Powered By Blogger

بدھ, فروری 08, 2023

قرآن کا اصل معلم رحمان ہے*✍️ ہمایوں اقبال ندوی( ارریہ ، بہار )

*قرآن کا اصل معلم رحمان ہے*
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️ ہمایوں اقبال ندوی
( ارریہ ، بہار ) 

آج اسکول کے بچوں کا ایک ہاسٹل دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی ہے، یہ شہر ارریہ کے ملت نگر میں کوسی کنارے واقع ہے، اس کا نام "الرحمن بوائز ہاسٹل" ہے، یہاں درجہ حفظ کی تعلیم شروع کی گئی ہے، جناب حضرت مولانا قاری نیاز احمد صاحب قاسمی و جناب مولانا شاہجہاں صاحب ندوی اور ناچیز کی موجودگی میں بسم اللہ خوانی ہوئی ہے، مجھے بتایا گیا کہ پہلے بھی یہاں کے دوبچے ہاسٹل ہی میں رہ کرحافظ  قرآن ہوئےہیں، دراصل اسی حصولیابی سے حوصلہ پاکر ذمہ داروں نے باضابطہ درجہ حفظ کا کلاس شروع کیا ہے، اسکول کے ہاسٹل کے لئے یہ ایک مثالی کام ہے، اس کا نام بھی قرآنی ہے،  "الرحمن "یہ اللہ کا وصفی نام ہے ، قرآن کریم میں اس نام سے باضابطہ ایک سورة نازل ہوئی ہے،ارشاد ربانی ہے، 
"رحمان نے قرآن کی تعلیم دی، اسی نے انسان کوپیدا کیا، اسی نے اس کو بولنا سکھایا " (الرحمن )

مذکورہ سورة میں اللہ رب العزت نے انسانوں پراپنے بہت سارے احسانات گنوائے ہیں، اور اپنی نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے،قابل غور بات یہ ہے کہ سب سے پہلی نعمت قرآن کا ذکر گیا ہے،اور فرمایا "رحمان نے قرآن سکھایا ہے"،

 قرآن خدا کی تمام نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہے،اس کمزور انسان کو حامل قرآن بنادینایہ کوئی آسان بات نہیں ہے اور نہ ہی  انسانوں کے بس کا یہ کام ہے، یہ خدا ہی کرسکتا ہےکہ ایک کمزور سی ہستی کو قرآن جیسی عظیم اور اونچی چیز کے لائق بنادے، اورآسمانوں و پہاڑوں سے زیادہ بھاری چیز قرآن کا حامل بنادے، درحقیقت یہ کام رحمان کا ہے،اور قرآن کا اصل معلم رحمان ہی ہے _

الرحمن بوائز ہاسٹل کے ذمہ داران واقعی قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے اس ادارہ کو خدا کی طرف منسوب کرکے قرآن کی تعلیم کا اسےسامان بنادیا ہے، نام کی برکت یہاں قرآنی تعلیم کی شکل میں  یہاں سے ظاہر ہورہی ہے،آج آدمی اپنی معمولی کاوش اور کوشش کو اپنے نام سے یا اپنے بچوں اور بیوی یا باپ کے نام سے منسوب کرتاہےاور انوار وبرکات سے خالی رہتا ہے، بالخصوص ہمارے تعلیمی اداروں سے خدا کے نام کی خوشبو آنی چاہیے، قرآن کی پہلی آیت میں اسی بات کی تلقین کی گئی ہے ، اللہ کے نام سے تعلیم کی ابتدا ہونی چاہیے۔

ایک موقع پر استاد گرامی جناب مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے فرمایا؛ہم مدرسہ کو اسکول تو نہیں بناسکتے ہیں، مگر اسکول میں قرآن کی تعلیم کانظم کرکے اسے مدرسہ بناسکتے ہیں،موجودہ وقت میں چار فیصد طلبہ ہی مدارس اسلامیہ میں ہیں، بقیہ ۹۶/فیصد مسلم بچے اکیڈمی اور اسکول میں زیر تعلیم ہیں۔انمیں اکثریت دین کی ابتدائی تعلیم سے محروم ہیں، دین کی بنیادی باتوں سے بھی ناواقف ہیں،انہیں پڑھا لکھا سمجھا جاتا ہے جبکہ وہ نماز وضو کا طریقہ بھی نہیں جانتے ہیں، اس وقت کام کا یہ بڑاوسیع میدان ہے،

قرآن کے علم سے عصری اداروں کو آراستہ کرنا موجودہ وقت کا شدید ترین تقاضا ہے، 
آج باطل اسلام کو مغلوب کرنے کے درپے ہے، اپنے حریف کو اپنے دلائل کے زور سے پست کرنے کی طاقت اسی کتاب میں اللہ نے رکھی ہے، ارشاد ربانی ہے؛

"اور بیشک یہ قرآن ایک ایسی کتاب ہےجو غالب ہے،باطل نہ اس کے سامنے سے اور نہ اس کے پیچھے سے اس کے پاس آئے گا،ایک حکمت والے اور خوبیوں والے کی طرف سے اترا،(حم السجده )

اور دنیا کی رہبری ونمائندگی بھی اسی کتاب سے ہی کی جاسکتی ہے، خدا کا فرمان ہے؛
برکت والا وہ ہے جس نے حق وباطل میں امتیاز کرنے والی کتاب اپنے بندوں پر اس لئے اتاری کہ وہ تمام دنیا کو بیدار اور ہشیار کرے، (فرقان )

تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب 
گرہ کشا  ہے  نہ  رازی  نہ  صاحب کشاف

زندگی کا مزاج ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

زندگی کا مزاج ___
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
جمال ندولوی (ولادت 1944 ) بن محمد نہال الدین مرحوم نثر نگاری اور شاعری دونوں سے جڑے رہے ہیں، لکھتے اور چھپتے رہے ہیں، شاعری میں انہں متین عمادی، جماد الدین ساحل اور قوس صدیقی سے شرف تلمذ رہا ہے، قوس صدیقی کے شاگرد ہونے کے با وجود جمال ندولوی کے یہاں ساختیات اور تشکیلیات کے قبیل کے الفاظ نہیں پائے جاتے ، وہ اپنے فکر وخیال کو اشعار میں ڈھالنے کے لیے روز مرہ کے مستعمل الفاظ کا استعمال کرتے ہیں، جن سے معنی کی ترسیل کا کام بہتر اور عمدہ انداز میں ہوتا ہے۔
”زندگی کا مزاج“ ان کا دوسرا مجموعۂ کلام ہے، اس کے قبل 2015ءمیں ان کا پہلا مجموعہ کلام ”کشکول صدا“ کے نام سے آیا تھا، اس دوسرے مجموعہ کا نام ”زندگی کا مزاج“ غیر ادبی اور غیر شاعرانہ ہے، اس میں جاذبیت اور کشش نہیں ہے، اس کا نام رقص حیات، عکس خیال وغیرہ ہوتا تو قارئین کی توجہ زیادہ مبذول ہوتی، لیکن اب تو جمال ندولوی صاحب دنیا سے رخصت ہو چکے ، اسے کون بدلے گا۔
 جمال ندولوی کی شاعری پر ان کے استاذ متین عمادی نے لکھا ہے:
”میں یہ نہیں کہتا کہ جمال ندولوی کا طرز سخن لا جواب ہے اور نہ یہ کہتا کہ ان کی شاعری بہت اعلیٰ درجہ کی ہے.... یہ بھی نہیں کہ ان کی شاعری کو بالکل نظر انداز کر دیا جائے۔ (کشکول صدا4-5)
متین عمادی نے دوسرے مجموعہ کے زیادہ خوبصورت زیر اثر اور تخیلات کے دامن کے مزید وسیع ہونے کی توقع کا اظہار کیا تھا، اب ان کا یہ دوسرا مجموعہ طباعت کے مرحلہ میں ہے، جس کے لیے ان کے بڑے صاحبزادے نیر اعظم مدیر ومالک ہفتہ وار اخبار ”آئینہ جمال“ کو شاں ہیں، اللہ کرے اشاعت کے مراحل جلد طے ہوجائیں۔
 ”زندگی کے مزاج“ میں حمد ، نعت، غزل، قطعہ، رخصتی نامہ، جمہوریت، آزادی، وطن سے محبت، متین عمادی اور جمیل مظہری کی شاعری پر نظمیں شامل ہیں، میرے سامنے جو مسودہ ہے اس میں غزل اور نظم کے حصوں کو الگ الگ نہیں کیا گیا ہے، کہیں نظم کے بعد غزل ہے اور کہیں غزل کے بعد نظم، چوں کہ کتاب طباعت کے مرحلے سے ابھی نہیں گذری ہے، اس لیے اس کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔
حمد ونعت کے اشعار روایتی قسم کے ہیں، اللہ رسول کے بارے میں ایک مو ¿من کا جو خیال ہونا چاہیے اس کی جلوہ گری حمد ونعت میں پائی جا رہی ہے، نعت کے بارے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جمال ندولوی نے اسے مناجات ہونے سے بچالیا ہے، ورنہ عموما شعرائ کے یہاں نعت کی ڈور مناجات سے مل جاتی ہے اور عقیدت ومحبت میں اس باریک فرق کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جا تا اور عبد ومعبود کا فرق جاتا رہتا ہے، جمال ندولوی نے اس فرق کو ملحوظ رکھ کر اچھی مثال قائم کی ہے۔
 مجموعہ کی غزلیات میں بہت سارے اچھے اشعار ہیں، جن میں مذہبی افکار ، عصری حسیت ، عشق ومحبت کی داستان سبھی کچھ موجود ہے، اسلام میں عمل کا مدار نیتوں پر ہے، خلوص عمل کے مقبول ہونے اور ریا عمل کے مردود ہونے کا سبب بنتا ہے، جمال نے اس حقیقت کو غزل کے ایک شعر میں بیان کیا
خلوص دل ہو گر شامل عمل مقبول ہوتا ہے
 ریا کا جس پر غلبہ ہو عمل بے کار جاتا ہے
 اسی غزل میں حقیقت پر مبنی یہ شعر بھی پڑھ لیجئے:
مسلسل ایک حالت پر کبھی رہتی نہیں دنیا
ہمیشہ جیتنے والا بھی اک دن ہار جاتا ہے
ہندوستان کے موجودہ حالت کی عکاسی اسی غزل کے ایک اور شعر میں ملتی ہے۔
کسی کی جھوٹی سچی سب دلیلیں رنگ لاتی ہیں
 ہمارا خون بھی بہہ جائے تو بے کار جاتا ہے
 جس غزل سے اس مجموعہ کا نام مقرر کیا گیا ہے، اس کے چند اشعار قلب وذہن کو اپنی طرف کھینچتے ہیں اور اس حقیقت کو واشگاف کرتے ہیں کہ اب دوست بھی قابل اعتماد نہیں رہے، اس دور میں جب دوست ہی گھر سے بلا کر دوست کو قتل کر دیتے ہیں، جمال ندولوی کے اس شعر کی سچائی کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔
 سارے چہرے لہو لہان ملے
کتنا زخمی ہے دوستی کا مزاج
 جمال کہتے ہیں کہ حالات جیسے بھی ہوں، ہم تو مو من ہیں اور مومن کا مزاج بندگی کا ہوتا ہے اور وہ بھی صرف خدا کی بندگی کا اس لیے اس کا سر کہیں دوسری جگہ جھک ہی نہیں سکتا۔(بقیہ صفحہ ۴۱پر)
میں کہیں سر جھکا نہیں سکتا
دل میں رکھتے ہیں بندگی کا مزاج
 بندگی کا یہ مزاج ہمیں آخرت سے قریب کرتا ہے اور اس احساس کو تقویت پہونچاتا ہے کہ مرنے کے بعد سب کچھ یہیں رہ جائے گا اور بندہ اللہ کے یہاں خالی ہاتھ ہی جائے گا۔
آخر وہ خالی ہاتھ گیا دیکھ لو جمال
حاصل کیا تھا اس کے جو سامان رہ گیا
 جمال ندولوی کے یہاں بعض ترکیبیں بہت خوبصورت انداز میں شعر میں ڈھل گئی ہیں، خوشیوں کی جاگیریں اور غم کی سلطانی کو ایک ہی شعر میں دیکھیے اور اس ادبی صنعت کی بر جستگی پر سر دھنیے:
تمہیں خوشیوں کی جاگیریں مبارک
 مجھے غم کی سلطانی بہت ہے
 اور یہ شعر بھی اس غزل کا بہت خوب ہے:
پرندے زخم کھا کر اڑ رہے ہیں
ہواو ¿ں کو پشیمانی بہت ہے
 یہ چند اشعار بطور نمونہ درج کیے گیے، ورنہ جمال ندولوی کے اس مجموعہ میں اس قسم کے اشعار بہت ہیں،جن میں تخیل کی رفعت، فکر کی ندرت، فن کی جولانی پورے طور پر موجود ہے جس سے قارئین کے دل ودماغ پر اس کے اچھے اثرات مرتب ہو نے کی توقع ہے۔
 جمال ندولوی اللہ کو پیارے ہوگیے، ان کے صاحب زادہ نیر اعظم اس کی طباعت کی طرف متوجہ ہوئے اور والد کے کلام کو ضائع ہونے سے بچالیا، اس کے لیے وہ ہم سب کی جانب سے شکریہ کے مستحق ہے، ایسی اولاد قسمت والوں کو ہی ملا کرتی ہے۔

بابا رام دیوکےنام۔۔۔۔۔!* * انس مسرورانصاری

بابا رام دیوکےنام۔۔۔۔۔!*
اردودنیانیوز۷۲ 
      * انس مسرورانصاری
    
    گزشتہ دنوں راجستھان میں منعقدہ ایک مذہبی تقریب میں بابا نام دیو مہراج اپنے بھاشن میں اسلام اورمسلمانوں کے خلاف خوب گرجےبرسے۔یہاں تک کہ پسینے سے ان کا سارا بدن بھیگ گیا۔تمام تر مذہبی اخلاقیات کو ہوا میں اڑاتے ہوئےانھوں نےشعائراسلام کا مذاق اڑایا۔روزہ،نماز،داڑھی،ٹوپی وغیرہ کے تعلق سے بدترین بکواس کی اور اپنی جہالت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔،ہمارے یہاں ایک مثل مشہور ہے۔۔سوف توسوف،چھلنی بھی ہنسے جس کے بہتر(72)چھید۔
          باباجی۔!آپ کی سیوامیں یہ پروچن پیش کرتا ہوں کہ آپ پرلے درجہ کے بیوقوف اور نادان ہیں۔جس۔یوگا۔کےبل بوتے پر آپ نے شہرت حاصل کی،آئیے ہم بتاتے ہیں کہ یوگا کیاہے۔؟آپ کو خود اپنے دھرم کےبارےمیں کچھ نہیں معلوم تودوسرےدھرموں کےبارے میں اپنی رائے اوروچاردھارائیں اپنے پاس رکھیں۔اسے بہنےسےروکیں۔آپ تو ایک ڈھونگی سادھوہیں۔آرایس ایس کے ایجنٹ۔جس کے موجودہ سربراہ موہن بھاگوت ہیں۔انھوں نے بھی اپنےایک حالیہ بیان میں کہا تھا کہ دنیا میں سناتن دھرم سب سے اچھا دھرم ہے۔،،
     آپ ان کےچیلاہوتے ہوئے بھی ان سے چار قدم آگے نکل گئے۔واہ۔۔۔ واہ۔۔ جواب نھیں اس جہالت کا۔یہ تونریندمودی اورامت شاہ کے اقتدار کی مہربانیاں ہیں(اندھوں کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی)کہ آج آپ اربوں میں کھیلنےلگے اور بڑی بڑی باتیں کرنےلگے۔ورنہ ماضی کی طرح حال میں بھی آپ سائکل ٹیوب کےپنکچربنارہےہوتے۔۔خفانہ ہوں۔بریکٹ بند محاورہ انجانے میں زبان پر آ گیا۔۔    
        اگرہم سناتن دھرم کی حقیقت بیان کرنے لگیں تو آپ کوپسینے چھوٹ جائیں۔لیکن ہم بدتمیز ہیں نہ غیرمھذب اور نہ بےغیرت۔۔ہمارا دین اسلام ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتا۔گروجی !شایدآپ کو معلوم نہ ہو کہ اسلام دھرم ایک تبلیغی دھرم ہے۔اس لیے اس کے پھیلاؤکوروکانہیں جاسکتا۔ سناتن دھرم ایک غیر تبلیغی مذہب ہےاوراسے پھیلایا نہیں جاسکتا۔البتہ ذاتی طور پر ہم آپ سےچند سوالات ضرورکریں گے۔سب سے پہلے ہم آپ کو یہ گیان دینا چاہتے ہیں کہ آپ کا دھرم، ویدک دھرم،ہرگز نہیں ہے۔یہ تو کوئی اور ہی دھرم ہےجس کے آپ اپاسک اورپرچارک ہیں۔ذرا اپنی دھارمک پستکوں اور ویدوں کادھیان پوروک ادھن کرلیں،پھر ہم آپ سے تفصیلی گفت گو کریں گے۔پہلے آپ یہ بتائیں کہ کیا کوئی دھرم ایسا بھی ہے جس نےاسلام دھرم سے بغاوت کر کے ایک نئے مذہب کی صورت اختیارکی ہو۔؟چودہ صدیوں میں ایک بھی مسلمان ایسا ظاہر نہ ہوا جس نے اسلام سے بغاوت کر کے کسی اور نئے مذہب کا اعلان کیاہو۔میرادعواہے کہ آپ ایک مثال بھی نھیں دےسکتے۔کیونکہ پوری دنیا میں ایسا کوئی دھرم ہےہی نھیں۔ 
۔پھر یہ بتائیں کہ مہاتما گوتم بدھ نے سناتن دھرم سےبغاوت کر کے ایک نئے دھرم کی استھاپناکیوں کی۔؟آپ کے دھرم میں انھوں نے کیا خرابی پائی۔؟؟آپ جانتے ہوں گے،اس میں بھی ہمیں شک ہے۔آپ کو اپنے دھرم کا اتھاس تک نھیں معلوم۔۔کیاہم بتائیں کہ مہاتما گوتم بدھ،مھاویرسوامی اورگرونانک جی کے علاوہ بھی بہت سارے رشیوں، منیوں نے سناتن دھرم سےبغاوت اورتیاگ کے بعد نئے نئےدھرموں کی بنیادکیوں رکھی۔۔؟اگرآپ نے تاریخ پڑھی ہوتی تو اسلام مخالف بیانات سےگریز کرتے۔کیوں کہ آپ کی چھلنی میں خود72/چھید ہیں۔باباجی۔!پہلے اپنے گریبان میں منھ ڈال کر دیکھو پھرکسی دوسرے دھرم کےبارے میں کچھ کہو۔ آپ کی تاریخ اور اصلیت بتاتی ہےکہ ویدک دھرم سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔اس پرتوبرہمنوں نےنا جائزقبض جمالیاتھا۔ویدوں کےخلاف بھگوان اوربھگتوں کےدرمیان دیوار بن کر کھڑےہو گئے تھے۔انھوں نےاپنےحلوےپوری کےلیے۔۔منو سمرتی،کاسہارالیا۔اس کومضبوتی سےپکڑ لیا اور ویدوں کوچھوڑ دیا۔اس کے پڑھنے لکھنے اور دیکھنےتک پر پابندی لگادی۔یہ تومسلمانوں کا احسان ہےکہ یہاں آنے کے بعد انھوں نے صدیوں سےبند پڑے ویدوں اوربنیادی مذہبی کتابوں کےعلوم کوعام کیا۔دوسرے مذاہب کی بنیادی کتابوں کے ترجمےکیے۔۔منوسمرتی،، ہی ایک ایسی دھارمک پستک ہےجوبلاشرکت غیرے برہمنوں کو مذہبی اور سیاسی اقتدارحاصل کرنے میں بھرپورمددکرتی ہے۔برہمنیت نےاس سے خوب خوب فائدے اٹھائے۔انسانوں کوچار ورنوں میں بانٹ دیا۔چار طبقوں میں تقسیم کردیااورتین طبقوں کو اپنی خدمت کاپابند بنادیا۔برہمنوں کی سازش کامیاب رہی۔اس آکاش کےنیچےاوراس دھرتی کےاوپربھگوان کے بعد انسان سے بڑا کوئی نہیں۔وہ بھگوان جونرنکارہے۔لیکن آپ انسانوں سے نفرت کرتےہیں اور جانوروں کی پوجا کراتے ہیں۔۔ذات پات چھوت چھات اونچ نیچ اورسماج کے کمزور طبقوں کےساتھ ظالمانہ سلوک،شدت پسند برہمنیت کی بے رحمی اور خودغرضی نے انسانوں کوحیوانوں میں تبدیل کردیا۔ انسانوں پر ہونے والے مظالم اور برہمنی استحصال مہاتما گوتم بدھ سے دیکھا نہ گیا۔انھوں نے برہمنی دھرم سے کنارہ کشی اختیارکی اوراپدیش دیا کہ مانو جاتی ایک سمان۔بھگوان نرنکارہے۔وہ ایک ہے۔تریسٹھ ہزاردیوتانہیں ہوسکتے۔دیویادیوتا بس وہی ایک ہے۔مانواور بھگوان کےبیچ کوئی دوسرا نھیں۔۔یعنی خدا اوربندوں میں تعلق براہ راست ہے۔کسی واسطہ اوروسیلہ کی ضرورت نھیں۔بھگوان سے مانگنےاورپانے کےدرمیان کوئی تیسرانہیں۔۔بنرجنم کوئی چیز نہیں۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔اس کےہزاروں سال بعد گرو 
نانک جی نے گوتم بدھ کےان اقول کی تصدیق کی۔برہمنیت پر یہ ایسی کاری ضرب تھی جس سے وہ بلبلا اٹھی۔گوتم بدھ کے اس نظریہ کو برہمنیت نے سختی کےساتھ مسترد کردیا۔اس کی بھرپور مخالفت کی۔چالاک برہمنوں کو لگاکہ اگریہ نظریہ مقبول ہو گیا تو مذہبی اورسیاسی اقتداران کے ہاتھو ں سے جاتا رہے گا۔برہمنوں نےاس نظریہ کی شدت کےساتھ مخالفت اورمذمت کی اوربودھ دھرم کے ماننے والوں پراتنےمظالم توڑے کہ خدا کی زمین ان پرتنگ ہو گئی۔ بودھ دھرم کے ماننے والوں کے خلاف نفرت انگیز فتوے جاری کیے کہ کسی بدھسٹ کے برتن میں کھاناپینا،ایسا ہی ناپاک ہےجیسےکسی کتے کی کھال میں کھانا، پینا۔وغیرہ۔۔۔لیکن زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھاکہ زمانہ نے کروٹ بدلی۔ کئی راجوں مہاراجوں اور کالنگاکی لڑائی میں ایک لاکھ انسانوں کی لاشوں کو دیکھ کراشوک اعظم نے اپنےآبائی دھرم کوتیاگ دیا اور گوتم بدھ کے امن واہنسا وادی دھرم کواپنا لیا۔۔
           ذرا اپنی تاریخ پڑھ لیجیےباباجی! کہ جب تک بودھ دھرم کومقتدرطبقہ کی سرپرستی حاصل رہی،برہمنیت کا کیسابراحال رہا۔اپنےہی زخموں کوچاٹنےاورفرضی تبسم زیرلب کےسیواکوئی چارہ ء کار نہ تھا۔زخم کھاکرمسکراناکوئی برہمنیت سے سیکھے۔پھر اشوک اعظم اوراس کے وارثین کےبعدآپ نے بودھ دھرم کے ماننے والوں کےساتھ کیسا سلوک کیا۔؟ان کواتناستایا اور ان کےخلاف اتنی نفرت پھیلائی کہ آخرکار انھیں د یش نکالادید یا۔بدھسٹ اپنی رہائش گاہیں،اپنی عبادت گاہیں چھوڑکرمختلف ملکوں کی طرف ہجرت پر مجبورہوگئےجہاں آج وہ آبادہیں۔ انھیں یہ ملک چھوڑناپڑا۔برہمنیت!یعنی آپ کو سکون مل گیا۔
        مہاویر سوامی کےماننےوالےجینیوں کے ساتھ بھی آپ نےکچھ اچھاسلوک نہیں کیا۔اس کی تفصیل الگ ہے۔ان کےساتھ بھی وہی کچھ کیاجوبدھسٹوں کےساتھ کیاتھا۔۔
        کیا آپ تاریخ کودہراناچاہتے ہیں۔؟اور اب وہی کچھ مسلمانوں کے ساتھ کرناچاہتے ہیں جو آپ کی مذہبی روایت رہی ہے۔وہی مظالم، نا انصافیاں ،نفرت انگیزیاں،جو آپ کی دھارمک پرم پراہے۔۔۔حقیقت یہ ہےکہ ہمیشہ کی بھوکی برہمنیت کبھی اتنی کشادہ ظرف اور کشادہ قلب نہیں رہی کہ اپنے آس پاس کسی اور مذہب کو برداشت کرپاتی۔اسے ہمیشہ خوف رہتا ہے کہ جب بھی کوئی اصلاحی مذہبی تحریک کھڑی ہوگی تواس کے اپاسک بھاگ کھڑے ہوں گے۔
            یہ لوجہاد۔تبدیلیءمذہب۔نکاح،طلاق، نقاب،یکساںسول کوڈوغیرہ کے مسائل جو کھڑے کیےگئےہیں،ان کی حقیقت کو ہم خوب جانتےہیں۔یہ کوئی اور چیزنھیں بلکہ پرانا برہمن وادی خوف ہے۔۔مگربابارام دیوجی۔!آپ یہ کبھی نہ بھولیں کہ آپ تاریخ کودہرانہیں سکتے۔ نہ اسے ختم کرسکتےہیں۔البتہ اس حقیقت کو تسلیم کرلیں کہ یہ مسلمان قوم ہے۔گری پڑی حالت میں بھی اپنے وطن اور قوم کی حفاظت کرناخوب جانتی ہے۔ذرا مذہبی پابندیاں اٹھاکرتودیکھو۔سناتن دھرم کے تنگ دائروں میں جکڑے ہوئے برادران وطن اسلام کی آغوش میں پناہ لینے کےلیےبےتاب ہیں۔۔۔۔۔۔۔ بات بہت آگےتک نجائے گی ورنہ ہم آپ سے اوربہت ساری باتیں کرتےگروجی۔!
      ۔۔اک ذراچھیڑیئےپھردیکھئیےکیاہوتاہے،، آخیرمیں علامہ شفیق جونپوری کاایک شعرسنئے اورسردھنئے۔عبرت بھی حاصل کیجئے۔۔۔    
      نکالیں سیکڑوں نہریں کہ پانی کچھ تو کم ہوگا
     مگر پھر بھی مرےدریاکی طغیانی نہیں جاتی

             آپ کا شبھ چنتک
          انس مسرورانصاری
                               05-2-2023
       قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن
  سکراول،اردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈکرنگر (یو،پی) 
         رابطہ/ 9453347784

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...