Powered By Blogger

بدھ, اگست 25, 2021

باہمی رواداری اور یکجہتی کے فروغ کے بغیر ملک کی ترقی ممکن نہیں ۔ مولانا ارشد مدنی

باہمی رواداری اور یکجہتی کے فروغ کے بغیر ملک کی ترقی ممکن نہیں ۔ مولانا ارشد مدنینئی دہلی(اردو اخبار دنیا)،ملک میں آزادی کے بعد سے جاری فرقہ وارانہ فسادات کو ملک کیلئے خطرناک قرار دیتے ہوئے جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہاکہ جس طرح ملک میں فرقہ پرستی سر اٹھارہی ہے وہ بہت خطرناک ہے اگریہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو اس کا خطرناک منظر ملک دیکھے گا۔ یہ بات انہوں نے مظفرنگر کے باغوانوالی میں مظفرنگر فسادات کے متاثرین کو مکانات کی چابیاں تقسیم کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہاکہ وہی حکومت طویل عرصے تک قائم رہتی ہے جو امن و امان قائم کرنے میں امتیاز نہیں کرتی اور نہ ہی اقلیت و اکثریت کے درمیان فرقکرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو ملک اپنے باشندوں کے درمیان امتیاز کرتی ہے وہ جلد تباہ ہوجاتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ وہی لوگ ملک میں آگ لگا رہے ہیں جنہوں نے ملک کی آزادی میں دوکوڑی بھی حصہ ادا نہیں کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ آخر کس نے اجازت دی کہ وہ ملک میں آگ لگائیں۔ مولانا مدنی نے کہا کہ پورے ملک میں فسادات کے سلسلے درازتر ہوتے جارہے ہیں۔ اس لئے مسئلہ کا حل یہ قطعی نہیں ہے کہ لوگ اپنے گاؤں کو چھوڑ دیں۔کیوں کہ ہمارا ملک ہندوستان صدیوں سے امن واتحاد اور محبت کا گہوارہ رہا ہے جس میں تمام مذاہب کے لوگ صدیوں سے ایک ساتھ رہتے آئے ہیں۔مذہبی رواداری ہندوستان کی بنیادی شناخت ہے۔ہمارے ملک کا آئین ہر شہری کو برابر کے حقوق دیتا ہے اور مذہب،زبان اور علاقہ کی بنیاد پر کسی شہری کے ساتھ بھید بھاؤ کرنا ہندوستان کے آئین کی روح کے سراسر خلاف ہے۔مگر افسوس ادھر چند برسوں سے جس طرح ملک کی فرقہ پرست لابی صرف سیاسی مفادات کی تکمیل کے لئے مذہبی بنیاد پر نفرت کا بازار گرم کئے ہوئے ہے،اور اقلیت اور اکثریت کے درمیان اختلافات کی دیوار کھڑی کرکے ووٹ بینک کی سیاست کررہی ہے اس سے ملک کے حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہوچکے ہیں۔ جمعےۃ علمائے ہند نے یہ محسوس کیا کہ اگر ملک باقی رہے گا تو صرف انسانیت کی خدمت اور فلاح بہبود کی بنیاد پر باقی رہے گا اس لئے جمعیۃ علمائے ہند خدمت خلق کے اپنے مشن جاری و ساری رکھا۔ کیوں کہ تفریق کی بنیاد پر ملک تقسیم ہوا ہے اور یہی چیز ملک میں باقی رہی تو ملک پھر ٹوٹ جائے گا اور ہم جب تک زندہ رہیں گے اور ہماری جمعےۃ زندہ رہے گی اسی نظریہ پر قائم رہیں گے۔ ملک میں فرقہ پرستی کا زہر ہلاہل ہے اور فرقہ پرستی کی بنیاد کو آج ملک کو بانٹنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے مگر جمعےۃ ملک کے اتحاد و اتفاق، بھائی چارہ، رواداری اور خیرسگالی جذبہ پیدا کرنے کے لئے مسلسل کوشش کرتی رہے گی اور ملک کو کبھی بکھرنے نہیں دے گی۔ انہوں نے کہاکہ ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی کے بعد ہمارے لاکھوں مسلمانوں، علماؤں نے اپنی جانوں کی قربانی پیش کی ہے۔ مگر علمائے نے جنگ آزادی کی جدوجہد سے منہ نہیں موڑا اور چین و سکون سے بیٹھنا گوارہ نہیں کیا۔ 1931کی بالاکوٹ کی جنگ کے بعد ان کے شاگردوں نے 1857کی جنگ آزادی میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔ اس جنگ کی ناکامی اور ہزاروں علمائے کرام کی شہادت کے بعد بھی ان کے اندر مایوسی پیدا نہیں ہوئی اور مسلسل جدوجہد کرتے رہے اور دارالعلوم دیوبند کا قیام بھی جنگ آزادی کے لئے جیالوں کو پیدا کرنا تھا۔ ان کے فضلاء نے بیرون ملک سے لیکر ملک تک کے قیدخانوں کو آباد کیا۔ انہوں نے کہاکہ آزادی کے بعد ہمارے علمائے کرام نے مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہر لال نہرو کو سیکولر ملک بنانے کا وعدہ یاد دلایا اور سیکولر آئین بھی بنا لیکن آزادی کے بعد مسلمانوں کو دستوری آزادی کے ساتھ جینے کا حق نہیں دیا گیا۔ فسادات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔ ہرحکومت میں فسادات کا سلسلہ جاری رہا خواہ کسی کی بھی حکومت رہی ہو۔ جمعیۃ علمائے ہند نے فرقہ وارانہ خطوط سے گریز کرتے ہوئے ہمیشہ راحت رسانی اور بازآبادکاری کے کاموں کو انسانیت کی بنیاد پر کام کیا ہے اور کبھی یہ نہیں دیکھا کہ مستفیدین کون ہے ان کا تعلق کس مذہب، کس علاقے اور کس مسلک سے ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہماری تاریخ رہی ہے کہ ہم فرقہ پرستی کے خلاف ہمیشہ لڑائی لڑی ہے اور سب سے پہلے ہم نے اپنوں کی فرقہ پرستی سے لڑائی کی ہے۔ افغانستان کے حولے سے انہوں نے کہاکہ میں ہر اس ملک کی قدر کرتا ہوں جو اپنے عوام کے ساتھ امتیاز نہ کرتا ہو۔ اقلیت اکثیریت کے حقوق کا یکساں خیال رکھتا ہو وہ ملک مسلم ملک ہو یا ہندو ملک یا کوئی اور ملک۔ انہوں نے موہن بھاگوت سے ملاقات کے تعلق سے کہا کہ اگر وہ دوبارہ بلائیں گے تو۔ضرور جاؤں کا اپنی بات شدت سے رکھوں گا۔ واضح رہے کہ صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا ارشدمدنی نے آج مظفر نگر فساد میں بے گھر ہوئے مزید 66خاندانوں کو آشیانہ فراہم کرتے ہوئے باغونوالی ضلع مظفرنگر میں مکانات کی چابیاں ان کے حوالہ کیں۔ قابل ذکر ہے کہ اس ہولناک فساد میں ہزاروں خاندان بے گھر ہوگئے تھے اوران میں بڑی تعدادایسے لوگوں کی تھی جنہوں نے خوف ودہشت کے سبب واپس اپنے گھروں کو لوٹنے سے انکار کردیا تھا۔ یہ لوگ اب تک مختلف جگہوں پرانتہائی کسمپرسی میں زندگی گزار رہے تھے۔ جمعےۃ علماء ہند نے اپنی دیرینہ روایت کے مطابق ابتداء ہی سے ان کی ریلیف و امداد کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل مختلف مقامات پر311مکانات،مسجد اور مکتب کی تعمیر کرواکر متاثرین کو ان میں آباد کیا جاچکا ہے۔ مولانا مدنی نے 28 مارچ 2019 کو 151مکانوں پر مشتمل ایک اور مجوزہ جمعیۃکالونی کامظفرنگر کے باغونوالی گاؤں میں افتتاح کیا تھا،اس وقت ان میں سے تیارشدہ85 مکانوں کی چابیاں متاثرین کے حوالہ کی جاچکی تھیں، درمیان میں کورونا کی وجہ سے بازآبادکاری کاکام قدرے متاثررہا اور آج مولانا مدنی نے بقیہ 66 مکانوں کی چابیاں متاثرین کے حوالہ کیں، ساتھ ہی اسی کالونی میں متاثرین کے بچوں کی دینی تربیت کے لئے مکتب اور پنج وقتہ نماز کے لئے ایک مسجد کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ اس طرح سے اب تک مظفرنگرفساد متاثرین کے لئے466مکانات تعمیر کرکے ان میں متاثرین کو بسایا جاچکا ہے۔ مولانا ارشدمدنی نے کہا کہ 27 /اگست 2013ء میں اترپردیش کے شہر مظفرنگر میں جو فسادات ہوئے انہیں اس لئے بھی بدترین فسادات کی فہرست میں رکھا جاسکتا ہے کہ پہلی بار ایسا ہوا کہ اپنی جان کے خوف سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعدادنے اپنے آبائی گھروں سے نقل مکانی کی، ان فسادات میں پولس نے حسب معمول بے حسی اور جانب داری کامظاہرہ کیا جس کے نتیجہ میں مظفرنگر کے دیہی علاقوں میں قتل وغارت گری کا بازار گرم ہوگیا۔ قبل ازیں جمعیۃ علمائے ہند نے راحت رسانی او ر بازآبادکاری کا کام ملک گیر سطح پر کیا ہے۔ 2018میں کیرالہ میں جب تباہ کن طوفان آیا تھا اس وقت جمعیۃ نے صرف غذائی اشیاء فراہم کی تھی بلکہ بازآبادکاری کے کام میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ اس دوران 66مکا ن تعمیر کرکے ضرورت مندوں کو سپرد کئے گئے جب کہ 90 مکانات مرمت کرکے لوگوں کے حوالے کردیا گیا۔ مرمت میں تقریباً ایک لاکھ صرفہ آیا جب کہ نئے مکان کی تعمیر میں ساڑھے چار لاکھ کا صرفہ آیاتھا اور کیرالہ کے اس پورے پروجیکٹ پرسات کروڑ روپے کا صرفہ آیا۔ مستفیدین مسلمانوں کے علاوہ ہندو اور عیسائیوں کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ کیرالہ کے متاثرین کا مجموعی تاثر یہی تھا وعدے تو سبھی کرکے گئے لیکن کام جمعیۃ علمائے ہند اور مولانا سید ارشد مدنی نے کیا ہے۔ جمعیۃ علمائے ہند نے آسام کے بھیانک ترین بوڈو فساد میں راحت رسانی اور بازآبادکاری کی بڑی مہموں میں سے ایک کو انجام دیا۔ بوڈو مسلم فساد میں تقریباَ ساڑھے تین لاکھ لوگ بے گھر ہوگئے جن میں مسلمان اور ہندو دونوں شامل تھے۔ جمعیۃ نے وہاں مختلف علاقوں میں 500سے زائد مکانات تعمیر کرکے لوگوں کو آباد کیا اور حسب سابق جمعیۃ نے مکانات کی تقسیم میں مذہبی وابستگی سے اوپر اٹھ کر ہندو اور مسلمان دونوں کو مکانات دئے۔ اسی طرح جمعیۃ علمائے ہند نے اکتوبر 2009میں تلنگانہ میں آنے والے شدید طوفان میں بازآباد کاری اور مالی مدد کے ساتھ غذائی اجناس کی تقسیم کا کام بڑے پیمانے پر انجام دیا۔ میڈیکل کیمپ قائم کرکے طبی خدمات بھی انجام دی۔ بہار کے سرحدی اضلاع اور خاص طور پر سیمانچل میں آنے والے تباہ کن سیلاب کے متاثرین کی راحت رسانی، بازآبادکاری کیلئے جمعےۃ ہر ضلع میں کیمپ قائم کیاتاکہ ضرورت مندوں کی فوری مدد کی جائے۔ راحت رسانی کا لمبا چلا تھا جہاں کھانے پینے کی اشیاء کے علاوہ متاثرین کو کپڑے اور سردیوں میں کمبل تقسیم کئے گئے تھے۔ بھاگلپور، ارریہ، پورنیہ، کٹیہار، کشن گنج، سہرسہ اور سپول سے راحت رسانی کے کام کو انجام دیا گیا جس میں تباہ شدہ مکانوں کی تعمیرنو اور مرمت کرکے لوگوں کے سپرد کئے گئے۔ تقریباَ پانچ سو مکانات دئے گئے تھے۔

کشمیر : بڈگام ۔ بارہمولہ ٹرین سروس بحال ، سری نگر ۔ جموں قومی شاہراہ بند

کشمیر : بڈگام ۔ بارہمولہ ٹرین سروس بحال ، سری نگر ۔ جموں قومی شاہراہ بندسری نگر(اردو اخبار دنیا):وادی کشمیر میں جہاں بدھ کو بڈگام - بارہمولہ ریل سروس ایک روز بعد بحال ہوئی وہیں وادی کو ملک کے باقی حصوں کے ساتھ جوڑنے والی سری نگر- جموں قومی شاہراہ مرمتی کام کے پیش نظر ٹریفک کی نقل و حمل کے لئے بند رہی۔ ریلوے ذرائع نے بتایا کہ بڈگام- بارہمولہ ٹریک پر بدھ کو ایک روز بعد ٹرین سروس بحال ہوئی۔
بتادیں کہ اس ٹرین سروس کو منگل کے روز اس وقت احتیاطی طور پر معطل کر دیا گیا تھا جب شمالی کشمیر کے سوپور میں سیکورٹی فورسز اور جنگجوؤں کے درمیان تصادم آرائی شروع ہوئی تھی۔ پولیس کے مطابق اس تصادم آرائی کے دوران تین جنگجو ہلاک ہوئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ بڈگام- بارہمولہ ٹریک پر بدھ کی صبح ٹرین سروس بحال ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس تصادم آرائی کی وجہ سے جنوبی کشمیر سے جموں کے بانہال جانے والی ٹرین سروس متاثر نہیں ہوئی تھی وہ حسب معمول چل رہی تھی۔
دریں اثنا وادی کشمیر کو ملک کے دیگر حصوں کے ساتھ جوڑنے والی سری نگر- جموں قومی شاہراہ بدھ کے روز مرمتی کام کے پیش نظر ٹریفک کی نقل و حمل کے لئے بند رہی۔
تاہم وادی کو لداخ یونین ٹریٹری کے ساتھ جوڑنے والی سری نگر- لیہہ شاہراہ اور جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیاں کو صوبہ جموں کے ضلع پونچھ کے ساتھ جوڑنے والے تاریخی مغل روڈ پر ٹریفک کی نقل و حمل حسب معمول جاری ہے۔ ایک ٹریفک عہدیدار نے یو این آئی کو بتایا کہ مرمتی کام کے پیش نظر بدھ کے روز قومی شاہراہ پر کسی بھی گاڑی کو چلنے کی اجازت نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ قومی شاہراہ پر جمعرات کی صبح ٹریفک کی نقل و حمل کو بحال کیا جائے گا۔

یوپی کا الكشن اور مسلمانوں کا آپشن

یوپی کا الكشن اور مسلمانوں کا آپشننقی احمد ندوی، ریاض، سعودی عرب

(اردو اخبار دنیا)سیاست سے آپ کی زندگی بنتی اور بدلتی ہے، اگر آپ سیاست میں حصہ نہ لیں، پھر بھی سیاست آپ کی زندگی میں حصہ لیتی ہے اور زندگی کے ہر شعبہ کا فیصلہ کرتی ہے۔ مسلمانوں کی سیاسی زندگی ختم ہوچکی ہے، اس کا ثبوت یہ ہیکہ مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ سیاست نے ایسا کھیل کھیلا ہے کہ آپ کی حیثیت کوڑے کے کاغذ جیسی ہوچکی ہے۔ اس میں اگر کسی کو شک ہے تو اسے علاج کی ضرورت ہے۔
یوپی کا الکشن اور مسلمانوں کا رول انکے مستقبل پر بہت گہرے اثرات مرتب کریں گے۔ سوال یہ ہیکہ مسلمان کیا کریں؟ اگر میں کوئی آپشن بتا دوں تو یوپی کے سارے مسلمان اس پر نہ تو عمل کریں گے اور نہ ہی یہ ممکن ہے۔ مگر چند حقائق بیان کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ دو راستے ہیں، ایک یہ کہ سیکولر طاقتوں کوووٹ دیکر اپنے ووٹوں کی قیمت بتائی جاے، دوسرا راستہ یہ ہیکہ مسلمانوں کی جو بھی چھوٹی پارٹیا ں میدان میں موجود ہیں انکو ووٹ دیا جاے۔ میرے خیال سے پہلا آپشن وقتی فائدہ کا حامل ہے، آپ کے ووٹ سے ہوسکتا ہے کہ سیکولر حکومت بن جاے جو موجودہ حالات میں مشکل ہی نظر آرہا ہے، مگر ایک بات تو طے ہے کہ گذشتہ پچھتر سال اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ کوئی بھی پارٹی اقتدار میں ہو، مسلمانوں کے مسائل سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں، اگر دلچسپی ہوتی تو آج مسلمانوں کے حالات بہتر ہوتے۔ اگر سیکولر پارٹی کوووٹ دینا ہمارے حق میں بہتر ہے تو آج تک ہمارے حالات بہتر ہوگیے ہوتے، کہاجاتا ہے کہ ماضی سے سبق لیں، ماضی نے تو یہ ثابت کردیا ہے کہ سیکولر پارٹیاں ہمار اا ستحصال کرتی آرہی ہیں، ماضی اور تاریخ سے سبق لینے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ہزار سال کی تاریخ کے اوراق کھنگالیں، بلکہ جو آپ کی سامنے ماضی میں ہوا ہے اس سے سبق لیجیے، اگر آج بھی کسی سیکولر دانشور کو سیکولر پارٹی کوووٹ دینے کی ضد ہے تو میرے خیال میں وہ مومن نہیں ہے، کیونکہ مومن ایک سوراخ سے دوبار ڈسا نہیں جاتا۔ مسلم ہوسکتے ہیں اس کے لیے بس کلمہ کی شرط ہے، مگرہم سیکولرزم کے نام اپنی عزت، اپنا مفاد اور اپنی آبرو ہر الکشن میں بیچتے آے ہیں، جہاں تک دوسرے آپشن کی بات ہے، تو یہ طویل المدتی پلان ہے، آج ہوسکتا ہے کہ آپ کسی مسلمان پارٹی کو ووٹ دیں اور وہ نہ جیت سکے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ جیت جایں مگر حکومت کسی اور کی ہو تو وہ آپ کے مسائل کے حل کرنے اور آپ کے علاقہ میں ڈبلوپمنٹ کا کام کرنے میں اس طرح ممد ومعاون ثابت نہ ہوں جس طرح دوسری پارٹیوں کے جیتے ہوے ممبران، مگر اس کا دور رس فائدہ یہ ہے، آج جس مسلم پارٹی کو آپ ووٹ دے رہے ہیں کل وہی پارٹی دھیرے دھیرے بڑی ہوگی، اگر شروع میں اس کا سپورٹ نہیں کرتے اور یہ امید کرتے ہیں کہ کوئی مسلم پارٹی نیشنل پیمانہ کی سامنے آجائے تو یہ حماقت ہے، بی جے پی ابھی ہندوستان کی سب سے بڑی پارٹی ہے، یاد کیجیے کہ اسمبلی اور لوک سبھا میں آج سے چالیس سال پہلے اس کی کتنی سیٹیں آیا کرتی تھیں۔
ایک سوال یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ ہم مسلمانوں کو سیکولر رہنا چاہیے، سیکولر رہنا تو بہت اچھی بات ہے یہی تو ہمار آیئن سکھاتا ہے، مگر سیکولر رہنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم بے حیثیت ہوجایں۔ سیکولر ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنی قوم کی بات نہ کریں اور اسکا مفاد نہ دیکھیں۔ ہر قوم کو ہمارے آئین نے ووٹ کا اور اپنے مفادات کے تحفظ کا حق دیا ہے، اگر آپ اسکا استعمال نہیں کرتے تو غلطی آپ کی ہے۔ ویسے تو یوپی کے مسلمانوں کے حالات سب سے زیادہ خراب ہیں اور بدقسمتی سے سب سے زیا دہ آبادی بھی یوپی ہی میں مسلمانوں کی ہے، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ یوپی کے مسلمان اپنے ذاتی مفاد کو قوم کے مفاد پر ترجیح دیتے ہیں، اور جب مار پڑتی ہے تو دوسروں کو الزام دیتے ہیں، یاد رکھیے ہر قوم اپنی بربادی کی خود ذمہ دار ہے، بہرحال آپ جتنے بھی آی اے ایس، اور گورمنٹ کے اہل کار پیدا کرلیں، اگر اسمبلی میں آپ کے مفاد کی حفاظت کرنے والے موجود نہیں ہیں تو آپ کی پریشانیا ں جوں کی توں باقی رہیں گی۔ آپ یہ کہ سکتے ہیں کہ جناب والا، دوچار سیٹوں سے ہوگا کیا؟ مسلمانوں کی دوچار سیٹیں کچھ نہیں کرسکتیں، تو آپ یہ ذہن میں رکھیں کہ رام ولاس پاسبان نے تقریبا چالیس سال ہر حکومت میں منسٹری حاصل کی تھی اور وہ بھی صرف دوچار ایم پی کی بنیاد پر، اگر مسلمانوں کی کوئی پارٹی صرف چند سیٹیں لاتی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بیکار ہیں، کبھی نہ کبھی آپ کنگ میکر کی حیثیت میں آہی جایں گے۔ اس وقت آپ کو اپنی اہمیت کا اندازہ ہوگا۔
اہل یوپی کے پاس صرف ایک آپشن ہے کہ وہ سیکولر پاڑٹیوں کا دامن تھامنے کے بجاے مسلم پارٹیوں کو ووٹ دیں، اگر وہاں کے مسلمان اس بات کو سمجھ لیتے ہیں کہ چاہے ہماری چند سیٹیں ہوں مگر ہم مسلم پارٹی ہی کو ووٹ دیں گے، تو اگلی چند دہایوں مین گیم بدل سکتا ہے، اس لیے یہ طویل المدتی پلان کہاجاسکتا ہے۔
سوال یہ ہیکہ ہم کس کو ووٹ دیں، میں کسی ایک پارٹی کا حامی نہیں، اگر ایم آی ایم جیتنے کی پوزیشن میں ہے تو اس کو بھی ووٹ دیا جاسکتا ہے، جب آپ پچھتر سال ان سیکولر پارٹیوں کو آزما سکتے ہیں جنھوں نے آپ کے لیے کچھ نہیں کیا، تو ایک مسلم پارٹی کو صرف دو الکشن میں کیوں نہیں آزما سکتے، اسی طرح دوسری مسلم پارٹیاں جوبھی ہیں صرف انکو ووٹ دیا جاسکتا ہے۔
مگرطویل المدتی پلان کے تحت ہمیں کسی ایسی پارٹی کے بارے میں سوچنا چاہیے جس کے اندر خاندانی موروثیت نہ ہو، جو کسی ایک علاقہ تک محدود نہ ہو اور جس پارٹی کے تنظیمی ڈھانچہ میں بھی جمہوریت پوری طرح موجود ہو، اگر کوئی ایسی پارٹی سامنے آتی ہے، تو میرے خیال میں ایسی پارٹی کے لیے کام کرنا اور ایسی پارٹی کو سپورٹ کرنا جو ہمارے مفادات کی حامل ہو، آپ کے طویل المدتی پلان کا ایک بہتر حصہ ہوسکتا ہے، اب یہ آپ کے اوپر ہے کہ کون سی مسلمانوں کی ایسی پارٹی ہے جس کے اندر ایسی ساری خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ عوام کی بھیڑ ہمیشہ بھیڑ ہوتی ہے، اسکو ڈایرکشن ہر علاقہ کے پڑھے لکھے لوگ دیتے ہیں۔ اگر آپ پڑھے لکھے خود کو تصور کرتے ہیں تو ایسی پارٹی کے بارے پتہ لگائیں، اسکو سپورٹ کریں، اور ایک نئے دور کا آغاز کریں۔
افراد ہو یا اقوام انکی قسمت کا فیصلہ آسمانوں میں نہیں بلکہ زمین میں ہواکرتا ہے، اور انکی قسمت انکے ایکشن، صحیح وقت پر صحیح فیصلے، اور کسی حادثہ یا واقعہ پر انکا ردعمل طے کرتاہے

صاحب گنج میں 69 پتھر کی کانوں کا سی ٹی او معیارات کی عدم تعمیل کی وجہ سے منسوخ ، 116 کانوں سے کی جا رہی ہے کان کنی

صاحب گنج میں 69 پتھر کی کانوں کا سی ٹی او معیارات کی عدم تعمیل کی وجہ سے منسوخ ، 116 کانوں سے کی جا رہی ہے کان کنی(اردو اخبار دنیا)رانچی: صاحب گنج میں پتھر لیز رکھنے والوں کے خلاف بڑی کارروائی کی گئی ہے۔ سی ٹی او (کنسیٹ ٹو آپریٹ) یا ضلع میں 69 پتھروں کی کانوں کے آپریشن کی اجازت کا حکم منسوخ کر دیا گیا ہے۔ سی ٹی او کو ریاستی آلودگی کنٹرول بورڈ نے منسوخ کر دیا ہے۔ جیسے ہی ریاستی آلودگی کنٹرول بورڈ سے حکم موصول ہوا ، ضلعی انتظامیہ نے ان کانوں سے پتھر کی کان کنی روک دی۔

جاری کردہ حکم میں ، آلودگی کنٹرول بورڈ نے کہا ہے کہ اس سلسلے میں تین بار پتھر کے تاجروں کو خط لکھے گئے تھے ، جہاں این جی ٹی کے اصولوں کی عدم تعمیل کے بارے میں معلومات مانگی گئی تھیں۔ لیکن تاجروں کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ اس کے بعد بورڈ نے کو منسوخ کرنے کا حکم دیا۔ اس حکم کے بعد ضلع کے پتھر تاجروں میں روشنی ہے۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ پتھر کی کان کنی ضلع میں آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔

ضلع کی 230 کانوں کو مل گیا ہے۔ جو کہ پچھلے کچھ دنوں سے چل رہا تھا۔ کچھ دن پہلے 13 کانوں کا سی ٹی او منسوخ کر دیا گیا تھا۔ اب 69 کانوں کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔ چار بارودی سرنگیں مسمار کر دی گئیں کیونکہ وہ رہائشی علاقے میں تھیں۔ ایسے میں اب ضلع میں صرف 116 کانیں کام کر رہی ہیں۔

صاحب گنج ضلع کی آمدنی کا اہم ذریعہ پتھر کی کان کنی ہے ، جس سے ریاستی حکومت کو محصول ملتا ہے۔ سال 2020 سے ، اس میں کوویڈ کی وجہ سے کمی دیکھی گئی۔ سال 2019-20 میں ضلع میں پتھر کی کان کنی سے 80 کروڑ کی آمدنی حاصل ہوئی۔ سال 2020-21 میں ایک ارب 10 کروڑ کی آمدنی ہوئی اور رواں سال مارچ سے جولائی تک 15 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔

سرکاری ذرائع کے مطابق ضلع میں تقریبا 90 90 بارودی سرنگوں کی فہرست تیار کی گئی ہے۔ جہاں ، ان کانوں کے سی ٹی او کو منسوخ کرنے کی تیاری ہے۔ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے گزشتہ چند دنوں سے پتھر کے تاجروں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے

ختم ہوا کسانوں کا دھرنا ، میٹنگ کے بعد کیپٹن نے کیا بڑا اعلان

ختم ہوا کسانوں کا دھرنا ، میٹنگ کے بعد کیپٹن نے کیا بڑا اعلانچندی گڑھ: (اردو اخبار دنیا) پنجاب میں کسانوں کے بارے میں ایک بڑی خبر سامنے آ رہی ہے۔ کل وزیراعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ اور کسانوں کے درمیان دوپہر 3 بجے میٹنگ ہوئی۔ میٹنگ کے بعد ، وزیراعلی نے اعلان کیا ہے کہ گنے کے کاشتکاروں کو راحت دیتے ہوئے اب قیمت میں 35 روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہی نہیں حکومت نے پہلے بھی 15 روپے کا اضافہ کیا تھا۔ اس سے ، اب گنے کی قیمت 360 روپے فی کوئنٹل ہو گئی ہے ۔ اس اعلان کے بعد پنجاب میں گنے کے کاشتکاروں کی ہڑتال بھی ختم ہو گئی ہے۔
بتادیں کہ گنے کے کاشتکار گزشتہ کئی دنوں سے پنجاب میں احتجاج کر رہے تھے۔ یہی نہیں ، ان کی جانب سے مظاہرے کے دوران شاہراہوں اور ریلوے ٹریک کو بھی جام کیا گیا۔ انہو ںنے مطالبات پورنے نہ ہونے پر پنجاب بند کی کال بھی دی تھی، لیکن فیصلے کے بعد حالات قابو میں آگئے ہیں۔


روی شاستری کے بعد کسے بنایا جائے ٹیم انڈیا کا کوچ ، سابق پاکستانی کرکٹر نے دیا مشوره

روی شاستری کے بعد کسے بنایا جائے ٹیم انڈیا کا کوچ ، سابق پاکستانی کرکٹر نے دیا مشورهنئی دہلی: روی شاستری (Ravi Shastri) کی مدت کار تقریباً ختم ہونے والی ہے۔ ہندوستانی مرد کرکٹ ٹیم (India Cricket Team) کے چیف کوچ کے طور پر سابق ہندوستانی آل راونڈر کا معاہدہ ٹی-20 عالمی کپ 2021 ختم ہونے کے بعد ختم ہوجائے گا۔ ایسی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ روی شاستری کے اس عہدے کے لئے پھر سے درخواست دینے کا امکان نہیں ہے اور وہ اسی عہدے پر بنے نہیں رہیں گے۔ ان افواہوں کے باوجود کوئی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ ایسے میں مداح اندازہ لگا رہے ہیں کہ ٹیم انڈیا کا اگلا چیف کوچ کون بنے گا۔ کچھ اس طرح کی خبریں بھی آئیں کہ بی سی سی آئی جولائی میں سری لنکائی دورے پر عبوری چیف کوچ کے طور پر راہل دراوڑ (Rahul Dravid) کی کارکردگی سے خوش تھا۔

ٹیم انڈیا کے نئے چیف کوچ (Team India Head Coach) کی قیاس آرائیوں کے درمیان پاکستان کے سابق کپتان سلمان بٹ (Salman Butt) نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے مشورہ دیا ہے کہ ٹیم انڈیا کا اگلا چیف کسے بنایا جانا چاہئے۔ سابق کرکٹر کے مطابق، ٹیم انڈیا کے بلے بازی کوچ وکرم راٹھور (Vikram Rathour) اگلے چیف کوچ کے طور پر ایک اچھی پسند ہوسکتے ہیں۔ سلمان بٹ نے کہا کہ جو کوئی بھی اس عہدے پر آتا ہے، اس کا ٹیم کے ساتھ مناسب تال میل ہونا چاہئے۔ کیونکہ وکرم راٹھور ٹیم انڈیا کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور روی شاستری کی مدت کے دوران ان کے ساتھ رہے ہیں۔ ایسے میں وہ ایک اچھا متبادل ہوسکتے ہیں۔

سلمان بٹ کا ماننا ہے کہ ہندوستان کو ایک کوچ سے زیادہ کسی ایسے شخص کی ضرورت ہے، جو پہلے سے ہی موجودہ ٹیم اور اس میں چل رہے پروگرام کے ساتھ تال میل بٹھا سکے۔

سلمان بٹ کا ماننا ہے کہ ہندوستان کو ایک کوچ سے زیادہ کسی ایسے شخص کی ضرورت ہے، جو پہلے سے ہی موجودہ ٹیم اور اس میں چل رہے پروگرام کے ساتھ تال میل بٹھا سکے۔ حالانکہ، انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی دیگر غیر ملکی کوچ اس عہدے کے لئے درخواست نہیں دیتا ہے تو وکرم راٹھور کا انتخاب ہوسکتا ہے۔ انہوں نے اپنے یوٹیوب چینل پر کہا، 'جو بھی نیا چیف کوچ بنتا ہے، اسے کھلاڑیوں کے ساتھ مناسب تال میل بٹھانا چاہئے اور انہیں اپنے آرام دہ زون (کمفرٹ زون) میں رکھنا چاہئے۔ روی شاستری کے جانشین کے لئے وکرم راٹھور کا نام سرخیوں میں ہے۔ راٹھور اپنے وقت میں ایک اسٹائلش کھلاڑی تھے اور وہ موجودہ وقت میں ٹیم کے بلے بازی کوچ بھی ہیں۔ جب ٹیم مضبوط ہوتی ہے تو انہیں کوچ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ٹیم انڈیا کو ایک ایسے کوچ کی ضرورت ہے، جو پہلے سے ہی ٹیم کے ساتھ تال میل بٹھا سکے۔ اس لئے، مجھے لگتا ہے کہ وکرم راٹھور چیف کوچ عہدے کے لئے مناسب ہیں۔ اگر کوئی غیر ملکی کوچ ٹی-20 عالمی کپ کے بعد روی شاستری کی مدت ختم ہونے کے بعد درخواست نہیں دیتا ہے تو وہ اس پوزیشن کے لئے بالکل فٹ ہیں'۔ واضح رہے کہ وکرم راٹھور نے 1996 سے 1997 کے درمیان ہندوستان کے لئے 6 ٹسٹ میچ اور 7 ونڈے کھیلے ہیں۔ حالانکہ ان کا پنجاب اور ہماچل پردیش کے لئے ایک شاندار کیریئر تھا۔ انہیں سال 2019 عالمی کپ کے بعد سنجے بانگر کی جگہ بلے بازی کوچ نامزد کیا گیا تھا اور تب سے ہندوستانی ٹیم کے ساتھ ان کے کام کے لئے تعریف کی جاتی ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں میں، وہ چیف کوچ کے کردار میں روی شاستری کی جگہ لینے والے ممکنہ امیدواروں میں سے ایک کے طور پر ابھرے ہیں۔

مہنگائی پر پرگیہ ٹھاکر کا حیران کرنے والا بیان

متنازعہ شخصیت اور بھوپال سے بی جے پی کی رکن پارلیمنٹ پرگیہ ٹھاکر نے ایک مرتبہ پھر عجیب و غریب بیان دیا ہے۔ انہوں نے ملک میں مہنگائی کے تعلق سے کہا ہے کہ ملک میں مہنگائی نہیں ہے بلکہ یہ کانگریس کا پروپیگنڈہ یعنی غلط تشہیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ (کانگریس ارکان) صرف پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ ڈیزل مہنگا، پٹرول مہنگا، یہ مہنگائی اور کچھ نہیں کانگریس کی ذہنیت ہے، خالی پروپیگنڈہ ہے۔

پرگیہ ٹھاکر بھوپال میونسپل کارپوریشن (بی ایم سی) کی ایک تقریب سے خطاب کر رہی تھیں جس میں انہوں نے یہ بات کہی۔ اس موقع پر انہوں نے کانگریس کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ کانگریس کے دور میں آلودگی بہت زیادہ تھی اور اس کی بڑی وجہ اس دور میں شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ میں پرانی گاڑیاں چلائی جاتی تھیں، اس وقت چہرا صاف کرنے میں رومال کالا ہو جاتا تھا، کیونکہ آلودگی اتنی زیادہ ہوتی تھی۔


اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...