Powered By Blogger

اتوار, جولائی 07, 2024

کچھ تبسم زیرِ لب) انس مسرورانصاری

( کچھ تبسم زیرِ لب) 
Urduduniyanews72
              انس مسرورانصاری
       
 اک پھول سے آجاتی ہےویرانےمیں رونق 
ہلکا سا تبسم  بھی  مر ی جا ن  بہت  ہے 

                       * خوش نصیب *
  مجاہدِآزادی قاضی احسانﷲشجاع آبادی دوسال کی قید کاٹ رہےتھے۔ایک دن مولانا عطاءﷲشاہ بخاری ان سے ملنے جیل گئے۔ملازموں کو دیکھ کرپوچھا۔۔یہ کون ہیں۔؟،، 
 قاضی صاحب نے بتایا کہ یہ میرے خادم ہیں۔ایک سلیمان ہےجو پودوں کو پانی دیتاہےاوردوسرےکانام سکندرہےجوصفائی وغیرہ کردیتاہے۔،، 
عطاءﷲ بخاری نے کہا"تم تو بہت خوش نصیب ہو کہ سلیمان اورسکندرتمھارےخادم ہیں۔۔۔۔،،**
                           
                             * پڑھنا آتا ہے؟ *
    1960/میں ایک شام کوشعبہءاردو،فارسی۔لکھنؤ یونیورسٹی میں ایک ادبی نشست۔۔ شامِ افسانہ،،منعقد ہوئی۔اس افسانوی محفل میں ملک کےممتازادیبوں نے شرکت کی تھی۔
 رضیہ سجادظہیرڈائس پراپنا افسانہ۔۔مسیحا،،سنا رہی تھیں۔سامعین ہمہ تن گوش تھے۔افسانے کا ہیرو ڈاکٹر، ہیروئن مریضہ کی پیٹھ کا معائنہ کررہاہے۔سوالات بھی کرتاجارہاہے۔ہیروڈاکٹر نے پوچھا۔۔تمھیں پڑھنا آتا ہے۔؟،،
یہ الفاظ رضیہ آپانےکچھ اس اندازمیں اداکیےکہ سامعین میں سےایک طالبہ اچانک بے ساختہ بول پڑی۔۔
  ۔۔ جی ہاں،آتاہے۔،، 
 پھرکیاتھا۔ایسے قہقے پڑےکہ۔۔ شامِ،،لالہ زار بن گئی۔رضیہ آپابھی بے ساختہ ہنس پڑیں۔۔۔۔**

                              *  ا جر ت *
خواجہ الطاف حسین حالی، مرزاغالب کےشاگرداوربہت معتقد تھے۔ایک روزدونوں بیٹھے آپس میں گفت گو کررہے تھے کہ غالب نےاپنےپاؤں میں تکلیف کی شکایت کی۔خواجہ صاحب فوراً استاد کےقریب ہوگئے اور کہا۔۔ 
لایئےمیں آپ کے پاؤں دبادوں۔،، 
خواجہ صاحب چونکہ عالِم دین تھے اس لیے غالب ان سے پاؤں دبوانانھیں چاہتےتھے۔یہ دین کے علم کااحترام تھالیکن شاگرد بھی کچھ کم سعادت مند نہ تھے۔بضدہوگئےکہ نھیں! پاؤں دابیں گے۔ بڑی دیر کے بعد فیصلہ ہواکہ مولانا حالی اجرت پر پاؤں دابیں گے۔غالب نے شرط کوقبول کرلیا۔وہ کافی دیر تک غالب کے پاؤں دباتےرہے۔پھرجب کام سے فارغ ہوگئے تو غالب سے ازراہِ مذاق اجرت طلب کی۔ غالب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔۔ تم نےہمارےپاؤں دبائےاورہم نے تمھاری اجرت داب  لی۔حساب برابر۔۔۔۔۔ **
 
                        *  ہتھیلی کےنیچے  *
     سرسیداحمدخاں،مولانا شبلی نعمانی اورممتازعلی صاحب ایک کمرہ میں بیٹھے آپس میں گفت گوکررہے تھے۔تین بڑی علمی شبخصیات کا اجتماع،تکلف برطرف قسم کی گفتگو۔عالمانہ موشغافیاں۔ یہ سب کچھ تھا  لیکن سرسیداحمدخاں کچھ بے چین سےنظرآرہےتھے۔ گفتگو میں جی نھیں لگ رہاتھا۔بس ہاں، ہوں میں جواب دے رہے تھے۔کوئی بہت اہم کاغذکھوگیاتھااور تلاشِ بسیارکےباوجودنھیں مل پارہاتھا۔حالانکہ ہوا نےایک ہلکی سی شرارت کی تھی اوراس کاغذکومولانا شبلی کے قریب پہنچادیاتھا۔انھوں نے بڑی ہوشیاری سے مطلوبہ کاغذپراپنی ہتھیلی رکھ لی تھی اورسرسیدکے اضطراب سےلطف اندوزہورہےتھے۔لیکن ان کے ہونٹوں کی دبی دبی سی مسکراہٹ نے چغلی کھائی اورسرسید بھانپ گئےکہ مطلوبہ کاغذ مولاناکی ہتھیلی کےنیچے دباہواہے۔ 
  سرسید نےمولانا شبلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔۔ 
  حضرت! ہم نےبڑےبوڑھوں سےسناہےکہ جب کوئی چیز کھوجائےتو سمجھو شیطان اس پر اپنی ہتھیلی رکھ دیتاہے۔کیا یہ سچ ہے۔،،؟ 
سرسید کی چوٹ پر مولانا نےشرمندگی سے مسکراتے ہوئے کاغذ ان کےحوالےکردیا۔۔۔ **

                                    * بیچاری *
  اردوکےایک معروف شاعر نے پریشان ہوکرمجازلکھنوی سے کہا۔۔مجھے اب شادی کر لینی چاہیے۔۔ 
      ۔۔تواس میں پریشانی کی کیابات ہے۔؟کرلیجیئے شادی۔،، مجازنےکہا۔ 
  ۔۔ لیکن بات یہ ہےکہ میں کسی بیوہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔،، 
    ۔۔ آپ کسی سے بھی کرلیجیئے۔۔ مجازنےسنجیدگی سےکہا۔۔ بیوہ تووہ بیچاری ہوہی جائے گی۔،، **
                          
                                  * انگلیاں *
    اردو ادیبوں کی ایک طعام کی محفل میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کےپہلومیں بیٹھے ہوئے ایک صاحب کھاناکھاتےہوئےباربارچٹخارےلےکراپنی انگلیاں چاٹنےلگتے۔جب وہ خوب چٹخارےلےلےکراپنی انگلیاں چاٹ چکےتولوی صاحب اپنی انگلیاں ان کے منھ کے قریب لےجاکربولے۔۔ لیجیۓ حضرت! اب انھیں بھی صاف کردیجئے۔،، **
                       
                          * کوئی شاعر ہے *
   دروازہ پر دستک ہوئی تو آشفتہ لکھنوی کےملازم نے دروازہ کھولا۔ لیکن دروازہ کھولنےکےبعدکافی دیر تک ملازم واپس نھیں آیا۔آشفتہ نے اسے آوازدی۔وہ آیا تو کہنے لگا۔۔ کوئی صاحب آپ کوباہربلاتےہیں۔،، 
    ۔۔ ارےﷲکےبندے! نام تو پوچھا ہوتا۔،،آشفتہ نے نرمی سےکہا۔
      ۔۔ کوئی شاعر صاحب ہیں۔آپ کےدھوکھےمیں انھوں نے مجھے غزلیں سنانی شروع کردیں۔،، ملازم نے براسامنھ بنا کر جواب دیا۔۔ **

                           * وقت اورتاریخ *
   جن دنوں رشیداحمد صدیقی مسلم یونیورسٹی میں اردو شعبہ کےصدر تھے۔ گرلز کالج کی پرنسپل نے درخواست پیش کی اورکہا۔۔ کالج کی طالبات اردو شعبہ کو دیکھنا چاہتی ہیں۔آپ کوئی مناسب وقت اور تاریخ بتادیں تاکہ سہولت رہے۔،، 
    رشید احمد صدیقی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ 
  ۔۔ وقت اورتاریخ تو ہمیشہ لڑکی والے ہی بتاتے ہیں۔،،         
              **
                      * کس کی تلاش ہے۔؟ *
    ایک روز مرزاغالب اپنےایک دوست سےکہنےلگے۔۔ہماری اہلیہ نے نماز پڑھ پڑھ کرپورےگھرکومسجدبناڈالا ہے۔لیکن کیوں صاحب! ہم تو مرد ہیں۔ہمارانمازپڑھنا تو ٹھیک ہے۔ہم تو نماز پڑھتے ہیں اس لیے کہ جنت میں حوریں ملیں گی۔غلماں ملیں گے۔آخر یہ عورتںں کیوں نماز پڑھتی ہیں۔؟ انھیں کس کی تلاش ہے۔،،؟؟**

                    * جوان بچے کی غلطی *
   کسی شاعر کےکلام کا پہلی بار کسی رسالہ میں شائع ہونا ایک عظیم الشان واقعہ سے کم نھیں ہوتا۔خوشی سنبھالے نھیں سنبھلتی۔وہ چاہتا ہے کہ ساری دنیا اسے پڑھےاوراگرکوئی پڑھنا نھیں چاہتاتوشاعرزبردستی پڑھواتاہے۔لکھنؤ کے ماہنامہ۔۔ ترچھی نظر،، میں شوکت تھانوی کی پہلی غزل چھپی تومارےخوشی کےگدگدہو گئے۔رسالہ کھول کرمیزپررکھ دیاتاکہ ہرآنےجانےوالےکی نظر پڑ سکے۔شامتِ اعمال کہ سب سے پہلے ان کے والد کی نظر پڑی۔ وہ پولیس مین تھے۔تھانےجارہےتھےکہ ان کی نظرکھلےہوئےرسالہ میں صاحبزادے کی غزل پر پڑگئی۔ایساشورمچااورہنگامہ برپا ہواکہ گویاچورکورنگے  ہاتھوں پکڑلیاگیاہو۔اہلیہ کواندرسےبلاکرلائے اور نہایت غصہ میں بولے۔
  ۔۔ دیکھئےاپنےلاڈلےکی کرتوت۔دیکھئےتوَسہی آپ کے صاحبزاےکیافرمأرہےہیں۔،، 
 ہمیشہ غیرکی عزت تری محفل میں ہوتی ہے
 ترےکوچےمیں جا کر ہم ذلیل خوار ہوتے ہیں 
    چھپی ہوئی غزل کا یہ شعرسناکرشوکت تھانوی کے والد گرجے۔۔ میں پوچھتا ہوں کہ یہ جاتےہی کیوں ہیں کسی کےکوچےمیں۔؟اور کس سے پوچھ کرجاتےہیں۔؟،، 
        بیچاری والدہ سہم گئیں اور خوف زدہ آوازمیں بولیں۔۔ بچہ ہے،غلطی سےچلاگیاہوگا۔،، **

                            * ذہین ترین لوگ *
    امریکہ کے سابق صدر ہنری کسنجرسےانٹرویولیتے ہوئے ایک صحافی نے سوال کیا۔۔ کبھی کیا آپ کوایک ہی کمرے میں ذہین ترین لوگوں کا اجتماع نظرآیا۔؟،، 
    ۔۔ جی ہاں۔،، امریکہ کےمدبرنےجواب دیا۔۔۔ ایک بار میں ایک شیش محل میں گیا۔وہاں ہر طرف ذہین ترین لوگ نظرآرہےتھے۔یہ ان کے عکس تھے اور میں وہاں بالکل تنہا تھا۔،، **

                                   * وضاحت *
  دنیا کے تین بڑے نفسیات دانوں میں ڈاکٹر الفریڈ ایڈلر کانام کیاجاتاہے۔ ایک بار۔۔احساسِ کمتری،، کےموضوع پر وہ ایک یونیورسٹی میں لکچردےرہےتھے۔
   ۔۔ جسمانی طور پر معذور یاکمزورافراداکثرایسے کاموں کو اختیار کرتے ہیں جوان کی معزوری اورکمزوری کےبالکل برعکس ہوتے ہیں۔ یعنی کوئی ضعفِ تنفس کا مریض ہوتا ہے تو لمبی دوڑ کے جینے میں لگ جاتاہے۔ زبان میں لکنت کا مریض ہےتو خطیب بنناچاہتاہے۔ کمزور آنکھیں رکھتاہےتومصٌوری کی طرف نکل جاتاہت۔،، 
   اچانک ایک طالب علم کھڑاہوجاتاہےاورخطبہ میں مداخلت کرتے ہوئے کہتاہے۔
   ۔۔ سر! اجازت ہو تو کچھ پوچھوں۔۔ 
   ۔۔ ہاں، ہاں ضرورپوچھو،مجھے خوشی ہوگی۔،، ڈاکٹر ایڈلرنےکہا۔ 
   ۔۔ ڈاکٹر صاحب! آپ کی باتوں کا یہ مطلب تو نھیں کہ۔۔ ضعفِ دماغ،، میں مبتلا لوگ ۔۔ ماہرِ نفسیات،، بن جاتےہیں۔؟،، **
                      * جھول نھیں دھوتا *
   علٌامہ انور صابری لحیم شحیم آدمی تھے۔ایک بار ممبئی کے ایک مشاعرہ میں گئے۔وہاں کئی روزقیام کے دوران ایک دھوبی کوبلاکرکپڑےدھونےکےلیےکہا۔چونکہ انور صاحب کرتا پاجامہ پہنتے تھے اس لیےدھونےکےلیے  
چندکرتےاورپاجامےکمرہ کے فرش پرڈھیرتھے۔ دھوبی نے ایک کرتاکاسِراپکڑااوراوپراٹھاتاچلاگیا۔کافی لمباچوڑا کرتاتھا۔ سارے ہی کرتے ایسے ہی تھے۔کرتا کاجائزہ لینے کےبعددھوبی نےبراسامنھ بناکر کہا۔۔ ماف کرناجناب! اپن کپڑےدھوتاہے،جھول نھیں دھوتا۔ تنبووالےکوبلالو وہ دھوئےگا۔ اپن تو بس کپڑےدھوتاہے۔،، **

                          * جواب دے گئی *
     1961/کی ایک دوپہرکوشعبہ اردو،فارسی لکھنؤ یونیورسٹی میں ایک سیمینار کےموقع پرپروفیسر رگھوپت سہائےفراق گورکھپوری اردوشاعری کےموضوع پرلکچر دےرہےتھے۔لکچرکےدوران ایک طالبہ آہستہ سے اٹھی اور ہال سےباہر چلی گئی۔ طالبہ کےجانےکےبعد فراق نےکہا۔۔ میں سمجھا تھا کہ یہ لڑکی کھڑی ہوئی ہے تو کوئی سوال کرے گی۔،، 
     پروفیسرسیداحتثام حسین خاموش نہ رہ سکےاور برجستہ بولے۔۔ لیکن وہ جواب دے گئی۔،،  **
          
                               ** تبصرہ**
  ایبٹ آباد(موجودہ پاکستان) کے ایک وکیل الف دین نے۔۔ اسلام کی حقانیت،،کےموضوع پر ایک کتاب لکھی۔ 
 جب کتاب چھپ گئی تو ایک جلد اکبرالہ آبادی کی خدمت میں تبصرہ کےلیےبھیجا۔چنانچہ اکبرنےتبصرہ لکھا اورکتاب الف دین کوواپس بھیج دی۔ 
 الف دین نے خوب لکھی کتاب 
کہ بےد ین نے پا ئی  راہِ ثواب
                                      **
                          انس مسرورانصاری
                      قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن
     سکراول، اردو بازار، ٹانڈہ۔ امبیڈکرنگر (یو، پی) 
          پِن۔۔ 224190/رابطہ/9453347784/

کوئی تبصرے نہیں:

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...