یہ مہینہ شعبان المعظم کا ہے۔دوچار دن بعد ہی شب برأت کی وہ قیمتی رات آنے والی ہےجسکی فضیلت صحاح ستہ سے ثابت ہے۔اس موقع سے منبر ومحراب اور اجلاس کے اسٹیج سے اس مغفرت والی رات پر خوب خوب بات کی جاتی ہے۔بالخصوص اماں جان حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی وہ روایت جسے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کی ہے کہ:رب العزت نصف شعبان کی شب کو آسمان دنیا میں نزول فرماتے ہیں، بنوکلب کی بکریوں کے بال برابر لوگوں کی بخشش اور مغفرت کا سامان کرتے ہیں،یہ روایت اس عنوان پر پیش کی جاتی ہے۔ساتھ ہی ابن ماجہ کی روایت جو حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مشرک اور کینہ پرور شخص کی مغفرت نہیں ہوتی ہے، لگے ہاتھ اسے بھی بیان کر دیتے ہیں۔
یہ تقریر سنکر ایک صاحب ایمان نے اپنی بات رکھی ہے ۔موصوف کہتے ہیں کہ: میرے سگے بھائی ہیں،سالوں سے گفت وشنید نہیں ہے۔میں نے یہ سن رکھا ہے کہ صاحب ایمان کے لیے یہ جائز ہی نہیں کہ وہ اپنے ایمان والے بھائی سے تین دن سے زائد گفت وشنید چھوڑ دے۔پھر ایسے کینہ پرور اور قطع رحمی کرنے والے کی بخشش نہیں ہوتی ہے۔
یہ تو میرے ایمانی بھائی ہی نہیں بلکہ سگے بھی ہیں، میں تعلق بحال کرنا چاہتا ہوں، جب بھی وہ نظر آتے ہیں، سلام کرتا ہوں ،مگر وہ اپنا چہرہ پھیر لیتے ہیں،سلام کا جواب تک نہیں دیتے ہیں،ایسا کئی سالوں سے ہوتا آرہا ہے۔بقول عاجز؛
وہ آنکھیں پھیرلیں میں کیسے پھیروں
محبت ہے ادا کاری نہیں ہے۔
یہ واقعی بہت ہی اذیت ناک اور ایک صاحب کے لیے کربناک بھی ہے۔یہ واقعہ شاذ نہیں ہے بلکہ ہم سبھی ملک کے جس خطہ میں آباد ہیں، اسے سیمانچل کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے، ڈھیروں واقعات اس نوعیت کے دیکھنے میں آتے ہیں۔افسوس تو اس بات پر ہے کہ حدیث شریف میں ہے منھ پھیرنے کی بات بھی لکھی ہوئی ہےاور اس کا حل بھی پیش کیا گیا ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ؛
کسی مسلمان کےلیے یہ جائز نہیں ہے کہ تین دن سے زائد ترک کلام کرے، جب دونوں ملے تو وہ ادھر چہرہ پھیر لے اور یہ ادھر،ان دونوں میں بہتر وہ شخص ہے جو سلام میں پہل کرے (مسلم)
اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سلام سے قبل منھ پھیرنے کا موقع ہوسکتاہے، مگر سلام کے بعد اس عمل کاکوئی محل نہیں ہے۔ مذکورہ واقعہ میں یہ آخری درجہ کی ایمان والے سگے بھائی سے نفرت اور دوری معلوم ہوتی ہے، اس کے لیے مذہب اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔اس مغفرت والے مہینہ میں بالخصوص شب برأت کی فضلیت حاصل کرنے کے لیے اس عنوان پر زمینی کوشش کی آج ضرورت ہے۔
سلام کرنے والے کو بظاہر یہاں یہ خوف ہورہا ہے کہ میری گفتگو بند ہے، اس کا گناہ گار میں بھی ہوں گا،شرعی اعتبار سے یہ خیال درست نہیں ہے۔وہ اس لیے بھی کہ انہوں نے شرعی طریقہ پر رہنمائی کی گئی باتوں پر عمل کرلیا ہے۔اب یہ تارک کلام کا گناہ گار نہیں ہے۔البتہ ہاں! منھ پھیر کر اس کے بھائی نے پھر غیر شرعی عمل کا ارتکاب کرلیا ہے بلکہ صاف زبان میں یہ کہا جائے کہ اس کی شامت آگئی ہے۔اعاذنا الله من ذالك.
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ
رابطہ، 9973722710
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں