Powered By Blogger

منگل, نومبر 14, 2023

بی پی اس سی مقابلہ جاتی امتحان کے نتائجمفتی محمد ثناء الہدی قاسمی

بی پی اس سی مقابلہ جاتی امتحان کے نتائج
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
اردودنیانیوز۷۲ 
گذشتہ مہینہ میں بہار پلک سروس کمیشن نے اساتذہ اسکول کے ساتھ سرسٹھویں (67)مشترکہ مقابلہ جاتی امتحان کے فائنل نتائج کا اعلان بھی کردیا، جس میں سات سو ننانوے (799)امیدوار کامیاب قرار پائے، اس بار مسلم کامیاب امید واروں کی تعداد اکاون(51) ہے، جس میں تینتالیس(43) وہ طلبہ ہیں جنہوں نے حج بھون میں تربیت حاصل کی تھی، جملہ کامیاب امید واروں کے مقابل مسلم امید وار کی تعداد صرف ساڑھے چھ فی صد ہے، ایک مسلم امید وار نے سر فہرست دس میں اپنی جگہ بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے، کامیاب امیدوار مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنی کامیابی سے مسلم سماج کا وقار بلند کیا، اس موقع سے مختلف کوچنگ مراکز خاص کر بہار حج کمیٹی اور حج بھون کے ذمہ داروں کو بھی مبارکباد دینا چاہوں گا اس لیے کہ کامیاب امیدواروں میں بڑی تعداد نے انہیں کے مرکز سے تربیت پائی ہے،حوصلہ افزائی اور مبارک، سلامت کے بعد ہمیں سمجھنا چاہیے کہ کامیابی کا یہ تناسب کافی نہیں ہے، کیوں کہ سترہ فی صد سے زیادہ مسلم آبادی میں ہماری کامیابی کا تناسب دس فی صد بھی نہیں ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ان اسباب وعوامل پر غور کیا جائے، جن کی وجہ سے کامیابی کا تناسب آگے نہیں بڑھ پا رہا ہے، مختلف تنظیموں اور اداروں کی طرف سے چلائے جانے والے کوچنگ کے اثرات بھی بڑے پیمانے پر سامنے نہیں آپا رہے، اب تو مدرسہ کے بچوں کو چٹائی سے اٹھا کر حفظ+ کے نام سے کوچنگ کرایا جا رہا ہے۔لیکن اس کے بھی خاطر خواہ ثمرات سامنے نہیں آ رہے ہیں، ہر ادارہ اپنی پیٹھ ٹھونکتا ہے، ہمارے یہاں کے اس قدر بچے کامیاب ہوئے، کوئی یہ بتانے کی ز حمت نہیں کر تا کہ کتنے بچوں پر آپ نے محنت کی اور کس تناسب سے آپ کے بچے کامیاب ہوئے، یہ اعداد وشمار بھی ہمارے سامنے ہوتے تو ہم تجزیہ کر پاتے کہ تربیت دینے والے اداروں میں کہاں کمی ہے کہ نتائج خاطر خواہ بر آمد نہیں ہو پارہے ہیں، اپنی کمی کو تاہیوں کا ادراک کرکے اس کے ازالہ کی سبیل نہیں پید ا کی گئی تو ہماری کامیابی ایسی ہی مختصر رہے گی اور ہم دوسروں کو الزام دیتے رہیں گے کہ جانبداری کی وجہ سے ہم بچھڑ جاتے ہیں،اور لوگ مسلمانوں کو پیچھے دھکیلنا چاہتے ہیں، یقینا ا ن کی منشا یا نیت یہ ہو سکتی ہے، لیکن ہماری اولو العزمی، غیر معمولی محنت اور حریف کے مقابل اپنی صلاحیت کی بر تری اس منصوبے کو بڑی حد تک نا کام کر سکتی ہے، ماضی میں بھی ایسا ہوا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہو سکتا ہے، ضرورت صحیح تجزیے اور کمیوں کے دور کرنے کی ہے۔
بی پی اس سی نے اساتذہ بحالی کے لیے جو امتحانات لیے تھے، اس کے نتائج بھی سامنے آئے اور ان کی بحالی کی کاروائی مکمل ہو چکی ، نتیش کمار کے ہاتھوں تقرری کا پروانہ تقسیم ہو چکا ہے، مختلف اضلاع میں کامیاب امیدواروں کو اسکول بھی الاٹ کیا جاچکاہے ، اس نتیجے کے کئی قابل ذکر پہلو ہیں، سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ نتیش حکومت نے بہار اسکول سروس کے دروازے دوسری ریاستوں کے لیے کھول دیے اوربڑی تعداد میں دوسری ریاستوں کے امید وار شریک امتحان ہوئے اور کامیاب ہوئے، با خبر ذرائع کے مطابق بہار کے علاوہ چودہ ریاست کے کامیاب امیدواروں کا تناسب ستر فی صد ہے، ان ستر فی صد بیرونی امید واروں کو خوش آمدید، لیکن اگر یہ حسب سابق ہوتا تو بہار کی بے روزگاری کی شرح میں کمی ہوتی، اور عظیم اتحاد کے ووٹ بینک میں بھی اضافہ ہوتا، یہاں پر رک کر سوچنے کا ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ کیا ہمارے یہاں کے پڑھے ہوئے امیدواروں کی صلاحیت کمزور تھی کہ دوسری ریاست کے تعلیم یافتہ امیدوار ان پر غالب آگیے، ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ تعلیم کی گرم بازاری اور دوسری ریاستوں کے دروازے کھولنے کے باوجود بڑی تعداد میں سیٹیں اب بھی خالی رہ گئیں، بلکہ کہنا چاہیے کہ کسی بھی سبجیکٹ میں" طلب" کے اعتبار سے کامیاب" رسد "نہیں ہو سکی، اور سیٹیں خالی رہ گئیں، اس کے لیے بی پی اس سی کو پھر سے منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔
 اعداد وشمار پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ بتیس ہزار نو سو سولہ (32916)اساتذہ کی خالی جگہوں کے لیے کل چھبیس ہزار نوسو اسی(26980) امیدوار ہی کامیاب قرار پائے، سب سے زیادہ امید وار سوشل سائنس میں کامیاب ہوئے، اس سبجیکٹ میں 5425اساتذہ کی ضرورت تھی، 5397کامیاب قرار پائے، معاملہ قریب قریب کا رہا، لیکن دوسرے موضوعات میں سینکڑوں جگہیں خالی رہ گئیں، جاری اعداد وشمار کے مطابق ہندی کی 5486میں 4242،انگریزی کے 5425میں 4001، سائنس کے 5425میں 4588، حساب کے 5425میں 4480، سنسکرت کے 2839میں 1750، اردو کے 2300میں 1612، عربی کے 200میں 04، فارسی کے 300میں 12اور بنگلہ کے 91میں 03امیدوار ہی اہل قرار پائے، آپ دیکھیں گے کہ سب سے بُری حالت بنگلہ کے بعدفارسی، عربی اور اردو کے امیدواروں کی رہی، جو ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔اردو کے لیے کام کرنے والی تنظیموں، اسکول ومدارس کے اساتذہ کو اس پر پوری مستعدی کے ساتھ غور کرنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا؟ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہم اردو کے فروغ کے لیے جاری رقم کو سمینار، سمپوزیم پر خرچ کرکے مطمئن ہو گیے اور زمینی سطح پر اردو کے کام میں ہماری دلچسپی باقی نہیں رہی، ہم بھاگ دوڑ اردو کے نام پر کرتے رہے، لیکن اسکول میں آنے والے طلبہ کو اردو کے لیے اس طرح تیار نہیں کرسکے کہ وہ امتحان میں کامیاب ہوپاتے، سوچنے کا یہی محور مدارس کے لیے بھی ہے، عربی فارسی میں ہمارے طلبہ کیوں کامیاب نہیں ہو سکے۔یاتو وہ امیدواری کے اہل ہی نہیں تھے کہ فارم بھر سکتے۔
 تمام کامیاب امیدواروں نے اگر ڈیوٹی جوائن کر لی تو بھی بڑی تعداد میں آسامیاں خالی رہ جائیں گی، اور ظاہر ہے سارے کامیاب امیدوار کا جوائن کرنا نا ممکنات میں سے ہے، کیوں کہ کئی تو بی پی اس سی کے ذریعہ انتظامی سروس کے لیے منتخب ہو چکے ہیں، کئی اپنی پرانی جگہ کو چھوڑنا نہیں چاہیں گے، اس وجہ سے محکمہ تعلیم   نےبی پی اس سی کو خالی آسامیوں کی تفصیلات فراہم کر دی ہیں ، تاکہ نئی بحالی کے لیے کارروائی شروع کی جا سکے، حالاں کہ یہ فی الفور ممکن نہیں، جب تک جوائننگ کے مراحل مکمل نہیں ہوجاتے، خالی آسامیوں کی فہرست بنانی ممکن نہیں ہے، تاخیر ہونے پر عام انتخاب کے لیے ضابطۂ اخلاق نافذ ہو جائے گا اور یہ معاملہ التوا میں بھی جا سکتا ہے ۔
اس موقع سے ہمیں اساتذہ بحالی میں ان کامیاب امیدواروں کو جن کی صلاحیتیں آگے بڑھنے کی ہیں، یہ کہنا ہے کہ انہیں اپنی محنت جاری رکھنی چاہیے اور آئی ایس، آئی پی اس کے لیے امتحانات میں بیٹھنا چاہیے، اور آگے کی طرف دیکھنا چاہیے، ہمیں بڑی حیرت اس وقت ہوتی ہے جب اچھی صلاحیتوں کے منتخب امیدواروں کو اس طرح مبارکباد دی جاتی ہے جیسے انہوں نے بڑا کارنامہ کر دکھایا ہو، حالاں کہ وہ خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ

 ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہے

ٹائم آوٹ ____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف

ٹائم آوٹ ____
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف 
”ٹائم آوٹ“ کا مطلب عام طورپر وقت ختم سمجھا جاتا ہے، لیکن کرکٹ کی اصطلاح میں کسی کھلاڑی کا ٹسٹ پیچ میں وکٹ گرنے کے تین منٹ، یک روزہ میچ میں دو منٹ اور ٹی-20 میں نوے سکنڈ تک پچ پر نہ پہونچنے کو ”ٹائم آؤٹ“ کہتے ہیں، اگر مقررہ وقت کے اندر کھلاڑی پچ پر نہ پہونچے تو مخالف ٹیم کی اپیل پر اسے آؤٹ مان لیا جاتا ہے، عالمی کرکٹ میں پہلی بار یہ واقعہ ہوا کہ سری لنکا کے بلے باز اینجے لو میتھ یوز کو بنگلہ دیش کے کپتان ثاقب الحسن کی اپیل پر امپائر نے ”ٹائم آؤٹ“ قرار دیا، گویا وہ بنا کھیلے ہی آؤٹ ہوگئے، واقعہ یہ ہوا کہ پچیسویں اوور میں سمرو کرما کے آؤٹ ہونے کے بعد اینجے لو میتھ یوز کو کھیلنے کے لئے آنا تھا، وہ تیار بھی ہوچکے تھے؛ لیکن عین وقت پر انہوں نے دیکھا کہ ان کے ہیلمیٹ کا اسٹریپ ٹوٹ گیا ہے، جب تک دوسرا ہیلمٹ ان کو فراہم کیا جاتا، دو منٹ گذر چکے تھے، اس لئے سری لنکا اور بنگلہ دیش کے درمیان دہلی میں کھیلا جانے والا میچ اس اعتبار سے تاریخی ہوگیا کہ بین الاقوامی میچ میں یہ پہلا موقع تھا جب کسی کھلاڑی کو تاخیر سے پچ پر پہونچنے کی وجہ سے بغیر کھیلے آؤٹ مان لیا گیا، گھریلو میچوں میں ایسا پہلے پانچ بار ہوچکا ہے۔
1987-88 میں اینڈیو وارڈن کو ایسٹرن پروونس بنام ٹرانسوال کے میچ سے پورٹ الزبتھ میں، 1997 میں ہیمولال یادو، تری پورہ مقابل اڈیشہ کے میچ سے کٹک میں، 2002 میں وی سی ڈریکس کو بارڈر مقابل فری اسٹیٹ ایسٹ لندن میں، 2003 میں اے جے ہیرس کو نوٹنگھم شائر مقابل ڈرہم نوٹنگھم میں، 2013-14 میں ریان آسٹن کو ونڈورڈ آئی لینڈ مقابل کمبائنڈ کیمپس اینڈ کالج، سنٹ ویسنٹ میں اور2017 میں چارلس کنجے کو ماٹابیلے لینڈ ٹسکرس مقابل ماؤنٹ ٹینیرس، بلاوایا میں ٹائم آؤٹ قرار دیا گیا تھا۔
یہ کھیل میں ٹائم آؤٹ ہونے کی بات تھی، اللہ رب العزت نے ہمیں بھی کام کرنے اور میدان عمل میں رہنے کے لئے ایک وقت مقرر دیا ہے، اس وقت مقرر میں ہی ہمیں بھی تیاری کرلینی ہے، ”ٹائم آؤٹ“ ہونے سے قبل ہی تیاری مکمل ہوجانی چاہئے، ورنہ وقت گذر جائے گا اور ہم ”ٹائم آؤٹ“ ہوجائیں گے، اس وقت ہیلمٹ کا اسٹریپ ٹوٹا ہے یادرست، دیکھنے کا وقت نہیں رہے گا، ٹائم آؤٹ ہوتے ہی ہم میدان عمل آخرت کی اس کھیتی سے محروم کر دیئے جائیں گے، اس وقت ہماری خفگی، شرمندگی کچھ کام نہیں آئے گی، اس کے بعد ہم ایک دوسری دنیا میں ہوں گے، جہاں کے قواعد وضوابط اس دنیا سے بالکل الگ ہوں گے، عقل مند وہ ہے جو ”ٹائم آؤٹ“ ہونے سے قبل اپنی ساری تیاری مکمل کرلے

پیر, نومبر 13, 2023

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول میں کھیل کا انعقاد

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول میں کھیل کا انعقاد
اردودنیانیوز۷۲ 
بچوں کی شروعاتی سال ان کی کامیابی کے سب سے مشکل سال ہوتے ہیں زندگی میں سب کچھ سکھینے کی ہمت نھیں سالوں پر منحصر کرتی ہے اس کو ٹھیک سے تیار کرنے کی کئی فائدے ہیں اسکول میں بہتر تعلیم حاصل کرنا اسی مقصد کو دھیان میں رکھتے ہوئے تسمیہ جو غیر ہائی اسکول میں اسپورٹس ڈے اور یوم اطفال منایا گیا ۱۳ نومبر کو اسکول میں بڑے پیمانے پر بچوں کے ذریعہ سجاوٹ کی گئی تھی پروگرام کا آغاز گارڈ آف آنر سے ہوا اسکول کے پرنسپل جاوید مظہر اور مینیجر سید اعجاز احمد نے ہری جھنڈی دکھا کر پروگرام کا آغاز کیا۔ اس موقع پر درجہ ایل کے جی نے ریپین ڈرل، درجہ یو کے جی نے " بیلون ڈرل ، درجہ اول نے بال ڈرل درجہ دوم نے ” فلاور ڈرل، درجہ سوم نے پام ۔ پام ڈرل ، درجہ چہارم نے فین ڈرل، درجہ پنجم نے فلیگ ڈرل‘، درجہ چھ جی نے بوتل

ڈرل، درجہ چھ بی نے یوگا ڈرل، درجہ سات جی نے "امبریلا ڈرل، درجہ آٹھ جی نے " پینگس ڈرل پیش کر کے سماں باندھ دیا۔ اس کے بعد فائنل ریس میں درجہ ایل کے جی سیمپل ریس درجہ یو کے جی نے بیک ریس، درجہ اول نے " جم پینگ رئیس " درجہ دوم نے " پک دا بینکی درجہ تین نے ” بک ہولڈنگ ریس درجہ چار نے رائٹنگ وانمبر رئیس درجہ ۵ نے ایٹنگ وا بنا ناریس، درجہ چھ جی نے ایٹنگ اسپیڈریس ، درجہ چھ جی نے گلاس ہولڈنگ ریس، درجہ سات جی نے اسپون لیمن رئیسی درجہ سات بی نے کینڈل ریس، درجہ آٹھ جی نے بینگلش گیم اور درجہ آٹھ بی نے

سلو سائیکل ریس میں حصہ لیا۔ اس کے ساتھ ہی میوزیکل چیئر، ڈسک تھرو کو کھو، باسکٹ بال، بیڈ منٹن کے فائنل میچ کرائے۔

جمعہ, نومبر 10, 2023

دینی تعلیم کا حصول ہماری ایمانی و اسلامی ضرورت ۔۔ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

دینی تعلیم کا حصول ہماری ایمانی و اسلامی ضرورت ۔۔
اردودنیانیوز۷۲ 
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
مدرسہ اسلامیہ نظامیہ گنج گوریہار کی از سرنو تعمیر کی بنیاد علماء کے ہاتھوں ڈالی گئ

مظفر پور١٠/نومبر (نمائندہ)  بنیادی دینی تعلیم کا حصول ہماری ایمانی واسلامی ضرورت ہے ،اسی لیے تمام مسلمانوں پر علم کا حصول فرض ہے۔ہمارے بچے علم نافع کے حصول کے لیے محنت کریں  اور عصری علوم کےذریعہ دنیاوی ضرورت کی تکمیل کریں یہ بھی ایک اہم کام ہے لیکن اس بات کو زندگی کے کسی مرحلہ میں فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ قرآن و احادیث کی تفہیم کا کام بلا واسطہ اللہ رسول سے جڑنے کا کام ہے۔ اور مدارس اسلامیہ کی تعلیم کا یہی مر کز و محور ہے۔ان خیالات کا اظہارملک کے مشہور و معروف اہل قلم، امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ کے نائب ناظم ، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ  و  آل انڈیا ملی کونسل کے رکن تاسیسی ،کاروان ادب واردو میڈیا فورم کے صدر حضرت مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے  کیا
وہ مظفر پور ضلع کے شکرا بلاک کی مشہور بستی گنج گوریہار میں مدرسہ اسلامیہ نظامیہ کی نئ عمارت کی سنگ بنیاد کے موقع سے مسلمانوں کے بڑے اجتماع سے خطاب کررہے تھے انہوں نے فرمایاکہ کہ اس مدرسہ کی قدیم عمارت کی بنیاد امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب کے ہاتھوں ڈالی گئ تھی اور اسی وجہ سے اس مدرسہ کا نام مدرسہ اسلامیہ نظامیہ قرار پایا تھا ،میں اس زمانہ میں مدرسہ احمدیہ ابابکر پور میں استاد تھا اور حضرت کے ساتھ میری شرکت بھی اس موقع سے ہوئ تھی۔ میرے لئے سعادت کی بات ہے کہ از سرنو سنگ بنیاد کے موقع سے مجھے آپ حضرات نے یاد کیا ہے، مفتی صاحب نے فرمایاکہ مدارس اسلامیہ کا سلسلہ نسب مسجد نبوی کے اس صفہ تک پہونتا ہے جس کے معلم آقا صلی اللہ علیہ وسلم خود تھے اور علم حاصل کرنے والے صحابہ کرام کی مقدس جماعت تھی۔ مسجد نبوی میں آج بھی وہ صفہ موجودھے اور مسجد نبوی کے فرش سے اس کی اونچائی یہ بتاتی ہے کہ علم کا مقام ارفع و اعلیٰ ہے ، مفتی صاحب نے اس موقع سے گاؤں میں اتحاد واتفاق کی ضرورت ، کبر و انانیت سے پرہیز اور تواضع و انکساری کو شعار قرار دینے پر زور دیا۔
اس موقع سے مولانا نظر الہدیٰ قاسمی نے اپنے بیان میں فرمایا کہ ہر انسان کے حصہ کا کام اللہ تعالیٰ نے مقرر کر رکھا ہے اتحاد واتفاق اور حسن اسلوب کے ساتھ اگر سب لوگ کام کریں اور مسجد و مدرسہ کے کام میں بے جا مداخلت نہ کریں تو ان شاءاللہ بڑا سے بڑا کام بآسانی  ہوجائے گا اس موقع پر حافظ حارث رحمانی نے نعت نبی  پیش کیا ،مولانا محمد قمر عالم ندوی استاد مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور، مولانا عبد الرحیم بانی و ناظم مدرسہ مجیدیہ رحمانیہ شکری سریا ، مولانا امیر ریاض استاد مدرسہ محبوبیہ چین پور بنگرا ، مولانا غفران و مولانا قمر الدین جامع مسجد گنج گوریہار ،حافظ و قاری تعلیم الدین ، حافظ محمد ذیشان، محمد عطاء الرحمان ، محمد مجیب الرحٰمن ، عبد الحکیم ،محمد انور، ماسٹر آفتاب عالم ، فضل حق ، حاجی معیز الحق،ماسٹر خورشید ،محمد انظار،محمد سرفراز،عبدالسلام،محمد قیصر،ماسٹر شمیم،مصباح الحق
،محمد رمضانی،غلام نبی حافظ،عبدالرافع ،بہار اسٹیٹ اردو ٹیچرس ایسوسی
 ایشن کے صوبائی سکریٹری محمد امیر اللہ نے شرکت کی،اخیر میں مفتی صاحب کی دعا پر مجلس کا اختتام ہوا

جمعرات, نومبر 09, 2023

بھارتی بنام ہنود

بھارتی یہود بنام ہنود
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️غالب شمس قاسمی
امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
mohdghalibshams@gmail.com

اسرائیلی صہیونی دہشت گرد دن رات گھروں، ہاسٹلس، ہاسپٹلس، یونیورسٹی اور عوامی مقامات پر وحشیانہ بمباری اور نسل کشی کررہی ہے،اب تک 10000 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جن میں 4800 سو بچے اور 2550 خواتین شامل ہیں،  سی پی جے کی تحقیقات کے مطابق 2 نومبر تک 36 جنرلسٹ اور صحافی جاں بحق ہوچکے ہیں، اور ہندوستانی میڈیا بلکہ عالمی میڈیا اس پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے، 
 مرد و عورت اور بچوں کی ہولناک تصویریں دیکھ کر کسی بھی دل گردے والے کا دل دہل جائے، اس کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں، بلکہ اکثر و بیشتر ذرا سا حس اور انسانیت کا جذبہ رکھنے والے، فلسطینی بھائیوں اور بچوں کی لاشیں، چیختی چلاتی خون سے لت پت بے بس تصویریں اور ویڈیوز دیکھ کر بے ساختہ آنکھیں اشکبار ہو جائیں،  آج ہی یہودی دہشت گرد اسرائیل نے المغازی کیمپ پر بمباری کی، جس کی تباہی کے مناظر ناقابل بیان ہیں، پوری دنیا کے مسلمان  اور انسانیت پسند عوام میں بے چینی، اور اضطرارو اضطراب کی کیفیت طاری ہے، لیکن ہمارے ملک ہندوستان میں یہودی ذہنیت رکھنے والے، اسرائیل نواز، انتہا پسند، تشدد و جارحیت پسند ، فرقہ وارانہ عناصر بڑی بے شرمی سے اسرائیل کی حمایت کرتے نظر آرہےہیں، جیسے ہی غزہ کی دردناک و ہول ناک تصویریں ٹویٹ( ایکس) پر اپلوڈ ہوتی ہیں، یہ دوکوڑی کے مفکر، نئے ہندوستان کی پرانی سڑی ہوئی کھاد، سنگھی لابی وہاں اسرائیل کے ترجمان بن جاتے ہیں، کہتے ہیں کہ جب حماس نے حملہ نے کیا تھا، تو کیوں چپ تھے؟ یہ آنکھ سے اندھے، سمجھ سے پاگل، حقیقی تاریخ سے ناواقف، اور غزہ پٹی کی تباہیوں سے انکھ موندے بس نفرت کی بولی بولتے ہیں، ہندوستانی میڈیا بشمول حقیقت پسند، سیکولر میڈیا بھی اسرائیلی حملوں کو دہشت گردانہ کہنے کے بجائے فقط اسرائیلی حملے کہ رہی ہے، وہیں  فلسطین کی حریت پسند تحریک حماس کا نام لیتے ہوئے دہشت گرد, چرم پنتھی وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں،قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ ۚ( فی الحقیقت ان کی دشمنی ان کے منہ سے ٹپک پڑتی ہے، اور جو عداوت ان کے سینوں نے چھپا رکھی ہے، وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے)،
ملبے سے ایک بچے کی جان بچنے کے بعد دھول  و خون میں لپٹی تصویر کو یہ نا ہنجار کہتے ہیں کہ اچھا میک اپ ہے، دراصل ان کی ذہن سازی نفرت و عداوت سے کی گئی ہے، مسلم مخالف مواد اور انسانیت دشمن مٹی سے  ان کے وجود کا خمیر تیار ہوا ہے، آر ایس ایس کی سالوں کی محنت کا ناجائز پھل یہ بے ہودہ ہنود سنگھی لابی ہیں، جنہیں مسلمانوں کی مخالفت اور گندی مذہبی سیاست نے اتنا اندھا کردیا ہے کہ اس کے آگے کچھ نظر ہی نہیں آتا، بقول کلیم عاجز 
 اب انسانوں کی بستی کا یہ عالم ہے کہ مت پوچھو 
لگے ہے آگ اک گھر میں تو ہمسایہ ہوا دے ہے ۔
وہیں دوسری طرف برلن ہو یا واشنگٹن، برطانیہ ہو کہ لندن، اندلس ہو یا سویڈن، بلکہ پوری دنیا اس نسل کشی کے خلاف، یہودی صہیونی ظلم و نسل کشی اور قتل و غارت گری کے خلاف سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے، اپنی اپنی حکومتوں سے فلسطینی نسل کشی بند کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے لیکن سب نے اپنی آنکھوں پر اسلام مخالف پٹیاں باندھ رکھی ہے، الجزیرہ چینل کے مطابق کل رات سے بمباری اور میزائل کے حملوں میں اور تیزی آگئی ہے، آسمان میں بم دھماکہ اور میزائل ایسے پھٹ رہے ہیں جیسے خونی دیوالی ہو، 
ناامیدی کی سی ناامیدی ہے، کوئی امید بر نہیں آتی، کوئی صورت نظر نہیں آتی، لیکن  ہم مسلمان ہیں، ہمارے یہاں ناامیدی جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی، إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ ( رحمت خداوندی سے بس کافر لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں) اور پھر تاریخ کے عروج و زوال ہمارے پیش نظر ہونا چاہئے، روم کا بادشاہ نیرو کی سفاکی بھی تاریخ نے یاد رکھی ہے، اور پھر اس کا انجام بد بھی، انگلستان کی تاریخ کا ظالم و جابر بادشاہ کنگ جان (King John)،  پول پاٹ (Pol Pot) اور اٹیلا دی ہن (Attila The Hun) بھی تاریخ کی نظر سے اوجھل نہیں، نمرود و فرعون کی جھوٹی خدائی اور بے بسی اللّٰہ نے قرآن کریم میں بیان کردی، اپنے وقت کے سپر پاور قیصر و کسریٰ  کی بربادی بھی تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے، تو پھر یہ صہیونی دہشت گرد اسرائیل ہو ، یا اسرائیل نواز امریکہ، برطانیہ اور جرمنی، انہیں چاہے اپنی طاقت پر جتنا غرور ہو، یا ظلم و جور کا نشہ ہو، سب ان شاءاللہ ایک دن اپنے برے انجام سے تھرا اٹھیں گے بلکہ نیست و نابود ہو جائیں گے، قرآن کریم میں ظالموں کے خلاف اللّٰہ کا کھلم کھلا اعلان اور سچا وعدہ ہے،وعد اللہ حقا، چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے، واللہ لا یحب الظالمین، ( اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا) وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ( یہ زمانہ کے حوادثات ہیں، جنہیں ہم باری باری قوموں کے درمیان گردش کرتے رہتے ہیں) وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ۬ؕ (  یہ نہ سمجھیو کہ اللّٰہ بے خبر ہے ظالموں کے ان اعمال سے جو وہ کررہے ہیں) وَ كَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَاۤ اَخَذَ الْقُرٰى وَ هِیَ ظَالِمَةٌؕ-اِنَّ اَخْذَهٗۤ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ( ظالموں کو بڑی حد تک مہلت دی جاتی ہے۔ جب کسی طرح باز نہیں آتے تو پکڑ کر گلا دبا دیا جاتا ہے۔ مجرم چاہے کہ تکلیف کم ہو، یا اس کی پکڑ سے چھوٹ کر بھاگ نکلے، ایں خیال است و محال است و جنوں) ۔

منگل, نومبر 07, 2023

اسرائیلی درندگی

اسرائیلی درندگی
اردودنیانیوز۷۲ 

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

 پوری دنیا میں اسرائیل تنہا ایسا ملک ہے، جو کسی کی نہیں سنتا، اقوام متحدہ کی قرار دادیں، حلیف ممالک کی نصیحتیں ا ور مشورے اس پر اثر انداز نہیں ہوتے، وہ من مانی کرتا ہے اور اس من مانی میں سارے جنگی اصول وضوابط کو بالائے طاق رکھ کر درندگی پر اتر آتا ہے، غزہ پٹی میں اسرائیل ان دنوں یہی کر رہا ہے، شہری علاقوں پر حملے اور اسپتالوں کو زمین دوز کرکے ہزاروں بچوں، عورتوں اور مریضوں کو موت کے گھاٹ اتار دینا درندگی کی انتہا ہے، خبر یہ ہے کہ گذشتہ دنوں ایک اسپتال پر حملہ کرکے اس نے پانچ سو مریضوں کو جن میں بچے، بوڑھے اور عورتوں کی بڑی تعداد تھی، موت کی نیند سلا دیا اور عالمی برادری نے صرف افسوس کرکے کام چلا لیا، اس قسم کے حملوں کو روکنے کے لیے نہ تو کوئی تدبیر کیا اور نہ ہی اسرائیل کو ایسے حملوں سے باز آنے کی تلقین کی، اس کے بر عکس جرمنی اور امریکہ کے حکمراں اسرائیل پہونچ کر اپنی یک جہتی کا اظہار کر چکے ہیں، امریکہ اسرائیل کو ان جنگی جرائم کے لیے ہتھیار بھی فراہم کر رہا ہے،کہنا چاہیے کہ امریکہ غزہ میں اسرائیلی حکومت کی پشت پناہی ہی نہیں کر رہا ہے بلکہ عملا جنگً میں شریک ہو گیا ہے، اسرائیل کے لیے اس قسم کی حوصلہ افزائی بہت معنی خیز ہے  اب وہ غزہ میں زمینی حملہ کی تیاری کر رہا ہے، تاکہ وہ حماس کی پناہ گاہوں کو بلڈوزر سے تباہ وبرباد کر سکے، خبر یہ بھی آ رہی ہے کہ حماس کے سر براہ اسماعیل ہانیہ کے خاندان کے چودہ افراد کو اب تک اسرائیل نے شہید کر دیا ہے اور اب حماس کے کمانڈر یحیی سنوار، محمد وہاب ابراہیم المصری عرف الدیف ان کے نشانے پر ہیں، یحیی سنوار دو دہائی سے زیادہ عرصہ تک اسرائیلی جیلوں میں وقت گذار چکے ہیں اور ان کی رہائی اسرائیل کے ساتھ2011ء میں ہونے والے ایک سمجھوتے کے تحت ہوئی تھی، جس میں قیدیوں کو تبادلے کے طور رہا کیا گیا تھا، الدیف حماس کے عسکری ونگ القاسم بریگیڈ یر کے انچارج ہیں اور کہنا چاہیے کہ حماس کی جان ہیں، اس نے 1996میں چار خود کش حملوں کے ذریعہ یروشلم اور تل ابیب کو ہلا کر دکھ دیا تھا۔
حماس کی طاقت اسرائیل کی درندگی کو کنٹرول کرنے کے لیے بہت کم ہے، اور اب اس کی ساری قوت غزہ کے دفاع میں لگ رہی ہے، اس نے پہلے مضبوط حملے میں اسرائیل کو ناکوں چنے چبوادیے تھے، اس کی خفیہ ایجنسی موساد اور فوجیوں کو منہہ کی کھانی پڑی تھی، کم از کم دو سو یہودی اب بھی حماس کی قید میں ہیں، جس سے وہ قیدیوں کے تبادلے کا کام لے سکتی ہے، حماس کے رہنما خالد مشعل کا کہنا ہے کہ ہم اسرائیل کو زمینی جنگ میں بھی شکست دیں گے،حماس کے ساتھ جو ممالک ہیں وہ زبانی جمع خرچ اورا ظہار یک جہتی کے سوا کچھ نہیں کر رہے ہیں، ایران کی طرف سے اسرائیل کو تنبیہہ کی جارہی ہے، لیکن وہ میدان میں کود نہیں رہا ہے، ترکی حماس کے ساتھ ہے، لیکن وہ اپنے کو ثالثی کی پوزیشن میں رکھنا چاہتا ہے، اس لیے عملی اقدام سے گریز کر رہا ہے۔مصر پہلے سے ہی اسرائیل کے ساتھ ہے، اس نے اپنی سرحد یں غزہ کے شہریوں کے لیے بند کر رکھی ہیں، اسرائیل کے زمینی حملہ کے اعلان پر لاکھوں شہری فلسطین کے جنوبی علاقے میں منتقل ہو رہے ہیں، دوسرے تو دوسرے ہیں، فلسطین کے ایک حصے پر قابض الفتح کے حکمراں محمود عباس کی تو زبان بھی نہیں کھل رہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ ان کو اس لڑائی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے، حالاں کہ واقعہ یہ ہے کہ غزہ کے بعد فلسطین کا ویسٹ بینک ہی اسرائیل کا ہدف ہے، محمود عباس خاموش رہ کر سمجھتے ہیں کہ ہم محفوظ ہیں، حالاں کہ صحیح یہ ہے کہ چراغ سب کے بجھینگے، ہوا کسی کی نہیں، یا پھر بقول شاعر۔
 اس کے قتل پر میں بھی چپ تھا میرا نمبر اب آیا
 میرے قتل پر آپ بھی چپ ہیں اگلا نمبر آپ کا ہے
س پورے قضیہ خصوصاََ اسپتال پر حملوں کے بعد جب ویسٹ بینک کی عوام سڑکوں پر آگئی تب محمود عباس کے زبا نمذمت کیلیے کھلی اور انہوں نے ایک اچھی بات یہ کی کہ امریکہ کے صدر سے ملنے سے انکار کردیا۔پھر بھی جو اقدام انہیں کرنے چاہیے تھے اس سے وہ اب بھی اجتناب ہی کر رہے ہیں، اسرائیل کی درندگی کو روکنے کا طریقہ یہ ہے کہ مختلف عرب ممالک مل کر ایسا وار کریں کہ اس کی کمر ٹوٹ کر رہ جائے، اس اتحاد کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں جنگ کی آگ مزید بھڑک سکتی ہے، لیکن ''تنگ آمد بجنگ آمد ''پرانی مثل ہے، یہ بھی کہا جا تا رہا ہے کہ'' بلی جب عاجز آتی ہے تو کتے پر جھپٹ پڑتی ہے، ''پتہ نہیں کب تک عرب ممالک'' بھیگی بلی'' بنے رہیں گے اور جھپٹنے کا شعور ان کا کب جاگے گا، یہ بھی مسئلہ کا حل نہیں ہے، لیکن جب آگ پھیلنے لگے گی تو شاید کچھ ملک اپنا گھر جلتا دیکھ کر صلح، صفائی اور تصفیہ کے لیے آگے بڑھنے کا کام کر سکیں۔
حماس کے ذریعہ رد عمل کے اس حملے میں غزہ کا زیادہ نقصان ہوا ہے اور ہو رہا ہے، اسرائیل کی زمینی فوج کے غزہ میں گھسنے کے بعد اس تباہی میں مزید اضافہ ہوگا، لیکن اس حملے کا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ دنیا جو یہ سمجھنے لگی تھی کہ فلسطین کا مسئلہ حل ہو گیا یا سرد بستے میں چلا گیا وہ پھر سے منظر عام پر آگیا اور دنیا نے جان لیا کہ فلسطینی اسرائیل کے رحم وکرم پر رہنے کو تیار نہیں ہیں، انہیں بے دست وپا ہو کر زندگی گذارنا قبول نہیں ہے، ایک خود مختار فلسطینی ریاست ان کا خواب ہے، جس کا سب کچھ اپنا ہو اور ان کی یہ حیثیت ختم ہوجائے کہ اسرائیل انہیں اس طرح محصور کرلے کہ دانہ، پانی بجلی تک بند ہوجائے، وہ اس ہدف کو پانے کے لیے کسی حد تک جا سکتے ہیں، وہ اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ
خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

پیر, نومبر 06, 2023

تعلیم اصلاح معاشرہ کی بنیاد ہے۔مفتی ثناءالہدی قاسمی

تعلیم اصلاح معاشرہ کی بنیاد ہے۔مفتی ثناءالہدی قاسمی
اردودنیانیوز۷۲ 
 پٹنہ/چکیامشرقی چمپارن(پریس ریلیز 6نومبذ ) اصلاح معاشرہ کمیٹی میگھوا مشرقی چمپارن کے زیر اہتمام ایک روزہ عظیم الشان جلسہ سیرت النبی صلعم واصلاح معاشرہ کانفرنس  سے ملک کے معروف اکابر علماء کرام وچترویدی نے خطاب کیا،پروگرام کا آغاز قاری انظار صاحب ثاقبی مدرس مدرسہ تحفیظ القرآن راجا بازار پٹنہ کی تلاوت قرآن کریم سے ہوا اور نعت نبی کا نذرانہ سب سے پہلے ننھا شاعر شاہ عمر سہرساوی نے پڑھا۔ پروگرام کی صدارت حضرت مفتی جنید عالم صاحب قاسمی سابق صدر مفتی امارت شرعیہ بہار کررہے تھے اور سرپرستی حضرت مولانا فیاض الدین صاحب قاسمی وحضرت مولانا جمال الدین صاحب قاسمی فرمارہے تھے جبکہ نظامت کے فرائض حضرت مولانا لطف الرحمن صاحب قاسمی صمدانی علیگ سہرسہ و حضرت مولانا فیاض صاحب اظہری ڈھاکہ مشرقی چمپارن کررہے تھے 
جس میں امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ کے نائب ناظم اور ہفت روزہ نقیب کے مدیر،کاروان ادب اور اردو میڈیا فورم کے صدر حضرت مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے اپنے بیان میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قران کریم کی پہلی آیت علم پر نازل فرمائ اس کا مطلب ہے کہ سماج میں جتنی برائیاں ہیں انہیں دور کر نے میں کلیدی کردار تعلیم کا ہےوہ یہاں میگھوا ضلع مشرقی چمپارن میں سیرت النبی واصلاح معاشرہ کانفرنس سے خطاب فرما رہے تھےمفتی صاحب نے امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب نور اللہ مرقدہ کے حوالہ سے  یہ بات بتائی کہ اس دور میں اگر ہمارے بچے نہیں پڑھ پارہے ہیں تو یہ بے کسی و بے بسی کا معاملہ نہیں ، بلکہ بے حسی کا ہے ،  انہوں نے کہا:تعلیم حاصل کرنے کے لئے غربت و افلاس آج  مانع نہیں ہےدل میں سچی لگن ہوتو راستےخود بخود ہموار ہوتے چلے جاتے ہیں انہوں نے میزائل مین اے پی جی عبدالکلام کے تعلیمی دور کا واقعہ نقل کرتے ہوۓ فرمایا کہ انہوں نے کس کس طرح  دشوار گذار گھاٹی سے گذر کر اپنے آپ کو دنیا کے سامنے متعارف کرایا انہوں نے یہ بھی فرمایاتوجہ کوالٹی اور معیار پر دیجیےاسلیےکہ اگر اندر میں صلاحیت اور کوالیٹی بھری پڑی ہوگی تو دنیا ماننے پر مجبور ہوگی آج ہم صرف رونا روتے ہیں کہ ہمیں تعلیمی میدان اور سرکاری ملازمتوں میں  حق نہیں ملتا ۔کہاں سے ملے؟ جب ہماری کامیابی کا تناسب آئ  ایس آئ  پی اس میں ساڑھے چھ فیصد سے آگے نہیں بڑھ سکا بے،بی پی ایس سی کا اساتذہ بحالی امتحان ہوا اس میں ہماری اردو ، فارسی اور عربی کی بہت ساری سیٹیں خالی رہ گئیں بلکہ المیہ یہ رہا کہ عربی اور فارسی میں صرف انگلیوں پر گننے لائق  امیدوار ہی کامیاب ہو پاۓ  ،مفتی صاحب نے میگھوا کے لوگوں کو تعلیمی میدان میں کام کرنے  پر توجہ دینے کے لئے  درخواست کی۔جلسہ سے خطاب کرتے ہوۓ مفسر قرآن حضرت مولانا راشد وحید صاحب قاسمی ناظم مدرسہ رفاہ المسلمین سیتاپور لکھنؤ نے سامعین کو بتایا کہ حضرت آدم علی الصلوٰۃ والسلام سے لیکر حضرت محمّد صلی اللہ علیہ وسلم تک۔ تمام انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی ایک مشن تھی کہ تم خدا کو ایک تسلیم کرلو تم دونوں جہاں میں کامیاب ہوجاؤگے مرنے کے بعد کی کامیابی یہ ہے کہ تم کو جنت ملے گی اور دنیاوی کامیابی یہ ہے کہ رزق کی تنگی کو اللہ تعالٰی دور کردیں گے اور سکون والی زندگی نصیب فرمائیں گے ۔حضرت مولانا و مفتی جنید صاحب قاسمی سابق صدر مفتی امارت شرعیہ بہار وصدر جلسہ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ اصلاح مستورات کے حوالے سے کہ اگر عورتیں چار کام کرلے تو جنت میں داخل ہو گی ۔نماز کی پابندی ،روزہ کی پابندی ،شوہر کی اطاعت ،اپنی عزت کی حفاظت ‌۔حضرت مولانا محمد نظر الہدیٰ صاحب قاسمی ویشالی نے فرمایاکہ بیٹیوں کی پیدائش پر والدین اور دیگر رشتہ داروں کے چہرے اتر جاتے ہیں اور ان کی پیشانی سکڑ جاتی ہے، اس کے پس منظر پر ہمیں غور کرنا چاہیے ایسا آخر کیوں ہوتا ہے اگر لوگ بیٹی والے سے شادی کے موقع پر خطیر رقم نہ لے کر شادی کو سادگی سے منانے کا اہتمام کریں اور لڑکا بھیک نہ لے کر اپنی بازو کی طاقت سے  ضروریات کی سامان کوسجانے کے بعد آنے والی مہمان بچی کا استقبال کرنے کی عام فضا قائم ہوجائے تو ان شاءاللہ بیٹیوں کی پیدائش پر بھی والدین اور دیگر رشتہ داروں کو وہی خوشی محسوس ہوگی جو بیٹوں کی پیدائش پر ہوتی ہے اور انہوں نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی تخلیق میں مقصد تخلیق "عبدیت" رکھا ہے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری پوری زندگی ہمارا اٹھنا بیٹھنا ،سونا، کھانا پینا سب عبادت میں شمار ہوتو اس کے لیے سنت نبوی کو مضبوطی سے پکڑکر زندگی گذارنا ہوگا اور یہ کوئ مشکل امر نہیں ہے تھوڑی سی غور وفکر اور توجہ سے ہم اپنی زندگی کے نشیب وفراز کو سنت نبوی کا خوگر بنا سکتے ہیں ۔حضرت مولانا صدرے عالم صاحب قاسمی نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ تعلیم ہی کے ذریعہ ہمارے سماج کی اصلاح ممکن ہے تعلیم ہی غربت و افلاس مٹے گا ۔مولاناکے خطاب کے دوران پروفیسر ریاض احمد صاحب میگھوا نے میگھوا کے مسلمانوں کی دینی و عصری تعلیم کیلئے چار کٹھ زمین وقف کرنے کا اعلان کیا جس کی تعمیر کیلئے انکے بہائی ڈاکٹر تنویر احمد صاحب میگھوا نے ایک لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ۔حضرت مولانا سالم عبد اللہ صاحب چتر ویدی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انسانیت کی قدرکرنا سیکھیں اسی میں امت کی بھلائی ہے کیونکہ یہ امت خیر امت ہے اور جانوروں جیسے صفات سے اپنے آپ کو بچائیں حضرت مفتی محفوظ الرحمن صاحب قاسمی ناظم مدرسہ سراج الحق سیوان نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ آپ ﷺ سے محبت یہ انسان کے لیے سعادت کی بات ہے لیکن یہ محبت ، اور محبت کا دعویٰ صحیح معنوں میں اس وقت مفید اور کارآمد ہوگا جب اس محبت کے بعد نبی کی اطاعت پورے طور پر قبول کرلے اگر ہم نبی کی سنتوں کو عملی زندگی میں داخل نہیں کریں گے تو صرف نبی سے محبت و عقیدت رکھنا ہی کافی نہیں ہوگا انسان کی نجات کیلئے، دوسری بات اصلاح معاشرہ کے تعلق سے یہ فرمایا کہ اگر‌ہم واقعتا چاہتے ہیں کے ہمارے معاشرے کا اصلاح ہوجائے تو اپنی ذات سے اور اپنے گھر سے شروع کرنی پڑیں گی گھر کے ماحول کو دینی بنانا یہ ہر انسان کا ذمہ داری ہے ہماری ذمہ داری صرف نماز پڑھنا روضہ رکھنا نہیں ہے بلکہ اپنے بیوی بچوں کو بھی دین دار بنانا انکے اندر اچھی صفات کو منتقل کرنا یہ ہماری ذمہ داری ہے آج ہم لوگ اپنی اولاد کی طرف سے گھر والوں کے دین کی طرف سے بالکل لاپرواہ ہوچکے ہیں بچے کنوینٹ اسکول میں پڑھ رہے ہیں۔ انکو کیا پڑھایا جارہا ہے کیا سکھایا جارہا ہے انکی کیسی تربیت کی جارہی ہے والدین کو اس کی کوئی فکر نہیں ٹھیک ہے اپنے بچوں کو جو پڑھاناہے پڑھائے ڈاکٹر بنائے انجنیئر بنائے لیکن اس کے بارے میں فکر مند رہےکہ انکا دین بھی باقی رہے انکے اندر دینی مزاج پیدا کیاجائے دینی شعور انکے اندر پیدا کیاجائے اسلامی عقائد کے پہچان ہو اور یہ ساری چیزیں ہوں گی اس وقت جب انکو دینی تعلیم سے آراستہ کیاجائے تو ہربچےکےلیے جو اسکول کالج جارہا ہے اس کے لیے دینی تعلیم کا اور دینی ماحول کا نظم کرنا ہر والدین کی ذمہ داری ہے اگر ہم نے کرلیا تو انشاءاللہ ایک گھر سے دوسرے گھر ایک محلے سے دوسرے محلے تک اصلاح ہوتی چلی جائے گی اس طرح ہمارا پورا معاشرہ درست ہوجائے گا،حضرت مولانا جاوید عالم صاحب قاسمی جنرل سکریٹری جمعیت علماء مشرقی چمپارن نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ ہر محلہ ہر گاؤں میں مضبوط مکتب کا نظام ضروری ہے بھلے آدھی پیٹ کھائے لیکن اپنے بچوں کو ضرور تعلیم سے آراستہ کریں اور اپنے علمائے کرام وحفاظ عظام کی تنخواہوں کا معیار اعلی کریں کم از کم سکچھامتر ٹیچر کے مساوی تنخواہ دے ۔حضرت ہی کی دعاء پر پروگرام کا اختتام ہوا ۔جس میں دور دراز اور قرب وجوار کے علماء کرام کچھ علماء کرام کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔ (مولانا عبد القدیر صاحب مظاہری میگھوا ۔مولانا نذر المبین صاحب ڈھاکہ ۔مولانا محبوب عالم صاحب قاسمی ناظم مدرسہ خیر العلوم کنڈواں کسریا۔مولانا افروز صاحب ندوی ۔مولانا طفیل صاحب قاسمی صدر المدرسین مدرسہ اسلامیہ پہنہرہ۔قاری توفیق صاحب مدرس مدرسہ بستان رحمت محی الدین پور سیوان۔مفتی عبد الرحمٰن صاحب قاسمی ناظم مدرسہ جامعہ عربیہ دار السلام چرگاہاں مشرقی چمپارن۔مولانا عرفان صاحب۔مولانا تبریز صاحب۔مولانا حبیب اللہ صاحب قاسمی۔مولانا نور الضحی صاحب مظاہری۔مولا‌نا اشفاق صاحب مظاہری۔مفتی عظمت اللہ صاحب قاسمی۔مولانا جمال الدین صاحب۔مظاہری )عوام و خواص۔سیاسی لیڈران :(جناب اسداللہ صاحب عرف بابو صاحب یووا جدیو نیتا صوبائی سکریٹری ۔جناب بدیع الزمان صاحب عرف چاند بابو 16کلیان پور ویدھا سبھا چھتر کے سابق ایم ۔ایل ۔اے امیدوار ۔جناب منوج یادو 16کلیان پور مشرقی چمپارن کے ویدھایک ۔جناب سچندر سینگ سابق ویدھایک 16کلیان پور مشرقی ۔جناب راشد جمال صاحب چکیا ۔جناب حفیظ اللہ صاحب الگھبنی ) مسلمان اور برادران وطن ہزاروں کی تعداد میں شریک ہوئے تمام مہمانوں کی ضیافت میگھوا، مٹھیا ،بہلول پور سسواسوب ،الگھبنی ۔اور مدرسہ فیض اقبال سسواسوب مشرقی چمپارن کے اساتذہ کرام مفتی صابر صاحب ناظم مدرسہ ۔مفتی شرف عالم صاحب ندوی ۔مفتی اقبال احمد صاحب قاسمی ۔حافظ نوشاد صاحب جامعی وطلبہ عزیز نے نمایاں کردار ادا کیا ۔ منتظمین جلسہ: مولانا کلام الدین صاحب کنوینر جلسہ ،مولانا شاہد ظفر صاحب قاسمی پیش امام وخطیب جامع مسجد میگھوا ۔مولانا سجاد صاحب قاسمی ۔مولانا ظہیر الدین صاحب مظاہری مدرس مدرسہ فیض اقبال سسواسوب ۔مولانا عبد الحکیم صاحب ندوی ۔مولانا عرفان صاحب ۔مولانا اخلاق صاحب ۔پرو فیسر ریاض احمد صاحب ۔ظفیر صاحب ۔رمضانی صاحب ۔الیاس صاحب ان سبھی حضرات کا انتہائی ممنون و مشکور ہیں جنہوں نے اس پروگرام کو شروع سے آخر تک کامیاب بنانے میں ساتھ دیا اللہ ان کو اس کا بہتر سے بہتر بدلہ دونوں جہاں میں عطاء فرمائے

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...