Powered By Blogger

منگل, مارچ 28, 2023

روزہ لگ گیا ہے

روزہ لگ گیا ہے 
Urduduniyanews72
سال بھرکے بعد مکمل بھوک اور پیاس کا احساس ایک ساتھ ہوا ہے، یہ کیفیت ہر روزہ دار کے ساتھ خاص ہے،مگر بولتا کوئی نہیں ہے، رمضان کے مہینے میں بھوک کی لذت کو خوبصورت انداز میں بھی پیش کرنےپربھی زیر وزبر ہوناپڑتاہے،میں نے ایک موقع پراس کی بھول کی ہے،بس اتنا ہی کہا تھا کہ آج خاصابھوک کا احساس ہورہا ہے،بس کیا تھا،سامنے والے صاحب یہ سنتے ہی شروع ہوگئے؛مولوی صاحب!  آپ کوروزہ لگ گیا ہے، آپ نے سحری میں کوئی زود ہضم چیز کھالی ہوگی، اسی لیے یہ حال ہوا ہے، سحری میں کیلے کے ساتھ دودھ اور دہی کا استعمال کیجئے، دن بھر پیاس نہیں لگے گی، کھانے میں ایسی چیزیں کھائیے جو دیر سے ہضم ہوتی ہیں، تو دن بھر آپ کو بھوک نہیں لگے گی،وغیرہ بہت ساری نصیحتیں کرنے لگے، کسی کو روزگار لگ جائے یہ اچھی بات ہے مگر کسی کو روزہ لگ جائے تویہ بری بات سمجھی جاتی ہے، ایک شریف روزہ دار کے حق میں یہ بڑی بھونڈی گالی ہے، جبکہ روزہ شریعت اسلامیہ میں صبح صادق سے سورج ڈوبنے تک کھانا پینا چھوڑنے، عورتوں سے الگ رہنے اور بری باتوں سے بچنے کا نام ہے،
اب کھانا چھوٹ گیا تو بھوک لگنی ہے اور پینا چھوٹ گیا تو پیاس لگنی ہے، روزہ دار کے لیے یہ کوئی معیوب بات نہیں ہے بلکہ ایک روزہ دار کے لیے یہ ضروری ہے،روزہ دار کےلیے روزہ لگنا یہ خوش آئند بات ہے، اگر روزہ لگا ہی نہیں تو وہ پھر کیسا روزہ دار ہے؟یہ بھوک وپیاس روزے کی روح ہے،،اس کے بغیر روزہ کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے، اس کے ذریعہ شریعت نے بڑا پیغام بھی دیا ہے،علامہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں؛
"روزہ ہی امیروں اور پیٹ بھروں کو بتاتا ہےکہ فاقہ میں کیسی اذیت، اور بھوک وپیاس کی تکلیف ہوتی ہے، اسی وقت اس کو اپنے غریب اور فاقہ سے نڈھال بھائیوں کی تکلیف کا احساس ہوتا ہےاور معلوم ہوتا ہے کہ چند لقموں سے ان کی تکلیف کو دور کرنا کتنا بڑا ثواب ہے،جو خود بھوکا نہ ہو اس کو بھوک کی،اور خود پیاسا نہ ہو اس کو پیاس کی تکلیف کا احساس کیوں کر ہوگا"(سیرت النبی ۵)
آج سوشل میڈیا پر ایسی تحریریں گردش کررہی ہیں جن کا عنوان ہی یہ ہوتا ہے کہ؛سحری کی ایسی غذائیں جن سے دن بھر بھوک نہیں لگتی ہے،انمیں مشورے دیے جاتے ہیں کہ براؤن رائس سحری میں لیجیے، پالک کا استعمال کیجئے، سالن مین مچھلی کھائیے، بھر پور توانائی ملے گی،دالیں، انڈے اور شکرقندی کھائیے دن بھر بھوک نہیں لگے گی،ایسی ایسی چیزوں کے نام لیے جاتے ہیں جنہیں پہلی بار سننے کا موقع ملتا ہے، یہ روزہ کے مقاصد سے دور کرنے کی کوشش ہے،امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں؛
" رمضان کے لیے بہت پہلے سے سامان خوراک جمع کیا جاتا ہے، اور رمضان کے دنوں میں اتنا اچھا اورنفیس کھانا کھایا جاتا ہے، جو اور دنوں میں نہیں کھایا جاتا، روزہ کا مقصود تو خالی پیٹ رہنا اور خواہشات نفس کو دبانا ہے تاکہ تقوی کی صلاحیت پیدا ہوسکے۰۰۰اگر کوئی دن بھر کا حساب لگاکر ایک ہی وقت میں کھالے تو اس سے روزہ کافائدہ حاصل نہ ہوگا، (احیاءالعلوم)
روزہ مجبوری کا نام نہیں ہے، "لگی تو روزی نہیں تو روزہ" بلکہ خاص مقاصدکا حامل ہے، حضرت علی میاں رحمۃ اللہ اپنی کتاب ارکان اربعہ میں تحریر کرتے ہیں؛
روزہ اس وقت فرض کیا گیا جب سختیوں کے بادل چھٹ گئے،عسرت وتنگ دستی کا دور ختم ہوااور مسلمانوں نے مدینہ میں اطمینان کی سانس لی،اور ان کی زندگی کشادگی اور آرام کے ساتھ بسر ہونے لگی،ایسا شاید اس لیے ہوا کہ اگر پریشان حالی کے دور میں روزہ کا حکم نازل ہوتا تو بہت سے لوگ اس کو مجبوری کا روزہ اور معاشی حالات اور اس ماحول کا نتیجہ سمجھتے جو مکہ میں تھا،(ارکان اربعہ) 
کھانے پینے کی چیزیں موجود ہیں، پھر بھی ایک روزہ دار بھوکارہتا ہے،دراصل بھوک کی لذت سے آشنائی  حاصل کرنے کا یہ ذریعہ بھی ہے،روزہ کا سب سے بڑا مقصد تقوی ہے،قرآن میں لکھا ہوا ہے، یہ بھی بغیراس کے حاصل نہیں ہوسکتا ہے، اور نہ شیطانی حملوں سے بچنے کے لیے یہ ڈھال بن سکتا ہے، جب تک کہ بھوک وپیاس کا سامنا ایک روزہ دار کو نہ ہو، آج اس تعلق سے بڑی غفلت دیکھنے میں آرہی ہے۔

مفتی ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۴/رمضان المبارک ۱۴۴۴ھ 
رابطہ ؛9973722710

یادوں کے چراغ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

یادوں کے چراغ 
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
پروفیسر ڈاکٹر منظر اعجاز
ڈاکٹر ، پروفیسر سید محمد مظہر الحق قلمی نام منظر اعجاز اے این کالج ، پٹنہ اور پاٹلی پترا یونیورسیٹی کے سابق صدر شعبہ اردوکا 19 مارچ 2023ءمطابق 28 شعبان المعظم 1444ھ بروز اتوار بوقت صبح کے تین بجے جگدیش اسپتال پٹنہ میں انتقال ہو گیا، کم وبیش اکہتر(71) سال عمر تھی ، کورونا کے مریض ہو گئے تھے، اس سے بچ گیے، لیکن اعضاءوجوارح کمزور ہوتے چلے گیے، 14 جنوری 2023ءسے مستقل صاحب فراش تھے، اور بالآخر ملک الموت نے اپنا کام کر ڈالا، جنازہ کی نماز اسی دن بعد نماز عصر کنکر باغ میں ہوئی ، مولانا دانش قاسمی امام کنکڑ باغ مسجد نے جنازہ کی امامت کی اور سیکڑوں سوگواروں کی موجودگی میں شاہ گنج قبرستان میں تدفین عمل میں آئی ، پس ماندگان میں اہلیہ ناہید سلطانہ اور دو بیٹیاں فرخندہ اعجاز اور رخشندہ اعجاز ہیں، لڑکا کوئی نہیں تھا، وہ چار بھائی اور دو بہن تھے، وہ سید محمد عبد المنان، سید علی عباس کے بعد تیسرے نمبر پر تھے، سب سے چھوٹے بھائی کا نام سید محمد احسن ہے۔
 پروفیسر منظر اعجاز کی ولادت 12 دسمبر 1953ءکو موجودہ ضلع ویشالی کے گاؤں ترکی رسول پور بھگوان پور ویشالی میں سید مقبول احمد (والد) اور سائرہ خاتون (والدہ) کے گھر ہوئی ، ان کے مورث اعلیٰ مخدوم سید شاہ فیروز علی عرف ترک شاہ تھے، شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں ترکی رسول پور وایا بھگوان پور موجودہ ضلع ویشالی وارد ہوئے، شہنشاہ نے بہ لحاظ بزرگی وعظمت انہیں جاگیر عطا فرمائی تھی۔ (تذکرہ مسلم مشاہیر ویشالی صفحہ 75 بحوالہ حدیقة الانساب جلد ۱ 235)
 سلسلہ نسب ان کے دادا سید شاہ نعیم اللہ بن سید شاہ ولایت حسین بن دائم علی بن قائم علی بن نائم علی ، بن لطف علی بن قاضی روشن علی کا ذکر آتا ہے، سید شاہ ولایت حسین عرف ابو جان ساتویں پشت میں ملک شاہ فیروز کے آتے تھے، ڈاکٹر منظر اعجاز کی نانی ہال بھی رسول پور ترکی تھی، ان کے ناناکا نام سید شاہ ولی اللہ تھا، دادا اور نانا دونوں حقیقی بھائی تھے، شادی بہار شریف ضلع نالندہ سید محمد صالح (م 1982) بن سید نور الحسن صاحب عرف نور محمد کی صاحب زادی ناہید سے اپریل 1986) میں ہوئی تھی، رسول پور ترکی گاؤں مظفر پورشہر سے چوبیس میل اور بھگوان پور ریلوے اسٹیشن سے دو میل کی دوری پر واقع ہے۔ آباؤ اجداد زمیندار تھے، اس لیے ناز ونعم میں پرورش ہوئی، ابتدائی تعلیم والدہ سے حاصل کرنے کے بعد قریب کے گاؤں بہاری کے پرائمری اسکول میں تعلیم پائی اور بھگوان پور اسکول سے مڈل اور ہائر سکنڈری کی تعلیم مکمل کی ، امتحان کا سنٹر مظفر پور تھا اس لئے پہلی بار 1980ءکے آخر یا 1981ءکے اوائل میں مظفر پور وارد ہوئے اور کوئی چار ماہ مظفر پور میں قیام پذیر رہے، اسی دوران منظر اعجاز صاحب کی ملاقات ظفر عدیم سے ہوئی اور پھر دوستی اس قدر پکی ہوئی کہ ایک جان دو جسم ہو کر رہ گیے۔ 1982ءکے نصف آخر میں منظر اعجاز مستقل قیام کی غرض سے مظفر پور آئے، اور یہیں سے آئی اے، بی اے اور ایم اے اردو فارسی میں کیا، اقبال ان کے محبوب شاعر تھے، اس لیے پی اچ ڈی بہار یونیورسٹی مظفر پور سے کے لیے اقبال اور قومی یک جہتی کا انتخاب کیا اور پروفیسر قمر اعظم ہاشمی کی نگرانی میں مقالہ لکھ کر 1989ءمیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، اس طرح عنفوان شباب کے قیمتی مہ وسال انہوں نے مظفر پور کی نظر کی ۔ ظفر عدیم کی صحبتوں سے پروفیسر منظر اعجاز کی صلاحیتیں پروان چڑھیں اور ان میں نکھار آیا، اپنے ایک مضمون ، ظفر عدیم : شخص ، عکس اور جہتیں میں منظر امام صاحب نے خود ہی اس کا اعتراض کیا ہے ، لکھتے ہیں:
”سچی بات تو یہ ہے کہ عدیم صاحب کی صحبتیں راس آئیں اور شعر وادب کا ذوق جو مجھ میں عرصہ سے دبا دبا اور گھٹا گھٹا سا تھا ، ابھرنے، نکھرنے اور پروان چڑھنے لگا “۔ (82)
 منظر اعجاز صاحب آگے بڑھتے رہے، انہوں نے تدریسی زندگی کا آغاز اس یو کالج ہلسہ نالندہ سے کیا،۶۷-۱۹۹۱ءتک یہاں مقیم رہے،اس کے بعد اے این کالج پٹنہ چلے آئے،اور صدر شعبہ اردو کے منصب تک پہونچے، اور دسمبر 2018ءکوسبکدوش ہوگئے، اے ان کالج کے بعد صرف سوا ماہ تک وہ پاٹلی پترا یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردو رہے ادھر کچھ دنوں سے ان پر ضعف کا غلبہ تھا، اس کے با وجود ادبی مجلسوں میں کسی کے سہارے پہونچ جاتے تھے، یہ ان کی ادبی دلچسپی کی بات تھی ، ورنہ قوی سفر کے قابل نہیں رہ گیے تھے۔ان کی رہائش گاہ پی سی کالونی کنکر باغ پٹنہ میں تھی۔
جہاں تک ان کی ادبی صلاحیتوں کا تعلق ہے، پوری اردو دنیا ان کے مطالعہ کی گہرائی اور گیرائی کی قائل تھی ، ان کی ادبی تحریروں اور تقریروں کو بڑی قدر ومنزلت کی نگاہ سے پڑھا اور سنا جاتا تھا، ان کی تحریر اور تقریر میں ایجاز کا گذر نہیں تھا، انہیں باتوں کے پھیلانے کا ہنر آتا تھا، اور وہ پورے بسط وکشاد کے ساتھ اپنی باتیں رکھنے کے قائل تھے،ا ن کی یاد داشت بہت مضبوط تھی ، برسوں پہلے پڑھی یا سنی ہوئی بات ان کے حافظہ کے گرفت میں ہوتی اور حسب موقع اس کے استعمال پر وہ قادر تھے۔ تصنیف وتالیف کا اللہ رب العزت نے خصوصی ملکہ عطا فرمایا ، تجزیہ کی صلاحیت بھی مضبوط تھی ، ان کی کتابیں شخصیات وانتقادیات ، فراق اور غزل کا اسلوب، اقبال اور قومی یک جہتی ، ظفر عدیم ایک سخن ساز اور معاصر غزل کا منظر نامہ ، نئی غزل میں تلمیح کی معنویت ، متن سے مکالمہ ، قومی وطنی شاعری کا منظر نامہ ، انعکاس میں مظفر پور کا فراق نمبر، اقبال- عصری تناظر ، فیض احمد فیض اور صلیبیں میرے دریچے میں ، اعجاز نظر ، ورق ورق اجالا (مجموعہ غزل) فراق اور غزل کا اسلوب ، تجزیاتی مطالعے، وہاب اشرفی : نقاد اور تخلیق کار، ظفر عدیم کا نثری تخلیقی وجدان ، تجزیہ اور تخلیقی تجربہ، چند جاسوسی اور معاشرتی ناول فراق، سوائے شاعری وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں، ان کتابوں سے ان کے مطالعہ کی وسعت علم وادب پر محنت اوران کی قوت اخذ وعطا کا پتہ چلتا ہے، ان میں زیادہ تر کتابیں تجزیہ وتنقید سے تعلق رکھتی ہیں۔
 میرا ڈاکٹر منظر اعجاز صاحب سے تعلق انتہائی قدیم تھا اب تو مہہ وسال یاد بھی نہیں رہے، جب میں نے داغ کے شاگرد عبد اللطیف اوج کے دیوان کو ایک صاحب کے بکس سے نکلوا کر مرتب کیا اور شائع ہوئی تو اس کے اجراءکی تقریب میں بہ نفس نفیس مہوا تشریف لے گئے تبصرہ لکھا اور مجمع کو پڑھ کر سنایا اور کئی جگہ چھپوایا،ان سے میری آخری ملاقات 3 دسمبر 2022ءکو گورنمنٹ اردو لائبریری میں ہوئی تھی ، ہم لوگ سلطان شمسی کے شعری مجموعہ کے اجراءکی تقریب میں شریک تھے، انہوں نے اس موقع سے خطاب فرمایا تھا، ایسی علمی وادبی شخصیت کا رخصت ہوجانا علم وادب کی دنیا کا بڑا نقصان ہے۔ اللہ مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل دے آمین

ابن کنول؛خاموش ہو گیا ہے چمن بولتا ہوا✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قا سمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ابن کنول؛خاموش ہو گیا ہے چمن بولتا ہوا
Urduduniyanews72
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ  قا سمی 
نائب  ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
دہلی یونیورسٹی کے سابق صدر شعبہ اردو مشہور ادیب، شاعر، افسانہ و خاکہ نگار، ناصر محمود کمال قلمی نام ابن کنول کا ۱۱/ فروری2023 کو علی گڑھ میں انتقال ہو گیا، وہ دہلی سے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبہ اردو کے پی ایچ ڈی کے وائیوا کے سلسلے میں علی گڑھ گئے تھے، وائیوا سے فارغ ہو کر وہ اپنے رشتہ داروں سے ملنے   جمال پورگئے تھے، اسی درمیان دل کا دورہ پڑا، فوراً ہی جواہر لال نہرو میڈیکل کالج علی گڈھ لے جایا گیا، لیکن وقت موعود کا تو کوئی علاج ہی نہیں ہے،  سو آکر رہا تدفین علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قبرستان میں ہوئی۔ ابن کنول معروف قومی شاعر قاضی شمس الحسن کنول ڈبائیوی بن قاضی شریعت اللہ (متوفی 1930)بن قاضی ادہم علی کے صاحب زادہ تھے، انہوں نے اپنا قلمی نام والد کے تخلص سے نسبت پیدا کرتے ہوئے ابن کنول رکھا تھا، اور اسی نام سے مشہور تھے، 15/ اکتوبر1957 کو بہجوئی، ضلع مرادآباد میں آنکھیں کھولیں، ابتدائی تعلیم گنور، بدایوں کے اردو میڈیم اسلامیہ اسکول میں ہوئی، 1962ءمیں وہ پہلی جماعت میں داخل ہوئے، اور حاجی صفدر علی مرحوم کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، پانچویں جماعت تک یہاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد منٹوسرکل اسکول علی گڑھ میں داخل ہوئے، اس اسکول کا دوسرا نام سیف الدین طاہر ہائی اسکول بھی ہے، 1972ءمیں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل ہوئی، 1978ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے کیا، انہوں نے یہاں کے دوران قیام ادب کی نامور شخصیات قاضی عبد الستار، خلیل الرحمن اعظمی، عتیق احمد صدیقی، پروفیسر شہر یاراور نور الحسن نقوی جیسے علم و ادب کے ماہرین سے کسب فیض کیا۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی دہلی یونیورسٹی سے1978 سے 1984ء کے درمیان کیا۔ ان کے مقالہ کا عنوان ”بوستان خیال کا تہذیبی و لسانی مطالعہ“ تھا، اس مقالہ کی تکمیل انہوں نے ڈاکٹر تنویر احمد علوی کی نگرانی میں کیا۔ 1985میں دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے تدریسی زندگی کا آغاز کیا، اور ترقی کرتے ہوئے صدر شعبہ اردو کے مقام تک پہونچے۔ اکتوبر2022ء میں اسی عہدے سے سبکدوشی عمل میں آئی۔
ابن کنول کے اجداد عہد شاہ جہانی میں ہندوستان وارد ہوئے اور اپنی علمی عبقریت و عظمت کی وجہ سے قاضی کے منصب پر فائز ہوئے، اور قصبہ ڈبائی میں رہائش اختیار کی، آپ کے دادا مشہور وکیل تھے، اور پر دادا فارسی اور سنسکرت کے مشہور عالم ، والد کی شاعری کے دو مجموعے بساط زیست اور سوز وطن ان کی زندگی میں شائع ہو کر مقبول ہو چکے تھے۔ ابن کنول نے انہیں کلیات کی شکل میں ”مضراب“ کے نام سے بھی شائع کیا ہے، ابن کنول کی نشو و نما ادبی ماحول میں ہوئی، اس لیے ان کے اندر شعر و ادب کا ذوق بڑی حد تک فطری اور موروثی تھا، چنانچہ ابن کنول نے دوران طالب علمی ہی سے کہانیاں لکھنا شروع کیا، بعد میں افسانہ نگاری میں انہوں نے بڑا نام کمایا، ان کے افسانے ملک کے مؤقر اخبارات و رسائل میں مسلسل شائع ہوتے رہے، ان کی تصانیف و تالیفات میں ”تیسری دنیا کے لوگ، بند راستے، بوستان خیال؛ایک مطالعہ، آؤ اردو سیکھیں، انتخاب سخن، تحقیق وتدوین، اردو لوک ناٹک؛ روایت اور اسالیب“ خاص طور پر مشہور و معروف ہیں۔ ابن کنول نے اپنی کہانیوں میں اسلامی واقعات و تلمیحات کا سہارا لے کر قاری تک حقائق پہونچانے کی کوشش کی  ہے، ”ایک شب کا فاصلہ“ میں اصحاب کہف کے واقعہ سے پلاٹ تیار کیا گیا ہے، ”سویٹ ہوم“ میں حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے ذریعہ وادی غیر ذی زرع میں بچوں کو چھوڑ جانے کے واقعہ سے مواد اخذ کیا گیا ہے، ”تیسری دنیا کے لوگ“کی کہانی بدر کے تین سو تیرہ والے واقعہ کی تلمیح کے سہارے کھڑی ہے۔ابن کنول کی تخلیقات کی پذیرائی غیر ممالک میں بھی ہوئی، انہوں نے امریکہ، ماریشس، انگلینڈ، پاکستان اور روس کے اسفار کیے اور وہاں کے سیمینار اور سمپوزیم میں شرکت کی، ان کی خدمات کے اعتراف میں ہریانہ، بہار، مغربی بنگال کی اردواکیڈ میوں نے مختلف ایوارڈ اور انعامات سے نوازا، جن میں سر سید ملینیم ایوارڈ دہلی برائے اردو فکشن ایوارڈ(2001ء) کنور مہندرسنگھ بیدی ایوارڈ ہریانہ(2007ء) دہلی اردو اکادمی فکشن ایوارڈ(2008ء) عبد الغفار نساخ ایوارڈ کولکاتہ(2017ء) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ابن کنول نے افسانوں کے علاوہ خاکے، انشائیے، ڈرامے اور سفر نامے وغیرہ بھی لکھے، تنقید نگاری میں بھی انہوں نے اپنا ایک مقام بنایا۔
ابن کنول کا سانحہ ارتحال علمی و ادبی دنیا کے بڑے خسارے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، وہ باغ و بہار شخصیت کے مالک اور تصنع سے پاک زندگی گزارنے کے عادی تھے، ان کی تحریر صاف ستھری، مشکل اور پیچیدہ ترکیب اور الفاظ سے شعوری گریز کے مثال کے طور پر پیش کی جا سکتی ہے، وہ اپنے شاگردوں پر بہت مہربان تھے ، سماجی زندگی گزارا کرتے تھے، اس لیے ان کا سماجی دائرہ غیر معمولی طور پر وسیع تھا، ان کی تحریروں سے مطالعہ کی گہرائی اور مشاہدات کی وسعت کا پتہ چلتا ہے۔
دہلی یونیورسٹی سے سبکدوشی کے بعد حال میں ہی ان کی عمرہ سے واپسی ہوئی تھی، اور دھیرے دھیرے وہ مذہبی اعمال کی طرف بڑھ رہے تھے، ایسا معلوم ہو تا تھا کہ اب انہیں آخرت کی فکر دامن گیر ہے، سبک دوشی کے بعد ایسا عموماً ہوتا بھی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں  کہ جانے والا اس قدرجلد چلا جائے، جلد بھی ہمارے اعتبار سے ہے، ورنہ اللہ رب العزت کے نزدیک سب کا وقت مقرر ہے، جب بلاوا آئے چل دینا ہے، ہمیں چوں کہ وقت موعود کا علم نہیں، اس لیے جب کوئی گزرتا ہے تو ہمارے احساسات اسی قسم کے سامنے آتے ہیں، اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے، پس ماندگان کو صبر جمیل دے، آمین!
بلا کی چمک اس کے چہرے پہ تھی

مجھے کیا خبر تھی کہ مر جائے گا

سعاد بابو نے پانچ سال کی عمر میں پہلا روزہ رکھا

سعاد بابو نے پانچ سال کی عمر میں پہلا روزہ رکھا 
Urduduniyanews72
( نمائندہ ) جناب تواب الرحمٰن مرحوم ، بانی شو لیدر ، اگھوریا بازار ، مظفر پور کے پوتے سعاد ابن شہنواز الرحمٰن نے پانچ سال کی عمر میں اس سال زندگی کا پہلا روزہ نہایت ہی خوشی اور شوق سے رکھا - سعاد اندر پرستھ انٹر نیشنل اسکول ، مظفر پور میں درجہ یو کے جی کا طالب علم ہے ۔ سعاد بہت ہی ذہین اور چنچل ہے۔ عربی بھی ماشاءاللہ بہت ہی دلچسپی کےساتھ پڑھ رہا ہے ۔ بہت ساری مسنون دعائیں بھی یاد ہے۔ سعاد نے روزے کی حالت میں اپنے دادا جان مرحوم جناب تواب الرحمٰن صاحب کے لیے دعاۓ مغفرت کی۔ سعاد کے روزہ رکھنے کے اس خوشی کے موقع پر والدین ، دادا دادی ، نانا نانی ، چچا چچی ، پھوپھا پھوپھی ، مامو ممانی ، استاد ، بھائ بہن ، دوست و تمام رشتہ داروں نے دعاؤں سے نوازا ۔ ساتھ ہی اس کے علم نافع بہتر صحت ، دینداری اور بہتر مستقبل کی دعائیں دیں ہیں ۔ یہ اطلاع سعاد بابو کے بڑے پاپا قمر اعظم صدیقی بانی و ایڈمن ایس آر میڈیا نے دی ہے ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...