Powered By Blogger

ہفتہ, ستمبر 18, 2021

کورونا کے درمیان ڈینگی کے پھیلاؤ سے دہشت، یوپی سب سے زیادہ متاثر

دہلی: کورونا وائرس کی وبا نے لوگوں کا جینا پہلے ہی محال کیا ہوا ہے اور اب وائرل بحار کے بعد کئی ریاستوں میں ڈینگی بخار بھی پیر پسار رہا ہے۔ اتر پردیش سے ڈینگی بخار کے سب سے زیادہ معاملے رپورٹ ہو رہے ہیں۔ حال ہی کے ہفتوں میں فیروزآباد ضلع میں متعدد افراد کی جان چلی گئی ہے۔

ادھر مغربی بنگال میں بھی پُراسرار بخار نے متعدد بچوں کو متاثر کیا ہے اور سینکڑوں افراد کو اسپتالوں میں داخل کرایا گیا ہے۔ ماہرین طب مریضوں پر لگاتار نگاہ رکھ رہے ہیں، تاہم کہا جا رہا ہے کہ اس طرح کا وائرل بخار ہر سال لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔ وائرل بخار کے ساتھ ہی ڈینگی نے ریاستوں کی پیشانی پر بل ڈال دیئے ہیں اور حالات کو قابو میں کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔

ملک میں سب سے زیادہ متاثر ریاست اتر پردیش ہے جس کے مختلف اضلاع میں ڈینگی اور وائرل بخار کے 1500 سے زیادہ معاملے ریکارڈ ہوئے ہیں۔ وسطی یوپی، بندیل کھنڈ اور مغربی یوپی کے علاقے بری طرح متاثر نظر آ رہے ہیں۔ فیروز آباد میں تو اب تک 61 افراد کی جان جا چکی ہے۔ ضلع میں 450 سے زیادہ افراد انتہائی ابتر حالات میں اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ الہ آباد میں اب تک 97 ڈینگی وائرل کے معاملے سامنے آ چکے ہیں جبکہ آگرہ، غازی آباد اور نوئیڈا میں بھی متعدد افراد متاثر ہوئے ہیں۔

مغربی بنگال کے شمالی حصہ میں دو اپستالوں میں بخار اور دیگر بیماریوں کے سبب 172 بچوں کو داخل کرایا گیا ہے۔ ان میں سے 67 بچوں کو شمالی بنگال میڈیکل کالج اور اسپتال کے شعبہ اطفال میں داخل کرایا گیا ہے جبکہ کئی کو اسپتال سے چھٹی دے دی گئی ہے۔

مدھیہ پردیش کے اندور میں ڈینگی بخار کے 22 معاملے رپورٹ ہوئے ہیں، جس میں سے اس سال کل متاثرین کی تعداد 225 ہو گئی ہے۔ ریاست کی راجدھانی بھوپال میں ڈینگی کے 6 تازہ معاملے سامنے آنے کے بعد معاملوں کی مجموعی تعداد جنوری سے اب تک 170 ہو گئی ہے۔

دیگر متاثرہ ضلع راج گڑھ میں اب تک 22 معاملے رپورٹ ہوئے ہیں، اس کے علاوہ گوالیار میں 95 اور چمبل میں 15 معاملے درج کئے گئے ہیں۔ وائرل بخار کے معاملے بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور اندور، راج گڑھ، جبل پور اور گوالیار اس سے سب سے زیادہ متاثر نظر آ رہے ہیں۔

ایک ہی کنبہ کے 5 افراد مردہ حالت میں پائے گئے ، 9 مہینے کا بچہ بھی شامل

بنگلورو: کرناٹک کی راجدھانی بنگلورو میں ایک سنسنی خیز واقعہ پیش آیا ہے۔ شہر کے بیداراہلی علاقے میں ایک ہی خاندان کے پانچ افراد مردہ حالت میں پائے گئے ہیں۔ ان میں سے چار افراد پھندے سے لٹکے ہوئے تھے جبکہ ایک 9 ماہ کے بچے کی لاش بستر سے برآمد ہوئی ہے۔ ابتدائی تفتیش میں یہ خودکشی کا معاملہ لگتا ہے۔ اس کیس کے منظر عام پر آنے کے بعد دہلی کے براڑی سانحہ کی یادیں لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہوگئی ہیں، جہاں دو سال قبل ایک گھر سے 11 لاشیں لٹکی ہوئی پائی گئی تھیں۔

بتایا جا رہا ہے کہ پانچوں لاشوں کے ساتھ گھر میں پانچ دن سے ایک ڈھائی سال کی بچی رہ رہی تھی، جسے اب باہر نکال لیا گیا ہے، وہ تقریباً بے ہوشی کی حالت میں پائی گئی۔ پولیس نے کہا ہے کہ لوگوں کی موت کس طرح ہوئی اس کا پتا پوسٹ مارٹ رپورٹ کے آنے کے بعد ہی چل سکے گا۔

بتایا جا رہا ہے کہ پانچوں لاشوں کے ساتھ گھر میں پانچ دن سے ایک ڈھائی سال کی بچی رہ رہی تھی، جسے اب باہر نکال لیا گیا ہے، وہ تقریباً بیہوشی کی حالت میں پائی گئی ہے۔ گھر سے جن لوگوں کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں: زندہ بچ گئی بچی کی ماں سینچنا، عمر 34 سال، بچی کی دادی بھارتی عمر 51 سال، بچی کی خالہ سندھورانی، عمر 31 سال، بچی کے ماموں مدھوساگر عمر 25 سال اور ایک 9 مہینے کا بچہ۔

پولیس نے لڑکی کو اسی کمرے میں پایا جہاں مدھوساگر پھانسی پر لٹکا ہوا پایا گیا تھا۔ فی الحال لڑکی کو علاج کے لیے نجی اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ پولیس نے کہا کہ اسے علاج کے ساتھ مشاورت کی ضرورت ہوگی۔

ایڈیشنل کمشنر آف پولیس (ویسٹ) سومیندو مکھرجی نے کہا کہ ہمیں گھر سے کوئی سوسائڈ نوٹ برآمد نہیں ہوا ہے۔ گھر کے بزرگ اور بچی کے دادا مدھوساگر شنکر صدمے کی حالت میں ہیں۔ شنکر نے کہا ہے کہ ان کی بیٹیاں اپنے شوہروں سے جھگڑا کرنے کے بعد گھر گئی تھیں۔ اس معاملے کو حل کرنے اور انہیں اپنے شوہروں کے پاس واپس بھیجنے کے بجائے ان کی بیوی بھارتی نے انہیں یہیں رہنے کی ترغیب دی۔

شنکر نے کہا کہ ’’میں نے اپنی بیٹیوں سینچنا اور سندھورانی کو تعلیم دلانے کے لیے سخت محنت کی۔ بیٹا مدھو ساگر بھی انجینئرنگ گریجویٹ تھا اور ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام کرتا تھا۔ سینچنا نے اپنے شوہر کے ساتھ اپنی بیٹی کے کان چھیدنے کی تقریب پر لڑائی کی اور گھر واپس آئی تھی۔ مالی معاملات کے حوالے سے کوئی پریشانی نہیں تھی۔ انہوں نے یہ مہلک قدم چھوٹے چھوٹے مسائل پر اٹھایا۔‘‘

پولیس نے بتایا کہ پڑوسیوں نے انہیں اطلاع دی کہ شنکر اور اس کے بیٹے مدھوساگر کے درمیان لڑائی ہوئی ہے۔ مار پیٹ کے بعد شنکر گھر سے باہر چلا گیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد اس خاندان نے اتوار کو ہی خودکشی کر لی۔ لاشیں مسخ شدہ حالت میں برآمد ہوئی ہیں اور فرانسک ماہرین اور پولیس حکام نے کہا ہے کہ اموات پانچ دن پہلے ہوئی تھیں۔

پین کارڈ کو آدھار سے لنک کرانے کی تاریخ میں ایک مرتبہ پھر توسیع ، جانیں نئی ڈیڈلائن ..

پین کارڈ کو آدھار سے لنک کرانے کی تاریخ میں ایک مرتبہ پھر توسیع ، جانیں نئی ڈیڈلائن ..

پین کارڈ کو آدھار سے لنک کرانے کی تاریخ میں ایک مرتبہ پھر توسیع ، جانیں نئی ڈیڈلائن ..نئی دہلی: مرکزی حکومت نے ملک کے دو اہم ترین دستاویزات آدھار کارڈ اور پین کارڈ کو آپس میں لنک کرانے کی آخری تاریخ میں ایک مرتبہ پھر توسیع کر دی ہے۔ اس کی ڈیڈ لائن چھ مہینے تک بڑھا دی گئی ہے۔ اب آپ 31 مارچ 2022 تک ان دونوں اہم دستاویزات کو ایک دوسرے کے ساتھ لنک کرا سکتے ہیں۔ اس سے پہلے پین اور آدھار کو لنک کران ے کی آخری تاریخ 30 ستمبر 2021 طے کی گئی تھی۔

آدھار اور پین کو لنک کرانے کی تاریخ میں توسیع کے ساتھ ہی انکم ٹیک قانون کے تحت جرمانہ کا عمل پورا کرنے کی آخری تاریخ بھی بڑھا کر 31 مارچ 2022 کر دی گئی ہے۔ مرکزی حکومت نے بےنامی املاک کے لین دین پر مجاز اتھارٹی کی جانب سے نوٹس جاری کرنے اور حکم جاری کرنے کی آخری تاریخ بھی بڑھا دی ہے۔ تاہم کسی بھی پریشانی سے بچنے کے لئے جلد از جلد ان دونوں دستاویزات کو آپس میں منسلک کرا لینا چاہیئے۔

پین کارڈ کی ضرورت بینک کھاتہ کھلوانے، بینکنگ ٹرانزیکشنز، میوچوئل فنڈ ٹرانزیکشنز، اسٹاک مارکٹ سرمایہ کاری کے لئے پڑتی ہے۔ اگر آپ نے 31 مارچ 2022 تک بھی اسے آدھار کارڈ سے لنک نہیں کرایا تو 50 ہزار یا اس سے زیادہ کی بینکنگ ٹرانزیکشن پر سرمایہ کاروں کو 10 ہزار روپے تک کا جرمانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہی نہیں اگر یہ دونوں آپس میں لنک نہیں ہیں تو بینک کی جانب سے ڈبل ٹی ڈی ایس کاٹا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ اگر آپ کا پین کارڈ آدھار کارڈ کے ساتھ لنک نہیں ہوگا تو انکم ٹیکس ایکٹ کی دفعہ 139اےاے کے تحت آپ کا پین غیر موزوں قرار دیا جائے۷ گا۔ اس کے علاوہ لنک نہیں ہونے پر آپ انکم ٹیکس ریٹرن بھی فائل کرنے سے محروم ہو جائیں گے۔ اتنا ہی نہیں آپ کا ٹیکس ریفنڈ بھی روکا جا سکتا ہے۔


اترپردیش : ڈاکٹروں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 70 سال ہوگی

اترپردیش : ڈاکٹروں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 70 سال ہوگی

اترپردیش : ڈاکٹروں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 70 سال ہوگیلکھنؤ۔ اترپردیش میں اسمبلی انتخابات -2022 سے پہلے ، ریاست کی یوگی حکومت ایک بڑا فیصلہ لینے جا رہی ہے۔ یوگی حکومت ڈاکٹروں کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے جا رہی ہے۔ دراصل یوگی حکومت نے کورونا اور دیگر بیماریوں کے پیش نظر محکمہ صحت میں بڑا فیصلہ لینے کی تیاری کی ہے۔ جس کے تحت ڈاکٹروں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سے بڑھا کر 70 سال کی جائے گی۔

معلومات کے مطابق ، اس فیصلے سے متعلق تجویز پر جلد ہی یوگی حکومت کی کابینہ میٹنگ میں مہر لگ جائے گی۔ اترپردیش کے میڈیکل ایجوکیشن کے وزیر سریش کھنہ نے کہا کہ ہمیں مزید تجربے والے ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ڈاکٹروں کو اپنا پرائیویٹ کلینک کھولنا چاہیے ، بہتر ہے کہ وہ اپنی خدمات ہمیں دیں۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے تجویز تیار کی ہے۔ سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی اس پر اپنی رضامندی دے دی ہے۔ جلد ہی اسے کابینہ سے منظور کرلیا جائے گا

امتحانی مرکز میں شارٹس پہنے لڑکی پردے سے ٹانگیں ڈھانپنے پر مجبور

ایک 19 سالہ انڈین طالبہ اپنے گھر سے 70 کلومیٹر دور امتحانی مرکز پہنچیں تو استاد نے ان کے لباس پر اعتراض کرتے ہوئے پردے سے ٹانگیں ڈھانپنے پر مجبور کیا۔مقامی ذرائع ابلاغ میں شائع خبروں میں بتایا گیا ہے کہ جوبلی تمولی نے امتحان دینے کے لیے اپنے والد کے ساتھ آسام کے تیزپور قصبے میں گھر سے 70 کلومیٹر (43 میل) کا سفر کیا تھا۔ان کے والد بھاگتے دوڑتے پتلون خریدنے کے لیے بازار پہنچے لیکن چونکہ امتحان میں دیر ہو رہی تھی لہذا طالبہ نے پردے سے ٹانگیں ڈھانپ لیں۔

بعد میں جوبلی نے اسے اپنی ’زندگی کا سب سے ذلت آمیز تجربہ‘ قرار دیا۔انھوں نے امتحانی مرکز کے باہر صحافیوں سے پوچھا ’کیا شارٹس پہننا جرم ہے؟’سب لڑکیاں شارٹس پہنتی ہیں۔ اور اگر وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہم شارٹس پہنیں تو انھیں امتحانی دستاویز میں اس کا ذکر کرنا چاہیے تھا۔‘انڈین ایکسپریس اخبار کے مطابق یہ واقعہ بدھ کے روز گریجانند چوہدری انسٹیٹیوٹ آف فارماسیوٹیکل سائنسز میں منعقدہ ایک زرعی یونیورسٹی کے داخلہ امتحان کے دوران پیش آیا۔جوبلی کے حوالے سے اخبار نے لکھا ہے کہ: ’انھوں نے کووڈ پروٹوکول، ماسک یہاں تک کہ درجہ حرارت چیک نہیں کیا ۔۔۔مگر شارٹس ضرور چیک کیں۔‘

جوبلی تمولی نے کہا کہ امتحانی دستاویزات میں کسی بھی ڈریس کوڈ کی وضاحت نہیں کی گئی تھی اور سیکورٹی گارڈز نے انھیں انسٹیٹیوٹ میں داخل ہونے کی اجازت دی تھی۔ لیکن استاد نے امتحان ہال میں داخل ہونے سے روک دیا۔انھوں نے کہا کہ ’میں نے استاد سے درخواست کی کہ وہ میرے والد سے بات کریں۔ لیکن استاد پر میری التجا کا کوئی اثر نہیں ہوا۔‘اس واقعے پر بہت سے لوگوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ کئی افراد نے اپنے غم و غصے کا اظہار کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا۔

کئی لوگوں نے استاد کے رویے کو ’اشتعال انگیز‘، ’مضحکہ خیز‘ اور ’مورل پولیسنگ کی انتہا‘ قرار دیا۔
انڈیا میں لباس کی پابندیاں ایک معمول کی بات ہے۔ خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کو روزانہ کی بنیاد پر لباس کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔پدرشاہی معاشرے میں اکثر افراد نوجوانوں میں ’بے راہ روی‘ اور ’اخلاقی تنزلی‘ کی وجہ مغربی لباس کو قرار دیتے ہیں۔مارچ میں شمالی ریاست اتراکھنڈ کے اس وقت کے وزیراعلیٰ تیرتھ سنگھ راوت پر ’عورتوں سے نفرت‘ کا الزام لگایا گیا تھا جب انھوں نے ایک خاتون کو ’پھٹی ہوئی جینز‘ پہننے پر شرمندہ کیا۔ وہ خاتون انھیں فلائٹ میں ملی تھیں۔اس طرح کی رائے بعض اوقات خواتین کے لیے خطرناک نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔جولائی میں شمالی ریاست اتر پردیش میں ایک 17 سالہ لڑکی کو مبینہ طور پر اس کے خاندان کے افراد نے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا کیونکہ وہ ان کا جینز پہننا پسند نہیں کرتے تھے۔

ہندوتوا کارڈ کی دھار تیز کرنے کے لیے یوگی ا یک اور نیا حربہ استعمال کرنے کیلئے کوشاں

اتر پردیش میں ابھی اسمبلی انتخاب کی تاریخوں کا اعلان ہونے میں تاخیر ہے۔ اس لیے امیدواروں کے اعلان میں پارٹیوں کو بھی کوئی جلدبازی نہیں ہے۔ پھر بھی جس طرح کی فیلڈنگ سچ رہی ہے، اس میں دو باتیں صاف ہیں۔ ان میں سے ایک دہرانے جیسی بات ہے کہ بی جے پی اس بار ’رام لہر‘ بلکہ اسے ہندو بنام مسلمان کہیں تو بہتر ہے، پر سوار ہوگی۔ دوسری بات، اسے دھار دینے کے لیے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اس بار ایودھیا سے الیکشن لڑیں گے۔ اس کے رسمی اعلان میں تو ابھی دیر ہے، لیکن پارٹی کے کئی سینئر لیڈر اسے تقریباً طے مان رہے ہیں۔

وزیر اعلیٰ بننے کے بعد یوگی آدتیہ ناتھ قانون ساز کونسل رکن چنے گئے ہیں۔ اس سے پہلے 1998 سے وہ گورکھپور سے پانچ بار لوک سبھا رکن چنے گئے۔ یوگی گورکھ ناتھ پیٹھ کے مہنت ہیں اس لیے گورکھپور آتے رہتے ہیں۔ ان کے وزیر اعلیٰ دور میں ترقیاتی منصوبوں کے معاملے میں بھی گورکھپور سرفہرست ہے۔ لیکن کچھ باتیں دھیان کھینچتی ہیں۔ جیسے، پچھلے ساڑھے چار سال کے دوران یوگی 30 سے زیادہ مرتبہ ایودھیا گئے ہیں۔ گزشتہ دیوالی میں دیپوتسو کے وقت تو وہ خود ایودھیا آئے تھے، اب کی بار کے دیپوتسو میں وزیر اعظم نریندر مودی کی یاترا کی بھی تیاری ہے۔

 

ویسے بھی ایودھیا میں رام مندر تعمیر کو لے کر سرگرمیوں کی بی جے پی اور حکومت تشہیر کرتی رہتی ہے۔ ان سب میں ایودھیا کے رکن اسمبلی وید پرکاش گپتا کا بیان خاص اہمیت رکھتا ہے۔ انھوں نے گزشتہ دنوں کہا کہ ’’وزیر اعلیٰ اگر ایودھیا سے لڑتے ہیں تو یہ قسمتی کی بات ہوگی۔ ہم اپنی سیٹ تو چھوڑیں گے ہی، یوگی جی کو جتانے کے لیے پوری طاقت لگا دیں گے۔ ترقی کی نئی عبارت لکھ رہے ایودھیا میں یوگی کا لڑنا سَنتوں-مہنتوں کے لیے بھی خوش قسمتی کی بات ہے۔‘‘ ویسے گورکھپور صدر رکن پارلیمنٹ روی کشن کہتے ہیں کہ ’’ویسے تو پوری ریاست ہی یوگی جی کا گھر ہے۔ وہ جہاں سے لڑیں گے، بمپر ووٹ سے جیتیں گے۔ لیکن اگر وہ گورکھپور سے لڑے، تو انھیں صرف نامزدگی کرنے یہاں آنا ہے۔ الیکشن تو یہاں کی عوام لڑے گی۔‘‘

بی جے پی لیڈر مانتے ہیں کہ ’ہندوتوا کارڈ‘ کی دھار کو تیز کرنے کے خیال سے یوگی کا ایودھیا سے الیکشن لڑنا اہم ہوگا۔ ویسے بھی پارٹی نے مرکزی وزیر دھرمیندر پردھان کے ساتھ انوراگ ٹھاکر کو یو پی کا شریک انچارج بنا کر یہ اشارہ تو دے ہی دیا ہے کہ الیکشن میں اس کا ایجنڈا ہندوتوا ہی رہنے والا ہے۔ مرکزی وزیر برائے اطلاعات و نشریات انوراگ ٹھاکر نے ہی دہلی الیکشن میں ’ملک کے غداروں کو…‘ والا بیان دیا تھا۔ بھلے ہی بی جے پی کو دہلی الیکشن میں شکست جھیلنی پڑی لیکن اس بیان سے پارٹی نے اپنے کو کبھی الگ نہیں کیا۔

گزشتہ دنوں بی جے پی سربراہ جے پی نڈا لکھنؤ میں تھے۔ وہاں ان کے بیانات سے صاف تھا کہ کورونا دور میں بدانتظامی، بڑھتی مہنگائی، کسانوں کے احتجاج، بے روزگاری اور تقرریوں کو لے کر سوالوں میں پھنسی بی جے پی یو پی الیکشن رام مندر، گئو رکا، مذہب تبدیلی اور آبادی بل کے ارد گرد ہی لڑے گی۔ نڈا نے کہا کہ ’بھگوان رام کی نگری ایودھیا، بابا وشوناتھ کی نگری کاشی اور بھگوان کرشن کی نگری متھرا کو یاد کیے بغیر اتر پردیش کا تصور ادھورا ہے۔‘‘ اس کے بعد ریاستی صدر سوتنتردیو سنگھ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’ریاستی عوام کو لگتا ہے کہ اب اپنی حکومت ہے۔ اب کانوڑ یاترا میں پھولوں کی بارش ہوتی ہے۔ دیو دیوالی اور دیپوتسو کی گونج پوری دنیا میں ہے۔‘‘ متھرا پہنچ کر یوگی نے بھگوان کرشن کی جائے پیدائش ورنداون کے دس کلومیٹر کے دائرے میں گوشت اور شراب کی فروخت پر پابندی لگانے کا اعلان تو کیا ہی، وہ ہندو ووٹوں کے پولرائزیشن کے لیے ’ابا جان‘، ’مسلموں کے ڈی این اے‘ جیسے متنازعہ بیانات کا سہارا لگاتار لے رہے ہیں۔ کشی نگر میں یوگی جی نے کہا کہ 2017 سے پہلے غریبوں کو ان کے حق کا اناج نہیں ملتا تھا۔ تب ’ابا جان‘ کہنے والے لوگ غریبوں کا راشن بنگلہ دیش اور نیپال بھیج دیتے تھے۔ وہیں گورکھپور میں انھوں نے کہا کہ رام ہمارے آباء ہیں اور جو جے شری رام نہیں بولتا، مجھے اس کے ڈی این اے پر شک ہے۔
بی جے پی لیڈر کہتے ہیں کہ جو لوگ کسان تحریک کی وجہ سے سوچ رہے ہیں کہ بی جے پی اس دفعہ مغربی یو پی میں کمزور رہے گی، وہ منھ کی کھائیں گے۔ ان کی دلیل ہے کہ اس علاقے کے چھوٹے کسان اور بڑا طبقہ راشن تقسیم اور کسانوں کو دی جانے والی رقم کی وجہ سے بی جے پی کے حق میں بنے رہیں گے۔ پارٹی کے ایک سینئر لیڈر کا کہنا ہے کہ علی گڑھ میں وزیر اعظم مودی کے جلسہ کے اثر کا اندازہ غیر بی جے پی لیڈر لگا ہی نہیں سکتے۔ یہاں مودی نے راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کے نام پر یونیورسٹی کے سنگ بنیاد کے دوران کہا کہ علی گڑھ یونیورسٹی کے لیے راجہ نے ہی زمین دی تھی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مقابلے جاٹ چہرے کے نام پر یونیورسٹی کا پیغام پارٹی کے ہندوتوا کارڈ کا ہی حصہ ہے۔ ویسے کانگریس، سماجوادی پارٹی اور راشٹریہ لوک دل کے لیڈر اسے بی جے پی کی خوش فہمی مان رہے ہیں۔

پھر بھی بی جے پی کو اندازہ ہے کہ اس بار اگر وسطی اور مشرقی یو پی سے زیادہ سے زیادہ سیٹیں نہیں آئیں، تو اقتدار میں اس کی واپسی مشکل ہوگی۔ اس لیے وہ اس علاقے پر پورا فوکس کر رہی ہے۔ 18 اکتوبر کو مودی وزیر اعلیٰ یوگی کے قلعہ گورکھپور میں ایمس اور کھاد کارخانہ کی رسم رونمائی کرنے پہنچ رہے ہیں۔ ایودھیا سے 134 کلو میٹر کی دوری پر واقع گورکھپور اور اس کے آس پاس کا علاقہ ہندوتوا کے ایجنڈے کے لیے زرخیز ہے۔ ایسے میں مودی یہاں ضرور ایسا کچھ کہیں گے یا کریں گے جس سے یو پی الیکشن میں بی جے پی ہندوتوا اور ہندو-مسلم تقسیم کرنے والا ایجنڈا سیٹ ہو جائے جس سے فائر برانڈ یوگی، ساکشی مہاراج سے لے کر انوراگ ٹھاکر جیسے لیڈروں کی سیاسی بیٹنگ آسان ہو سکے۔

منوج پاٹل کا اقدامِ خودکشی، ساحل خان کے خلاف مقدمہ

بالی ووڈ کے اداکار ساحل خان کو قانونی مشکلات کا سامنا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انکا نام ماڈل اور باڈی بلڈر منوج پاٹل کے اقدام خودکشی کے معاملے میں سامنے آیا ہے۔ممبئی پولیس نے اس حوالے سے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ساحل خان اور تین دیگر افراد کے خلاف منوج پاٹل کی خودکشی کی کوشش پر کیس درج کرلیا گیا ہے۔

 

اس سے قبل منوج پاٹل کے خاندان نے انکشاف کیا تھا کہ منوج نے ساحل خان کے خلاف اوشی واڑا پولیس اسٹیشن میں مقدمہ درج کرایا تھا، جس میں کہا گیا کہ انہیں ساحل خان نے ہراساں کیا تھا۔

 

واضح رہے کہ منوج پاٹل نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لیے جمعرات کی صبح سویرے اپنی رہائش گاہ بڑے پیمانے پر نیند کی گولیاں کھالی تھیں، تاہم انہیں فوری طورپر اسپتال پہنچایا گیا جہاں اب ان کا علاج جاری ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...