Powered By Blogger

بدھ, اگست 11, 2021

امانت اللہ خان سابق چیف سکریٹری پر حملہ کرنے کے ملزم

امانت اللہ خان سابق چیف سکریٹری پر حملہ کرنے کے ملزم

امانت اللہ خان
امانت اللہ خان

(اردو اخبار دنیا)عام آدمی پارٹی کے رکن اسمبلی امانت اللہ خان کو سابق چیف سکریٹری پر حملہ کرنے کا مجرم پایا گیا ، سی ایم کیجریوال سمیت 9 ملزمان بری

 خصوصی عدالت نے عام آدمی پارٹی (اے اے پی) کے دو ایم ایل اے امانت اللہ خان اور پرکاش جاروال کو دہلی کے سابق چیف سکریٹری انشو پرکاش پر حملہ کرنے کا مجرم قرار دیا ہے۔ تاہم دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال ، نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا اور 9 دیگر عام آدمی پارٹی کے ارکان اسمبلی کو بری کر دیا گیا ہے۔

 جن ایم ایل اے کو بری کر دیا گیا ہے ان میں نتن تیاگی ، ریتوراج گووند ، سنجیو جھا ، اجے دت ، راجیش رشی ، راجیش گپتا ، مدن لال ، پروین کمار اور دنیش موہانیہ شامل ہیں۔

 کیجریوال کے گھر میں منعقدہ میٹنگ کے دوران حملہ کا الزام۔ یہ معاملہ انشو پرکاش پر حملے سے متعلق ہے جو 2018 میں دہلی کے چیف سکریٹری تھے۔ انشو پرکاش پر مبینہ طور پر 19 فروری 2018 کو کیجریوال کے گھر میں ایک میٹنگ کے دوران حملہ کیا گیا۔ اس معاملے میں کیجریوال اور سیسودیا سمیت 13 ملزم تھے۔

 الزامات کے مطابق ، انشو پرکاش کو کیجریوال کی موجودگی میں ان کے ایم ایل اے نے بدتمیزی اور مار پیٹ کی۔ اس کے بعد چیف سکریٹری نے رات ہی لیفٹیننٹ گورنر سے ملاقات کی اور اس کے بارے میں شکایت کی۔ عہدیداروں نے بتایا کہ چیف سکریٹری کے ساتھ کیجریوال کے اشتہار کے حوالے سے 3 سال سے تنازعہ چل رہا تھا۔ ساتھ ہی کیجریوال حکومت نے کہا کہ یہ تنازعہ تقریبا 2.5 2.5 لاکھ لوگوں کو راشن نہیں مل رہا تھا۔

 یہ بھی الزامات تھے کہ کیجریوال کے کہنے پر ان کے ایم ایل اے نے انشو پرکاش کے ساتھ ہاتھا پائی شروع کردی۔ کئی میڈیا رپورٹس میں یہ بھی کہا گیا کہ اے اے پی ایم ایل اے نے انشو پرکاش کو تھپڑ رسید کیا ہے۔ ساتھ ہی ایم ایل اے امانت اللہ خان نے کہا تھا کہ یہ چیف سیکریٹری تھا جس نے بدتمیزی شروع کی۔ آپ نے اس وقت یہ بھی کہا تھا کہ بی جے پی نے انشو پرکاش پر دباؤ ڈال کر مقدمہ دائر کیا تھا۔

 چارج شیٹ میں دعویٰ

- AAP رہنماؤں نے ثبوت چھپائے اس معاملے میں دہلی پولیس کی چارج شیٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ انشو پرکاش پر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت حملہ کیا گیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ اے اے پی رہنماؤں نے ثبوت بھی چھپائے تھے۔ اس نے واقعہ سے پہلے ہی کئی سی سی ٹی وی کنکشن منقطع کر دیے تھے۔

سیسودیا نے کہا - یہ ایک جھوٹا کیس تھا۔ اس معاملے میں عدالت کے فیصلے پر منیش سسودیا نے کہا ہے کہ یہ انصاف اور سچ کی فتح کا دن ہے۔ سیسودیا نے کہا کہ عدالت نے تمام الزامات کو جھوٹا اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔ وزیراعلیٰ کو اس جھوٹے کیس میں بری کر دیا گیا ہے۔ ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ الزامات جھوٹے ہیں۔ سسودیا نے الزام لگایا ہے کہ یہ بی جے پی کی سازش تھی۔


راجیہ سبھا : ہنگامہ آرائی پر وینکیا نائیڈوجذباتی ہو گئےراجیہ سبھا میں ہنگامہ

راجیہ سبھا : ہنگامہ آرائی پر وینکیا نائیڈوجذباتی ہو گئے
راجیہ سبھا میں ہنگامہ


 
(اردو اخبار دنیا)
راجیہ سبھا کے چیئرمین ایم وینکیا نائیڈو منگل کو پارلیمنٹ کے مانسون سیشن کے دوران راجیہ سبھا میں ہنگامہ آرائی پر بات کرتے ہوئے جذباتی ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت کے مندر کی بے حرمتی کی وجہ سے وہ رات بھر سو نہیں سکے۔ کل ایوان میں جو کچھ ہوا وہ جمہوریت کے خلاف ہے۔

نائیڈو نے کہا کہ اپوزیشن حکومت کو مجبور نہیں کر سکتی۔ ارکان احتجاج کر سکتے ہیں ، لیکن چیئرمین کو نہیں بتا سکتے کہ کیا کرنا ہے ، کیا نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جس طریقے سے جمہوریت کا تقدس پامال کیا گیا ، میں مجروح ہوں۔ میرے پاس میرے درد کو بیان کرنے یا مذمت کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔

ہنگامہ آرائی کرنے والے ارکان اسمبلی کے خلاف کارروائی کی دھمکی۔ ایوان بالا میں ہنگامہ برپا کرنے والے ارکان اسمبلی کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔ کل اپوزیشن جماعتوں کے لیڈر کنویں پر پہنچے اور میز پر چڑھ گئے ، انہوں نے قاعدہ بیل کو بھی سیٹ کی طرف پھینک دیا۔ تاہم ، یہ ایوان کی کارروائی ختم ہونے کے بعد ہوا۔

 ایک کے بعد ایک شرمناک واقعہ: انوراگ ٹھاکر۔ مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر نے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ پرتاپ سنگھ باجوہ پر راجیہ سبھا میں حکمرانی کی کتاب پھینکنے پر سخت ردعمل ظاہر کیا۔ انہوں نے کہا کہ جنہیں اپنے مسائل اٹھانے کے لیے بطور رکن پارلیمنٹ بھیجا گیا ہے ، وہ بحث میں حصہ لیے بغیر فائلیں پھاڑنے اور پھاڑنے کے لیے آئے ہیں۔ کل جو ہوا وہ ایک کے بعد ایک شرمناک تھا۔


عرب:شہزادہ محمدبن سلمان نے دی کراٹے پلیئرکومبارکباد

عرب:شہزادہ محمدبن سلمان نے دی کراٹے پلیئرکومبارکباد

سعودی عرب:شہزادہ محمدبن سلمان نے دی کراٹے پلیئرکومبارکباد
سعودی عرب:شہزادہ محمدبن سلمان نے دی کراٹے پلیئرکومبارکباد
(اردو اخبار دنیا)

 

ریاض

سعودی ولی عہد شہزاد محمد بن سلمان نے ٹوکیو اولمپک میں سلور میڈل جیتنے پر سعودی کراٹے پلیئر طارق حامدی کو مبارکباد دی ہے۔

سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق ملاقات کے دوران شہزادہ محمد بن سلمان نے طارق حامدی کو میڈل جیتنے اور کراٹے میں ان کی نمایاں صلاحیتوں پر مبارکباد دی اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ مستقبل میں مزید بڑے ٹائٹل اپنے نام کریں۔

ولی عہد سے ملاقات پر طارق حامدی نے خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ تمام ایتھلیٹس خصوصا جن کی کراٹے میں دلچسپی ہے ان کی سپورٹ رہی ہے جس سے انہیں عالمی سطح کے مقابلوں میں بہترین کارکردگی دکھانے کے لیے تحریک ملتی ہے۔

ملاقات میں سعودی وزیر سپورٹس اور سعودی عربیئن اولپمکس کمیٹی کے صدر شہزادہ عبدالعزیز بن ترکی الفیصل بھی موجود تھے۔

سعودی عرب کے نوجوان ایتھلیٹ 23 سالہ طارق حامدی نے ٹوکیو اولمپکس میں کراٹے کے 75 کلوگرام پلس کے مقابلے میں سلور میڈل حاصل کیا تھا۔ طارق حامدی اپنے ایرانی حریف سجاد گنج زادہ سے 4-1 سے جیت کر سونے کا تمغہ حاصل کرنے کے قریب تھے کہ پینلٹی کی وجہ سے وہ یہ تمغہ حاصل نہ کر سکے۔ (ایجنسی ان پٹ

میری جنگ دستوری سیکولرزم سے نہیں، سیاسی سیکولرزم سے ہے: اویسی

نئی دہلی:(اردو اخبار دنیا) نام نہاد اور نقلی سیکولر زم کے علمبرداروں پر زبردست حملہ کرتے ہوئے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اور رکن پارلیمان بیرسٹر اسدالدین اویسی نے کہا کہ ہند کے آئین میں درج سیکولرزم پر میرا مکمل یقین ہے،میں اسے بچانے کی جدو جہد کررہا ہوں، مگر عملی سیاست میں نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے سیکولرزم سے مجھے اختلاف ہے۔ انہوں نے دہلی مجلس کے صدر کلیم الحفیظ کی کتاب ’نشان راہ‘ کے اجراء کے موقع پریہ بات کہی۔

انڈین مسلم انٹیلکچوئل فورم کے زیر اہتمام منعقدہ پروگرام میں انہوں نے دعوی کیا کہ ملک میں ہر طرف مسلمانوں پر طرح طرح کی پابندیاں لگائی جارہی ہیں،ہمارے دینی معاملات کے فیصلے بھی اب ایوانوں میں ہورہے ہیں،کھلے عام مسلمانوں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں جنتر منتر پر دی جارہی ہیں اور دہلی پولس تماشہ دیکھ رہی ہے،یہ سیکولرزم نہیں بلکہ فاشزم ہے۔

صدر مجلس نے کہا کہ مسلمانوں اور پسماندہ طبقات کو سیاسی امپاورمنٹ کی سخت ضرورت ہے۔بغیر سیاسی قوت کے آپ اپنے بنیادی حقوق بھی محفوظ نہیں رکھ سکتے۔انھوں نے سیکولرزم کی ایک نئی تعریف سے شرکاء کو واقف کرایا،انھوں نے کہا کہ ایک سیکولرزم وہ ہے جو ہند کے آئین میں درج ہے،جس میں ملک کے تمام شہریوں کو ان کے مذہب اور عقیدے کے مطابق بنیادی حقوق دیے گئے ہیں،ہم اس سیکولرزم کی نہ صرف حمایت کرتے ہیں بلکہ اس کو بچانے کا کام کررہے ہیں،دوسرا سیکولرزم نام نہادسیکولر پارٹیوں کا عمل ہے۔صدر مجلس نے کہا کہ میں ملک میں شریعت کے نفاذ کا مطالبہ نہیں کررہا ہوں کیوں کہ یہ ملک تمام مذاہب کا احترام کرتا ہے مگر میں اپنے بنیادی حقوق اور دستور میں دیے گئے اختیارات پر عمل کی آزادی کا مطالبہ کررہا ہوں۔انھوں نے اعداد و شمار کی روشنی میں بتایا کہ اس وقت مسلمان انتہائی پسماندہ ہیں،اس سلسلے میں انھوں نے ماضی میں بنائی گئیں کئی سرکاری کمیٹیوں کی رپورٹوں کا حوالہ بھی دیا۔

شرکاء کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے قائد مجلس نے کہا کہ ہمیں اب کسی کے نفع اور نقصان کے بجائے اپنے نفع اور نقصان پر بات کرنا چاہئے،آزادی کے کے بعد پچھتر سال سے ہم سیکولر پارٹیوں کو ووٹ دیتے آرہے ہیں مگر بدلے میں ہمیں کیا ملا،عرس کے موقع پر مزار کی ایک چادر،رمضان میں ایک کھجور اور اس کے بدلے بھی ہم سے عید پر شیر خرما کی خواہش۔دہلی کی حکومت جس کو مسلمانوں کے 82فیصد ووٹ ملے فساد کے وقت وزیر اعلیٰ نے فسادیوں کو روکنے کے بجائے گاندھی سمادھی پر مون برت کا درامہ کیا۔مسلمانوں کو گالیاں دینے والے وزیر بنائے جا رہے ہیں،اترپردیش میں بھی سماج وادی انھیں گلے لگارہی ہے،سیکولر پارٹیوں میں موجود مسلم لیڈر وں کا برا حال ہے،ایک قد آور نیتا کو نہ علاج میسر ہوا نہ اپنے گاؤں کی مٹی،کئی رہنماجیلوں میں ہیں ان کی پیروی ان کی پارٹیاں نہیں کررہی ہیں،مجلس کو بی جے پی کی بی ٹیم کہنے والے بتائیں اپنی آبائی سیٹ کیوں ہار گئے،انھیں جیتنے کے لیے بھی وہاں جانا پڑا جہاں 30سے35فیصد مسلم ووٹ ہے،بی جے پی کی جیت کی سب سے بڑی وجہ نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے ووٹروں کا کمیونل ہوجانا ہے۔

صدر مجلس نے شرکاء سے کہا کہ اب کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں،ہمیں مسلمانوں،مظلوموں اور پسماندہ طبقات کی حفاظت کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔کام کرنے سے پہلے نتائج کو سوچ کر گھبرانے کے بجائے ہمیں ہمت اور حوصلے سے متحد ہوکر خود کو مضبوط کرنا چاہئے اورنتیجے اللہ پر چھوڑنا چاہئے۔

اورنگ آباد سے ممبر آف پارلیمنٹ سید امتیاز جلیل نے کہا کہ سوال یہ نہیں ہے کہ مسلمان ہند میں زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے بلکہ سوال یہ ہے کہ وہ کس طرح زندہ رہیں گے؟ انہوں نے کہاکہ لفظ سیکولر کے نام پر مسلمانوں کی سیاست کو برباد کیا گیا اور مسلمانوں کو ایک کنارے لگادیا گیا۔

صاحب کتاب اور دہلی مجلس کے صدر کلیم الحفیظ نیمسٹر اویسی کا شکریہ ادا کرتا ہوئے کہا کہ میں نے مجلس کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد اپنا انقلابی سفر شروع کردیا ہے آپ میں سے جو لوگ میرے ساتھ چلنا چاہتے ہیں میں ان کا خیر مقدم کرتا ہوں۔پرگرام کی صدارت کالی کٹ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور جامعہ ہمدرد کے پرو چانسلرپدم شری سید اقبال حسنین نے کی۔اپنے صدارتی خطاب میں موصوف نے کہا کہ اپنے سیاسی قائدین سے تبادلہ خیال کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔انڈین مسلم انلیکچول فورم نے یہ موقع فراہم کرکے اچھا قدم اٹھایا ہے۔

اس موقع پرمعروف صحافی سہیل انجم نے کتاب اور صاحب کتاب کا خاکہ پیش کیا،اس کے بعد مجلس کے قومی صدر کے دست مبارک سے کتاب کا اجراء عمل میں لایا گیا۔ کالم نگار ڈاکٹر مظفر حسین غزالی نے کتاب کے مشمولات پر رشنی ڈالی۔مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور راجستھان کے صدرپروفیسر اخترالواسع نے بھی اظہار خیال کیا۔نظامت کے فرائض عبدالغفار صدیقی نے ادا کئے۔پروگرام میں دہلی کی معتبر و مستند شخصیات نے شرکت کی۔جس میں انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر کے دائمی رکن ا نجینئر ساد علی کے علاوہ یونیورسٹیز کے پروچانسلر،وائس چانسلر، پروفیسرس، ڈاکٹرس، وکلا، شعراء ،صحافی،مصنفین،این جی اوز اورملی جماعتوں کے ذمہ داران وغیرہ شامل تھے۔

بارگا ؛ الہی میں دست نبوت جس کے لیے پھیلے ۔ شہباز نعمانی ندوی

(اردو اخبار دنیا)اب بہت ہوا، یہ روز روز کا قصہ میں آج تمام ہی کئے دیتا ہوں، اس نے بڑے جلال اور غیض و غضب کے لہجہ میں کہا، لیکن آخر تمہارا ارادہ کیاہے۔کیا کروگے؟مجلس میں موجود ایک بوڑھے نے تعجب خیز نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے سوال کیا۔ تبھی ایک کرخدار آوازمیں جواب آیا:" آج میں اس کو قتل کردونگا، اسکا سر تن سے جدا کرکے اپنے معبودوں کے قدموں میں لاکر رکھدونگا، اپنے خداؤں کی ہتک اور شان میں کھلنے والی زبان کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ساکت وخاموش کردوں گا، جس سر کو نخوت وخودداری نے ہمارے معبودوں کے آگےکبھی جھکنے نہ دیا اس کا نذرانہ اپنے معبودوں کے حضور پیش کرونگا ۔ اور اس پیشانی کو جو ہمارے دیوتاؤں کے سامنے کبھی سجدہ ریز نہیں ہوئی آج ان کے سامنے ذلیل کردونگا" یہ کہتے کہتےاس کی آواز کافی تیز اور بلند ہوچکی تھی ، مگر وہ جوشِ انتقام میں بغیر کسی التفات کے کہتا اور بولتا جارہا تھا :"آج میں اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اپنے دیوتاؤں کا تقرب حاصل کرونگا"۔

یہ ارادہ کتنا بھیانک تھا اور یہ الفاظ کس قدر سنگین اور خطرناک ؟ مگر نہ معلوم کیوں ان الفاظ کو سن کر محفل میں موجود ہر شخص کے لبوں پر مسکراہٹ اور خوشی رقص کررہی تھی؟فرحت و مسرت خوشی و شادمانی آنکھوں سے صاف چھلک رہی تھی،۔اس جوان کے الفاظ نے مجلس میں ایک گرمی اور جوش سا پیدا کردیا تھا، مگر ہر زبان خاموش تھی ۔یکا یک سکوت کو توڑتی ہوئی ایک آواز ابھری، کسی کہنے والے نے کہا :"آج اس کو معلوم ہوگا، ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہنے، اور انکی تحقیقر و تذلیل کرنے کا انجام کیا ہوتا ہے۔اس نےہمارے خداؤں کی شان میں بہت گستانہ کلمات کہے ہیں، آج وہ ان سب کا انجام بھگت لے گا"۔یہی سب باتیں ہورہی تھیں کہ اتنے میں وہ لمبا قد و قامت ،گھنی ڈارھی والا با رعب شخص مجلس سے اٹھ کر، اپنی تلوار نیام سے سونت کر، دل میں نفرت و عداوت کی آگ کو لئے ،قتل کے ارادہ سے منزل مقصود کی اور چل دیا۔"کہاں جارہے ہو؟ راستے میں کسی موڑ پر ایک شخص نے روک کر معلوم کیا، آج میں اس شخص کو قتل کرنے جارہا ہوں، جو ایک نیا دین لیکر، ہمیں ہمارے آبائی دین سے پھیرنے کے لیے آیا ہے، اور ہمیں لات و منات کی پرستش اور پوجا سے ہٹاکر ہماری پیشانی ایک معبود کے سامنے جھکوانا چاہتا ہے، اور ہمیں بد دین بنانا چاہتا ہے۔یہ سن کر "کاش تم پہلے اپنے گھر کی خبر گیری کرلیتے!" سوال کرنے والے شخص نے کہا:"تمہاری بہن اور اس کا شوہر، لات و منات کی پرستش چھوڑ کر ایک اللہ کی بندگی قبول کرچکے ہیں، اور وہ ابن عبد اللہ کے لائے ہوئے دین کو مان کر، اس کی اطاعت و فرماںبرداری کا طوق اپنے گلے میں ڈال کر، اپنے آبائی دین سے پھر چکے ہیں۔" یہ سن کر نوجوان کے سینہ میں نفرت و عداوت کی آگ مزید بھڑک اٹھی، اور سینہ میں ایک جؤالا سا پھٹ پڑا، آنکھیں جوش انتقام کے خون سےسرخ ہوگئیں، بنا کچھ کہے اس نے بہن کے گھر کا رخ کیا، دروازے پر پہنچ کر دستک دی، بہن نے دروازہ کھولا، بھائ کے ہاتھ میں بے نیام ننگی تلوار دیکھ کر اس کے اوپر خوف و ہراس کی کیفیت طاری ہو گئی،اور وہ اس دلیر و شجاع بھائی کو سامنے چند لمحات کے لئے بے جان مورت بنی آنکھیں پھاڑ کر بدحواسی کے عالم میں ٹکٹکی لگائے دیکھتی رہی،اس کے علاوہ غضب اور قہر کے سامنے کر بھی کیا سکتی تھی؟ بھائ بہن کی طرف بڑھا، اور عقاب کے مانند اس پر جھپٹ پڑا،اور اتنی بے رحمی سے مارا، کہ بہن کا پورا جسم زخموں سے چور اورپیشانی خون آلود ہوگئ، لیکن بہن صبر و استقامت کا سراپا پیکر اور مجسمہ بنی رہی، بھائی کی اس بے رحمی پر ڈبڈبی آنکھوں سے آنسوؤں کے چند قطرے چھلکاتے ہوئے کہا:"تم میرے جسم کے ہزار ٹکڑے کر دو، مجھے موت کا جام اور کڑوا گھونٹ پلادو ،اور اپنے اندر انتقام کی بھڑکتی آگ کو جس طرح چاہو بجھا لو، لیکن مجھے ایک اللہ کی عبادت و بندگی سے نہیں روک سکتے۔۔۔۔۔۔۔۔ تم ابن عبد اللہ کے لائے ہوئے دین کو مجھ سے نہیں چھین سکتے"زارو قطار روتے ہوئے آنسوؤں کی جھڑی اور قطرے زمین پر اور کچھ دامن پر گر رہے تھے ، آخر روتے روتے یہاں تک کہہ دیا:"میں اسی پر جینے اورمرنے کی قسم کھا چکی ہوں، اور اس کے لیے اپنی جان کا نظرانہ پیش کرنے کا عزم و ارادہ کر چکی ہوں،لیکن میں اسے چھوڑ نہیں سکتی"۔زخموں سے چور بہن کے یہ درد بھرے کلمات سن کر جو نئے دین سے وارفتگی اور فریبتگی کی حد تک عشق و محبت کی عکاسی کررہے تھے اور بھائی کے دل پر اپنےایک ایک حرف کانقش چھوڑ گئے۔ خون آلود بہن کے یہ الفاظ سن کر عمر جیسا پتھر بھی موم ہوگیا، اور بہن کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھتا ہوا حیرت و تعجب میں وہ یہی سوچ رہا تھا کہ آخر یہ کونسا دین ہے؟ کیساپیغام ہے جس سے انسان خون کے آخری قطرہ تک بے وفائی نہیں کرسکتا، جسے قبول کرنے کے بعد انسان سر کٹانے کو راضی ہوجاتا ہے لیکن سر جھکانے کے لئے تیار نہیں ہوتا ، اور اس پر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کو بھی اپنی سعادت وسرخروئی ہی تصور کرتا ہے" ۔ذہن میں گردش کرنے والے ان خیالات و تصورات نے اور دل میں پیدا ہونےوالے بہت سے سوالات نے عمر کو بے چین و مضطرب کردیا تھا۔ بالآخر حسرت و ندا مت کو چھپاتے ہوئے قدرے انفعال کے ساتھ بہن سے گویا ہوا:"ذرہ مجھے وہ پیغام دو"۔

" نہیں، اس کو پاک اور مطہر لوگ ہی چھوتے ہیں"بہن نے جواب دیا :"تم پہلے جاکر غسل کرو"، "ٹھیک ہے"۔یہ کہہ کر وہ غسل کرنے چل دیا، لیکن اس کو کیا معلوم تھا، آج وہ پانی سے بدن کا میل اور جسم کی گندگی صاف کرنے نہیں، بلکہ اسلام کے نور سے کفر و شرک کی غلاظت دور کرنے جارہا ہے، وہ غسل کرکے باہر آیا، تو دل کی دنیا بدل چکی تھی، سینہ میں کفر و شرک کے جو جراثیم برسوں سے پل رہے تھے، آج وہ دم ٹوڑ چکے تھے، اب اسکا دل آئینہ کی طرح صاف و شفاف ہو چکا تھا، بہن نے اسکی طرف ایک تختی بڑھادی اور پڑھنے کو کہا، جوں ہی اس نے پڑھنا شروع کیا، آنکھوں نے اپنے بند ٹوڑ دئیے، اور بحر بے کراں کے مانند بے اختیار اشک بہ پڑے، روتے روتے سسکیاں بندہ گئیں، آخر ذرا ضبط کا دامن تھام کر سوال کیا:" اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کہاں ہیں؟بہن نے بتایا، تو ملاقات کی حسرت و تمنا دل میں لئے شوق کے پروں سے پرواز کرتا ہوا، بے چینی و بے قراری کی کیفیت میں دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم پر جا پہنچا، دروازے پر دستک دی، کون ہے اندر سے سوال ہوا، عمر ہوں، اس نام کا سننا تھا صحابہ دم بخود ہوگئے :"یہ کیوں آیا ہے، اس کا ارادہ کیا ہے؟"۔"کہیں یہ کچھ غلط ارادہ اور نیت لیکر تو نہیں آیاچند اہل عزیمت و حزیمت افراد نے کہا ۔اگر غلط ارادے سے آیا ہے تو اسکی گردن اسی کی تلوار سے تن سے جدا کردی جائے گی، ،اندر آنے دو، زبان نبوت سے حکم ہوا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم سن کر سب خاموش ہوگئےاور تعمیل کیلئے ایک صحابی دروازہ کی طرف بڑھے۔دروازہ کھولا گیا۔ اب عمر کی آنکھوں کے سامنے، نور نبوت تھا، جس کے قتل کا منصوبہ لے کرمجلس سے نکلے تھے، اب اسی کو دل دے بیٹھے تھے ،اسی کے سامنے غلامانہ جبینِ نیاز خم کئے ہوئے دست بستہ کھڑے تھے ،آخر کار عمر نے کلمہ پڑھا، تمام صحابہ عمر کے اسلام پر جھوم گئے، اور فضا میں پہلی بار نعرہ تکبیر اللہ اکبر کی صدا اس قوت کے ساتھ گونجی کہ لات ومنات کے پرستار تھرّا اور کاںپ اٹھے ۔


یہ وہ عمر رضی اللہ عنہ تھے جنکے لیے دست نبوت بارگاہ الہی میں فریاد لے کر اٹھے تھے ، اور زبان رسالت مآب نے جن کو مانگا تھا، اور جنکے بارے میں بعد میں"لوکان نبی بعدی لکان عمر" جیسے الفاظ زبان وحی ترجمان سے جاری ہوئے تھے ، اللہ نے اپنے رسول کی دعا کو شرف قبولیت سے نواز کر حضرت عمر کو اپنے محبوب کی جھولی میں ڈال دیا، اور ان کو اسلام کی سربلندی و سرفرازی کا ذریعہ بنا دیا، وہ خانہ بوشان ِ عرب جسے مکہ کی وادی میں آونٹ چرانے اور بدوی زندگی گزارنے کے علاوہ کوئی سلیقہ نہ تھا، ان کے ذریعے سے قیصر و کسری کی حکومت پر لگام کس دی اور ان کےذریعہ دنیا کی جہاں بانی و جہاں گیری کا کام لیا گیا، اور انکے ہاتھ پر اسلامی فتوحات کا وہ عظیم الشان باب کھلا، کہ جس سے اسلام کا پیغام پوری دنیا میں عام ہوا اور گوشہ گوشہ میں پھیل گیا، اسلام کا یہ عظیم فاتح اور ہیرو، تاریخ جسکے کارناموں پر رقصاں ہے، اور جس کے نام پر فخر و ناز کر کے جھوم اٹھتی ہے اور سر اونچا کرلیتی ہے، اس گیتی میں اسے عمرفاروق کے نام سے جانا گیا۔بالآخر وہ جام شہادت نوش فرماکر اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر کے، ازلی زندگی سے حیات جاںودانی کی طرف یہ کہتا ہوا رخصت ہوا، حق تو یہ ہے کی حق ادا نہ ہوا، ہمیشہ ہمیش کے لیے اپنے محبوب کے پہلو میں سکون و راحت اطمینان و طمانیت کی نیند سو گیا. رضی اللہ عنہ وأرضاه

کشمیر: محرم کے پیش نظر تیاریاں ،احتیاطی اقدام اور سہولیات

کشمیر: محرم کے پیش نظر تیاریاں ،احتیاطی اقدام اور سہولیات

سری نگر میں  محرم کی تیاری
سری نگر میں محرم کی تیاری

(اردو اخبار دنیا)

کشمیر میں یہ محرم کچھ خاص ہے کیونکہ سرینگر میں دو اہم تاریخی جلوسوں پر تیس سال سے عائد پابندی کو بھی ہٹایا گیا ہے اور یہ گزشتہ تین دہائیوں میں پہلی دفعہ سرینگر میں آٹھ محرم اور دسویں محرم کے تاریخی جلوسوں کو برآمد کرنے کی اجازت دی گئی ہیں -ادھر کئی علماء نے اس اہم فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے جبکہ کئی علماء نے اس فیصلے پر شبہات بھی ظاہر کئے ہیں۔

 یہ پابندی کشمیر میں دہشت گردی کے آغاز کے بعد سے عائد تھی لیکن اس بار حکومت نے نئے ماحول میں اس روایتی جلوس کو ہری جھنڈی دکھا دی ہے۔

 اتنا ضرور ہے کہ کورونا کے سبب محرم کے ماتمی جلوسو ں میں کورونا کے پروٹوکول کا خیال رکھا جائے گا۔

محرم کے پیش نظر اب انتظامیہ نے تمام تر اقدامات مکمل کرلیے ہیں ۔ضلعی انتظامیہ نے عہدیداروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ یادگار تقریبات اور محرم کے جلوسوں کے دوران تمام سہولیات دستیاب ہوں۔

؎ محرم کے پہلے 10 دنوں کے دوران ، سرینگر میں لوگوں کو خاص طور پر شیعہ برادری کے لوگوں کو بلا تعطل پانی اور بجلی کی فراہمی اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے لیے اضافی اقدامات کیے گئے ہیں ۔

 سرینگر میونسپل کارپوریشن (ایس ایم سی) نے مختلف امامباروں میں صفائی کے مقاصد کے لیے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی ہیں۔

سڑکوں پرلائٹس لگا نے کا کام جنگی پیمانے پر مکمل کیا گیا ہے۔ تمام امام بارگاہوں کو صاف کیا گیا ہے اور ہماری ٹیمیں چوبیس گھنٹے کام کر رہی ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ عقیدت مندوں کو کسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

سیاہ پرچم لگائے گئے ۔

سری نگر میں گلی کوچوں، سڑکوں اور شاہراہوں پر سیاہ پرچم لگائے جارہے ہیں جن پر امام حسین علیہ السلام اور دیگر شہداء کربلا کے حوالے سے مختلف قسم کے اقوال تحریر کئے گئے ہیں - اس کے علاوہ امام باڑوں اور خانقاہوں کی صفائی ستھرائی کے علاوہ انہیں سجایا جارہا ہے - تاکہ محرم الحرام کے متبرک ایام کے دوران عزاداری کو بہتر طریقے سے انجام دیا جاسکے۔

 جگہ جگہ اور بستی بستی روائتی مرثیہ خوانی کی مجالس کا انعقاد کیا جاتا ہے - نذر و نیاز کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس کے دوران لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے اور مجلس کے اختتام پر انہیں مختلف پکوان کھلائے جاتے ہیں جسے شیعہ بستیوں کے یہاں "نذرِ حُسین " کہا جاتا ہے ۔

 شہرو دیہات کے اندر پہلی سے چودہ محرم تک علم شریف اور تعزئے کے جلوس نکالے جاتے ہیں جس کے دوران عقیدت مندوں کی ایک جم گفیر شرکت کرتی ہیں اور سینہ زنی، سوز خوانی اور سلام و درود کی صورت میں امام حسین علیہ سلام اور ان کے رفقاء و اہلیت کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے ۔ان مجالس اور جلوسوں میں شریک ہونا انتہائی ثواباور نیک عمل سے تعبیر کیا جاتا ہے

 آواذ دی وائس اردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے محرم الحرام کی تیاریاں کررہے کچھ نوجوانوں کا کہنا تھا کہ جو بینرس اور کالے پرچم لہرانے کا جو مقصد ہے وہ یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام اور دیگر شہداء کربلا نے جو پیغام دیا ہے وہ کسی خاص ملت یا مذہب کے نام نہیں ہے بلکہ وہ میسج انسانیت کے نام ہیں جسے وہ اس طرح سے عام کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

 سرینگر کے علاوہ مرکزی کشمیر کے ضلع بڈگام میں بھی دو بڑے امام باڑے ہیں جن میں ایک تاریخی اہمیت کا حامل امام باڑہ مین بڈگام میں واقع ہے دوسرا بڈگام سے متصل علاقہ بمنہ میں موجود ہے - دونوں امام باڑوں کی ان دنوں عشرہ مجالس، مرثیہ خوانی کے لئے تیار کیا جارہا ہے۔

 محرم الحرام کے دوران ان اما باڑوں کے اندر اور باہر سیاہ رنگ کے کپڑوں سے بنی گلاف میں اوڈھا جاتا ہے جو غم کی ایک علامت کے طور پر لگائی جاتی ہیں - ان امام باڑوں میں بھی محرم الحرام کے دوران عقیدت مندوں کا خاصا رش دیکھنے کو ملتے ہے ۔

 اس کے علاوہ شمالی کشمیر کے مختلف اضلاع میں بھی ان دنوں شیعہ اکثریتی والے علاقوں میں محرم الحرام کی تیاریاں ہوچکی ہیں اور اس سلسلے میں عزا خانے سجائے جارہے ہیں امام باڈوں اور دیگر خانقاہوں کو تیار کیا جارہا ہے تاکہ محرم الحرام میں عزاداری کو بہتر طریقے سے انجام دیا جاسکے۔

 انتظامیہ کی جانب سے اقدامات دوسری جانب اگر رخ کریں تو انتظامیہ کی جانب سے بھی محرم الحرام کے سلسلے میں انتظامات کئے جارہے ہیں۔

 اس سے قبل ہی ہر ضلع اور سب ضلع مقامات پہ اس سلسلے میں متعلقہ ڈپٹی کمشنرز نے ایک محرم میٹنگ کا انعقاد عمل میں لایا جس میں ضلع کے مختلف اعلی افسران، پولیس، علماء کرام اور الگ الگ دیہات کے معزز شہریوں کے ساتھ تبادلہ خیال کیا گیا اور انتظامات کو حتمی شکل دی گئی ۔

 مجالس اور عزاداری کے جلوسوں کے لئے درکار ضروری اشیاء اور دیگر انتظامات کو باہم رکھنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، مسلسل بجلی پانی کی سپلائی کے علاوہ شعبہ ہیلتھ کی سہولیات کے حوالے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں تاکہ عزاداری کے دوران عقیدت مندوں کو بہتر سے بہتر سہولیت فراہم کی جائے

اے ٹی ایم میں رقم نہ ہونے پر بینک کو لگے گا جرمانہ

ممبی _(اردو اخبار دنیا) ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) نے اے ٹی ایم میں رقم نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو درپیش مشکلات کے پیش نظر ایک اہم فیصلہ لیا ہے۔ اگر ان مشینوں میں نقد رقم کی عدم دستیابی ماہانہ 10 گھنٹے سے زیادہ ہو تو بینکوں کو 10 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ آر بی آئی کا یہ فیصلہ یکم اکتوبر سے نافذ ہوگا ۔ آر بی آئی نے کہا ہے کہ ان کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ اے ٹی ایم خالی ہوتے ہی بینک کی جانب سے رقم نہیں بھر رہے ہیں جس کی وجہ سے عوام کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ اس تناظر میں ، بینکوں اور وائٹ لیبل اے ٹی ایم (ڈبلیو ایل اے) آپریٹرز کو اے ٹی ایم میں نوٹوں کی دستیابی کی نگرانی کے لیے نظام کو مضبوط بنانے کی ہدایت دی ہے

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...