Powered By Blogger

جمعرات, اگست 12, 2021

ملک بھر سے ٹول پلازہ جلد ختم ہو جائے گا ، مرکزی حکومت 3 ماہ میں جی پی ایس ٹول سسٹم کے لیے لائے گی نئی پالیسی


نئی دہلی(اردو اخبار دنیا). مرکزی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ جلد ہی پورے ملک سے ٹول پلازے ختم کر دیے جائیں گے۔ اس کے بجائے پورے ملک میں جی پی ایس پر مبنی ٹول سسٹم کا انتظام کیا جائے گا۔ آسان الفاظ میں سمجھ لیں ، جب آپ اپنی گاڑی لے کر ٹول ٹیکس کے ساتھ سڑک پر جائیں گے ، تو یہ پر مبنی ٹول سسٹم خود بخود ٹول ٹیکس جمع کر لے گا۔ اس سے لوگوں کو ٹول پلازوں پر لمبی لائنوں میں اپنی باری کے انتظار کی پریشانی سے نجات مل جائے گی۔ مرکزی روڈ ٹرانسپورٹ اور شاہراہوں کے وزیر نتن گڈکری نے کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری (سی آئی آئی) پروگرام میں بتایا کہ 3 ماہ کے اندر حکومت جی پی ایس پر مبنی ٹریکنگ ٹول سسٹم کے لیے نئی پالیسی متعارف کرائے گی۔
مرکزی وزیر نتن گڈکری نے کہا کہ اس وقت ملک میں جی پی ایس پر مبنی ٹول ٹیکس وصولی ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ حکومت اس طرح کی ٹیکنالوجی کی تیاری کے لیے مسلسل کام کر رہی ہے۔ ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ مارچ 2021 میں ہی انہوں نے کہا تھا کہ حکومت جلد ہی پورے ملک سے ٹول بوتھ ختم کر دے گی۔ یہ بھی کہا گیا کہ ایک سال کے اندر ٹول پلازوں کی جگہ جی پی ایس سے چلنے والا ٹول کلیکشن سسٹم نافذ کیا جائے گا۔ اس دوران انہوں نے سڑک بنانے والی کمپنیوں پر زور دیا کہ وہ سڑک کی تعمیر کے اخراجات کو کم کرنے کے لیے سیمنٹ اور سٹیل کا استعمال کم کریں۔ انہوں نے ایک بار پھر گھریلو سٹیل اور سیمنٹ کمپنیوں پر ملی بھگت کا الزام لگایا۔
گڈکری نے کنسلٹنٹس سے اپیل کی کہ وہ سڑک کی تعمیر میں سیمنٹ اور سٹیل کی مقدار کو کم کرنے کے لیے نئے آئیڈیا لے کر آئیں۔ ساتھ ہی لوک سبھا میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے ایوان کو یقین دلایا تھا کہ ایک سال میں تمام ٹول بوتھ پورے ملک سے ہٹا دیے جائیں گے۔ ٹول کی وصولی کے ذریعے کی جائے گی یعنی ٹول کی رقم گاڑیوں پر نصب امیجنگ کے مطابق وصول کی جائے گی۔ گڈکری نے دسمبر 2020 میں کہا تھا کہ نیا جی پی ایس پر مبنی نظام روسی مہارت کے ساتھ نافذ کیا جائے گا۔ اس نظام میں گاڑی کے ذریعے طے کردہ فاصلے کے مطابق اکاؤنٹ یا ای والٹ سے ٹول ٹیکس کاٹا جائے گا۔ اس کے ساتھ ، حکومت پرانی گاڑیوں کو سے لیس کرنے کی بھی کوشش کرے گی۔ ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ اس وقت ملک بھر میں کے ساتھ الیکٹرانک ٹول کلیکشن سسٹم نافذ ہے

پارلیمنٹ میں دھکامکی کا ویڈیوآیاسامنے

پارلیمنٹ میں دھکامکی کا ویڈیوآیاسامنے

پارلیمنٹ میں دھکامکی کا ویڈیوآیاسامنے
پارلیمنٹ میں دھکامکی کا ویڈیوآیاسامنے

(اردو اخبار دنیا)مانسون سیشن کے دوران بدھ کو راجیہ سبھا میں ہنگامہ آرائی کا معاملہ زور پکڑ رہا ہے۔ راہل گاندھی سمیت 15 اپوزیشن لیڈروں نے اسے جمہوریت کا قتل قرار دیا تھا، پھر مرکزی حکومت اس معاملے پر دفاعی پوزیشن میں آ گئی تھی۔

اب اس واقعے کی ویڈیو منظر عام پر آئی ہے۔ اس کے جواب میں مرکزی وزراء نے جمعرات کی سہ پہر پریس کانفرنس کی۔ اس دوران وزیر اطلاعات و نشریات انوراگ ٹھاکر نے کہا کہ اپوزیشن نے کام میں رکاوٹ ڈالنے کا کام کیا اور اس کے لیے اسے ملک سے معافی مانگنی چاہیے۔ اپوزیشن مگرمچھ کے آنسو نہ بہائے۔ وزیر تجارت پیوش گوئل نے کہا کہ پوری حکمران جماعت چاہتی ہے کہ ایوان چلے۔

لیکن ، اپوزیشن نے ایوان کا وقار گرادیا۔ وزیر کے ہاتھوں سے جواب چھینا گیاجب معافی مانگنے کوکہاگیا تو واضح طور پر کہا گیا کہ میں معافی نہیں مانگوں گا۔ چیمبر میں زبردستی داخل ہونے کی کوشش کی۔ اس دوران خاتون مارشل کو زخمی ہوتے دیکھ کر دکھ ہوا۔ ہم نے اس پر کاروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ موٹی رول بک کرسی کی طرف پھینکی گئی۔

اگر کوئی کرسی پر بیٹھا ہوتا تو وہ زخمی ہو جاتا۔ یہ بہت برا حملہ تھا۔ گوئل نے کہا- جو تصویر کانگریس اور آپ کے ارکان پارلیمنٹ نے ملک کے سامنے رکھی ہے ، ایک بڑا سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ آپ ملک کو کس سمت میں لے جانا چاہتے ہیں۔ ہمارے نوجوان اس سے کیا سیکھیں گے؟ پارلیمانی امور کے وزیر پرلہاد جوشی نے کہا ، 'پارلیمنٹ میں جو ہوا وہ شرمناک تھا۔ ہم نے اپوزیشن سے کئی بار بات کی۔

پہلے ہی دن ، ہم نے ان سے درخواست کی کہ وہ افتتاحی دن وزراء کو متعارف کرانے کا موقع دیں۔ یہ بھی نہیں ہوا۔ انہوں نے چیئرمین اور اسپیکر کے سامنے جو بھی مطالبات رکھے ، وہ مان لیے گئے۔ اس کے بعد وہ پیگاسس کا مسئلہ لے کر آیا اور اپنے طور پر بیانات دینے لگا۔ جب معاملات پہلے ہی طے ہوچکے ہیں تو کانگریس اور اس کے اتحادیوں نے ایوان کو کیوں نہیں چلنے دیا۔

جمعرات کو منظر عام پر آنے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اپوزیشن ارکان پارلیمنٹ احتجاج کر رہے تھے اور اس دوران ان کو سنبھالنے کے لیے مارشل طلب کیے گئے۔ ارکان پارلیمنٹ اور مارشل کے درمیان جھگڑا واضح طور پر نظر آتا ہے۔

تصویر میں کچھ ارکان پارلیمنٹ میز پر چڑھتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ یہ بھی واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ کچھ خواتین ارکان پارلیمنٹ کو بھی دھکا دیا گیا۔ بدھ کو ایوان میں ہنگامہ آرائی کے خلاف اپوزیشن رہنماؤں نے جمعرات کو احتجاجی مارچ کیا۔

انھوں نے حکومت پر الزام لگایا کہ اس نے ایوان میں مارشلوں پر حملہ کیا۔ راہل گاندھی نے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کو ایوان میں مارا پیٹا گیا ہے۔ ساتھ ہی ڈی ایم کے نے کہا کہ ہماری خواتین ارکان پارلیمنٹ کو بھی دھکا دیا گیا اور مارا پیٹا گیا۔


بریکینگ نیوز: مہاراشٹر میں 17 اگست سے اسکول نہیں کھولیں گے

ممبئی:12.اگست۔(اردو اخبار دنیا)ریاستی حکومت کے محکمہ تعلیمات نے ریاست بھر میں 17 اگست سے اسکول شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔

مگر ریاست میں کورونا کے حالات پر نظرِ رکھنے کیلئے تشکیل ٹاسک فورس نے اسکول کھولنے کی مخالفت کی تھی۔اس ضمن میں کل رات وزیر اعلیٰ کے ہمراہ ٹاسک فورس کا اجلاس منعقد ہوا ۔جس میں فیصلہ کیا گیا کہ ابھی ریاست میں کہیں بھی اسکول شروع نہیں ہوں گے۔

سال نو کا پیغام ملت اسلامیہ کے نام

(اردو اخبار دنیا)مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اسلامی سال کا پہلا مہینہ محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے اور ذی الحجہ پر ختم ہوجاتا ہے ، ، یاد رکھیے کہ ہمارے ہجری سن کی بڑی دینی ، ملی اور تاریخی حیثیت ہے ، مسلمانوں کو اس عظیم ہجرت کی یاد دلاتا ہے جس نے دنیا کی مذہبی تاریخ کا نقشہ تبدیل کر دیا اور اسلام کو پھیلنے اور مسلمانوں کو آگے بڑھنے کا راستہ کھول، ہمیں یہ یاد دلاتاہے کہ اسلام اور ایمان کے لئے تمہیں اپنا گھر بار ، مال ودولت کو بھی چھوڑنا پڑے تو چھوڑ دو؛ لیکن اسلام کو نہ چھوڑو اور ایمان پر بٹہ نہ لگاؤ گویا جس طرح اس کی تاریخی حیثیت ہے اسی طرح اس کی شرعی حیثت بھی ہے ، قرآن مجید میں رب کائنات کا ارشاد ہے ، یسئلونک عن الاھلہ قل ھی مواقیت للناس والحج ہم نے تمہارے لئے چاند کو اور چاند کے تغیرات کو میقات بنا دیا ہے، یعنی ہماری اکثر عبادتوں کا انحصار رویت ہلال سے متعلق ہے ، خصوصا ان عبادات میں جن کا تعلق کسی خاص مہینے اور اس کی تاریخوں سے ہے جیسے رمضان المبارک کے روزے ، حج کے مہینے، محرم اور شب برأت وغیرہ سے متعلق احکام سب رویت ہلا ل سے متعلق ہیں، لیکن افسوس یہ ہے کہ بہت سے لوگ قمری حساب کو بھلاتے جا رہے ہیں، صرف معدودے چند ملی وتعلیمی اداروں میں یہ نظام رائج ہے ، ورنہ عام طور پر اس کا رواج کم تر ہوتا جا رہا ہے ، حتی کہ کلنڈروں سے بھی قمری مہینوں کے اعداد وشمار غائب ہوتے جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو اسلامی مہینے بھی پورے طور پر یاد نہیں رہتے ہیں، حالانکہ ہر قوم نے اپنا حساب وکتاب رکھنے کی ایک تاریخ مقرر کی ہے ، ہندوستان میں عیسوی سن کی مقبولیت ہے ، اور انگریزوں کے اثرات کی وجہ سے انگریزی سن رائج ہوئے جس کا سن جنوری سال سے شروع ہوتا ہے، ہندوں کے یہاں بکرمی حساب رائج ہے ، مگر مسلمانوں کا نیا سال ہجرت سے شروع ہوتا ہے جس کا باضابطہ استعمال عہد نبوت میں تونہیں ہوسکا البتہ حضرت عمر ؓ کے عہد خلافت سے رائج ہے اور تاریخ کے ہر دور میں اس کا چلن رہا ، جواب کمزور پڑ تا جا رہا ہے، اگر ہم صرف دفتری اور کاروباری معاملات میں جن کا تعلق سرکاری دفاتر یا غیر مسلموں سے ہے ان میں صرف شمسی حساب رکھیں، باقی اپنے دینی اداروں اور روز مرہ کی ضروریات میں قمری تاریخوں کا استعمال کریں تو اس سے ہمارا ملی شعار بھی محفوظ رہے گا، اور اتباع سنت کی وجہ سے یہ موجب برکت وثواب بھی ہوگا، اس موقع سے مسلمانوں کو یہ عہد کرنا چاہئے کہ اس کا یہ سال پچھلے سال کے مقابلہ میں کہیں اچھا رہے گا، اعمال کی درستگی اور بہتر انداز میں ہوگی ، شریعت کی پوری طرح پاسداری کی جائے گی، لوگوں کو ایک اور نیک بننے کی تلقین کی جائے گی خود کو اور دوسروں کو راہ راست پر لگا یا جائے گا جس سے دنیا وآخرت دونوں کی کامیابی نصیب ہو، سال کا پہلا مہینہ محرم بڑی عظمت والا مہینہ ہے، اس مہینہ میں نفلی روزہ رکھنا اللہ کو بہت زیادہ پسند ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ماہ میں روزہ رکھا اور صحابہ کرام کو اس کے روزہ کا حکم دیا اور یہودیوں کی مشابہت سے بچنے کے لئے دو دن کے روزے کا حکم فرمایا ، اس لئے آپ بھی عاشورہ کا روزہ رکھئے، ۹؍ اور ۱۰؍ محرم یا ۱۰ ؍ اور ۱۱؍ محرم کو روزہ رکھئے اور اپنے بالغ اہل وعیال کو بھی اس کی ترغیب دیجئے نیز اپنے اہل وعیال کے کھانے پینے کی چیزوں میں فراخی سے کام لیجئے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس دن کی برکت سے سال بھر رزق میں فراخی عطا فرماتے ہیں، جو لوگ عشرہ محرم میں ڈھول ، تاشے اور مجرے کی محفلیں سجاتے ہیں، وہ گناہ کرتے ہیں،مسلمانوں کو اس سے بچنا چاہیے۔

کیاڈیمنشیا کی شناخت صرف ایک دن میں ممکن ہے؟

کیاڈیمنشیا کی شناخت صرف ایک دن میں ممکن ہے؟

کیا ڈیمنشیا کی شناخت صرف ایک دن میں ممکن ہے؟
کیا ڈیمنشیا کی شناخت صرف ایک دن میں ممکن ہے؟(اردو اخبار دنیا)

لندن:اگرچہ اب طب و صحت میں مصنوعی ذہانت کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے لیکن اب اسے ڈیمنشیا(Dementia) جیسے مرض کے لیے بھی آزمایا گیا ہے۔

آرٹیفیشل انٹیلی جنس (artificial intelligence) کی بدولت اب ڈیمنشیا جیسے مرض کو صرف ایک اسکین سے شناخت کرنا ممکن ہوگیا ہے۔ اس طرح بیماری کی شدت سے پہلے ہی موذی مرض کو شناخت کیا جاسکتا ہے۔

یونیورسٹی آف کیمبرج سے وابستہ ڈاکٹر ٹموتھی رِٹمان نے یہ تحقیق کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اس سے ڈیمنشیا جیسے تکلیف دہ اور پیچیدہ مرض کی شناخت بہت پہلے ممکن ہوگی جس سے علاج کے نئی راہیں کھلیں گی اور جلد ہی انسانوں پر باقاعدہ اس کی آزمائش کی جائے گی۔

یہ ایک حیرت انگیز پیش رفت ہے جو لوگوں کو برباد کرنے والے مرض سے متعلق ہے۔

ڈاکٹر ٹموتھی نے کہا کہ اب میں کسی مریض کو قدرے اعتماد سے آگاہ کرسکتا ہوں کہ یہ مرض کس درجے پر ہے اور کیسے آگے بڑھے گا۔ اس سے ان کی زندگی کو آسان کرنے اور علاج میں بہت مدد ملے گی۔

پہلے مرحلےمیں کیمبرج میں واقع ایڈن بروکس ہسپتال اور دیگر شفاخانوں کے 500 مریضوں پر اسے آزمایا جائے گا۔

اس کا الگورتھم خاص طور پر بنایا گیا ہے جو دماغی اسکین میں موجود بعض خدوخال کو دیکھکر مرض کی پیشگوئی کرے گا اور بعد ازاں ڈاکٹراس کا حقیقی انداز میں جائزہ لیں گے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ ابتدائی شناخت کے بعد اس مرض کی شدت روکنے میں بہت مدد ملے گی اور مزید نقصان سے بچاجاسکتا ہے۔

اس تحقیق میں شامل ڈاکٹر لارا فِپس کہتی ہیں کہ اصل حملے سے 15 تا 20 برس پہلے اس مرض کی پیشگوئی ممکن ہے تاہم اے آئی سے اس میں مزید سہولت ملتی ہے۔ اس وقت ڈیمنشیا کی شناخت کے لیے پہلے دماغ کے اسکین لیے جاتے ہیں، اس کے بعد کئی مرتبہ اکتساب اور دماغی صلاحیت کے ٹیسٹ کئے جاتے ہیں۔

لیکن اے آئی سے یہ کام بہت تیز ہوجائے گا اس طرح ڈیمنشیا کے ممکنہ مریض اور ان کے خاندانوں کو بہت سہولت حاصل ہوسکتی ہے۔

تاہم بعض ڈاکٹروں اور سائنسدانوں نے کہا ہے کہ صرف ایک اسکین یا ایک بایومارکر سے ڈیمنشیا کی کامل شناخت نہیں ہوسکتی اور اس کے لیےضروری ہے کہ مریض کے کئی ٹیسٹ لئے جائیں انہوں نے اعتراف کیا کہ اے آئی سے اس مرض کی شناخت میں مدد لی جاسکتی ہے۔

اس پر ڈاکٹر ٹموتھی نے کہا کہ اسی لیے وہ مصنوعی ذہانت کا سافٹ ویئر پہلے 500 مریضوں پر آزمائیں گے اور اس کے بعد ان تمام مریضوں کا روایتی طریقوں سے جائزہ لیا جائے گا جس کے بعد اے آئی کی افادیت سامنے آسکے گی۔

گراؤنڈ رپورٹ : مہنگائی اور بے روزگاری سے عاجز آ چکے عوام کو تبدیلی کی خواہش

(اردو اخبار دنیا)اتر پردیش میں انتخابی بگل بج چکا ہے اور کم و بیش تمام سیاسی جماعتیں اب اپنے اپنے طریقہ سے انتخابی تشہیر میں مصروف ہو چکی ہیں۔ نیشنل ہیرالڈ کی ٹیم بھی اپنے قارئین کے لئے زمینی اور غیر جانبدار رپورٹ پیش کرنے کے لئے پابند ہے۔ عوام کے مزاج کا جائزہ لینے والی اس رپورٹ میں اتر پردیش کے ضلع بجنور کے عوام بتا رہے ہیں کہ وہ مہنگائی اور بے روزگاری سے کس طرح تنگ آچکے ہیں۔ عوام کا کہنا ہے کہ ان کے مشکل حالات نوٹ بندی سے شروع ہوئے تھے اور آج تک وہ سنبھل نہیں پائے ہیں۔

اسرو کو بڑا جھٹکا! تکنیکی گڑبڑی کے سبب 'جی سیٹ' مشن ناکام

دہلی-پوڑی قومی شاہراہ پر 135 کلو میٹر کی مسافت طے کرنے کے بعد بجنور کا مشہور نمائش میدان کا چوراہے کا نظارہ صوبے میں انتخابات کی تیز ہوتی رفتار کا اشارہ دیتا ہے۔ اس چوراہے کی چاروں سمت پر سڑک کے کنارے بی جے پی کے لیڈران کے درجنوں ہورڈنگ نصب کئے گئے ہیں۔ ڈی ایم اور ایس پی دفتر کی جانب جانے والی جنوبی سڑک پر یہاں سے 200 میٹر کے فاصلہ پر تمام حزب اختلاف کی جماعتوں کے دفاتر موجود ہیں۔ میونسپل کارپوریشن کے ملازمین کا کہنا ہے کہ جو ہورڈنگ یہاں نصب کئے گئے ہیں ان میں سے آدھے ایسے ہیں جن کے لئے اجازت طلب نہیں کی گئی۔

بی ایس پی کے جنرل سکریٹری ستیش چندر مشرا بجنور میں 14 اگست کو روشن خیال لوگوں کے ایک سیمینار کا اہتمام کر رہے ہیں، جبکہ پاس ہی موجود سماج وادی پارٹی کے دفتر میں پارٹی کارکنان نئے ووٹ بنوانے کے لئے منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ وہیں کانگریس کے دفتر میں مہنگائی کے خلاف عوام کی آواز بلند کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔ سماج وادی پارٹی کے رہنما خورشید منصوری کا کہنا ہے کہ پوری حزب اختلاف انتخابات کی تیاریوں میں جوش و جذبہ کے ساتھ مصروف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عوام دشمن اس حکومت سے لوگ تنگ آچکے ہیں۔

بجنور کی اس ہلچل سے دور ضلع کے قصبہ نجیب آباد کا ماحول پرسکون ہے۔ اتر پردیش میں ہفتہ وار اتوار بازار بند رہتے ہیں، تاہم کچھ دکاندار اپنی دکان کا شٹر گرا کر باہر بیٹھے ہیں۔ اچل گوئل کا کہنا ہے کہ جب گاہک آتا ہے تو وہ سامان نکال کر دے دیتے ہیں، حالانکہ انہوں نے فوٹو کھنچوانے سے انکار دیا۔ اچل کا کہنا ہے کہ ان پر جرمانہ عائد ہو جائے گا اور پھر اس رقم کو کمانے میں انہیں تین دن لگیں گے، آج بھی یہاں اس لئے بیٹھے ہیں کہ دکان کا کرایہ ادا کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔

نجیب آباد سے ہریدوار جانے والی سڑک پر جلال آباد کے قریب بند پڑے سائیں ڈھابہ پر بیٹھے ندیم کا کہنا ہے کہ کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔ کاریگر گھر چلے گئے ہیں۔ ہم ان کی تنخواہ بھی ادا کرنے سے قاصر تھے۔ گاہک بھی نہیں آ رہے ہیں۔ یہ ہریدوار کا مرکزی راستہ ہے، پہلے ہزاروں گاڑیاں یہاں سے گزرتی تھیں لیکن اب ان کی تعداد بہت کم ہو گئی ہے۔ ندیم کا کہنا ہے کہ کاروبار ٹھہر سا گیا ہے، اچھی بات یہ ہے کہ یہاں لوگوں میں بھائی چارگی بہت زیادہ ہے اور فرقہ وارانہ پولرائزیشن کام نہیں کرتا۔ ندیم بتاتے ہیں کہ مرکزی اور ریاستی دونوں حکومتوں نے عام آدمی کی زندگی کو مشکل بنا دیا ہے۔ یہیں موجود ببلو نے کہا کہ اس حکومت کی رخصتی ضروری ہے کیونکہ مہنگائی بہت زیادہ ہو گئی ہے اور حکومت اس مسئلہ پر کوئی توجہ نہیں دے رہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت تقسیم کی سیاست کر رہی ہے اور اس کا ترقی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

اسی اسمبلی کے قصبے ساہن پور کے ایک دلت اکثریتی علاقے نئی بستی میں ہمیں دیکھ کر کچھ لوگ جمع ہو گئے اور کئی طرح کی شکایتیں کیں۔ خاص طور پر کچھ خواتین بھی گھر سے باہر نکل آئیں۔ ان تمام لوگوں کی بنیادی شکایت پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت بنائے گئے گھروں سے متعلق ہے۔ یہاں پیشہ سے استاد نتن کمار بتاتے ہیں کہ مقامی نگر پنچایت کے نمائندوں اور مکانات کی تعمیر کے ٹھیکیداروں نے مل کر امیروں کے لیے دو منزلہ عمارت بنائی ہے جبکہ غریب کھلی چھت کے نیچے سو رہے ہیں۔ 70 سالہ شانتی دیوی اس معاملے پر برہمی کا اظہار کرتی ہیں، کہ پیسے دیئے بغیر فارم نہیں بھر پائیں۔ بھیم آرمی کے کارکن وسیم شیخ کا کہنا ہے کہ انہوں نے کئی بار اس کے بارے میں شکایت کی ہے لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔ نتن کمار کہتے ہیں کہ اس حکومت میں بدعنوانی بہت بڑھ گئی ہے۔ یہاں پردھان منتری آواس یوجنا میں 20 ہزار کی رشوت کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ غریب کہاں سے اتنی رقم دیں گے؟

یہاں بیٹھے 65 سالہ شری رام کہتے ہیں کہ بہترین حکومت کانگریس کی تھی۔ اس حکومت میں کوئی پریشانی نہیں تھی۔ مایاوتی اور اکھلیش کی حکومتیں بھی رہی ہیں لیکن اس حکومت میں ہر کوئی پریشان ہو گیا ہے۔ حالت یہ ہے کہ مزدوری بھی نہیں لگ پا رہی ہے۔ مہنگائی بہت زیادہ ہے۔ گیس سلنڈر 900 روپے کا ہو گیا ہے۔ سرسوں کا تیل 200 روپے فی کلو ہے۔ اب آپ لکڑی کے چولہے پر واپس بھی نہیں جا سکتے۔ گیس سلنڈر ایک عادت بن چکی ہے خواتین اب لکڑی کے چولہے پر کھانا نہیں بنا سکتیں۔ اب مفت گیس سلنڈر حاصل کرنے کے نقصانات قابل فہم ہیں۔

یہاں پر موجود یوگیش راجپوت بتاتے ہیں کہ حکومت بہت اچھا کام کر رہی ہے۔ اگرچہ مرکزی حکومت سے کچھ غلطیاں ہوئی ہیں لیکن یوگی حکومت نے غنڈہ گردی ختم کر دی ہے، حالانکہ نتن اپنی بات کے بیچ میں کہتے ہیں کہ غنڈہ گردی تو اب بھی جاری ہے، بس غنڈوں کے چہرے بدل گئے ہیں۔

بجنور کے مسلم اکثریتی گاؤں علی پورہ میں لوگوں کا کہنا ہے کہ روزگار ان کا پہلا مسئلہ ہے۔ یوں لگتا ہے گویا ان کی خوشیاں ان سے روٹھ گئی ہیں۔ یہاں محمد ذاکر کہتے ہیں کہ اصل بات یہ ہے کہ نوٹ بندی کے جھٹکے سے لوگ ابھر نہیں پائے ہیں اور کاروبار تباہ ہو چکے ہیں۔ صرف اس گاؤں میں ہی ایک ہزار لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں جبکہ گاؤں کی آبادی تقریباً 5 ہزار کی ہے۔ ہر گھر میں ایک بے روزگار ضرور مل جائے گا۔ یہاں کے محمد امجد بتاتے ہیں کہ بی جے پی کو فرقہ وارانہ تقسیم کا فائدہ ملتا ہے، اس لیے اسے عوام کے غصے کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ امجد نے کہا کہ اسد الدین اویسی بھی ایسا ہی کرنے یہاں آ رہے ہیں۔

احسان احمد مقامی ایم ایل اے تسلیم احمد سے ناراض ہیں، ان کا کہنا ہے کہ 2012 میں نجیب آباد اسمبلی سیٹ کو محفوظ سیٹ سے جنرل بنایا گیا تھا، تب سے تسلیم احمد ایم ایل اے ہیں۔ انہوں نے اس بار سماج وادی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن جیتا تھا۔ احسان کا کہنا ہے کہ ساڑھے چار سال تک انہوں نے گاؤں کی کوئی خبر نہیں لی۔ حکومت کو کیا الزام دیں، جب وہی پروا نہیں کرتا جسے بھائی سمجھ کرجتیاتھا

تحریک آزادی میں علماء کرام کا حصہ ایک نظر میں

تحریک آزادی میں علماء کرام کا حصہ ایک نظر میں

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
ملک ہندوستان کی تحریک آزادی میں علماء کرام اور مسلمانوں کے حصے کو نکال دیا جائے توتاریخ کبھی بھی مکمل نہیں ہو سکتی
(اردو اخبار دنیا)
آزادی ہر قوم کا پیدائشی حق ہے اور یہ انسانی فطرت کا خاصہ بھی ہے۔ اس حق اور فطرت کا تقاضہ ہر ملک کے انسانوں میں ہے۔ اسی تقاضہ کا نتیجہ تھا کہ ہندوستان کی تحریک آز ادی میں ہر طبقہ کے لوگوں نے حصہ لیا۔ لیکن ہندوستا ن کے علماء تاریخ عالم کے خلاف جذبہ آزادی سے خاص طور پر سرشار تھے۔ دنیا کی تاریخ میں عام طور پر مذہبی لوگوں نے ہر آنے والے انقلاب اور آزادی کا راستہ روکا ہے، مگر ہندوستان کا حال مختلف ہے۔ یہاں کے علماء نے انقلاب اور آزادی کے لئے ہراول دستہ کے طور پر کام کیا ہے۔مفتی انتظام اللہ شہابی تحریر کرتے ہیں:
’’ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں علماء کا جس طرح شاندار کارنامہ اور جذبہ وطنیت کا مظاہرہ ہے،اس کی مثال کسی دوسری جگہ نظر نہیں آتی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار،تغلب اور استیلاکے خلاف سب سے پہلے علماء ہی کی آواز مخالف اٹھی۔‘‘(۱)
علمائے کرام میں جذبہ آزادی کی وجہ بیان کر تے ہوئے شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمدمدنیؒ تحریر کرتے ہیں:

 

’’ انگریزوں کے سفاکانہ مظالم نے عام مسلمان بالخصوص علمی طبقہ میں آزادی کی عام تڑپ پیدا کی۔‘‘(۲)

 

۱۸۰۳ء میں ملکی غلامی کے پروانے پر شاہ عالم کے دستخط کے بعد ہندوستان کی آزادی کا خاتمہ ہو رہا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار اور غلبہ کے خلاف کسی میں کچھ بولنے کی ہمت نہیں تھی۔ اسی وقت ایک عالم اٹھا اور اس نے انگریز کے خلاف پہلا نعرہ بلند کیا،اور اس کے خلاف جہاد کا فتوی صادر کیا،وہ شخصیت تھی حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی کی، جو حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے فرزند ارجمند تھے۔ ساتھ ہی شاہ عبدالعزیز ؒ کے داماد حضرت مولانا سیدعبدالحئ ؒ نے حکم دیا کہ دہلی سے کلکتہ تک انگریز کے خلاف جنگ کرنا خدائی فیصلہ ہے۔ یہی وہ اعلان جہاد اور فتوی تھا جس کے مطابق ہندوستان کے علمائے کرام ہندوستان کی آزادی کے لئے آگے بڑھے۔ اور اس اعلان نے تو علماء کی ایک جماعت کو میدان جنگ میں کھڑا کر دیا، 

ڈاکٹر ہنٹر نے لکھا ہے:
’’علماء میں سے جو لوگ زیادہ زیرک (عقلمند)تھے۔ انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی حیثیت میں آنے والے تغیر کو بہت پہلے بھانپ لیا تھا۔ یہ تغیر اب ایک حقیقت بن چکا ہے ۔ وقتاً فوقتاً شائع ہونے والے فتوؤں سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے۔ ‘‘(۳)
ڈاکٹر اقبال حسین خاں تحریر کرتے ہیں:
’’پوری جنگ آزادی میں مسلم علماء نے بہت اہم کردار ادا کیا ۔اس لئے انگریز ایک طرف ان سے خائف بھی رہتے تھے، دوسری طرف درپردہ انہیں زک پہنچانے کے لئے کو شش کرتے رہتے۔ انگریزوں نے بڑی کوشش کی کہ علماء کی توجہ اپنی طرف سے ہٹا کر ان کو داخلی مسائل میں الجھا دیں۔اس سلسلہ میں انہوں نے کثرت سے مذہبی اختلافات پیدا کرا دئیے، جو بیشتر بے بنیاد یا انتہائی سطحی بنیادوں والے تھے۔ علماء کے لئے روز افزوں داخلی انتشار سد راہ ضرور بنا۔ لیکن اصل مرکز انگریز ہی رہے۔ ‘‘(۴)
مزید تحریرکرتے ہیں۔
’’علماء نے اپنے وقار و منزلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قوم کو غیر ملکی اقتدار کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے لئے آمادہ کیا ۔اس مقصد سے انہوں نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دیا۔(۵)
مسٹر ہمفرے نے جو برطانوی جاسوس تھا ،لکھا ہے:
’’مسلمان علماء بھی ہماری تشویش کا باعث تھے۔ یہ لوگ اس قدر متعصب تھے کہ اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھے۔بادشاہ اور امراء تمام افراد ان کے آگے جھوٹے تھے۔ ‘‘(۶)
ہنری ہملٹن تھامس (Henry Hemilton Thomes)نے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

 

’’میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ غدر ۱۸۵۷ء کے بانی اور اصل محرک ہندو نہ تھے۔ اور اب میں یہ دکھانے کی کوشش کرونگا کہ یہ غدر مسلمانوں کی سازش کا نتیجہ تھا۔ہندو اگر اپنی مرضی اور خواہشات تک محدود ہوں تو وہ کسی ایسی سازش میں شرکت نہیں کر سکتے تھے، نہ کرنا چاہتے تھے۔‘‘(۷)
پنجاب میں سکھ انگریزوں سے معاہدے کر رہے تھے۔ اس سے آزادی کی تحریک کے لئے خطرات تھے۔اس لئے علماء نے سرحد بالاکوٹ میں پہلے سکھوں اور پھر انگریزوں کے خلاف لڑائی کی۔اس جنگ کے رہنما حضرت سید احمد شہیدؒ اورمولانا اسمٰعیل شہید ؒ تھے۔ حضرت سید احمد شہید ؒ نے شروع میں نواب امیر خان والی ٹونک کو مدد پہنچائی۔لیکن جب نواب صاحب نے انگریزوں سے صلح کا فیصلہ کیا، تو حضرت سید احمد شہید ؒ نے ان کے سامنے ان الفاظ میں اپنی برہمی کا اعلان کیا:

 

’’ نصاریٰ(انگریزوں) سے نہ ملیں بلکہ لڑیں ۔خدائے تعالیٰ آپ کے ساتھ ہے۔‘‘(۸)
پھر جب وہ نہ مانے تو فرمایا:
’’اگر آپ نصاریٰ (انگریزوں) سے ملنے جاتے ہیں تو میں آپ سے رخصت ہوتا ہوں۔‘‘(۹)
اپنی تحریک کو مضبوط کر نے کے لئے علمائے کرام نے ہر اس شخص کو دعوت دی، جو انگریز وں کے خلاف لڑنے کے لئے تیار تھا۔ چنانچہ انہوں نے سرحد کی انقلابی تحریک میں مہاراجہ گوالیار کو بھی شرکت کی دعوت دی۔
۱۸۲۰ء میں حضرت سید احمد شہیدؒ اور مولانا اسمٰعیل شہیدؒ کی قیادت میں آزاد حکومت بھی قائم ہوئی۔ مگر انگریزوں کی سازش اور اپنوں کی بے وفائی سے یہ حکومت نا کام ہو گئی ۔ با لآخر ۱۸۳۱ء میں دونوں مجاہد بالا کوٹ میں شہید کر دےئے گئے۔ مگر یہ تحریک ’’تحریک مجاہدین‘‘ کے نام سے جاری رہی ۔

 

حضرت سید احمد شہید ؒ اور مولانا اسمٰعیل دہلوی کی شہادت کے بعد تحریک مجاہدین کی قیادت علمائے صادقپور کے حصہ میں آئی۔ علمائے صادقپور نے اس تحریک کو آگے بڑھا یا۔اس تحریک کے قائد مولانا ولایت علیؒ نے سرحد ی علاقوں کے مرکزکی کمان اپنے ہاتھ میں لیا۔مولانا ولایت علی ؒ اور مولانا عنایت علیؒ دونوں حضرات سرحد پار انگریزوں سے لڑائی کر تے ہوئے گرفتار کر لئے گئے۔اور انہیں پٹنہ بھیج دیا گیا۔ مولانا عنایت علی نے ۱۸۵۴ء میں انگریزوں کے حلیف نواب امب پر حملہ کیا۔ اوران کی سر سڈنی کاٹن کی فوج سے ٹکر ہوئی۔آخر انگریزی فوج کے محاصرہ میں بھوک پیاس اور بیماری سے جان دیدی۔اس تحریک میں علمائے صادقپور( عظیم آباد) نے نہایت اہم رول ادا کیا۔ مولانا عبداللہ صادقپوریؒ نے ۱۲۰۰ مجاہدین کی فوج تیار کی اور انگریزوں سے مقابلہ کیا۔ جس کے نتیجہ میں مولانا یحیے علیؒ اور مولانا احمداللہؒ پر انبالہ اور پٹنہ میں مقدمہ سازش چلایا گیا۔ ان حضرات کی خانہ تلاشی ہوئی۔ ۱۸۵۷ء کی ۱۸؍جون کو مولانا احمد اللہ صادقپوریؒ ، مولانا شاہ محمد حسین صادقپوریؒ اور مولانا واعظ الحقؒ ساکن بخشی محلہ نظر بند کر دےئے گئے۔انہیں ویلیم ٹیلر کمشنر پٹنہ نے تین مہینہ نظر بند رکھا۔ ان واقعات کے بعد ۱۸۵۷ء کا عذر ہوا ۔

 

۱۸۶۳ء میں پھر مجاہدین کا انگریزوں سے مقابلہ ہوا۔ جس کے نتیجہ میں صادقپور کے علماء میں سے مولانا احمداللہ کے چھوٹے بھائی مولانا یحیے علی اور مولانا عبد الرحیم صادقپوریؒ گرفتار کر لئے گئے۔اسی موقع پر مولانا جعفر تھا نیسریؒ کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔اور یہ سبھی حضرات انبالہ بھیج دےئے گئے۔ اور انہیں مقدمہ کے بعد کالا پانی میں عمر قید کی سزا ملی۔پھر ۱۸۸۵ء میں مولانا احمداللہ پر بغاوت کا مقدمہ قائم کیا گیا۔اور انہیں بھی عمر قید کی سزا ملی۔ ان کی ساری جائدادیں ضبط کر لی گئیں۔ مولانا احمداللہؒ نے ۱۸۸۲ء میں اور مولانا یحیے علیؒ نے ۱۸۸۶ء میں جزیرہ انڈمان میں وفات پائی ۔اسی سلسلہ میں مولانا محمد حسن کو بھی ۱۸۶۸ء میں گرفتار کیا گیا۔ اور ان پر اتنا ظلم ڈھایا گیا کہ وہ شہید ہوگئے۔
۱۸۵۷ء میں شاملی کے میدان میں علمائے کرام نے انگریزوں کے خلاف جنگ شروع کی۔ جس کی امامت حضرت حاجی امداداللہؒ اور قیادت مولانا محمدقاسم نانوتویؒ ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ ، مولانا منیر اور حافظ ضامن شہید کررہے تھے۔ان قائدین کے پیچھے مسلمانوں کی ایک بڑی فوج تھی۔ اس فوج کا ایک دستہ مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ کی قیادت میں ہتھیار اور بندوق سے لیس ہوکر باغ میں چھپ گیا۔ جب انگریزی فوج وہاں سے گذری، تو اس دستہ نے فائر شروع کر دیا۔ جس سے انگریزی فوج توپخانہ چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوئی۔ اس کے بعد مجاہدین نے شاملی کے فوجی کیمپ پر حملہ کردیا۔ وہاں فوج نے ہتھیار ڈال دےئے۔ یہ جنگ جاری ہی تھی کہ دہلی پرانگریزوں کا قبضہ ہوگیا۔ اس جنگ میں حافظ ضامن شہید ہو گئے۔ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ مظفرنگر جیل میں ڈال دےئے گئے۔ مولانا محمد قاسم نانوتویؒ تہہ خانہ میں چھپ گئے۔ انگریز فوج ان کی تلاش کر تی رہی۔ حضرت حاجی امداداللہؒ ہجرت کرکے مکہ معظمہ چلے گئے۔ شاملی کے محاذ کے پس منظر میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے ۱۸۵۷ء کے دس سال بعد ۱۸۶۶ء میں دارلعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی۔اور انقلابیوں کی ایک جماعت پیدا ہونے لگی۔ اس انقلابی مرکزکی قیادت حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کے ہاتھوں میں تھی۔ چنانچہ حضرت شیخ الہند ؒ نے آزادی کے لئے ایک خفیہ محاذ ۱۹۰۵ء میں قائم کیا۔اور پھر اندرونی اور بیرونی دونوں ہی طریقوں پر ملک کی آزادی کے لئے جدوجہد شروع کی ۔ بیرونی ملک کا کمان مولانا عبیداللہ سندھیؒ کے حوالہ کیا گیا۔ مولانا سندھی نے اس سلسلہ میں قابل قدر خدمات انجام دےئے۔ اور بہت حد تک آزادی کے لئے راستہ ہموار کرلیا۔ انہوں نے کابل پہنچ کر ۱۹۱۹ء میں کانگریس کمیٹی کی بنیاد بھی رکھی ، جس کے الحاق کی منظوری آل انڈیا کانگریس نے اپنے سیشن میں دیدی ۔اس طرح ۱۹۰۵ء سے۱۹۱۵ء تک حضرت شیخ الہند ؒ کی قیادت میں ریشمی خطوط کی سازش چلتی رہی۔ اس تحریک کے دوسرے قائد مولانا منصور انصاریؒ تھے۔ مولاناسندھیؒ اور مولانا منصور انصاریؒ اس سازش کے سلسلہ میں تیس سال افغانستان،روس، ترکی، آذر بائیجان اوریاغستان کے پہاڑوں میں دربدر پھر تے رہے۔ یہاں تک کہ جنوری ۱۹۴۶ء میں بحالت جلاوطنی مولانا منصور انصاری ؒ کا کابل میں انتقال بھی ہوگیا۔ اسی ریشمی خطوط سازش کے نتیجہ میں حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسنؒ حجاز میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ گرفتار کرلئے گئے ۔گرفتار ہونے والوں میں شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ ، حکیم نصرت حسین، سید ہاشم اور مولانا عزیز گل سرحدی بھی شامل تھے۔ یہ مجاہدین تین سال دو ماہ تک مالٹا میں انگریز حکومت کے قید کی سختیاں برداشت کر نے کے بعد رہا ہو کر وطن واپس ہوئے ۔ اور پھر ۱۹۱۹ء میں جمعیتہ علماء ہند کا قیام عمل میں آیا ۔ اور ملک کی آزادی کے لئے مسلسل کوشش شروع ہو گئی۔ ملک کی آزادی کے سلسلہ میں جمعےۃ علماء ہند نے جو کام کیا،وہ ہندوستان کی تاریخ کا اہم باب ہے۔ جمعےۃ علماء ہند نے تحریک مجاہدین اور ریشمی رومال تحریک کے تجربہ کی بنیاد پر اس کو محسوس کیا کہ تنہا ملک کی آزادی حاصل کر نا آسان نہیں ہے۔ چنانچہ جمعےۃ علماء ہند نے ۱۹۲۰ء میں ہندو اور مسلمان دونوں کے باہمی اتحاد سے جنگ آزادی میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اور اس فتوی پر علماء نے دستخط کئے۔ اس فتوی کے نتیجہ میں تقریباً پچاس ہزار مسلمان یا تو جیل گئے یا وطن سے بے وطن کر دےئے گئے ۔ ۱۹۲۰ء سے ۱۹۳۰ء تک جمعےۃ علماء ہند کی قیادت حضرت مولانا ابوالکلام آزاد، حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ اور حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی نے فرمائی۔۱۹۳۰ء کے بعد جمعےۃ علماء ہند میں قابل ذکر علماء کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ جن میں مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن ،مولانا احمد سعید، مولانا سید محمد میاں، مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری ،مولانا شاہد فاخری، مولانا عبد الحلیم صدیقی، مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد، مولانا ابوالوفاء شاہجہاں پوری،مولانا قاسم شاہجہاں پوری اور مولانانورالدین بہاری کے نام شامل ہیں۔ پھر۱۹۴۲ء میں مولانا آزاد کی صدارت میں ہندوستان چھوڑو تحریک شروع ہوئی، تو جمعےۃ علماء ہند اور کانگریس نے اس میں بھر پور حصہ لیا۔آخر ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کو حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ کی پیشین گوئی جو ۱۸۵۷ء میں محاذ شاملی کے بعد کی تھی، وہ پیشین گوئی سچ ہو کر سامنے آئی ’’ ہمارے جسم غلام سہی ،مگر ہماری روح کوآزاد رہنا چاہئے۔ اس طرح ہم اگلے ۵۷ء سے پہلے غیر ملکی غلامی کا خاتمہ کر دیں گے 

از قلم محمد عادل

‌متعلم جامعہ مدنیہ سبل پور پٹنہ

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...