی عصر حاضر میں، اسلامی نشا ¿ة ثانیہ کی راہ اکیسویں صدی میں، اسلام، مسلمان اور تحریک اسلامی، معاصر اسلامی فکر ، مقاصد شریعت وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں، انہوں نے امام ابو یوسف کی کتاب الخراج اور سید قطب کی کتاب اسلام کے عدل اجتماعی کا ترجمہ بھی دوسری زبان میں کیا، مختلف جرائد ورسائل میں سینکڑوں علمی مضامین ومقالات لکھے، ان کی انگریزی کتابیں بھی ایک درجن سے زائد ہیں۔
 ڈاکٹر صدیقی کا مطالعہ وسیع اور گہرا تھا، وہ سر سری طور پر بات کرنے اور کچھ لکھنے کے عادی نہیں تھے، آج کل جو ہم لوگوں کا مزاج بن گیا ہے کہ” کاتا اور لے دوڑے“، وہ ان کے مزاج کا حصہ نہیں تھا، وہ علمی اختلافات کا بُرا نہیں مانتے تھے، دوسروں کی رائے کا احترام کرتے تھے، اور اگر کسی کی دلیل مضبوط ہوتی تو رجوع کرنے میں عار نہیں محسوس کرتے،ان کا اخلاقی مقام بھی بلند تھا، ان کے بعض آرا سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن ان کے علمی خلوص پر شبہ نہیں کیا جا سکتا، وہ مزاجا متحمل ، بردبار اور صابر وشاکر تھے۔
 ان کی موت سے جو خلا پیدا ہوا ہے، اس کی تلافی بہت آسان نہیں ہے، لیکن قادر مطلق کچھ بھی کر سکتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ سے ان کے نعم البدل اور مرحوم کی مغفرت کی دعا کرنی چاہیے۔

دعتی کا کوئی عمل قبول نہیں شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار ۔

بدعتی کا کوئی عمل قبول نہیں 
اردو دنیا نیوز٧٢
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی 
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار ۔
مسلمانو کبھی نہ چلنا راہ بدعت پر
بدعت کی تعریف ۔
ھی اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول ﷺ لا بمعاندۃ بل بنوع شبھۃ :  (در مختار ، حاشیہ شامی)
ترجمہ ۔ جو چیز رسول اللہ صلی اللہ وسلم سے معروف و منقول ہے اس کے خلاف کا اعتقاد رکھنا ضد و عناد کے ساتھ نہیں بلکہ کسی شبہ کی بنا پر ۔
اور علامہ شامی نے علامہ شمسی سے اس کی تعریف ان الفاظ میں نقل کی ہے :
ما ا حدث علی خلاف الحق المتلقی عن رسول اللہ ﷺ  من علم أو عمل أ و حال بنوع شبھۃ واستحسان و جعل دینا قویما وصراطا مستقیما ؛
ترجمہ ۔ جو علم ، عمل یا حال اس حق کے خلاف ایجاد کیا جائے جو رسول اللہ ﷺ  سے منقول ہے کسی قسم کے شبہ یا استحسان کی بنا پر اور پھر اسی دین قویم اور صراط مستقیم بنالیا جائے وہ بدعت ہے ۔ خلاصہ یہ کہ دین میں کوئی ایسا نظریہ طریقہ اور عمل ایجاد کرنا بدعت ہے جو طریقۂ نبوی کے خلاف ہو کہ آپ  ﷺ  سے نہ قولا ثابت ہو، نہ فعلا ، نہ صراحتاً ، نہ دلالۃ ، نہ اشارۃ ۔ جسے اختیار کرنے والا مخالفت نبوی کی غرض سے بطورِ ضد و عناد اختیار نہ کرے بلکہ بزعم  خود ایک اچھی بات اور کار ثواب سمجھ کر اختیار کرے ۔ وہ چیز کسی دینی مقصد کا ذریعہ و وسیلہ نہ ہو بلکہ خود اسی کو دین کی بات سمجھ کر کیا جائے ۔
بدعت کی قسمیں ۔
بدعت کی دو قسمیں ہیں ایک بدعتِ شرعیہ ،  دوسری بدعتِ لغویہ۔  بدعتِ شرعیہ یہ ہے کہ ایک ایسی چیز کو دین میں داخل کر لیا جائے جس کا کتاب و سنت ،  اجماعِ امت اور قیاس مجتہد سے کوئی ثبوت نہ ہو یہ بدعت ہمیشہ بدعتِ سیئہ ہوتی ہے اور یہ شریعت کے مقابلے میں گویا نئ شریعت ایجاد کرنا ہے ۔
بدعت کی دوسری قسم وہ چیزیں ہیں جن کا وجود رسول اللہ ﷺ  کے زمانے میں نہیں تھا جیسے ہر زمانے کی ایجادات ‌۔  ان میں سے بعض چیزیں مباح ہیں جیسے ہوائی جہاز کا سفر کرنا وغیرہ اور ان میں جو چیز یں کسی اور مستحب کا ذریعہ ہوں وہ مستحب ہوں گی جو کسی امر واجب کا ذریعہ ہوں وہ واجب ہوں گی مثلاً صرف و نحو وغیرہ علوم کے بغیر کتاب و سنت کو سمجھنا ممکن نہیں اس لئے ان علوم کا سیکھنا واجب ہوگا اسی طرح کتابوں کی تصنیف مدارسِ عربیہ کا بنانا چونکہ دین کے سیکھنے اور سکھانے کا ذریعہ ہیں اور دین کی تعلیم و تعلم فرض عین یا فرض کفایہ ہے تو جو چیزیں کہ بذات خود مباح ہیں اور دین کی تعلیم کا ذریعہ اور وسیلہ ہیں وہ بھی حسبِ مرتبہ ضروری ہوں گی ان کو بدعت کہنا لغت کے اعتبار سے ہے ورنہ یہ سنت میں داخل ہیں ۔
اس دنیا سے رسول اللہ ﷺ کے رخصت ہو جانے کے بعد آپ کی لائی ہوئی اللہ کی کتاب قرآن مجید اور آپ ﷺ کی تعلیمات جن کا معروف عنوان سنت ہے اس دنیا میں ھدایت کا مرکز و سرچشمہ اور گویا آپ ﷺ کی مقدس شخصیت کے قائم مقام ہیں اور امت کی صلاح و فلاح  ان کی پیروی و  پابندی سے وابستہ ہے رسول اللہ ﷺ نے اس بارے میں امت کو مختلف عنوانات سے ہدایت و آگاہی دی ہے اور محدثات و بدعات سے اجتناب کی تاکید فرمائی ہے اگلی امتیں اسی لئے گمراہ ہوئیں کہ محدثات و بدعات کو اپنا دین بنا لیا ۔ اعتقادات،  اعمال ،  اخلاق اور جذبات وغیرہ کے بارے میں انسانوں کو جس مثبت یا منفی ہدایت  ( امر بالمعروف ونہی عن المنکر ) کی ضرورت ہے یقیناً کتاب اللہ اور سنتِ نبوی و طریق محمدی اس کے پورے کفیل ہیں اس کے بعد گمراہی کا ایک دروازہ جاتا ہے کہ اللہ و رسول اللہ ﷺ نے جن باتوں کو دین قرار نہیں دیا ان کو دین کا رنگ دے کر دین میں شامل کیا جائے اور قرب و رضائے الہی اور فلاح اخروی کا وسیلہ  سمجھ کر اپنا لیا جائے دین کے رہزن شیطان کا سب سے خطرناک جال یہی ہے اگلی امتوں کو اس نے زیادہ تر اسی راستہ سے گمراہ کیا ہے مختلف امتوں کے مشرکوں میں بت پرستی عیسائیوں میں تثلیث اور حضرت مسیح کی انبیت و ولدیت اور کفارہ کا عقیدہ اور احبار و رہبان کو اربابا من دون اللہ بنانے کی گمراہی یہ سب اسی راستے سے آئی تھیں اور رسول اللہ ﷺ پر منکشف کیا گیا تھا کہ اگلی امتوں میں جو گمراہیاں آئی تھیں وہ سب آپ کی امت میں بھی آئیں گی اور انہیں راستوں سے آئیں گی جن سے پہلی امتوں میں آئی تھیں اسی لئے آپ اپنے مواعظ و خطبات میں بار بار یہ آگاہی دیتے تھے بس کتاب اللہ اور میری سنت کا اتباع کیا جائے صرف وہی حق و ہدایت ہے اور اسی میں خیر و فلاح ہے اور محدثات و بدعات سے اپنی اور دین کی حفاظت کی جائے بدعت خواہ ظاہری نظر میں حسین وجمیل معلوم ہو فی الحقیقت وہ صرف ضلالت اور ہلاکت ہے ۔
امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی نے  اپنے مکتوبات میں  فرمایا ہے کہ جن علماء نے بدعت کو دو خانوں  ( بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ )  میں تقسیم کیا ہے ان سے بڑے علمی غلطی ہوئی ہے بدعت حسنہ کوئی چیز نہیں ہے بدعت ہمیشہ سیئہ اور ضلالت ہی ہوتی ہے  اگر کسی کو کسی بدعت میں نورانیت محسوس ہوتی ہے تو وہ اس کے احساس و ادراک کی غلطی ہے بدعت میں صرف ظلمت ہوتی ہے ۔
کام  خواہ کتنا ہی بہتر اور نیک کیوں نہ ہو اگر سنت کے مطابق  نہیں تو و ہی بد سے بدتر ہے روزے نماز عبادت خدا کوئی بری چیز نہیں لیکن جب یہ خلاف سنت ہوں تو ان کی وجہ سے اللہ کے رسول اللہ ﷺ کی بیزاری ہو جاتی ہے  یہ جو آج کل لوگ کہہ دیتے ہیں کہ صاحب تیجے میں کیا حرج ہے؟ اللہ کے نام کا دینا ہی ہے میلاد میں کیا حرج ہے ؟ذکر اللہ ہی تو ہے تعزیہ داری میں کیا حرج ہے؟ نواسۂ رسول اللہ ﷺ کی عزت و عظمت کا اظہار ہی تو ہے یہ یاد رکھیں کہ گو کام کتنا ہی اچھا اور بالکل ہی عمدہ کیوں نہ ہو چونکہ سنت سے ثابت نہیں ہے اس لئے بد سے بدتر ہے ان کاموں کے کرنے والے قیامت کے دن امت رسول میں شمار کئے جائیں گے اس بات کو کبھی نہ بھولیں کہ حضور صلی اللہ ﷺ کے بعد کسی کام کو دین میں نکالنا نہایت ہی برا ہے یہاں تک کہ ایسے لوگوں کی پکڑ کے بعد ان کو شفاعت رسول خدا بھی میسر نہیں ہونے کی حالانکہ اور گناہگار شفاعت سے چھوڑ دئیے جائیں گے لیکن بدعتیوں سے خود رسول خدا ﷺ بیزار ہو جائیں گے اور صاف فرما دیں گے ان کا منہ جلاؤ اور انہیں میرے سامنے سے ہٹاؤ جنہوں نے  میرے بعد میرے دین کو بدل ڈالا تھا 
رسول اللہ ﷺ  نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی قبول نہیں کرتا صاحب بدعت ( یعنی بدعتی )  سے روزہ نہ نماز نج زکوۃ نہ خیرات نہ حج نہ عمرہ نہ جہاد اور بدعتی دائرہ اسلام سے ایسے نکل جاتا ہے جیسے بال گوندھے ہوئے آٹے سے نکل جاتا ہے (ابن ماجہ) 
بدعتی کا اللہ تعالی نماز روزہ اور کوئی عمل اس لئے قبول نہیں کرتا کہ بدعتی خانہ ساز مسئلے بنا کر رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا مقابلہ کرتا ہے حضور ﷺ  بھی خدا کی وحی سے کار ثواب بتائیں اور مقابلہ میں بدعتی بھی مسئلے بناۓ اور کار ثواب جاری کرے اس نبوت کا مقابلہ کرنے والے  بدعتی کا اللہ کوئی عمل قبول نہیں کرتا اس پر خدا کا قہر آتا ہے وہ مردود ہو جاتا ہے شرک نہ  اللہ اپنی ذات میں برداشت کرتا ہے اور نہ حضور ﷺ  کی رسالت میں خدا کی قولی بدنی اور مالی عبادت میں شرک کرنے سے سب اعمال حبط اور برباد ہو جاتے ہیں اور بدعت پر عمل کرنے سے اللہ بدعتی کا کوئی نیک کام قبول ہی نہیں کرتا تو مشرک اور بدعتی اگر ہزار سال کی عمر پاۓ اور ہزار سال تک نمازیں پڑھے سینکڑوں روزے رکھے حج کرے ہر سال زکوۃ دے کروڑ وں روپے خیرات کرے تہجد اشراق بھی پڑھتا رہے مر کر دوزخ میں جائے گا  ( اگر بلا توبہ مر گیا) الحاصل ترک سنت اکبر الکبائر گناہ ہے اور  فعل  بدعت اس سے بھی بڑھ کر کبیرہ گناہ ہے تو ہر عورت اور مرد کو چاہیے کہ شرکیہ عقیدوں اور عملوں کو جانے بوجھے اور ان سے تازیست بچے اور بدعت کے کاموں کو بھی معلوم کرے کہ کون کون سے ہیں پھر ان سے حذر کرے

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...