Powered By Blogger

جمعرات, اگست 05, 2021

بی جے پی کے لوگ ’مینی فیسٹو‘نہیں بلکہ ’منی فیسٹو‘بناتے ہیں: اکھلیش یادو

بی جے پی کے لوگ ’مینی فیسٹو‘نہیں بلکہ ’منی فیسٹو‘بناتے ہیں: اکھلیش یادو

akhileshyadav

لکھنؤ،5؍اگست:(اردواخباردنیا)سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے صدر اکھلیش یادو نے جمعرات کو دعویٰ کیا کہ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے اترپردیش کے لوگوں کی ناراضگی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ایس پی ریاست میں آئندہ اسمبلی انتخابات میں 400 سیٹیں جیتے گی۔ ایس پی صدر نے بی جے پی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف اپنی #سائیکل یاترا شروع کرنے سے پہلے ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیاکہ حکومت ہر مسئلے پر ناکام ہوچکی ہے۔

اب تک ہم 350 بولتے تھے لیکن جس طرح کا غم و غصہ عوام میں ہے، شایدہم 400 سیٹیں جیتیں گے۔ آج صورت حال ایسی ہے کہ بی جے پی کے پاس امیدوار کم پڑجائیں گے۔ امیدوار ٹکٹ کا مطالبہ ہی نہیں کریں گے۔ اکھلیش نے کہا کہ گزشتہ اتوار کو مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے مرزا پور میں ایک ریلی میں کہا تھا کہ ریاست کی بی جے پی حکومت نے سال 2017 میں جاری ہونے والے پارٹی کے انتخابی منشور کا ہر وعدہ پورا کیا ہے۔

لیکن سچ یہ ہے کہ بی جے پی نے ابھی تک اپنا #منشور کھول کر نہیں دیکھاہے۔انہوں بی جے پی پر سیاست کو عوامی خدمت نہیں بلکہ کاروبار کا ذریعہ بنانے کا الزام لگاتے ہوئے کہاکہ بی جے پی کے لوگ ’مینی فیسٹو نہیں بلکہ منی فیسٹوبناتے ہیں۔ سیاست ان کے لیے ایک کاروبار ہے۔ عوام نے بی جے پی کا دھوکہ دیکھا ہے۔

ریاست کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت پر کورونا وبائی امراض کے دوران جان بچانے میں مکمل طور پر ناکام ہونے کا الزام لگاتے ہوئے سابق وزیر اعلی اتر پردیش نے کہا کہ پوری حکومت اور انتظامیہ نے عوام کو دھوکہ دیا اور بڑی تعداد میں لوگ ہلاک ہوئے۔

#اکھلیش نے اتر پردیش کو غذائی قلت، گنگا میں لاشیں بہانے، لاشوں سے کفن ہٹانے، کورونا وبا کے دوران ادویات کی بلیک #مارکیٹنگ، #پنچایت #انتخابات میں ڈیوٹی کرتے ہوئے اساتذہ کی اموات ، بے گناہ لوگوں کو جیل میں ڈالنے، خاص طور پرریاست کی بی جے پی حکومت کو مذہب اور ذات کے نام پر لوگوں پر مظالم کا ذمہ دار ٹھہرایا ، بڑے بڑے پوسٹرز اور ہورڈنگز لگا کر اپنی ناکامی کو چھپایا اور حراست میںموت کے معاملے میں اسے نمبر ون ریاست قرار دیا۔

‎یہ ڈرامہ نہیں تو اورکیا ہے: ایس پی کی سائیکل یاترا پر مایاوتی برہم ‏

یہ ڈرامہ نہیں تو اورکیا ہے: ایس پی کی سائیکل یاترا پر مایاوتی برہم

mayavati

نئی دہلی،5؍اگست:(اردواخباردنیا)اترپردیش اسمبلی انتخابات کی سرگرمیوں کے درمیان ریاست میں مختلف مقامات پر برہمن کنونشن کا اہتمام کررہی بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کی صدر مایاوتی نے سماج واد کے لیڈر جنیشور مشرکی سالگرہ کے موقع پر جمعرات کو سائیکل یاترا نکال رہی سماج وادی پارٹی کونشانہ بنا یا ہے۔ مایاوتی نے کہاکہ آنجہانی شری جنیشور مشرا کو ان کی برسی پر دل کی گہرائیوں سے خراج عقیدت ۔ لکھنؤ میں ان کے نام سے منسوب پارک بی ایس پی حکومت نے بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کے نام پر بنایا تھا، لیکن ایس پی حکومت نے ذات پات ،سوچ اور نفرت کی وجہ سے اس کا نام بھی نئے اضلاع وغیرہ کی طرح تبدیل کردیا، یہ کیسا احترام ہے؟

#مایاوتی نے کہاکہ #یوپی کے اضلاع میں بی ایس پی کے روشن خیال کی بے پناہ کامیابی کے بعد ایس پی کو اب بی جے پی حکومت کی طرف سے ستائے جانے والے شری جنیشور مشرا اور ان کے معاشرے کی یاد آئی ہے۔ یہ سب ان کی سیاسی خود غرضی اور سستی مقبولیت کے لیے ڈرامہ نہیں ہے تو پھر کیا ہے؟ یہ بات قابل ذکر ہے کہ آنجہانی #سینئر سوشلسٹ لیڈر جنیشور مشرا جو چھوٹے لوہیا کے نام سے مشہور ہیں۔

ان کی #سالگرہ کے موقع پر ایس پی صدر #اکھلیش یادو جمعرات کو دارالحکومت لکھنؤ میں سائیکل یاتراکر رہے ہیں۔ پارٹی کے مطابق یہ یاترا ریاست کی بی جے پی حکومت کی خراب #پالیسیوں کے خلاف عوام کی آواز بلند کرنے کے مقصد سے نکالی جارہی ہے۔

بریکینگ نیوز:ریاست میں کالجس شروع کرنے کافیصلہ

ممبئی:5اگست (اردو اخبار دنیا)حکومت مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ تعلیم و تکنیکی تعلیم شری اودئے سامنت نے آج یہاںاخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ریاست میں کالجز دوبارہ شروع کرنے پر غورکیاگیاہے اور 15ستمبرتا یکم اکتوبر کے درمیان ریاست بھر میں تمام کالجز کھول دئےے جائیںگے ۔

انھوں نے بتایا کہ یونیورسٹیز کے وائس چانسلر ز کوہدایت دی گئی کہ وہ متعلقہ اضلاع کے ضلع کلکٹر سے تبادلہ خیال کرکے اندرون آٹھ یوم اپنی رپورٹ انھیں روانہ کریں جس کے بعدتمام حالات کومدنظررکھتے ہوئے 15ستمبرتا یکم اکتوبر کے درمیان ریاست بھر میں تمام کالجز کھول دئےے جائیںگے ۔

آرٹیکل 341 میں مذہبی امتیاز کیوں؟ مستقیم صدیقی

آرٹیکل 341 میں مذہبی امتیاز کیوں؟ مستقیم صدیقی

(اردو اخبار دنیا)
نواده محمد سلطان اختر


 آئین آرٹیکل نمبر 341 میں صدر کو اختیار دیتا ہے کہ مختلف ذاتوں اور قبائل کے نام ایک فہرست میں شامل کرے۔ 1950 میں صدر نے ایک آرڈیننس کے ذریعے ایک شیڈول جاری کیا صرف اس شیڈول میں درج ذاتوں اور قبائل کو شیڈولڈ کاسٹ اور شیڈولڈ ٹرائب کہا گیا ہے۔
 صدر کے آرڈیننس کے پیرا (3) میں لکھا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص جو ہندو مذہب سے تعلق نہیں رکھتا وہ درج فہرست ذات اور فہرست قبائل کا مقام حاصل نہیں کر سکتا۔ 1956 میں اس آرڈیننس میں ترمیم کرکے سکھوں کو شامل کیا گیا اور 1990 میں بودھ مذہب والوں کو پیرا (3) میں شامل کر دیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی شخص ہندو سکھ یا بدھ مذہب سے تعلق نہیں رکھتا اسے درج فہرست ذات کے زمرے میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ اس طرح عیسائی ، مسلمان ، جین اور پارسی اس زمرے سے باہر ہیں۔ اس سے یہ بات صاف طور پر واضح ہے کہ اس حکم کے تحت درج فہرست ذاتوں کے لئے ریزرویشن صرف ہندو ، سکھ یا بودھ، دلتوں کے لئے ہی دستیاب ہے ، عیسائی یا مسلم دلت یا کسی دوسرے مذہب کے پسماندہ کے لئے نہیں ہے،
 آرٹیکل 341 آئین کے آرٹیکل نمبر 15 پر ایک بد نما داغ ہے کہ ہم یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ آئین مذہب کے نام پر تعصب رکھتا ، آئیں جاننے کی کوشش کرتے ہیں کیسے ہوا ہے؟ 

 نہرو حکومت کی طرف سے 10 اگست 1950 کو ایک آرڈیننس لا کر آئین میں کی گئی تبدیلیوں کا اثر یہ ہوا کہ مسلمانوں کی سب سے بڑی برادری جو اپنے آپ کو پاسمانده کہتی ہے مکمل طور پر ریزرویشن سے محروم کر دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو لوگ پاسمانده ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ سماجی ، معاشی اور سیاسی طور پر پسماندہ نہیں ہیں۔ حکومتیں آتی ہیں ، حکومتیں چلی جاتی ہیں ، سیاست پسماندہ کے نام پر کی جاتی ہے ، اقتدار والے پسماندہ کے نام پر یا اپوزیشن کے ڈر سے ایک یا دو سیٹیں دےدیتی ہیں، مالائی دار و لچھے دار باتوں کے ساتھ زندہ آباد کا نعرہ ہوتا رہتا ہے لیکن پسمانده کے مسائل کا کوئی حل نہیں نکالا جاتا، یہ سچ ہے کہ بہت سے مسائل ہیں اور صرف سیاسی جماعتیں ہی ہر مسئلے کو حل نہیں کر سکتیں ، لیکن میری نگاہ میں سب سے بڑا مسئلہ پسمانده کی شراکت کا ہے۔حصّہ داری کا ہے، جب ہم انصاف کی بات کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات بھی کرنی ہوگی کہ سیاست میں تعلیم کے میدان میں ، روزگار کے شعبے میں پسمانده سیکشن کی کتنی شراکت ہے؟ ہم پسمانده کے تمام مسائل کو دور نہیں کر سکتے لیکن ہم ایسے مسئلے کو دور کرنے کے لیے پہل کر سکتے ہیں جو سیاسی ہے ، جو غیر دستوری ہے ، جو آئین پر بد نُما داغ ہے ، لیکن ہم ایسا نہیں کرتے ، کیونکہ ہمیں اُس اِس،مندر مسجدِ کے نام پر گمراہ کر دیاجاتاہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر کوئی کھل کر بحث نہیں کرتا ، حالانکہ اس پر صرف بحث کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس مدے کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کی ضرورت ہے ، آرٹیکل 341 میں پابندی کو ہٹانے کی ضرورت ہے۔ آئین میں مذہب کے نام پر امتیازی سلوک کیوں ہے؟
 10 اگست 1950 کو اس وقت کی نہرو حکومت نے ایک غیر آئینی آرڈیننس کے ذریعے مذہبی پابندیاں عائد کیں اور ہندوؤں کے علاوہ دیگر مذاہب کے پسماندہ طبقات کو درج فہرست ذاتوں سے خارج کردیا تھا۔ لیکن سکھوں 1956 میں اور بودھ مذہب والوں 1990 اس زمرے میں دوبارہ شامل کر لیا گیا، دلت، مسلمان اور عیسائی آج بھی درج فہرست ذات کے ریزرویشن سے باہر ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب 1956 میں سکھوں کو دوبارہ اس زمرے میں شامل کیا گیا اور 1990 میں بودھ مذہب والوں کو دوبارہ اس زمرے میں شامل کیا گیا ، دونوں وقتوں میں مرکز میں حکومت برسر اقتدار تھیں وہ حکومت مسلم اکثریتی ووٹوں سے اقتدار میں آئی تھی،اُن پر پوری طرح سے انصاف پسند لوگوں نے دوبارہ دباؤ کیوں نہیں بنایا؟ اگر پسمانده سماج سے اُبھرے ہوئے کچھ لیڈروں نے اس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی تو پھر عام انصاف عوام اس پر خاموش کیوں رہے؟ بہت سے سوالات اٹھیں گے لیکن ہمیں اس مسئلے کو سوال سے زیادہ بحث کرنے کی ضرورت ہے ، ہمیں اسے ایک عوامی بحث کا مسئلہ بنانا ہوگا ، ہمیں اس بحث میں معاشرے کے ہر طبقے کا تعاون لینا ہوگا ، اس مسئلے کو ذات اور مذہب سے اوپر اٹھ کر کرناہوگا اِس پر حقوق و اختیار کا مدا بنانا پڑے گا۔ اس پر کھیت، کھلیان ، گلی سے لے کر علاقے تک ہر جگہ بحث کرنا ہوگا، اگر ہم اس بحث کو نظر انداز کر دیں تو یہ بہت بڑی نا انصافی ہوگی ، جو بحث کو سنجیدگی سے نہیں لیتا ، اسے آئین میں امتیازی سلوک کا علم نہیں ہے۔
 درج فہرست ذاتوں کے لئے ریزرویشن 1936 میں اس وقت کی برطانوی حکومت میں دیا تھا۔ کسی کا مذہبی پابندی نہیں تھی۔ اس طرح تمام مذاہب کے دلتوں کو درج فہرست ذاتوں کا ریزرویشن مل رہا تھا ، لیکن نہرو حکومت نے 10 اگست 1950 کو مذہبی پابندیاں عائد کیں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اس پر مسلط کر دیا۔ ابھی تک عیسائی، مسلمان ، جین اور پارسی اس زمرے سے باہر ہیں۔
 10 اگست 2021 سے اس پر مسلسل پروگرام منعقد کیئے جائیں گے ، بہار ، جھارکھنڈ اور بنگال میں اس پر بحث جاری کی جائے۔ ریزرویشن صرف نوکریوں میں نہیں ہوتا ، ریزرویشن عوامی نمائندوں کے انتخاب میں بھی ہے۔ یہ ملک کے ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر بحث شروع کرے اور اسے ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کرے۔ اور اسمیں ہر کسی کا جیسا بھی ہو تعاون کرے

ٹک ٹاک (Tik-Tok) کانیا فیچر متعارف

ٹک ٹاک (Tik-Tok) کانیا فیچر متعارف

نیویارک ،5؍اگست:(اردواخباردنیا)ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم ٹک ٹاک نے #اسنیپ چیٹ اسٹوریز کی طرز پر 24 گھنٹے میں اسٹوری غائب ہونے والے فیچر محدود پیمانے پر متعارف کرا دیا ہے۔اس فیچر سے ٹک ٹاک TikTok کی اسٹوری میں لگایا گیا مواد (content) 24 گھنٹے بعد خود غائب ہوجائے گا۔ٹک ٹاک نے ابھی تک اس فیچر کا باضابطہ اعلان نہیں کیا تاہم کچھ صارفین کو آزمائشی طور پر یہ فیچر مہیا کیا گیا ہے۔

#ٹک ٹاک کا یہ فیچر #سوشل #میڈیا کنسلٹنٹ میٹ نوارا نے بنایا ہے، انہوں نے سماجی رابطے کی سوشل ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹک ٹاک کے آنے والے نئے فیچر کا پوسٹ شیئر کیا۔اسٹوری کا یہ فیچر سب سے پہلے اسنیپ چیٹ نے متعارف کروایا تھا، اس کے بعد واٹس ایپ اور #فیس بک نے بھی متعارف کروایا جہاں اسٹوریز 24 گھنٹے بعد خود غائب ہو جاتی ہیں۔

خیال رہے کہ اس سے قبل ٹک ٹاک نے اپنے مد مقابل #ایپلیکیشنز سے سبقت لینے کے لیے ویڈیو کا دورانیہ بڑھا دیا ہے۔ ٹک ٹاک نے ویڈیو کا دورانیہ تین منٹ کردیا ہے جو پہلے سے تین گنا زیادہ ہے۔ٹک ٹاک #چین کی بائٹ ڈانس کی ملکیت ہے اور یہ دنیا میں مقبول ترین سوشل میڈیا ایپس میں سے ایک ہے۔

#دنیا کے 150 ممالک میں ٹک ٹاک کے ایک ارب سے زیادہ صارفین موجود ہیں۔ امریکہ میں اب تک 200 ملین سے زائد باراس ایپلی کیشن کو ڈاؤن لوڈ کیا جا چکا ہے۔

ایم آئی ایم کے بعد اب انڈین یونین مسلم لیگ نے اٹھایا بڑا قدم

() اردو اخبار دنیا

اتر پردیش میں اسمبلی انتخابات جیسے جیسے قریب آ رہے ہیں، نئی نئی سیاسی سرگرمیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ ایک طرف جہاں اسدالدین اویسی کی پارٹی اے آئی ایم آئی ایم نے چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ نیا محاذ تیار کر یو پی الیکشن میں اپنی چھاپ چھوڑنے کا عزم ظاہر کیا ہے، وہیں تازہ ترین خبروں کے مطابق انڈین یونین مسلم لیگ (آئی یو ایم ایل) نے بھی یو پی الیکشن میں اپنے امیدواروں کو اتارنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ آئی یو ایم ایل نے اعلان کیا ہے کہ وہ 103 اسمبلی سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارے گی۔

میڈیا ذرائع سے موصول ہو رہی خبروں کے مطابق مراد آباد میں آئی یو ایم ایل کی ریاستی ایگزیکٹیو کی ایک انتہائی اہم میٹنگ ہوئی جس میں فیصلہ لیا گیا کہ پارٹی یو پی اسمبلی الیکشن میں 103 سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرے گی اور انتہائی منظم انداز میں انتخابی تشہیر کا عمل انجام دیا جائے گا۔ انڈین یونین مسلم لیگ نے ایسی اسمبلی سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے جہاں مسلم ووٹروں کی تعداد زیادہ ہے اور کامیابی کی امیدیں روشن ہیں۔

یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ انڈین یونین مسلم لیگ کے کچھ لیڈروں نے اسدالدین اویسی کی پارٹی اے آئی ایم آئی ایم کے ساتھ مل کر انتخاب لڑنے کا اشارہ بھی دیا ہے۔ پارٹی کے قومی جوائنٹ سکریٹری مولانا قیصر حیات خان اور کارگزار ریاستی صدر ڈاکٹر نجم الحسن نے بتایا کہ انڈین یونین مسلم لیگ کی کئی سیاسی پارٹیوں سے اتحاد کی بات چل رہی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ہماری پارٹی پہلے بھی اے آئی ایم آئی ایم کے ساتھ مل کر یو پی میں الیکشن لڑ چکی ہے۔ ایسے میں ایک بار پھر دونوں پارٹیوں کے درمیان اتحاد قائم ہو سکتا ہے۔‘‘

قابل ذکر ہے کہ آئندہ سال ہونے والے یو پی اسمبلی انتخابات میں اے آئی ایم آئی ایم نے 100، پیس پارٹی نے 250 اور مسلم لیگ نے 103 سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ ایسے میں مسلم ووٹروں کو کون سی پارٹی اپنی طرف راغب کر پائے گی، یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔ یہ تینوں پارٹیاں سماجوادی پارٹی کے لیے بھی مشکلیں پیدا کر سکتی ہیں کیونکہ سماجوادی پارٹی بھی لگاتار مسلم ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کانگریس جنرل سکریٹری اور یو پی انچارج پرینکا گاندھی جس طرح سے دلتوں اور پسماندہ طبقات کی آواز اٹھا رہی ہیں، ساتھ ہی اقلیتی طبقہ کی فلاح کی بھی بات کر رہی ہیں، دیگر پارٹیوں کے لیے مسلم ووٹ حاصل کرنا بہت آسان نہیں ہوگا۔

ترکی میں تین ماہ بعد کورونا وائرس کے 25 ہزار سے زائد نئے معاملے، 122 افراد فوت

  • (اردو اخبار دنیا)

انقرہ: ترکی میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کورونا وائرس کے 26822 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جو 4 مئی کے بعد وائرس کے کیسز کا ایک دن کا سب سے زیادہ اعداد و شمار ہیں۔

ملک کی وزارت صحت نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ جولائی کے آغاز سے متاثرہ افراد کی تعداد میں پانچ گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ 16 اپریل کو ترکی میں ریکارڈ 63082 کیسز رپورٹ ہوئے اور اس کے بعد متاثرہ افراد کی یومیہ تعداد بتدریج کم ہوتی گئی۔

جون اور جولائی کے پہلے نصف میں یومیہ کیسز 5000-7000 پر مستحکم رہا تھا، لیکن جولائی کے وسط سے دوبارہ معاملے بڑھنے شروع ہوے۔ بیان میں کہا گیا کہ آج 262048 ٹسٹ کئے گئے اور کووڈ- 19 کے 26822 نئے کیسز رجسٹرڈ ہوئے اور 122 افراد کی موت ہو گئی۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...