
ایسی اطلاع ہے کہ مہاراشٹرتعلیمی بورڈکے بھی بارہویں جماعت کے نتائج تیار ہوچکے ہیں لیکن سیلاب کی صورتحال کے پیش نظر کچھ مشکلات پیش آرہی ہیں اسلئے یہ نتائج آئندہ ماہ اگست کے پہلے ہفتہ سے ظاہر کئے جانے کی توقع ہے ۔
ایسی اطلاع ہے کہ مہاراشٹرتعلیمی بورڈکے بھی بارہویں جماعت کے نتائج تیار ہوچکے ہیں لیکن سیلاب کی صورتحال کے پیش نظر کچھ مشکلات پیش آرہی ہیں اسلئے یہ نتائج آئندہ ماہ اگست کے پہلے ہفتہ سے ظاہر کئے جانے کی توقع ہے ۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کورونا کی ڈیلٹا کی شکل پہلے ہندوستان میں سامنے آئی تھی جو اب مشرقی بحیرہ روم کے خطے کے 15 ممالک میں پھیل چکی ہے۔مشرقی بحیرہ روم کا خطہ مراکش سے لے کر پاکستان تک صومالیہ اور سعودی عرب تک وسیع و عریض رقبہ پر محیط ہے اور اس میں فلسطینی علاقوں کے علاوہ 21 دیگر ممالک بھی شامل ہیں اور اس خطے کی آبادی تقریباً 68 کروڑ ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ڈیلٹا‘ کی تبدیل شدہ کرونا کی نئی شکل مشرقی بحیرہ روم کے خطے میں بڑھتی ہوئی تعداد میں کووڈ۔19 انفیکشن اور اموات میں اضافہ ہوا ہے۔بیان میں مشرقی بحیرہ روم کے ڈبلیو ایچ او کے ریجنل ڈائریکٹر ڈاکٹر احمد المنظری کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ نئے کیسز ان افراد کے ہیں جنہوں نے اب تک ویکسین نہیں لگوائی۔
حکام نے اپنی ’ناکامی‘ پر ونے والی تنقید کے دوران شہر بھر میں جانچ بھی شروع کر دی ہے۔زن ہوا نیوز کے مطابق اس شہر کی تمام آبادی، جو 93 لاکھ بنتی ہے، اور اس شہر میں آنے والے تمام افراد کی جانچ کی جائے گی۔حکام کا خیال ہے کہ موجودہ وبا کا تعلق وائرس کی انتہائی تیزی سے پھیلنے والی قسم ڈیلٹا سے ہے اور یہ اس وجہ سے بھی پھیل گیا ہے کیونکہ اس کا سراغ ایک انتہائی مصروف ایئرپورٹ پر ملا۔
ہوائی اڈے کی انتظامیہ کی سرزنش کی گئی ہے اور کمیونسٹ پارٹی کی ایک باڈی نے کہا ہے کہ ایسا ’نگرانی کے فقدان اور غیر پیشہ ورانہ انتظام جیسے مسائل‘ کی وجہ سے ہوا۔
ٹیسٹنگ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ وائرس دارالحکومت بیجنگ سیمت کم از کم 13 شہروں میں پھیل چکا ہے۔تاہم گلوبل ٹائمز کے مطابق کچھ ماہرین کے خیال میں یہ وبا ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے اور اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔نانجنگ کے مقامی حکام کے مطابق وائرس سے متاثر ہونے والے سات افراد کی حالت نازک ہے۔ ان کیسوں میں اضافے کے نتیجے میں کچھ لوگ چین کے سوشل میڈیا پر قیاس آرائی کر رہے ہیں کہ کیا چینی ویکسینیں وائرس کی ڈیلٹا قسم کے خلاف مؤثر ہیں۔ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ متاثرہ افراد کو ویکسین لگ چکی تھی یا نہیں۔یاد رہے کہ چینی ویکسینوں پر انحصار کرنے والے جنوب مغرب ایشیا کے کئی ممالک نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ دوسری ویکسین کی خوراکوں کو بھی استعمال کریں گے۔
عالمی وبا کا ابتدائی مرکز ووہان
ووہان چین کا وہ شہر ہے جہاں سب سے پہلے وائرس کا پتہ چلا تھا اور اسی شہر میں اس پر سب سے پہلے قابو پایا گیا تھا۔چین کا یہ کہنا ہے کہ اگرچہ ووہان شہر میں وبا کا پہلا کلسٹر سامنے آیا تھا مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وبا کا آغاز اس شہر سے شروع ہوا تھا۔چین کی یہ کوشش بھی ہے کہ وہ دنیا کی اس سوچ کو تبدیل کرے کہ اس وائرس کی ابتدا چین سے ہوئی۔
چینی حکام پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انھوں نے ابتدا میں دنیا سے اس وائرس کو چھپایا تھا تاہم چین کا ریاستی میڈیا یہ دعوے بھی کرتا رہا ہے کہ اس وبا کا آغاز چین کے باہر سے ہوا تھا، شاید سپین، اٹلی اور یہاں تک کہ امریکہ میں۔
انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ چین میں یہ وائرس منجمد خوراک (فروزن فوڈ) کے ذریعے پہنچا تاہم ماہرین اس دعوے کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
کیا مستقبل میں کبھی ایسا ممکن ہوسکے گا کہ انڈیا کے ثقافتی افق پر تین بڑے ستارے ایک خاص مذہب سے تعلق رکھتے ہوں گے؟ کیا آج کے انڈیا میں بالی ووڈ کے تین خانوں شاہ رخ، سلمان اور عامر خان کا مستقبل پہلے کی طرح تابناک رہے گا اور کیا وقت اور بدلتے دور کے تقاضوں ساتھ ان تینوں کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے؟
یہ اور ایسے ہی کچھ سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے مصنفہ اور صحافی کاویری بامزئی نے اپنی کتاب ‘تھری خانز اینڈ دی ایمرجنس آف نیو انڈیا’ میں۔ویب سائٹ بالی ووڈ ہنگامہ کے فریدوں شہریار کے ساتھ بات چیت میں کاویری کا کہنا تھا کہ ان تینوں نے کامیابیوں کی بلندیوں تک پہنچنے سے پہلے ایک طویل سفر طے کیا اور غربت کے دن بھی دیکھے ہیں لیکن آج ان میں سے ایک ممبئی کے مینشن میں رہتا ہے دوسرے کا گھر، گیلکسی اپارٹنمٹ، ممبئی کا لینڈ مارک بن چکا ہے اور تیسرا اپنی شرطوں پر کام کرتا ہے لیکن اتنی کامیابی اور شہرت کے باوجود انھیں ان کے مذہب کے نام پر تنقید اور ٹرولز کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
کاویری کا کہنا تھا کہ یہ تینوں کسی زمانے میں حکومت، سیاست اور سماجی امور پر کھل کر بات کرتے تھے لیکن جس طرح ان پر تنقید اور دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوا تو وہ پیچھے ہٹتے چلے گئے۔
لوگ انھیں بزدل کہہ سکتے ہیں لیکن یہ سب جھیلنے کے لیے ہمت کی ضرورت ہے کیونکہ جب کسی فلم کا سیاسی بائیکاٹ ہوتا ہے، جس طرح شاہ رخ کی فلم ‘مائی نیم از حان’ کا ہوا تھا، تو صرف ہیرو نہیں بلکہ فلم سے وابستہ پورے عملے کا نقصان ہوتا ہے۔کاویری نے شاہ رخ کے اس بیان کا حوالہ دیا کہ جس میں انھوں نے کہا تھا: ‘ہمیں پاکستان ہی بھیجنے کی بات کیوں کی جاتی ہے، مجھے پاکستان ناپسند نہیں لیکن کسی ایسی جگہ کیوں نہیں بھیجتے جہاں کا موسم بھی اچھا ہو اور نظارے بھی۔’کاویری کا کہنا تھا طنز اور تنقید کو مذاق میں اڑانے کے علاوہ ان کے پاس اور کیا راستہ ہو سکتا ہے؟
ویسے بھی انڈیا میں پاکستان لفط تو ‘گناہ’ کے مترادف ہو چکا ہے۔ جب سلمان خان نے کہا تھا کہ پاکستانی فنکار دہشت گرد نہیں تو انھیں شدید تنقید جھیلنی پڑی اور انکے پوسٹر جلائے گئے۔کاویری کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان تینوں خانوں کو نئے دور کے نئے تقاضوں اورچیلنجز کے ساتھ بدلنے کی ضرورت ہے کیونکہ انڈین سنیما بدل رہا ہے نئی سوچ اور نئے انداز کی فلمیں اور کردار لکھے جا رہے ہیں پرانی فلموں کے سیکوئل اب اولڈ فیشن ہوتے جا رہے ہیں۔ایک نئی سوچ اور منفرد انداز کا سنیما لوگوں کو پسند آ رہا ہے۔ایسے میں اگر یہ تینوں وقت کی رفتار کے ساتھ نہیں چلے تو پیچھے رہ جائیں گے کیونکہ اب روایتی فلموں اور ہیرو کے گرد گھومنے والی فلموں کا زمانہ ختم ہو رہا ہے۔
آج کل عامر خان اپنی طلاق کے حوالے سے ٹرولز کے نشانے پر ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا بالی ووڈ میں یہ پہلی اور آخری طلاق ہے کیا اس سے پہلے کسی سٹار کی طلاق نہیں ہوئی حالانکہ جن کے درمیان طلاق ہو رہی ہے وہ آج بھی اچھے دوستوں کی طرح ساتھ کام کر رہے ہیں۔لیکن کچھ لوگ سوشل میڈیا پر غم و غصے کا اظہار کرتے نہیں تھک رہے۔اسے کہتے ہیں ‘بیگانی طلاق میں عبداللہ دیوانہ۔’ادھر اداکارہ شلپا شیٹی اپنے شوہر کے جیل جانے کے بعد سے کسی حد تک خاموش ہی ہیں حالانکہ ‘پورن مواد’ یا فلموں کے حوالے سے ان سے بھی پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔جمعرات کو ان کے شوہر اور تاجر راج کندرہ کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی گئی۔ اٹارنی جنرل نے ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک با اثر شخصیت ہیں اور جیل سے باہر نکل کر وہ گواہوں اور انکوائری کو متاثر کر سکتے ہیں۔
ایسے میں شلپا شیٹی کے قریبی لوگوں کا کہنا ہے کہ شلپا کو اس بات کا خوف ہے کہ اگر انھیں بھی گرفتار کر لیا گیا تو ان کے دو چھوٹے چھوٹے بچوں کا کیا ہوگا۔ شلپا اور راج کندرہ کے دو بچے ہیں ان کا بیٹا ووان نو سال کا ہے جبکہ بیٹی شمیشا کی عمر صرف ایک سال ہے۔اس کیس کے حوالے سے بالی ووڈ میں تقریباً خاموشی چھائی ہوئی ہے اور بہت ہی کم لوگوں نے اس بارے میں بات کی، علاوہ شرلین چوپڑہ کے۔
مولانا خلیل الرحمان قاسمی برنی کی تحریر کے مطابق ’’مولانا محترم کی پیدا ئش قصبہ سنبھل،ضلع مراد آباد میں۴‘جنوری ۱۹۵۰ کو ہو ئی، آپ کے والد محترم کا اسم گرامی نصیر احمد تھا جو کہ ایک خوش اطوار، خو ش مزاج، رقیق القلب، متواضع، سادگی پسنداور تمکنت سے خالی انسان تھے، وہ ایک خوش گو شا عر بھی تھے۔آپ نے اپنے گھر کے قریب مدرسہ ‘خیر المدارس سے تعلیم کا آغازکیا۔ اس وقت وہاں حضرت مفتی محمد آفتاب علی صاحب مدرس تھے،کچھ دنوں بعد حضرت مفتی آفتاب علی خان صاحب ‘مدرسہ شمس العلوم منتقل ہو گئے، تو آپ بھی وہیں چلے گئے۔ اس مدرسہ میں آپ نے حافظ فرید الدین صاحب سے قرآن کریم حفظ کی تکمیل کی۔
فارسی اور ابتدائی عربی سے شرح جا می تک کی تمام کتب حضرت اقدس مو لانا مفتی محمد آفتا ب صاحب سے پڑھیں اور پھر ۱۹۶۸میں دارالعلوم دیوبند چلے گئے۔آپ بچپن ہی سے بڑے ذہین طباع اور غیر معمولی دماغی قوت و صلاحیت سے معمور تھے، اس لئے زمانہ طا لب علمی میں ہی ‘دارالعلوم دیوبند پہونچ کر آپ کے علمی گوہر کھلنے لگے، اور اسی بنیاد پر آپ ہمیشہ اپنے ہم درسوں اور ہم چشموں سے ممتاز رہے،کم وبیش پانچ سال آپ دارالعلوم دیوبند میں رہے اس دوران آپ نے اپنے تمام اوقات کو تعلیمی مشاغل میں ہی صرف کیا،اسباق کی پا بندی، مطا لعہ میں انہماک، اساتذہ وآلات علم کا مکمل احترام اور اعمال پر مواظبت جیسے عمدہ اوصاف آپ کی علامت تھے۔دارالعلوم دیوبند کے زمانہ قیام میں کتب متداولہ کی تکمیل وقت کے عبا قرہ ٔ فن اور اساطین علم کے سا منے ہو ئی، جس میں بخاری شریف حضرت مو لانا فخرالدین صاحب مرادآبادی ؒ،حضرت مو لانا قاری محمد طیب صاحب ؒ،حضرت مو لانا مفتی محمود الحسن صاحب ؒ اور حضرت مولانا شریف الحسن صاحب سے پڑھی، حضرت مولانا نصیر احمد خان صاحب ؒ سے طحاوی شریف اور التصریح پڑھی۔۱۹۷۲ دورہ حدیث شریف میں تیسری پو زیشن سے کا میا بی حاصل کی۔ادب سے دلچسپی شروع ہی سے تھی اس لئے ہمیشہ امتحان کے جوابات عربی میں لکھے، فراغت کے بعدایک سال تکمیل ادب میں رہ کر حضرت مولانا وحیدالزماں صاحب کیرانویؒ سے خصوصی استفادہ کیا۔آپ کی تد ریسی زندگی کاآغاز ۱۹۷۳میں ‘خادم الاسلام،ہا پوڑ سے ہوا، چھ سال تک آپ اپنی علمی ضیا پا شیوں سے خادم الاسلام کی فضاء کو منور کر تے رہے،اس دوران آپ کی تدریسی صلاحیت، عمدہ استعداد اور تبحر علمی کے چرچے بہت دور تک ہو نے لگے تھے۔۱۹۷۹ میں مدرسہ جا مع الہدی مرادآباد کی خد مات کے لئے منتخب کئے گئے، یہاں ۳/ سال تک بحسن وخوبی تدریسی خد مات انجام دیں۔اس کے بعدآپ ازہر ہند دارالعلوم دیوبند میں تدریسی خدمات کے لئے منتخب کر لئے گئے، دارالعلوم دیوبند میں آپ کا تقرر ۱۹۸۲میں ہوا اس وقت سےآج تک ۳۹ سال تک دارالعلوم کی خدمت کی۔ مولانا کامیاب مدرس، بہترین قلم کا ر ہو نے کے ساتھ بہت اچھے مقرر بھی تھے۔آپ کی تقریر یں صاف شستہ سلجھی ہو ئی اور مؤثر ہو تی تھیں متعدد مر تبہ آپ دارالعلوم دیوبند کے نا ظم امتحان رہے اور برسوں دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم بھی رہے۔آپ نے کئی مو ضوعات پر قلم اٹھا یا ہے، چنانچہ کئی عمدہ کتا بیں
آپ کے رشحات قلم سے صادر ہو کر منظر عام پر آچکی ہیں اور علمی حلقوں سے داد تحسین حاصل کر چکی ہیں،ان میں فتاوی عالمگیری جز ۵۱/ (کتاب الایمان)کا تر جمہ تحسین المبانی فی علم المعانی میں ضمیمہ کا اضافہ، عبد المجید عزیز الزندانی الیمنی کی کتاب ‘التوحید کا تر جمہ جو تقریباً 500/صفحات پر مشتمل ہے اور پانچ حصوں پر مشتمل رد مودودیت پر محاضرے جو دارالعلوم دیوبند کی جانب سے شائع کئے گئے‘‘۔ علم و عمل کا یہ حسین سنگم ۳۰؍ جولائی ۲۰۲۱ کو ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ (آمین)
محمد احمد خان فتح پور میں پوکسو کورٹ میں خصوصی جج کے عہدہ پر تعینات ہیں۔ وہ جمعرات کو کسی ذاتی کام سے پریاگ راج گئے تھے۔ وہاں سے شام کو وہ فتح پور لوٹ رہے تھے۔ وہ ابھی کوکھراج کے چکواں چوراہے کے قریب ہی پہنچے تھے کہ ان کی کار کو تیز رفتار اینووا نے ٹکر مار دی۔ حادثہ کے بعد آس پاس کے لوگوں کی مدد سے ملزم ڈرائیور کو گاڑی سمیت پکڑ لیا گیا۔
اے ڈی جے نے کوکھراج پولیس کو دی گئی اپنی شکایت میں الزام لگایا ہے کہ ان کی کار کو تیز رفتار اینووا نے جان سے مارنے کے ارادے سے ٹکر ماری۔ کوکھراج انسکٹر گیان سنگھ یادو نے کہا کہ شکایت ملی ہے اور جانچ جاری ہے۔ اے ڈی جے نے اپنی شکایت میں کہا کہ انھیں پہلے بھی دھمکیاں ملی تھیں۔ بریلی میں پوسٹنگ کے دوران دسمبر 2020 میں کسی جرائم پیشہ کی ضمانت خارج کرنے پر فیملی سمیت جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی تھی۔ جرائم پیشہ کوشامبی کا رہنے والا تھا۔
اس واقعہ کی اطلاع کے فوری بعد مادھاپور پولیس لیمن ٹری ہوٹل پہنچ گئی اور اس ہوٹل کے جس کمرہ میں یہ واردات پیش آئی ہے کا تفصیلی معائنہ کیا۔اور ہوٹل انتظامیہ سے تفصیلات حاصل کیں۔پولیس کی ابتدائی تحقیقات میں واضح ہوا ہے کہ راملو اور سنتوشی نے کل 28 جولائی کی دوپہر اس #ہوٹل میں ایک کمرہ حاصل کیا تھا۔آج #عاشق راملو نے ریزر بلیڈ سے اپنی #معشوقہ سنتوشی کا گلا کاٹ کر اس کا #قتل کرنے کے بعد #نعش کو باتھ روم میں ڈال دیا اور خود ہوٹل کے کمرے میں پھانسی لیکر خودکشی کرلی۔
اس واقعہ کے سلسلہ میں مادھاپور پولیس نے سنتوشی اور راملو کے افراد خاندان کو اطلاع دے دی ہے۔عاشق راملو کی جانب سے #معشوقہ کے قتل اور اس کی خودکشی کی وجوہات کا علم نہیں ہوپایا ہے۔مادھا پور #پولیس اس سلسلہ میں ایک کیس درج رجسٹر کرکے مصروف تحقیقات ہے۔
ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے! Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...