Powered By Blogger

ہفتہ, اکتوبر 30, 2021

مولانا ہارون الرشید ؒ - یاد سے تیری دل ِ آشنا معمور ہےمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مولانا ہارون الرشید ؒ - یاد سے تیری دل ِ آشنا معمور ہے
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہعبدالرحیم دربھنگہ وی
جامعہ رحمانی مونگیر کے سابق استاذ، امیر شریعت رابع حضرت مولانا منت اللہ رحمانی کے دست گرفتہ، مدرسہ رحمانیہ سوپول دربھنگہ کے سابق شیخ الحدیث وصدر مدرس دارالعلوم مرکز اسلامی انکلیشور اور نور العلوم گٹھامن پالن پور گجرات کے شیخ الحدیث ، استاذ الاساتذہ، بافیض عالم دین ، اچھے خطیب اور بہترین ادیب، مولانا ہارون الرشید صاحب کا دربھنگہ کے وویکا نند اسپتال میں ۱۴؍ فروری ۲۰۲۱ء بروز اتوار بوقت ساڑھے بارہ بجے شب انتقال ہو گیا، پیرانہ سالی اور ضعف کے علاوہ ، لیور اور آنت میں انفکشن اور خون کی کمی کی شکایت تھی ، وقت موعود کا آجانا یہ سب سے بڑا سبب دنیا چھوڑنے کا ہے ، جس کی طرف نگاہیں کم جاتی ہیں، اور ہم ظاہری اسباب کو موت کا سبب سمجھ کر اطمینان کر لیتے ہیں، جنازہ کی نماز صاحب نسبت بزرگ ماسٹر محمد قاسم صاحب دامت برکاتہم نے ۱۴؍ فروری کو ہی بعد نماز ظہر پڑھائی اور مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ سات بیٹیاں ایک بیٹا مولانا محمد سفیان  دو پوتے حمدان رشید اور سفیان رشید کو چھوڑا۔
مولانا ہارون الرشید بن محمد طاہر حسین مرحوم بن امانت حسین بن صفدر خان بن فیض علی خان کی ولادت یکم جنوری ۱۹۳۹ء کو آبائی گاؤں جمال پور ،وایا بیرول دربھنگہ میں ہوئی ،ان کے نانا صغیر خان ، نانی قبولن اور والدہ کا نام تحیم النساء تھا، شادی گاؤں میں ہی مولانا مقبول بن تسلیم خان بن صفدر خان بن فیض علی خان کی دختر نیک اختر سے ہوئی تھی، نکاح مولانا محمد عثمان صاحب ؒ نے پڑھایا تھا، تین سال کی عمر تھی ، جب والدہ سفر آخرت پر روانہ ہو گئیں، بارہ سال کی عمر ہوئی تو والد بھی چل بسے پرورش وپرداخت دادا امانت حسین اور ماموں انیس خان کے زیر سایہ ہوئی، ابتدائی تعلیم گھر پر مولانا مقبول صاحب سے حاصل کرنے کے بعد ۱۹۵۱ء میں علاقہ کے مشہور ومعروف مدرسہ رحمانیہ سوپول میں داخل ہوئے،اس زمانہ میں مدرسہ رحمانیہ سوپول بہار مدرسہ بورڈ سے ملحق ہونے کے با وجود بہار کے مدارس میں اپنا ایک مقام رکھتا تھا، اور ماضی قریب تک اس پر سرکاری ہونے کے اثرات نہیں دِکھتے تھے، اساتذہ آہ سحر گاہی اور دعائے نیم شبی کے عادی تھے، اس لئے بورڈ کے اثرات اس مدرسہ سے دور تھے، مولانا مرحو م نے اس وقت کے جلیل القدر اساتذہ سے وسطانیہ چہارم تک کی تعلیم یہاں پائی،۱۹۵۶ء میں مدرسہ امدادیہ لہریا سرائے دربھنگہ ، ۱۹۵۷ء میں مدرسہ قاسمیہ شاہی مراد آباد میں تعلیم کا سلسلہ جاری رہا، ۱۵؍ شوال ۱۳۷۶ھ مطابق۱۹۵۷ء میں دا رالعلوم دیو بند میں داخل ہوئے اور ۱۹۶۰ء میں امتیازی نمبرات سے سند فراغ حاصل کیا، دیو بند کے قیام کے زمانہ میں اساتذہ کے منظور نظر رہے، تعلیمی انہماک کی وجہ سے اپنے رفقاء میں بھی ممتاز تھے۔
 تدریسی خدمات کا آغاز ۱۹۶۱ء میں نولی گڈھ راجستھان سے کیا، لیکن جلد ہی جامعہ رحمانی مونگیر سے بلاوا آگیا، یہاں ۱۹۶۳ء کے نصف تک متوسطات کی کتابیں پڑھاتے رہے،۱۹۶۳ء سے ۱۹۶۹ء تک مدرسہ امدادیہ لہیریا سرائے دربھنگہ میں مسند تدریس کو زینت بخشی، تین ماہ بحیثیت استاذ مدرسہ رحمانیہ یکہتہ موجودہ ضلع مدھوبنی کو بھی نوازا، ۱۹۷۰ء میں مدرسہ رحمانیہ میں بحیثیت استاذ تقرری عمل میں آئی، بعد یہاں کے پرنسپل (صدر مدرس) مقرر ہوئے، اور سبکدوشی کی عمر کو پہونچ کر یہاں سے سبکدوش ہوئے۔ سبکدوشی کے بعد بھی تدریس سے پوری زندگی کی وابستگی نے چین سے بیٹھنے نہیں دیا ، چنانچہ چند ماہ مدرسہ چشمۂ فیض ململ مدھوبنی میں پڑھانے کے بعد  ۲۰۰۷ء سے ۲۰۱۴ء تک دار العلوم مرکز اسلامی انکلیشور گجرات اور پھر حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری کی تحریک پر نور العلوم گٹھامن پالن پور میں شیخ الحدیث کی حیثیت سے بخاری شری کا درس دیتے رہے ، پیرانہ سالی کی وجہ سے ادھر ایک سال سے گھر پر ہی قیام فرماتھے۔
آپ کے اہم کارناموں میں ۱۴۱۵ھ مطابق ۱۹۹۴ء بچیوں کی بنیادی تعلیم کے لئے مدرسہ رحمانیہ نسواں اور چھوٹے بچوں کی تعلیم میں لئے دا رالقرآن کا قیام ہے، مولانا قیام کے بعد سے اسے ترقی دینے کے لیے کوشاں رہے، اور اسے علاقہ کا قابل ذکر ادارہ بنا کر دم لیا۔ مولانا کی زندگی صلاح وتقویٰ ، عبادت وریاضت ، تواضع ، انکساری، درس وتدریس ، تعلیم کے لیے فکر مندی سے عبارت تھی ، ان کے مزاج میں عفو ودرگذر اور احساس ذمہ داری کا عنصر دوسری تمام چیزوں پر حاوی تھا، اللہ رب العزت نے ان سے خوب کام لیا، آج ان کے ہزاروں شاگردجو دین اور دینی علوم کی ترویج واشاعت میں لگے ہوئے ہیں، ان کے لیے صدقۂ جاریہ ہیں۔
 مولانا مرحوم سے میرے تعلقات اس زمانہ سے تھے، جب میں مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی میں استاذ تھا، وہ مجھ پر بزرگانہ شفقت فرماتے تھے، کسی جلسہ میں ہم دونوں ساتھ ہوتے تو حوصلہ افزائی کے کلمات کہتے ، کم از کم دو بار انہوں نے اپنے مدرسہ رحمانیہ نسواں جمالپوربھی بلایا تھا، ایک ملاقات انکلیشور کی بھی یاد ہے ، جب وہ وہاں شیخ الحدیث ہوا کرتے تھے، جمبوسر میں فقہی سمینار میں شرکت کے بعد میں ان سے ملاقات کی غرض سے حاضر ہوا تھا، بڑے اونچے الفاظ میں انہوں نے میرا تعارف وہاں کے ذمہ داروں ، اساتذہ اور علماء سے کرایا تھا، اندازہ ہوا کہ مولانا کو خُرد نوازی میں خاص ملکہ حاصل ہے ۔
 مولانا بہترین مدرس تھے، ان کے شاگرد بتاتے ہیں کہ وہ درس گاہ میں نہ تو غیر ضروری بات کرتے تھے اور نہ ہی عبارت اور مسئلہ سے متعلق ساری باتیں طلبہ تک منتقل کرتے تھے، وہ اتناہی بتاتے جتنا طلبہ سمجھنے کی صلاحیت رکھتے تھے ، اس کی وجہ سے ان کا درس بوجھل نہیں ہوتا تھا، اور کلموا الناس علی قدر عقولھم  کی صحیح تصویر سامنے آجاتی تھی۔
 مولانا تقریر کے میدان کے بھی آدمی تھے، لیکن ان کی تقریر پیشہ وارانہ گھن گرج اور کرسی توڑنے کے فن سے نا آشنا ہوا کرتی تھی ، تقریر میں اتار چڑھاؤ کے بجائے سبک روی تھی، جو دلوں پر دستک دیتی تھی ، ایکشن اور اٹھا پٹک والی تقریر میں سامعین اٹھا پٹک دیکھنے میں ہی رہ جاتے ہیں، جو پیغام کو دل تک پہونچنے میں بڑی رکاوٹ ہوا کرتی ہے۔
 مولانا کو لکھنے کا بھی فن آتا تھا، ایک زمانہ میں نقیب میں ان کی تحریر یں شائع ہوا کرتی تھیں، ان کی ایک کتاب بھی ’’آداب زندگی‘‘ کے نام سے مطبوعہ ہے، لیکن طبیعت کا میلان اس طرف کم تھا وہ کتاب سازی کے بجائے رجال سازی کے قائل تھے۔
 بعض موقعوں سے انہوں نے اشعار بھی کہے، لیکن یہ سلسلہ بھی بہت دراز نہیں ہو سکا، چند اشعار ہی اب محفوظ ہیں، میں نے دیکھا نہیں ، لیکن بعض جانکار لوگوں نے بتایا کہ الجمعیۃ کے شیخ الاسلام نمبر میں بھی ان کی ایک نظم محفوظ ہے۔
 کل ملا کر مولانا کی شخصیت ہمہ جہت تھی، لیکن تمام جہتوں میں مدرسی والی جہت غالب تھی، عمر کے آخری پڑاؤ پر انہوں نے حضرت مولانا اشتیاق احمد صاحب جامع العلوم مظفر پور سے تعلق جوڑا تھا اور رمضان المبارک کے اخیر عشرہ کے اعتکاف میں انہیں کے پاس مقیم ہوا کرتے تھے۔
 اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں ان کے درجات بلند کرے، آمین یا رب العالمین وصلی اللہ علی النبی الکریم وعلیٰ اٰلہ وصحبہ اجمعین ۔

مغربی بنگال : پٹاخوں کے استعمال اور فروختگی پرہائی کورٹ نے لگائی مکمل پابندی

مغربی بنگال : پٹاخوں کے استعمال اور فروختگی پرہائی کورٹ نے لگائی مکمل پابندی

کولکاتہ:مغربی بنگال میں اس دیوالی پٹاخے نہیں پھوڑے جاسکیں گے ۔ دراصل ریاست میں پٹاخوں کی فروخت اور استعمال پر مکمل پابندی لگا دی گئی ہے۔ یہ پابندی دیوالی، کالی پوجا، چھٹھ پوجا، کرسمس اور نئے سال پر بھی جاری رہے گی۔ جمعہ کو کولکاتہ ہائی کورٹ نے اس سلسلے میں ایک حکم جاری کیا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ کرونا وبا کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ریاستی حکومت نے دیوالی، چھٹھ اور کالی پوجا پر دو گھنٹے تک آتش بازی کی اجازت دی تھی۔ وہیں کرسمس اور نئے سال پر 35 منٹ تک آتش بازی کی اجازت دی تھی ۔ اس کے علاوہ ریاستی حکومت نے یہ شرط بھی رکھی تھی کہ صرف گرین پٹاخے ہی پھوڑے جاسکیں گے۔ اس حکم کے خلاف ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرکے پٹاخوں پر مکمل پابندی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس کیس کی سماعت کرتے ہوئے عدالت نے مغربی بنگال میں پٹاخوں کی فروخت اور استعمال پر نئے سال تک کیلئے مکمل طور پر پابندی لگا دی ہے۔


تری پورہ میں مسلمانوں پرہورہے مظالم کے خلاف پاپولرفرنٹ آف انڈیاکاسخت احتجاج

تری پورہ میں مسلمانوں پرہورہے مظالم کے خلاف پاپولرفرنٹ آف انڈیاکاسخت احتجاجممبئی (بی این ایس)گذشتہ کچھ دنوں سے ریاست تریپورہ میں مسلمانوں پر، اُن کی عبادت گاہوں پر اور اداروں پر ہندو شر پسند عناصر کی جانب سے مسلسل ہتھیار بند حملے ہو رہے ہیں، جس کے نتیجے میں اب تک کئی لوگوں کی جانیں جا چکی ہیں۔ کئی مسجدوں کو نذر آتش کیا جا چکا ہے۔ توڑ پھوڑ کی وارداتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مسلم مرد و خواتین پر ناروا تشدد رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ انھیں ہراساں کرنے کے لیے زبردستی ان کے گھروں پر بھگوا جھنڈے لہرائے جا رہے ہیں۔ کئی مساجد میں خنزیر کا گوشت ڈالا گیا ہے۔ کئی علماء اور ائمہ کو بھی تشدد کا شکار بنایا گیا ہے۔ لیکن اب تک حکومت کوئی کارروائی کرنے اور بھگوا دہشت گردوں کو سزا دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ہندو شر پسند عناصر کا بلاخوف، قانون اپنے ہاتھ میں لے کر، اس طرح قتل وغارت گری کا بازار گرم کرنا ملک کے مستقبل کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ جس کا مقصد فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرکے مسلم نسل کشی کے سنگھی ایجنڈے کو پورا کرنا ہے۔ ایک جمہوری ملک میں اس طرح کی غنڈہ گردی کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کی جائے گی۔اس پس منظر میں 29 / اکتوبر 2021 بروز جمعہ کو جمعہ کی نماز کے بعد پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی جانب سے عروس البلاد ممبئی میں باندرہ، کرلا، ممبرا، چیتا کیمپ اور دیگر مختلف مقامات پر احتجاج کیا گیا، جس میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا نے مطالبہ کیا کہ سرکار تریپورہ میں ہونے والے ظلم وستم اور فرقہ پرستی کے خلاف مضبوط قدم اٹھائے ۔چیتا کیمپ میں منعقد احتجاج کے دوران پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے ذمہ دار جناب عبد الرحمن صاحب نے تمام ہندوستانیوں کو مخاطب کرتے ہوئے ایک پیغام دیا کہ اقتدار میں موجود ہندوتوا فسطائی طاقتیں جس طرح سے ہمارے وطن عزیز کی گنگا جمنی تہذیب، دستور اور آئین ہند کو نیست و نابود اور اس کا گلا گھونٹنے کی ناکام کوشش کر رہی ہیں، ہم وطن عزیز ہندوستان کی عوام مل کر اور متحد ہو کر دستور اور آئین ہند کی حفاظت کریں گے اور ہندوتوا فسطائی طاقتوں کے ناپاک نظریے کو ناکام بنائیں گے۔ انشاءاللہ

بہاراسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ:درجہ وسطانیہ کے فارم بھرنے کی توسیعی تاریخ کا اعلان!

بہاراسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ:درجہ وسطانیہ کے فارم بھرنے کی توسیعی تاریخ کا اعلان!


درجہ وسطانیہ ایویلیوشن 2022 کے فارم بھرنے کی تاریخ میں 07نومبر2021 تک توسیع کردی گئی ہے۔ تمام ملحقہ مدارس کے پرنسپل ؍ صدرمدرس ؍ طلبا وطالبات اور گارجین حضرات کو اطلاع دی جاتی ہے کہ درجہ وسطانیہ ایویلیوشن 2022 کا آن لائن فارم بھرنے کی تاریخ میں 07نومبر2021 تک توسیع کی جاتی ہے۔

آن لائن فارم بھر نے کے لیےنیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں!
www.bsmeb.org

متعین وقت کے درمیان بذاتِ خود فارم بھرنا یقینی بنائیں!


جمعہ, اکتوبر 29, 2021

گرگاؤں میں کھلے مقام پر نماز جمعہ کی ادائیگی سے قبل پھرحالات خراب کرنے کی کوشش

گرگاؤں میں کھلے مقام پر نماز جمعہ کی ادائیگی سے قبل پھرحالات خراب کرنے کی کوشش

گرگاؤں: دہلی کے قریب ہریانہ کے گرگاؤں کھلے مقام پر نماز جمعہ کی ادائیگی سے عین قبل ہندو تنظیم سے وابستہ افراد نے پھر تنازعہ کھڑا کرنے کی کوشش کی ۔ پولیس اگرچہ جمعہ کے روز مجموعی طور پر 37 مقامات پر نماز ادا کرنے کی اجازت فراہم کی ہے تاہم یہ تنظیم گزشتہ 5 ہفتوں سے لگاتار ماحول خراب کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ آج جمعہ کے روز جیسے ہی نماز کا وقت ہوا تنظیم کے ارکان نماز کے مقام پر پہنچ کر ہنگامہ کرنے لگے۔ پولیس نے ان میں سے 13 افراد کو حراست میں لیا ہے۔


"قرآن پاک کی اردو تفاسیر" :ایک مطالعہانوار الحسن وسطوی

"قرآن پاک کی اردو تفاسیر" :ایک مطالعہ
انوار الحسن وسطوی 
_______________________________________
 زیر مطالعہ کتاب کے مصنف ڈاکٹر سید شاہ حیدر رضوی ہیں جن کا تعلق سرزمین بہار کے ایک مشہور و معروف علمی خانوادے سے ہے- محترم ڈاکٹر طلحہ رضوی برق قبلہ مد ظلّہ العالی کو کون نہیں جانتا- ڈاکٹر حیدر رضوی صاحب حضرت موصوف کے برادر عزیز ہیں- ڈاکٹر حیدر رضوی کی مذکورہ تصنیف دراصل ان کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جس پر انھیں 2008 میں  پٹنہ یونیورسٹی سے پی ایچ - ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی تھی- اس تحقیقی مقالے کے نگراں ڈاکٹر ذکی الحق مرحوم و مغفور شعبہ اردو بی این کالج پٹنہ مقرر ہوئے تھے لیکن ان کے انتقال فرما جانے کے سبب ڈاکٹر خواجہ افضل امام شعبہ فارسی پٹنہ کالج کے زیر نگرانی یہ مقالہ پایہ تکمیل کو پہنچا- کتابی شکل میں یہ مقالہ 2018 میں زیور طباعت سے آراستہ ہوا ہے جو 392 صفحات پر مشتمل ہے- ڈاکٹر حیدر رضوی نے اپنی اس تصنیف کا انتساب اپنے والدین سید شاہ سراج الدین رضوی مرحوم و بی بی وسیع النساء مرحومہ کے نام کیا ہے-
 زیر تذکرہ کتاب "قرآن پاک کی اردو تفاسیر" پانچ ابواب پر مشتمل ہے-" باب اول" میں تمہیدی کلمات کے طور پر تفسیر کی تعریف، اس کی ضرورت اور اس کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالی گئی ہے - "باب دوم" فارسی تفاسیر سے متعلق ہے، گرچہ یہ مقالہ کا موضوع نہیں ہے مگر پس منظر کے طور پر اس کا ذکر ناگزیر اس لیے تھا کہ قرآن پاک کے ترجمے اور تفسیر کی پہلی کوشش جس زبان میں کی گئی وہ فارسی ہے-" باب سوم" میں اردو زبان کی پیدائش اور اردو ادب کے ارتقائی سفر کے سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے ان اردو تفاسیر کا ذکر کیا گیا ہے جو یا تو جزوی طور پر ہیں یا پھر مکمل صورت میں ہیں - جزوی تفاسیر وہ ہیں جن میں مختلف سورتوں اور آیات کریمہ کی تفسیر یں ہیں جن کی تعداد 44 بتائی گئی ہے اور تفصیلی تفسیریں وہ ہیں جو مکمل تیس پاروں پر مشتمل ہیں - ان مکمل تفاسیر کی تعداد37 شمار کرائی گئی ہے - اس باب کی خصوصیت یہ ہے کہ تمام تفاسیر کا مختصر تعارف بھی بطور نمونہ پیش کیا گیا ہے- اس باب کے مطالعے سے مصنف کے دقت نظر، وسعت مطالعہ اور  ذوق تحقیق کی داد دینی پڑتی ہے-" باب چہارم" میں ہندوستان کے جن سات ممتاز معروف مفسرین کرام کے احوال و آثار کا مفصل ذکر کیا گیا ہے ان کے اسمائے گرامی ہیں مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا ثناء اللہ امرتسری، سرسیداحمدخان، مولانا عبد الماجد دریابادی، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا ابوالاعلی مودودی اور مولانا محمد شفیع- ڈاکٹر سید شاہ حیدر رضوی نے مذکورہ شخصیات کی تفسیری خدمات کے مفصل بیان کے ساتھ دوسرے میدان عمل میں بھی ان کی نمایاں خدمات کا نہ صرف ذکر کیا ہے بلکہ ان کے سوانحی حالات کے ساتھ ساتھ ان کے امتیاز، ان کی انفرادیت اور ان کی علمی، ادبی،تحریری اور تقریری صلاحیت کو بیان کرتے ہوئے ان کے تعلق سے سیر حاصل گفتگو کی ہے - کتاب کے اس باب کا مطالعہ مذکورہ تمام شخصیتوں کو سمجھنے اور جاننے کا بہترین وسیلہ ہے - یہ تحریریں قاری کے علم میں اضافے کی حیثیت رکھتی ہیں - اس باب کی دوسری اور ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ مصنف نے مذکورہ شخصیات کے تعارف اور ان کی خدمات کے ذکر میں مسلکی عینک کا استعمال نہیں کیا ہے اور اظہار بیان میں مکمل دیانت داری اور وسیع النظری کا مظاہرہ کیا ہے - مصنف موصوف کا یہ عمل قابل تعریف بھی ہے اور قابل تقلید بھی- " باب پنجم" اس مقالے کا آخری باب ہے جسے "ماحصل" بھی کہا جا سکتا ہے- اس باب میں تفسیر کی مذہبی ادبی اور لسانی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے- کتاب کے آخر میں ان کتابوں، اخبارات و رسائل کی فہرست درج ہے جن سے مقالے کی ترتیب میں مدد لی گئی ہے-
   کتاب کے آغاز میں بعنوان" پیش آہنگ" (از :پروفیسر طلحہ رضوی برق)" تقریظ" (از: ڈاکٹر پروفیسر حبیب المرسلین شیدا، پٹنہ یونیورسٹی) اور" افتتاحیہ" (از :ڈاکٹر لیاقت علی خان، یو پی) تین پر مغزاور بصیرت افروز تحریریں شامل کتاب ہیں جن کے مطالعے سے جہاں ڈاکٹر سید شاہ حیدر رضوی کی زیر تذکرہ کتاب کو بنظر غائر پڑھنے کی ترغیب ملتی ہے وہیں ان تحریروں کے مطالعے سے علم و بصیرت کے کئ دریچے بھی وا ہوتے ہیں- قارئین کی دل چسپی کے لیے مذکورہ تحریروں سے اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں:-
* "اس گراں قدر مقالے کے مصنف میرے برادر عزیز ڈاکٹر سید شاہ حیدر رضوی مدعمرہ ہیں - الحمد اللہ کی یہ مقالہ اپنی گوناگوں تحقیق کی خصوصیات اور لسانی خوبیوں کی وجہ سے بے نظیر ہے- ہر چند تحقیقی دروازہ کبھی بھی بند نہیں ہوتا اور مزید تحقیق کے امکانات و مواقع باقی رہتے ہیں - مصنف موصوف نے بڑی محنت، تلاش و جستجو اور عمیق مطالعے کے بعد اپنی تحقیقات کو خوبصورتی سے مرتب کیا ہے - "
(پروفیسر طلحہ رضوی برق-ص:16)
* " یہ مقالہ چونکہ بلاامتیاز مسلک و مذہب اور عقائد ہر مکتب فکر کے مفسرین کی لکھی ہوئی تفاسیر کا جامع ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ پیش نظر "قرآن پاک کی اردو تفاسیر" کا مطالعہ مختلف مذہبی اور فرقوں کے افکار و آراء کو سمجھنے کا اچھا اور موثر ذریعہ ہے اور اسے دین کے مختلف مذہبی گروہوں کے افکارو آراء اور معتقدات کے مطالعے کا اچھا وسیلہ قرار دیا جا سکتا ہے-"
( ڈاکٹر پروفیسر حبیب المرسلین شیدا - ص:23-24)
* " جناب ڈاکٹر سید شاہ حیدر رضوی صاحب کا "قرآن پاک کی اردو تفاسیر" پر تجزیاتی مضمون(Thesis) اردو داں طبقے کے لیے بڑا ہی نادر اور قابل ستائش قدم ہے - محترم مصنف کو یا کسی اور کو اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ اسی طرح کی مزید کوشش دوسری ہندوستانی (ملکی) زبانوں میں بھی ہو تا کہ قرآن پاک جو کہ بلاغ للناس ہے، اس کا حق ادا ہوسکے-"
( ڈاکٹر لیاقت علی خاں- ص، 31)
  ڈاکٹر سید شاہ حیدر رضوی نے اپنی گراں قدر قابل تعریف اور قابل رشک تحقیقی کاوش کو اپنی کم علمی اور بے بضاعتی پر محمول کرتے ہوئے نہایت عاجزی اور خاکساری کے ساتھ تحریر فرمایا ہے:
" 'الانسان مرکب من الخطا والنسیان' کے مصداق میں بھی ایک انسان ہوں- اپنی کم علمی و بے بضاعتی کا احساس و اعتراف کرتے ہوئے 
حتی الامکان میں نے کوشش کی ہے کہ اس تحقیق میں کوئی تشنگی باقی نہ رہے - پھر بھی اہل علم وہ ارباب نظر سے چشم عطا و عفوخطا  کا امیدوار ہوں-"
(" عرض مؤلف" ص:43")
 ڈاکٹر سید شاہ حیدر رضوی کی پیش نظر تصنیف "قرآن پاک کی اردو تفاسیر" اردو زبان میں تفسیری خدمات کا بہترین جائزہ ہے - یہ کتاب نہ صرف دینی نقطہ نظر سے استفادے کی چیز ہے بلکہ اس کی ادبی و لسانی حیثیت بھی مسلم ہے- اس کتاب کے ذریعے شروع سے ابھی تک اردو میں لکھی گئی تفسیروں سے جہاں قاری کی واقفیت ہوتی ہے وہیں اردو زبان کی پیدائش اور اس کے ارتقاء کے تعلق سے بھی قاری کے علم میں اضافہ ہوتا ہے- اس کی یہ کاوش دینی و دنیاوی دونوں اعتبار سے قابل قدر اور قابل ستائش ہے - میں دل کی عمیق گہرائیوں سے مصنف موصوف کو مبارکباد دیتا ہوں اور ان کی صحت و تندرستی کے ساتھ ان کی درازئ عمر کی بھی دعا کرتا ہوں- اس گراں قدر اور قابل استفادہ کتاب کی قیمت 450 روپے ہے جسے سید فرحان رضوی، نواب کوٹھی، نزد گرلس آئی ٹی آئی (گیٹ نمبر 97) دیگھا، پٹنہ - 11 اور "بک امپوریم" اردو بازار، سبزی باغ، پٹنہ- 4 سے حاصل کیا جا سکتا ہے -کتاب کے تعلق سے مزید معلومات کے لئے مصنف کے موبائل نمبر 9708978329 سے رابطہ کیا جا سکتا ہے -

تری پورہ میں مسلمانوں اورمسجدوں پرحملہ قابل مذمت : انیس الرحمن قاسمی

تری پورہ میں مسلمانوں اورمسجدوں پرحملہ قابل مذمت : انیس الرحمن قاسمیپھلواری شریف (پریس ریلیز)
تری پورہ میں مسلمانوں کے گھروں اورمسجدوں پرہونے والے حملوں کی شدیدمذمت کرتے ہوئے آل انڈیاملی کونسل کے قومی نائب صدرمولاناانیس الرحمن قاسمی نے اسے سرکارکی ناکامی بتایااورکہاہے کہ اقلیتوں کوتحفظ دینا،ان کے عبادت خانوں اورگھروں کی حفاظت کرناتری پورہ سرکارکی بنیادی ذمہ داری ہے،مولاناقاسمی نے کہا کہ پچھلے کئی دنوں سے لگاتارتری پورہ میں مسلمانوں پرحملہ کیاجارہاہے،ان کے گھروں کاتوڑاجارہاہے،قرآن کریم کی بے حرمتی کی گئی ہے،ان کونقصان پہنچایاگیا ہے جوبے حدشرمناک ہے،مرکزی سرکارکوچاہیے کہ وہ اقلیتوں کی حفاظت کویقینی بنائے اورجس طرح بھارت میں لگاتارمسلمانوں پرحملہ ہورہاہے،ماب لنچنگ کی جارہی ہے،مسلمانوں کافرضی انکاؤنٹرکیاجارہاہے،مسلمانوں کوجیلوں میں بندکیاجارہاہے،جوسرکار کی ناکامی ہے، مولاناقاسمی نے اپیل کی ہے کہ سرکاراپنی ذمہ داری اداکرے، ملک کے ماحول کوپرامن بنائے،اقلیتوں کومحفوظ کرے اوران پرہونے والے لگاتارحملوں کوروکے اورجولوگ اس طرح کے حملوں میں ملوث ہیں،انہیں عبرتناک اورسخت سزادی جائے اورمساجدکی ازسرنوتعمیرکرائی جائے اورتباہ گھروں کامکمل معاوضہ دیاجائے۔مولانانے کہاکہ آل انڈیاملی کونسل کے جنرل سکریٹری ڈاکٹرمحمدمنظورعالم نے ان واقعات پرمذمت کرے ہوئے ان کی اعلیٰ سطحی جانچ کرانے کا مظلومین کی دادرسی کے لیے حکومت سے معاوضہ کامطالبہ کیا،نیزمرکزی حکومت سے ریاستی حکومت پرگرفت کرنے کامطالبہ کیا،انہوں نے حامی پولیس والوں کے خلاف بھی کاروائی کامطالبہ کیا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...