Powered By Blogger

جمعرات, جون 08, 2023

پروفیسر نسیم احمد ___✍️مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ

پروفیسر نسیم احمد  ___
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ
پروفیسر سید نسیم احمد صاحب موتی ہاری مشرقی چمپارن نے کینسر کے موذ ی مرض سے طویل جنگ کے بعد 5 اپریل 2023ءبروز اتور بوقت ایک بجے دن سی ایم سی ہوسپیٹل ویلور میں اس دنیا کو الوداع کہا، جنازہ بذریعہ ہوائی جہاز پٹنہ اور پھر پٹنہ سے موتی ہاری لے جایا گیا، موتی ہاری روانہ کرنے سے پہلے راشٹریہ جنتا دل کے پارٹی آفس میں انہیں خراج عقیدت پیش کیا گیا، موتی ہاری میں ان کی نماز جنازہ ان کے داماد مولانا اسامہ شمیم ندوی نے 7 اپریل کو بعد نماز جمعہ پڑھائی اور انجمن اسلامیہ کے صدر قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، اس طرح ایک علمی، ملی، سماجی اور سیاسی شخصیت کی حیات وخدمات کا دروازہ ہمیشہ ہمیش کے لیے بند ہو گیا، پس ماندگان میں دوسری اہلیہ چھ لڑکا اور دس لڑکی کو چھوڑا۔
 پروفیسر سید نسیم احمد بن محمد یونس (ولادت 1904) بن سید امانت حسین بن سید ریاست حسین کی ولادت 7 جنوری 1938ءکو ان کے آبائی وطن بارو، برونی موجودہ ضلع بیگو سرائے میں ہوئی، مرحوم کی والدہ کا نام بی بی فضل النساء(ولادت1912) تھا، پروفیسرصاحب نوبھائی، بہن تھے، جن میں سے دو بھائی کا انتقال ایام طفلی میں ہو چکا تھا، ابتدا سے ہائی اسکول تک کی تعلیم رادھا کرشنن چمریا اسکول برونی ضلع مونگیر سے پائی، آئی اس سی اوربی اس سی راجندر کالج چھپرہ سے کیا، ایم ایس سی کی ڈگری ال اس کالج مظفر پور سے حاصل کیا۔
 محمد یونس صاحب کی شادی سید جواد حسین رئیس رانی کوٹھی موتی ہاری کی دختر نیک اختر بی بی فضل النساءسے ہوئی تھی، اس لیے پروفیسر صاحب کے والد1944ءمیں رابی کوٹھی لوہر پٹی ، موتی ہاری، بارو سے نقل مکانی کرکے آبسے،1960ءمیں یہ خاندان نشاط منزل بلواٹولہ موتی ہاری منتقل ہو گیا، ان دنوں پروفیسر صاحب کی رہائش یہں تھی۔
پروفیسر نسیم احمد صاحب نے دوشادیاں کیں، پہلی بی بی زینب النساءتھیں، جن سے اللہ رب العزت نے چھ لڑکیاں اور تین لڑکے کل نو اولاد عطا فرمائی، دوسری اہلیہ مہر النساءبیگم سے تین لڑکے اور پانچ لڑکیاں کل آٹھ بچے ہوئے، یعنی دونوں اہلیہ سے سترہ بچے تھے، جن میں ایک لڑکی بچپن میں فو ت ہو گئی، اب دونوں اہلیہ کے تین تین لڑکے اور پانچ پانچ لڑکیاں کل سولہ اولاد حی القائم ہیں، پروفیسر صاحب کی زندگی اس دور میں اہل وعیال کے اعتبار سے بھی نمونہ تھی، کیوں کہ آج کل تو دو یا تین بچے کے اچھے ہونے کا نعرہ لگایا جاتا ہے۔
تدریسی زندگی کا آغاز انہوں نے گوپال شاہ ہائی اسکول موتی ہاری سے سائنس ٹیچر کی حیثیت سے کیا، یہ 1963ءکا سال تھا، صرف تین ماہ کے بعد آپ کی بحالی ایم اس کالج موتیہاری میں فزکس کے لکچرر کے طور پر ہوگئی، ترقی کرتے ہوئے آپ پروفیسر کے عہدہ تک پہونچے اور2001ءمیں یہیں سے سبکدوش ہوئے۔
 آپ ایک اچھے استاذ کے ساتھ اچھے سیاست داں بھی تھے، زندگی کے مختلف ادوار میں وہ سینوکت سوشل پارٹی(SSP)جنتا پارٹی، جنتا دل اور راشٹریہ جنتا دل سے وابستہ رہے، انہوں نے 1968ءمیں جنتا پارٹی کے ٹکٹ پر بتیا پارلیمانی حلقہ، اور1985ءمیں اسی پارٹی کے ٹکٹ پر سوگولی حلقہ اسمبلی اور 1996میں جنتادل کے ٹکٹ پر پارلیامنٹ کی رکنیت کے لیے انتخاب لڑا، لیکن کسی بھی انتخاب میں انہیں کامیابی نہیں ملی، بعض انتخابات میں آپ دوسرے نمبر تک پہونچ سکے۔
 آپ کی شناخت سماجی خدمت گار کے طور پر بھی تھی، وہ بہت سارے تعلیمی اداروں کے قیام میں شریک رہے، انہوں نے ہریندر کشور کالج موتی ہاری کے صدر کے طور پر کام کیا، وہ انجمن اسلامیہ موتی ہاری کے قیام میں بھی شریک وسہیم رہے، انہوں نے انجمن اسلامیہ ، اس کے مدرسہ، یتیم خانہ، لڑکیوں کے اسکول مسجد اور صدر قبرستان موتی ہاری کی خدمات کو وقیع اور ان اداروں کی تعمیر وترقی میں نمایاں رول ادا کیا۔ وہ 1972ءسے 2023ءتک انجمن اسلامیہ کے صدر منتخب ہوتے رہے، وہ مدرسہ اسلامیہ قرآنیہ سمرا اور مدرسہ منبع العلوم مادھو پور مشرقی چمپارن کے لیے بھی جو کچھ بن پڑتا، کر گذرتے تھے، اس طرح دیکھیں تو ان کی زندگی علمی ، سماجی ، سیاسی اور ملی تھی، وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، جس کی وجہ سے وہ لوگوں میں مقبول ومحبوب رہے، ان کے گذر جانے سے موتی ہاری، بلکہ مشرقی چمپارن میں بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے۔ 
 پروفیسر نسیم احمد صاحب امارت شرعیہ اور ان کے اکابر سے بہت قریب رہے، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کے وہ گرویدہ تھے، اور قاضی صاحب نے جب آل انڈیا ملی کونسل قائم کیا تو وہ علاقہ میں اس کے دست وبازو بنے، امارت شرعیہ کے ایک زمانہ میں مجلس شوریٰ کے رکن بھی رہے، اور مٹنگوں میں پابندی سے شریک ہوا کرتے تھے، آخری بار امارت شرعیہ وہ امیر شریعت سابع کو انجمن اسلامیہ تشریف لانے کی دعوت دینے کے لیے آئے تھے، ان کے ساتھ قاری جلال صاحب قاسمی امام جامع مسجد موتی ہاری بھی تھے، حضرت کا سفر ایک نکاح پڑھانے کے سلسلے میں موتی ہاری کاہو ا تھا۔
میری ملاقات ان سے امارت شرعیہ میرے آنے سے پہلے سے تھی، ایم، ایس کالج موتی ہاری بعض ضرورتوں کی وجہ سے بھی جانا آنا رہا، ابا بکر پور کے ایک پروفیسر بھی وہاں تھے، ان کی قربت کی وجہ سے بھی پروفیسر صاحب سے ملاقاتیں ہوتی رہیں، بعد میں جب کبھی موتی ہاری جانا ہوتا، جامع مسجد میں حاضری ہوتی اور پروفیسر صاحب سے بھی ملاقات ہوجایا کرتی تھی، آل انڈیا ملی کونسل کے اُس علاقہ کے دورہ اور بعض مدارس کے جلسے میں بھی ان کا ساتھ رہا، جانا ایک دن سب کو ہے
پروفیسر صاحب نے الحمد للہ لا نبی عمر پائی، لیکن ان کا فیض اس قدر عام تھا کہ ان کے جانے کے بعد خلا محسوس ہونا فطری ہے، یوں کسی کے جانے سے نہ تو کاروبار زندگی میں رکاوٹ آتی ہے اور نہ ہی روئے زمین پر اندھیرا چھاتا ہے، وہ جو کسی کے مرنے پر کہتے ہیں کہ ایک چراغ اور بجھا ، تاریکی اور بڑھی، یہ سب کہنے کی باتیں ہیں، ہم سب کا عقیدہ ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ آسمان وزمین کا نور ہے، اور اس کو فنا نہیں ہے، اس لیے آسمان وزمین میں تاریکی کیسے پھیلے گی، اللہ سے دعا ہے کہ وہ پروفیسر صاحب کی خدمات کو قبول کرے اور ان کے سیئات کو در گذر کرکے جنت کے فیصلہ فرمادے ۔ آمین یا رب العالمین

اتوار, جون 04, 2023

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی قیادت مضبوط ہاتھوں میں ۔مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی ۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی قیادت مضبوط ہاتھوں میں ۔مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی ۔
Urduduniyanews72 
٣ جون اندور(مدھیہ پردیش)جامعہ اسلامیہ بنجاری کے پر شکوہ ہال میں پانچویں صدر کے انتخاب کے لیے پورے ملک سے بورڈکے ارکان جمع ہویے ۔ملک کی مؤقر تنظیموں اور بڑے مدارس کے ذمہ داروں نے بالاتفاق مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا نام پیش کیا بہار سے حضرت امیر شریعت نے اس نام کی تایید کی۔امارت شرعیہ سے حضرت امیر کے علاوہ مفتی وصی احمد قاسمی اور  محمد ثناءالہدی قاسمی کا نام پکارا گیا ۔ہم لوگوں نے بھی اور مولانا انوار اللّٰہ فلک قاسمی بانی مہتمم ادارہ سبیلش شرعیہ آواپور سیتامرھی نے  مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی کے نام کی تایید کی
اس کے بعد عاملہ کی مٹنگ ہوءی جس میں گلبرگہ کے ایک بزرگ اور امیر جماعت اسلامی انجنیر سعادتِ اللہ حسینی کو نایب صدر حضرت امیر شریعت مفکر ملت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی،مولانا بلال حسنی ندوی اور مولانا یسین بدایونی کو سکریٹری منتخب کیا گیا ۔اس طرح ایک معتدل اور مضبوط قیادت ابھر کر سامنے آءی۔جس میں مسلک اور اداروں کا خیال رکھا گیا ہے ۔توقع کی جاتی ہے کہ یہ مضبوط قیادت ملت اسلامیہ کےپرسنل لا کی حفاظت میں اپنی ذمہ داری نبھاءے گی نیک خواہشات ،مبارکبادی اور دعا ءوں کے ساتھ یہ توقع رکھتا ہوں کہ ملک کے بدلتے حالات میں یہ قیادت مسلمانوں کو مایوسی،خدشات کے دلدل سے نکال کر نءے عزم و حوصلے کے ساتھ آگے بڑھانے کا کام کرے گی۔وماذالک علی اللہ بعزیز

ہفتہ, جون 03, 2023

حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی__قائم جن کے دم سے ہے محفلوں کی تابانی(آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے پانچویں صدر منتخب ہونے پر خصوصی تحریر)

حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی__قائم جن کے دم سے ہے محفلوں کی تابانی
اردودنیانیوز۷۲ 
(آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے پانچویں صدر منتخب ہونے پر خصوصی تحریر)
✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
  نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ

 جامعہ رحمانی مونگیر کے نامور فاضل،چوتھے امیر شریعت حضرت مولاناسید شاہ منت اللہ رحمانی ؒ نیزساتویں امیرشریعت مفکراسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانیؒ کے شاگرد رشید، افتاء وقضاء میں امارت شرعیہ کے تربیت یافتہ، امارت شرعیہ کی مجلس شوریٰ وارباب حل عقد کے رکن، المعھدالعالی امارت شرعیہ کے ٹرسٹی اور رکن اساسی، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے کارگذار جنرل سکریٹری وترجمان، اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے جنرل سکریٹری ، امارت ملت اسلامیہ آندھرا پردیش کے قاضی شریعت ، مجمع الفقہ الاسلامی مکہ مکرمہ ،مجلس علمی دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد ،مجلس منتظمہ و مجلس نظامت ندوۃ العلماء لکھنؤ ، مجلس مشاورت دارالعلوم وقف دیوبند، الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین قطر، رابطہ علماء اہل سنۃ والجماعت بحرین کے رکن، حضرت مولانامحمد سالم صاحبؒ ،مولانا سید رابع حسنی ندوی، مولانامنیر احمد مظاہری اور مولانامحمد یونس پالن پوری ادام اللہ فیوضہم کے خلیفہ و مجاز، درجنوں ملی، تعلیمی، تحقیقی اداروں کے ذمہ دار، دارالعلوم سبیل السلام حید آباد کے سابق شیخ الحدیث ، المعھد العالی الاسلامی حید آباد کے بانی، بڑے مفسر، فقیہ، مقرر، منتظم اور مدبر ،دینی ملی، سماجی مسائل پر گہرائی اور گیرائی کی نظر رکھنے والے، ستر سے زائد قرآن واحادیث، فقہ ،سیرت، تاریخ، تذکرہ، سفرنامہ،تقابل ادیان اور فکری ،اصلاحی ، تذکیری موضوعات پر عربی، اردو اور انگریزی کتابوں کے مصنف ،علمی رسوخ، تفقہ فی الدین اور معتدل فکرونظر کے حامل سب کے کام آنے والے اور سب کے لیے وقت نکالنے والے حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی۔قائم جن کے دم سے ہے محفلوں کی تابانی ۔
 حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی بن حضرت مولانا زین العابدین بن حضرت مولانا عبد الاحد صاحب کی پیدائش ۴/جمادی الاولیٰ ۱۳۷۶ھ مطابق نومبر ۱۹۵۶ء قاضی محلہ جالے دربھنگہ میں ہوئی، تاریخی نام خورشید ہے، ابتدائی تعلیم دادی، والدہ سے حاصل کرنے کے بعد مدرسہ قاسم العلوم حسینیہ دوگھرا دربھنگہ میں داخل ہوئے، یہاں مولانا کے پھوپھا مولانا وجیہ احمد صاحب مدرس تھے، ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، وہاں سے جامعہ رحمانی مونگیر تشریف لے گیے، جہاں عربی سوم سے دورئہ حدیث کی تعلیم پائی اور یہیں سے سند فراغت پانے کے بعد رحمانی کو اپنے نام کے لاحقہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا، جو ان کے نام کا جزو لازم بن گیا، مونگیر میں انہوں نے جن نامور اساتذہ سے کسب فیض کیا، ان میں امیر شریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانیؒ،امیر شریعت سابع مولانا محمد ولی رحمانیؒ مولاناسید محمد شمس الحق صاحبؒ سابق شیخ الحدیث جامعہ رحمانی مونگیر کے نام خاص طور سے قابل ذکر ہیں، جامعہ رحمانی کے بعد آپ نے دوبارہ دارالعلوم دیوبند سے بھی دورئہ حدیث کی تکمیل کی، یہاں کے نامور اساتذہ میں حکیم الاسلام حضرت مولاناقاری محمد طیب صاحب ، حضرت مولانا مفتی محمودالحسن صاحب، مولانامعراج الحق صاحب، مولانا محمدحسین صاحب بہاری رحمھم اللہ سے مولانا نے علوم و فنون کی تعلیم پائی۔
 تدریسی زندگی کا آغاز مولانا حمید الدین عاقل حسامیؒ کے مدرسہ دارالعلوم حید آباد سے شوال ۱۳۹۷ھ میں کیا، لیکن صرف ایک سال بعد ۱۳۹۸ھ میں دارالعلوم سبیل السلام حید آباد منتقل ہوگئے، شوال ۱۳۹۹ھ میں آپ صدر مدرس بنائے گئے اور ۱۴۲۰ھ تک کم و بیش بائیس سال اس ادارے سے وابستہ رہے، یہاں رحمت عالم سے بخاری شریف تک کا درس آپ نے دیا، آپ اور مولانا رضوان القاسمیؒ کی جوڑی تعلیم و تربیت کے میدان میں مثالی سمجھی جاتی رہی،مولانا کی توجہ سے یہاں تخصص فی الفقہ ، دعوۃ اور ادب کے بھی شعبے کھلے اور دارالعلوم سبیل السلام کا جنوبی ہند کے ممتاز ترین اداروں میںشمار ہونے لگا۔
 شعبان ۱۴۲۰ھ میں آپ نے یہاں سے مستعفی ہوکر المعھد العالی الاسلامی حید رآبادکی بنیاد ڈالی، یہاں کے اسباق کے ساتھ دارالعلوم حید آباد میں تخصصات کے شعبے میں بھی درس دیتے رہے، ان دنوں یہ سلسلہ موقوف ہوگیا ہے۔آپ کی شہرت اچھے مدرس اور بہترین مربی کی حیثیت سے پورے ہندوستان میں زبان زد خلائق ہے۔
 ان علمی مشاغل کے ساتھ آپ کی توجہ ملی مسائل پر بھر پور رہی ہے، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے وہ زمانہ دراز سے سکریٹری تھے ان دنوں کارگذار جنرل سکریٹری ہیں، واقعہ یہ ہے کہ ہر مسئلہ پر شرعی موقف کی تیاری اس کے حوالہ جات کی فراہمی وکیلوں کے لیے مولانا ہی کرتے رہتے ہیں،تفہیم شریعت کے پروگرام کو پورے ہندوستان میں متعارف کرانے اور اس کو عملی شکل دینے میں بھی آپ کی عملی جدوجہد کا بڑا ہاتھ ہے، ہندوستان کی کوئی قابل ذکر تنظیم ایسی نہیں ہے، جس سے کسی نہ کسی حیثیت سے آپ کی وابستگی نہ ہو، رہتے حیدرآباد میں ہیں ؛لیکن روح آبائی وطن میں لگی رہتی ہے ،یہاں کی تعلیمی اور اخلاقی حالت کو سدھارنے کی فکر برابر دامن گیر رہتی ہے، اسی فکرمندی کے نتیجہ میں مولانا نے دارالعلوم سبیل الفلاح اور مدرسۃالفالحات جالے میں قائم کیا،جس سے علاقہ کو بڑا فائدہ پہونچ رہا ہے؛ یہاں کے مدارس اور امارت شرعیہ سے ان کی وابستگی قدیم، مضبوط اور مستحکم ہے، جنوبی افریقہ کے بعض حلقوں میں امارت شرعیہ کا تعارف بھی تحریری طور پر انہوں نے کرایا، جس سے میرے سفر میں آسانیاں پیدا ہوئیں، واقعہ یہ ہے کہ مولانا کی حیات وخدمات مستقل ایک کتاب ؛ بلکہ کئی جلدوں میں لکھی جانے والی کتاب کا موضوع ہے، لکھنے والوں نے لکھا ہے اور آئندہ بھی لکھتے رہیں گے۔اس مضمون میں طوالت کی گنجائش نہیں ہے، اتنے بافیض عالم دین اور ملت پر قربان ہوجانے والی شخصیت کے لیے صحت و عافیت کے ساتھ درازئی عمر کی دعا نہ کرنا خود اپنی حرماں نصیبی ہوگی، اس لیے بس اس شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔
توسلامت رہے ہزار برس
 ہربرس کے ہوں دن ہزار

مظہر الحق۔ تحریک آزادی کا فراموش کردہ کردار ۔۔۔۔۔ایک جائزہ

مظہر الحق۔ تحریک آزادی کا فراموش کردہ کردار ۔۔۔۔۔ایک جائزہ
Urduduniyanews72 

جب کوئی  مصنف پہلی بار کوئی کتاب لکھتا ہے تو چا ہتا ہے کہ اس کتاب کو ایک ایک صاحب ذوق انسان نہ صرف یہ کہ پڑھ لے بلکہ ایک ایک کی طرف سے اسے داد بھی مل جائے اور اگر وہ صاحب تصنیف کوئی نوجوان ہے یا نئی نسل سے تعلق رکھتا ہے تو اس کی یہ خواہش اور بھی شدید ہو جاتی ہے۔وہ بے دریغ اپنی کتاب کی کاپیاں تقسیم کرتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اس کی ادبی یا علمی کوش پہنچ جائے اور اسے پتا چل سکے کہ اہل, علم اور صاحب, ذوق کی نظر میں وہ کتاب کیسی ہے؟ اس میں کیا خوبیاں ہیں اور کیا کمیاں ہیں ؟ آس نے کتنی محنت کی ہے ؟ اور کیسے کیسے نکات دریافت کیے ہیں؟ اس کی تسلی اس طرح کے ریمارکس سے نہیں ہوتی کہ واہ واہ ! کر دی جائے یا کیا کہنے! ماشاءاللہ! خوب ، تعجب خیز ،قابل, داد وغیرہ جیسے الفاظ فیس بک پر لکھ دیے جائیں! یا فون پر بول دیے جائیں 
   مگر اس کی تسلی اور تشفی والے جملے تو تب  پڑھنے کو ملیں گے جب کتاب پڑھی گئ ہو اور وہ بھی خلوص اور سنجیدگی سے کتاب کی ورق گردانی کی گئی ہو۔ کتب بینی کی صورت حال تو یہ ہے کہ اول تو بہت دنوں تک کتابوں والی ڈاک کھلتی ہی نہیں ہے اور اگر کھلتی بھی ہے تو وہ کتاب تو کسی حد تک توجہ پا لیتی ہے جس کے سر ورق پر کسی دوست یا شناسا یا کسی بہت بڑے ادیب کا نام درج ہوتا ہے اور اگر نام کوئی اجنبی ہوتا ہے تو اس کے شروع کے اوراق بھی نہیں کھلتے ۔ مگر اسی صورت حال میں کچھ ایسے بک لور  بھی ہیں جو کتاب کو الٹ پلٹ کر دیکھتے ضرور ہیں اور اگر کتاب کی تحریر معنی خیز اور موثر ہوتی ہے تو اسے وہ سنجیدگی اور دلچسپی سے آخر تک پڑھ جاتے ہیں اور اپنی رائے بھی لکھ دیتے ہیں۔ میں دعویٰ تو نہیں کرتا کہ میں بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوں مگر یہ بات سچ ہے کہ نہاں رباب کی کتاب ڈاکیہ کے ہاتھ سے میرے ہاتھوں میں آتے ہی کھلی۔ ورق الٹے پلٹے گئے اور کتاب کے موضوع اور اسلوب نے مجھے پڑھنے پر بھی مجبور کیا اور کتاب کے خاتمے تک آتے آتے دل نے اس پر کچھ لکھنے کے لیے بھی مجھے تیار کر لیا۔ میں اس لیے بھی لکھنا چاہتا ہوں کہ اس کتاب کی مصنفہ رسرچ اسکالر ہیں اور پہلی بار انھوں نے کوئی کتاب لکھی ہے ۔تاکہ اس کتاب کی مصنفہ محترمہ نہاں رباب کو پتا چلے کہ میری نگاہ میں یہ کتاب کیسی ہے اور اس کے مواد و موضوع اور پیش کش کی کیا قدر وقیمت ہے؟ اور انھوں نے اس کتاب کی تیاری میں کتنی محنت کی ہے ۔
  اس کتاب کے چھ ابواب قائم کیے گئے ہیں:
1- مظہرالحق
2-, مظہرالحق کی شخصیت کے اوصاف و امتیازات
3- مظہر الحق کی علمی و سیاسی خدمات
4- تحریک, آزادی ہند اور مظہرالحق
5- تحریک, آزادی ہند میں مظہرالحق کے ہم عصر قائدین
6- مظہرالحق کی سیاسی سرگرمیوں سے سبکدوشی:  اسباب و عوامل
    کتاب کے یہ ابواب بتاتے ہیں کہ اس کتاب میں مجاہد, آزادی مولانا مظہر الحق کی کے سوانحی کوائف، شخصیت اور ان کی سرگرمیوں کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے اور ان پر دلائل کے ساتھ منطقی بحث  بھی کی گئی ہے ۔ مولانا کی شخصیت والے باب میں جو ذیلی عنوانات قائم کیے گئے ہیں اور ان کی روشنی میں مولانا کی شخصیت کے جو نمایاں پہلو ابھارے گئے ہیں اور جس طرح ان پہلوؤں سے مولانا کے کارناموں کو منطقی انداز میں جوڑا گیا ہے وہ واقعی قابل,داد ہے اور اس تجزیے سے قلم کارہ نہاں رباب کی ذہنی بالیدگی اور ان کی ناقدانہ استعداد کا پتا چلتا ہے ۔اوراس بات کا اشارہ بھی کہ جب کسی کام میں جی لگایا جاتا ہے اور خون, جگر صرف کیا جاتا ہے تو اس کام کے ثمر کا رنگ چوکھا ضرور ہوتا ہے ۔
     پانچویں باب میں جنگ آزادی کے تمام اہم قائدین اور خصوصاً ان سیاست دانوں اور آزادی کے متوالوں جن کا تعلق بہار سے تھا کی بنیادی کارگزاریوں کو سمیٹا گیا ہے ۔
  کتاب کا آخری باب بہت دل دوز اور پرسوز ہے کہ اس میں ان واقعات و حالات کا ذکر ہے جن کے باعث مولانا مظہر الحق کو ملک کی سیاسی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہونا پڑا ۔اور وہ شخص جو ہمیشہ میدان کارزارِ میں رہا اور وہ بھی اگلی صف میں اسے تنہائی کی زندگی گزارنی پڑی ۔
    اس کتاب کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ مصنفہ نے نہایت اختصار کے ساتھ مولانا مظہر الحق کی تمام جہتوں کو سمیٹ لیا ہے اور ان کے کارناموں اور قربانیوں کی روشنی میں ان کے قد کو اس طرح پیش کیا ہے کہ
مولانا کی وہ حیثیت جو وقت کی گرد میں دب کر رہ گئی تھی روشن ہو کر سامنے آ گئی ہے ۔ پوری کتاب پڑھنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ ہم  اپنے ملک کے ایک سچے ہیرو سے مل کر آ رہے ہیں اور ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہمیں آزادی کا سکھ دینے کے لیے ہمارے بزرگوں نے کتنی اور کیسی کیسی تکلیفیں اٹھائی ہیں۔
  یہ کتاب اس اعتبار سے بھی اہم اور کارآمد ہے کہ یہ نئی نسل کو ہندوستان کے ایک سچے دیش بھکت اور جاں نثار, قوم مولانا مظہر الحق کی ہمہ جہت اور ڈائنمک شخصیت سے متعارف کرائے گی اور ان کے دلوں میں بھی جذبہء حُب الوطنی بیدار کرنے میں معاون ثابت ہو گی۔
   نہاں رباب نے زبان بھی صاف ستھری ، سادہ اور رواں دواں استعمال کی ہے ۔پڑھتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصنفہ نے کتاب کے نہاں خانے میں رباب کے تار چھیڑ دیے ہوں۔
  نہاں رباب اس لیے بھی قابل, قدر اور لائق, تحسین ہیں کہ
ان کی یہ کتاب پی۔ایم  ہوا میںٹورشپ اسکیم کے تحت سیکڑوں مسودوں میں سے منتخب ہونے والے ان چار مسودوں میں سے ایک ہے جنھیں ہندوستانی کتابوں کے سب سے بڑے ادارے نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا نے شائع کی
اور اس کتاب پر مصنفہ کو حکومت,ہند کی طرف سے
تین لاکھ روپے بھی عطا کیے گئے ۔
   ایک عمدہ کارآمد اور اہم کتاب کے لیے نوجوان ادیبہ محترمہ نہاں رباب کو ڈھیروں  دلی داد و مبارک باد۔
    امید ہے یہ کتاب قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی اور نوجوان مصنفہ کی بھر پور حوصلہ افزائی کی جائے گی ۔
                            پروفیسر غضنفر
                   سابق ڈائریکٹر ،اردو اکادمی ،برائے اساتذہ جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی
7678436704

مولانا عبد السمیع جعفری صادق پوری حیات وخدمات:تعارف و تبصرہ ڈاکٹر نورالسلام ندوی

مولانا عبد السمیع جعفری صادق پوری حیات وخدمات:تعارف و تبصرہ 
ڈاکٹر نورالسلام ندوی
Urduduniyanews72 
 بہار کے خانوادہ صادق پور، پٹنہ کے گل سرسبد حضرت مولانا عبدالسمیع جعفری ندوی صادق پوری متنوع خوبیوں اور کمالات کے حامل تھے۔بلند پایہ عالم دین،بہترین مربی، مشفق استاذ، بے باک خطیب اور داعی تھے، اخلاص وللہیت اور جرأت و جسارت خاندانی وراثت میں ملی تھی، سادگی و تواضع کے پیکر تھے، اخلاق و شرافت کے مجسم اورانسانیت ومحبت کے نقیب تھے، ہمدردی وغمگساری کے نمونہ اور صبر و ایثار کی تصویر تھے۔حق گوئی اور حق شناسی ان کی فطرت تھی، انسانیت کو نفع پہنچانا ان کی طبیعت تھی، اکابر علماء کی یادگار تھے، انہوں نے مثالی زندگی گزاری، ان کی زندگی نسل نوکے لئے سبق آموز اور چراغ راہ ہے۔

 ضرورت متقاضی تھی کہ ایسی باکمال شخصیت کی سوانح حیات مرتب کی جائے اور نسل نو کو ان کےکارنامے سے متعارف کرایا جائے،اللہ تعالی نے یہ سعادت جواں سال صاحب قلم عالم دین اور مصنف مولانا انظار احمد صادق کے حصے میں مقدر کر تھی، موصوف برسوں مولانا کی تربیت میں رہ چکے ہیں اور سفر وحضر کے ساتھی ورفیق رہے ہیں، انہوں نے مولانا عبدالسمیع جعفری ندوی صادق پوری کی حیات وخدمات پر بہترین سوانح حیات مرتب کی ہے۔

 زیر تبصرہ کتاب’’ مولانا عبد السمیع جعفری صادق پوری :حیات وخدمات ‘‘چار حصوں میں منقسم ہے، پہلا حصہ خاندان صادق پور کی تاریخ اور تعارف پر مشتمل ہے، اس میں مختصر طور پر خاندان صادق پور کا تعارف کراتے ہوئے جنگ آزادی میں اس کی قربانیاں اور ملک کی تعمیر و ترقی میں اس کے کارنامے کو قلم بند کیا گیا ہے، دوسرا حصہ جو دراصل کتاب کا بنیادی موضوع ہے مولانا کی حیات وخدمات پر محیط ہے، اس میں صاحب سوانح کی ابتدائی زندگی (جو نہایت اہمیت کا حامل ہے اور جس کے مطالعہ سے عزم حوصلہ کو تازگی اور نئ اڑان ملتی ہے) سے لے کر موت تک کے احوال تحریر کیے گئے ہیں، سلسلہ نسب، تاریخ ولادت،ایام رضاعت میں ماں کی ممتا اور دودھ سے محرومی، پرورش و پرداخت، تعلیم وتربیت، شادی بیاہ، ملازمت،خدمت، کارنامے، اوصاف حمیدہ، خصوصیات، کمالات، عہدے، مناصب، سفر وحضر کے معمولات، تقریر و تحریر کا انداز، دعوت و تبلیغ کا اسلوب، دینی و ملی اداروں سے وابستگی، رفاہی فلاحی کاموں سے دلچسپی غرض ایک ایک پہلو  پر روشنی ڈالی گئی ہے،مولانا کی زندگی کا ایک اہم باب جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ کی سنٹرل لائبریری کی نوکری چھوڑ کر وطن واپسی اور امارت اہل حدیث اور مدرسہ اصلاح المسلمین، پٹنہ کی سرپرستی اور اس کے لیے جدوجہد پر مشتمل ہے، اس حوالے سے بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے، تیسرا حصہ مختلف تنظیموں اور مکاتب فکر کے ذمہ داروں کے تعزیتی بیانات اور چوتھا حصہ ان تحریروں پر مبنی ہے جو مولانا کی وفات کے بعد متعدد اہل علم و قلم نے تحریر کئے ہیں، یہ مضامین بھی قیمتی اور معلوماتی ہیں، ان کے مطالعہ سے اس بات پر روشنی پڑتی ہے کہ مختلف مسالک کے اہل علم ودانش مولانا کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔

کتاب 358 صفحات پر مشتمل ہے، اس کے مطالعے سے صاحب سوانح کی شخصیت کا عکس نگاہوں کے سامنے آ جاتا ہے، بعض ایسے واقعات اور حقائق زیر قلم لائے گئے ہیں جو مخفی تھے، ان واقعات کے پڑھنے سے انسانیت نوازی، صلہ رحمی، ہمدردی اورخدمت خلق کا جذبہ بیدار ہوتا ہے، کتاب مولانا کی زندگی کے مختلف گوشوں سے پردہ اٹھاتی ہے، مولانا عبد السمیع جعفری ندوی پر آنے والی یہ پہلی کتاب ہے، اس سے وہ لوگ بھی استفادہ کر سکیں گے جن کی مولانا سے دیدوشنید رہی ہے اور وہ لوگ بھی جن کی مولانا سے دید وشنید نہیں رہی ہے،نیز اگر آئندہ کوئی مولانا کی سوانح حیات پر کام کرنا چاہے تو اس کو بنیادی مواد فراہم ہو جائے گا۔

 انظاراحمد صادق جواں سال قلم کار ہیں، خالق قدرت نے ان کو قلم کی دولت سے نوازا ہے، صلاحیت کے ساتھ صالحیت کے وصف سے متصف ہیں، ان کے مضامین اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں، بچوں کے لئے بطور خاص ان کی کہانیاں بڑی دلچسپ اور سبق آموز ہوتی ہیں، ان کی کہانیوں کےدو مجموعے ’’باغ سلمی کے مہکتےپھول‘‘ اور ’’گلہائے جنت‘‘ شائع ہو کر دادتحسین وصول کر چکے ہیں، زیرنظر کتاب کی ترتیب و تالیف میں انہوں نے کافی محنت کی ہے اور سلیقے سےسوانح حیات مرتب کی ہے۔

مذکورہ کتاب کی ایک اہم خوبی اسلوب تحریر اور انداز پیشکش ہے، زبان سادہ، سہل اوررواں ہے، اسلوب بیان شگفتہ اور دل آویزہے، منطقی ترتیب کتاب میں شان پیدا کرتی ہے، مبالغہ اور غلو سے بچتے ہوئے متوازن راہ اختیار کی گئی ہے، افراط و تفریط اور مبالغہ آمیز اسلوب سوانح حیات کو محض تعریف و توصیف کا پلندہ بنا دیتا ہے، حالانکہ سوانح نگار نے بشری کمزوریوں اور خامیوں کو بیان کرنے سے گریز کیا ہے،چونکہ احادیث میں گزرے ہوئے لوگوں کی خوبیوں کو بیان کرنے کا حکم دیا گیا ہے،سوانح نگار نے صاحب سوانح کے اوراق زندگی کا معروضی مطالعہ کرتے ہوئے شخصیت کے ارتقا اور نقوش کی جیتی جاگتی تصویر پیش کر دی ہے،سوانح حیات میں فن سوانح نگاری کے اصول، موضوع، مواد تحقیق اور  اسلوب کی بڑی حد تک رعایت برتی گئی ہے۔

عنوانات متعدد جگہوں پر طویل اور لمبے ہیں،جبکہ عنوان مختصر اور جامع ہونا چاہیے، مثال کے طور پر’’ والد صاحب اور اجلہ اساتذہ کی موجودگی میں اچانک خطبہ جمعہ دینے کا حکم اور اس کی بجا آوری‘‘،’’جامعہ میں آخری سال کی پریشانیاں اور ثبات قدمی کا مظاہرہ، ’’مفوضہ فرائض کے علاوہ غریب ممالک کے مزدوروں کے ساتھ ہمدردی‘‘، اس کوبالترتیب مختصر کرکے اس طرح لکھا جا سکتا تھا،’’ اچانک خطبہ جمعہ دینے کا حکم‘‘، ’’جامعہ کا آخری سال‘‘، ’’غریب ممالک کے مزدوروں کے ساتھ ہمدردی‘‘،جہاں جہاں تاریخ اور سنین درج کی گئی ہے شمسی تاریخ اور سنین کے ساتھ قمری تاریخ بھی رقم کی گئی ہے،یہ قابل تحسین ہے، آج کل عموماً قمری تاریخوں کا التزام نہیں ملتا ہے۔ اسی طرح حوالوں کا بھی خاص خیال رکھا گیا ہے، جس سے کتاب کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔یہ کتاب سوانح عمری کے باب میں ایک اضافہ ہے،اس کی طباعت معیاری، کاغذ نفیس اور سرورق خوبصورت ہے، امید ہے کہ ارباب علم ودانش اس کاوش کی بھرپور پذیرائی کریں گے۔گرانی کے دور میں کتاب کی قیمت250روپے زیادہ نہیں ہے، اسے الحرا پبلک اسکول،شریف کالونی، پٹنہ اور بک امپوریم، سبزی باغ ،پٹنہ سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
E-mail:nsnadvi@gmail.com
Mob NO. 9504275151 
****

جمعہ, جون 02, 2023

مسلم خواتین کی زیڈ پلس سیکیورٹی ہمایوں اقبال ندوی نائب صدر جمعیت علماء ارریہ وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری

مسلم خواتین کی زیڈ پلس سیکیورٹی 
Urduduniyanews72 
حج کے مقدس سفر پر پہلی بار سو سے زائد خواتین دہلی سے بغیر محرم کے روانہ ہوئی ہیں، وزیر مملکت برائے خارجہ میناکشی لیکھی نے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے، اورروانگی سے قبل اپنے خطاب میں یہ کہا ہے؛
"بغیر محرم کے سفر حج پر بھیجنا وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت کا حج سے متعلق قابل ستائش فیصلہ ہے،یہ حج اور معاشرے میں خواتین کو با اختیار بنانے کے لئے جاری کوششوں میں ایک اہم قدم ہے۔"
 پچھلے تین دنوں سے اس خبر کی خوب تشہیر کی جارہی ہے، حکومت اسے اپنی بڑی حصولیابی  سمجھ رہی ہے،جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے،   یہ درحقیقت خواتین کی تکریم نہیں بلکہ توہین ہے،انہیں بااختیار نہیں بنایا گیا ہے بلکہ حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، خدا انہیں سلامت رکھے، ہر مصیبت سے ان کی حفاظت فرمائے، آمین 
یہ ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ آئے دن خواتین کو بااختیار بنانے کے نام پر ان کے اختیارات سے بھی کھلواڑ کیا جارہا ہے۔اور خواتین پہلوانوں جیسا حشر تمام خواتین کا کیا جانے والا ہے۔پہلے ایک حد تک خوب واہ واہی کی جاتی ہے،انہیں دیش کی قابل فخر بیٹیاں کہ کر میدان میں تنہا اتار دیا جاتا ہے،  جب ان کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے، ان کی عصمت وعزت سے کھلواڑ کیا جاتا ہے ،تو پھرحکومت منھ موڑ لیتی ہے، ان کا درد اور ان کی چینخ تک انہیں سنائی نہیں دیتی ہے، مزے کی بات تو یہ ہےکہ کہ ادھر خواتین دہلی کے اندرا گاندھی بین الاقوامی ہوائی اڈہ سے بغیر محرم کے حج پر جارہی ہیں، تو وہیں دوسری طرف دہلی ہی کے جنتر منتر پر خواتین جو درد سے کراہ رہی ہیں، ان کی فکر نہیں ہے، یہ قول وفعل میں کھلا ہوا تضاد ہے۔
آج مرکزی حکومت کی موجودہ پالیسی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پہلے خواتین کو بااختیار بنانے کے عنوان پر آگے کردیتی ہے، پھر ان کے تمام اختیارات کو سلب کرلیتی ہے، حتی کہ جمہوری ملک میں انہیں احتجاج کا بھی اختیار نہیں ہے۔

آج مسلم خواتین بھی دین کی واقفیت نہ ہونے کی وجہ کر اس کو نہیں سمجھ رہی ہیں کہ انہیں بااختیار نہیں بے اختیار بنانے کی کوشش ہورہی ہے۔مذہب اسلام میں ایک خاتون کی کیا قیمت وحیثیت ہے، اس موٹی بات سے بھی ہماری بہن بیٹیاں لا علم ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ ہوا کہ رخ پر سفر کررہی ہیں،اور رطب ویابس میں فرق نہیں کرپاتی ہیں۔
ایک معمولی آدمی جو اسمبلی یا لوک سبھا الیکشن میں منتخب ہوجاتا ہےتواس کی قیمت بڑھ جاتی ہے، اس کے دائیں بائیں پولس کے نوجوان ہوتے ہیں، یہ ان کی حفاظت پر مامور ہوتے ہیں، اگر وہی شخص وزیر بن بنتا ہے تو مزید قیمتی ہوجاتا ہے، زیڈ پلس سیکیورٹی انہیں فراہم کی جاتی ہے،  یہی حال اسلام میں خواتین کا ہے،خدا نے انہیں مقام خاص سے نوازا ہے،ان کے قدموں میں جنت ہے، یہ خود جنت کی چیز ہیں،ان کی ولادت کو قرآن نے بشارت سےتعبیر کیا ہے،ان کی تعلیم وتربیت پر جنت کی خوشخبری دی گئی ہے، پھرمرحلہ وار اور بتدریج ان کا مقام بڑھتا چلا جاتا ہے، یہ خواتین ملکہ ہیں، مذہب اسلام نےمحرم کی شکل میں خواتین کو زیڈ پلس سیکیورٹی دی ہے،یہ بہت ہی قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں جو محرم کہلاتے ہیں،یہ ایسے لوگ ہیں جن سے اس خاتون کی شادی بھی نہیں ہوسکتی ہے، ان کی عزت وعصمت کی حفاظت پر خدا کی طرف سے مامور کئے گئے ہیں،خاص بات یہ ہے کہ جب ایک خاتون میکے رہتی ہے، وہاں بھی شریعت اسلامیہ نے ان کی سیکیورٹی کا خیال کیا ہے، ان کے نسبی رشتہ داروں کو اس پر مامور کیا ہے،بطور مثال باپ، دادا اور ان کا آبائی سلسلہ، چچا، ماموں وغیرہ،
اور جب سسرال آتی ہے تو سسرالی رشتہ داروں کو بھی اس کی ذمہ داری دی گئی ہے، انمیں بھی کچھ لوگ محرم ہوتے ہیں، بطور مثال خسر اور ان کا آبائی سلسلہ، شوہر کی اولاد، بیٹا، بیٹے اور بیٹی کی اولاد،اسی طرح داماد وغیرہ۔
محرم میں کچھ  لوگ ایسے بھی ہیں جو دودھ کے رشتہ سے حرام ہوتے ہیں، یعنی رضاعی باپ، چچا، ماموں، دادا وغیرہ،یہ محرم رشتہ دار ہیں، جو ان کی حفاظت میں اپنی جان کی قربانی سے دریغ نہیں کرتے ہیں۔یہ خدائی انتخاب ہے،یہی وجہ ہے کہ پوری عمر یہ سیکیورٹی ایک مسلم عورت کو حاصل رہتی ہے،اورکوئی ان سے چھین نہیں سکتا ہے۔
ایک آدمی جو لوگوں کے ذریعہ منتخب ہوا ہے، اگر اس کی سیکیورٹی چھین لی جائے تویہ اس کے حق میں توہین ہے، تو یہاں بھی خواتین جو خدائی قانون کے ذریعہ منتخب کی گئی ہیں، حج کے سفر پر بغیر محرم کے جارہی ہیں، یہ ان کےلئے صدمہ کی بات ہے،کہ  حفاظتی انتظام نہیں ہے، یہ گھر دروازہ پر نہیں جارہی ہیں ،بلکہ ایک طویل مسافت پر گئی ہیں، ایک خاتون تین دن یا اس سے زائد کا سفر بغیر سیکیورٹی کےاسلام میں نہیں کرسکتی ہے،چہ جائے کہ یہاں حج کے اس لمبے سفر میں مکمل چلہ لگ رہا ہے، یہاں انہیں سیکیورٹی سے محروم کیا گیا ہے، یہ ان کی حق تلفی ہے۔ یہ خوشی کی بات نہیں ہے بلکہ ایک معزز مسلم خاتون کے لئے تکلیف کا سامان ہے۔محرم کا ہونا ضروری ہے،اس کے بغیر عورت کے لئے حج نہیں ہے، ایک عورت پر حج فرض ہونے کے لئے محرم رشتہ دار کا ساتھ میں ہونا ضروری ہے۔
استاد گرامی قدر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی فرماتے ہیں؛خواتین کو محرم کے بغیر سفر حج سے گریز کرنا چاہیے، کیوں کہ عبادتوں کا اصل مقصود اللہ تعالٰی کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا ہے، اور جب شریعت میں ایک بات سے منع کردیا گیا ہو تو اس کے ارتکاب کی وجہ سے بجائے ثواب کے گناہ ہی کا اندیشہ ہے، 
شرعی اور فقہی نقطہ نظر سے ہٹ کر عملی طور پر بھی سفر حج میں خواتین کے ساتھ شوہر یا محرم کا ہونا نہایت ضروری محسوس ہوتا ہے، آب وہوا کی تبدیلی کی وجہ سے بار بار طبیعت خراب ہوتی ہے، مقام کی اجنبیت، ازدحام اور زبان کی عدم واقفیت کی وجہ سے خواتین کو بار بار مدد کی ضرورت پیش آتی ہے، بہت سی جگہ طویل قیام کرنا پڑتا ہے، اور بہت سی دشوار قانونی کارروائیوں سے گزرنا پڑتا ہے، ان مواقع پر محرم رشتہ دار یا شوہر کا قدم قدم پر تعاون مطلوب ہوتا ہے، (کتاب الفتاوی جلد ۴)


ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر  جمعیت علماء ارریہ 
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری 
یکم جون ۲۰۲۳ء

جمعرات, جون 01, 2023

حج کی سماجی معنویت ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

حج کی سماجی معنویت ___
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ(9431003131)
 حج اسلام کے ان پانچ ارکان میں سے ایک ہے ، جس پر اسلام کی پر شکوہ، بلند وبالا، اخلاق وکردار سے مزین عمارت کھڑی ہوتی ہے، اگر حج مقبول نصیب ہوجائے تو انسان اس سفر سے ایسا پاک وصاف ہو کر لوٹتا ہے، جیسے وہ ماں کے بطن سے آج ہی نمودار ہوا ہے، دنیاوی کثافت، گناہوں کی غلاظت سے پاک وصاف، نو مولود بچے کی طرح معصوم ۔ ہر آدمی کے لیے یہ سفر ممکن نہیں، کبھی مال ودولت کی کمی رکاوٹ بنتی ہے اور کبھی جسمانی اعذار سفر کی اجازت نہیں دیتے؛ اس لیے حج کی فرضیت کے لیے استطاعت کی قید لگائی گئی، کیوں کہ حج میں سفر بھی کرنا ہوتا ہے، اور مال بھی خرچ کرنا پڑتا ہے، اب اگر آدمی بیمار ہے ، تندرست نہیں ہے تو خود سفر نہیں کر سکتا ، قید میں ہے تو اس سے نکل نہیں سکتا، تندرست وتوانا ہے اور مالدار بھی، لیکن راستہ پُرا من نہیں ہے، یا ویزا میں کوئی رکاوٹ آگئی، ان تمام صورتوں میں انسان ’’غیرمستطیع‘‘ ہے، اس لیے حج فرض ہی نہیں ہوگا، تا آں کہ یہ اعذار ختم ہوجائیں۔
 حج کی فرضیت شرعی مصلحتوں کے علاوہ اپنے کو دوسرے سے ممتاز سمجھنے والی بیماری کو دور کرنے کے لیے ہے، یہ بیماری انسان ہیں ہوا کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، جہاں کوئی نہیں، وہاں ہوا، کا ٹھکانہ  ہوتا ہے، جو آدمی غریب ہے، پلاسٹ اور چھپر کے مکان  میں زندگی گذارتا ہے، خانہ بدوش ہے اس کے اندرخود کو ممتاز اور نما یاں کرنے کی بیماری پیدا ہی نہیں ہوتی، اس لیے غرباء پر حج فرض نہیں کیا گیا، آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ بلند وبالا نقشوں کی عمارتیں، قسم قسم کے ڈیزائن کے کپڑوں کا استعمال یہ خود کو الگ تھلگ اور ممتاز دِکھنے کے لیے ہی کئے جاتے ہیں، جینس پینٹ میں کئی کئی جگہ پھٹا ہونا خواتین کے کپڑوں میں آگے پیچھے لٹکتے ہوئے چتھرے ، یہ سب امتیازہی کے لیے لیے تو ہیں، غریب تواپنا تن ڈھک لے یہی بڑی بات ہے، وہ قسم قسم کے ڈیزائن والے کپڑے کہاں سے لائے گا، اس لیے غریبوں کو اس سے الگ رکھا گیا اور امراء پرعموما اس بیماری کا غلبہ ہوتا ہے؛ اس لیے اس پر حج فرض کیا گیا ۔
 حج صرف محبت وعبادت کا سفر نہیں ہے؛ بلکہ اس کی بڑی سماجی معنویت ہے، اس سفر کا آغاز احرام کے کپڑوں سے ہوتا ہے، یہ کپڑے سلے ہوئے نہیں ہوتے، اور عموما رنگین بھی نہیں ہوتے ؛ کیوں کہ ان سے امتیاز پیدا ہوتا ہے، ٹوپی کے مختلف ڈیزائن ہوتے ہیں اور یہ بھی نشان دہی کرتے ہیں کہ ہم کس طرف کے ہیں، کس پیر کے مرید اور کس مسلک کے ترجمان ہیں؛ اس لیے ٹوپی سرے سے اتار دی جاتی ہے، تاکہ اللہ کے مہمان کی صرف ایک شناخت ’’ضیوف الرحمن‘‘ کی رہ جائے۔ احرام کے کپڑے لپیٹنے کے بعد کفن کی یاد آتی ہے، اور آدمی محسوس کرتا ہے کہ ایک دن ہمیں اسی طرح کپڑوں میں لپیٹ کر لوگ قبر میں رکھ دیں گے، موت کی یہ یاد لوگوں کو اچھے کام کی طرف راغب کرتی ہے، اور گناہوں سے بچنے کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ احرام کی دورکعت نماز اللہ کی بندگی اور اس کی بڑائی کے استحضار کے لیے ہوتا ہے۔
 احرام کے کپڑے لپیٹنے کے بعد لبیک اللہم لبیک پڑھ تا ہے، اور بندہ اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں، تعریفیں اور نعمتیں سب تیری ہیں اور تیری حکومت میں کوئی شریک نہیں، یہ اعلان انسانی ذہن کو ایک خاص رخ پر لگا تا ہے، بندہ اللہ کی قدرت کا اعتراف کرتا ہے، اللہ کی بڑائی تسلیم کرتا ہے، اور اعلان کرتا ہے کہ اے اللہ تو ہی بڑا ہے، سماج کے سارے جھگڑے اپنے کو بڑا سمجھنے کی  وجہ سے ہی پیدا ہوتے ہیں، ’’میں‘‘ نے اس دنیا کو تشدد کی آماجگاہ بنا دیا ہے، جب حاجی یہ ترانہ پڑھتا ہے تو اس کے ذہن سے اپنی بڑائی کا خیال جاتا رہتا ہے ۔
 وہ مکہ پہونچ کر اللہ کے گھر کا طواف کرتا ہے اور اللہ کی رحمتوں ، برکتوں ، نعمتوں سے بڑا حصہ پالیتا ہے، وہ حجر اسود کا بوسہ لیتا ہے، نہیں پہونچ پاتے تو دور سے ہی ہاتھوں کو حجر اسود کی طرف کرکے چوم لیتا ہے، حجر اسود کبھی سفید تھا، اب تو کالا ہی ہے، یہ اس بات کا اعلان ہے کہ ہم گورے ضرور ہیں ، لیکن کا لے کو اپنے سے قریب کرنے بلکہ چومنے تک کے لیے تیار ہیں۔
 طواف میں پوری دنیا کے مختلف رنگ ونسل کے لوگ ہوتے ہیں، جو صرف اللہ کی رضا کے لیے اللہ کے گھر کا طواف لگا رہے ہوتے ہیں، اس میں سماجی طور پر یہ پیغام پوشیدہ ہے کہ رنگ ونسل ، ذات وبرادری اور بود وباش کی اہمیت نہیں ہے ، نہ کالے کو گورے پر اور نہ گورے پر کالے کوکو ئی فوقیت حاصل ہے، سب آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنائے گیے تھے۔
 طواف کرتے وقت داہنا کاندھا کھولا جاتاہے اور شروع کے چکر میں تھوڑا اکڑ کر چلا جاتا ہے، تاکہ دیکھنے والے جسم کی لاغری کو کمزوری نہ سمجھیں، اس کے اندر کی طاقت وتوانائی کو محسوس کریں اور کسی کو جسمانی اعتبار سے حقیر سمجھنے کا مزاج ختم ہوجائے، طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑھ کر آدمی اپنی عاجزی، کم مائیگی اور فروتنی کا اقرار کرتا ہے، اٹھتے بیٹھتے اللہ اکبر کہہ کر اور سجدے میں سر رکھ کر تلبیہ میں جو اعلان کیا تھا اس کا عملی نمونہ پیش کرتا ہے، اور کبر و انانیت سے پاک وصاف دل لے کر وہاں سے اٹھتا ہے، پھر شکم سیر ہو کر زمزم پیتا ہے، زمزم کا یہ پانی جسمانی وروحانی امراض کے لیے اکسیر کا درجہ رکھتا ہے، وہ سوچتا ہے کہ یہ چشمہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے پیر رگڑنے سے پھوٹا تھا، یہ اللہ کی ذات پاک ہے جس نے پتھر یلی زمین سے میٹھے پانی کا چشمہ نکال دیا، یہ اللہ کی قوت کاملہ کی روشن دلیل ہے۔
 صفا ومروہ کا چکر لگاتے وقت اسے حضرت ہاجرہ کی وہ بے کلی اور بے چینی یاد آتی ہے جو وہ بچے کے لیے پانی کی تلاش میں برداشت کر رہی تھیں، جب بچہ نظر وں سے اوجھل ہوجاتا تو وہ کس طرح دوڑتی تھیں،’’ میلین اخضرین‘‘ اسی کی یا دہے، حضرت ہاجرہؑ کے اس عمل کی معنویت کو محسوس کرنے کی غرض سے عورتوں کو نہیں، مردوں کو اس پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ ماں کی بے تابی اور بے چینی کو مرد بھی محسوس کریں ۔
 یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ حج کا سفر بیت اللہ کے نام پر ہی ہوتا ہے، لیکن سوائے طواف کے حج کا کوئی عمل بیت اللہ میں نہیں ہوتا، حج کے لیے انسان پہلے منیٰ جاتا ہے ، جہاں خیموں کا شہر آباد ہے، بلند وبالا عمارت میں رہنے سے جو فخر اور امتیاز کی بیماری پیدا ہو گئی تھی ، وہ ان خیموں میں رہ کر دور ہوجاتی ہے، پھر عرفہ جاتا ہے، وہاں بھی خیموں کا شہر ، بندہ روتا ہے، گڑ گڑا تا ہے اور لمبی لمبی دعائیں مانگتا ہے، اس سے بندہ کا یقین اللہ پر مزید پختہ ہوجاتا ہے او راس کے ذہن ودماغ میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ دینے والی ذات تو صرف اللہ کی ہے، اللہ ہی بے نیاز ہے، بقیہ سب محتاج ہیں، محتاجوں سے کیا مانگنا ، جو خود محتاج ہے وہ دوسروں کو کیا دے سکتا ہے۔
عرفہ سے روانگی مزدلفہ کو ہوتی ہے، یہاں خیمہ بھی نہیں ہے، کھلے آسمان کے نیچے رات گذاریے، یہاں سماج کے وہ لوگ کثرت سے یاد آتے ہیں جو کھلے آسمان کے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہیں، ان کی پریشانی ، بے خوابی اور رات بھر کروٹ بدلنے کے کرب کاتھوڑا بہت احساس ہر ایک کو ہوتا ہے، یہاں کنکری چنتے ہونے خیال ان غریبوں کا بھی آتا ہے جو کھیت کھلیان میں کرے دانے دُنکے چُن کر اپنی زندگی گذارتے ہیں مزدلفہ سے لوٹ کر یہ کنکریاں جمرات پر ماری جاتی ہیں، یہ جمرات شیطان کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ ماری گئی کنکریوں کی یاد دلاتے ہیں، لیکن اب تو شیطان نہیں ہے، یہ کنکریاں در اصل اپنے نفس امارہ کو ماری جاتی ہے اور اگرپہلے دن جمرہ عقبیٰ اور بقیہ دو دن تینوں جمرات کی رمی کے بعد نفس امارہ کی موت نہیں ہوئی اور انسان نفس مطمئنہ کے مرحلہ تک نہیں پہونچا تو سمجھنا چاہیے کہ کہیں کوئی کمی رہ گئی ۔ اس کے بعد قربانی دی جاتی ہے، قربانی کے جانور کو ذبح کے بعد وہاں دیکھنا ممکن نہیں ہوتا ، لیکن اگر آپ دیکھ سکیں تو پائیں گے کہ جانوروں کی آنکھیں عموما کھلی رہتی ہیں، اور زبان حال سے یہ سوال کرتی ہیں کہ میں نے تو اللہ کے نام پر جان قربان کر دیا، لیکن کیا تم نے بھی اپنے دل میں چھپے کینہ ،کدورت ، فسق وفجور اور خواہشات کی قربانی دی ، اگر آپ نے ایسا کر لیا تو میری قربانی رائیگاں نہیں گئی اور اگر ایسا نہیں ہوا تو میری قربانی رائیگاں چلی گئی، قربانی سے فارغ ہو کر وہ اپنے بال منڈواتا ہے تاکہ سابقہ زندگی کی کثافتوں کو اتار پھینکے اب وہ ایسا ہو گیا ، جیسے وہ معصوم ساآج ہی پیدا ہوا ہے، ساری پاکی حاصل ہو گئی تو وہ احرام کے کپڑے اتار کر سلے ہوئے کپڑے پہن کر پھر کعبۃ اللہ آتا ہے، اور اللہ کی عظمت کے گن گان کرتا ہے، مدینہ طیبہ کی زیارت پہلے اگر نہیں کیا ہے تو وہ زیارت کے لیے جاتا ہے اور اس رحمۃ للعالمین پر درود وسلام پیش کرتا ہے ، جن کی وجہ سے انسان کی زندگی میں انقلاب آیا؛ بلکہ یہ پوری کائنات ان کے صدقے اور طفیل میں بنی، مدینہ کے مقررہ ایام گذار کر حاجی اپنے گھر لوٹتا ہے، وہ وہاں سے کھجور اور زلزم کے ساتھ اللہ پر توکل ، تحمل ، برداشت اور ہر قسم کے تعصب سے پاک ہونے اور رہنے کا تحفہ لے کر اپنے گھر لوٹنا ہے، جس کی وسماجی اہمیت ومعنویت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...