Powered By Blogger

پیر, فروری 13, 2023

تیری معراج کہ تو لوح قلم تک پہنچا ، میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا

تیری معراج کہ تو لوح قلم تک پہنچا ۔
اردودنیانیوز۷۲ 
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار 

سرکار دو عالم ﷺ کو اللہ تعالی نے جس طرح قرآن مجید جیسا دائمی اور بے مثال معجزہ عطا فرمایا ہے اسی طرح آپ ﷺ کو معراج جیسا منفرد بے مثال اور نادرہ روزگار قسم کا معجزہ عطا فرمایا جس کی نظیر ماضی و حال مستقبل میں بھی نہ ملتی ہے نہ ملے گی ۔

 ‌تاریخ معراج میں اختلاف ۔

معراج کی تاریخ میں اختلاف ہے تاہم اس میں اتفاق ہے کہ یہ ہجرت سے قبل کا واقعہ ہے بعض کہتے ہیں ایک سال قبل اور بعض کہتے ہیں کئی سال قبل یہ واقعہ پیش آیا اسی طرح مہینے کی تاریخ میں اختلاف ہے کوئی ربیع الاول کی سترہ ( 17) یا ستائیس ( 27 ) کوئی رجب کی ستائیس ( 27 ) اور بعض کوئی اور مہینہ اور اس کی تاریخ بتلاتے ہیں ( فتح القدیر)
 لیکن معراج یقینی ہے اور قبل از ہجرت ہوئی ہے لیکن مہینے کی تعیین ثابت نہیں لہذا یقینی طور پر یہ کہنا کہ واقعۂ معراج رجب کی ستائیس ( 27 ) تاریخ کو ہی پیش آیا سراسر غلط ہے ۔
معراج کیا ہے ؟ 
دراصل محبوب و محب ، ساجد و مسجود ، عابد و معبود کی داستان محبت اور اسرارِ شریعت کا وہ عظیم الشان خزانہ ہے جس سے جواہرات و انوارات کے چشمے ابل پڑے اور حقیقت محمدی اور عظمت محمدی کے چار دانگ عالم میں ڈنکے بج گئے ۔

حضور ﷺ کو معراج جسمانی ہوئی یا روحانی ؟ 
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ( نشر الطیب) میں لکھتے ہیں جمہور اہل سنت و جماعت کا مذہب یہ ہے کہ معراج بیداری میں جسد اطہر کے ساتھ ہوئی اور دلیل اس کی اجماع ہے (نشر الطیب ، ص: ٨٠
 مطبوعہ سہارنپور) 
علامہ سہیلی رحمۃ اللہ علیہ ( الروض الانف شرح سیرت ابن ہشام) میں لکھتے ہیں کہ مہلب نے شرح بخاری میں اہل علم کی ایک جماعت کا قول نقل کیا ہے کہ معراج دو مرتبہ ہوئی ایک مرتبہ خواب میں ، دوسری مرتبہ بیداری میں جسد اطہر کے ساتھ اس سے معلوم ہوا کہ جن حضرات نے یہ فرمایا کہ معراج خواب میں ہوئی تھی انہوں نے پہلے واقعہ کے بارے میں کہا ہے ورنہ دوسرا واقعہ جو قرآن کریم اور احادیثِ متواترہ میں مذکور ہے وہ بلا شبہ بیداری کا واقعہ ہے ۔
واقعۂ معراج ۔
حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ جب مجھے معراج ہوئی صبح کو میں ہیبت زدہ سا ہو گیا کہ میں یہ واقعہ جس کے سامنے بیان کروں گا وہ مجھے جھوٹا کہے گا اسی تردد میں غمزدہ بیٹھا ہوا تھا تو دشمن خدا ابوجہل میرے پاس آیا اور مذاقا مجھ سے کہنے لگا کہئے کوئی نئی بات ہے؟ میں نے کہا ہاں اس نے کہا وہ کیا؟ میں نے کہا رات مجھے معراج ہوئی اس نے کہا کہاں تک گئے ؟ میں نے کہا بیت المقدس تک اس نے کہا واہ واہ اور پھر صبح آپ یہاں موجود ہیں ؟ میں نے کہا ہاں اسی طرح ہوا اس نے خیال کیا کہ اس وقت انہیں جھٹلانا ٹھیک نہیں ایسا نہ ہو کہ ہوشیار ہو کر اس بات کا انکار کر جائیں اور لوگوں کے سامنے اسے بیان نہ کریں اس لئے اس نے اسے بطور پیش بندی کے کہا کہ جو آپ نے مجھ سے فرمایا کیا آپ کی تمام قوم کو میں جمع کر لوں تو ان سب کے سامنے بھی آپ کہیں گے ؟ میں نے کہا کیوں نہیں ؟ اسی وقت یہ گیا اور آوازیں دے دے کر تمام برادری کو جمع کرکے میرے پاس لایا مجلس جب کھچا کھچ بھر گئی اور ایک بھی باقی نہ رہا تو یہ اٹھا اور کہا جو آپ نے بات مجھ سے بیان کی ہے اب اپنی قوم کے سامنے اسے دہرا دیجئے تو حضور ﷺ نے فرمایا ( انی اسری بی اللیلۃ ) آج کی رات مجھے معراج کرائی گئی ہے سب نے پوچھا کہاں تک؟ آپ نے فرمایا (الی بیت المقدس ) بیت المقدس تک تو انہوں نے کہا واہ واہ پھر صبح کے وقت آپ یہاں ہیں ؟ آپ نے فرمایا ( نعم ) ہاں یہ سنتے ہی کسی نے تو تالیاں بجانی شروع کیں کسی نے اسے جھوٹ سمجھ کر اپنا ہاتھ ماتھے پر دھر لیا لیکن بالآخر ان میں سے بعض نے بعض کو کہا بیت المقدس ہمارا دیکھا ہوا ہے یہ کبھی وہاں نہیں گئے اب یہ کہتے ہیں کہ میں ہو آیا تو ان سے وہاں نشانات دریافت کرو یہ بتلا نہیں سکیں گے تو ان کا جھوٹ سب پر کھل جائے گا اس پر سب نے اتفاق کیا اور حضور ﷺ سے کہا کیا آپ مسجد اقصی کے جو احوال ہم پوچھیں انہیں بتلا سکتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں اور ساتھ ہی مسجد اقصیٰ کا نقشہ بیان کرنا شروع کر دیا حضور ﷺ فرماتے ہیں یہاں تک کہ بعض باتوں نے مجھے شک سا معلوم ہونے لگا اسی وقت اللہ تبارک و تعالی نے مسجد اقصیٰ کو میرے سامنے کھڑی کردی گویا عقیل کے گھر سے بھی زیادہ قریب ہے اب میں اسے دیکھتا جاتا ہوں اور ان کے سامنے اس کا نقشہ مع چھوٹی بڑی چیزوں کے بیان کر رہا ہوں جب میں نے پوری مسجد کا حال بیان کر دیا تو دیکھنے والوں نے کہا خدا کی قسم اس میں نہ تو ایک حرف غلط ہے نہ کوئی وصف باقی ہے ( مسند احمد )
یہ معراج پیغمبرِ خدا ﷺ کو جاگتے ہوئے جسم و روح سمیت ہوئی رب العالمین فرماتا ہے ( مازاغ البصر وما طغی ) نہ تو نظر بہکی نہ بھٹکی ۔ ولقد رای من آیات ربہ الکبریٰ ۔ یقیناً ہمارے نبی ﷺ نے اپنے رب کی بڑی بڑی بھاری نشانیاں ( بچشم خود ) خود ملاحظہ فرمائیں ۔ تعجب ہے ان پر جو اسے خواب کا واقعہ بتاتے ہیں اگر خواب ہوتا تو کون سی ایسی تعجب کی بات اور کونسی اتنی بڑی نعمت تھی کہ جسے خدا تعالی فخریہ بیان کرتا ہے ؟ احسان بتاتا ہے ؟ فرماتا ہے ( سبحان الذی اسریٰ بعبدہ ، الخ یہ بھی خیال رہے کہ یہاں وہ ہی لفظ عبدہ ہے جو سورۂ کہف میں ( الحمدللہ الذی انزل علی عبدہ الکتاب) وغیرہ میں ہے یعنی اس خدا کی پاک ذات تعریفوں کے لائق ہے جس نے اپنے بندے پر اپنی کتاب قرآن مجید نازل فرمائی جو مراد یہاں لفظ عبدہ سے ہے وہی مراد وہاں بھی ۔ معراج جسمانی عقلاً بھی ممنوع اور محال نہیں اگر عالم سفلی سے جسم خاکی کا عالم علوی میں جانا محال تسلیم کر لیا جائے تو اسی طرح عالم علوی سے جسم نورانی کا عالم سفلی میں آنا محال ہوجائے گا ۔پھر نہ تو جبرئیل علیہ السلام آسکتے ہیں نہ کسی نبی کی طرف وحی ہوسکتی ہے نہ کوئی نبی ہو سکتا ہے ( وای کفر او ضح من ہذا ) اسی طرح اتنی سرعتِ حرکت بھی یقینی امر ہے کہ ناممکن نہیں بجلی ہوا وغیرہ کی سرعتِ حرکت ملاحظہ ہو ۔ اسی طرح اہل اسلام کے نزدیک جبرئیل علیہ السلام اور ارواح کی سرعتِ حرکت بھی مسلم ہے۔ زمین و آسمان کی سرعتِ حرکت فلسفیوں کے نزدیک متحقق ہے پس ثابت ہوا کہ اتنی سرعتِ حرکت ممکن ہے اور اللہ تعالی ہر ممکن پر قادر ہے تو معراج جسمانی سیدالاولین والآخرین کی مستعبد نہیں اگر واقعۂ معراج صرف خواب و خیال ہی تھا تو بیسیوں کچے پکے مسلمان اسے سن کر کیوں دین اسلام سے پلٹ گئے ؟ کفار نے کیوں اسے خلافِ عادت سمجھا اور انکار کیا کس بات نے انہیں تعجب میں ڈالا ؟ اور ہنسی مذاق کرنے پر آمادہ کیا ؟ خواب میں اس سے زیادہ مستعبد امر کا دیکھنا خلافِ عقل نہیں اگر حضور ﷺ نے خواب ہی کا ذکر کیا تھا تو وہ کیوں نشانیاں پوچھتے ؟ کیوں دوڑے ہوئے صدیق اکبر کو بہکانے جاتے ؟ کیوں اللہ تعالی اسے ( فتنۃ للناس ) کہتا ؟ بالکل صحیح مطابق عقل و نقل وہی ہے جو جمہور علمائے اسلام کا مذہب ہے ۔
تیری معراج کہ تو لوح قلم تک پہنچا ، میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا ۔

کوئی تبصرے نہیں:

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...