بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
دفن کی چادر چھوٹی پڑگئی
از : مفتی ہمایوں اقبال ندوی
ایک واقعہ جومولانا عابد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تدفین کے وقت رونما ہوا وہ معمولی نہیں ہے،فکر کی نظر سے دیکھنے پر صحابی رسول حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی سنت کی پیروی معلوم ہوتی ہے۔آپ کی زندگی بھی اسی کے نقش پا کو حاصل کرنے کی کوشش سے عبارت رہی ہے اور موت سے بھی آپ کی زاہدانہ زندگی کی ہمیں دلیل ملتی ہے۔
مولانا عابد صاحب رحمۃ اللہ دارالعلوم رحمانی منور نگر زیرو مائل کے بانی اساتذہ میں ہیں۔
وفات مورخہ ۱۰/فروری بروز جمعرات ۲۰۲۲ءزیرسایہ مسجد حسینیہ دارالعلوم رحمانی منور نگر زیرو مائل میں ہوئی ہے اور تدفین مذکورہ تاریخ ہی کو اپنے آبائی گاؤں پورنداہا میں ہوئی ہے۔
عین تدفین کے وقت واقعہ یہ پیش آیا کہ قبر میں مولانا مرحوم کو اتارنے کے بعد اوپر ڈالنے والی چٹائی کہیں رہ گئی، ایک چادر دستیاب تھی، اسے ڈالاگیا تو وہ پوری قبر کو احاطہ نہ کرسکی،موجود لوگوں نے اپنا عربی رومال پیش کیا، اسے جوڑدیا گیا ،اس کے اوپر مٹی ڈالی گئی۔
یہ اتفاقی واقعہ میں بھی مولانا مرحوم کی پوری زندگی پر روشنی پڑتی ہے۔
اپنی زندگی میں مولانا مرحوم دعوتی خطاب میں حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے واقعہ بکثرت بیان کرتے اور ان کی سیرت پر سیر حاصل گفتگو کیا کرتے،صحابی جلیل کی سابقہ پرتعیش زندگی اور اسلام کے بعد کی ان کے زہدوتقوی اور عسرت بھری زندگی پرروشنی ڈالتے، اپنے گھر والوں سے چھپ کران کےاسلام لانے کا واقعہ ، پھر گھر والوں کی طرف سے دی جانے والی قید وبند کی صعوبتوں کا تذکرہ اور دردناک تکالیف کی روداد پیش کرتے، دین کی خاطر حبشہ کی ہجرت کو موضوع سخن بنایا کرتے۔بالخصوص پہلی جماعت مدینہ کی جو مسلمان ہوئی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مصعب رضی اللہ عنہ کو ان کےساتھ مدینہ روانہ فرمایا۔مدینہ کے پہلے داعی اور مبلغ ہونے کاشرف انہیں حاصل ہوا،لوگ انہیں مقرئی اور مدرس کہا کرتے ،اس عنوان پر مولانا عابد صاحب خوب خوب گفتگو کرتے۔ایسا محسوس ہوتا کہ اپنا آئیڈیل انہیں محسوس کرتے ہوں۔
مولانا عابد رحمۃ کی زندگی کا سرسری مطالعہ کرنے سے بھی یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آپ نے بھی مذکورہ صحابی رسول کی اپنی زندگی میں بھی پیروی کی کوشش کی ہے۔
آپ کے گھر والوں نے آپ کوایک عصری ادارہ میں داخل کیا، اس کا مقصد دنیاوی ترقی تھا،لیکن آپ نے اپنے گھر والوں کے منشا کے خلاف کیا،سرکاری نوکری کو بھی لات ماردی،اور دینی ترقی کے لیے جامعہ مظاہر علوم کا سفر کیا، شیخ زکریا رحمۃ اللہ علیہ سے مرید ہوگئے، وطن واپس ہوئے، گیاری گاؤں کے الحاج ابوثاقب صاحب کےدروازے پر درس وتدریس میں مشغول ہوگئے۔اللہ نے آپ کے حق میں بھی دارالعلوم رحمانی کے پہلے مدرس ہونے کا شرف رکھا تھا، حضرت مولانا منور حسین صاحب رحمۃ کا کثرت سے گیاری آنا جانا تھا، لوگ زیرومائل ارریہ میں ایک عالیشان مسجد بنانا چاہتے تھے ،حضرت نے کہا کہ مسجد آباد کرنے کے لیے ایک ادارہ کی بھی ضرورت ہے، چنانچہ ادارہ بنا مولانا عابد صاحب کو اس مدرسہ کا معلم بنا کر بھیجا گیا، تا حیات معلم ومدرس رہےاور اس مسجد کی آبادی کا ذریعہ بن گئے،دعوت وتبلیغ کا فرض پوری عمر بھی نبھاتے رہے۔سینکڑوں ہزاروں لوگوں کی اصلاح وتربیت کا کارنامہ آپ نے انجام دیا۔ایک موقع سے ایک ٹانگ ٹوٹ گئی، مسجد ہی میں معتکف ہوگئے، چند برتن اور لوٹے پاس ہوتے، یہ سرمایہ آپ کے پاس تھا،ویل چیئر پر بیٹھ کر بازاروں میں گشت کرتے اور دعوت کا فریضہ انجام دیتے،
گویا جس امید کے ساتھ حضرت مولانا منور حسین صاحب نے آپ کو دارالعلوم رحمانی بھیجا، اس پر آپ کھرے اترے اور تاحیات گامزن رہے، یہی نہیں بلکہ آپ نے پہلے معلم اور مبلغ کا حق بھی ادا کیا، اس معاملہ میں بھی آپ نے صحابی رسول حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی پیروی کی کوشش کی ہے۔شاید یہی بات ہے کہ اللہ نے مرنے کے بعد تدفین کے وقت بھی مولانا مرحوم کو حضرت مصعب کے نقش پا کے غبار کو چھولینے کی سعادت مرحمت کی ہے۔
"وما ذالك علی بعزیز"
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں