کیسے رکے گا یہ نفرت کا طوفان - ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
دنیا میں بھارت کی پہچان تکثیری ملک کی ہے ۔ یہاں مختلف زبانیں بولنے، رسم و رواج پر عمل کرنے اور مذاہب کو ماننے والے افراد برسوں سے ساتھ رہتے آئے ہیں ۔ مسلم بادشاہوں کے دربار میں ہندو اعلیٰ و عزت دار عہدوں پر فائز تھے اور ہندو راجاؤں کے یہاں مسلمان ۔ اس وقت ہندو مسلمانوں کے درمیان نہ کوئی امتیاز تھا نہ نفرت ۔ ہندو بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے اور تہوار مناتے تھے ۔ دونوں ایک دوسرے کے تہواروں میں شریک ہوتے اور مذاہب کا احترام کرتے تھے ۔ ریاستوں پر انگریزوں کے قبضہ اور مغل سلطنت کے خاتمے نے دانشوروں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ۔ ایک انگریزوں کی غلامی سے ملک کو بچانا چاہتا تھا ۔ اس میں مسلمانوں کی اکثریت تھی ۔ 1857 میں انہیں ہندو مسلمانوں نے بہادر شاہ ظفر کی لیڈر شپ میں انگریزوں کو ملک بدر کرنے کی کوشش کی ۔ دوسرا (ہندو دانشور) طبقہ وہ تھا جس نے انگریزوں کے ساتھ مل کر ہندو احیاء پرستی کی تحریک شروع کی ۔ ان کی تعداد بہت قلیل تھی وہ ہندو مسلم اتحاد اور رواداری کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے ۔ اس اتحاد کا مظاہرہ اس وقت ہوا جب 1905 میں انگریزوں نے بنگال کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا ۔ ہندو مسلمانوں کے متحدہ احتجاج کی وجہ سے انہیں اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا ۔ اس تحریک نے ان کی آنکھیں کھول دیں، اس کے بعد ہی پھوٹ ڈالو اور راج کرو کی پالیسی اپنائی گئی ۔ جس کا مقصد ہندو مسلم اتحاد کو ختم کرنا تھا ۔ انگریزوں نے ہندو مسلمانوں کے درمیان ریل کی پٹریوں کی طرح فاصلہ بنا کر رکھا ۔ جو ساتھ تو رہتی ہیں لیکن ملتی نہیں ۔ وہ بانٹو اور راج کرو کی پالیسی کی وجہ سے ہی بھارت کے عوام کو غلام بنا سکے ۔ اور برسوں تک ان پر اپنے اقتدار کی گاڑی دوڑاتے رہے ۔بھارت کے لوگوں نے اس پالیسی کو سمجھا اور ہندو مسلمان دونوں نے مل کر آزادی کی لڑائی کندھے سے کندھا ملا کر لڑی ۔ مگر ہندو احیاء پرستی کے حامی آزادی کی تحریک کا حصہ نہیں بنے بلکہ انہوں نے انگریزوں کے مخبر کے طور پر کام کیا ۔ وہ آزادی کی جدوجہد میں شامل افراد کے راستہ کی رکاوٹ بنے اور انتظامیہ کو ان کی سرگرمیوں سے واقف کراتے تھے ۔ انگریز حکمرانوں کے یہ دوست نہیں چاہتے تھے کہ وہ ملک چھوڑ کر جائیں ۔ مگر ملک کی اکثریت غلامی کے خلاف متحد تھی اس لئے انگریز جیسے طاقتور حاکم کو بھارت چھوڑ کر جانا پڑا ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ آزادی کے بعد ہمارے حکمرانوں نے ہندو مسلم کے درمیان تفریق اور نفرت کی موٹی لکیر کو مٹنے نہیں دیا ۔ انہوں نے سماج کو بانٹنے اور نفرت پھیلانے والوں کو بھی نہیں روکا بلکہ ان کی سرگرمیوں کو جاری رہنے دیا ۔ یہاں تک کہ 1860 کے پولس ایکٹ کو بھی نہیں بدلا گیا ۔ جبکہ برطانوی پولس کے مظالم کو وہ خود بھگت چکے تھے ۔ یہ پولس انگریز حکومت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کا کام کرتی تھی ۔ اب یہ پولس لا اینڈ آرڈر کو درست رکھنے کے بجائے حکمران جماعت کے لئے فنڈ جٹانے، اس کے مخالفین کو ٹھکانے لگانے اور اس کی سیاست سادھنے کے لئے کام کرتی ہے ۔ سابق ڈائریکٹر جنرل آف پولس وبھوتی نرائن رائے کا کہنا ہے کہ آزاد بھارت میں پولس اصلاحات کی ضرورت ہے ۔ مگر حکمرانوں نے اچھے ہتھیار، تیز رفتار گاڑیاں، وردی اور اچھی تنخواہ دینے کو ہی پولس کی اصلاح سمجھ لیا ہے ۔ حالانکہ پولس کا مزاج اور کام کرنے کے طریقہ کو بدلنا چاہئے ۔ حکمراں پولس کو اپنے مفادات سادھنے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ اس کی وجہ سے پولس پر بار بار داغ لگتا ہے اور سماج میں اس کی منفی شبیہ بنتی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ جو پولس اہلکار برسراقتدار جماعت کے مفادات اور مزاج کے مطابق کام کرتا ہے اسے سپاہی سے انسپیکٹر بننے میں زیادہ وقت نہیں لگتا ۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار بدلنے کے ساتھ پولس کی وفاداری بدل جاتی ہے ۔ پولس کی زیادتی، فسادیوں کو روکنے میں ناکامی اور حراست میں موت کو اسی پس منظر میں دیکھنا چاہئے ۔ جو کام سیاست داں سیدھے طور پر نہیں کر پاتے وہ پولس کے ذریعہ کرایا جاتا ہے ۔ نفرت اور طبقاتی تفریق کو بنائے رکھنے میں بھی پولس معاون ثابت ہوتی ہے ۔ سیاست داں جانتے ہیں کہ جب تک سماج ٹکڑوں میں نہیں بٹے گا تب تک ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ وہ اپنے مفاد کے لئے کبھی ہندو مسلمان، کبھی اگڑی پچھڑی، کبھی برہمن راجپوت اور یادو کے نام پر سماج کو بانٹ کر اقتدار حاصل کرنا اپنی پالیسی بنا چکے ہیں ۔ اس لئے جو جتنا سماج کو بانٹ سکتا ہے وہ اتنی ہی جلدی اقتدار کی بلندی پر پہنچ جاتا ہے ۔ ملک میں مذہب، ذات، طبقات اور امتیازات پہلے بھی موجود تھے مگر سماج اتنی بری طرح بٹا ہوا نہیں تھا ۔ لوگوں کی آنکھوں میں شرم اور بزرگوں کی عزت تھی ۔ حالانکہ آزادی کے بعد شروع ہوا فسادات کا سلسلہ کبھی رکا نہیں ۔ لیکن پھر بھی غیر مسلم مسجد یا درگاہ کے سامنے سے ہاتھ جوڑ کر گزرتے تھے ۔ ہندو خواتین شام کو اپنے نونہالوں پر نمازیوں سے دم کرانے کے لئے مسجد کے باہر کھڑی دکھائی دیتی تھیں ۔ منڈل کے مقابلے کمنڈل پھر رام جنم بھومی بابری مسجد تنازعہ اور رتھ یاترا نے سماج کو بدل دیا، آنکھوں کی شرم اور بزرگوں کی عزت کو خاک میں ملا دیا ۔ سماجی نفرت اور تفریق پچھلے چند سالوں میں اپنے عروج پر آگئی ۔ جس میں سیاست دانوں کی شمولیت صاف دکھائی دیتی ہے ۔ ابھی تک یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ الیکشن جیتنے اور لوگوں کا دھیان بنیادی مسائل سے ہٹانے کے لئے ہجومی تشدد، گو کشی، مسلمان، قبرستان، لوجہاد، جناح، پاکستان، سی اے اے، این آر سی، مسلمانوں کا اقتصادی بائیکاٹ، آذان، حجاب، مندر مسجد کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ کسی نہ کسی بہانے سماج میں تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ بیس فیصد مسلمانوں سے اسی فیصد غیر مسلموں کو ڈرایا جاتا ہے ۔ جبکہ تمام اعلیٰ عہدوں پر غیر مسلم فائز ہیں ۔ ملک کی معیشت ہندوؤں کے ہاتھوں میں ہے ۔ فوج کے تمام اعلیٰ افسران غیر مسلم ہیں ۔ وزیراعظم، وزیر داخلہ، وزیر دفاع، چیف جسٹس اور صدر جمہوریہ تک غیر مسلم ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب قواعد صرف ووٹ حاصل کرنے کے لئے ہے یا کسی منصوبہ کا حصہ ہے ۔ ایک مسئلہ سے دھیان نہیں ہٹتا کہ دوسرا شروع ہو جاتا ہے ۔ اب بات مسلم مخالف نعروں اور قتل عام کے حلف سے آگے بڑھ کر مساجد کے نیچے مندر کے آثار تلاش کرنے اور اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ چکی ہے ۔ اس سے لگتا ہے کہ نفرت کی آندھی چلانے والوں کی نیت میں کچھ کھوٹ ہے ۔ حکومت کی خاموشی نے ان کا حوصلہ اور بڑھا دیا ہے ۔ شاید اس کے ذریعہ وہ اپنی کارکردگی پر جواب دہی سے بچنا چاہتی ہے ۔
یہ صورتحال اس وقت اور زیادہ سنگین ہو جاتی ہے جب نفرت اقتدار حاصل کرنے کا ذریعہ بن جائے ۔ گزشتہ کئی سال اس کے گواہ ہیں کہ جس نے فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے اور سماج کو توڑنے کا کام کیا اسے سزا کے بجائے ترقی ملی، وزارت ملی ۔ اس کے بعد تو جیسے یہ فیشن بن گیا کہ اگر بی جے پی کا ٹکٹ چاہئے یا پارٹی میں کوئی مقام تو کسی کمزور مسلمان کو پیٹو یا گئو تسکری، چوری کا الزام لگا کر قتل کر دو ۔ اس کا ویڈیو بنا کر وائرل کرو اور مشہور ہو جاؤ ۔ مسلمانوں کو مارنے کاٹنے کے نعرے لگاؤ اور میڈیا میں چھا جاؤ ۔ برسراقتدار جماعت کے افراد، وی ایچ پی، بجرنگ دل، اے بی وی پی وغیرہ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے والوں کی حمایت میں آ جاتے ہیں ۔ دوسری طرف ملک کے کچھ حق پرست مظلوموں کو انصاف دلانے کی مانگ کرتے ہیں ۔ انہیں ٹرول کیا جاتا ہے اور میڈیا میں گرماگرم بحث کرائی جاتی ہے تاکہ لوگوں کی توجہ بھک مری، بے روزگاری، صحت، تعلیم، مہنگائی اور کسانوں کے مسائل سے ہٹ جائے ۔ برسراقتدار جماعت کو ان نفرت آمیز و سماج کو توڑنے والے نعروں، واقعات کو الیکشن میں بھنانے کا موقع مل جاتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ملک و آئین کو ایک رنگ میں رنگنے سے بچانے اور نفرت کے طوفان کو روکنے کے لئے کیا کیا جائے ۔ مولانا توقیر رضا خان کے مطابق جمہوری نظام میں افرادی قوت کے ذریعہ حکومت کو صحیح فیصلہ لینے کے لئے مجبور کیا جا سکتا ہے ۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ملک میں ایسے لوگ اکثریت میں ہیں جو بی جے پی سے اتفاق نہیں رکھتے ۔ انہیں اکٹھا ہو کر اس کا مقابلہ کرنا چاہئے ۔ اسلامک اسکالرز کے مطابق ملک کو اسلامی تعلیمات کے ذریعہ ہی موجودہ مسائل سے نجات مل سکتی ہے ۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ وقت ملک کے لوگوں کو اسلام کی تعلیمات اور نبی آخر الزماں کی سیرت سے واقف کرانے کا ہے ۔ اگر عربی، فارسی نام والے بادشاہوں نے اسلام کا تعارف کرایا ہوتا، انہوں نے مندروں کو توڑا ہوتا یا یہاں کے مذاہب کی حفاظت نہ کی ہوتی تو بھارت میں ایک بھی ہندو نہیں ہوتا ۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں آریہ سماجی، لنگایت، برہما کماری، سکھ اور کئی ایسے طبقات ہیں جو بتوں کی پوجا نہیں کرتے ۔ وہ کسی نہ کسی شکل میں توحید کے قریب ہیں ۔ ان کی کانفرنس ہونی چاہئے ۔ کچھ قانون کے ماہرین اپنے دفاع کے حق کا استعمال کرنے اور کاونٹر مقدمات کرنے کی صلاح دیتے ہیں ۔ سول سوسائٹی کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ آئین میں یقین رکھنے والے امن پسند حضرات کو آگے آکر نفرت کے طوفان کو روکنا چاہئے ۔ انہیں میں سے کئی صبر کی تلقین کرتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں ۔ ان کے مطابق ملک کے مزاج میں تشدد اور نفرت نہیں ہے ۔ بھارت کے لوگ زیادہ دیر تک شدت پسندی کے ساتھ نہیں رہ سکتے ۔ انہیں کچھ ہی دنوں میں اپنی غلطی کا احساس ہو جائے گا ۔ یہ صحیح ہے کہ بھارت کے لوگ عدم تشدد کے حامی ہیں لیکن جذجات کی رو میں بہہ کر بڑے بڑے فسادات کا حصہ بن چکے ہیں ۔ اس لئے ضروری ہے کہ نفرت کے طوفان کو روکنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے ۔ طریقہ جو بھی ہو ملک کو اس بیماری سے نجات ملنا چاہئے ۔ کیوں کہ نفرت اور سماجی امتیاز کی بنیاد پر کوئی بھی ملک ترقی نہیں کر سکتا ۔ بھارت کے پاس وہ سب کچھ ہے جو اسے دنیا کا لیڈر بنا سکتا ہے ۔ ضرورت ہے تو بس یہاں کے حکمراں کے قوت ارادی کی ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں