Powered By Blogger

جمعہ, دسمبر 24, 2021

ذات پر مبنی مردم شماری مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ذات پر مبنی مردم شماری 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 حکومت بہار نے مرکزی حکومت کے انکار کے باوجود بہار میں ذات کی بنیاد پر مردم شماری کا فیصلہ اپنے صرفہ سے لے لیا ہے،تیاری چل رہی ہے، خاکے بنائے جا رہے ہیں، جب ہر طرح سے تیاری مکمل ہوجائے گی تو تمام سیاسی پارٹیوں کی میٹنگ میں اسے آخری اور حتمی شکل دی جائے گی، اس سلسلے میں حکومت کو کسی دقت کا سامنا نہیں ہے، کیوں کہ اس معاملہ میں حزب مخالف بھی حکومت کے ساتھ ہے، جدیو ارکان پارلیامنٹ نے وزیر داخلہ کے توسط سے وزیر اعظم کو اس سلسلے میں مکتوب روانہ کیاتھا،اس کے باوجود ۲۰؍ جولائی ۲۰۲۰ء کو مرکزی حکومت نے پارلیامنٹ میں بیان دیا کہ ۲۰۲۱ء کی مردم شماری ذات کی بنیاد پر نہیں ہوگی، ۲۳؍ اگست کو تمام سیاسی پارٹیوں کے لیڈران کی ملاقات وزیر اعلیٰ کی قیادت میں وزیر اعظم سے ہوئی، اس ملاقات میں بہار سے بی جے پی کے وزیر معدنیات جنک رام نے بھی نمائندگی کی تھی، لیکن وزیر اعظم اپنی جگہ اٹل رہے، اور انہوں نے بہار ہی نہیں مہاراشٹر اسمبلی کی پاس شدہ تجویز کو بھی یہ کہہ کر رد کر دیا کہ دستور میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
اس سے قبل ۲۰۱۰ء میں پارلیامنٹ میں ذات کی بنیادپر مردم شماری کا سوال اٹھا تھا، اصولی طورپر حکومت نے اسے مان لیا تھا، لیکن یہ مردم شماری معاشی طورپر کمزور طبقات کے حوالہ سے کرائی گئی اوراس کے اعداد وشمار آج تک عام نہیںکئے گئے، وزیر اعظم نریندر مودی نے ۲۰۱۷ء میں روہنی کمیشن کی تشکیل کی، کمیشن نے پایا کہ دو ہزار چھ سو تینتیس(۲۶۳۳)پس ماندہ برادری میں سے ایک ہزار (۱۰۰۰)کو منڈل کمیشن کی سفارش کا فائدہ نہیں ملا ہے، اس کمیشن نے ۲۷؍ فی صد رزرویشن کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔
 ذات کی بنیاد پر مردم شماری کاکام نوے(۹۰) سال قبل ۱۹۳۱ء میں ہوا تھا، اس کے مطابق ہندوستان میں اونچی ذات کے برہمن ۷ئ۴، بھومی ہار ۹ئ۲، کائستھ ۲ء ۱ ؍ کل تیرہ (۱۳) فی صد تھے، اوسط معیار کی آبادیوں میں یادو ۰ئ۱۱، کوئری ۱ئ۴، کرمی ۶ئ۳، بنیا ۶ئ۰ کل ۳ء ۱۹؍ فی صد ہوا کرتے تھے، پس ماندہ برادری میں بڑھئی ۰ئ۱، دھانک ۸ئ۱، کہار ۷ئ۱، کانو ۶ئ۱، کمہار ۳ئ۱، لوہار ۳ء ۱، حجام ۶ئ۱، تتوا ۶ئ۱، ملاح ۵ئ۱، تیلی ۸ء ۲؍ فی صد تھے۔ایک فی صد سے نیچے رہنے والی پس ماندہ برادری ۱ء ۱۶، درج فہرست ذات۱ء ۱۴، درج فہرست قبائل ۱ء ۹، مسلمان ۵ئ۱۲، فی صد، اس فہرست میںدرج ہوئے تھے، منڈل کمیشن نے ذات کی بنیاد پر مردم شماری نہیں کرائی تھی، البتہ ہندوستان کی مجموعی آبادی پس ماندہ طبقات کا تخمینہ باون (۵۲) فی صد لگایا تھا، جسے ۲۷؍ فی صد رزرویشن دیا گیا تھا۔
ذات پر مبنی مردم شماری اگر ایمانداری سے کی گئی اور کسی کے ساتھ بھید بھاؤ نہیں برتا گیا تو اس کا فائدہ پس ماندہ طبقات کو ہوگا، محروم طبقات کی پہچان ممکن ہو گی اور سرکاری منصوبوںکی تیاری میں اس سے مدد ملے گی ، اور اگر سرکار کی یہ کوشش کامیاب ہوگئی تو بہار پورے ملک کے لیے رول ماڈل بن جائے گا، اور نتیش کے اس اعلان کو تقویت ملے گی کہ جو ہم پانچ سال قبل سوچتے ہیں، پورا ملک اس تک پانچ سال بعد پہونچتا ہے۔

جمعرات, دسمبر 23, 2021

شیخ سلیمہ : تلنگانہ کی پہلی مسلم خاتون آ ئی پی ایس بنیں


شیخ سلیمہ : تلنگانہ کی پہلی مسلم خاتون آ ئی پی ایس بنیں

حیدرآباد : شیخ محمد یونس

جدوجہد اور اور محنت و جستجو کے ذریعہ ایک انسان کا کامیابی کے منزلیں  طئے کرنا یقینی ہے۔کھمم ضلع کی آئی پی ایس کےعہدہ پر فائز ایک مسلم خاتون اس کی ایک مثال بنی ہیں ۔ جس سے ضلع کے عوام میں خوشی و مسرت کی لہردوڑگئی ہے ۔

کھمم ضلع کے چنتاکانی منڈل کے کومٹلہ گوڈم گاؤں کے ساکن شیخ لعل بہادر ریٹائرڈ ایس آئی کی بڑی دختر شیخ سلیمہ جو 2007میں گروپ 1کے تحت سیلکٹ ہوکر گنٹور ضلع میں بحیثیت ڈی یس پی اپنی خدمات کا آغاز کیا۔کاغز نگر میں بھی بحیثیت ڈی یس پی خدمات انجام دیں۔ وہ سائبرآباد اڈیشنل یس پی کی حیثیت سے خدمات انجام دیرہی تھیں۔

مرکزی حکومت کی جانب سے آئی پی یس عہدہ داروں کی جو فہرست جاری ہوئی اس میں شیخ سلیمہ کا نام شامل کیا گیا۔

جو ابتک نان کیڈر آئی پی یس کی حیثیت سے خدمات انجام دیرہی تھی اب انھیں مستقل آئی پی یس کا عہدہ دے دیا گیا۔

واضح رہے کہ جہد مسلسل اور محنت کی وجہ سے ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والی لڑکی جنکے والد شیخ لعل بہادر کھمم ضلع میں بحیثیت پولس کانسٹیبل سے 2012میں یس آئی کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوچکےہیں۔

شیخ لعل بہادور کو تین دختران اور لڑکا ہے۔ شیخ سلیمہ بڑی دختر ہیں۔ دیگر دو دختران بھی اعلیٰ عہد وں پر فائز ہیں۔

شیخ سلیمہ کی ابتدائی تعلیم ہائی اسکول تک کھمم کے پبلک اسکو ل اور سنچری اسکول میں مکمل ہوئی۔ انٹر میڈیٹ اور گریجویشن مکمل کرنے کے بعد شیخ سلیمہ نے ایم یس سی کی تعلیم حیدرآباد میں مکمل کی۔ 2007میں شیخ سلیمہ نے گروپ 1میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے مختلف مقامات پر ڈی یس پی اور ایڈشنل یس پی کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

واضح رہے کہ ریاست تلنگانہ میں یہ پہلی مسلم خاتون ہے جنہوں نے آئی پی یس عہدہ تک اپنی محنت اور کاوشوں کی ذریعہ ترقی کے منازل طئے کی ہیں۔ شیخ سلیمہ کے آئی پی یس کے عہدہ پر فائز ہونے پررشتہ داروں اور کھمم ضلع کے عوام میں خوشی و مسرت کی لہر دیکھی گئی جو کھمم ضلع کیلئے فخر کی بات ہے۔


دنیا کی محبت غم کا سبب ہےشمشیر عالم مظاہری دربھنگویامام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار

دنیا کی محبت غم کا سبب ہے
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار
دنیا اور اس کی سب چمک دمک محض عارضی ہے،  انسان کی زندگی میں اگر کوئی نعمت میسر آجائے تو کوئی ضمانت نہیں کہ وہ آخری دم تک باقی بھی رہے،  اس لئے کہ دنیا تغیر پذیر ہے، مال، صحت، عزت، اور عافیت کے اعتبار سے لوگوں کے حالات بدلتے رہتے ہیں،  لہذا دنیا کی بڑی سے بڑی کہی جانے والی نعمت بھی ناپائیدار ہے ، اور اس سے انتفاع کا سلسلہ یقیناً ختم ہو جانے والا ہے،  اگر زندگی میں ختم نہ ہوا تو مرنے کے بعد یقیناً ہوجائے گا،  مرنے کے بعد نہ بیوی بیوی رہے گی،  نہ مال مال رہے گا نہ جائیداد اور کھیتی باڑی ساتھ ہوگی۔  ان سب اشیاء کا ساتھ چھوٹ جائے گا، بات یہ ہے کہ دنیا کی زندگی عارضی جبکہ آخرت کی زندگی دائمی ہے،  دنیا کی ہر خوشی اور نعمت زوال اور خطرات کی زد میں ہے،  جبکہ آخرت کی خوشی اور نعمت نہ تو زائل ہوگی اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی مصیبت اور پریشانی ہوگی، مومن کی نظر آخرت پر ہونی چاہیے،  دنیا اور دنیا کی آسائشیں  کسی مسلمان کی مقصد نہیں ہو سکتیں ۔
 اس لیے قرآن و حدیث میں انسانوں کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ دنیا کی زیب و زینت کو مقصود نہ بنائیں بلکہ اس کے مقابلہ میں آخرت کی لازوال نعمتیں حاصل کرنے کی جدو جہد اور فکر کرنی چاہیے
قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا
مفہوم : فریفتہ کیا ہے لوگوں کو مرغوب چیزوں کی محبت نے،  جیسے عورتیں اور بیٹے اور خزانے جمع کئے ہوئے سونے اور چاندی کے اور گھوڑے نشان لگائے ہوئے ،  اور مویشی اور کھیتی،یہ فائدہ اٹھانا ہے دنیا کی زندگانی میں، اور اللہ ہی کے پاس ہے اچھا ٹھکانا،آپ فرما دیجئے: کیا بتاؤں میں تم کو اس سے بہتر؟پرہیز گاروں کے لئے اپنے رب کے ہاں باغ ہیں، جن کے نیچے جاری ہیں نہریں،  ہمیشہ رہیں گے ان میں،اور عورتیں ہیں ستھری اور رضامندی اللہ کی،اور اللہ کی نگاہ میں ہیں بندے (آل عمران)
اللہ تعالیٰ نے دنیا کے نظام کو قائم اور باقی رکھنے کے لیے گو کہ ان اشیاء کی محبت لوگوں کے دلوں میں راسخ فرما دی ہے کیونکہ اگر ان چیزوں سے لوگوں کو دلی تعلق نہ ہوگا تو دنیا کی آبادی اور شادابی کے اسباب کیسے فراہم ہونگے مال کے حصول کے لیے جدوجہد کون کرے گا صنعت و حرفت اور کاشتکاری کے شعبے کیسے فروغ پائیں گے لہذا ان دنیاوی اسباب سے لوگوں کا تعلق نظام قدرت کے عین مطابق ہے مگر اس تعلق کے دو پہلو ہیں ایک پسندیدہ اور دوسرا ناپسندیدہ ہے۔ یعنی اگر عورتوں سے تعلق حرام کاری کی طرف رغبت کی وجہ سے ہے تو ناپسند ہے اور اگر عفت و عصمت کے تحفظ اور صالح اولاد کے حصول کے لیے اپنی منکوحہ عورتوں سے تعلق ہے تو یہ عین عبادت ہے اسی طرح مال میں انہماک اگر تکبر و غرور اور فخر و مباہات اور دوسروں پر ظلم و جبر کے ساتھ ہے تو یہ بدترین غلطی ہے لیکن اگر صدقہ خیرات کے شوق اور لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کے مقصد سے حلال کاروبار میں وقت لگاتا ہے تو ظاہر ہے کہ اسے برا نہیں کہا جاۓگا (تفسیر ابن کثیر)
دنیا کی زندگی تو بس کھیل کود ہے اور آخرت کا گھر ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو ڈرتے ہیں کیا تم عقل نہیں رکھتے (سور الانعام)
یہ دنیا کی زندگی تو بس عارضی ہے ہمیشہ کا گھر تو صرف آخرت ہے (سورۃ المؤمن)
آخرت میں سخت عذاب بھی ہے اور اللہ کی مغفرت اور رضا بھی ہے اور دنیا کی زندگی تو بس فریب ہی فریب ہے (سورۃ الحدید)
فرما دیجئے ! دنیا کی زندگی تھوڑی ہے اور آخرت بہتر ہے اس شخص کے لئے جو تقوی اختیار کرتا ہے (سورۃ النساء)
اور ان کو بتادیں کہ دنیا کی زندگی ایسے ہی ہے جیسے ہم نے اتارا پانی آسمان سے (سورۃ الکہف)
اور یہ دنیا کی زندگی نہیں مگر کھیل تماشا اور آخرت کی زندگی تو ہمیشہ رہنے والی ہے کاش یہ جان لیتے (سورۃ العنکبوت)
جو کوئی آخرت کی کھیتی کو چاہتا ہے ہم اس کے واسطے اس کی آخرت کی کھیتی کو بڑھاتے ہیں اور اس میں زیادتی کرتے جاتے ہیں اور جو کوئی دنیا کی کھیتی کو چاہتا ہے ہم اس کو دنیا میں سے کچھ دے دیتے ہیں اور اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا (سورۃ الشوریٰ)
یہ چند آیات مثال کے طور پر پیش کی گئی ہیں ورنہ دسیوں بیسیوں آیات ہیں جو دنیا کی قلت و حقارت اور آخرت کی تعریف کے بارے میں  پیش کی جا سکتی ہیں۔ قرآن کی ان آیات کے علاوہ آقا صلی اللہ وسلم کے ارشادات کا مطالعہ کریں تو آپ نے بھی یہی حقیقت اپنی امت کے دل میں اتار نے کی کوشش کی ہے کہ دنیا اور آخرت میں کوئی مناسبت نہیں اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے جو حقیقی اور سچا مسلمان ہوگا وہ آخرت ہی کو بنانے اور سنوارنے کی کوشش کرے گا دنیا ہی کی زندگی کو اپنی فکر و سعی کا محور بنا لینا مسلمانوں کا شیوہ نہیں۔
حدیث قدسی میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ اگر ابن آدم کو ایک وادی سونے کی بھری ہوئی مل جائے تو وہ چاہے گا کہ مجھے ایک وادی اور مل جائے جب دو مل جائیں گی تو پھر یہ چاہے گا کہ مجھے ایک وادی اور مل جائے ۔ ابن آدم کا پیٹ سوائے قبر کی مٹی کے اور کوئی چیز نہیں بھرے گی جب وہ دنیا سے رخصت ہو گا اور اس کو قبر میں دفن کیا جائے گا تب اس کا پیٹ بھرے گا اور دنیا میں مال و دولت جمع کرنے کے لئے جو بھاگ دوڑ اور محنت کر رہا تھا وہ ساری محنت دھری رہ جائے گی اور سب مال و دولت یہاں چھوڑ کر خالی ہاتھ دنیا سے رخصت ہو جائے گا البتہ اگر اللہ تعالیٰ کسی بندے کو قناعت عطا فرما دیں تو یہ ایک ایسی چیز ہے جو انسان کا پیٹ بھر دیتی ہے اور اس قناعت کو حاصل کرنے کا نسخہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں بیان فرمایا کہ اگر تم دنیا اور آخرت کی فلاح چاہتے ہو تو اس نسخے پر عمل کر لو اور اگر فلاح نہیں چاہتے ہو تو عمل مت کرو لیکن پھر ساری عمر بے چینی اور پریشانی کا شکار رہو گے وہ نسخہ یہ ہے کہ دنیاوی مال و دولت کے اعتبار سے اپنے سے اونچے کو مت دیکھو ورنہ یہ خیال آئے گا کہ اس کو فلاں چیز مل گئی ہے مجھے وہ چیز نہیں ملی بلکہ اپنے سے کمتر آدمی کو دیکھو کہ اس کے پاس دنیا کے اسباب کیا ہیں اور تمہیں اس کے مقابلے میں کتنا زیادہ ملا ہوا ہے اس وقت تم اللہ کا شکر ادا کرو گے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جو سامان اور راحت عطا فرمائی ہے وہ اس کو حاصل نہیں اور اگر اپنے سے اونچے کو دیکھو گے تو دل میں حرص پیدا ہوگی پھر مقابلہ اور دوڑ پیدا ہوگی اور اس کے نتیجے میں دل اندر حسد پیدا ہوگا کہ وہ آگے نکل گیا میں پیچھے رہ گیا  پھر حسد کے نتیجے میں بغض پیدا ہوگا پھر عداوت پیدا ہوگی تعلقات خراب ہوں گے اللہ تعالی کے حقوق بھی ضائع ہوں گے اور اللہ کے بندوں کے حقوق بھی ضائع ہوں گے اور اگر قناعت حاصل ہو گئی تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ سکون میں آجاؤ گے اس کے علاوہ سکون کا کوئی راستہ نہیں ہے (لا یملأ جوف ابن آدم الا التراب ) صحیح بخاری۔
دنیا کی محبت اگر دل میں سمائی ہوئی ہو تو پھر صحیح معنی میں اللہ تعالی کی محبت دل میں نہیں آ سکتی اور جب اللہ تعالٰی کی محبت نہیں ہوتی وہ محبت غلط رخ پر چل پڑتی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ !حب الدنیا رأس کل خطیٔۃ ۔ دنیا کی محبت ہر گناہ اور معصیت کی جڑ ہے۔ (کنز العمال)
جتنے جرائم اور گناہ ہیں اگر انسان ان کی حقیقت میں غور کرے گا تو اس کو یہی نظر آئے گا کہ ان سب میں دنیا کی محبت کار فرما ہے چور کیوں چوری کر رہا ہے اس لئے کہ دنیا کی محبت ہے اگر کوئی شخص بدکاری کر رہا ہے تو کیوں کر رہا ہے اس لیے کہ دنیا کی لذتوں کی محبت دل میں جمی ہوئی ہے شرابی اس لیے شراب نوشی کر رہا ہے کہ وہ دنیاوی لذتوں کے پیچھے پڑا ہوا ہے کسی بھی گناہ کو لے لیجئے اس کے پیچھے دنیا کی محبت کار فرما نظر آئے گی اور جب دنیا کی محبت دل میں سمائی ہوئی ہے تو پھر اللہ کی محبت کیسے دل میں داخل ہو سکتی ہے لہذا دل میں حقیقی محبت یا تو اللہ تعالی کی ہوگی یا دنیا کی ہوگی دونوں محبتیں ہے ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں اسی وجہ سے مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ! ہم خدا خواہی وہم دنیائے دوں ، ایں خیال است و محال واست وجنوں ۔ یعنی دنیا کی محبت بھی دل میں سمائی ہوئی  ہو اور اللہ تعالی کی محبت بھی سمائی ہوئی ہو یہ دونوں باتیں نہیں ہوسکتیں اس لیے کہ یہ صرف خیال ہے اور محال ہے اور جنون ہے اس واسطے اگر دل میں دنیا کی محبت سما گئی تو پھر اللہ کی محبت نہیں آئے گی جب اللہ کی محبت نہیں ہوگی تو پھر دین کے جتنے کام ہیں وہ سب محبت کے بغیر بے روح ہیں بے حقیقت ہیں ان کے ادا کرنے میں پریشانی دشواری اور مشقت ہوگی اور صحیح معنی میں وہ دین کے کام انجام نہیں پا سکیں گے بلکہ قدم قدم پر آدمی ٹھوکریں کھاۓ گا اس لیے کہا گیا کہ انسان دل میں دنیا کی محبت کو جگہ نہ دے۔ (اصلاحی خطبات)
دنیا دار کی زندگی 
عرب کے ایک شاعر (غالباً ابو العتاھیہ) سے کسی نے پوچھا سناؤ کیسے گزر رہی ہے اس نے جواب دیا کیا بتاؤں ایسی زندگی گزار رہا ہوں جس سے نہ خدا خوش ہو سکتا ہے،  نہ شیطان اور نہ ہی میں خود۔ سائل نے پوچھا وہ کیسے کہنے لگا خدا کامل فرمانبرداری چاہتا ہے وہ مجھ سے نہیں ہوتی،  شیطان بڑے بڑے جرائم کا ارتکاب مجھ سے کرانا چاہتا ہے ان کو کرنے کی میرے اندر ہمت اور جرأت نہیں، میرا نفس عیاشی کے اسباب چاہتا ہے وہ مجھے میسر نہیں ہوتے۔
دیندار کی زندگی 
اس کے برعکس حضرت بہلول سے کسی نے پوچھا سناؤ کیا حال ہے فرمایا اس شخص کا حال کیا پوچھتے ہو کہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اس کی خواہش کے مطابق ہوتا ہے کہا یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہا یہ تو تم جانتے ہو کہ ہر بات خدا کے ارادہ اور خواہش کے موافق ہوتی ہے اور میں نے اپنی خواہش کو خدا کی خواہش میں مٹا دیا اور اس کے تابع کر دیا ہے اب جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ میری خواہش کے موافق ہوتا ہے
اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کے دلوں کو دنیا کی محبت سے حفاظت فرمائے اور اپنی محبت عطا فرمائے آمین

کھلے میں نماز پر سیاست ___✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

کھلے میں نماز پر سیاست ___
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 ہریانہ کی منوہر لال کھٹرسرکار نے کُھلے میں نماز پڑھنے پر پابندی لگادی ہے ، انہوں نے کہا کہ’’کھلے میدان میں مسلمانوں کو نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے، جسے نماز پڑھنا ہے وہ اپنے گھر پر پڑھے‘‘ جن کھلے میدانوں میں پہلے مسلمانوں کو نماز جمعہ اد اکرنے کی اجازت دی گئی تھی اسے بھی منوہر لال کھٹر نے واپس لے لیاہے، ہریانہ کی دیکھا دیکھی بہار میں بھی فرقہ پرستوں نے کھلے میں نماز ادا کرنے کو ممنوع قرار دینے کا مطالبہ شروع کر دیا ہے، گوبہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے یہ کہہ کر اس آواز کو دبا دیا ہے کہ ’’ہماری نگاہ میں سبھی لوگ یکساں ہیں، سڑک پر نماز کو ایشو نہ بنائیں، کہیں کوئی پوجا کرتا ہے ، کہیں کوئی گاتا ہے‘‘ وزیر اعلیٰ کے اس بیان کے بعد یہ معاملہ بہار کی حد تک ختم ہو گیا ہے ، لیکن کب کس کو جوش آجائے اور اس راگ کو الاپنے لگے ، کہا نہیں جاسکتا ۔
 وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اس مسئلے پر جو کچھ کہا ہے، اس میں بہت دم ہے، اس لیے کہ غیر مسلموں کے سارے تہوار سڑکوں پر اور کھلے میں ہی ہوتے ہیں، ظاہر ہے ان پر پابندی لگا نے کا دم خم حکومت میں نہیں ہے ، ہریانہ کی کھٹر سرکار میں بھی نہیں، وہ راون کو جلانے کا کام گھر میں نہیں کر سکتے ، میدان میں ہی جلایا جائے گا، رام لیلا کی ساری کہانی میدان میں ہی اسٹیج کی جاتی ہے، درگا پوجا کے سارے پنڈال سڑک کنارے ہی لگتے ہیں،چھٹھ کے موقع سے سڑک جام اور آمد ورفت کے راستوں کو بدلنا پڑتا ہے، ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے، ’’جگ‘‘ بھی کھلے میدان میں کیا جاتا ہے اور ہنومان چالیسہ کا پاٹھ کسی کے دروازے پر بھی ہو میلہ سڑکوں پر ہی لگتا ہے، احتجاج ، مظاہرے اور دھرنے کھلے میدان میں ہی ہوتے ہیں، سڑکوں کو جام کرکے اپنی بات منوائی جاتی ہے ، اس لیے وزیر اعلیٰ نے ’’ہماری نگاہ میں سبھی لوگ یکساں ہیں‘‘ کہہ کر یہی پیغام دینا چاہا ہے کہ پابندی صرف نمازوں پر نہیں لگے گی ، سب یکساں ہیں تو پابندی کا اطلاق بھی سب پر ہونا چاہیے۔
 اگر یہ پابندی مسلمانوں نے قبول کر لیا تو اس کے دور رس اثرات ہوں گے، جمعہ کے بعد عیدین کی نماز کھلے میں پڑھنے پر پابندی لگے گی ، گاندھی میدان پٹنہ میں نماز ادا نہیں کی جا سکے گی، پھر کہا جائے گا جنازہ کی نماز بھی گھروں میں پڑھو ، ایک طویل سلسلہ چل پڑے گا، اس لیے اس مسئلہ پر خاموش رہنا مصلحت کے بھی خلاف ہے، اگر حکومت اس قسم کی کوئی پابندی لگاتی ہے تو اسے اس کا حل بھی پیش کرنا چاہیے، اس کا حل یہ ہے کہ اوقاف کی زمینوں کو غیر قانونی قبضہ سے واگذار کرکے مسلمانوں کے حوالہ کیا جائے تاکہ وہ ان زمینوں کا استعمال جمعہ اور عیدین وغیرہ نمازوں کی ادائیگی کے لیے کر سکیں، حکومت اوقاف کی زمینوں کے غیر قانونی قبضہ کو ختم کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی، کیوں کہ بہت ساری زمینوں پر خود حکومت کی عالیشان عمارتیں کھڑی ہیں، اور ان کے وقف کی جائیدا ہونے کی وجہ سے کرایہ یا لیز کی رقم بھی ادا نہیں کی جا رہی ہے۔
ہندوستان صدیوں سے گنگا جمنی تہذیب کا مرکز رہا ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے آ رہے ہیں، ان کی عبادت کے اپنے اپنے طریقے ہیں، کسی کی عبادت میں کوئی رکاوٹ نہ ہو، یہاں کی روایت رہی ہے، اسی روایت کے نتیجے میں میدان میں پوجا بھی کی جا تی ہے اور حسب ضرورت نماز یں بھی پڑھی جاتی رہی ہیں، حالاں کہ مسلمان باجماعت نمازوں کے لئے مساجد جانا ضروری سمجھتا ہے، لیکن کسی موقع سے جماعت بڑی ہوجاتی ہے، تو وہ سڑکوں اور میدانوں میں پھیل جاتی ہے، بعض کمپنیوں میں مسلمان کام کرتے ہیں اور وہاں پر کوئی مسجد دور دور نہ ہو تو میدان کا استعمال نماز کی ادائیگی کے لیے کیا جاتا ہے، یہ مسلمانوں کا معمول نہیں ہے، وقتی ضرورت ہے اس پر واویلا مچانا یا پابندی لگانا ہندوستانی روایات کے خلاف ہے او ریہاں کی گنگا جمنی تہذیب کے بھگوا رنگ میں رنگنے کے مترادف بھی۔
 منوہر لال کھٹر کو فوری طور سے اپنے اس حکم کوواپس لینا چاہیے تاکہ ہندوستان میں سبھی مذاہب کے احترام کی جو تابندہ روایت رہی ہے اس پر آنچ نہ آئے۔

ویکسین نہ لگوانے والے افراد کو ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے کی اجازت دی تو تیزی سے پھیلے گا انفیکشن : ممبئی ہائی کورٹ میں مہاراشٹر حکومت نے دیا بیان

ویکسین نہ لگوانے والے افراد کو ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے کی اجازت دی تو تیزی سے پھیلے گا انفیکشن : ممبئی ہائی کورٹ میں مہاراشٹر حکومت نے دیا بیانممبئی: مہاراشٹر حکومت نے بدھ کے روز بمبئی ہائی کورٹ کو بتایا کہ ویکسین نہ لگوانے والے لوگوں کو پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے والوں کے ساتھ سفر کرنے کی اجازت دینا دوسروں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالے گا اور کورونا وائرس اور اس کی مختلف اقسام کے تیزی سے پھیلنے کا سبب بنے گا۔ ریاستی حکومت نے ہائی کورٹ میں داخل ایک حلف نامہ میں کہا، “مہاراشٹر حکومت یہ خطرہ مول نہیں لے سکتی۔ حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ جن لوگوں نے کووِڈ-19 ویکسین کی دونوں خوراکیں حاصل نہیں کی ہیں انہیں ریاست میں پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے سے منع کرنے کا فیصلہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے لیا گیا ہے کہ جو لوگ ویکسین نہیں کرواتے ہیں وہ دوسروں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔چیف جسٹس دیپانکر دتہ اور جسٹس ایم ایس اس طرح کے فیصلے معقول ہیں اور امتیازی نہیں ہیں اور شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کرتے ہیں۔ریاستی حکومت نے دو پی آئی ایل کے جواب میں یہ حلف نامہ داخل کیا ہے۔ ریاستی حکومت نے کہا کہ درخواست گزاروں نے خود ویکسین کی دونوں خوراکیں دی ہیں۔ ہائی کورٹ اس موضوع پر اگلی سماعت 3 جنوری 2022 کو کرے گا…

بدھ, دسمبر 22, 2021

کام کے طریقے ____✍️‌مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ہم جب کسی کام کو شروع کرتے ہیں

کام کے طریقے ____
✍️‌مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 ہم جب کسی کام کو شروع کرتے ہیں ، یا کسی تقاضے کو پورا کرنے پر آتے ہیں تو ہم میں بڑا جوش وجذبہ ہوتا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ دنوں کاکام گھنٹوں اور گھنٹوں کا کام منٹوں اور سکنڈوں میں کر ڈالیں، اس جذبہ سے کام تیزی سے آگے بڑھنے لگتا ہے، وقت گذرنے کے ساتھ ہم اس جذبہ وجوش کو باقی نہیں رکھ پاتے، جس کی وجہ سے یاتو کام میں سست رفتاری آجاتی ہے اور کبھی جوش وجذبہ کے سرد پڑجانے کی وجہ سے کام رک جاتا ہے، کام کوپھر سے رفتار دینے کے لیے ضروری ہے کہ ہدف روز کا مقرر کرلیں اور دھیرے دھیرے دن بھر میں اس ہدف تک پہونچنے کی کوشش کریں،اگر آپ نے تیز دوڑنا شروع کیا تو آپ جلد ہی تھک ہار کر بیٹھ جائیں گے، اور ہدف ادھورا رہ جائے گا، آپ نے سنا ہی ہوگا کہ دھیمے چلنے والا کچھوا خرگوش کی اڑن چال پر غالب آگیا تھا۔
 اب اگر آپ کام کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنے کام کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں ہم نے مقاصد کے اعتبار سے کم تر چیز کا انتخاب تو نہیں کر لیا ہے، اگر وہ کم تر نہیں ہے تو اس پر غور کرنا چاہیے کہ کام کا جوش وجذبہ کیوں اختتام پذیر ہوا اور کیوں زندگی پرانی لیکھ پر چلنے لگی، کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم جس مقصد اور منزل کو پانے کے لیے یہ کام کر رہے تھے وہ ہماری ترجیحات میں نہیں تھیں، ہم ایسے ہی کسی کی ترغیب سے اس کام میں لگ گیے تھے، اگر ایسا ہے توفورا اس کام کو چھوڑ کر دوسرے کام کا انتخاب سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے، اور اس کا سلوگن یہ ہونا چاہیے کہ’’ ہم چاہتے نہیں‘‘، ہمیں ہر قیمت پر یہ’’ چاہیے‘‘ آپ کی ’’چاہت‘‘ آپ کی خواہش کا مظہر ہے، جب کہ’’ چاہیے‘‘ آپ کے عزم بالجزم کی طرف اشارہ کرتا ہے،اور یہ بتاتا ہے کہ آپ اسے حاصل کرکے ہی دم لیں گے۔
 اس عزم کے پہلے اپنے کاموں کی فہرست سازی کیجئے، پھر ہر کام کے بارے میں اپنے ذہن ودماغ سے پوچھیے کہ اس کام کو آپ کیوں کرنا چاہتے ہیں، کام شروع کرنے سے پہلے جو مثبت اور منفی جواب ملے اس کو ایک نوٹ بک میں درج کرتے رہیں، پھر فیصلے سے پہلے ان اسباب ووجوہات کا جائزہ لیں اور جائزہ میںجو کام سمجھ میں آئے اس کا آغاز کر دیں، اس طرح آپ کسی کام کا آغاز شعوری طور پر کر سکیں گے، اور آپ کے جوش وجذبہ میں کمی نہیں آئے گی، اس کے برعکس اگر آپ نے بلا سوچے سمجھے کام کا آغاز کر دیا تو آپ کا دماغ اس سے متاثر ہوگا، اور دماغ سے چلنے والی لہریں ہی اعضاء وجوارح اور قویٰ کو متحرک رکھا کرتی ہیں، اور عمل پر ابھارتی ہیں،جب دماغ سے اعضا کو کوئی ہدایت نہیں ملے گی؛ کیوں کہ اس میں آپ کی دلچسپی نہیں ہے تو کام یا تو سست پڑجائے گا یا رک جائے گا۔
 آپ جب کام سے مطمئن ہوگیے تو ہتھیلی پر سرسوں جمانے کا کام مت کیجئے، کیوں کہ یہ نا ممکن ہوتا ہے، اپنے فیصلے کوعملی رنگ وروپ بخشنے کے لیے منصوبہ بندی کیجئے، منصوبہ بندی میں کام کے درمیان پیش آنے والی پریشانیوں اور مشکلات کا بھی خیال رکھیے، اگر آپ نے ان رکاوٹوں کو منصوبہ سازی میں ملحوظ نہیں رکھا تو ممکن ہے ان رکاوٹوں کے سامنے آنے سے آپ مضمحل اور دل بر داشتہ ہوجائیں اور کام سے آپ کا دل پِھر جائے، لیکن اگر آپ نے پہلے سے ان رکاوٹوں کو ملحوظ رکھا ہے تو آپ سوچیںگے کہ اس کام میں یہ رکاوٹ تو آنی ہی تھی، ہم اس کو دور کرکے آگے بڑھ سکتے ہیں، آپ سوچیں گے کہ راستے کبھی بند نہیں ہوتے، ہر بند راستے کے بغل سے ایک متبادل راستہ ہوتا ہے، ہم اس رکاوٹ کو متبادل راستے کا استعمال کرکے دور کرلیں گے اور منزل تک پہونچ کر دم لیں گے۔
 آپ نے جو بھی نشانہ مقرر کیا ہے، اس کو خود کلامی کے انداز میں دہراتے رہنا بھی آپ کی قوت عمل کو مہمیز کرتا ہے، ہر صبح جب اٹھیے تو معمولات سے فراغت کے بعد خود کلامی کے انداز میں کہیے کہ’’ ہم اس کام کو پایہ تکمیل تک پہونچانے کے لیے پابند عہد ہیں اور ہم انشاء اللہ ایسا کرکے رہیں گے‘‘ آپ محسوس کریں گے کہ آپ کی اس خود کلامی نے آپ کے اندر نئی توانائی اور طاقت پیدا کر دی ہے اور آپ پہلے سے زیادہ کام کی تکمیل کے سلسلے میں پُر عزم ہو گیے ہیں۔

منگل, دسمبر 21, 2021

ووٹر شناختی کارڈ کو آدھار سے مربوط کرنے کا بل منظور

ووٹر شناختی کارڈ کو آدھار سے مربوط کرنے کا بل منظور

ترمیمی بل کو لوک سبھا کی ندائی منظوری ۔ ووٹرس کی حیثیت سے رجسٹریشن کے لئے سال میں چار مواقع دستیاب

نئی دہلی : لوک سبھا نے پیر کو انتخابی قوانین (ترمیمی) بل 2021 ء منظور کرلیا جس کے تحت ووٹر شناختی کارڈس کو آدھار کے ساتھ مربوط کرنے کی گنجائش مل گئی ہے ۔ یہ بل ندائی ووٹ کے ذریعہ منظور کیا گیا ۔ اس بل میں گنجائش ہے کہ الکٹورل رجسٹریشن آفیسرس اُن لوگوں سے آدھار نمبر طلب کرسکتے ہیں جو اپنی شناخت ثابت کرنے کے مقصد سے بطور ووٹرس اپنا رجسٹریشن کرانا چاہتے ہیں ۔ اس میں یہ گنجائش بھی ہے کہ انتخابی فہرست میں پہلے سے جو نام موجود ہیں اُن کی جانچ کے لئے بھی الکٹورل رجسٹریشن آفیسرس آدھار نمبرس طلب کرسکتے ہیں۔ نیز ایک سے زیادہ حلقے کی انتخابی فہرست میں یکساں نام کے ووٹرس پائے جائیں تو اُن کے درمیان تخصیص کے لئے بھی آدھار نمبرس طلب کئے جاسکتے ہیں۔ ساتھ ہی اس ترمیمی بل میں یہ وضاحت بھی کردی گئی ہے کہ آدھار نمبر پیش کرنے میں کسی بھی فرد کی ناکامی انتخابی فہرست میں اُس کے نام کی عدم شمولیت کی وجہ نہیں بنے گی ۔ دیگر دستاویزات کی جانچ کرتے ہوئے اُسے پہلے کی طرح انتخابی فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے ۔ اس طرح ووٹر شناختی کارڈس کو آدھار سے مربوط کرنا فی الحال رضاکارانہ نوعیت کا عمل ہے ۔ آج کا منظورہ بل قانون عوامی نمائندگی 1950 اور 1951 کے بعض دفعات میں ترمیم کرتا ہے ۔ ووٹر شناختی کارڈ کو آدھار سے مربوط کرنے کا بنیادی مقصد یکساں فرد کا مختلف مقامات پر انتخابی فہرستوں میں اپنے نام کی شمولیت کا تدارک کرنا ہے ۔ آر پی ایکٹ 1950 ء کے سیکشن 14 میں ترمیم اہل افراد کے لئے ووٹروں کے طورپر رجسٹریشن کے سلسلہ میں کوالیفائی ہونے کی چار تواریخ فراہم کریگی ۔ موجودہ طورپر ہر سال یکم جنوری ہی واحد تاریخ ہے جس کے اعتبار سے درخواست قبول کی جاتی ہے ۔ یکم جنوری کو یا اُس سے قبل 18 سال کے ہونیو الے افراد ووٹروں کے طورپر اپنا رجسٹریشن کرواسکتے ہیں۔ اُس کے بعد 18 سال کے ہونے والوں کو رجسٹریشن کے لئے پورا ایک سال انتظار کرنا پڑتا تھا جو آج کے بل کی منظوری کے بعد نہیں ہوگا ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...