Powered By Blogger

ہفتہ, اگست 14, 2021

بڑی خبر : آب مدھیہ پردیش میں سائنس اور کامرس کے طلبہ بھی اختیاری مضمون کے تحت اردو کی تعليم کرسکیں گے حاصل

بڑی خبر : آب مدھیہ پردیش میں سائنس اور کامرس کے طلبہ بھی اختیاری مضمون کے تحت اردو کی تعليم کرسکیں گے حاصل

(اردو اخبار دنیا)بھوپال : مدھیہ پردیش محکمہ تعلیم نے ریاست کے کالجوں میں اردو تعلیم کو لے کر بڑا فیصلہ کیا ہے ۔ محکمہ تعلیم کے نئے فیصلہ سے اب سائنس اور کامرس کے طلبہ بھی اختیاری مضمون کے تحت اپنی شیریں زبان اردو کی تعلیم حاصل کرسکیں گے ۔ ریاست میں بھی تک صرف آرٹس کے طلبہ کو ہی اردو تعلیم حاصل کرنے کا حق تھا اور سائنس و کامرس کے طلبہ چاہتے ہوئے بھی اردو تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہتے تھے۔ حکومت کے فیصلہ کا بزم ضیا نے خیر مقدم کیا ہے ۔ واضح رہے کہ مدھیہ پردیش بزم ضیا سرونج کے ذریعہ تین سال قبل آرٹس کے علاوہ سائنس اور کامرس کے طلبہ کو بھی اختیاری مضمون کے تحت اردو تعلیم دینے کے مطالبہ کو لیکر تحریک شروع کی گئی تھی جس پر حکومت نے اب مہر لگائی ہے ۔

بزم ضیا سرونج کے صدر فرمان اللہ خان فرمان ضیائی کہتے ہیں کہ یقینا اردو کو لیکر مدھیہ پردیش حکومت نے ایک بہت بڑا فیصلہ کیا ہے اور حکومت کے اس فیصلہ کا ہم دل کی گہرائیوں سے خیر مقدم کرتے ہیں ۔ اس فیصلہ سے صرف ہمارا دیرینہ مطالبہ پورا ہے ۔ نیوز 18 اردواس بات کا گواہ ہے کہ ہم نے تین سال قبل جب اس بات کو لیکر تحریک شروع کی تھی کہ آرٹس کے طلبہ کی طرح سائنس کے طلبہ کو بھی اختیاری مضمون کے تحت اردو کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع دیا جائے ، اس وقت لوگ ہمارے مطالبے پر ہنستے تھے اور یہ کہتے تھے کہ دیوانہ کا خواب کبھی پورا نہیں ہونے والا ہے ۔ اب جب حکومت نے احکام جاری کردیا ہے تویہی لوگ حیرت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہوا ۔ حکومت نے تو اپنا کام کردیا ہے اب سائنس اور کامرس کے طلبہ بھی کالج کی سطح پر اختیاری مضمون کے تحت اپنی شیریں زبان اردو کی تعلیم حاصل کرسکیں گے ۔

وہیں طالب علم سرفراز کہتے ہیں کہ حکومت نے سائنس اور کامرس کے طلبہ کے حق میں اردو کو لے کر بہت بڑا فیصلہ کیا ہے ۔ سائنس اور کامرس کے طلبہ ابھی تک اردو کی تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہتے تھے اور ان کی اسٹریم اردو زبان کی تعلیم حاصل کرنے کی راہ میں مانع آتی تھی ، اب حکومت نے آرٹس کے طلبہ ہوں یا کامرس سبھی اپنی خواہش کے مطابق اردو زبان کی تعلیم حاصل کرسکیں گے۔


بزم ضیا کے سکریٹری محمد حامد کہتے ہیں کہ حکومت نے تو اپنا کام کردیا ہے ۔ اب اردو والوں کو اپنی بیداری کا ثبوت دینے کی ضرورت ہے۔ طلبہ سائنس اور کامرس کے ساتھ اردو کی تعلیم حاصل کریں ، اس کو لے کر تنظیم کی جانب سے ریاست گیر سطح پر تحریک چلائی جائے گی ۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ طلبہ حکومت کے اقدام سے استفادہ کرسکیں

ہاں ! میں ہندوستان ہوں ۔ نازش ہما قاسمی

(اردو اخبار دنیا)ہاں! میں ہندوستان ہوں۔ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جہاں انسانوں کے باپ حضرت آدم علیہ السلام نے اپناقدم مبارک رکھا۔مجھے ہزاروں سال پرانا ملک ہونے کاشرف حاصل ہے۔۔۔یہاں قبل مسیح اشوک بادشاہ سے لے کر مغل فرمانروا بہادر شاہ ظفر تک نے مجھ پر حکومت کی، کبھی میں ظالم حکمرانوں کے زیر دست رہا تو کبھی نیک دل اور عادل ومنصف فرماں رواؤوں نے مجھ پر عادلانہ ومنصفانہ حکومت کی۔ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جہاں راجہ داہر جیسا ظالم، عہدو پیمان توڑنے والا بادشاہ گزرا تو وہیں اس کے غرور کو خاک میں ملانے کے لیے محمد بن قاسم جیسارحم دل جرنیل آیا، ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جہاں اکبر نے دین اکبری کی بنیاد ڈالی تواس کے دین اکبری کاپردہ چاک کرنے کے لئے مجددالف ثانی نے علم جہادبلندکیا، ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جہاں عالم گیر جیسے نیک دل بادشاہ نے حکومت کی، ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جسے شاہجہاں نے ایک حسین تاج محل دیا، پر شکوہ لال قلعہ دیا۔ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جہاں صوفی سنت آباد ہوئے، ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جہاں تاج محل، قطب میناراور لال قلعہ ہندوستان کی عظمت رفتہ کا شاہد و گواہ اور آزادی ہند کی خونچکاں المناک تاریخ اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ایستادہ ہے۔ ہاں!میں وہی ہندوستان ہوں جو کبھی سونے کی چڑیا کہلاتا تھالیکن اب لٹیرے وگھوٹالے بازوں کی وجہ سے کنگال و بھکمری کا شکارہے۔۔۔۔ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جس چڑیے کو حاصل کرنے کیلیے انگریزوں نے یہاں اپناآہنی تسلط قائم کیا، یہاں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیا، دو سو سال تک میری ہی دھرتی پرظالمانہ حکومت کرکے مجھے کھوکھلا کردیا، پھر میری دھرتی پر رہنے والے غیور ہندوستانیوں نے متحدہ ہندوستان کابل سے سری لنکا تک کو آزاد کرانے کی ٹھانی ،میرے لیے قربانیاں دیں، سب سے پہلے انگریزوں کے خلاف مسلمانوں نےہی علمِ جہاد بلند کیا۔ ہاں!میں وہی ہندوستان ہوں جہاں ٹیپو سلطان جیسا شیر میسور پیدا ہوا، جس کی موت پر انگریزوں نے فخریہ کہا تھا کہ آج سے ہندوستان ہمارا ہے۔ ہاں! میں وہی ہندوستان ہوں جس کے لیے علما ء حق نے شاملی کے میدان کو آبادکیا، لاہور سے دہلی تک کے درختوں کو اپنے جان کی قربانی دے کر آباد کیا، دریائے راوی میں بہے، لاہوری جامع مسجد میں لٹکائے گئے ۔۔۔۔ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جس کی آزادی کے لیے لاہور کے کوات لکھپت جیل میں بگھت سنگھ نے پھانسی کے پھندے کو چوما، منگل پانڈے نے بغاوت کی، شہید اشفاق اللہ خان نے جام شہادت نوش کیا، اور ایک دن ان مجاہدین آزادی کےخون نے اثر دکھایا اور میں 1947میں ملک آزاد ہوگیا ۔آزادکیاہوا؛ بلکہ یہ کہنازیادہ صحیح ہوگا کہ میری چھاتی کو دو حصوں میں چیرکر ایک ہی ماں باپ سے پیداہونے والے بھائیوں اوربہنوں کوالگ الگ ملک کاباشندہ بناکر ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کے خون کاپیاسابنادیا۔ برسوں شیروشکر کی طرح ایک ساتھ رہنے والے بھولے بھالے انسان انگریز کے جال میں پھنس گئے، گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دینے والے ایک دوسرے کے دشمن بن گئے اور انیس سو سینتالیس میں میری تقسیم کے وقت وہ خون خرابہ ہوا کہ شیطان بھی شرمندہ ہوگیا ،انسانیت کانپ اٹھی، ہر جگہ مہاجرین کی لاشیں نظر آنے لگیں، پنجاب کا گروداس پور خون سے سرخ ہوگیا، انسانی لاشیں تدفین کی منتظر مہینوں سڑکوں پر نظر آرہی تھیں ، تعفن زدہ ماحول قائم تھا، لیکن لوگ خوش تھے کہ انگریز ہندوستان سے چلے گئے، ملک آزاد ہوگیا، ہم آزادہوگئے؛ لیکن شاید دونوں طرف کے رہنے والے باشندوں کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ہم تورسما آزاد ہوئے ہیں، جمہوریت کا نام نہاد طوق گلے میں لٹکا دیا گیا ہے جہاں مجبور محض ہوکر زندگی گزارنی پڑے گی، عوام کے پاس طاقت نہیں ہوگی ،عوام محض مفلوک الحال ہوں گے، خیر کسی نہ کسی طرح ۱۹۴۷ کا طوفان گزر گیا، عوام خوش رہے کہ آزادہیں اورخدا کا شکر ہے کہ آزاد ہیں، لیکن آزادی کے بعد سے ہی جس قوم نےمیری آزادی کی خاطر سب سے زیادہ قربانیاں دیں، جہادِ آزادی کا فتوی دیا، اسے نشانہ بنانے کا عمل شروع ہوگیا، کانگریس نے اسے اپنے ووٹ بینک کی طرح استعمال کرنا شروع کیا تو بھگوادھاری اور زعفرانی پارٹیوں نے اسے ڈرا دھمکاکر رکھا اور ایک دن ایساآیا کہ میں شرمندہ ہوگیا، مجھے آزاد ہونے پر افسوس ہونے لگا، کانگریس کی چپی اور انگریزوں کے تلوے چاٹنے والی فرقہ پرست پارٹیوں نے تاریخی بابری مسجد کو آئین ہند بنانے والے بابا صاحب امبیڈکر کی یوم پیدائش پر شہیدکرکے یہ پیغام دے دیا کہ مسلمان جمہوریت پر یقین رکھیں،!!!.. ہمیں نہیں رکھنا، ہم ان کی مساجد وعبادت گاہوں کو مسمار کردیں گے، فسادات کے ذریعے ان کی املاک تباہ کردیں گے اور ۱۹۹۲ کے بعد کا نہ تھمنے والا ایساسلسلہ جاری ہوا جو ممبئی، بھیونڈی، ملیانہ، مرادآباد، اورنگ آباد ،نالندہ، بکسر، گجرات کے خونی ماحول سے ہوتا ہوا مظفر نگر تک پہنچا جہاں صرف ایک ہی قوم کو نشانہ بنایا گیا، اس کی معیشت کو تباہ کیا گیا، ان کی ہی ماؤں بہنوں کی عصمت لو ٹی گئی اور ستم بالائے ستم تو یہ ہوا کہ ان ہی سے حب الوطنی کا ثبوت بھی مانگا جانے لگا۔ اب میرا حال یہ ہے کہ مجھ پر جو میری آزادی کیلیے کبھی نہیں لڑے ان کی حکومت ہے اور جنہوں نے آزادیءِ ہند کے ذریعے مجھے اپنے خون سے سیراب کیا وہ دوسرے درجے کے شہری ہیں، ان کا ملک میں جینا دوبھر ہے، عدلیہ ،مقننہ، حکومت، صحافت سب ان کے خلاف ہیں، پھر کاہے کا میں جمہوری ہندوستان؟ ، اب میں جمہوری ہندوستان نہ رہا، کچھ دن بعدسب لوگ جشن جمہوریت منائیں گے، اس میں وہ لوگ بھی شامل ہوں گے جوسچے دل سے مجھے جمہوری ملک تسلیم کرتے ہیں، میرے جمہوری دستورپریقین رکھتے ہیں اورملک میں امن وشانتی اورقومی یکجہتی کاپیغام عام کرنے کی کوشش کرتے ہیں اورمیری جمہوریت کاجشن وہ لوگ بھی منائیں گے جنہوں نے میری جمہوریت اورمیرے دستورکامذاق اڑایا، اتناہی نہیں؛ بلکہ وہ لوگ ہرلمحہ اورہرپل میرے آئین اور دستور کو ختم کرکے میری سیکولرحیثیت کوچھین کرمجھے ہندوراشٹرمیں بدلناچاہتے ہیں؛ لیکن میں سوچ رہا ہوں کاش وہ عادل حکمراں پھر آجاویں جنہوں نے ہزاروں سال سال تک مجھ پر حکومت کی؛ لیکن کبھی ان کے دورِ حکومت میں فسادنہ ہوا، کبھی ملکی معیشت بے شرموں کی طرح نہ گری، اس دور میں میں سونے کی چڑیا تھا، کاش اے کاش! وہ عادل ومنصف حکمراں مجھے پھر نصیب ہوجائیں؛ تاکہ ہزاروں سال پرانی روایت باقی رہے اور ملک کے عوام سمیت میں خوشحال رہوں، میرے سینے پر بھگوا دھاری نفرت کے نعرے نہ بلند کریں؛ بلکہ ہندومسلم سکھ عیسائی سبھی آپسی محبت و بھائی چارگی کے ساتھ محبت کے زمزمے گائیں

جنگ آزادی اور مسلمان - معصوم مراد آبادی -

(اردو اخبار دنیا)جنگ آزادی کے عظیم ہیروٹیپو سلطان شہید پر شہرۂ آفاق ناول لکھنے والے بھگوان گڈوانی کا بیان ہے کہ انہیں یہ ناول لکھنے کی ترغیب اس اجنبی فرانسیسی نوجوان نے دلائی تھی' جو لندن میں برٹش میوزیم سے نکلتے ہوئے چند لمحوں کے لئے ان کا ہم سفر ہوا تھا ۔اس نوجوان کو بارش سے بچنے کے لئے گڈوانی نے اپنی چھتری میں پناہ دی اور وہ اس کے ساتھ کافی ہاوس چلے گئے ۔باتوں باتوں میں اس نے بتایاکہ'' وہ ان بادشاہوں پر ریسرچ کررہا ہے جنہوں نے میدان جنگ میں لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا 'لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ پوری دنیا میں ٹیپو سلطان کے علاوہ ابھی تک کوئی ایسا بادشاہ نہیں ملا جس نے جنگ کے میدان میں لڑتے ہوئے شہادت پائی ہو۔بیشتر بادشاہ یا تو بھاگ گئے یا پکڑے گئے یا ہتھیار ڈالے اور مارے گئے ۔''اس بات سے بھگوان گڈوانی اتنا متاثر ہوئے کہ انہوں نے ٹیپو سلطان پر ریسرچ کرنے کا فیصلہ کیا اور دنیا کی کئی بڑی لائبریریوں اور آرکائیوز کا مطالعہ کرنے کے بعد ایک انتہائی لا جواب ناول ''دی سورڈ آف ٹیپو سلطان ''تخلیق کیا ۔ بھگوان گڈوانی نے یہ باتیں مجھے ایک انٹرویو کے دوران جنوری 1990میں اس وقت بتائی تھیں جب ان کے ناول پر سنجے خان نے ایک انتہائی متاثر کن ٹی وی سیریل بنایا تھا ۔کچھ فرقہ پرست عناصر اس سیریل کو دوردرشن پر ٹیلی کاسٹ کئے جانے کے خلاف تھے اور انہوں نے اس سیریل کے خلاف طوفان برپا کررکھا تھا ۔حالانکہ بھگوان گڈوانی کے ناول کو خاصی مقبولیت حاصل ہوئی تھی اور اس کی ڈھائی لاکھ کاپیاں فروخت ہوچکی تھیں ۔ٹیپو سلطان کی مخالفت آج بھی جاری ہے ۔ شیر میسور ٹیپو سلطان نے 4مئی 1799کو سرنگا پٹنم کے مقام پر انگریزوں سے لوہا لیتے ہوئے جام شہادت نوش کیا تھا ۔انہوں نے انگریز سپا ہ کا مقابلہ اتنی بہادری اور جرأت کے ساتھ کیا کہ ان سے لوہا لینے والی فوج کے انگریز کمانڈر نے کہا تھا کہ ''ٹیپو سلطان نے ایک شیر کی طرح جنگ کی ۔'' جام شہادت نوش کرنے کے بعد بھی انگریز سپاہیوں پر ٹیپوسلطان کا رعب اتنا زبردست تھا کہ وہ ان کی لاش کے قریب جاتے ہوئے ڈرتے تھے ۔کسی طرح ہمت پیدا کرکے وہ وہاں پہنچے اور ان کے سینے پر پاوں رکھ کر کہا کہ ''آج ہندوستان ہمارا ہے ۔'' ٹیپو سلطان کا یہ قول آج بھی تاریخی کتابوں میں سنہرے لفظوں سے لکھا ہوا ہے کہ ''گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہوتی ہے ۔'' مادر وطن کی حفاظت کے لئے غیر معمولی جرأت اور بہادری کی مثال صرف ٹیپو سلطان نے ہی پیش نہیں کی بلکہ ایسے ہزاروں واقعات نقل کئے جاسکتے ہیں جن میں مسلمانوں نے ہندوستان کی آزادی کے لئے بے مثال قربانیاں دیں اور جذبہ ٔحریت کی مثالیں قائم کیں ۔1857کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد انگریزوں نے دہلی میں وحشیانہ قتل عام کیا اور ہر درخت پر حریت پسندوں کی لاشیں لٹکا دیں ۔اسی دوران آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو قید کر لیا گیا ۔انگریزوں نے ان کے بیٹوں اور پوتوں کے سر قلم کرکے ایک طشتری میں سجا کر انہیں پیش کئے ۔اپنے جگر پاروں کے کٹے ہوئے سر دیکھ کر بہادر شاہ ظفر نے اپنا سر فخر سے بلند کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''خاندان تیموریہ کے فرزند ایسے ہی سرخرو ہوکر پیش ہوتے ہیں ۔'' دنیا میں جدوجہد آزادی کی کوئی تاریخ جذبہ حریت کی ایسی لازوال مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ تحریک خلافت کے رہنما اور عظیم مجاہد آزادی مولانا محمد علی جوہر کی قربانیوں سے کون واقف نہیں ۔انہوں نے ہندوستان کی آزادی کے لئے ہمہ وقت جدوجہد کی اور انگریزوں کی غلامی قبول کرنے سے انکار کردیا ۔لندن کی گول میز کانفرنس میں انگریز سامراج کو چیلنج کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ''میں اپنے ملک کو اسی حالت میں واپس جا سکتا ہوں جبکہ میرے ہاتھوں میں آزادی کا پروانہ ہوگا ۔اگر آپ نے ہندوستان کو آزادی نہیں دی تو پھر آپ کو یہاں مجھے قبر کے لئے جگہ دینی پڑے گی ۔'' اپنے اس انقلابی بیان کی لاج مولانا محمد علی جوہر نے ایسے رکھی کہ وہ ہندوستان واپس نہیں آئے اور انہوں نے 4جنوری 1931کو لندن میں اپنی جان جان ِآفریں کے سپرد کردی ۔مولانا محمد علی جوہر ہندوستان کی جنگ آزادی کے ایسے سپاہی تھے جن کی مثال مشکل سے ملے گی ۔آج بھی فلسطین میں مولانا محمد علی کی قبر پر جو کتبہ لگا ہوا ہے اس پر جلی حرفوں میں لکھا ہے ۔'محمد علی الہندی '۔مولانا محمد علی جوہر نے جنگ آزادی کے دوران پوری قوم کو جگانے کے لئے یہ پیغام دیا تھا: خاک جینا ہے' اگر موت سے ڈرنا ہے یہی ہوس ِزیست ہو اِس درجہ تو مرنا ہے یہی نقد جاں نذ ر کروسوچتے کیا ہو جوہر ؔ کام کرنے کا یہی ہے 'تمہیں کرنا ہے یہی پروفیسر خلیق احمد نظامی نے لکھا ہے کہ " مولانا محمد علی نے ایک سوتی ہوئی قوم کو ابھار کر ایک قوت بنا دیا تھا ۔انہوں نے ٹوٹی ہوئی کشتی کے ملاح کی طرح طوفان کا مقابلہ کرتے ہوئے جان دی ۔مولانا سید سلیمان ندوی نے لکھا ہے کہ ''وہ شکست خوردہ قوم کا آخری سپاہی تھا جو اعداء کے نرغے میں تنہا لڑرہا تھا۔آخر کار زخموں سے چور ہوکر ایسا گرا کہ پھر کھڑا نہ ہوسکا ۔'' یوں تو ہندوستان کی جنگ آزادی میں ہزاروں متوالوں نے پھانسی کے پھندے کو چوما اور وطن پر اپنی جان نچھاور کردی لیکن ان میں ایک نام ایسا بھی ہے جسے اپنے وطن پر جان قربان کرنے والوں میں بڑی قدر و منزلت حاصل ہے ۔یہ تھے شہید وطن اشفاق اللہ خاں جنہوں نے 27برس کی عمر میں تختہ دار کو بوسہ دینے سے قبل اپنی ماں کو جو آخری خط لکھا تھا' وہ وطن کے لئے ان کی بے پناہ محبت کا آئینہ دار ہے ۔انہوں نے لکھا تھا کہ: ''اگر مجھے ہزار بار پھانسی دی جائے اور میں ایک ہزار دفعہ مرمر کے دوبارہ پیدا ہوں تو بھی وطن کے لئے مر مٹنے کا میرا جذبہ اسی طرح تروتازہ رہے گا ۔'' مشہور زمانہ کا کوری کیس میں 6 اپریل 1927کو سیشن جج ہملٹن نے اشفاق اللہ خاں کو پھانسی کی سزا سنائی ۔ان پر پانچ دفعات لگائی گئی تھیں جن میں دو دفعات کے تحت تاعمر کالا پانی کی سزا اور تین دفعات کے تحت سزائے موت دی گئی تھی ۔پھانسی کا فیصلہ سننے کے باوجود ان کے اطمینان اور سکون میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آیا ۔جیل کے ریکارڈ کے مطابق ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ کسی موت کے مہمان کا وزن بڑھ جائے ۔جس وقت اشفاق اللہ خاں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی' اس وقت ان کا وزن 178پونڈ تھا اور اس کے بعد جب پھانسی دی جانے والی تھی تو ان کا وزن 203پونڈ ہوچکا تھا ۔وزن میں یہ اضافہ وطن پر قربان ہونے کی خوشی میں ہوا تھا جس کا اظہار انہوں نے اپنی والدہ کے نام خط میں بھی کیا تھا ۔تختہ دار پر جب جلاّد نے ان سے آخری خواہش پوچھی تو اشفاق اللہ خاں نے اپنا ہی یہ شعر پڑھا تھا: کوئی آرزو نہیں ہے' بس آرزو یہی ہے رکھ دے کوئی ذراسی خاکِ وطن کفن

وقف بورڈ کی رقم ہڑپنے والے دو افراد کے خلاف ایف آئی آر درج

وقف املاک میں کسی بھی قسم کی خرد برد کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا: نواب ملک

ممبئی: وقف کی رقم ہڑپنے والے دو افراد کے خلاف پونے کے بنڈ گارڈن پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔ ان افراد پر الزام ہے کہ انہوں نے خود کو وقف بورڈ کے تحت رجسٹرڈایک ٹرسٹ کا ٹرسٹی وسکریٹری بتاکر حکومت کی جانب سے ٹرسٹ کو اداکیے گئے تقریباً پونے آٹھ کروڑ روپئے اپنے اکاؤنٹ میں جمع کروالیے۔ بنڈگارڈن پولیس اسٹیشن ان افراد کی تلاش کررہی ہے۔اطلاعات کے مطابق مان، تعلقہ مولشی، ضلع پونے میں تابوت انعام انڈومنٹ ٹرسٹ کی تقریباً ساڑھے ۸ ہیکٹر زمین تھی جس میں سے ۵ ہیکٹر 51زمین کو ریاستی حکومت نے گزشتہ سال دسمبر میں مہاراشٹر انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کے قانون کے تحت ایکوائر کرلیا تھا اور اس کے بدلے ریاستی حکومت نے 09,64,42,500روپئے ادا کرنا منظور کیا تھا۔ لیکن یہ رقم بجائے ٹرسٹ کو ملنے کے درمیان میں ہی دو افراد امتیاز محمد حسین شیخ اور چاند ملانی نے خود کو ٹرسٹ کا صدر وسکریٹی بتاکر 07,76,98,250روپئے کا ڈیمانڈ ڈرافٹ وصول کرکے اپنے اکاؤنٹ میں کیش کروالیا۔اس دھوکہ دہی کی اطلاع ملتے ہی پونے کے ریاستی وقف افسر خسرو خان نے نے پونے کے بنڈگارڈن پولیس اسٹیشن میں امتیاز محمدحسین شیخ اور چاند ملانی کے خلاف شکایت درج کرائی اور پولیس نے ریاستی وقف آفیسر کی شکایت کی بنیاد پر مذکورہ دونوں ملزمین کے خلاف تعزیراتِ ہندکی دفعہ 420, 406, 464, 467, 472 ؍اور دفعہ 34کے تحت مقدمہ درج کرتے ہوئے ملزمین کی تلاش شروع کردی ہے۔

محکمہ اوقاف سے ملی اطلاع کے مطابق ان ملزمین نے ڈپٹی ضلع کلکٹر سے ریاستی حکومت کی جانب سے ایکوائر زمین کے بدلے میں منظور شدہ رقم حاصل کرنے کے لئے اورنگ آباد وقف بورڈ کے دفتر کی جانب سے جعلی این اوسی تک بناکر پیش کی تھی، جس کی بنیاد پر ڈپٹی کلکٹر نے رقم کا ڈیمانڈ ڈرافٹ انہیں سونپ دیا تھا۔ پولیس کے پاس درج کرائے گئے وقف آفیسر خسروخان کے بیان کے مطابق جب ہمیں اس دھوکہ دہی کا علم ہوا تو ہم نے ڈپٹی کلکٹر کے پاس اس کی شکایت کی جس پر 13/جولائی 2021کو ڈپٹی کلکٹر نے سماعت کرتے ہوئے ملزمین کی جانب سے پیش کئے گئے کاغذات کی بنیاد پر وقف بورڈ کی شکایت کوخارج کردیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملزمین نے ڈپٹی کلکٹر سے ایک رقم کا ڈیمانڈڈرافٹ دوبار حاصل کیا۔ پہلی بار جب یہ ڈیمانڈڈرافٹ جمع کرایا گیا توکچھ تکینکی دشواریوں کے سبب یہ ڈیمانڈڈرافٹ واپس ہوگیا جس کے بعد ڈپٹی کلکٹر نے دوسری بار یہی ڈیمانڈڈرافٹ جاری کیا۔

 

اس ضمن میں بات کرتے ہوئے وقف بورڈ کے وزیر نواب ملک نے کہا کہ یہ وزارت جب سے میرے پاس آئی ہے، میری حتی الممکن کوشش ہے کہ وقف املاک کا نہ صرف تحفظ کیا جائے بلکہ اس میں کسی بھی قسم کا خردبرد کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ وقف آفیسرس کو ہماری وزارت کی جانب سے واضح ہدایت دی جاچکی ہے کہ وقف املاک میں کسی بھی قسم کی دھاندھلی،دھوکہ دہی وخردبرد کسی طور برداشت نہیں کی جائے گی۔ اس سے قبل بیڑ میں بھی ایک ایف آئی آر درج ہوچکی۔ نواب ملک نے کہا کہ وقف املاک کی حفاظت کرنا محکمہ اوقفاف کی اولین ذمہ داری ہے اور اسی ذمہ داری کے تحت ہم نے تمام وقف آفیسران کو سخت تاکید کی ہے کہ اگروقف املاک میں کوئی بھی کسی بھی قسم کا خرد بردکرتا ہے تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور اسے کسی بھی صورت بخشا نہیں جائے گا۔

مہاراشٹر کے بعد پنجاب میں بھی داخلہ کے لیے کورونا کے دونوں ٹیکہ لازمی

  • (اردو اخبار دنیا)

ہندوستان میں کورونا کے ڈیلٹا پلس ویریئنٹ کے بڑھتے معاملے کے درمیان مہاراشٹر کے بعد پنجاب حکومت نے بھی سخت اقدام اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ امریندر سنگھ نے کہا ہے کہ پیر کے روز سے صرف انہی لوگوں کو پنجاب میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی جنھوں نے کورونا ویکسین کی دونوں خوراک لے لی ہیں، یا جن کے پاس نگیٹو آر ٹی پی سی آر رپورٹ ہو۔

پڑوسی ریاستوں ہماچل پردیش اور جموں سے آنے والے لوگوں پر سخت نگرانی رکھے جانے کا فیصلہ بھی لیا گیا ہے۔میڈیا ذرائع سے موصول ہو رہی خبروں کے مطابق پنجاب کے اسکولوں اور کالجوں میں صرف مکمل ٹیکہ لے چکے ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ اسٹاف کو ہی داخلے کی اجازت دی جائے گی۔ طلبا کے لیے آن لائن کلاس لینے کا بھی متبادل رہے گا۔ وزیر اعلیٰ امریندر چاہتے ہیں کہ اسپیشل کیمپ لگا کر ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ اسٹاف کو ترجیحی بنیاد پر کورونا ویکسین دی جائے۔ اسی درمیان ریاست کے وزیر صحت نے اساتذہ اور اسکول ملازمین کے لیے دوسری خوراک کو ترجیح کے ساتھ دینے کے لیے دونوں خوراک کے درمیان فرق کم کرنے پر زور دیا ہے۔

واضح رہے کہ پنجاب میں جمعہ کو کورونا وائرس کے 88 نئے معاملے سامنے آئے تھے اور کسی کی بھی موت نہیں ہوئی تھی۔ ریاست میں مجموعی طور پر تقریباً 6 لاکھ معاملے پہنچ گئے ہیں۔ پنجاب میں اسکول پھر سے کھلنے کے بعد کورونا وائرس ٹیسٹنگ کا عمل تیز کر دیا گیا ہے۔ حکومت نے روزانہ اسکولوں سے کم از کم 10 ہزار آر ٹی پی سی آر جانچ کرنے کا فیصلہ لیا ہے

آسام: اسکول میں دھماکہ سے حالات کشیدہ، آسام-میزورم سرحد پر حالات ناگفتہ بہ

  • (اردو اخبار دنیا)

آسام اور میزورم کے درمیان سرحدی تنازعہ کو لے کر ابھی بات چیت جاری ہی تھی کہ آسام واقع ایک اسکول میں زبردست دھماکہ سے ایک بار پھر آسام-میزورم سرحد پر حالات کشیدہ ہو گئے ہیں۔ دونوں ریاستوں کی حکومت کی کوششوں سے سرحد پر امن بحال ہو بھی چکا تھا، لیکن نامعلوم شرپسندوں نے جمعہ کی شب میزورم کی سرحد کے قریب آسام کے ایک اسکول میں جو دھماکہ کیا، اس نے ناگفتہ بہ حالت کی بنیاد ڈال دی ہے۔ یہ واقعہ آسام کی کچھ شہری تنظیموں کے ذریعہ لگائی گئی ایک ہفتہ سے زیادہ مدت سے چلی آ رہی معاشی ناکہ بندی کے بعد سرحد پر امن بحال ہونے کے کچھ دنوں بعد پیش آیا ہے۔

میڈیا ذرائع سے موصول ہو رہی خبروں کے مطابق ہیلاکانڈی ضلع کے گٹگٹی علاقے میں جمعہ کی شب پاکوا پنجی ایل پی اسکول میں دھماکہ ہوا۔ اس دھماکہ سے عمارت کو نقصان پہنچنے کی خبریں بھی موصول ہو رہی ہیں۔ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب مقامی لوگوں نے اسکول میں دھماکہ کی آواز سنی۔ پولیس کے مطابق یہ اسکول سرحد سے تقریباً 500 میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ فروری میں اسی ضلع کے ملیوالا لووَر پرائمری اسکول میں بدمعاشوں نے دو دھماکے کیے تھے۔ اس سے قبل پڑوسی کچھار ضلع کے دو اسکولوں میں بھی بمباری کی گئی تھی۔

 

گزشتہ سال اکتوبر سے سرحد پر نظامِ قانون سے متعلق واقعات کا ایک سلسلہ میزورم پولیس کی گولی باری پر ختم ہوا، جس میں 26 جولائی کو آسام پولیس کے چھ جوان مارے گئے۔ جوابی کارروائی میں آسام میں کچھ شہری تنظیموں نے ایک ناکہ بندی لگائی، جس کے لیے میزورم میں گاڑیوں کی آمد و رفت کی اجازت نہیں تھی۔

کچھ میڈیا رپورٹوں کے مطابق ہیلاکانڈی ضلع کے کتلی چیرا واقع بلائی پور علاقے میں کشیدگی پیدا ہو گئی تھی جب میزورم کے کچھ لوگ مبینہ طور سے سڑک بنانے کے لیے جدید اسلحہ لے کر پہنچے تھے۔ وہ ایک ’اَرتھ موور‘ بھی ساتھ لائے تھے۔ مسلح افراد کو دیکھ کر مقامی باشندے وہاں سے فرار ہو گئے۔ کتلی چیرا کے رکن اسمبلی سجم الدین لسکر نے ریاست کے پولیس ڈائریکٹر جنرل کو اس واقعہ سے مطلع کرایا ہے اور ان سے مداخلت کا مطالبہ کیا ہے۔

واضح رہے کہ تقریباً 165 کلو میٹر طویل سرحد کو لے کر آسام اور میزورم کے دریان طویل مدت سے تنازعہ چل رہا ہے۔ دونوں ریاستوں نے 26 جولائی کے خونی کھیل کے بعد ایک خیر سگالی پر مبنی حل تلاش کرنے کی کوشش کے لیے پھر سے بات چیت شروع کی ہے۔

رات میں شوہر قضائے حاجت کیلئے گیا باہر تو بیوی نے بلالیا عاشق ، پھر ہوا کچھ ایسا ، رہ جائیں گے حیران

(اردو اخبار دنیا)گڑھوا: جھارکھنڈ کے گڑھوا میں میاں بیوی اور وہ کا معاملہ سامنے آیا ہے ۔ دراصل شوہر قضائے حاجت کیلئے گھر سے باہر گیا تو بیوی نے عاشق کو بلاکر اس کے ساتھ جسمانی تعلقات قائم کرنے لگی ۔ اسی درمیان شوہر گھر لوٹ آیا اور دونوں کو قابل اعتراض حالت میں پکڑ لیا ۔ اس کے بعد مقامی لوگوں کی مدد سے عاشق کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا ۔ عاشق نے بتایا کہ وہ گزشتہ دو ماہ سے خاتون کے رابطے میں تھا ۔

ضلع کے صدر تھانہ حلقہ کے سنگرہے گاوں میں شوہر دیر رات قضائے حاجت کیلئے گھر سے باہر گیا ۔ اسی درمیان بیوی نے اپنے عاشق کو فون کرکے گھر بلالیا اور اس کے ساتھ ناجائز تعلقات بنانے لگی ۔ اسی درمیان شوہر وہاں پہنچ گیا اور بیوی کو کسی کے ساتھ تعلقات قائم کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ۔ جائے واقع پر ہنگامہ سن کر گاوں والوں کی بھیڑ جمع ہوگئی ۔ مقامی لوگوں نے عاشق کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا ۔

شوہر نے بتایا کہ وہ رات کو قضائے حالت کیلئے گھر سے باہر گیا تھا ۔ اسی دوران بیوی نے اپنے عاشق کو اس کے گھر بلالیا اور ناجائز تعلقات بنانے لگی ۔ وہ لوٹا تو دونوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ۔ عاشق نے بتایا کہ وہ پرساد لینے کیلئے خاتون کے گھر آیا تھا اور خاتون کے کہنے پر رہ ناجائز تعلقات بنانے لگا ۔


عاشق کے مطابق گزشتہ دو ماہ سے وہ خاتون کے رابطے میں تھا ۔ پولیس نے ملزم عاشق کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا ہے ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...