Powered By Blogger

اتوار, جون 12, 2022

نوپور شرما کا سر قلم کرتے ہوئے ویڈیو اپ لوڈ کرنے پر سری نگر میں یوٹیوبر گرفتار

نوپور شرما کا سر قلم کرتے ہوئے ویڈیو اپ لوڈ کرنے پر سری نگر میں یوٹیوبر گرفتار

ایک کشمیری یوٹیوبر، جس کا ویڈیو سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر بی جے پی کی معطل ترجمان نپرشرما کا سر قلم کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا، کو عوامی سکون کو خراب کرنے اور عوام میں خوف پیدا کرنے کے الزام میں ہفتہ کو یہاں گرفتار کیا گیا۔ حالانکہ نوجوان نے ویڈیو کو ڈیلیٹ کر دیا ہے اور اس کے لیے معافی بھی مانگی ہے۔ اپنی گرفتاری سے پہلے اس نے ایک اور ویڈیو پوسٹ کی جس میں اس نے کہا کہ اس کا لوگوں یا کسی مذہب کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

یوٹیوبر فیصل وانی کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس نے یوٹیوب پر ایک مجرمانہ ویڈیو اپ لوڈ کی تھی جو کہ عوامی امن کے خلاف ہے اور اس نے عام لوگوں میں خوف اور خطرے کی گھنٹی پھیلائی ہے۔ ایف آئی آر تعزیرات ہند کی دفعہ 505 اور 506 کے تحت درج کی گئی ہے۔ صفا کدل پولیس اسٹیشن نے مذکورہ شخص کو گرفتار کیا ہے۔ وانی کی گرفتاری اس وقت عمل میں آئی جب اس نے وائرل ویڈیو کو ڈیلیٹ کیا اور اپنے یوٹیوب چینل "ڈیپ پیئن فٹنس" پر پوسٹ کی گئی ایک نئی ویڈیو میں معافی مانگی۔"میں نے کل رات نوپور شرما کے بارے میں ایک ویڈیو اپ لوڈ کی تھی۔ یہ ایک VFX ویڈیو تھا جو پورے ہندوستان میں وائرل ہوا اور مجھ جیسا ایک بے قصور شخص اس میں پھنس گیا۔ میرا کبھی کسی دوسرے مذہب کو ٹھیس پہنچانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، کیونکہ اسلام ہمیں دوسروں کا احترام کرنا سکھاتا ہے۔ اس نے کہا کہ اس نے متنازعہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد اسے ڈیلیٹ کر دیا'۔

اس نے کہا کہ "میں تمام مذاہب کا احترام کرتا ہوں۔ ہاں، میں نے وہ ویڈیو بنائی تھی، لیکن میرا کسی چیز کی خلاف ورزی کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میں نے کل رات ہی ویڈیو کو ڈیلیٹ کر دیا تھا، لیکن میں اس کے لیے معذرت خواہ ہوں"۔ اس نے مزید کہا کہ اگر اس کی وجہ سے کسی کو تکلیف پہنچی ہے تو میں انتہائی معذرت خواہ ہوں۔ میرا کسی کو تکلیف پہنچانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اپنے آپ کو ایک سادہ شخص کے طور پر بیان کرتے ہوئے، وانی نے امید ظاہر کی کہ دوسرا ویڈیو بھی وائرل ہو جائے گا "تاکہ میری معذرت سب تک پہنچ جائے۔ اس نے کہا کہ میں ایک بے قصور شخص ہوں اور اس میں ملوث نہیں ہونا چاہتا۔ وانی کی اب ڈیلیٹ کی گئی اس کے چینل پر پوسٹ کی گئی ویڈیو میں ننگے جسم والے یوٹیوبر کو تلوار چلاتے اور شرما کی تصویر کا سر قلم کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

واضح ہو کہ نوپور شرما کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے معطل کر دیا تھا جبکہ ایک اور رہنما نوین جندل کو پیغمبر اسلام کے بارے میں ان کے متنازعہ ریمارکس پر نکال دیا گیا تھا۔ ان تبصروں پر کئی اسلامی ممالک میں شدید ردعمل سامنے آیا اور ہندوستانی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا گیا۔ ملک کے کئی شہروں میں بھی مظاہرے ہوئے ہیں، جب کہ شرما کے خلاف متعدد ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔

اترپردیش پولیس نے جمعہ کو ہونے والے تشدد کے الزام میں 304 لوگوں کو گرفتار کیا

اترپردیش پولیس نے جمعہ کو ہونے والے تشدد کے الزام میں 304 لوگوں کو گرفتار کیالکھنؤ: اترپردیش پولیس نے بی جے پی کی معطل کارکن نوپور شرما کے پیغمبر اسلام کے بارے میں متنازعہ ریمارکس کے خلاف احتجاج کے دوران جمعہ کو ہونے والے تشدد کے سلسلے میں ریاست کے آٹھ اضلاع سے اب تک 300 سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔اتوار کو یہاں جاری ایک بیان میں ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل آف پولیس (لا اینڈ آرڈر) پرشانت کمار نے کہا، “ریاست کے آٹھ اضلاع سے 304 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، اور نو اضلاع میں اس سلسلے میں 13 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔”مزید وضاحت کرتے ہوئے کمار نے کہا، “91 افراد کو پریاگ راج میں، اس کے بعد سہارنپور میں 71، ہاتھرس میں 51، امبیڈکر نگر اور مرادآباد میں 34، فیروز آباد میں 15، علی گڑھ میں چھ اور جالون میں دو افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔”سینئر افسر نے بتایا کہ 13 مقدمات میں سے، پریاگ راج اور سہارنپور میں تین تین، اور فیروز آباد، امبیڈکر نگر، مراد آباد، ہاتھرس، علی گڑھ، لکھیم پور کھیری اور جالون میں ایک ایک کیس درج کیا گیا ہے۔یوپی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ جنہوں نے اکثر کہا ہے کہ ان کے دور حکومت میں ریاست کو بار بار ہونے والے فسادات سے کیسے نجات ملی ہے انہوں نے ہفتے کے روز ایک سخت انتباہ جاری کیا۔انہوں نے عہدیداروں کو ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ ''گزشتہ چند دنوں میں مختلف شہروں میں ماحول کو خراب کرنے کی افراتفری کی کوششوں میں ملوث سماج دشمن عناصر کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی۔''مہذب معاشرے میں ایسے سماج دشمن لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ کسی بے قصور کو ہراساں نہیں کیا جانا چاہئے، لیکن ایک بھی قصوروار کو نہیں بخشا جانا چاہئے،'' انہوں نے کہا۔ہندی میں ایک ٹویٹ میں چیف منسٹر کے میڈیا ایڈوائزر مرتیونجے کمار نے ہفتے کے روز کہا تھا، ''بے قاعدہ عناصر کو یاد ہے، ہر جمعہ کے بعد ہفتہ ہوتا ہے'' اور بلڈوزر سے عمارت کو گرانے کی تصویر پوسٹ کی۔آدتیہ ناتھ کے تحت، ریاستی انتظامیہ مجرموں اور فسادات کے ملزمان کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہی ہے، ان کی املاک کو ضبط یا مسمار کر رہی ہے۔ ان کے ناقدین نے اکثر ان پر مضبوط بازو کی حکمت عملی اپنانے کا الزام لگایا ہے۔جمعہ کو مساجد میں نماز جمعہ کے بعد احتجاج کے دوران پریاگ راج اور سہارنپور میں لوگوں نے پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کیا۔کم از کم چار دیگر شہروں میں ایسے ہی مناظر ان مارچوں کے دوران دیکھے گئے جو بی جے پی کی معطل ترجمان نوپور شرما کے پیغمبر محمد کے بارے میں متنازعہ ریمارکس کے خلاف احتجاج کے لیے نکالے گئے تھے۔پریاگ راج میں، ہجوم نے چند موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کو آگ لگا دی اور ایک پولیس گاڑی کو بھی نذر آتش کرنے کی کوشش کی۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور لاٹھیوں کا استعمال کیا اور امن بحال کیا۔ پولیس کے مطابق ایک پولیس اہلکار زخمی ہوا۔شرما کو بی جے پی نے معطل کر دیا تھا کیونکہ کئی اسلامی ممالک نے ایک ٹی وی بحث کے دوران پیغمبر اسلام کے بارے میں ان کے تبصروں کی مذمت کی تھی۔سہارنپور میں مظاہرین نے شرما کے خلاف نعرے لگائے اور ان کے لیے موت کی سزا کا مطالبہ کیا۔ بجنور، مرادآباد، رام پور اور لکھنؤ میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے۔

الہ آباد تشدد : کلیدی ملزم کے گھر بلڈوزر سے انہدامی کارروائی ، مین گیٹ مسمار ، بھاری فورس تعینات

الہ آباد تشدد : کلیدی ملزم کے گھر بلڈوزر سے انہدامی کارروائی ، مین گیٹ مسمار ، بھاری فورس تعینات

الہ آباد: توہین رسالتؐ کے خلاف جمعہ کے روز ہونے والے تشدد کے سلسلہ میں پولیس نے سخت کارروائی شروع کر دی ہے۔ اس ضمن میں الہ آباد میں بلڈوزر کی کارروائی شروع ہو گئی ہے۔ پولیس اور انتظامہ کے لوگ معاملہ کے مبینہ 'ماسٹر مائنڈ' جاوید پمپ کے گھر پر پہنچ گئے ہیں۔ 'آج تک' کی رپورٹ کے مطابق جاوید کے گھر کے مین گیٹ کو توڑ دیا گیا ہے۔

قبل ازیں، پی ڈی اے (پریاگراج ڈیولپمنٹ اتھارٹی) نے جاوید پمپ کے مکان پر نوٹس چسپاں کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس گھر کو صبح 11 بجے تک خالی کر دیا جائے تاکہ اتھارٹی انہدامی کارروائی انجام دے سکے۔ دریں اثنا، پولیس نے جاوید کے گھر کو چھاونی میں تبدیل کر دیا ہے۔ سب سے پہلے جاوید کے گھر کا مین گیٹ توڑ گیا اور اس کے بعد باؤنڈری وال بھی گرا دی گئی ہے۔ ایس پی سٹی لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ موقع سے ہٹ جائیں۔ تاہم جاوید کا گھر اندر سے بند ہے۔

آج تک کی رپورٹ کے مطابق پولیس اہلکار جاوید کے گھر میں داخل ہو گئے اور سامان باہر نکال دیا۔ پولیس اہلکاروں نے مکان کی پہلی منزل پر پہنچ کر کرسیاں اور دیگر سامان نیچے پھینکا۔ جاوید کا گھر اندر سے بند ہے اور صبح سے کوئی رکن باہر نہیں آیا۔ رپورٹ کے مطابق پولیس افسران نے پہلے ہی صاف کر دیا تھا کہ اگر دروازہ نہیں کھولا جاتا تو اسے توڑ کر لوگوں کو باہر نکالا جائے۔ موقع پر خاتون پولیس اہلکار بھی تعینات ہیں تاکہ خواتین مخالفت کریں تو انہیں قابو میں کیا جا سکے۔

خیال رہے کہ پی ڈے کی جانب سے رات گئے جاوید کے گھر پر نوٹس چسپاں کیا گیا تھا۔ نوٹس میں کہا گیا تھا کہ 12 جون کو صبح 11 بجے تک گھر خالی کر دیا جائے۔ نوٹس میں کہا گیا تھا کہ گھر کا تمام سامان باہر نکال لیں، تاکہ اتھارٹی اپنی کارروائی انجام دے سکے۔

گستاخِ رسول کا عبرتناک انجام ___ ✍️شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی

گستاخِ رسول کا عبرتناک انجام ___
   ✍️شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار
  مٹ گئے ، مٹتے ہیں، مٹ جائیں گے، اعدا تیرے
نہ مٹا ہے ۔نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا 
معاندین اسلام اور مفاد پرست لیڈر اسلام اور اہل اسلام کے معاملہ میں سنگین حد تک تنگ نظری کا شکار ہیں اور انہوں نے
 اپنے نظریہ کے اعتبار سے اسلام کے خاتمہ کا بیڑا ہی اٹھا لیا ہے یہ افراد اسلامی شعار کو کیا برداشت کریں گے کہ جن چیزوں سے مسلمانوں کا ادنیٰ تعلق بھی ظاہر ہو اسے بھی گوارہ کرنے کے روادار نہیں ہیں
کچھ دنوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کے تعلق سے؛ ہندوتوا؛  کا رویہ بڑا جارحانہ ہوگیا ہے مذہب، تہذیب، زبان تینوں پر زبردست یلغار ہے فتنہ پرور عناصر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اتنی خفیہ اور طویل المیعاد سازشیں کر رہے ہیں کہ ان کے پیچ و خم کو سمجھنا اور اپنے دفاع کے لیے ہر وقت تیار رہنا ہر مسلمان کے لیے ازبس ضروری ہو گیا ہے ۔چاروں طرف اسلام کی بد خواہی کی زوردار آندھیاں چل رہی ہیں اسلام  مخالفت کی گھنگھور گھٹائیں چھائی ہیں بدین عناصر اور اسلام دشمن تحریکیں اپنی حیلہ سازیوں اور ہماری غفلت شعار یوں کے سبب اسلام کے مذہبی، اصلاحی، تبلیغی، اشاعتی، تہذیبی، اخلاقی، تمدنی، ثقافتی، اقتصادی، معاشی، معاشرتی، سماجی، اور سیاسی نظام و آداب اور اصول و ضوابط کو ناقابل عمل بنانے کی انتھک کوششیں کر رہی ہیں گلشن اسلام کو خاکستر بنا دینے کے خواب دیکھے جارہے ہیں اسلام و مسلمین کے خلاف دنیا بھر میں باطل پرستوں اور طاغوتی طاقتوں کی مختلف جماعتیں باہم متحد اور منظم نظر آرہی ہیں اسلام ان کا مشترکہ دشمن بنا ہوا ہے جسے مٹانے اور نیست و نابود کردینے کی سعی اور مسلمانوں کا مضحکہ اڑانے کی کوشش کی جارہی ہے اسلام پر سامراجیت وصیہونیت کے خوفناک ساۓ ہیں آۓ دن تحریر و تقریر کے ذریعہ عالمی سطح پر اسلام و بانی اسلام کی شان میں بدترین گستاخیاں کر کے ہر محاذ پر مسلمانوں کو حیران و پریشان مرعوب و مغلوب  اور مجبور و محکوم بنانے کا سامان فراہم کیا جارہا ہے مجموعی طور پر اسلام کے لئے یہ بڑے خطرے کا وقت ہے ۔ ہمیں زمانے کے تیور حالات کی نزاکت اور عالمی سیاست سے باخبر رہ کر اپنے اسلاف کے طریقہ و انداز سے تعلیم و تربیت اور ارشاد و ہدایت کا کام بڑی سوجھ بوجھ اور باہمی مشورہ سے کرنا چاہیے تاکہ اسلام کے تشخص کو نقصان پہنچنے اور مسلمانوں کی جمعیت کا شیرازہ منتشر ہونے سے محفوظ رکھا جاسکے اگر ہم نے وقت کی اس دردناک چیخ پر توجہ نہ دی تو مستقبل میں ہماری نسلیں اسلام سے کتنی دور ہوجائیں گی کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔
انسان کتنا احمق ہے وہ جب ظلم کرتا ہے تو بھول جاتا ہے کہ خود مجھ پر ظلم ہو سکتا ہے جب وہ کسی کی عزت و آبرو خراب کرتا ہے تو بھول جاتا ہے کہ میری آبرو بھی لٹ سکتی ہے جب وہ کسی کا دل دکھاتا ہے تو اسے یاد نہیں رہتا کہ میرا دل بھی دکھایا جا سکتا ہے حالانکہ اس دنیا میں بھی مکافات عمل کا سلسلہ جاری رہتا ہے جو بویا جاتا ہے وہی کاٹا جاتا ہے یہ تو ممکن ہے کہ ظالم کو کچھ وقت کے لئے ڈھیل دے دی جائے لیکن کب تک بالآخر اللہ اسے پکڑتا ہے اور اللہ کا پکڑنا تو پھر نرا لا ہی ہوتا ہے اور ایسا پکڑتا کہ ہے ظالموں اور متکبروں کو عالم انسانی کے لئے عبرت کا نشان بنا دیتا ہے وہ جب پکڑتا ہے تو مال و دولت عہدہ ومنصب اور دوست و احباب میں سے کوئی بھی کام نہیں آتا ۔
اللہ تعالیٰ مختلف قسم کے جرم کی سزا دنیا میں بھی دے دیتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ ہر ظلم کی سزا اسی دنیا میں دے دی جائے کیونکہ یہ دنیا تو  دارالعمل ہے دارالجزاء تو قیامت ہے لیکن ظلم اور غرور یہ دو ایسے جرم ہیں کہ ان کی سزا کسی نہ کسی پہلو سے اس دنیا میں بھی ضرور مل کر رہتی ہے تاریخ اٹھا لیجیۓ اور ایک ایک ظالم اور متکبر کے عبرتناک انجام کا مطالعہ کیجئے حالانکہ گناہ تو دوسرے بھی ہیں شراب نوشی  گناہ ہے زناکاری گناہ ہے عبادت سے روگردانی گناہ ہے لیکن ان گناہگاروں کے گناہوں کی جزا کا معاملہ اکثر و بیشتر یومِ آخرت تک مؤخر ہو جاتا ہے لیکن ظالموں اور متکبروں کو ان کے ظلم اور تکبر کا کچھ نہ کچھ مزہ دنیا میں بھی چکھا دیا جاتا ہے۔  اسی لیے امام ابو حنیفہ  فرمایا کرتے تھے کہ ظالم اور متکبر اپنی موت سے قبل ہی اپنے ظلم اور کبر کی  کچھ نہ کچھ سزا ضرور پاتا اور ذلت و نامرادی کا منہ دیکھتا ہے چنانچہ خدا کے سچے پیغمبروں سے الجھنے والی قوموں اور تاریخ کی ظالم و مغرور ہستیوں کی عبرتناک ہلاکت و بربادی اس دعوے کی بہترین دلیل ہے 
قبر نے ٹھکرا دیا
بارگاہِ نبوت کے ایک گستاخ کا واقعہ جس کو امام بخاری نے باب علامات النبوۃ میں نقل فرمایا ہے کہ ایک نصرانی مشرف بہ اسلام ہو ا اور سورہ بقرہ و سورۂ آل عمران کا حافظ بھی ہوگیا اور بارگاہ نبوت میں اس قدر مقرب ہو گیا کہ وحی بھی لکھنے لگا مگر ناگہاں اس کے سر پر بدنصیبی کا ایسا بھوت سوار ہوگیا کہ وہ رحمت عالم کی بے ادبی کرنے لگا اور یہ کہنے لگا کہ محمد کو تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا میں ان کو لکھ کر دیتا ہوں غرض یہ مردود مرتد ہو کر بارگاہ نبوت سے بھاگ نکلا لیکن جب یہ مرا تو اس پر قہر  خداوندی نازل ہوا کہ نصرانیوں نے جب اس کو دفن کیا تو قبر نے اس کی لاش کو باہر پھینک دیا نصرانیوں نے جب اس کی کی لاش کو قبر سے باہر دیکھا تو انھیں یہ شبہ ہوا کہ صحابہ نے اس کی لاش کو قبر سے نکال دیا ہو گا چنانچہ نصرانیوں نے دوبارہ نہایت گہری قبر کھود کر اس کو دفن کیا مگر پھر بھی اس کی لاش خود بخود نکل کر زمین کے اوپر آ گئی اس وقت نصرانیوں کو بھی یقین ہوگیا کہ یہ کسی انسان کا کام نہیں ہے بلکہ یقیناً یہ خدا کا قہر و غضب ہی ہے چنانچہ ان لوگوں نے پھر دوبارہ اس کو دفن کرنا گوارہ نہیں کیا اور اس کی لاش کو پھینک دیا (بخاری) 
منہ ٹیڑھا ہوگیا
مکہ مکرمہ میں ایک بہت بڑا دشمن رسول تھا جس کا نام تھا ابوالعاص  یہ اپنا منہ ٹیڑھا کر کے حضور اکرم صلی اللہ وسلم کا منہ چڑایا کرتا تھا ایک دن سرور کائنات کے قلب مبارک پر انتہائی صدمہ گزر گیا آپ نے جلال نبوت میں اس کی یہ حرکت دیکھ کر فرمایا کن کذالک یعنی تو ایسا ہی ہوجا  زبان مبارک سے ان الفاظ کا نکلنا تھا کہ ابوالعاص کا منہ ہمیشہ کے لئے ٹیڑھا ہوگیا جو ہر وقت ہلتا رہتا تھا (خصائص کبریٰ)
ابولہب کا انجام
سورۃ تبت یدا کے نزول کے بعد ابو لہب اور ام جمیل کی آتش غضب اور زیادہ بھڑک اٹھی اور یہ دونوں اور زیادہ خدا کے محبوب کی دل آزاری کرنے لگے مگر خداوند ذوالجلال کا قہاری حکم عذاب دارین بن کر ان دونوں کے سروں پر منڈلا رہا تھا چنانچہ صرف چند ہی دن گزرے کہ خداوندعالم کا قھر و غضب اس طرح عذاب بن کر ان دونوں پر اتر پڑا کہ دونوں انتہائی ذلت و رسوائی اور بے پناہ تکالیف میں مبتلا ہو کر موت کے گھاٹ اتر گئے ابولہب خطرناک اور زہریلی چیچک کی بیماری میں مبتلا ہو گیا اس کا تمام جسم پھوڑا ہو گیا جس کی بدبو سے کسی کا اس کے پاس ٹھہرنا دشوار تھا اس نے اپنے علاج پر پانی کی طرح روپیہ بہا دیا مگر خدا کا قہاری اعلان کہ ما اغنی عنہ مالہ وماکسب  کب ٹلنے والا تھا نہ اس کا مال اس کو بچا سکا نہ اس کی کمائی اس کے کام آئی اس کا سارا بدن سڑ گیا اور وہ جنگ بدر کے ساتویں دن یعنی 24 رمضان 2ھجری کو ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرگیا 
ام جمیل کی پھانسی
ام جمیل ابو لہب کی بیوی تھی یہ خبیثہ کانٹوں کا گٹھا جو مونجھ کی رسی سے بندھا ہوا تھا اور رسی کا کچھ حصہ اس کے گلے میں لپٹا ہوا تھا حسب عادت اپنے سر پر لئے ہوئے چلی جا رہی تھی کہ ناگہاں تھک کر ایک پتھر کی چٹان پر بیٹھ گئی اتنے میں عذاب الہی کا ایک فرشتہ آیا اور اس گٹھے کو اس کے سر سے گرا دیا اور ایک دم رسی سے اس کے گلے میں ایسی پھانسی لگ گئی کہ اس کا دم گھٹ گیا اور وہ وہیں تڑپ تڑپ کر مرگئی 
الغرض  جس شخص کو یہ دیکھیں کہ وہ خدا کے مقدس بندوں انبیاء اولیاء اور صدیقین و شہداء یا علماء و فقہاء کی شان میں گستاخی و بے ادبی اور طعنہ زنی و بدگوئی کرتا ہے  تو پھر سمجھ لیں کہ قہر خداوندی عذاب کا بادل بن کر اس کے سر پر منڈلا رہا ہے اور یقین کر لیں کہ یہ شخص طرح طرح کے عیوب اور بداعمالیوں میں مبتلا ہوکر دونوں جہاں میں خائب و خاسر اور ذلیل و رسوا ہونے والا ہی ہے

مودی جی کی حکمرانی کے آٹھ سال___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ

مودی جی کی حکمرانی کے آٹھ سال___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
 مرکز میں بھاجپا کی حکومت اور مودی کے وزیر اعظم بنے ہوئے آٹھ سال مکمل ہو چکے ہیں، ان آٹھ سالوں کو ہندوستانی جمہوریت کی تباہی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، راج کوٹ میں وزیر اعظم نریندر مودی اپنی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ میں نے ان آٹھ سالوں میں کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے ہندوستان کے شہریوں کا سر شرم سے جھکے، مودی جی کی شبیہ ملک اور بیرون ملک میں جملہ باز اور لمبا پھینکنے کی رہی ہے ، اس پھینکنے میں حقائق سے دور باتیں کہنے کی ان کی عادت پُرانی ہے، اس لیے عام لوگوں کا خیال ہے کہ وہ جو کچھ’’ من کی بات‘‘ میں کہیں یا تقریر کریں تو سامعین کو اپنی معلومات کی روشنی میں اس کا موازنہ اور مقابلہ کر لینا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ اس کو بعینہ نقل کر دیں اور اہل علم وتحقیق اور مؤرخین آپ کا مذاق اڑانے لگیں۔
مودی جی نے ان آٹھ سالوں میں جمہوری اقدار کو توڑنے اور کمزور کرنے کاجو کام کیا ہے، فرقہ پرست طاقتوں نے  نفرت کی کھیتی کوجس طرح پروان چڑھایا وہ ان کے دور اقتدار کی خاص بات ہے، ماب لنچنگ اور دوسرے معاملات وواقعات پر ان کی خاموشی اور زبان بندی نے فرقہ پرستو ں کے حوصلے بلند کیے اور سڑک سے لے کر ٹرینوں تک میں نفرت کے سودا گروں نے سفر کو غیر محفوظ اور پریشان کن بنا دیا، جو مقیم ہیں ان کے گھروں پر بلڈوزر چل رہا ہے، آپ کو یاد ہوگا کہ مودی جی کے دور میں ہی کالے دھن کو واپس لانے اور پندرہ، پندرہ لاکھ ہر شہری کے کھاتے میں ٹرانسفر کی بات ہوئی تھی، اس لمبے جملے پر تو کام نہیں ہوا، لیکن کالے دھن کو بر آمد کرنے کے نام پر جو نوٹ بندی کا کام کیا گیا، اس نے چھوٹے صنعت کاروں، مزدوروں اور غریبوں کی کمر توڑ کر رکھ دی،کتنی بچیوں کے ہاتھ پیلے ہونے سے رہ گیے، مار کیٹ سے رقم غائب ہو گئی تو طلب ورسد (ڈیمانڈ اور سپلائی) کا توازن بگڑ گیا اور بڑی تعداد میں لوگ بھوک مری کے شکار ہوئے، لطیفہ یہ ہے کہ ایک ہزار کے نوٹ بند کرکے دو ہزار کے نوٹ چھاپے گیے تاکہ کالے دھن کو چھپانے میں سہولت ہو، اب یہ اس طرح چھپالیا گیا کہ اس کی صورت بھی نظر ہیں آتی، نئے ڈیزائن اورنئے سائز کے نوٹ چھاپے گیے، لیکن وہ اپنی خوبصورتی اور جمالیات میں پُرانے نوٹوں کے مقابل انتہائی بھدے اور بد نما دکھائی دیتے ہیں۔ مودی جی کے دور میں ہی کورونا کی وبا آئی اور اس سے نمٹنے کے جو انتظام کیے گیے،تالی اور تھالی پیٹی گئی، چراغاں کرکے فضائی آلودگی میں اضافہ کیا گیا، اس کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کو اپنی جان گنوانی پڑی ، سڑکوں پر لوگ گھسٹ گھسٹ کر مر گیے، ان میں بڑے بوڑھے ، عورت مرد سبھی شامل تھے، دوائیوں کی قیمت آسمان کوپہونچ گئی، آکسیجن کے سلنڈر بازار سے غائب ہو گیے، اور لوگ تڑپ تڑپ کر مرنے پر مجبور ہوئے، آخر رسومات کی ادائیگی میں جو پریشانی ہوئی اور جس طرح انسانی لاشوں کو کتے گیدر اور جنگلی جانوروں نے کھایا ، دریا میں جس طرح بہایا گیا وہ انسانیت کو شرمسار کرنے کے لئے کافی تھا۔
 مودی جی کے دور میں جی اس ٹی نے جس طرح رلایا، پیاز اور ٹماٹر کی چھوڑئیے، پٹرول، ڈیزل اور غذائی اجناس کے دام جس تیزی سے بڑھے اس کی کوئی دوسری نظیر ماضی قریب میں نہیں ملتی ، آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے ۔
 مودی جی کے دور میں ہی چین کی فوجیں ہمارے ملک میں گھس آئیں اور ایسا ۱۹۶۲ء کے بعد پہلی بار ہوا ، چین ایک پل بھی بنا رہا ہے اور سٹلائٹ سے لی گئی تصویرکی مانیں تو بڑے علاقے پر اس کا قبضہ آج بھی ہے، یہ وہ معاملات وواقعات ہیں، جن کو پڑھ کر اور دیکھ کر ہر ہندوستانی کا سر شرم سے جھک جاتا ہے، بے روزگاری جس طرح بڑھی ہے اس سے نوجوانوں کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے، اس کے باوجود مودی جی دعویٰ کررہے ہیں کہ کسی شہری کا سرشرم سے نہیں جھکا تو اسے بے شرمی کی انتہا کہنا چاہیے۔

توہین رسالت ﷺ کے خلاف احتجاج اور مظاہروں میں تشدد کا کون ہے ذمہ دار ؟ -شکیل رشید

توہین رسالت ﷺ کے خلاف احتجاج اور مظاہروں میں تشدد کا کون ہے ذمہ دار ؟ -شکیل رشید

ایڈیٹر ممبئی اردودنیا نیوز۷۲)
کون ہے رانچی کے سولہ سالہ شہید مدثر ولد محمد پرویز اور شہید ساحل کا مجرم ؟ کون ذمہ دار ہے اُن نوجوانوں کے جسموں پر لگے زخموں کا ، جو عشقِ رسول ﷺ میں احتجاج کے لیے سڑکوں پر اترے تھے ؟ یہ کیوں رانچی سے لے کر اتر پردیش اور مغربی بنگال تک ، اندھا دھند گرفتاریاں کی جا رہی ہیں ، اور کون ہے اِن گرفتاریوں کے پیچھے ؟ کیا شہید مدثر اور ساحل کے مجرم خود احتجاجی ہیں ، یا سیاسی اور مذہبی قائدین ، یا حکومت اور پولیس ؟ کیا یہ کہنا درست ہوگا ، کہ احتجاجی خود اپنے زخموں اور اپنی گرفتاریوں کے قصوروار ہیں ، انہوں نے جو بویا وہی کاٹا ؟ ان سوالوں کے جواب ایسا نہیں ہے کہ نہیں مل رہے ہیں ، مل رہے ہیں ، کوئی سارا قصور ، سارا الزام احتجاجیوں کے سر ڈال رہا ہے ، تو کوئی سیاسی اور مذہبی قائدین کو ذمہ دار قرار دے رہا ہے ، اور کوئی حکومتوں ( مرکزی و ریاستی ) ، پولیس اور انتظامیہ کو مجرم کہہ رہا ہے ۔
یہ سچ ہے کہ جمعہ ۱۰ ، جون کو کسی بھی تنظیم ، جماعت یا کسی ادارے کی جانب سے ، کسی بھی طرح کے احتجاج کا اعلان نہیں کیا گیا تھا ۔ ہاں ، اس روز ، عالم اسلام میں ' جمعتہ نصرۃ رسول اللہ ﷺ ' کے عنوان سے احتجاج کا اعلان تھا ، اور عالمِ اسلام نے جمعہ کو مظاہرے کر کے ، رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کیا بھی ۔ بھارت میں کسی بند کا اعلان نہ ہونے کے باوجود ملک گیر سطح پر مظاہرے ہوئے ، احتجاج کیا گیا ، نعرے لگا کر غم وغصے کا اظہار کیا گیا اور یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ گستاخ نوپور شرما اور نوین جندل کو گرفتار کیا جائے اور انہیں قرار واقعی سزا دی جائے ۔ سوال یہ ہے ، کہ جب احتجاج کا کوئی اعلان ، مسلم تنظیموں و جماعتوں کی طرف سے نہیں تھا ، تو احتجاج ہوا کیسے؟ اس سوال کے تین ممکنہ جواب ہو سکتے ہیں : اوّل یہ کہ ہو سکتا ہے عام مسلمانوں نے ' جمعتہ نصرۃ رسول اللہ ﷺ ' کے اعلان میں بھارت کو بھی شامل سمجھ لیا ہو اور احتجاج کے لیے تیار ہو گئے ہوں ، کیونکہ ذمہ داران کی جانب سے ، بالفاظ دیگر ملّی جماعتوں کی طرف سے کوئی ایسا اعلان یا وضاحت نہیں آئی تھی کہ ' جمعتہ نصرۃ رسول اللہ ﷺ ' سے ہمارا ، ہم ہندوستانی مسلمانوں کا ، کوئی لینا دینا نہیں ہے ، لہٰذا اس سے دور رہیں ۔ دوم یہ کہ سوشل میڈیا پر ایک اعلان ' جمعہ کے بند اور احتجاج ' کا مسلسل گردش میں تھا ، حالانکہ اس ' اعلان ' کے نیچے نہ کسی تنظیم کا نام تھا نہ ہی کسی شخص کا ، لیکن ' اعلان ' چونکہ وائرل ہو چکا تھا ، اس لیے یہ ممکن ہے کہ بہت سے لوگوں نے اسے ' احتجاج کا اعلان ' سمجھ لیا ہو اور جمعہ کو احتجاج کا ارادہ کر لیا ہو ۔ یہ سچ ہے کہ بعض مسلم تنظیموں اور بعض قائدین نے سوشل میڈیا پر بھی اور اخبارات میں بھی ' اعلان ' کو فرضی بتایا اور لوگوں کو ' بند ' نہ کرنے کی تاکید کی ، لیکن اس تاکید کے آنے سے پہلے ' بند کا اعلان ' اپنا اثر ڈال چکا تھا ۔ ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ ' بند کے اعلان ' کو ' نامعلوم افراد کی کارستانی اور فرضی بتانے ' کے باوجود ، اور اس وضاحت کے بعد بھی ، کہ کسی بھی مسلم تنظیم یا جماعت نے ' بند کا اعلان ' نہیں کیا ہے ، کیوں عام لوگوں نے قائدین کی باتوں پر توجہ نہیں دی ؟ شاید اس سوال کا جواب بہتوں کو اچھا نہ لگے ، لیکن تلخ سہی جواب ایک ہی ہے ، لوگ اب قائدین کے ' رویّوں ' سے عاجز آ چکے ہیں ۔ میں مولانا محمود مدنی کا مخالف نہیں ہوں ، اور ممکن ہے کہ انہوں نے کسی مصلحت کی بنا پر '' بی جے پی کو ذمہ دار سیاسی پارٹی کہہ کر اس کی سراہنا کی ہو '' ، لیکن یہ بات عام مسلمانوں کو بھائی نہیں ہے ، انہیں یہ لگ رہا ہے کہ جیسے مولانا محمود مدنی نے اہانتِ رسولﷺ کے مرتکبین کے آگے گٹھنے ٹیک دیے ہوں ۔ اسی طرح مولانا توقیر رضا خان کا یہ بیان کہ '' یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے '' ، لوگوں کے لیے حیرت اور غصے کا باعث بنا ہے ۔ بھلا کیسے اہانتِ رسول ﷺ کا شرمناک معاملہ '' صرف اندرونی معاملہ '' ہو گیا ؟ کیا اللہ کے رسول ﷺ کو رحمۃاللعالمین نہیں کہا جاتا ، اور کیا ساری دنیا کے مسلمانوں کا اپنے نبی پر کوئی حق نہیں ہے؟ لوگ یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ آپ نے بھلا کون سا ایسا اقدام کیا کہ جس سے مرکز کی مودی سرکار اور ملک کی بی جے پی کی ریاستی سرکاریں ، گستاخوں کے خلاف کارروائی کرنے پر مجبور ہوتیں ؟ کچھ نہیں کیا سوائے گفتار کے ۔ آپ کا تعلق اعلیحضرت ؒ کے خٓانوادے سے ہے ، جنہوں نے ساری زندگی عشقِ رسول ﷺ میں گذار دی ، کیا اعلیحضرت ؒ یہ گستاخی برداشت کرتے ؟ کبھی نہیں ۔ سچ یہ ہے کہ اس معاملہ میں چند ایک کو چھوڑ کر ساری مذہبی قیادت کٹگھرے میں کھڑی ہے ۔ اکابر نے ان حالات میں کیا کیا تھا ، اس کی ایک مثال ملاحظہ کر لیں : شیخ الاسلام حضرت حسین احمد مدنیؒ کے تلامذہ میں سے ایک حضرت مولانا قمر عثمانی صاحب ؒ نے اپنی ایک کتاب '' علماء دیوبند کے تابندہ نقوش '' میں ایک واقعہ لکھا ہے ، کہ ' مجھے یاد ہے یو پی میں پنتھ جی وزیراعلیٰ تھے ، اس وقت توہین رسولﷺ کا واقعہ پیش آیا ، تمام مسلمان اس سے متاثر اور مشتعل ہوئے ۔ حضرت مدنی ؒ نے اس موقع پر دارالعلوم دیوبند میں ایک تقریر کی ۔ تقریر کیا تھی دل کے داغ تھے ، جو الفاظ کی شکل میں ظاہر ہو رہے تھے ۔ آپ نے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ '' ہم نے آزادی کے لیے اس واسطے قربانیاں نہیں دی تھیں کہ ہمارے مذہب یا ہمارے مذہبی پیشوا اور پیغمبروں کی توہین کی جائے ، اگر حکومت نے اس کو روکنے کی کوشش نہ کی ، اور گستاخی کرنے والے کو قرار واقعی سزا نہ دی ، تو سول نافرمانی کرتے ہوئے جو شخص سب سے پہلے جیل جائے گا وہ ' حسین احمد ' ہوگا ، ہم انگریزوں کی جیلوں سے نہیں ڈرے ، اب کیا ڈریں گے ۔ '' اس وقت پنڈت نہرو وزیراعظم تھے ، ساری حکومت حرکت میں آ گئی تھی ۔ مانا کہ آج پنڈت جی کی حکومت نہیں ہے ، راج مودی اور یوگی کا ہے ، لیکن اس کے باوجود اپنی بات صاف صاف کہنے کا دروازہ کوئی بند تو ہے نہیں ، اور اگر بند بھی ہو تب بھی اس معاملہ میں کسی ہچکچاہٹ کے بغیر اپنی بات رکھنا چاہیے تھی ، خاص کر یہ بات کہ اب تک گستاخوں کی گرفتاری کیوں نہیں کی گئی ہے ؟

اب آئیں تیسری وجہ کی بات کر لیں ۔ جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے ، ایک ' بند کا اعلان ' سوشل میڈیا پر گردش کر رہا تھا ، تو سوال یہ ہے کہ اس ' اعلان ' کے پسِ پشت کون تھا ؟ انگلیاں ' شرپسندوں ' کی جانب اٹھ رہی ہیں ۔ یہ شرپسند وہ ہیں جو مسلمانوں کو پھنسانے کے لیے کمر بستہ ہیں ، اگر کوئی یہ کہے کہ ان میں مسلمان بھی شامل ہو سکتے ہیں تو حیرت نہیں ہونا چاہیے ، کہ مسلمان ایسے کام کر چکے ہیں ۔ بی جے پی کا آئی ٹی سیل ایسے کاموں کے لیے بڑا ہی ' مشہور ' ہے ، کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ اس نے ' بند کا اعلان ' وائرل کیا ہو ؟ ایک تیر سے کئی شکار کھیلنے کی کوشش کی گئی ، ایک تو یہ کہ مسلمانوں پر الزام ڈال دیا گیا کہ وہ ' تشدد ' کرتے ہیں ،' شرپسند ' ہیں اور مندروں پر پتھراؤ کرنے والے ہیں ۔ اس الزام کے نتیجے میں دونوں فرقوں ہندوؤں اور مسلمانوں میں مزید خلیج بڑھ سکتی ہے ، اور فرقہ پرست اپنے مفادات کی تکمیل کےلیے یہی چاہتے ہیں ۔ مزید یہ کہ توہینِ رسالتﷺ کا معاملہ ' اندرونی لڑائی ' میں تبدیل ہو سکتا ہے ، گرفتاریوں کا مزید موقع مل سکتا ہے ، مسلم فرقے کی معاشی کمر توڑی جا سکتی ہے اور انہیں احساسِ ذلت اور احساسِ محرومی کے ساتھ خوف کی نفسیات میں مبتلا کیا جا سکتا ہے۔ اب تو ' بلڈوزروں کی سیاست ' بھی زوروں پر ہے ، لہٰذا ان کے گھروں کو بھی مسمار کیا جا سکتا اور انہیں در در پھرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے ۔ جو باتیں سامنے آئی ہیں وہ سازش کی طرف اشارہ کر رہی ہیں ،انتظامیہ ، پولیس اور حکومت کو اس سب کے پیچھے بتایا جا رہا ہے۔ سارا معاملہ منصوبہ بند تھا ، وہ لوگ جو مسلمانوں کے احتجاج میں گھسے اور پےھراؤ کیا ان کے چہرے بھی سامنے آ گیے ہیں ۔ سارا کھیل کانپور ، جہانگیرپوری اور کھرگون کی طرح کھیلا گیا ہے ۔ ایک اہم بات ' پروپیگنڈا ' بھی ہے ، مسلمانوں کے خلاف جم کر نفرت پھیلانے کا ماحول بنایا جا سکتا ہے ۔ اب یہی دیکھ لیں کہ مسلمان بالخصوص نوجوان ، جو ان مظاہروں میں شریک رہے ہیں ، جو شہید اور زخمی ہوئے ہیں اور جنہیں گرفتار کیا جا رہا ہے ، ان پر ہی انگلیاں اٹھنے لگی ہیں ۔ اور انگلیاں اٹھانے والوں میں مسلمان پیش پیش ہیں ۔ سوشل میڈیا پر کئی ایسے پوسٹ نظر آ جائیں گے جن میں احتجاجیوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ سڑکوں پر ہڑ بونگ مچانے والے لوگ ہیں ، یہ رسول ﷺ کی بے ادبی کے مرتکب ہوئے ہیں ، انہوں نے احترام کو تج دیا ہے ، یہ غیروں کی مشابہت کے مجرم ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ یہ ہے ' غیروں کے پروپیگنڈے ' کا ' اثر ' کہ جو عشق رسول ﷺ میں سڑکوں پر اتریں وہ ' بےادب ' کہلائیں اور جو گھروں میں بیٹھ کر لیکچر دیں وہ خود کو عاشقِ رسول ﷺ قرار دیں !خیر بات چل رہی تھی ' اعلان ' کی ، جس کا وائرل کرنے والا یا وائرل کرنے والے ' نامعلوم ' ہیں ۔ یہ ' اعلان ' ممکن ہے کہ مسلمانوں کو اکسانے کی سازش رہا ہو ۔ خیر یہ جو بھی ہیں ، شاطر لوگ ہیں ، ان کی عیاری اور مکاری کا کوئی توڑ ضروری ہے ۔ بار بار ایک ہی سوراخ سے ڈسے جانے کی روایت اب بند ہونی چاہیے ۔ ایک سوال یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ کہیں یہ ' اعلان ' مسلمانوں ہی کی طرف سے تو نہیں تھا ، کہ ' اعلان ' دیا ہو اور نام نہ ظاہر کیا ہو ؟یہ ممکن ہو سکتا ہے ، ایسے لوگ موجود ہیں ۔ اسی لیےعام مسلمانوں کو بھی اور مسلمانوں کی سیاسی و مذہبی قیادت کو بھی بہت احتیاط برتنے کی ضرورت ہے ۔ یقیناً بے قیادت احتجاج کے نقصانات ہیں ، جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں ، لیکن ' بگڑتی ہے جب ظالم کی نیت ، نہیں کام آتی دلیل اورحجت ' کے مصداق باقیادت مظاہروں کا حشر بھی ایسا کیا جا سکتا ہے ۔ مالیگاؤں کا مظاہرہ باقیادت تھا ۔ آج بھی ساٹھ ستّر لوگ سلاخوں کے پیچھے ہیں ، یوپی اور شاہین باغ کے این آر سی مخالف مظاہرے باقیادت تھے ، ان کے ذمہ داران پر مقدمے بن گئے ہیں ، یوپی میں تو قرقیاں ہو چکی ہیں ۔ ایک جمہوری ملک میں بھی آپ احتجاج کے لیے آزاد نہیں ہیں ۔ تو کیا احتجاج بند کر دیا جائے ؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے ، اور اس پر غور کرنے کی کہ اگر احتجاج بند کیا گیا تو دوسرا راستہ کیا ہوسکتاہے؟ کچھ بات نوپور شرما اور نوین جندل کی کر لیتےہیں ۔ یہ لکھے جانے تک دونوں گرفتار نہیں کیے گئے ہیں ، عرب ممالک کی ناراضگی بی جے پی سے ان کی معطلی کا باعث بنی ہے ، ہندوستانی مسلمانوں کا احتجاج نہیں ۔ اور یہ بات اگر کہی جائے تو غلط نہیں ہو گی کہ ان دونوں کی گرفتاری کے آثار نظر نہیں آ رہے ہیں ۔ مقدمہ کر دیا ، عرب ممالک کو بتا دیا ، کام ہو گیا ۔ بی جے پی کی سیاست ہی ہندوتوا کی سیاست ہے ، وہ کبھی بھی ' ہندوتوادیوں ' کے خلاف سخت کارروائی نہیں کر سکتی ، لہٰذا اگر یہ کہا جائے تو صد فیصد سچ ہوگا کہ یہ پارٹی ' ذمہ داری ' کا مظاہرہ نہیں کر رہی ہے ، اگر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتی تو اب تک پی ایم مودی ، بی جے پی صدر نڈا اور یوگی و امیت شاہ کا ، دونوں کی مخالفت میں بیان آ چکا ہوتا ۔ نہ بیان آیا ہے اور نہ آنے کی امید ہے ۔

عادل آباد میں سوشیل میڈیا پر حضور اکرم ﷺ صل الله شان میں گستاخی _ مسلمانوں کا پولیس اسٹیشن کے سامنے احتجاج _ مقدمہ درج

عادل آباد میں سوشیل میڈیا پر حضور اکرم ﷺ صل الله شان میں گستاخی _ مسلمانوں کا پولیس اسٹیشن کے سامنے احتجاج _ مقدمہ درج

خضر یافعی کی رپورٹ

عادل آباد _ تلنگانہ کے عادل آباد شہر میں ایک غیر مسلم نوجوان نے سوشل میڈیا پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی جس پر مسلمانوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ون ٹاؤن پولیس اسٹیشن پر جمع ہوکر گستاخ رسول کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ۔

اس دوران عوام اور پولیس کے درمیان ہلکی سی کشیدگی دیکھی گئی ۔ ضلع ایس پی نے ون ٹاؤن پولیس اسٹیشن پہنچ کر حالات کو قابو میں کرنے کی کوشش کی ۔ مشتعل عوام کو منتشر کرنے پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج بھی کیا گیا ۔ تاہم مسلم سیاسی قائدین نے پولیس پر دباؤ بناتے ہوئے خاطی کے خلاف کیس درج رجسٹر کرنے کا مطالبہ کیا ۔

یس پی نے حالات کو دیکھتے ہوئے کیس درج رجسٹر کرتے ہوئے ایف آئی آر کاپی مسلم سیاسی قائدین کے حوالے کی۔واضح رہے کہ فل حال حالات قابو میں ہے ۔ مسلم سیاسی قائدین نے مسلمانوں اور نوجوانوں سے اپیل کی ہے کہ امن کی برقراری میں اہم کردار ادا کریں۔ پولیس خاطی کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے ممکنہ کارروائی میں جٹ گئی ہے

مزید حالات کو قابو میں رکھنے کے لئے پولیس کی جانب سے ون ٹاؤن پولیس اسٹیشن حدود میں پولیس کی بھاری جمعیت تعینات کردی گئی ہے ۔ پولیس کی جانب سے بھی افواہوں پر دھیان نہ دینے اور امن کی برقراری میں اہم رول ادا کرنے کی اپیل کی گئی ہے ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...