Powered By Blogger

اتوار, اگست 15, 2021

جب حیدرآباد دکن کے آخری صدر اعظم بھارت کو چکمہ دے کر کراچی فرار ہوئے اگست 15, 2021

جب حیدرآباد دکن کے آخری صدر اعظم بھارت کو چکمہ دے کر کراچی فرار ہوئے
 اگست 15, 2021


ظہور حسین 

(اردو اخبار دنیا)
 
7 مارچ 1950 بروز منگل بھارت اور پاکستان سے شائع ہونے والے متعدد اخبارات میں یہ سنسنی خیز خبر شائع ہوئی کہ حیدرآباد دکن کے آخری صدر اعظم میر لائق علی اپنی رہائش گاہ بیگم پیٹ (جسے سب جیل قرار دیا گیا تھا) سے فرار ہو کر کراچی پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔اس سنسنی خیز خبر کا بنیادی سورس (ذریعہ) ریڈیو پاکستان کی ایک خبر تھی جس میں کہا گیا تھا کہ حیدرآباد دکن کے صدر اعظم میر لائق علی نے دارالحکومت کراچی میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں شرکت کی ہے۔باور کیا جاتا ہے کہ ریڈیو پاکستان نے جس تقریب میں لائق علی کی شرکت کا انکشاف کیا تھا وہ انہی کے خیر مقدم و استقبال کے لیے منعقد کی گئی تھی۔پاکستان میں اس وقت تعینات بھارتی ہائی کمشنر سیتا رام کو پہلے ہی کہیں سے لائق علی کی کراچی آمد کی اطلاع ملی تھی۔ انہوں نے حیدرآباد دکن پر فوجی حملے کے منصوبہ ساز سردار ولبھ بھائی پٹیل (بھارت کے پہلے نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ) سے ٹیلیفونک رابطہ قائم کیا۔

 


 
سیتا رام نے علیک سلیک کے بعد ولبھ بھائی پٹیل سے پوچھا: ’کیا لائق علی کی نظر بندی ختم کی گئی ہے کہ وہ یہاں کراچی آ پہنچے ہیں؟‘اس خبر سے پٹیل سخت پریشانی میں مبتلا ہوئے کہ کیسے ایک زیر حراست شخص، جو عالمی شہرت کا حامل ہو، بھارتی پولیس فورس اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں کو چکمہ دے کر اتنی آسانی سے کراچی فرار ہو سکتا ہے۔سردار پٹیل سے رہا نہیں گیا اور انہوں نے فوراً حیدرآباد میں تعینات اپنے افسروں کو ٹیلیفون کیا اور ان سے جاننا چاہا کہ لائق علی کہاں اور کیسے ہیں۔ حقیقت سے نابلد افسروں نے انہیں جواب دیا کہ موصوف پچھلے چند ہفتوں سے علیل ہیں اور اپنی رہائش گاہ پر ہی نظر بند ہیں۔

 

سردار پٹیل نے کسی برہمی کا اظہار کیے بغیر حکم دیا کہ پولیس کا کوئی سینیئر افسر جا کر لائق علی کی مزاج پرسی کرے۔ جب پولیس کے انسپکٹر جنرل رینک کے ایک افسر بیگم پیٹ میں لائق علی کی رہائش گاہ پر پہنچے تو انہیں وہاں کمرے میں پلنگ پر لائق علی کی جگہ ایک تکیہ رکھا ہوا ملا اور ان کے اہل خانہ و ملازم گھر سے غائب تھے۔پھر جب حیدرآباد میں تعینات چیف سویلین ایڈمنسٹریٹر ڈی ایس باکھلے نے سردار پٹیل کو بتایا کہ ’لائق علی فرار ہو گئے ہیں‘ تو آخرالذکر نے اولالذکر کو اس ’ہزیمت ناک لاپرواہی‘ پر خوب ڈانٹ پلائی۔اسی دوران حیدرآباد دکن میں میر لائق علی کے فرار کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور افواہوں کا بازار بھی گرم ہو گیا۔کہیں افواہ تھی کہ ’صدر اعظم‘ ایک بڑی دیگچی میں بیٹھ کر گھر سے فرار ہو گئے، کہیں یہ افواہ پھیلی تھی کہ وہ برقعہ پہن کر گھر سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور کہیں یہ افواہ تک تھی کہ وہ ایک خصوصی ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر پاکستان چلے گئے۔

فرار کی کہانی سامنے لانے والے مسلمان افسر:بھارتی حکومت نے میر لائق علی کے کراچی فرار ہونے کے واقعہ کی تفتیش کے لیے انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ بی این ملک کو حیدرآباد روانہ کیا۔ حیدرآباد پہنچنے پر آئی جی پی جیٹلے اور کمشنر سٹی پولیس ایس این ریڈی کو ان کے ساتھ تعینات کیا گیا۔ان تینوں نے بھارتی حکومت کے احکامات پر مقامی کرائم انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ یا سی آئی ڈی کے مسلمان افسر فضل رسول خان ناغڑ کو بھی تفتیشی ٹیم میں شامل کر لیا جنہوں نے کچھ ہی گھنٹوں میں پتہ لگایا کہ لائق علی کس طرح اپنی رہائش گاہ سے فرار ہو کر کراچی پہنچے۔اپنے زمانے میں حیدرآباد دکن کے شرلاک ہومز کہلائے جانے والے فضل رسول کی یاداشتوں پر مشتمل کتاب ’سراغ رسانی اور تفتیش‘ کو ان کے بیٹے محمد مرتضیٰ علی خان نے سنہ 1981 میں حیدرآباد دکن سے شائع کرایا ہے۔

 

اس کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سی آئی ڈی کے افسر فضل رسول کو لائق علی کے فرار کی پوری کہانی ان (لائق علی) کی ہمشیرہ شوکت النسا بیگم اور ان کے صاحبزادے فصیح الدین، دیگر عزیز و اقارب اور ڈرائیوز سے معلوم ہوئی۔کتاب میں لکھا ہے: ’بھارتی حکومت نے یہ معلوم کرنے میں بہت زیادہ دلچسپی ظاہر کی کہ آخر لائق علی اتنے کڑے پہرے سے کس طرح بچ کر نکل گئے۔ حیدرآباد میں شک کی بنا پر بہت سی گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں، نظام حیدرآباد کی حکومت کے وزرا و عہدیدار جو اپنے گھروں پر نظر بند تھے کو سینٹرل جیل منتقل کیا گیا، لائق علی کے رشتہ داروں، عزیز و اقارب اور ان سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کو نظر بند کر دیا گیا۔’جب بی این ملک اور ان کی ٹیم تین دن تک لائق علی کے فرار ہونے کے طریقہ کار کا انکشاف نہ کر سکی تو بھارتی حکومت نے ہدایت دی کہ مقامی سی آئی ڈی عہدیدار فضل رسول خان کو بھی شریک تفتیش کیا جائے۔ شاید میرا ذکر کے ایم منشی (ایجنٹ جنرل آف انڈیا ان حیدرآباد سٹیٹ) کی اُن رپورٹس میں تھا جو وہ بھارتی حکومت کو پیش کیا کرتے تھے۔

’بہرحال میں نے اندرون تین گھنٹے تفتیش مکمل کر لی۔ لائق علی نے فرار ہونے کے لیے کوئی غیر معمولی یا محیر العقول طریقہ استعمال نہیں کیا تھا۔ ہر قدم پر ان کے گرفتار ہونے کا امکان موجود تھا۔ ان کی قسمت نے ان کا ساتھ دیا وہ بچ کر نکل گئے۔‘

لائق علی کے فرار کا منصوبہ

فضل رسول خان ناغڑ کی کتاب ’سراغ رسانی اور تفتیش‘ میں لکھا ہے کہ 1948 میں بھارت کے حیدرآباد دکن پر فوجی حملے کے بعد جب لائق علی کو نظر بند کیا گیا تو شروع شروع میں ان پر نگرانی کافی سخت رکھی گئی۔

’درمیان میں لائق علی نے حکومت سے کہا کہ نظر بند وہ ہیں نہ کہ ان کے اہل خانہ کہ ہر آنے جانے والے اور ہر گاڑی کی سختی سے تلاشی لی جاتی ہے۔ اس شکایت کے بعد پابندیوں میں نرمی لائی گئی اور کچھ عرصہ بعد تو ان سے کاروباری اصحاب، جن سے لائق علی کے بحیثیت صنعت کار تعلقات تھے، کو ملنے کی اجازت بھی دی جانے لگی۔

’نظام حکومت کے تمام نظر بند وزرا کی طرح لائق علی اور ان کے متعلقین کو بھی یہ توقعات تھیں کہ 26 جنوری 1950 کو بھارت کے دستور کے نفاذ کے ساتھ ہی جب بھارت کے خودمختار جمہوریہ ہونے کا اعلان کر دیا جائے گا تو اس وقت نظر بندوں کی رہائی کے احکامات بھی دیے جائیں گے۔

’26 جنوری بھی آئی، دستور بھی نافذ ہو گیا اور حیدرآباد ریاست نے بھی باضابطہ طور پر انڈین یونین میں شرکت کر لی لیکن نظر بندوں کی رہائی کے احکامات صادر نہ ہوئے۔ لائق علی اور ان کے پاکستان میں رہنے والے ہمدردوں کو مایوسی ہوئی۔

’نظر بندوں کی رہائی کے احکامات صادر نہ ہونے کے بعد لائق علی کے فرار ہونے کے منصوبے پر کام شروع ہوا اور ان کے قریبی ساتھی ایڈووکیٹ عبدالقوی کے ایک پاکستانی دوست نے بھارت آنا جانا شروع کیا اور سفر کے کاغذات کی ہوائی اڈوں پر کس طرح جانچ ہوتی ہے اور کیا کیا امور کی جانچ کی جاتی ہے دیکھنا شروع کیا اور ماہ فروری 1950 کے شاید آخری ہفتے میں وہ ضروری کاغذات کے ساتھ بھارت آئے۔‘

فضل رسول کے مطابق فرار ہونے سے دو تین ہفتے پہلے لائق علی کی اہلیہ نے پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت بنگلے کے اندر اور باہر یہ افواہ پھیلائی کہ لائق علی سخت علیل ہو گئے ہیں۔

’اس طرح نگرانی پر مامور پولیس اہلکاروں سمیت سب کو لائق علی کی علالت کا علم ہو گیا۔ ہر روز ان کی بیگم موٹر گاڑی میں صبح اور شام ڈاکٹروں کو لائق علی کی طبیعت کی اطلاع دینے کی غرض سے جاتی آتی رہیں۔ اس گاڑی کے شیشوں پر پردے لگے رہتے تھے۔ آتے جاتے اس گاڑی کو نہ تو روکا جاتا اور نہ تلاشی لی جاتی تھی۔ باہر آنے جانے کا سلسلہ 10 سے 12 دن سے زیادہ جاری رہا۔

’فرار کے مقررہ دن سے ایک روز پہلے لائق علی کی بڑی بیٹی عالیہ انہی کی گاڑی میں شام کے وقت اپنی پھوپھی شوکت النسا کے گھر جا کر پھوپھی سے کہہ کر آئی کہ کل دن کے 10 بجے وہ اپنے مکان پر ایک گاڑی تیار رکھیں اور اس گاڑی کے ڈرائیور کا نہایت ہی اعتماد اور بھروسہ کا آدمی ہونا ضروری ہے۔

’اس سے دو تین روز پہلے بنگلے میں لائق علی کے کسی عزیز کے یہاں شادی ہونے کی خبر پھیلائی جا چکی تھی۔ ان کے بچے شادی کے متعلقہ رسوم میں آتے جاتے رہے اور بنگلے سے پکانے کے بڑے برتن (بشمول دیگچیاں) بھی ایک روز لاری میں روانہ کیے گئے تھے۔‘

لائق علی کا غلام احمد بن کر بمبئی سے کراچی کا سفر

فضل رسول خان ناغڑ کے مطابق: ’یکم مارچ 1950 کو خادمہ نے بلند آواز میں کوئی نو یا ساڑھے نو بجے صبح ڈرائیور کو آواز دی کہ بیگم صاحبہ کو دوائیاں لانے کی غرض سے ڈاکٹر کے پاس جانا ہے۔

’اس روز بیگم کی بجائے خود لائق علی گاڑی میں سوار ہو کر گھر سے نکل گئے۔ ان کی گاڑی ان کی بہن شوکت النسا بیگم کے مکان پر جا کر رکی۔ مکان کے احاطے میں شوکت النسا کے صاحبزادے فصیح الدین، جو نظام سٹیٹ ریلوے میں ملازم تھے، کی گاڑی لائق علی کی بیٹی عالیہ کی حسب خواہش تیار کھڑی تھی اور ڈرائیور بھی موجود تھا۔ لائق علی گاڑی سے اترے اور گاڑی کو فوراً واپس کر دیا تاکہ بنگلے میں تعینات پولیس اہلکاروں کو شبہ نہ ہو۔

’شوکت النسا نے اپنے بھائی لائق علی کو پانی پلایا۔ دونوں کے درمیان باتیں ہوئیں۔ پھر ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا۔ لائق علی بھانجے فصیح الدین کی گاڑی، جس کے شیشوں پر پردے لگے ہوئے تھے، سوار ہوئے اور بہن کے گھر سے روانہ ہو گئے۔ یہ گاڑی ایڈوکیٹ عبدالقوی کے گھر پر جا کر رکی جہاں پردے لگی ہوئی ایک اور گاڑی پہلے ہی سے کھڑی تھی۔

’لائق علی، ایڈوکیٹ عبدالقوی اور ان کی اہلیہ اب اس گاڑی میں سوار ہوئے جو گلبرگہ کی طرف روانہ ہوئی۔ اس سے قبل ہی لائق علی کے ایک عزیز نے سکندرآباد سے بمبئی جانے والی ریل گاڑی میں ایک فرسٹ کلاس کمپارٹمنٹ ریزرو کرا لیا تھا۔

’لائق علی اور ان کے ساتھیوں کی گاڑی گلبرگہ جا کر درگاہ شریف کے سامنے رکی۔ وہاں انہوں نے فاتحہ پڑھی اور ریل گاڑی کے وقت سے چند منٹ پہلے گلبرگہ کے ریلوے سٹیشن پر آئے۔ عبدالقوی نے ڈرائیور کو کچھ دیر کے لیے روک لیا کیوں کہ ریل گاڑی اس روز 20 منٹ یا نصف گھنٹہ تاخیر سے چل رہی تھی۔

’ریل گاڑی کے آجانے کے بعد عام لوگوں کی طرح یہ تینوں اپنے ریزرو کمپارٹمنٹ کو کھول کر اس میں داخل ہوئے اور گلبرگہ سے روانہ ہو کر صبح چھ بجے کے قریب ان کی ٹرین بمبئی پہنچ گئی۔ سٹیشن پر کسی بڑے کاروباری کی گاڑی اس پارٹی کا انتظار کر رہی تھی۔ اس گاڑی سے یہ تینوں اس کاروباری شخص کے یہاں گئے اور ناشتہ کیا۔

’وقت مقررہ پر لائق علی گاڑی کے ذریعے ہوائی اڈے پر سفر کے ضروری کاغذات کے ساتھ پہنچ گئے۔ غلام احمد کے نام سے ان کے لیے ہوائی جہاز میں سیٹ ریزرو کرائی جا چکی تھی۔ وہ اس نام سے اپنے سفر پر روانہ ہو گئے۔

’دوسری جانب 2 مارچ 1950 کو لائق علی کے بچے اچھے کپڑے پہن کر اپنے رشتہ دار کے یہاں شادی میں شرکت کرنے جانے کے نام سے اپنے بنگلے سے نکلے اور ایک مہاجر ملازمہ کے ہمراہ نامپلی سٹیشن سے ریل گاڑی میں سوار ہو کر بمبئی کے لیے روانہ ہو گئے۔ ان کی سیٹیں بھی پہلے ہی سے ریزرو کی جا چکی تھیں اور اگلی صبح بمبئی پہنچ گئے جہاں ایڈووکیٹ عبدالقوی ان کے منتظر تھے۔

’3 مارچ 1950 کو بیگم لائق علی نے پہلے سے تیار کیے ہوئے نوٹوں کی گڈیاں جن پر ملازمین کے ناموں کی چٹھیاں الگ الگ گڈی پر لگا کر رکھی تھیں اپنے پرانے خادم علی بن احمد باغزال، جو عرب شہری تھا، کے حوالے کیں اور ان سے تاکید کی کہ 5 مارچ کو وہ ان نوٹوں کی گڈیوں کو جس جس کے نام کی ان پر چٹھی لگی ہے اسی ملازم کو دینا شروع کر دیں۔

’وہ بھی اپنی گاڑی میں خادمہ کے ساتھ نکلیں اور اپنے بھائی کے بنگلے گئیں۔ بھائی سے ملیں اور وہاں سے سیدھا ہوائی اڈے پر پہنچ گئیں۔ دوپہر کے وقت بمبئی پہنچیں اور اپنے بچوں سے جا ملیں۔ یہ سب عبدالقوی کی سرکردگی میں دوسرے روز یعنی 4 مارچ کو ایس ایس سابرمتی جہاز سے اپنے سمندری سفر پر روانہ ہو گئے اور بالآخر کراچی پہنچے۔

’لائق علی کی بھارت سے فرار کی خبر بھارت میں کوئی نہیں جانتا تھا۔ انہیں پاکستان پہنچنے کے بعد جیسی رازداری برتنی چاہیے تھی ویسی نہیں برتی اور ایک تقریب میں حصہ لینے پہنچے جس کی وجہ سے ان کے فرار ہونے کی خبر سامنے آئی۔

’لائق علی کے فرار ہونے کے بعد جب ان کے عرب ملازم نے نوٹوں کی گڈیاں تقسیم کرنا شروع کیں تو ملازمین انعامات لے کر بنگلے سے یکے بعد دیگرے غائب ہونے لگے۔ اسی وقت نگرانی پر مامور پولیس اہلکاروں کو لائق علی کے فرار ہونے کا شبہ ہو چکا تھا لیکن اب سب سے پہلے جو بھی اطلاع دیتا وہی پھنس جاتا اس لیے خوف سے کسی نے بھی اطلاع نہیں دی۔

’لائق علی کی حراست سے فرار میں مدد دینے کے الزام میں ان کی ہمشیرہ شوکت النسا بیگم، عرب ملازم اور دیگر کئی اشخاص کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ عدالت میں وکلا نے ایک قانونی عذر اٹھایا کہ لائق علی کی حراست یا نظر بندی ہی جائز نہ تھی اس لیے ملازمین پر فرار میں مدد دینے کا مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔ تاہم ابتدا میں عدالت نے اس عذر کو تسلیم نہ کیا۔

’پھر عدالت میں بحث کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ریاست حیدرآباد دکن کے دستور العمل تحفظ امن عامہ کے تحت لائق علی کی نظر بندی 26 جنوری 1950 تک ہی جائز تھی۔ چوں کہ حیدرآباد کا دستور العمل کالعدم ہو چکا ہے لہٰذا ان کی نظر بندی قانوناً جائز نہیں تھی۔ عرب ملازم علی بن احمد باغزال دوران تفتیش جیل میں فوت ہو گئے جبکہ باقی سب کو رہا کر دیا گیا۔‘

حیدرآباد دکن میں 1940 اور 1950 کی دہائی میں رونما ہونے والے حالات و واقعات کی معلومات رکھنے والے بعض مورخین کا کہنا ہے کہ لائق علی کی فرار میں سب سے بڑا ہاتھ ایڈووکیٹ عبدالقوی کا تھا جو پاکستان کے مسلسل رابطے میں تھے۔

ان کے مطابق جن جعلی سفری دستاویزات میں لائق علی کو غلام احمد بنایا گیا تھا ان کو پاکستان کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس یا آئی ایس آئی نے تیار کروایا تھا۔

مورخ و مصنف نریندر لوتھر میر لائق علی کی ڈرامائی فرار کے متعلق لکھتے ہیں: ’ہم میں سے اکثر نے سنہ 1666 میں چھترپتی شیواجی کی اورنگزیب کی قید سے (پھلوں کی ٹوکری میں چھپ کر) ڈرامائی فرار کے بارے میں سنا ہی ہے۔ مگر ہم کہتے ہیں کہ ایسا پرانے زمانے میں ہی ممکن تھا۔

’لیکن سنہ 1950 میں حیدرآباد کے آخری صدر اعظم کے ڈرامائی فرار کا قصہ بھی اتنا ہی دلچسپ ہے۔ یہ ایک ایسا منصوبہ تھا جس کو عمدہ انداز میں بنایا گیا اور جس پر شاندار طریقے سے عمل درآمد ہوا۔ صدر اعظم کی فرار نے بھارتی حکومت کو شرمندہ اور باقی دنیا کو حیران کر دیا تھا۔‘

پاکستان کے وفادار

میر لائق علی کی پاکستان فرار ہونے کی سب سے بڑی وجہ ان کی پاکستان کے تئیں محبت اور وفاداری تصور کی جاتی ہے۔ انہیں محمد علی جناح نے سنہ 1947 میں اقوام متحدہ میں پاکستان کا نمائندہ مقرر کیا تھا نیز انہی کی اجازت سے انہوں نے اسی سال کے آخر میں حیدرآباد دکن کے صدراعظم کا عہدہ قبول کیا تھا۔

رمن راج سکسینہ اپنی کتاب ’تذکرہ دربار حیدرآباد‘ میں رقم طراز ہیں: ’یکم دسمبر 1947 کو میر لائق علی نے بحیثیت صدر اعظم اپنے عہدے کا حلف لیا۔ میر لائق علی کا نام مجلس (مجلس اتحاد المسلمین) نے اپنے نمائندے کے طور پر پیش کیا تھا جو غلام محمد وزیر (وزیر مالیات پاکستان) کے انکار کے بعد سب سے موزون ملکی امیدوار سمجھے گئے تھے۔

’عہدہ وزارت قبول کرنے سے پہلے لائق علی نے محمد علی جناح سے اجازت حاصل کی اور مسٹر جناح نے صرف ایک سال کے لیے اس عہدہ کو قبول کرنے کا مشورہ دیا۔‘

’زوال حیدرآباد اور پولیس ایکشن‘ کے مصنف محمد مظہر الدین لکھتے ہیں: ’میر لائق تقسیم ہند کے بعد مجلس اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کا فریضہ انجام دے کر اعلیٰ صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔

’پاکستان کی صنعتی ترقیات اور کراچی کی بندرگاہ کی توسیع و تعمیر نو کی ذمہ داریوں کے پیش نظر قائد اعظم لائق علی کی خدمات کو حیدرآباد کے حوالے کرنے کے لیے تیار نہ تھے لیکن پھر حالات کے مدنظر اور نظام حیدرآباد کی خواہش و اصرار پر اجازت دے دی۔‘

معروف مصنف و تجزیہ نگار اے جی نورانی اپنی کتاب ’دا ڈسٹرکشن آف حیدرآباد‘ میں لکھتے ہیں: ’غلام محمد، جو ریاست (حیدرآباد دکن) کے وزیر خزانہ رہ چکے تھے، بطور صدر اعظم نظام میر عثمان علی خان کی پہلی چوائس تھے، لیکن جناح انہیں پاکستان کے وزیر خزانہ کی حیثیت سے فارغ نہ کرنے پر مصر تھے۔ وہ (غلام محمد) بعد میں پاکستان کے گورنر جنرل بن گئے۔

’میر لائق علی کے نام کی تجویز سامنے آنے پر جناح نے نظام حیدرآباد کو 18 نومبر 1947 کو ایک پیغام بھیجا کہ موصوف (لائق علی) پاکستانی حکومت کے ساتھ کیے گئے عہد وفا کے پیش نظر یہ پیش کش قبول کرنے پر تذبذب کا شکار ہیں۔‘

لائق علی نے اپنی کتاب ’دا ٹریجڈی آف حیدرآباد‘ میں لکھا ہے: ’میں نے یہ پیش کش اس متفقہ شرط پر قبول کی کہ حیدرآباد دکن کا بھارت کے ساتھ کسی بھی مرحلے پر اور کسی بھی صورت میں الحاق نہیں کیا جائے گا۔‘

اے جی نورانی لکھتے ہیں کہ نظام حیدرآباد نے ایک ایسے شخص (لائق علی) کو اپنی حکومت کا سربراہ بنا کر بھارت کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے منتخب کیا تھا جو پاکستان کے وفادار بھی تھے اور اس ملک کے نزدیک بھی۔

محمد علی جناح نے 11 ستمبر 1947 کو برطانیہ کے وزیر اعظم ونسٹن چرچل کو ایک خط لکھا جس انہوں نے اپنی عمر سے 27 سال کم عمر کے میر لائق علی کو اپنا ذاتی دوست قرار دیا۔

اے جی نورانی کا ماننا ہے کہ ایسا شاذ و نادر ہی دیکھا گیا کہ محمد علی جناح نے کسی کے بارے میں اتنی گرم جوشی سے لکھا ہو۔

خط کا متن کچھ یوں ہے: ’یہ خط لکھنے کا مقصد آپ کو میر لائق علی سے متعارف کرانا ہے۔ وہ میرے ذاتی دوست ہونے کے علاوہ حیدرآباد کی صنعتی دنیا کی ممتاز شخصیات میں سے ایک ہیں اور اب وہ پاکستان کی صنعتی ترقی میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔

’ان کا شمار برصغیر کی صنعتی و تجارتی دنیا کے قابل ترین سربراہوں میں ہوتا ہے اور وہ اس وقت حیدرآباد کی بڑی صنعتوں کے نظام کی سربراہی و نگرانی کر رہے ہیں۔

’میں سوچتا ہوں کہ آپ اپنا تھوڑا سا وقت نکال کر ان سے ملیں گے۔ وہ 16 ستمبر کو منعقد ہونے والے اقوام متحدہ کے اجلاس میں ہمارے نمائندے کی حیثیت سے شرکت کریں گے اور انہیں راستے میں کچھ دنوں کے لیے برطانیہ میں رکنے کو کہا گیا ہے۔

’ان کا تعلق حیدرآباد سے ہے اور وہ ہز ایکزالٹڈ ہائی نس دا نظام کی نگاہوں میں انتہائی قدر و عزت رکھتے ہیں۔

’لہٰذا ان کو آپ سے ملنے کا موقع مل سکتا ہے تاکہ وہ برطانیہ اور پاکستان کے درمیان تجارتی امور پر بات چیت کر سکے کیوں کہ انہیں پاکستان کی تجارتی صنعتی ترقی میں نمایاں رول ادا کرنا ہے۔‘

تاہم اے جی نورانی کے مطابق: ’لائق علی نے (حیدرآباد کے لیے) برطانوی حکومت کی مدد حاصل کرنے کی حتی الوسع کوشش کی۔ وہ برطانیہ کے خارجہ سیکرٹری ارنسٹ بیون سے ملے، لیکن جناح کی طرف سے ایک تعارفی خط بھیجے جانے کے باوجود وہ ونسٹن چرچل سے مل نہ سکے۔‘

محمد مظہر الدین لکھتے ہیں کہ سنہ 1947 میں بھارت اور حیدرآباد کے درمیان ایک سال کے لیے مشروط سٹینڈ سٹل اگریمنٹ یا معاہدہ انتظام جاریہ طے پایا۔

’اس معاہدے سے ایک دن قبل نظام حیدرآباد نے ایک فرمان مورخہ 28 نومبر 1947 کے ذریعے حیدرآباد کے ایک نامور انجینئر و صنعت کار میر لائق علی کو صدارت عظمیٰ پر فائز کر دیا۔‘

جنت البقیع میں مدفون

14 نومبر 1903 کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہونے والے میر لائق علی کا 24 اکتوبر1971 میں انتقال ہوا لیکن تدفین جنت البقیع مدینہ منورہ میں ہوئی۔

’سقوط حیدرآباد‘ کے مصنفین ڈاکٹر عمر خالدی و ڈاکٹر معین الدین عقیل لکھتے ہیں: ’میر لائق علی نے ابتدائی تعلیم حیدرآباد میں اور انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم برطانیہ کی مانچسٹر یونیورسٹی میں حاصل کی۔

’وطن واپسی کے بعد حیدرآباد میں کئی صنعتیں قائم کیں، جو بڑی کامیابی سے چلیں۔ ان صنعتوں میں سرپور پیپر مل اور حیدرآباد کنسٹرکشن کمپنی نے بڑی شہرت حاصل کی۔‘

محمد مظہر الدین کے مطابق لائق علی نے ہی حیدرآباد میں برصغیر کی سب سے بڑی فیکٹری ’نظام شوگر فیکٹری‘ کے نام سے قائم کی تھی۔

’میر لائق علی نہ صرف حیدرآباد اور برصغیر ہند میں بلکہ یورپ اور امریکہ میں بھی ایک بڑے صنعت کار اور سیاسی سوجھ بوجھ کے ماہر کی حیثیت سے کافی مشہور تھے۔‘

’سقوط حیدرآباد‘ کے مصنفین لکھتے ہیں کہ کراچی پہنچ کر میر لائق علی نے حیدرآبادی مہاجرین کے لیے قابل قدر خدمات انجام دیں۔

’حیدرآباد ٹرسٹ قائم کیا جس کے تحت کئی رفاہی ادارے اور ایک ہسپتال قائم ہوا۔ حیدرآبادی مہاجرین کے لیے حیدرآباد کالونی آباد کی۔

’متعدد کارخانے قائم کیے۔ افسوس کہ یہ کارخانے کامیابی سے نہ چل سکے۔ کراچی میں لائق علی نے حکومت پاکستان کی وزارت دفاع کے مشیر کی حیثیت سے بھی وقتاً فوقتاً کام کیا۔‘

ناندیڑ کے اردوگھر کوسالانہ ایک کروڑکابجٹ منظور کیاجائے


ڈی پی ڈی سی میٹنگ میں ایڈوکیٹ عبدالرحمن صدیقی کی ملّی مسائل پرموثر نمائندگی

ناندیڑ:14اگست (اردو اخبار دنیا)آج 14اگست کو ضلع منصوبہ بندی بھون ناندیڑ میں منعقدہ ڈی پی ڈی سی میٹنگ میں رکن ایڈوکیٹ محمد عبدالرحمن صدیقی نے اجلاس میں مانگ کی کہ ناندیڑ کے چیتنیہ نگر تروڑا بزرگ کے مسلم قبرستان کی جگہ پرکئے ئے ناجائز قبضہ جات کو ہٹاکر قبرستان کی بانڈوری وال کے لئے بجٹ فراہم کرکے بانڈوری وال بنائی جائے ۔

اس کے علاوہ محمدعبدالرحمن صدیقی ایڈوکیٹ نے ڈی پی ڈی سی کے صدروزیرسرپرست ناندیڑ عالی جناب اشوک راو چوہان سے اورپورے اجلاس سے مطالبہ کی کہ اردو گھر ناندیڑ کےلئے ڈی پی ڈی سی ناندیڑ سے سالانہ کم سے کم ایک کروڑ روپے بجٹ منظور کیاجائے تاکہ اردو گھر ناندیڑ میں مختلف پروگرامس لے کر اردو کی خدمت بہتر طور پرکی جاسکے ۔ ڈی پی ڈی سی کے تمام ممبران نے ان تجاویز کی بھرپور تائید کی۔

لال قلعہ کسی کی جاگیر نہیں: راکیش ٹکیت اگست 15, 2021

نئی دہلی:(اردو اخبار دنیا) مرکز کے تین زرعی قوانین کے خلاف دہلی کی سرحد پر تقریباً 9 مہینے سے احتجاج کر رہے کسانوں نے 75ویں یوم آزادی کے موقع پر کہیں نہیں جانے کا اعلان کیا ہے۔ کسانوں نے کہا کہ تمام کسان مظاہرین سرحد پر ہی جھنڈا لہرائیں گے۔ کسان لیڈر راکیش ٹکیت نے کہا کہ ہم کل کہیں کوچ نہیں کرنے والے، بلکہ تمام کسان اپنے ٹریکٹروں پر، گاؤں میں اور تحصیلوں پر قومی پرچم لہرائیں گے۔

راکیش ٹکیت نے کہا کہ ’’دہلی کی تینوں سرحدوں پر کل دھرنا دے رہے کسان اسٹیج پر پرچم کشائی کریں گے۔ حکومت تاریخی لال قلعہ پر بڑے بڑے کنٹینر لگا کر کیا ثابت کرنا چاہ رہی ہے۔ لال قلعہ ان کی جاگیر تو نہیں ہے؟ ہم نے اپنا حق مانگا تو ہمیں دہشت گرد اور خالصتانی قرار دے دیا گیا۔‘‘ راکیش ٹکیٹ نے کہا کہ ہر کسان ترنگے کا احترام کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہم کل آزادی کا جشن منائیں گے، مٹھائی باٹیں گے اور جھنڈا بھی لہرائیں گے۔ کل یہاں سے کوئی دہلی کوچ نہیں کر رہا ہے۔‘‘

 

خیال رہے کہ دہلی پولیس نے یوم آزادی سے ایک روز قبل لال قلہ کے سامنے اہم سڑک پر بڑے بڑے کنٹینر لگا کر یہاں پہنچنے کی راہیں مسدود کر دی ہیں۔ حکومت نے ایسا اس لئے کیا ہے تاکہ کوئی بھی لال قلعہ کی فصیل تک پہنچنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ دہلی پولیس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسا حفاظتی وجوہات کی بنا پر کیا گیا ہے۔دراصل 26 جنوری کو یومِ جمہوریہ کے مقع پر کسانوں نے دہلی کی سڑکوں پر ٹریکٹر پریڈ نکالی تھی جس میں کچھ شرارتی عناصر نے ہنگامہ آرائی کی تھی اور لال قلعہ پر مذہبی پرچم لہرا دیا تھا۔ اس کے علاوہ لال قلعہ کے احاطہ میں تشدد بھی کیا گیا تھا۔

میرٹھ: نوجوان اختر کا قتل، علاقے میں فرقہ وارانہ کشیدگی

  • (اردو اخبار دنیا)

میرٹھ: اترپردیش کے ضلع میرٹھ دیہات کے مورنا گاؤں میں انتخابی رنجش میں قتل کے بعد گاؤں میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیل گئی ہے۔ پردھانی انتخاب میں شکست خوردہ اور اس کے ایک ساتھی کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ جبکہ احتیاط کے طور پر گاؤں میں پولیس کے اعلی افسران ڈیراہ ڈالے ہوئے ہیں۔ اور وہاں بھاری مقدار میں پولیس فورس تعینات کردی گئی ہے۔

پولیس نے آج یہاں بتایا کہ بھاون پور تھانہ علاقے کے مورنا گاؤں میں پردھانی کے انتخاب میں انکت اور پردیپ نے الیکشن لڑا تھا، جس میں گاؤں کے ہی اقلیتی فرقے کے ایک شخص پر ووٹ نہ ڈالنے کا الزام تھا۔ بتایا گیا ہے کہ گزشتہ دیر رات پردیپ، اس کے بھائی راجو اور سندیپ نے نشے کی حالت میں اختر کو گھیر لیا اور پھاوڑے سے حملہ کر کے اسے زخمی کر دیا۔

 

کئی گھنٹے لہولہان حالت میں پڑا رہنے کے بعد جب اسے اسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹروں نے انہیں مردہ قرار دے دیا۔ اس کی اطلاع ملتے ہی گاؤں کے ایک فرقہ کے لوگ مشتعل ہوگئے اور لاش کو تھانے کے باہر رکھ کر ہنگامہ کیا۔ سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس پربھاکر چودھری نے بتایا کہ متوفی کے اہل خانہ کی تحریر پر پردیب اور اس کے بھائیوں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ قتل کے ملزم پردیپ اور راجو کو گرفتار کر کے ان کے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پردھانی کے الیکشن کی رنجش کے سلسلے میں قتل ہونے کی بات سامنے آئی ہے۔

ہفتہ, اگست 14, 2021

بڑی خبر : آب مدھیہ پردیش میں سائنس اور کامرس کے طلبہ بھی اختیاری مضمون کے تحت اردو کی تعليم کرسکیں گے حاصل

بڑی خبر : آب مدھیہ پردیش میں سائنس اور کامرس کے طلبہ بھی اختیاری مضمون کے تحت اردو کی تعليم کرسکیں گے حاصل

(اردو اخبار دنیا)بھوپال : مدھیہ پردیش محکمہ تعلیم نے ریاست کے کالجوں میں اردو تعلیم کو لے کر بڑا فیصلہ کیا ہے ۔ محکمہ تعلیم کے نئے فیصلہ سے اب سائنس اور کامرس کے طلبہ بھی اختیاری مضمون کے تحت اپنی شیریں زبان اردو کی تعلیم حاصل کرسکیں گے ۔ ریاست میں بھی تک صرف آرٹس کے طلبہ کو ہی اردو تعلیم حاصل کرنے کا حق تھا اور سائنس و کامرس کے طلبہ چاہتے ہوئے بھی اردو تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہتے تھے۔ حکومت کے فیصلہ کا بزم ضیا نے خیر مقدم کیا ہے ۔ واضح رہے کہ مدھیہ پردیش بزم ضیا سرونج کے ذریعہ تین سال قبل آرٹس کے علاوہ سائنس اور کامرس کے طلبہ کو بھی اختیاری مضمون کے تحت اردو تعلیم دینے کے مطالبہ کو لیکر تحریک شروع کی گئی تھی جس پر حکومت نے اب مہر لگائی ہے ۔

بزم ضیا سرونج کے صدر فرمان اللہ خان فرمان ضیائی کہتے ہیں کہ یقینا اردو کو لیکر مدھیہ پردیش حکومت نے ایک بہت بڑا فیصلہ کیا ہے اور حکومت کے اس فیصلہ کا ہم دل کی گہرائیوں سے خیر مقدم کرتے ہیں ۔ اس فیصلہ سے صرف ہمارا دیرینہ مطالبہ پورا ہے ۔ نیوز 18 اردواس بات کا گواہ ہے کہ ہم نے تین سال قبل جب اس بات کو لیکر تحریک شروع کی تھی کہ آرٹس کے طلبہ کی طرح سائنس کے طلبہ کو بھی اختیاری مضمون کے تحت اردو کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع دیا جائے ، اس وقت لوگ ہمارے مطالبے پر ہنستے تھے اور یہ کہتے تھے کہ دیوانہ کا خواب کبھی پورا نہیں ہونے والا ہے ۔ اب جب حکومت نے احکام جاری کردیا ہے تویہی لوگ حیرت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہوا ۔ حکومت نے تو اپنا کام کردیا ہے اب سائنس اور کامرس کے طلبہ بھی کالج کی سطح پر اختیاری مضمون کے تحت اپنی شیریں زبان اردو کی تعلیم حاصل کرسکیں گے ۔

وہیں طالب علم سرفراز کہتے ہیں کہ حکومت نے سائنس اور کامرس کے طلبہ کے حق میں اردو کو لے کر بہت بڑا فیصلہ کیا ہے ۔ سائنس اور کامرس کے طلبہ ابھی تک اردو کی تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہتے تھے اور ان کی اسٹریم اردو زبان کی تعلیم حاصل کرنے کی راہ میں مانع آتی تھی ، اب حکومت نے آرٹس کے طلبہ ہوں یا کامرس سبھی اپنی خواہش کے مطابق اردو زبان کی تعلیم حاصل کرسکیں گے۔


بزم ضیا کے سکریٹری محمد حامد کہتے ہیں کہ حکومت نے تو اپنا کام کردیا ہے ۔ اب اردو والوں کو اپنی بیداری کا ثبوت دینے کی ضرورت ہے۔ طلبہ سائنس اور کامرس کے ساتھ اردو کی تعلیم حاصل کریں ، اس کو لے کر تنظیم کی جانب سے ریاست گیر سطح پر تحریک چلائی جائے گی ۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ طلبہ حکومت کے اقدام سے استفادہ کرسکیں

ہاں ! میں ہندوستان ہوں ۔ نازش ہما قاسمی

(اردو اخبار دنیا)ہاں! میں ہندوستان ہوں۔ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جہاں انسانوں کے باپ حضرت آدم علیہ السلام نے اپناقدم مبارک رکھا۔مجھے ہزاروں سال پرانا ملک ہونے کاشرف حاصل ہے۔۔۔یہاں قبل مسیح اشوک بادشاہ سے لے کر مغل فرمانروا بہادر شاہ ظفر تک نے مجھ پر حکومت کی، کبھی میں ظالم حکمرانوں کے زیر دست رہا تو کبھی نیک دل اور عادل ومنصف فرماں رواؤوں نے مجھ پر عادلانہ ومنصفانہ حکومت کی۔ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جہاں راجہ داہر جیسا ظالم، عہدو پیمان توڑنے والا بادشاہ گزرا تو وہیں اس کے غرور کو خاک میں ملانے کے لیے محمد بن قاسم جیسارحم دل جرنیل آیا، ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جہاں اکبر نے دین اکبری کی بنیاد ڈالی تواس کے دین اکبری کاپردہ چاک کرنے کے لئے مجددالف ثانی نے علم جہادبلندکیا، ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جہاں عالم گیر جیسے نیک دل بادشاہ نے حکومت کی، ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جسے شاہجہاں نے ایک حسین تاج محل دیا، پر شکوہ لال قلعہ دیا۔ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جہاں صوفی سنت آباد ہوئے، ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جہاں تاج محل، قطب میناراور لال قلعہ ہندوستان کی عظمت رفتہ کا شاہد و گواہ اور آزادی ہند کی خونچکاں المناک تاریخ اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ایستادہ ہے۔ ہاں!میں وہی ہندوستان ہوں جو کبھی سونے کی چڑیا کہلاتا تھالیکن اب لٹیرے وگھوٹالے بازوں کی وجہ سے کنگال و بھکمری کا شکارہے۔۔۔۔ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جس چڑیے کو حاصل کرنے کیلیے انگریزوں نے یہاں اپناآہنی تسلط قائم کیا، یہاں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیا، دو سو سال تک میری ہی دھرتی پرظالمانہ حکومت کرکے مجھے کھوکھلا کردیا، پھر میری دھرتی پر رہنے والے غیور ہندوستانیوں نے متحدہ ہندوستان کابل سے سری لنکا تک کو آزاد کرانے کی ٹھانی ،میرے لیے قربانیاں دیں، سب سے پہلے انگریزوں کے خلاف مسلمانوں نےہی علمِ جہاد بلند کیا۔ ہاں!میں وہی ہندوستان ہوں جہاں ٹیپو سلطان جیسا شیر میسور پیدا ہوا، جس کی موت پر انگریزوں نے فخریہ کہا تھا کہ آج سے ہندوستان ہمارا ہے۔ ہاں! میں وہی ہندوستان ہوں جس کے لیے علما ء حق نے شاملی کے میدان کو آبادکیا، لاہور سے دہلی تک کے درختوں کو اپنے جان کی قربانی دے کر آباد کیا، دریائے راوی میں بہے، لاہوری جامع مسجد میں لٹکائے گئے ۔۔۔۔ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جس کی آزادی کے لیے لاہور کے کوات لکھپت جیل میں بگھت سنگھ نے پھانسی کے پھندے کو چوما، منگل پانڈے نے بغاوت کی، شہید اشفاق اللہ خان نے جام شہادت نوش کیا، اور ایک دن ان مجاہدین آزادی کےخون نے اثر دکھایا اور میں 1947میں ملک آزاد ہوگیا ۔آزادکیاہوا؛ بلکہ یہ کہنازیادہ صحیح ہوگا کہ میری چھاتی کو دو حصوں میں چیرکر ایک ہی ماں باپ سے پیداہونے والے بھائیوں اوربہنوں کوالگ الگ ملک کاباشندہ بناکر ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کے خون کاپیاسابنادیا۔ برسوں شیروشکر کی طرح ایک ساتھ رہنے والے بھولے بھالے انسان انگریز کے جال میں پھنس گئے، گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دینے والے ایک دوسرے کے دشمن بن گئے اور انیس سو سینتالیس میں میری تقسیم کے وقت وہ خون خرابہ ہوا کہ شیطان بھی شرمندہ ہوگیا ،انسانیت کانپ اٹھی، ہر جگہ مہاجرین کی لاشیں نظر آنے لگیں، پنجاب کا گروداس پور خون سے سرخ ہوگیا، انسانی لاشیں تدفین کی منتظر مہینوں سڑکوں پر نظر آرہی تھیں ، تعفن زدہ ماحول قائم تھا، لیکن لوگ خوش تھے کہ انگریز ہندوستان سے چلے گئے، ملک آزاد ہوگیا، ہم آزادہوگئے؛ لیکن شاید دونوں طرف کے رہنے والے باشندوں کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ہم تورسما آزاد ہوئے ہیں، جمہوریت کا نام نہاد طوق گلے میں لٹکا دیا گیا ہے جہاں مجبور محض ہوکر زندگی گزارنی پڑے گی، عوام کے پاس طاقت نہیں ہوگی ،عوام محض مفلوک الحال ہوں گے، خیر کسی نہ کسی طرح ۱۹۴۷ کا طوفان گزر گیا، عوام خوش رہے کہ آزادہیں اورخدا کا شکر ہے کہ آزاد ہیں، لیکن آزادی کے بعد سے ہی جس قوم نےمیری آزادی کی خاطر سب سے زیادہ قربانیاں دیں، جہادِ آزادی کا فتوی دیا، اسے نشانہ بنانے کا عمل شروع ہوگیا، کانگریس نے اسے اپنے ووٹ بینک کی طرح استعمال کرنا شروع کیا تو بھگوادھاری اور زعفرانی پارٹیوں نے اسے ڈرا دھمکاکر رکھا اور ایک دن ایساآیا کہ میں شرمندہ ہوگیا، مجھے آزاد ہونے پر افسوس ہونے لگا، کانگریس کی چپی اور انگریزوں کے تلوے چاٹنے والی فرقہ پرست پارٹیوں نے تاریخی بابری مسجد کو آئین ہند بنانے والے بابا صاحب امبیڈکر کی یوم پیدائش پر شہیدکرکے یہ پیغام دے دیا کہ مسلمان جمہوریت پر یقین رکھیں،!!!.. ہمیں نہیں رکھنا، ہم ان کی مساجد وعبادت گاہوں کو مسمار کردیں گے، فسادات کے ذریعے ان کی املاک تباہ کردیں گے اور ۱۹۹۲ کے بعد کا نہ تھمنے والا ایساسلسلہ جاری ہوا جو ممبئی، بھیونڈی، ملیانہ، مرادآباد، اورنگ آباد ،نالندہ، بکسر، گجرات کے خونی ماحول سے ہوتا ہوا مظفر نگر تک پہنچا جہاں صرف ایک ہی قوم کو نشانہ بنایا گیا، اس کی معیشت کو تباہ کیا گیا، ان کی ہی ماؤں بہنوں کی عصمت لو ٹی گئی اور ستم بالائے ستم تو یہ ہوا کہ ان ہی سے حب الوطنی کا ثبوت بھی مانگا جانے لگا۔ اب میرا حال یہ ہے کہ مجھ پر جو میری آزادی کیلیے کبھی نہیں لڑے ان کی حکومت ہے اور جنہوں نے آزادیءِ ہند کے ذریعے مجھے اپنے خون سے سیراب کیا وہ دوسرے درجے کے شہری ہیں، ان کا ملک میں جینا دوبھر ہے، عدلیہ ،مقننہ، حکومت، صحافت سب ان کے خلاف ہیں، پھر کاہے کا میں جمہوری ہندوستان؟ ، اب میں جمہوری ہندوستان نہ رہا، کچھ دن بعدسب لوگ جشن جمہوریت منائیں گے، اس میں وہ لوگ بھی شامل ہوں گے جوسچے دل سے مجھے جمہوری ملک تسلیم کرتے ہیں، میرے جمہوری دستورپریقین رکھتے ہیں اورملک میں امن وشانتی اورقومی یکجہتی کاپیغام عام کرنے کی کوشش کرتے ہیں اورمیری جمہوریت کاجشن وہ لوگ بھی منائیں گے جنہوں نے میری جمہوریت اورمیرے دستورکامذاق اڑایا، اتناہی نہیں؛ بلکہ وہ لوگ ہرلمحہ اورہرپل میرے آئین اور دستور کو ختم کرکے میری سیکولرحیثیت کوچھین کرمجھے ہندوراشٹرمیں بدلناچاہتے ہیں؛ لیکن میں سوچ رہا ہوں کاش وہ عادل حکمراں پھر آجاویں جنہوں نے ہزاروں سال سال تک مجھ پر حکومت کی؛ لیکن کبھی ان کے دورِ حکومت میں فسادنہ ہوا، کبھی ملکی معیشت بے شرموں کی طرح نہ گری، اس دور میں میں سونے کی چڑیا تھا، کاش اے کاش! وہ عادل ومنصف حکمراں مجھے پھر نصیب ہوجائیں؛ تاکہ ہزاروں سال پرانی روایت باقی رہے اور ملک کے عوام سمیت میں خوشحال رہوں، میرے سینے پر بھگوا دھاری نفرت کے نعرے نہ بلند کریں؛ بلکہ ہندومسلم سکھ عیسائی سبھی آپسی محبت و بھائی چارگی کے ساتھ محبت کے زمزمے گائیں

جنگ آزادی اور مسلمان - معصوم مراد آبادی -

(اردو اخبار دنیا)جنگ آزادی کے عظیم ہیروٹیپو سلطان شہید پر شہرۂ آفاق ناول لکھنے والے بھگوان گڈوانی کا بیان ہے کہ انہیں یہ ناول لکھنے کی ترغیب اس اجنبی فرانسیسی نوجوان نے دلائی تھی' جو لندن میں برٹش میوزیم سے نکلتے ہوئے چند لمحوں کے لئے ان کا ہم سفر ہوا تھا ۔اس نوجوان کو بارش سے بچنے کے لئے گڈوانی نے اپنی چھتری میں پناہ دی اور وہ اس کے ساتھ کافی ہاوس چلے گئے ۔باتوں باتوں میں اس نے بتایاکہ'' وہ ان بادشاہوں پر ریسرچ کررہا ہے جنہوں نے میدان جنگ میں لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا 'لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ پوری دنیا میں ٹیپو سلطان کے علاوہ ابھی تک کوئی ایسا بادشاہ نہیں ملا جس نے جنگ کے میدان میں لڑتے ہوئے شہادت پائی ہو۔بیشتر بادشاہ یا تو بھاگ گئے یا پکڑے گئے یا ہتھیار ڈالے اور مارے گئے ۔''اس بات سے بھگوان گڈوانی اتنا متاثر ہوئے کہ انہوں نے ٹیپو سلطان پر ریسرچ کرنے کا فیصلہ کیا اور دنیا کی کئی بڑی لائبریریوں اور آرکائیوز کا مطالعہ کرنے کے بعد ایک انتہائی لا جواب ناول ''دی سورڈ آف ٹیپو سلطان ''تخلیق کیا ۔ بھگوان گڈوانی نے یہ باتیں مجھے ایک انٹرویو کے دوران جنوری 1990میں اس وقت بتائی تھیں جب ان کے ناول پر سنجے خان نے ایک انتہائی متاثر کن ٹی وی سیریل بنایا تھا ۔کچھ فرقہ پرست عناصر اس سیریل کو دوردرشن پر ٹیلی کاسٹ کئے جانے کے خلاف تھے اور انہوں نے اس سیریل کے خلاف طوفان برپا کررکھا تھا ۔حالانکہ بھگوان گڈوانی کے ناول کو خاصی مقبولیت حاصل ہوئی تھی اور اس کی ڈھائی لاکھ کاپیاں فروخت ہوچکی تھیں ۔ٹیپو سلطان کی مخالفت آج بھی جاری ہے ۔ شیر میسور ٹیپو سلطان نے 4مئی 1799کو سرنگا پٹنم کے مقام پر انگریزوں سے لوہا لیتے ہوئے جام شہادت نوش کیا تھا ۔انہوں نے انگریز سپا ہ کا مقابلہ اتنی بہادری اور جرأت کے ساتھ کیا کہ ان سے لوہا لینے والی فوج کے انگریز کمانڈر نے کہا تھا کہ ''ٹیپو سلطان نے ایک شیر کی طرح جنگ کی ۔'' جام شہادت نوش کرنے کے بعد بھی انگریز سپاہیوں پر ٹیپوسلطان کا رعب اتنا زبردست تھا کہ وہ ان کی لاش کے قریب جاتے ہوئے ڈرتے تھے ۔کسی طرح ہمت پیدا کرکے وہ وہاں پہنچے اور ان کے سینے پر پاوں رکھ کر کہا کہ ''آج ہندوستان ہمارا ہے ۔'' ٹیپو سلطان کا یہ قول آج بھی تاریخی کتابوں میں سنہرے لفظوں سے لکھا ہوا ہے کہ ''گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہوتی ہے ۔'' مادر وطن کی حفاظت کے لئے غیر معمولی جرأت اور بہادری کی مثال صرف ٹیپو سلطان نے ہی پیش نہیں کی بلکہ ایسے ہزاروں واقعات نقل کئے جاسکتے ہیں جن میں مسلمانوں نے ہندوستان کی آزادی کے لئے بے مثال قربانیاں دیں اور جذبہ ٔحریت کی مثالیں قائم کیں ۔1857کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد انگریزوں نے دہلی میں وحشیانہ قتل عام کیا اور ہر درخت پر حریت پسندوں کی لاشیں لٹکا دیں ۔اسی دوران آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو قید کر لیا گیا ۔انگریزوں نے ان کے بیٹوں اور پوتوں کے سر قلم کرکے ایک طشتری میں سجا کر انہیں پیش کئے ۔اپنے جگر پاروں کے کٹے ہوئے سر دیکھ کر بہادر شاہ ظفر نے اپنا سر فخر سے بلند کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''خاندان تیموریہ کے فرزند ایسے ہی سرخرو ہوکر پیش ہوتے ہیں ۔'' دنیا میں جدوجہد آزادی کی کوئی تاریخ جذبہ حریت کی ایسی لازوال مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ تحریک خلافت کے رہنما اور عظیم مجاہد آزادی مولانا محمد علی جوہر کی قربانیوں سے کون واقف نہیں ۔انہوں نے ہندوستان کی آزادی کے لئے ہمہ وقت جدوجہد کی اور انگریزوں کی غلامی قبول کرنے سے انکار کردیا ۔لندن کی گول میز کانفرنس میں انگریز سامراج کو چیلنج کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ''میں اپنے ملک کو اسی حالت میں واپس جا سکتا ہوں جبکہ میرے ہاتھوں میں آزادی کا پروانہ ہوگا ۔اگر آپ نے ہندوستان کو آزادی نہیں دی تو پھر آپ کو یہاں مجھے قبر کے لئے جگہ دینی پڑے گی ۔'' اپنے اس انقلابی بیان کی لاج مولانا محمد علی جوہر نے ایسے رکھی کہ وہ ہندوستان واپس نہیں آئے اور انہوں نے 4جنوری 1931کو لندن میں اپنی جان جان ِآفریں کے سپرد کردی ۔مولانا محمد علی جوہر ہندوستان کی جنگ آزادی کے ایسے سپاہی تھے جن کی مثال مشکل سے ملے گی ۔آج بھی فلسطین میں مولانا محمد علی کی قبر پر جو کتبہ لگا ہوا ہے اس پر جلی حرفوں میں لکھا ہے ۔'محمد علی الہندی '۔مولانا محمد علی جوہر نے جنگ آزادی کے دوران پوری قوم کو جگانے کے لئے یہ پیغام دیا تھا: خاک جینا ہے' اگر موت سے ڈرنا ہے یہی ہوس ِزیست ہو اِس درجہ تو مرنا ہے یہی نقد جاں نذ ر کروسوچتے کیا ہو جوہر ؔ کام کرنے کا یہی ہے 'تمہیں کرنا ہے یہی پروفیسر خلیق احمد نظامی نے لکھا ہے کہ " مولانا محمد علی نے ایک سوتی ہوئی قوم کو ابھار کر ایک قوت بنا دیا تھا ۔انہوں نے ٹوٹی ہوئی کشتی کے ملاح کی طرح طوفان کا مقابلہ کرتے ہوئے جان دی ۔مولانا سید سلیمان ندوی نے لکھا ہے کہ ''وہ شکست خوردہ قوم کا آخری سپاہی تھا جو اعداء کے نرغے میں تنہا لڑرہا تھا۔آخر کار زخموں سے چور ہوکر ایسا گرا کہ پھر کھڑا نہ ہوسکا ۔'' یوں تو ہندوستان کی جنگ آزادی میں ہزاروں متوالوں نے پھانسی کے پھندے کو چوما اور وطن پر اپنی جان نچھاور کردی لیکن ان میں ایک نام ایسا بھی ہے جسے اپنے وطن پر جان قربان کرنے والوں میں بڑی قدر و منزلت حاصل ہے ۔یہ تھے شہید وطن اشفاق اللہ خاں جنہوں نے 27برس کی عمر میں تختہ دار کو بوسہ دینے سے قبل اپنی ماں کو جو آخری خط لکھا تھا' وہ وطن کے لئے ان کی بے پناہ محبت کا آئینہ دار ہے ۔انہوں نے لکھا تھا کہ: ''اگر مجھے ہزار بار پھانسی دی جائے اور میں ایک ہزار دفعہ مرمر کے دوبارہ پیدا ہوں تو بھی وطن کے لئے مر مٹنے کا میرا جذبہ اسی طرح تروتازہ رہے گا ۔'' مشہور زمانہ کا کوری کیس میں 6 اپریل 1927کو سیشن جج ہملٹن نے اشفاق اللہ خاں کو پھانسی کی سزا سنائی ۔ان پر پانچ دفعات لگائی گئی تھیں جن میں دو دفعات کے تحت تاعمر کالا پانی کی سزا اور تین دفعات کے تحت سزائے موت دی گئی تھی ۔پھانسی کا فیصلہ سننے کے باوجود ان کے اطمینان اور سکون میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آیا ۔جیل کے ریکارڈ کے مطابق ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ کسی موت کے مہمان کا وزن بڑھ جائے ۔جس وقت اشفاق اللہ خاں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی' اس وقت ان کا وزن 178پونڈ تھا اور اس کے بعد جب پھانسی دی جانے والی تھی تو ان کا وزن 203پونڈ ہوچکا تھا ۔وزن میں یہ اضافہ وطن پر قربان ہونے کی خوشی میں ہوا تھا جس کا اظہار انہوں نے اپنی والدہ کے نام خط میں بھی کیا تھا ۔تختہ دار پر جب جلاّد نے ان سے آخری خواہش پوچھی تو اشفاق اللہ خاں نے اپنا ہی یہ شعر پڑھا تھا: کوئی آرزو نہیں ہے' بس آرزو یہی ہے رکھ دے کوئی ذراسی خاکِ وطن کفن

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...