Powered By Blogger

جمعرات, ستمبر 14, 2023

مؤمن کامل کے اوصاف - قرآن کریم کی روشنی میں

مؤمن کامل کے اوصاف - قرآن کریم کی روشنی میں 
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
 ہر انسان کامیابی کا خواہش مند ہوتا ہے اور یہ خواہش اس کے اندر فطری ہے، اس کی تکمیل کے دنیا بھر کے اہل خرد نئے نئے فامولے پیش کرتے ہیں، بازار میں اس عنوان پر ہندو بیرون ہند کے مصنفین کی بہت ساری کتابیں موجود ہیں او ردعویٰ کیا جاتا ہے کہ اگر ان فارمولوں پر عمل کیا جائے تو کامیابی آپ کا مقدر ہے، جیت آپ کی ہے۔
 قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے کامیاب انسانوں کے اوصاف کا ذکر کیاہے۔ اور اسے فلاح سے تعبیر کیا ہے، فلاح کے معنی ہر مراد کا پورا ہونا اور ہر تکلیف سے محفوظ رہنے کے آتے ہیں، نماز کے لیے اذان کا معاملہ ہو یا اقامت کا مؤذن فلاح کی طرف ہی لوگوں کو بلاتاہے، لیکن آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ فلاح کے جو حقیقی معنی ہیں اس کا حصول انسانوں کے لیے اس دنیا میں پورے طور پر ممکن نہیں ہے، دنیاوی زندگی میں نہ تو ہر مراد پوری ہوتی ہے اور نہ ہر تکلیف سے بچناممکن ہوتاہے، اسی طرح زوال نعمت کے امکان سے بھی انسانی قلوب پریشان رہا کرتا ہے، اسی لیے دنیا کو دار المحنت سے تعبیر کیا گیا ہے، اطمینان اور سکون کی جگہ تو صرف جنت ہے، اگر اللہ اپنے فضل سے عطا فرمادیں۔
کامیابی کے لیے سب سے پہلی چیز تزکیۂ نفس ہے، اللہ رب ا لعزت کا ارشاد ہے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکیّٰ(سورۃ الاعلیٰ: 19) جس نے خود کو پاک کر لیا وہ کامیاب ہے، مفسرین نے تزکیہ کی تفسیر میں کفر وشرک اور گناہوں سے پاک ہونا لکھا ہے، یہی اصل تزکیہ ہے، کیوں کہ جب نفس کفر وشرک سے پاک ہوگا تو دل اللہ رب العزت کے ذکر کی طرف مائل ہوگا اور وہ اللہ کی یاد کے لیے نماز پڑھا کرے گا، وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہِ فَصَلیّٰ (سورۃ الاعلیٰ :20)میں یہی بات کہی گئی ہے، جب قلب کفر وشرک سے پاک ہوگا تو آدمی کی رغبت ایمان واسلام ، ارکان اور تزکیہ کے لیے جن اوصاف کی ضرورت ہے اس کی طرف ہوگی، پھر کامیابی اس کا مقدر ہوگی، اللہ رب العزت نے اٹھارہویں پارہ کے آغاز اور انتیسویں پارہ کے سورۃ معارج میں کامیاب انسانوں کے اوصاف کا خصوصیت سے ذکر کیا ہے، ان میں سے پہلی چیزنماز ہے، جن کا ذکر اوپر گذر چکا ہے، نمازی کے دل میں اللہ کی محبت جاگزیں ہوتی ہے، اللہ کی بڑائی اور ہر جگہ حاضر وناظر ہونے کا خیال اسے بُرے کاموں سے روکتا ہے، وہ اپنے پاس اللہ کو محسوس کرتا ہے، لیکن یہ اوصاف ایمان والوں میں اسی وقت پیدا ہوں گے جب اس کی نماز خشوع کے ساتھ یعنی سکون کے ساتھ ہو، خشوع میں سکونِ قلبی اور سکونِ جسمانی دونوں شامل ہے، سکون قلبی تو یہ ہے کہ دل اللہ کی طرف ہی پورے طور پر متوجہ ہو اور سکون جسمانی کا مطلب ہے کہ نماز میں فضول حرکتیں نہ کریں، خصوصا ایسی حرکتیں جو نماز میں خلل ڈالنے والی ہوں۔ اس لیے کہ اللہ بڑا بے نیاز ہے، اگر بندہ اس کی طرف متوجہ نہیں رہتا ہے تو اللہ بھی اس سے اپنا رخ پھیر لیتا ہے، اسی لیے نماز میں ادھر ادھر دیکھنے ، بدن کے کسی حصے سے کھیلنے، دامن مڑوڑنے، ڈاڑھی میں بار بار ہاتھ لے جانے سے منع کیا گیا ہے، کیوں کہ یہ سب خشوع کے خلاف ہیں، مجمع الزوائد کی ایک روایت کے مطابق سب سے پہلے امت سے خشوع اٹھ جائے گا او رقوم میں خاشعین کی کمی ہوجائے گی یا وہ نظر نہیں آئیں گے۔ نماز خشوع سے پڑھی جائے تو اس کا اثر زندگی پر وہ پڑتا ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے کیا ہے کہ نماز برے اور فحش کاموں سے روکتی ہے، نماز کو خشوع سے پڑھنے کی وجہ سے یہ صفت خود بخود بندے کے اندر پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ فضول اور لا یعنی بحثوں اور غیر نفع بخش کاموں سے دور بھاگتا ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لا یعنی چیزوں کو چھوڑدے یہ کامیاب ایمان والوں کی دوسری صفت ہے۔
تیسرا وصف جو ایمان والوں کی کامیابی کے لیے ضروری ہے وہ ہے انفاق فی سبیل اللہ، اس کی دو شکلیں ہیں ایک تو سال گذرنے کے بعد اپنے مال سے ڈھائی فی صد نکالنا یہ تو فرض ہے، دوسرا ہے صدقات نافلہ یعنی فقراء، یتامیٰ، مساکین پر خرچ کرنا، اس بات کو قرآن کریم کی دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا ہے کہ تم اس وقت تک خیر کو نہیں پا سکتے جب تک اپنی پسندیدہ چیز کو خرچ نہ کرو، اس کو قرآن کریم میں قرض حسنہ سے تعبیر کیا گیا ہے، اور حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کو قرض حسنہ دو، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جسے امام بخاریؒ نے حفص بن غیاث سے روایت کیاہے کہ تمہارا مال تو وہی ہے جو تم نے اللہ کے راستے میں اپنے ہاتھ سے خرچ کر دیا اور جو رہ گیا وہ تمہارا نہیں تمہارے وارث کا مال ہے، ایمان والے کے اندر جب یہ صفت پیدا ہوتی ہے تو وہ بہت سارے گناہ اور رذائل سے بچ جاتا ہے، دینے کا یہ مزاج جب بڑھتا ہے تو آدمی سخی کہلاتا ہے اور جنت میں جانے کے من جملہ اوصاف میں سے ایک سخاوت بھی ہے۔ للزکوٰۃ فاعلون کی تعبیر بتاتی ہے کہ کہ اس وصف میں زکوٰۃ واجبہ اور صدقات نافلہ دونوں شامل ہیں، کیوں کہ فرض زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے قرآن کریم کی تعبیر آتو الزکوٰۃ اور ایتاء زکوٰۃ کی رہی ہے۔ بعض نے یہاں زکوٰۃ سے مراد تزکیہ لیا ہے، یعنی روحانی امراض بعض حسد ، کینہ، ربا، تکبر ، حرص اور بخل وغیرہ سے خود کو محفوظ کر لینا اور محفوظ رکھنے کی کوشش کرنا ۔ 
چوتھی صفت مؤمن کے اندر یہ ہونی چاہیے کہ وہ محرمات سے اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرے اور شہوانی خواہشات کا غلبہ اس کے اندر نہ ہو، جو لوگ شہوت پوری کرنے کے لیے اپنی بیویوں تک محدود رہتے ہیں، وہ قابل ملامت نہیں ہیں، جنسی خواہشات کی تکمیل ایک فطری تقاضہ ہے، اس کے لیے بیوی اور باندیوں کا ذکر کیا گیا ہے، باندیاں اب ہوتی نہیں،ا س لیے اب اس کام کا جائزطریقہ بیوی تک محدود ہو کر رہ گیا ہے اور وہ بھی شرعی حدود وقیود کے ساتھ۔
پانچویں صفت امانتوں میں خیانت نہ کرنا اور ان کی رعایت کرنا ، یعنی حفاظت کرنا ہے، امانات کہہ کر کے اللہ رب العزت نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اس میں ہر قسم کی امانت شامل ہے، بغیر اجازت کے کسی کا راز دوسروں پر کھولنا ، ملازمت کے جو اوقات ہیں اس کے مطابق وقت نہیں لگانا، یہ سب امانت میں خیانت ہے اور ایمان والوں کو امانت کی پوری رعایت کرنے کا حکم دیا گیا ہے، ورنہ وہ کامل مومن نہیں ہوسکتا، اسی کے ساتھ اللہ نے معاہدے اور وعدوں کی پاسداری بھی کامل ایمان والوں کی چھٹی صفت کے طور پر بیان کیا ہے۔ اگر کوئی مومن معاہدہ کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ دوسرے فریق کو دھوکہ دے رہا ہے، حالاں کہ معاہدہ کی پابندی فرض کے درجہ کی چیز ہے، اسی طرح وعدہ خلافی بھی مذموم ہے، کسی سے وعدہ کرلیا جائے تو اسے پورا کیا جائے، یہ بھی ضروری ہے، معاہدہ کی خلاف ورزی پر تو عدالت تک کا دروازہ کھٹکھٹایا جا سکتا ہے، البتہ وعدہ کی خلاف ورزی پرداروگیر اللہ ہی کر سکتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق کی جو پہچان بتائی ہے اس میں امانت میں خیانت اور وعدوں کی خلاف ورزی شامل ہے، اور منافق کامل مومن تو دو ر کی بات ہے، اس کا ایمان بھی محض دکھا وا ہوتا ہے۔
اور ساتویں صفت نماز کی حفاظت ہے، یہاں صلوٰۃ جمع لایا گیاہے تاکہ پنج وقتہ نماز یں اس میں شامل ہوجائیں، جنہیں اپنے وقت پر ادا کرنا ہے، پہلی صفت میں نماز کا ذکر خشوع کے حوالہ سے تھا۔ یہاں فرض نماز کی حفاظت کی بات کہی گئی ہے۔ سورۃ معارج میں ’’الذِیْنَ ھُمْ عَلی صَلَاتِھِمْ دَائِمُوْن‘‘ کہہ کر نماز پر مداومت ، پابندی اور ہمیشگی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اس سورۃ میں ان تمام اوصاف کے ساتھ اللہ رب العزت کے عذاب سے ڈرنے اور شہادتوں پر قائم رہنے کا بھی ذکر موجود ہے، اللہ کا ڈر ، اللہ کی خشیت اور اللہ کا خوف شاہ کلید ہے، جس سے ہمارے اعمال میں اعتدال اور توازن پیدا ہوتا ہے اور نیک عمل کی طرف رغبت پیدا ہوتی ہے، سورۃ العصر میں جہاں زمانہ کی قسم کھا کر اللہ رب العزت ارشاد فرمایاہے کہ انسان گھاٹے میں ہے، مگر وہ انسان جو ایمان والے ہیں، عمل صالح کرتے ہیں، حق کی تلقین ان کا شیوہ اور صبر تحمل، برداشت ان کی عادت ہے، ایسے لوگ کامیاب ہیں۔
 ان اوصاف کے حاملین کی زندگی میں ایسی تبدیلی آتی ہے جو ہر کوئی محسوس کر سکتا ہے، ایسے لوگ قرآن کی اصطلاح میں ’’عباد الرحمن‘‘ ہوجاتے ہیں جو زمین پردبے پاؤں عاجزی اور نرمی سے چلتے ہیں، جب نا سمجھ اور نادان لوگ ان سے گفتگو کرنے لگتے ہیں تو وہ سلامتی طلب کرکے اپنی راہ لیتے ہیں، ان کی راتیں رب کے سامنے سجدے اور قیام میں گذرتی ہیں، او روہ اللہ سے دوزخ کے عذات سے محفوظ رکھنے کی دعائیں مانگتے رہے ہیں، وہ خرچ میں اسراف اور بخالت سے بچتے ہیں اور اعتدال کے ساتھ خرچ کرتے ہیں،وہ اللہ کے علاوہ کسی کو نہیں پکارتے، وہ ناحق قتل نہیں کرتے، زنا سے پرہیز کرتے ہیں، وہ جھوٹے کاموں میں شریک وسہیم نہیں ہوتے اور لغویات سے با عزت نکل جاتے ہیں، وہ اپنی بیوی اور بچوں کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنانے اور انہیں پر ہیز گاروں کا مقتدیٰ بنانے کی دعا مانگتے رہتے ہیں، ایسے ہی لوگ جنت کے مستحق قرار پائیں گے۔
 ان اوصاف اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں پرمزید گفتگو کی جا سکتی ہے، اہل علم نے پوری پوری کتابیں اور مفسرین نے صفحات کے صفحات اس موضوع پرلکھ ڈالے ہیں، لیکن یہاں ایجاز سے کام لیا گیا ہے، امید ہے کہ ان اوصاف کو اپنا کر ہم مومن کامل بنیں گے اور جنت کے مستحق ہوں گے۔ وماتوفیقی الا باللہ

ایک ملک ایک انتخاب

ایک ملک ایک انتخاب 
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
 ہندوستان میں ایک ملک ایک کرنسی ، ایک دفاعی فوج، ایک قانون، ایک جھنڈا، ایک عدالتی نظام اور ایک نظام مواصلات کا پہلے ہی سے رائج ہے، اسی بنیاد پر رومنگ سسٹم کو ختم کر دیا گیا، اب ایک ملک ایک انتخاب کی بات چل رہی ہے اور اسی کے لیے غالباپارلیامنٹ کا خصوصی اجلاس ۱۸؍ستمبر سے خلاف معمول بلا یا گیا ہے، اور اس موضوع کے مختلف پہلوؤں کے جائزہ لینے کے لیے ایک آٹھ نفری کمیٹی سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی سر براہی میں بنائی گئی ہے، کانگریس کے ادھیر رنجن چودھری نے اُس کمیٹی سے خود کو الگ کر لیا ہے اس لیے اب ارکان کی تعداد سات رہ گئی ہے۔
 آزادی کے بعد 1967تک ملک میں سیاسی استحکام تھا، ریاستوں میں چھوٹی چھوٹی پارٹیاں خود رو پودے کی طرح سامنے نہیں آئی تھیں، مرکز اور ریاست کے بارے میں انتخابی نظریہ الگ الگ نہیں ہوا کرتا تھا، سیاسی استحکام کی وجہ سے دونوں کی مدت کا ر ایک ساتھ مکمل ہوتی تھی اور انتخاب بھی ایک ساتھ ہوجاتا تھا، یہ ایک اتفاق تھا، قانونی اور دستوری طور پر ایساکرانا ضروری نہیں تھا۔1967میں آٹھ ریاستوں میں کانگریس بر سر اقتدار نہیں آسکی اور آپسی رسہ کشی میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے پارلیامنٹ کو 1970میں وقت سے پہلے تحلیل کر دیا، 1975میں ہنگامی حالت (ایمرجنسی) کے نافذ ہوئے کے بعد پارلیامنٹ کی مدت کار چھ سال ہو گئی، 1977میں جنتا پارٹی کی حکومت بنی تو اس نے کئی ریاستوں کے وزراء اعلیٰ کو ہٹا کر صدر راج لگا دیا، جنتا پارٹی کی حکومت ڈھائی سال میں ہی گر گئی ، اس طرح ریاست اور مرکز میں ایک ساتھ انتخاب کرانا ممکن نہیں ہوسکا اور دونوں کے انتخابات الگ الگ ہونے لگے، کیونکہ ہندوستان کی تمام ریاستی اسمبلیوں کی مدت کار ایک ساتھ ختم نہیں ہورہی تھی اور پارلیامنٹ کی مدت کار سے اسمبلیوں کی مدت کار کا جوڑ نہیں بیٹھ رہا تھا،لیکن یہ چرچا کا موضوع رہا کہ ایک ملک ، ایک انتخاب مفید ہے یا مضر ۔
 سب سے پہلے 1999میں لا کمیشن نے اپنی 170 ویں رپورٹ میں پارلیامنٹ اور اسمبلی کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کی تجویز رکھی 2015میں عوامی شکایات ، قانون وانصاف کی پارلیمانی کمیٹی نے دونوں انتخاب ایک ساتھ کرانے کی سفارش کی ، 2017میں نیتی آیوگ نے ایک دستاویز جاری کیا، جس کے مطابق دو مرحلوں میں انتخاب کی تجویز رکھی گئی تھی۔اگست2018میں لا کمیشن نے نیتی آیوگ کی دومراحل میں انتخابات کرانے کی تجویز کو تسلیم دسمبر 2022میں لا کمیشن نے ایک ساتھ انتخاب کرانے کی تجویز پر سیاسی پارٹیوں ، انتخابی کمیشن، بیورو کریٹ، ماہرین تعلیم وسیاست سے رائے طلب کی ، رائے کیا آئی، لا ء کمیشن نے اس رپورٹ کو اب تک عام نہیں کیا ہے۔
 پھر ایسا کیا ہوا کہ مودی جی اور بھاجپا کو بیک وقت اس کی یاد آگئی، اسکی وجہ حزب مخالف کا اتحاد ہے اور حکومت ایک نیا موضوع چھیڑ کربے روزگاری، مہنگائی، سرحد پر چینی تناؤ سے لوگوں کی توجہ بٹانا چاہتی ہے، چندریان -۳کی کامیابی میں  گو حکمراں طبقے کا کوئی کمال نہیں ہے، یہ سارا کمال اسرو کا ہے،لیکن اس کی کامیابی کا سہرا بھی مودی جی نے اپنے سر لے لیا اور لوگوں کی توجہ اس کامیابی کی طرف مبذول کرنے کے لیے ایک لمبی تقریر کر ڈالی اور جن کی یہ اصل کامیابی تھی ان کو تقریر کرنے اور اپنی بات رکھنے کے لیے بہت کم وقت مل سکا۔
 اب تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ 18ستمبر سے 22ستمبر تک پارلیامنٹ اور راجیہ سبھا کا خصوصی اجلاس بلالیا گیا ہے، جس کا کوئی ایجنڈہ بھاجپا کے علاوہ کسی کے سامنے نہیں ہے۔ سیاسی پنڈتوں کے اندازے کے مطابق اس خصوصی اجلاس کی پانچ نشستوں میں خواتین رزرویشن،یکساں شہری قانون، ایک ملک ایک انتخاب ، آئی پی سی ، سی آر پی سی قوانین میں ترامیم کے لیے بل پیش کیا جا سکتا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت بڑی جلدی میں ہے خود آر ایس ایس، اور بھاجپا کے اندر بڑا طبقہ مودی جی کے خلاف ہے اور وہ اگلے انتخاب میں نتن گڈگری کو وزیر اعظم کا چہرہ بناکر پیش کرنا چاہتا ہے، آر ایس ایس اور بھاجپا کو شکایت یہ ہے کہ مودی کی طاقت کے آگے ان دونوں تنظیموں کی کوئی وقعت نہیں رہ گئی ہے اور کہنے والے یہ کہنے لگے ہیں کہ مودی ہے تو ممکن ہے، مختلف پروگراموں میں مودی، مودی کا ورد کیا جاتا ہے اور پوری ٹیم میں کسی اور کا نام آتا ہی نہیں ہے، بہت ہوا تو کبھی امیت شاہ کا نام لے لیا گیا، اس لیے مودی جی عجلت میں ہیں جو کچھ کرنا ممکن ہو کرگذرنا چاہتے ہیں، اسی لئے مودی نے فوری طورپر ایک ملک، ایک انتخاب کے موضوع پر غورکرنے کے لئے کمیٹی بنائی اور اس کا چیرمین سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کو بنادیا، سابق صدر جمہوریہ کی اس سے بڑی توہین اور کیا ہوگی کہ انہیں ’’ون نیشن، ون الیکشن‘‘ کمیٹی کا چیرمین بنا دیا گیا ہے، اور پتہ نہیں کس لالچ یا کس خوف سے ا نہوں نے اس کو قبول بھی کر لیا ہے، ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ سابق صدر جمہوریہ نے ایک چھوٹی کمیٹی کی صدارت قبول کر لی ہو۔
 ظاہر ہے بھاجپا اور آر ایس ایس کے تھنک ٹینک نے اس کا خاکہ پہلے سے بنا رکھا ہوگا، کمیٹی اس خاکے پر مہر لگادے گی اور حکومت اسے خصوصی اجلاس میں پیش کرکے اس کی منظوری پارلیامنٹ سے لینا چاہے گی، لیکن یہ دوسرے بل کی منظوری کی طرح آسان نہیں ہوگا، کیوں کہ ایک ملک ایک انتخاب کے لیے دستور میں پانچ ترمیمات کرنی ہوں گی، اور چونکہ انتخاب مرکز اور ریاست دونوں کا معاملہ ہے، اس لیے ریاستی اسمبلیوں سے بھی اس کی منظوری لینی ہوگی۔ 2018میں لاء کمیشن نے جو سفارشات پیش کی تھیں، اس کے مطابق دستور کی دفعہ 83,85,172,174اور 356میں اس کام کے لیے ترمیم ضروری ہوگی، تبھی اسمبلیوں کی مدت کار کوکم اور زیادہ کرکے پارلیامنٹ کے ساتھ انتخاب کرانا ممکن ہو سکے گا۔
 اگر اسمبلی اور پارلیامنٹ کے انتخاب ایک ساتھ ہونے کی منظوری مل جاتی ہے اور قانون بن جاتا ہے تو انتخاب کے اخراجات یقینا بہت کم ہو جائیں گے اور دوسرے کاموں کے لیے وقت بھی اچھا خاصہ بچے گا اور انتخابی کام کاج جلد نمٹ جائے گا، ہو سکتا ہے اس کی وجہ سے ملکی سیاست میں استحکام ہو، اس کے ذریعہ سازش کرکے حکومت گرانے اور بدلنے کی مہم پر بھی لگام لگ سکتی ہے، لیکن صدر راج کے امکانات بڑھ جائیں گے، بعض حالات میں طویل مدت تک ریاستوں کو مرکز کے زیرنگیں رہنا پڑسکتا ہے اور اگر اسمبلی تحلیل کرکے وسط مدتی انتخابات کرائے گیے تو پھر انتخابات الگ الگ شروع ہوجائیں گے، اور ایک ملک ایک انتخاب کا فارمولہ دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔ ریاست کے مفادات پس پشت چلے جائیں گے او رلوگوں کی ساری توجہ مرکزی انتخاب پر مبذول رہے گی، بھاجپا کی سوچ یہ ہے کہ عظیم اتحاد انڈیا میں جو چھوٹی ریاستی پارٹیاں شامل ہیں وہ اپنے وجود کے لیے اسمبلی انتخاب پر توجہ مرکوز رکھیں گی اور بھاجپا کے لیے مرکز تک پہونچنے کا راستہ ایک انتخاب کی وجہ سے صاف ہو جائے گا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...