اردودنیانیوز۷۲
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
مشہور ماہر تعلیم، نامور ہومیو پیتھ معالج ،بانی جامعہ نور الاسلام نسواں مہپت مﺅ لکھنؤ ، دینی تعلیمی کونسل کے سابق جنرل سکریٹری ، ہفتہ وار ندائے ملت کے سابق مدیر ، مسلم مجلس اور مسلم مجلس مشاورت کے سابق رکن ڈاکٹر محمد اشتیاق حسین قریشی نے 26 اگست 2003ءمطابق 27 جمادی الثانیہ 1424ھ کو تہجد کے وقت صبح صادق سے کوئی آدھ گھنٹہ قبل بہتر سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا، پس ماندگان میں اہلیہ چار صاحب زادے ، ڈاکٹر محمد شعیب قریشی، مولوی محمد صہیب قریشی، مولوی محمد جنید قریشی اور مولوی محمد عبید قریشی اور صاحب زادیوں کو چھوڑا۔ڈاکٹر صاحب تقریباً دس مہینے سے صاحب فراش تھے، گردہ کی تکلیف تھی، جس کے وہ خود بہترین معالج سمجھے جاتے تھے۔
ڈاکٹر محمد اشتیاق حسین قریشی بن ڈاکٹر کرامت حسین کا آبائی وطن پرتاب گڈھ اتر پردیش تھا،قریشی صاحب وہیں پلے بڑھے، ہائی اسکول، انٹر تک کی تعلیم وہیں پائی، پرتاب گڈھ میں وہ دوران تعلیم جس شخصیت سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے وہ ان کے استاذ اور مربی مولوی عبید الرحمن صاحب جو گورمنٹ ہائی اسکول پرتاب گڈھ میں اردو وعربی کے استاذ تھے، انہیں کی تحریک پر ڈاکٹر صاحب نے نوجوانوں کی تنظیم اسٹوڈنٹس فیڈریشن بنائی اور اپنے احباب کے ساتھ گھر گھر سروے کرکے دار المطالعہ اور اسکول قائم کیا، اور اپنی صلاحیت دینی، تعلیمی اور تعمیری کاموں میں لگانے کی تربیت یہیں پائی، والد ہومیو پیتھ کے کامیاب معالج تھے، انہوں نے ڈاکٹر صاحب کو علی گڈھ سے بی ایس سی کرنے کے بعدباقاعدہ ہومیو پیتھک کی تعلیم دلائی ، پہلے ڈھاکہ میڈیکل کالج میں داخلہ لیا ، وہاں کے حالات نا ساز گار نظر آئے تو واپس آکر لکھنو ہومیو پیتھک میڈیکل کالج میں داخلہ لے کر فراغت حاصل کی، اور انہوں نے اس سلسلے میں لندن تک کا سفر کیا اور وہاں سے بھی پوسٹ گریجویٹ کی سند حاصل کیا، فراغت کے بعد لکھنؤ کے ہومیو پیتھک کالج سے بحیثیت استاذ منسلک ہوئے اور سترہ سال کے بعد وہاں سے مستعفی ہوئے، ڈاکٹر عبد العلی صاحب حسنی کے انتقال کے بعد وہ حسنی فارمیسی امین آباد میں مطب کرنے لگے، اللہ رب ا لعزت نے دست شفا عطا فرمائی تھی، اس لے بڑی تعداد میں مریض ان کے یہاں جانے لگے اور ان کا کلینک لکھنؤ کے نامور کلینک میں شمار ہونے لگا ، غربائ، طلبہ اور علماءکی تشخیص وہ مفت کرتے اور دوائیاں بھی دیا کرتے ۔
مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ کی صدارت میں لکھنو ¿ میں دینی تعلیمی کونسل کا قیام عمل میں آیا تو وہ حضرت مولانا کے دست وبازو بن کر کام کرنے لگے اور حضرت مولانا کے وصال کے بعد بڑی مشکل سے انہوں نے حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی ؒ کو اس کونسل کی صدارت کے لیے تیار کیا اور جب قاضی عدیل عباسی کا ۰۸۹۱ءمیں انتقال ہو گیا تو وہ اس تنظیم کے جنرل سکریٹری منتخب ہوئے او راخیر عمر تک اس عہدہ پر فائز رہے اور کہنا چاہیے کہ اس کونسل کی ساری تگ ودو ڈاکٹر صاحب کے دم قدم سے قائم تھی۔ ہفتہ وار ندائے ملت کے بھی وہ ایک زمانہ تک مدیر رہے، ان کے اداریے ملی مسائل سے متعلق قومی اخبارات سے مضامین کا انتخاب بھی انتہائی پسندیدہ تھا، وہ دیگر اخبارات کے لیے بھی مضامین اور مراسلے لکھا کرتے تھے، جن کی پذیرائی عوام وخواص میں خوب تھی ۔
ڈاکٹر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے گوناں گوں خوبیوں سے نوازا تھا، ان کی نظر نصاب ونظام تعلیم پر گہری تھی، وہ لڑکیوں کی مخلوط تعلیم کو پسند نہیں کرتے تھے، اس لیے انہوں نے جامعہ نور الاسلام نسواں کے نام سے مہپت مﺅ میں لڑکیوں کا تعلیمی ادارہ کھولا اور اسے پروان چڑھایا، ان کی لڑکی جو مدرسة البنات مالیگاو ¿ں کی نامور فاضلہ ہیں، اس کو پروان چڑھانے میں معاون بنی اورمیری لڑکی رضیہ عشرت نے اس ادارہ سے فیض پایا اور حفظ قرآن کے ساتھ عربی کی تعلیم بھی پائی، وہ ہر اس آدمی کی حوصلہ افزائی کرتے جو لڑکیوں کی تعلیم کے سلسلے میں ذرا بھی فکر مند رہتا، اسی مزاج کی وجہ سے انہوں نے جناب عارف علی انصاری صاحب کے گھر میں ۳۲ جون ۱۰۰۲ءسے قائم لڑکیوں کے مدرسہ کی سرپرستی قبول کی اور انصاری صاحب کو اس مدرسہ کا سکریٹری بنایا، کئی بار اس کے پروگرام میں شریک ہوئے،جیب خاص سے اس کی ترقی کے لیے کئی بار تعاون بھی کیا، ایک زمانہ میں یہ مدرسہ خیر آباد سیتا پور میں لڑکیوں کی دینی وعصری تعلیم کا تنہا مرکز تھا۔
ڈاکٹر صاحب کی تربیت میں حضرت مولانا علی میاں ؒ اور مولانا منظور نعمانی ؒکا بڑا ہاتھ تھا، وہ ہر ایسی تحریک سے جڑ جاتے،جس سے حضرت مولانا کی کسی درجہ میں وابستگی ہوتی، چنانچہ انہوں نے مجلس تحقیقات ونشریات اسلام، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، اصلاح معاشرہ، پیام انسانیت اور ندوة العلماءکے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، ۲۶۹۱ء میں جب حضرت مولانا ڈاکٹر سعید رمضان کی دعوت پر جینوا کا سفر کیا اور اس کے بعد انہوں نے لندن اور اسپین کے لیے رخت سفر باندھا تو ڈاکٹر صاحب ان کے رفیق سفر کے طور پر ساتھ تھے اور اس سفر کو کامیاب بنانے کے لیے ان کے دست وبازو بن کر کام کیا، ۲۶۹۱ءمیں حضرت مولانا کے ساتھ حج کا سفر کیا، ان کے تین لڑکے ندوہ سے فارغ ہوئے ڈاکٹر صاحب اور مسلم مجلس مشاورت کے کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے، انتخاب کے وقت سیاسی حضرات ان کی رائے اور مشورے کا بڑا اہتمام کیا کرتے تھے، سیاسی مسائل ومعاملات میں وہ ڈاکٹر عبد الجلیل فریدی کے پیرو کار تھے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب وضع قطع کے اعتبار سے عالم دین دکھتے تھے، چہرے پر ڈاڑھی اور بدن پر شیروانی میں ان کا چہرہ اور ہیئت انتہائی مرعوب کن تھی، وہ اقبال کے لفظوں میں نرم دم گفتگو اور گر دم جستجو کے صحیح مصداق تھے، مزاج سنجیدہ تھا، لیکن اس میں شگفتگی اور شائستگی کے عناصر بدرجہ اتم موجود تھے، انہوں نے عصری تعلیم کے فروغ کے لیے شہر میں نو رالاسلام ہی کے نام سے ایک اسکول بھی قائم کیا ، مقصد بنیادی دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم اسلامی ماحول میں فراہم کرنا تھا۔
ڈاکٹر صاحب لکھنو ¿ میں ملی ، تعلیمی ، سماجی خدمات کے روح رواں تھے اور ان کے ساتھ روح کے رواں ہونے کے لیے جس جسم کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی موجود تھی، اس لیے وہ جس کام کو کرتے اس میں برکت، حرکیت، نصرت الٰہی، نشاط اور روز افزوں ترقی کے مراحل طے ہوتے رہتے تھے۔
ابن خلدون نے لکھا ہے کہ ا نسانوں کی طرح تنظیموں، اداروں کی بھی عمر طبعی ہوتی ہے، عمر طبعی تک پہونچنے کے بعد انسان فنا ہوجاتا ہے اور ادارے یا تو اضمحلال کا شکار ہوجاتے ہیں یا وجود سے عدم ان کا مقدر ہوجاتا ہے، ڈاکٹر صاحب اپنی عمر طبعی اور مقررہ حیات کے لمحات گذار کر دنیا سے چل بسے اور جن اداروں کو ان سے تقویت تھی ان میں سے کئی پر نزاع کا عالم طاری ہے اور کہنا چاہیے کہ اس کی سرگرمی اور فعالیت بھی ڈاکٹر صاحب کے ساتھ رخصت ہو کر ہوگئی ، البتہ انہوں نے جو تعلیمی ادارے قائم کیے تھے ان میں اب بھی زندگی دو ڑرہی ہے۔اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کے حسن عمل کو قبول فرمائے اور ان کی سیئات سے در گذر فرما کر جنت الفردوس مین جگہ دے آمین۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں