روزہ لگ گیا ہے
سال بھرکے بعد مکمل بھوک اور پیاس کا احساس ایک ساتھ ہوا ہے، یہ کیفیت ہر روزہ دار کے ساتھ خاص ہے،مگر بولتا کوئی نہیں ہے، رمضان کے مہینے میں بھوک کی لذت کو خوبصورت انداز میں بھی پیش کرنےپربھی زیر وزبر ہوناپڑتاہے،میں نے ایک موقع پراس کی بھول کی ہے،بس اتنا ہی کہا تھا کہ آج خاصابھوک کا احساس ہورہا ہے،بس کیا تھا،سامنے والے صاحب یہ سنتے ہی شروع ہوگئے؛مولوی صاحب! آپ کوروزہ لگ گیا ہے، آپ نے سحری میں کوئی زود ہضم چیز کھالی ہوگی، اسی لیے یہ حال ہوا ہے، سحری میں کیلے کے ساتھ دودھ اور دہی کا استعمال کیجئے، دن بھر پیاس نہیں لگے گی، کھانے میں ایسی چیزیں کھائیے جو دیر سے ہضم ہوتی ہیں، تو دن بھر آپ کو بھوک نہیں لگے گی،وغیرہ بہت ساری نصیحتیں کرنے لگے، کسی کو روزگار لگ جائے یہ اچھی بات ہے مگر کسی کو روزہ لگ جائے تویہ بری بات سمجھی جاتی ہے، ایک شریف روزہ دار کے حق میں یہ بڑی بھونڈی گالی ہے، جبکہ روزہ شریعت اسلامیہ میں صبح صادق سے سورج ڈوبنے تک کھانا پینا چھوڑنے، عورتوں سے الگ رہنے اور بری باتوں سے بچنے کا نام ہے،
اب کھانا چھوٹ گیا تو بھوک لگنی ہے اور پینا چھوٹ گیا تو پیاس لگنی ہے، روزہ دار کے لیے یہ کوئی معیوب بات نہیں ہے بلکہ ایک روزہ دار کے لیے یہ ضروری ہے،روزہ دار کےلیے روزہ لگنا یہ خوش آئند بات ہے، اگر روزہ لگا ہی نہیں تو وہ پھر کیسا روزہ دار ہے؟یہ بھوک وپیاس روزے کی روح ہے،،اس کے بغیر روزہ کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے، اس کے ذریعہ شریعت نے بڑا پیغام بھی دیا ہے،علامہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں؛
"روزہ ہی امیروں اور پیٹ بھروں کو بتاتا ہےکہ فاقہ میں کیسی اذیت، اور بھوک وپیاس کی تکلیف ہوتی ہے، اسی وقت اس کو اپنے غریب اور فاقہ سے نڈھال بھائیوں کی تکلیف کا احساس ہوتا ہےاور معلوم ہوتا ہے کہ چند لقموں سے ان کی تکلیف کو دور کرنا کتنا بڑا ثواب ہے،جو خود بھوکا نہ ہو اس کو بھوک کی،اور خود پیاسا نہ ہو اس کو پیاس کی تکلیف کا احساس کیوں کر ہوگا"(سیرت النبی ۵)
آج سوشل میڈیا پر ایسی تحریریں گردش کررہی ہیں جن کا عنوان ہی یہ ہوتا ہے کہ؛سحری کی ایسی غذائیں جن سے دن بھر بھوک نہیں لگتی ہے،انمیں مشورے دیے جاتے ہیں کہ براؤن رائس سحری میں لیجیے، پالک کا استعمال کیجئے، سالن مین مچھلی کھائیے، بھر پور توانائی ملے گی،دالیں، انڈے اور شکرقندی کھائیے دن بھر بھوک نہیں لگے گی،ایسی ایسی چیزوں کے نام لیے جاتے ہیں جنہیں پہلی بار سننے کا موقع ملتا ہے، یہ روزہ کے مقاصد سے دور کرنے کی کوشش ہے،امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں؛
" رمضان کے لیے بہت پہلے سے سامان خوراک جمع کیا جاتا ہے، اور رمضان کے دنوں میں اتنا اچھا اورنفیس کھانا کھایا جاتا ہے، جو اور دنوں میں نہیں کھایا جاتا، روزہ کا مقصود تو خالی پیٹ رہنا اور خواہشات نفس کو دبانا ہے تاکہ تقوی کی صلاحیت پیدا ہوسکے۰۰۰اگر کوئی دن بھر کا حساب لگاکر ایک ہی وقت میں کھالے تو اس سے روزہ کافائدہ حاصل نہ ہوگا، (احیاءالعلوم)
روزہ مجبوری کا نام نہیں ہے، "لگی تو روزی نہیں تو روزہ" بلکہ خاص مقاصدکا حامل ہے، حضرت علی میاں رحمۃ اللہ اپنی کتاب ارکان اربعہ میں تحریر کرتے ہیں؛
روزہ اس وقت فرض کیا گیا جب سختیوں کے بادل چھٹ گئے،عسرت وتنگ دستی کا دور ختم ہوااور مسلمانوں نے مدینہ میں اطمینان کی سانس لی،اور ان کی زندگی کشادگی اور آرام کے ساتھ بسر ہونے لگی،ایسا شاید اس لیے ہوا کہ اگر پریشان حالی کے دور میں روزہ کا حکم نازل ہوتا تو بہت سے لوگ اس کو مجبوری کا روزہ اور معاشی حالات اور اس ماحول کا نتیجہ سمجھتے جو مکہ میں تھا،(ارکان اربعہ)
کھانے پینے کی چیزیں موجود ہیں، پھر بھی ایک روزہ دار بھوکارہتا ہے،دراصل بھوک کی لذت سے آشنائی حاصل کرنے کا یہ ذریعہ بھی ہے،روزہ کا سب سے بڑا مقصد تقوی ہے،قرآن میں لکھا ہوا ہے، یہ بھی بغیراس کے حاصل نہیں ہوسکتا ہے، اور نہ شیطانی حملوں سے بچنے کے لیے یہ ڈھال بن سکتا ہے، جب تک کہ بھوک وپیاس کا سامنا ایک روزہ دار کو نہ ہو، آج اس تعلق سے بڑی غفلت دیکھنے میں آرہی ہے۔
مفتی ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ
۴/رمضان المبارک ۱۴۴۴ھ
رابطہ ؛9973722710