Powered By Blogger

پیر, ستمبر 06, 2021

ناندیڑ کے علمائے اکرام کی مسلمانوں سے کورونا کا ٹیکہ لگوانے کی اپیل ستمبر 6, 2021

ناندیڑ۔ 6 ستمبر (اردو دنیا نیوز۷۲ ):ناندیڑ شہر میں کورونا کے مریضوں کی تعداد میں کافی کمی آچکی ہے۔ حالات بھی بہتر ہو چکے ہیں مگر مرکزی حکومت نے تیسری لہر کا اندیشہ ظاہر کر کے ریاستوں کو چوکسی اختیار کرنے کی ہدایت دی ہے اور کورونا سے بچاﺅ کے لئے زیادہ سے زیادہ ٹیکہ کاری پر زور دینے کی ہدایت دی ہے۔ ناندیڑ شہر میں کورونا ویکسین کا ٹیکہ لگوانے کے کام میں پچھلے کچھ دنوں سے سستی نظر آرہی ہے اور لوگ کورونا سے بے خوف نظر آرہے ہیں۔ کورونا سے بچاﺅ کے لئے ویکسین موثر ہے ۔

مسلم عوام میں ویکسین لگوانے کے لیے بیداری پیدا کرنے کی غرض سے آج شہر کے فیمس فنکشن ہال میں ناندیڑ شہر کے مساجد کے امام حضرات و مختلف مکتب فکر کے علمائے اکرام ، کارپوریٹرس اور بلدیہ حکام کی اہم نشست منعقد ہوئی تھی اس نشست میںمیئر بلدیہ موہینی وجئے یونکر، ڈپٹی میئر مسعود احمد خان، سابق چیئرمن شمیم عبداللہ ،کارپوریٹر سید شیر علی، منتجب الدین ، عبدالطیف، محمد ناصر، فاروق حسین بدویل، پرویز خان، رحیم احمد خان، میونسپل کمشنر ڈاکٹر سنیل لہانے، ڈپٹی کمشنر اجیت پال سنگھ سندھو ،مفتی محمد ایوب قاسمی، قاری اسعد صمدی ، مفتی مرتضیٰ مصباحی، مفتی اعظم قاسمی، مفتی عبدالشفیع، مولانا آصف ندوی، مفتی سلیمان رحمانی و دیگر علمائے اکرام ، جمیعت العلماءکے ذمہ داران ، بلدیہ کے ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر سریش بسین، ڈاکٹر عبدالرافع، ڈاکٹر رضوان ، ڈاکٹر رافع و دیگر موجود تھے۔

اس موقع پر علمائے اکرام نے خطاب کرتے ہوئے کہا کے کورونا وباءکے دوران ملک بھر کے علمائے اکرام نے حکومت کا تعاون کیا ہے اور کورونا جیسی مہلک وباءپر قابو پانے کےلئے اقدامات اٹھائے گئے اور حکومت کی جانب سے دی گئی ہدایتوں پر عمل بھی کیا گیا۔ مسلم معاشرہ میں بیداری پیدا کی گئی ۔ بڑی تعداد میں لوگوں نے کورونا سے بچاﺅ کےلئے ویکسین حاصل کی ہے۔ جو لوگ ٹیکہ نہیں لگوائیں ہے ان سے بھی اپیل کی گئی ہے کہ وہ کورونا ویکسین کے دونوں ڈوز حاصل کر لیں۔ اپنی اور اپنے افرادخانہ کی صحت کا دھیان رکھیں ۔ کورونا ویکسین کے متعلق سوشل میڈیاپر جو بد گمانیاں جاری تھی اس پر بھی علمائے اکرام نے روشنی ڈال کر لوگوں سے اپیل کی کہ وہ کسی کے بھی بہکاوے میں نہ آئیں اور کورونا سے بچاﺅ کےلئے ٹیکہ لگوائیں

اردو گھر میں اخبارات کے مطالعہ سینٹر کا آغاز

ناندیڑ۔ 6 ستمبر (اردو دنیا نیوز۷۲):ناندیڑشہر کے دیگلورناکہ علاقہ میں واقع ریاست کے پہلے اردو گھر کا افتتاح ۴۱ جولائی کو عمل میں آیا تھا۔ ریاستی احکامات کے مطابق مرحلہ وار اردو گھر کو کارکرد کرنے کی تیاریاں جاری ہے۔ اردو گھر میں موجود ہال کا کرایہ محکمہ تعمیرات کی جانب سے طئے کر کے ضلع کلکٹر آفس کو اس کی اطلاع دی گئی ہے۔

ضلع کلکٹر جو اردو گھر کی نگراں کارثقافتی کمیٹی کے صدر ہے انہوں نے کرایہ کی منظوری کی لیے ریاستی حکومت کے محکمہ اقلیتی ترقیات کے پاس فائیل روانہ کی ہے۔ کرایہ طئے ہونے کے بعد مستقبل میں جلد ہی ہال بھی مختلف پروگرامس کے لئے لوگوں کو دستیاب ہوگا۔ اردو گھر میں موجود لائبریری اور اسٹڈی روم میں ابھی تک شروع نہیں ہوئے تھے اس سلسلہ میں اردو گھر ثقافتی کمیٹی کے ممبران نے پچھلے اجلاس میں لائبریری اور اسٹڈی سینٹر کو فوری شروع کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

ضلع کلکٹر کی ہدایت پر یکم ستمبر سے اردو گھر میں مقامی اور بیرونی اخبارات مطالعہ کے لئے منگوائے جارہے ہیں۔ اب باقاعدہ طور پر وہاں لوگ آکر اردو کے علاوہ مراٹھی اور انگلش کے زبان کے اخبارات کا بلا معاوضہ مطالعہ روزانہ صبح 8 تا 10 بجے اور شام 5 تا 8 بجے کے درمیان کر سکتے ہیں۔

اردو گھر کے لائبریرین غلام محمد نے بتایا کہ اخبارات کے مطالعہ سینٹر کا اردو گھر میں آغاز ہو چکا ہے اور قارئین آکر اس کا بلا معاوضہ مطالعہ کر سکتے ہیں۔ لائبریری میں کتابیں بھی موجود ہے اور لائبریری بھی آئندہ دو یا تین دن میں عوام کے لئے مکمل کھول دی جائیں گی ۔ لائبریری کے لئے معمولی ماہانہ ممبر شپ فیس رکھی جارہی ہے۔ لائبریری کے لئے ممبر سازی کا کام بھی شروع کیا جارہا ہے۔ یہ لائبریری دن بھر کھلی رہے گی اور جو ممبر شپ حاصل کر چکے وہ افراد اردو گھر کی لائبریری میں آکر کتابوں کا مطالعہ کر سکیں گے۔ اخبارات کے مطالعہ سینٹر کے آغاز کی اطلاع ملنے پر آج اردو گھر ثقافتی کمیٹی کے رکن منتجب الدین نے اردو گھر کا معائنہ کیا اور اخبارات کا مطالعہ کر کے لائبریری کو بھی جلد سے جلد شروع کرنے کی اپیل کی ۔

اتوار, ستمبر 05, 2021

ساس،سسر،سالے اور سالی کو ایک ساتھ پٹرول ڈال کر زندہ جلادینے والا داماد انسان نہیں وحشی درندہ ہے!

ساس،سسر،سالے اور سالی کو ایک ساتھ پٹرول ڈال کر زندہ جلادینے والا داماد انسان نہیں وحشی درندہ ہے!

جمعیت علماء ارریہ کے وفد کی جائے واردات پر حاضری!
مقامی لوگوں کے مطابق مقامی تھانہ کی غفلت سے یہ دردناک واقعہ رونما ہوا۔
تاثرات:محمداطہرالقاسمی
جنرل سکریٹری
جمعیت علماء ارریہ
                                     05/09/2021
                               
___________________________

ضلع ارریہ کے بلاک پلاسی کے تحت برہٹ گاؤں میں داماد محمد مدثر نے اپنے سسر حافظ محمد ارشاد،ساس بی بی مرضینہ،سالا محمد ابوذر اور سالی شائستہ پروین کے خلاف جس درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پٹرول چھڑک کر آگ لگادی اور سوائے سالی شائستہ پروین کے (جو ہاسپیٹل میں موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا ہے) تمام رشتے داروں کو موت کے گھاٹ اتاردیا ؛ یہ دردناک واقعہ حیوانیت اور درندگی کی بدترین مثال ہے۔شوہر کے ذریعے اولا بیوی کو طلاق مغلظہ دینا اور پھر محض دو ہفتے کے اندر بیوی کو سسرال واپس آنے پر مجبور کرنے کے لئے سسرال والوں پر ظلم وتشدد کی تمام حدیں پار کرجانا کہیں نہ کہیں مسلم نوجوانوں کی دین سے دوری،آوارہ گردی اور بےراہ روی کے ساتھ پورے مسلم سماج کو کٹہرے میں کھڑا کردینے کی ایک بدترین مثال ہے۔(جبکہ بیوی شاید اس لئے بچ گئی کہ انہیں خوف کے مارے  خالہ کے گھر پہنچادیا گیا تھا)
ایسا نہیں ہے کہ یہ ضلع کا کوئی پہلا واقعہ ہے۔اس سے پہلے رانی گنج کے ڈومریا میں،اس سے پہلے بدھیسری رام پور میں اور اس سے پہلے مادھوپاڑہ میں ان جیسے دردناک واقعات اپنے ہی سماج کے لوگ اپنے ہی رشتے داروں کے خلاف انجام دے چکے ہیں۔گرچہ پرسوں(3/ستمبر 2021) کے تازہ واقعہ کے علاوہ تمام واقعات میں ضلع پرشاسن نے ظالموں کو کیفرکردار تک پہنچایا ہے مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر ان بدترین واقعات پر روک کیسے لگے گی؟
اس سلسلے میں ایک طرف تو مسلم نوجوانوں میں دین کی بنیادی تعلیم اور ان کے اندر خوف خدا پیدا کرنے کی سخت ضرورت ہے تو دوسری طرف ضلع انتظامیہ کو ایسے انسانیت سوز مظالم کے روک تھام کے لئے انتہائی سنجیدگی اور ایمانداری کے ساتھ ایکشن پلان کی بھی ضرورت ہے۔
 آج بعد نماز ظہر جمعیت علماء ارریہ کے ایک وفد کے ساتھ جب ہم لوگ جائے واردات پر حاضر ہوئے اور جس تنگ و تاریک کمرے میں یہ دردناک واقعہ انجام دیا گیا اس کے معائنہ کے بعد پھونس اور چھپر کے بوسیدہ مکانات کے برآمدے میں غمگین بیٹھی ہوئی آنگن کی خواتین سے واقعہ کی تحقیقات چاہی تو مرحوم حافظ ارشاد کے بڑے بیٹے محمد عثمان اور ان کی خالہ زرینہ نے بولنا شروع کیا تو وفد کے تمام اراکین کے ساتھ خود میری بھی ہچکیاں بندھ گئیں۔پھر مجمع میں موجود تمام مرد وعورت اور بچے بوڑھے رونے لگے۔ہم نے کافی ضبط کے بعد تفصیلات چاہی تو خالہ زرینہ نے جو جانکاری فراہم کی اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ واردات کے پیچھے سب سے بڑی لاپراوہی مقامی تھانہ کی ہے۔جس کی وجہ سے ورثاء کے ساتھ مقامی لوگوں میں بھی تھانہ کے خلاف شدید غم وغصے کا ماحول نظر آیا۔
حافظ ارشاد مرحوم کی عمر دراز سالی زرینہ جو اب اس اجڑے گھر کی نگہبانی کررہی ہے۔وہ آنگن میں موجود مجمع کے سامنے جمعیت کی ٹیم کو اپنی آپ بیتی بتاتے بتاتے دم بخود ہوجاتی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ وحشی درندہ محمد مدثر کے ظلم وتشدد کی اطلاع پلاسی تھانہ کو پیشگی دے دی گئی تھی بلکہ ایک ہفتہ قبل جب محمد مدثر نے مرحوم سسر حافظ ارشاد کے سر پر آنگن میں بڑے پتھر سے حملہ کردیا تھا تب ہم نے تھانہ کو بلایا اور مدد مانگی تھی تو ہمیں کوئی مدد نہیں ملی۔تھانہ کو پچھلی یہ ساری خبر ہونے کے باوجود پرسوں رات یہ اندوہناک حادثہ رونما ہوگیا۔اگر پولیس کے ذریعے پوری ذمےداری اور احساس جواب دہی کے ساتھ معاملہ کو ہینڈل کیا جاتا تو شاید یہ برے دن دیکھنے کو نہیں ملتے۔
ورثاء کی پیش کردہ تفصیلات کے مطابق وہاں موجود میڈیا کے توسط سے جمعیت علماء ارریہ نے ضلع انتظامیہ سے مطالبہ کیاہے کہ کہ فوری طورپر قاتل داماد کو گرفتار کرتے ہوئے انہیں کیفرکردار تک پہنچایا جائے،مقامی تھانے دار کو برخاست کرتے ہوئے ان کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی جائے اور مقتول کے ورثاء کے ساتھ چار میں سے چوتھی آگ میں جھلسی شائستہ پروین کے بہتر علاج کے لئے معقول معاوضہ دیا جائے۔
ساتھ ہی جمعیت نے علاقے کے ساتھ دیگر تمام اصحابِ خیر سے بھی اپیل کی ہے کہ اس اجڑے اور ویران گھر میں موجود ایک جوان بچی کی شادی(جسے حافظ جی اب جلد ہی کروانا چاہتے تھے)کے انتظام کے ساتھ دیگر جملہ معصوم بچے اور بچیوں کی کفالت کے لئے آگے آئیں۔ 
وفد میں جمعیت علماء بلاک جوکی ہاٹ کے صدر قاری امتیاز احمد،بلاک جوائنٹ سیکرٹری مولانا دانش قمر،جمعیت علماء بلاک پلاسی کے سکریٹری قاری احتشام الحق،نائب صدر مولانا سالم ظفر قاسمی،جوائنٹ سیکرٹری مولانا اسد اللہ،حافظ منظور احمد بوریا و دیگر احباب شامل تھے۔
اخیر میں جمعیت کے وفد نے بنیادی گھریلو ضروریات کے لئے متاثرین کے اہل خانہ کو ہنگامی چندہ کرکے تقریباً دس ہزار روپے بطور تعاون پیش کرتے ہوئے ان کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد قراردیا اور آگے بھی ہرموڑ پر شانہ بشانہ کھڑے رہنے کی یقین دہانی کرائی۔
آنگن سے واپسی پر گھر کی ڈری سہمی اور روتی بلکتی خواتین اور بیٹے محمد عثمان نے جمعیت کی پوری ٹیم کو دعائیں دیتے ہوئے رخصت کیا۔

ایک شخص کے پیٹ سے نگلے ہوئے نوکیا 3310 کو نکال لیا گیا

نوکیا 3310 ایسا موبائل فون ہے جو 2 دہائیوں سے لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ہے۔ویسے تو نوکیا نے 2005 میں اس کی فروخت ختم کردی تھی مگر 2017 میں اس کی نئی شکل میں واپسی ہوئی۔

مگر کیا کوئی فرد اس موبائل فون کو نگل سکتا ہے؟ یورپی ملک کوسوو میں ایسا ہی حیران کن واقعہ پیش آیا۔

پریسٹینا نامی شہر میں 33 سالہ شخص کے معدے سے ڈاکٹروں نے نوکیا 3310 کو نکالا۔حیران کن طور پر یہ موبائل فون 4 دن سے اس شخص کے معدے میں موجود تھا اور یہ معلوم ہی نہیں ہوسکا کہ اس نے کب اور کیسے اسے نگل لیا۔

کامیاب آپریشن کے ذریعے اسے نکالنے والے ڈاکٹروں نے فیس بک پر اس فون کی تصاویر بھی پوسٹ کیں جبکہ ایکسرے اور اینڈو اسکوپ تصاویر میں بھی اسے دیکھا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹروں نے اس موبائل فون کو معدے کو کاٹے بغیر نکالنے میں کامیاب حاصل کی اور اس کے لیے خصوص ڈیوائسز اینڈو اسکوپ کا استعمال کیا گیا اور 2 گھنٹے میں فون نکال لیا۔

ڈاکٹروں کے مطابق اس عمل کے دوران کوئی پیچیدگیاں پیدا نہیں ہوئیں۔متاثرہ شخص نے فون نگلنے کے بعد پیٹ میں درد کے باعث ہسپتال سے رجوع کیا تھا۔

طبی ماہرین نے بتایا کہ بیٹری فون کا سب سے خطرناک حصہ ہوتا ہے جس کے پھٹنے کا خطرہ ہوتا ہے جبکہ نققصان دہ کیمیکلز کا اخراج بھی ہوسکتا تھا۔موبائل فون نکلنے کے بعد اب اس شخص کی حالت بہتر ہے۔

يوم اساتذہ کے موقع پر مدھیہ پردیش میں اردو اساتذہ کی تقرری کا مطالبہ

يوم اساتذہ کے موقع پر مدھیہ پردیش میں اردو اساتذہ کی تقرری کا مطالبہبھوپال : یوم اساتذہ کے موقع پر بھوپال میں بھی تعلیم کے میدان میں کام کرنے والی تنظیموں کے ذریعہ پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ مدھیہ پردیش جمعیت علما اور مولانا برکت اللہ بھوپالی ایجوکیشن سوسائٹی کے زیر اہتمام بھوپال میں منعقدہ پروگرام میں ڈاکٹر رادھا کرشنن کو خراج عقیدت پیش کیا گیا اور ملک کی تعمیر و ترقی میں اساتذہ کی خدمات کی ستائش کی ۔ اس موقع پر اردو تدریس میں نمایاں خدمات انجام دینے کے لئے پروفیسر نعمان خان، اقبال مسعود، پروفیسر آفاق ندیم، ڈاکٹر مہرالاسلام کو اعزاز سے سرفراز کیا گیا۔ اردو صحافت کے میدان میں نمایاں خدمات کے لئے سینئر اردو صحافی مشاہد سعید اورسلمان خان کو اعزاز سے سرفراز کیا گیا جبکہ مدارس کی تعلیم میں نمایاں خدمات کے لئے مولانا حنیف محمد اور اسمعیل بیگ کو اعزاز سے نوازہ گیا۔

مدھیہ پردیش جمعیت علما ہند کے صدر حاجی محمد ہارون کہتے ہیں کہ یوم اساتذہ کے موقع پر پروگرام کا انعقاد کرکے سب سے پہلے ہم نے ڈاکٹر ایس رادھا کرششن کو خراج عقیدت پیش کیا اور اس کے بعد ملک کے ان تمام اساتذہ کو یاد کیا ، جنہوں نے ملک میں ذہن سازی کا عظیم فریضہ انجام دیا ہے ۔ یہ اساتذہ ہی ہیں جو ہماری نسلوں کی تربیت کرتے ہیں ۔ اس موقع پر ہم حکومت سے تمام اساتذہ چاہئے کہ وہ سرکاری ملازمت میں ہوں یا پرائیویٹ اداروں میں سبھی کو رہائیش گاہ مہیا کرانے کی اپیل کرتے ہیں ۔ اسی کے ساتھ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ریاست میں برسوں سے اردو اساتذہ کی تقرری نہیں کی گئی ہے ، اسے ترجیحات کی بنیاد پر کیا جائے ۔

ممتاز ادیب پروفیسر محمد نعمان کہتے ہیں کہ کسی بھی ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی میں اساتذہ بنیاد کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ ہمیں اساتذہ کی اہمیت اور ان کی خدمات کو سمجھنا ہوگا ۔ اساتذہ کی خدمات کو فراموش کرکے ہم آگے نہیں بڑھ سکتے ہیں اور اساتذہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے فرائض کو بہ طریقہ احسن ادا کریں۔ پروفیسر آفاق ندیم کہتے ہیں کہ ہم یہاں جو کھڑے ہیں اس کے پیچھے ہمارے اساتذہ کی محنت ہے ۔ اسلام ہی نہیں دنیا کے تمام مذاہب میں استاد اہمیت نمایاں ہے ۔


ممتاز اردو ادیب و ناقد اقبال مسعود کہتے ہیں کہ آج کا دن اساتذہ کے لئے یوم احتساب کا بھی ہے ۔ جب تک ہم بنیادی تعلیم پر فوکس نہیں کریں گے تب تک ہم آگے نہیں بڑھ سکتے ہیں ۔ کسی بھی بلند عمارت کو کھڑا کرنے کیلئے اس کی بنیاد کے استحکام پر غور کرنا ضروری ہے ۔ جب تک پرائمری سطح پر طلبہ کو ہم زبان ،بیان اخلاقیات نہیں سکھائیں گے تب تک ہم معاشرے میں انقلاب کی نئی عبارت کو نہیں لکھ سکتے ہیں ۔


انہوں نے کہا کہ ہمیں اردو زبان کو لے کر جہاں جد وجہد کرنے کی ضرورت ہے وہیں حکومت سے بار بار مطالبہ بھی کرنے کی ضرورت ہے ۔ تاکہ اردو زبان کے اساتذہ کے لئے اسامیاں جاری کی جائیں اور اردو کے اساتذہ کا تقرر کیا

انڈیا میں مسلمانوں پر سر عام تشدد ایک معمول بن گیا ہے اور ’اس کو اب برا بھی نہیں سمجھا جاتا‘ ستمبر 5, 2021

  • گیتا پانڈے بی بی سی نیوز، دلی

مسلمانوں پر ہندو بلوائیوں کی طرف سے بلا اشتعال حملے انڈیا میں ’معمول‘ بن گئے ہیں اور حکومت کی طرف سے ان کی کوئی مذمت نہیں کی جاتی۔گزشتہ ماہ ایک اندوہناک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک خوفزدہ مسلمان بچی اپنے باپ سے چمٹی ہوئی تھی جن کو ہندو انتہا پسند گھیر کر ان پر تشدد کر رہے تھے۔اس انتہائی تکلیف دہ منظر میں دیکھا جا سکتا تھا کہ ایک 45 سالہ رکشہ ڈرائیور کو انڈیا کی شمالی ریاست اتر پردیش کے شہر کانپور میں گلیوں میں تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اور ان کی چھوٹی سی بچی انتہا پسند ہندوؤں سے اپنے باپ کو بچانے کے لیے داد فریاد کر رہی تھی۔

 

ہندو انتہا پسند رکشہ ڈرائیور کو ہندوستان زندہ باد، جے شری رام اور جے رام کے نعرے لگانے پر مجبور کر رہے تھے۔ جے رام جو ہندوؤں میں خیر سگالی کے الفاظ سمجھے جاتے تھے انھیں ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کو قتل کرنے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔رکشہ ڈرائیور کے یہ نعرے لگانے کے باوجود انتہا پسند ہندوؤں کا ہجوم انھیں تشدد کا نشانہ بناتا رہا۔ اس رکشہ ڈرائیور اور اس کی معصوم بچی کو آخر کار پولیس نے بچایا۔ تین افراد کو اس واقع میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور پھر اگلے ہی روز ان کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔

 

اس کے چند روز بعد ہی مدھیہ پردیش کے شہر اندور میں ایک چوڑیاں فروخت کرنے والے مسلمان کی ویڈیو سامنے آ گئی جس کو ہندوؤں کا ایک ہجوم مکے، گھونسے اور لاتیں مار رہا تھا۔حملہ آور تسلیم علی نامی اس شخص کو دہمکیاں دے رہے تھے کہ وہ ہندوؤں کی آبادیوں سے دور رہے۔پولیس میں درج کرائی گئی اپنی درخواست میں تسلیم علی نے کہا کہ ہندوؤں کے علاقے میں چوڑیاں فروخت کرنے پر ان کو پانچ چھ افراد نے تشدد کا نشانہ بنایا، مذہبی منافرت سے بھر پور گالیاں دیں، ان کا فون، پیسے اور ذاتی شناختی دستاویز چھین لیں۔لیکن حیران کن طور پر تسلیم علی کو اگلے دن گرفتار کر لیا گیا جب ان پر حملہ آوروں میں شامل ایک شخص کی تیرہ سالہ بچی نے تسلیم علی پر ان سے زیادتی کرنے کا الزام لگایا۔

 

تسلیم علی کے خاندان والوں اور ہمسایوں نے اس الزام کی سختی سے تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پانچ بچوں کا باپ اس طرح کی حرکت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ایک عینی شاہد نے مقامی ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ تسلیم علی کو مسلمان ہونے کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان پر ایک بچی سے زیادتی کرنے کا الزام بعد میں اپنی جان بچانے کے لیے لگایا گیا۔مسلمانوں کو سر بازار تشدد کا نشانہ بنانے کے ان دو واقعات کے علاوہ بھی اگست میں بہت سے دوسرے ایسے واقعات پیش آئے ہیں۔ اس حوالے سے اگست کا مہینہ انڈیا میں مسلمان اقلیت کے لیے جن کی تعداد 20 کروڑ سے زیادہ ہے، بہت بھاری رہا ہے۔

اسی نوعیت کے حملے گزشتہ مہینوں میں بھی پیش آتے رہے ہیں جن میں بہت سے خبروں میں آئے۔مارچ کے مہینے میں ایک چودہ سالہ مسلمان لڑکا جو پانی پینے کے لیے ایک ہندؤ مندر میں گیا تھا اس کو بے دردی سے مارا پیٹا گیا۔جون میں دارالحکومت دہلی میں ایک مسلمان پھل فروش کو ہندوؤں کے علاقے میں پھل بیچنے پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔تین سال سے مسلمانوں پر ہونے والے حملوں کے دستاویزی ثبوت جمع کرنے والے آزاد صحافی علی شان جعفری کا کہنا ہے ’تشدد کی انتہا کر دی گئی ہے، یہ ہر جگہ کیا جاتا ہے اور بہت عام ہو گیا اور سب سے بڑھ کر اس کو اب برا بھی نہیں سمجھا جاتا۔‘

انھوں نے کہا کہ انھیں ہر روز تین سے چار ایسی ویڈیو موصول ہوتی ہیں لیکن وہ صرف ایک یا دو ہی کی تصدیق کر پاتے ہیں اور پھر وہ اس کو سوشل میڈیا پر جاری کر دیتے ہیں۔انڈین معاشرے میں مذہبی تقسیم کی تاریخ بہت پرانی ہے لیکن جب سے انتہا پسند ہندو جماعت سے تعلق رکھنے والے نریندر مودی حکومت میں آئے ہیں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد مزید بہت بڑھ گیا ہے۔دہلی یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر تنویر اعجاز کا کہنا ہے ’مذہبی تشدد کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن یہ اقتدار میں آنے والوں کی حکمت عملی اور سیاسی ہتھکنڈوں کے ساتھ بڑھتا ہے۔‘انھوں نے کہا کہ مذہبی تقسیم بڑھی ہے اور یہ ابھی مذہبی اور نسل پرستانہ قومیت کے جذبے سے اور زیادہ شدید ہو گئی ہے۔

نریندر مودی کے پہلے دورے اقتدار میں مسلمانوں پر گاؤ رکشکوں (گائے کی حفاظت کرنے والے) کی طرف سے گائے کا گوشت کھانے کی افواہوں پر یا گائے سمگل کرنے کے الزامات پر بہت سے حملے ہوئے تھے۔

نریندر مودی نے ان حملوں پر مکمل خاموشی اختیار کیے رکھی ہے۔بی جے پی کے رہنما پرکاش جوادیکر نے بی بی سی کو بتایا کہ حکومت اس طرح لوگوں کو قتل کرنے کو برا سمجھتی ہے لیکن قانون کا نفاذ ریاستوں کی ذمہ داری ہے۔انھوں نے کہا کہ ’حکومت کی نطر میں لنچنگ بری چیز ہے، چاہے جہاں بھی ہو۔ لیکن امن و امان ریاستوں کی ذمہ داری ہے اور انھیں ہی اس سے نمٹنا ہے۔‘

اس کے بعد انھوں نے میڈیا پر جانبداری کا الزام لگایا کہ وہ صرف مسلمانوں پر ہونے والے حملوں پر دھیان دیتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اعداد و شمار کے مطابق لنچ ہونے والے دو سو افراد میں سے 160 ہندو تھے۔ ’تمام مذاہب کے لوگ نشانہ بنتے ہیں۔‘ تاہم انھوں نے یہ نھیں بتایا کہ یہ ڈیٹا کہاں سے لیا گیا ہے۔ انڈیا میں ایسے اعداد و شمار نہیں جمع کیے جاتے۔

سنہ 2019 میں فیکٹ چیک کرنے والی ویب سائیٹ نے انڈیا میں نفرت پر مبنی جرائم کے بارے میں بتایا تھا کہ گزشتہ دس برسوں میں ایسے جرائم کا نشانہ بننے والے 90 فیصد افراد مسلمان تھے۔ اور ایک وزیر کی طرف سے ایک مسلمان کو مارنے کے مجرم ٹھہرائے جانے والے آٹھ ہندوؤں کو ہار پہنائے جانے جیسے واقعات کے بعد الزامات لگتے ہیں کہ حملہ آور بی جے پی کی سپورٹ کی وجہ سے سزا سے بچ جاتے ہیں۔

کانگریس پارٹی کی ایک رکن حسیبہ امین نے کہا کہ ’ایسے واقعات آج ہمارے ملک میں صرف اور صرف ان غنڈوں کو ملنے والے تحفظ کی وجہ سے اتنے عام ہو گئے ہیں۔‘ناقدین کا کہنا ہے کہ سنہ 2019 میں نریندر مودی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے مسلمان مخالف تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔کئی بار تشدد صرف جسمانی نھیں ہوتا بلکہ یہ اقلیتی برادری کو انتہائی برا پیش کرنے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ مثلاً گزشتہ برس جب انڈیا میں کووڈ پھیل رہا تھا تو مودی حکومت کے وزرا اور پارٹی کے ارکان سمیت ہندو رہنماؤں نے دلی میں ایک مذہبی اجتماع میں شریک ہونے والے مسلمانوں پر ’کورونا جہاد‘ کا الزام لگایا تھا۔

اس کے بعد ’روٹی جہاد‘ کے بارے میں سننے کو ملا جس میں اس طرح کے الزام لگائے گئے کہ مسلمان باورچی روٹیوں پر تھوک رہے ہیں تاکہ ہندوؤں میں کورونا پھیل جائے۔حالیہ مہینوں میں کئی ریاستوں کمیں ’لو جہاد‘ کے خلاف قانون سازی کی گئی ہے ۔ بہت سے ہندو گروہ مسلمان مردوں پر ہندوؤں کی عورتوں کو ورغلا کر شادی کرنے کا الزام لگاتے ہیں تاکہ انھیں مسلمان کر لیا جائے۔ان قوانیں کو ہندو عورتوں سے شادیاں کرنے والے مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور انھیں قید کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

مسلمان خواتین کو بھی نہیں بخشا جاتا اور گزشتہ جولائی میں درجنوں سرکردہ مسلمان خواتین کو ایک ویب سائٹ پر ’قابل فروخت‘ قرار دے دیا گیا تھا۔ اس کے بعد مئی میں بہت سی خواتین کو جن میں حسیبہ امین بھی شامل تھیں، آن لائن پر فرضی طور پر نیلام کر دیا گیا۔گزشتہ ماہ نئی دہلی میں بے جے پی کی طرف سے منعقد کردہ ایک جلوس میں مسلمانوں کو قتل کرنے کے نعرے لگائے گئے۔پروفیسر اعجاز کا کہنا ہے کہ پیشہ ور مسلمانوں مثلاً پھل فروش، درزی، الیکٹریشنز، اور پلمبروں پر حملے کرنے کا مقصد مذہبی قوم پرستی کے ذریعے ان کا معاشی استحصال کرنا ہے۔

مظفرنگر مہاپنچایت ‏LIVE: راکیش ٹکیت نے ایک ساتھ لگائے ’اللہ اکبر‘ اور ’ہر ہر مہادیو‘ کے نعرے

مظفرنگر میں منعقدہ کسان مہاپنچایت سے خطاب کرتے ہوئے راکیش ٹکیت نے کہا کہ گزشتہ 9 مہینے سے تحریک چل رہے ہے لیکن حکومت نے بات چیت کرنا بند کر دیا۔ سینکڑوں کسانوں نے جان گنوا دی لیکن ان کے لئے ایک منٹ بھی خاموشی اختیار نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ان کا مقصد محض یوپی کو بچانا نہیں بلکہ پورے ملک کو بچانا ہوگا۔ ہر عوامی چیز کو جس طرح بیچا جا رہا ہے اس کی اجازت کس نے دی۔

 

دریں اثنا، راکیش ٹکیت نے مہاپنچایت سے قومی یکجہتی کا پیغام دیا اور بیک وقت اللہ اکبر اور ہر ہر مہادیو کے نعرے لگائے۔ انہوں نے کہا یہ لوگ باٹنے کا کام کر رہے ہیں، ہمیں انہیں روکنا ہوگا۔ پہلے اس ملک میں اللہ اکبر اور ہرہر مہادیو کے نعرے ایک ساتھ لگائے جاتے تھے، آگے بھی لگائے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یوپی کی سرزمین دنگہ کرانے والوں کے سپرد نہیں کریں گے۔

راکیش ٹکیت نے دس مہینے بعد اپنے آبائی ضلع میں قدم رکھا
بھارتیہ کسان یونین کے ترجمان اور ملک بھر کے کسانوں کے آواز بن چکے راکیش ٹکیت نے کسان تحریک شروع ہونے کے بعد سے آج تقریباً 10 مہینے بعد اپنے آبائی ضلع یعنی کہ مظفرنگر میں قدم رکھا۔ وہ جی آئی سی میدان میں پہنچ چکے ہیں جہاں سنیوکت کسان مورچہ کی طرف سے طلب کی گئی کسان مہاپنچایت چل رہی ہے۔ راکیش ٹکیت کے ساتھ سوراج پارٹی کے لیڈر یوگیندر یادو اور دیگر لیڈران بھی نظر آ رہے ہیں۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...