مولانا آزاد نمونے کے انسان تھے : مفتی محمد امداداللہ قاسمی
مدہوبنی /بی این ایسحکومتِ ہند نے آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کی تعلیمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے یوم پیدائش 11 /نومبر کو یوم تعلیم کے طور پر منانے کا اعلان کیا جو 2008ء سے ملک کے تمام تعلیمی و رفاہی سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں یوم تعلیم کے نام سے منایا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے مؤقر چئیر مین کی ہدایت پر مدرسہ اصلاح المومنین راگھونگر بھوارہ مدھوبنی میں مدرسہ ہٰذا کے پرنسپل مولانا جلال الدین صاحب مفتاحی کی صدارت میں تقریب یوم تعلیم کا اہتمام کیا گیا جس میں اساتذہ اور طلباء و طالبات مدرسہ ہٰذا نے شرکت کی، مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کی حیات و خدمات کا تعارف کراتے ہوئے مفتی محمد امداداللّٰہ قاسمی قاضی شریعت دارالقضاء امارت شرعیہ مدھوبنی و ناظم تعلیمات مدرسہ ہٰذا نے کہا کہ مولانا آزاد ؒ کی ولادت مرکز اسلام مکہ معظمہ میں11 نومبر 1888ء مطابق ذی الحجہ1305 کو ہوئی ۔والد ِ ماجد مولانا خیر الدین احمد، غدر 1857ء کو ہندوستان مین برطانوی جبر وتشدد سے تنگ آکر مکہ معظمہ تشریف لے گئے ،اور مدینہ منورہ کے مفتی اکبر شیخ محمد طاہر کی بھانجی سے ان کی شادی ہوئی ،انہی سے مولانا آزاد ؒ دنیا ئے رنگ وبو میں تشریف لائے ۔آپ کا ذاتی نام'' محی الدین احمد'' اور تاریخی نام''فیروز بخت'' رکھا گیا،لیکن آپ کی کنیت'' ابو الکلام ''اور آپ کا لقب ''آزاد'' نے آپ کے اصلی نام پر کچھ ایسا پردہ ڈالا کہ معدودے چند لوگوں کے کسی کو اس کا علم نہیں۔ مولانا آزاد بہت کم عمری میں دینی علوم سے آراستہ ہوگئے، اللہ تعالی نے زبردست حافظہ اور قوت یاد داشت عطا کیا تھا، اسی وجہ سے آپ نے دیگر علوم کو بھی حاصل کیا اور ہر ایک میں کمال حاصل کیا، ابتدائی عمر سے کتابوں کے شوقین اور مطالعہ کے رسیا تھے، مولانا آزاد نظم اوقات کے اس قدر پابند تھے کہ:'ایک مرتبہ دن میں پانچ بجے شام گاندھی جی آگئے، مولانا کو خبر کی تو ٹس سے مس نہ ہوئے ،فرمایا: اس وقت ملنے سے معذور ہوں کل صبح نو بجے تشریف لائیں ،گاندھی جی ہشاش بشاش لوٹ گئے اور اگلے دن صبح نو بجے تشریف لائے'۔مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ، آپ ہندوستانی تاریخ کی ناقابلِ فراموش ہستی ہیں، جن کی پوری زندگی جہدِ مسلسل اور عملِ پیہم کا نمونہ تھی، جو ہند میں سرمایہ ملت کے نگہبان تھے۔ مولانا آزاد مختلف کمالات کا منبع تھے، ان کی شخصیت علوم وفنون کا مصدر اور مرکز تھی۔ علم و فضل، دین و مذہب، فلسفہ و حکمت، تصنیف و تالیف، خطابت و صحافت سیاست و تدبر، غرض کون سا ایسا علم و ہنر کا میدان تھا جو ان سے اچھوتا رہا ہو۔ سیاسی بصیرت ایسی کہ مہاتما گاندھی اور پنڈت نہرو جیسے رہنما آپ سے مشورہ کرتے۔ وہ ایک ماہر تعلیم بھی تھے۔
ملک میں تعلیم کے فروغ کے لیے انھوں نے وہ تعلیمی نظام ترتیب دیا جو اپنی مثال آپ ہے۔
مولانا آزاد نے ۱۵ /جنوری 1947/ کو وزیر تعلیم کا عہدہ سنبھالا اور 2/فروری 1958/تک اسی عہدے پر فائز رہے۔
انھوں نے تقریباً گیارہ برس تک ملک کے لئے تعلیمی خدمات انجام دیں۔وزیر تعلیم کا عہدہ سنبھالتے ہی انھوں نے یہ عزم کیا کہ وہ ہندوستان میں ایک اتنے مضبوط تعلیمی نظام کی بنیاد ڈالیں کہ آنے والی نسلیں اس پر عالی شان محل تعمیر کر سکے، مولانا ابو الکلام آزاد اس سچائی پر یقین رکھتے تھے کہ تعلیم کے بغیر ہندوستان ترقی نہیں کر سکتا۔ تعلیم کے ذریعے ہی اس ملک کو ترقی یافتہ اور مہذب ملکوں کی فہرست میں لایا جا سکتا ہے۔ان کی نگاہ میں قومی نظام تعلیم ملک کے نظام کا ناگذیر حصہ ہے۔ انھوں نے وزیر تعلیم کے عہدے پر فائز رہتے ہوئے تعلیم کے فروغ میں جو کارہائے نمایاں انجام دئے ، وہ ناقابل فراموش ہیں۔
اس تقریب میں مولانا جلال الدین صاحب مفتاحی، مولانا ابوالخیر قاسمی، مولانا حیدر قاسمی، مولانا ثناء اللہ، مولانا نظام الدین، حافظ سلیم، حافظ شفیع الرحمن، قاری نظام الدین، ماسٹر گلریز، ماسٹر عبداللہ کے علاوہ مدرسہ کے تمام کارکنان نے شرکت کی، اخیر میں قاضی شریعت کی دعا پر مجلس کا اختتام ہوا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں