Powered By Blogger

منگل, فروری 14, 2023

حضرت مولانا مفتی ثناء الہدیٰ صاحب قاسمی__ ایک تبصرہ

حضرت مولانا مفتی ثناء الہدیٰ صاحب قاسمی__ ایک تبصرہ
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️محمد عاقب قاسمی خیرآبادی
 فاضل دارالعلوم دیوبند 
رابطہ نمبر 6387689048
 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں میں سے کچھ لوگوں کو ابتدا ہی سےخداداد صلاحیتوں اور گونا گوں خصوصیات و کمالات عطا فرما دیتا ہے جس کی وجہ سے ایسے حضرات شروع ہی سے ایسے کار ہائے نمایاں انجام دینے کی فکر اور جد و جہد میں لگ جاتے ہیں جو در حقیقت انہیں کا حصہ ہوتے ہیں۔ قابل قدر ہیں ووہ شخصیات جن کو اللہ رب العزت اپنے خزانۂ غیب سے بے مثال محاسن و کمالات عطا کیے ہوں اور وہ رب کریم کے اس عطیہ کی قدر دانی کرتے ہوئے کسی ایک محاذ پر نہیں بلکہ کئی محاذوں پر مصروف عمل ہوں۔ 
 من جملہ خدا تعالیٰ کی ان منتخب شدہ اور چنندہ شخصیات میں سے عہد حاضر کی ایک کثیر االجہات شخصیت امارت شرعیہ پٹنہ بہار کے نائب ناظم ، ہفت روزہ نقیب پٹنہ بہار کے مدیر مسئول، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن تاسیسی ، آل انڈیا ملی کونسل نئی دہلی کے رکن ، وفاق المدارس الاسلامیہ بہار کے ناظم ، قوم و ملت کے خادم حضرت اقدس مولانا و مفتی ثناء الہدیٰ صاحب قاسمی مدظلہ العالی بھی ہیں۔ 
 مفتی صاحب جہاں ایک طرف مسند درس و تدریس کے ایک کامیاب ، باکمال لائق و فائق مدرس ہیں تو دوسری طرف میدان خطابت کے شیریں بیاں ، شگفتہ زباں مقرر اور خطیب بھی ہیں۔ آپ اگر صحرائے صحافت کے شہسوار، ماہر ادیب ، نامور مؤرخ اور مشہور زمانہ صاحب قلم ہیں تو دوسری طرف ملی ، قومی اور سماجی امور کے ایک با صلاحیت اور کامیاب منتظم بھی ہیں۔  
 حضرت مفتی صاحب کی خدمات اور کارناموں کا اور آپ کی کثیر الجہات شخصیت کا اکابر علماء نامور ادباء اور مشہور شعراء اور دانشوران قوم نے نہ صرف یہ کہ اعتراف کیا بلکہ داد و تحسین کی اور دعاؤں سے بھی نوازا۔ 
 آپ کی ہمہ جہت شخصیت کا تعارف کراتے ہوئے جناب شاہد نظامی صاحب لکھتے ہیں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی ایک عالم دین ، مصلح ، اسلامی اسکالر، فقہ وحدیث پر گہری نظر رکھنے والے اردو زبان و ادب کے محقق و ناقد ، اصلاح معاشرہ کے لئے سر گرم عمل ،امارت شرعیہ ، جمیعت شباب اسلام، ملی کونسل، انجمن ترقی اردو ، نور اردو لائبریری اور مختلف تعلیمی اور ملی اداروں کی خدمات میں کامیاب اور فعال اشتراک عمل کی وجہ سے پورے ہندوستان میں جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ (مولانا مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی شخصیت اور خدمات صفحہ نمبر۹۹)
 محمد سلیم رضوی صاحب لکھتے ہیں گزشتہ چند سالوں میں بہار کے مذہبی علمی و ادبی افق پر جو چند قدآور اور بلند آہنگ شخصیتیں نمودار ہوئیں اس میں ایک نام مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی کا ہے۔ جن کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ۲۰۰۰؁ء میں صدر جمہوریہ ہند نے صدارتی ایوارڈ دے کر نہ صرف زرخیز ذہن کو خراج تحسین پیش کیا بلکہ مدارس اسلامیہ کے تعلیمی معیار کو بھی نگاہ اعتبار بخشا۔( حوالہ بالا ص۹۰)
 انوار الحسن وسطوی لکھتے ہیں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی کا قومی ایوارڈ سے سرفراز ہونا حقیقت میں ان کی ہمہ جہت خدمات کا حقیقت پسندانہ حکومتی سطح پر اعتراف اور ان کی مقبولیت کی دلیل ہے۔ مفتی صاحب متعدد ملی ، سماجی، تعلیمی اور ثقافتی اداروں سے منسلک اور ان کے کاموں میں منہمک رہنے کے با وجود کئی درجن کتابوں کے مصنف اور مؤ لف بھی ہیں۔ مفتی صاحب اردو کے پختہ کار ادیب اور مقالہ نگار ہیں ۔ان کے قلم سے مختلف موضوعات پر بے شمار مقالے تحریر ہو کر ملک کے موقر رسالوں کی زینت بن چکے ہیں۔ (حوالہ بالا ص ۷۳)
 پروفیسر نجم الہدیٰ صاحب حضرت مفتی صاحب کے وسعت قلم کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں مفتی صاحب کی نگارشات کا دائرہ اتنا وسیع اور متنوع ہے کہ اس میں تحقیق، تنقید ، تاریخ، شاعری، ادب کی نثری اصناف اور علوم دینی کی متعدد شاخیں بالخصوص فقہ و حدیث سب داخل ہیں۔(حوالہ بالاص ۶۴)
 مفتی صاحب کے قلم کی جازبیت کا نقشہ ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق صاحب اس طرح بیان کرتے ہیں مفتی صاحب کی عبارت میں ادبیت اور پختگی کے علاوہ علمیت کی چاشنی بھی ملتی ہے۔ موصوف اپنے خیالات اور الفاظ کو اس طرح ترتیب دیتے ہیں کہ پڑھنے والا ادبیت کا مزہ لیتا ہے اور خشک موضوع بھی دل چسپ ہو جاتا ہے۔ اپنی تحریروں سے قوم کو کورانہ اور نمائشی تقلید سے بچانے کے لئے اکثر نہایت پر اثر الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ (حوالۂ بالا ص ۱۳۶)
اکابر علماء اور نامور ادباء کی طرح مشہور شعرائے کرام بھی آپ کی ہمہ جہت شخصیت کا تعارف اپنے کلاموں میں کرتے آئے ہیں۔ چنانچے کامران غنی صبا صاحب نے آپ کی شان میں یہ اشعار لکھے ہیں۔
ہیں علم شریعت کے وہ رازداں
خموشی میں جن کی نہاں داستاں
وہ ہیں عالم با عمل بالیقیں
جنہیں کہئے اسلاف کا جاں نشیں
مفکر، مدبر کہ دانش وراں
سبھی ان کے حق میں ہیں رطب اللساں
 مظاہر حسین عماد عاقب قاسمی صاحب آپ کی مدح سرائی کچھ اس طرح کرتے ہیں۔
لائق صد ستائش ثناء الہدیٰ
میر بزم ادب ہیں ثناء الہدیٰ
وہ محدث، محقق، سخنور بھی ہیں
مرکز علم و فن ہیں ثناء الہدیٰ
ان کی تصنیف ہر فن میں موجود ہے
ہیں سبھی فن میں ماہر ثناء الہدیٰ
 انوار الحق داؤد قاسمی کہتے ہیں ۔
آبروئے وطن صاحب فکر و فن
ہیں ثناء الہدیٰ خود میں اک انجمن
 حسن نواب حسن مرحوم نے تو بہت ہی خوب کہا ہے۔
یہ ہیں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی
ان کو سننا بھی پڑھنا بھی ہے لازمی 
دین و مذہب کے ساتھ ادب کے امیں
ایسا جلدی ملےگا کہاں آدمی
 مختصر یہ کہ مفتی صاحب کی خدمات اور کارناموں کا دائرہ نہ صرف درس و تدریس تک محدود ہے بلکہ تبلیغ و تنظیم ، تحریر و تقریر اور تصنیف و تالیف تک پھیلا ہوا ہے۔ بقول مولانا رضوان ندوی آپ کے قلم سے چار درجن سے زائد کتابیں شائع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں ۔ پیش نظر کتاب یادوں کے چراغ کی تیسری جلد منصہ شہود پر آئی ہے جس میں حضرت نے ان معاصر شخصیات پر اپنے احساسات و تاثرات کو قلم بند کیا ہے جو سب زیر خاک جا چکے ہیں۔ ان میں کچھ بزرگ بھی ہیں کچھ خورد بھی ، عالی جناب اور عالی مقام شخصیتیں بھی ہیں ، کچھ ایسے بھی ہیں جن کو یاد رکھنے والے مفتی صاحب جیسے چند با وضع و با وفا اس دنیا میں رہ گئے ہیں۔ اس طرح اس مجموعے میں ہر رنگ اور ہر میدان کے لوگ ہیں۔اسلئے مفتی صاحب نے ان اصحاب کے وہی پہلو بیان کیے ہیں جو پسندیدہ اور قبول عام کے مستحق ہیں۔ اس لحاظ سے کتاب کی ایک تاریخی حیثیت بھی ہو گئی ہے ان میں متعدد ایسے نام بھی ہیں جن کی یاد اس مجموعے کے ذریعے باقی رہے گی۔ کتاب کے آغاز میں مصنف نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ یہ کتاب جو ابھی آپ کے ہاتھوں میں ہے ان میں بہت سارے نامور حضرات کی کتاب زندگی کو مختصر خاکوں کی شکل میں پیش کیا گیا ہے ۔ بعض گمنام لوگوں کے بھی اوراق حیات کو پلٹا گیا ہے تا کہ عام لوگوں کی زندگی میں جو روز مرہ کے معاملات و مشاہدات ہیں ان سے بھی سبق حاصل کیا جا سکے۔ 
اس مجموعہ میں ڈاکٹر قاسم خورشید صاحب کا پرمغز مقدمہ مفتی ثناءالہدیٰ قاسمی ’’آدھی ملاقات ‘‘اور ’’یادوں کے چراغ کی روشنی میں‘‘ کے عنوان سے بڑا ہی گراں قدر ہے۔ جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ مفتی صاحب متعدد شخصیتوں کے حصار میں رہے ان کے اثرات بھی قبول کئے اور بڑی بات یہ ہےکہ جس شخص سے رشتہ قائم کیا پوری شدت کےساتھ نبھاتے بھی رہے اور مستقل یادوں کے چراغ روشن کرتے رہے۔ ہنوز یہ سلسلہ قائم ہے۔ (یادوں کے چراغ ص۱۱) 
 اسی لئے جب بھی کسی ممتاز شخصیت کے سانحہ ارتحال کی خبر گردش کرتی ہے مفتی صاحب کا قلم حرکت میں آ جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا شبہ ہونے لگتا ہے کہ گویا مضمون پہلے سے تیار تھا۔ یہ ان کے کمال درجے کی فنی مہارت کی علامت ہے۔
 بہرحال زیر تبصرہ کتاب کے بیشتر سوانحی خاکے ہفتہ وار نقیب کے علاوہ دوسرے جرائد و رسائل کی زینت بن چکے ہیں جنہیں اب کتابی صورت میں طبع کر دیا گیا ہے۔ مصنف نے کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کیا ہے باب اول میں علماء و مشائق کے احوال و آثار کا تذکرہ ہے ان میں حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ سمیت ۳۲؍اصحاب فضل و کمال کا تذکرہ ہے۔ باب دوم میں شعراء ،ادباء، سیاستداں اور ماہرین تعلیم کی ادبی فکری اور عملی کارناموں کو بیان کیا گیا ہے۔ باب سوم میں چار بھولے بسرے لوگوں کو شریک اشاعت کیا گیا ہے اور آخری باب میں داغ ہائے سینہ کے عنوان سے مفتی صاحب نے اپنے والد ماجد حاجی محمد نور الہدیٰ رحمانی اور برادر اکبر ماسٹر محمد ضیاءالہدیٰ رحمانی کی سیرت اور کردارو عمل پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ اس طرح یہ مجموعہ ہر لحاظ سے قابل دید اور سیرت و سوانح سے دل چسپی رکھنے والوں کے لئے تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔
 اخیر میں ڈاکٹر ثوبان فاروقی صاحب کی دعا کو نقل کرکے مقالہ ختم کرتا ہوں۔خدا کرے ان کا احساس تشنگی کبھی زائل نہ ہو ان کی روح یوں ہی مضطرب و بیقرار رہ کر نئے نئے آفاق کی جستجو میں سرگرداں رہے۔ ان کے دل کی آگ امت مسلمہ کے قلوب و اذہان کو عزم و یقین کی قندیل سے ہمیشہ روشن کرتی رہے۔
 میری دعا ہے کہ مفتی صاحب کی ذات بابرکات تادیر قائم و دائم رہے کہ انہیں دیکھ کرامت کے اکابر و اسلاف اور صاحبان دعوت و عزیمت کی یاد تازہ ہوتی رہے۔ آمین۔(مفتی ثناءالہدیٰ قاسمی شخصیت اور خدمات ص۶۹)

آثار قدیمہ کی حفاظت __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

آثار قدیمہ کی حفاظت __
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 دنیا کے تمام ممالک میں آثار قدیمہ کی حفاظت کی جاتی ہے ، کیوں کہ یہ آثار اس ملک کی تہذیب وثقافت اور تاریخ کا حصہ ہیں، ان کے مٹانے کی کسی بھی کوشش کا صاف مطلب اپنی تہذیب اور تاریخ پر کلہاڑا چلانا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہر ملک آخری حد تک اس کی بقا کا انتظام کرتا ہے، اور اس کی حفاظت پر ہر سال کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں، اس کا فائدہ ملک کو یہ ہوتا ہے کہ سیاح اس کو دیکھنے کے لیے دو ر دور سے آتے ہیں، جو اس ملک کی آمدنی میں اضافہ کا سبب ہوتا ہے اوراس کے ذریعہ ملک کی تہذیب وثقافت اور تاریخ سے دیگر ممالک کے لوگ بھی واقفیت حاصل کرتے ہیں۔
 برطانیہ ، متحدہ عرب امارات وغیرہ اس سلسلے میں زیادہ حساس ہیں، وہ قدیم گھروندے اور پرانی روش اور بود وباش کے طریقوں کو بھی نقاشی اورمصوری سے اجاگر کرتے ہیں، اس طرز کے مکانات بنا کر اس میں وہاں کی تہذیب وثقافت کو محفوظ کر لیتے ہیں، وہ پائے اور پیلر تک کو تاریخی سمجھتے ہیں اور ان کو برباد کرنے کی کوئی مہم جرم کے درجے میں شمار ہوتا ہے۔ مصر اور موہن جو داڑو، ہڑپا کی تہذیب عالمی طور پر قدیم تصور کی گئی ہے ، ایک مصر کے حصہ میں آئی اور دوسری غیر منقسم ہندوستان کے، تیسرے نمبر پر ویشالی کے لچھوی راجاؤں کی تہذیب تھی، جو بہار کے لیے باعث فخر ہے۔
 مصر کے اہرام، ابو الہول، غار وغیرہ آج بھی موجود ہیں اور مصر کی معاشی استحکام کا ذریعہ در اصل یہی ہیں، اسکندریہ علاقہ کی زر خیزی اور قاہرہ علاقہ کی سیاحت نہ ہو تو مصر کنگال ہوجائےگا، ان عمارتوں نے پورا اسلامی دوردیکھا ، لیکن اسے مٹانے کا خیال کسی کے ذہن میں نہیں آیا، بلکہ ان لوگوں نے فرعونی دور کو یاد رکھنے کے لیے میوزیم میں فرعون کی لاش محفوظ رکھی ہے ،رمسیس ثانی کے نام پر اسٹیشنوں کے نام رکھے ہیں اوراس دور کی چیزوں سے اپنے یہاں کی میوزیم کو آباد کر رکھا ہے، انگلینڈ میں پرانے گرجاگھروں کو محفوظ کرنے اور رکھنے کے لیے دوسروں کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں، لیکن اس کی اصلی ہیئت کو تبدیل کرنے کی اجازت قطعا نہیں ہوتی، افغانستان میں طالبان نے پہلے دور حکومت میں بدھ کی تاریخی مورتی کو زمین بوس کر دیا تھا توشرعی نقطہ نظر سے قطع نظر عالمی طور پر اس کی مذمت اس لیے کی گئی تھی کہ وہ ایک تاریخی ورثہ تھا، اس معاملہ میں طالبان کا کہنا تھا کہ اسلام بت شکنی کے لیے آیا تھا اور بتوں کی حفاظت ہمارا کام نہیں ہے ، ان کی دلیل میں وزن ہونے کے باوجود دنیا ؛بلکہ عالم اسلام نے بھی اس کو تسلیم نہیں کیا تھا۔
 ہندوستان مین بھی 2014 تک حکومت کا رجحان آثار قدیمہ کی حفاظت کا تھا، بھاجپا کی حکومت میں اسے دوسری نظر سے دیکھا جانے لگا، مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ دور حکومت کو یہ حملہ آوروں کی حکومت سے تعبیر کرتے ہیں، اس لیے ان کے نزدیک ان عمارتوں کو نئے نئے نام دے کر اس کی تاریخ مسخ کی جارہی ہے ، عمارت کے ساتھ شہروں ، سڑکوں، پارکوں اور ریلوے اسٹیشن تک کے نام بدلے جا رہے ہیں، حالاں کہ یہ ہمیں اس دور کی تاریخ کو یاد دلاتے ہیں، تہذیب وثقافت کو جاننے اور سمجھنے کی اہمیت بتاتے ہیں، الٰہ آباد پریاگ راج ہو گیا،مغل سرائے دین دیال اپادھیائے اور اب مغل گارڈن ”امرت ادھان“ کے نام سے جانا جا رہا ہے ، گیٹ آف انڈیا کرتویہ پتھ بن گیا، انڈیا گیٹ کے پتھر پر کندہ نام تاریخ کا حصہ بن گیے، امر جیوتی گیٹ آف انڈیا سے اٹھالی گئی ، پارلیامنٹ کی عمارت کو انگریزوں کی یاد گار قرار دے کر نئی عمارت میں منتقل کر دیا گیا، مغل حکمرانوں کے نام پر جو سڑکیں تھیں اسے بھی بدل دیا گیا اور جن کا کوئی رول ملک کی آزادی اورتاریخ میں نہیں تھا، وہ ان کی جگہ لے رہے ہیں، گاندھی جی کو کئی جگہ سے نکال دیا گیا ہے، اور روپے پر بھی کب تک رہیں گے کچھ کہنا مشکل ہے، ڈیجیٹل انڈیا اور ڈی جیٹل روپی پر اس کی ضرورت بھی باقی نہیں رہے گی۔
 ہندوستان کے حکمرانوں کو اس حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے کہ آثار قدیمہ کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اس کا تعلق کسی حکومت اور کسی بھی مذہب سے ہو وہ ملک کا مشترکہ ورثہ ہے، اور جس طرح دوسرے ممالک اس کی حفاظت کرے ہیں اور اس میں تبدیلی گوارہ نہیں کرتے، ہمیں بھی اس کو نہیں بدلنا چاہیے، صرف میوزیم میں مختلف ادوار کے کنکر پتھر جمع کرنا اور موتی مسجد اور لال قلعہ کے دربار خاص سے قیمتی پتھروں کو نکالنے پر نگاہ نہ رکھنا شعور کی علامت نہیں ہے ، اس لیے حکومت کو اپنا نظریہ بدلنا چاہیے اور آثار قدیمہ کی حفاظت کے لیے رقم بھی فراہم کرانی چاہیے، اور اس نفسیات سے نکلنا چاہیے کہ سب کچھ ہم بدل کر رکھ دیں گے۔ اس طرح تو ہندوستان بازیچہء اطفال ہوجائے گا______

سمستی پور کالج میں نیشنل سروس اسکیم کے زیر اہتمام ہندوستانی شہریوں کے بنیادی فرائض کے عنوان پر سیمینار کا انعقاد

سمستی پور کالج میں نیشنل سروس اسکیم کے زیر اہتمام ہندوستانی شہریوں کے بنیادی فرائض کے عنوان پر سیمینار کا انعقاد
اردودنیانیوز۷۲ 

سمستی پور کالج مورخہ 14/فروری 2023 (پریس ریلیز:ڈاکٹر صالحہ صدیقی) سمستی پور کی نیشنل سروس اسکیم کے زیر اہتمام ہندوستانی شہری اور ان کے بنیادی فرائض' کے عنوان پر مورخہ 13/فروری بروز سوموار ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا، تاکہ آئین میں درج بنیادی فرائض کی وسیع پیمانے پر تشہیر وعمل ہوسکے ۔ 
 سیمینار کی صدارت کالج کے پرنسپل ڈاکٹر ستین کمار اور لیڈر شپ پروگرام آفیسر مہیش کمار چودھری نے کی۔ پرنسپل نے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئین میں درج بنیادی فرائض ہمیں اپنی قوم میں امن، مساوات، بھائی چارہ ،اور ہم آہنگی وغیرہ کی تعمیر میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ بنیادی حقوق اور بنیادی فرائض ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ حق آئین حاصل کرنے کے لیے فرض کا ہونا ضروری ہے۔ آئین کی طرف سے 11 بنیادی فرائض دیئے گئے ہیں، جن پر عمل کرنا ہمارا سب سے بڑا فریضہ ہے ۔ ہم سب ایک مہذب قوم کے مہذب شہری ہیں۔
ہمیں اپنے آئین پر عمل کرنا چاہیے اور اس کے نظریات، اداروں، قومی پرچم اور قومی ترانے کا احترام کرنا چاہیے۔ اس موقع پر ڈاکٹر انیل کمار سنگھ، ڈاکٹر اشوک کمار، ڈاکٹر وشواناتھ شاہ، ڈاکٹر سرویش کمار، ڈاکٹر منوہر کمار پاٹھک، ڈاکٹر اپاسنا جھا، ڈاکٹر ناگمنی آلوک، ڈاکٹر شیوانند پٹیل، ڈاکٹر انیل۔ کمار یادو، ڈاکٹر چاندنی رانی، ڈاکٹر صالحہ صدیقی وغیرہ اپنا اظہار خیال کیا ۔اس کے علاوہ غیر تدریسی عملے میں سے پرمود کمار، سنجیو کمار سنگھ وغیرہ نے اپنے خیالات رکھے۔ طلبہ وطالبات میں سے ہیما کماری اور امرجیت کمار نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ اس موقع پر راجکمار، کنال کمار، پنکج رام، سوریا کانت، جیلسی سمیت ایک سو سے زیادہ لوگ اس پروگرام میں موجود تھے۔ اسٹیج کی نظامت ڈاکٹر آشیش پانڈے نے کی اور اظہار تشکر ڈاکٹر نیتو کماری نے کی۔ قومی ترانے کے بعد پروگرام صدر محترم کی اجازت سے پروگرام کے اختتام کا اعلان کیا گیا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...