Powered By Blogger

ہفتہ, اکتوبر 30, 2021

دینی و تعلیمی میدان میں خدمات کا اعتراف ، مولانا حکیم عبد اللہ مغیثی نویں آئی او ایس لائف ٹائم اچیو مینٹ ایوارڈ کیلئے نامزد

دینی و تعلیمی میدان میں خدمات کا اعتراف ، مولانا حکیم عبد اللہ مغیثی نویں آئی او ایس لائف ٹائم اچیو مینٹ ایوارڈ کیلئے نامزد

نئی دہلی (پریس ریلیز): انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز نے نواں آئی او ایس لائف ٹائم اچیو مینٹ ایوارڈ تعلیم کے میدان میں نمایاں خدمات کی بنیاد پر اتفاق رائے سے مولانا حکیم محمد عبد اللہ مغیثی کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ آج انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز میں گورننگ کونسل کی ایک میٹنگ منعقد ہوئی، جس میں اتفاق رائے سے مولانا حکیم محمد عبداللہ مغیثی کو دینی و تعلیمی میدان میں نمایاں خدمات کی بنیاد پر ایوارڈ دینے کا فیصلہ ہوا۔ متعدد شخصیات اور اداروں کو نواں ایوارڈ دیے جانے کی تجاویز موصول ہوئی تھیں، جن میں سے آئی او ایس کی گورننگ کونسل نے اس ایوارڈ کے لیے مولانا عبد اللہ مغیثی کے نام کا انتخاب کیا۔ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز کے فائنانس سکریٹری جناب محمد عالم نے تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ آئی او ایس نے 2006 میں مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دینے والی شخصیات اور اداروں کو آئی او ایس لائف ٹائم اچیومینٹ ایوارڈ دینے کا سلسلہ شروع کیاتھا.
اب تک آٹھ ایوارڈ دیے جاچکے ہیں- سب سے پہلا ایوارڈ 2007 میں سابق چیف جسٹس آف انڈیا جناب اے ایم احمدی کو، دوسرا ایوارڈ امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ جھارکھنڈ کو، تیسرا ایوارڈ ڈاکٹر اے آر قدوائی سابق گورنر بہار کو، چوتھا ایوارڈ پروفیسر بی شیخ علی کو، پانچواں ایوارڈ مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی کو، چھٹا ایوارڈ اے جے نورانی کو، ساتواں ایوارڈ پروفیسر اختر الواسع کو اور اٹھواں ایوارڈ پروفیسر محسن عثمانی ندوی کو دیا گیا تھا۔اب نواں آئی او ایس لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ ایک باوقار تقریب میں مولانا حکیم محمد عبداللہ مغیثی کو پیش کیا جائے گا۔ یہ ایوارڈ ایک مومینٹو، توصیفی سند اور ایک لاکھ روپے کے چیک پر مشتمل ہوتا ہے-
مولانا عبد اللہ مغیثی بر صغیر کے نامور عالم دین ، معروف ملی رہنما اور متعدد خوبیوں کے حامل ہیں ، تعلیمی، سماجی اور ملی میدان میں آپ کی خدمات تقریبا ستر برسوں پر محیط ہیں۔ تعلیم کے میدان میں آپ کی خدمات بہت وسیع ہیں۔آپ تقریبا 250 دینی اداروں کے بانی اور سرپرست ہیں۔ ہندستان کے مختلف علاقوں میں آپ نے 25 کالجز قائم کیے ہیں- آپ جامعہ اسلامیہ عربیہ گلزار حسینہ اجراڑہ کے مہتمم، مسلمانوں کی نمائندہ ملی تنظیم آل انڈیا ملی کونسل کے قومی صدر اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت، تنظیم ابنائے قدیم دارالعلوم دیوبند، جامعہ مظاہر علوم سہارنپور سمیت دسیوں ملی تنظیموں اور اداروں کے آپ ممبر ہیں۔ آپ کی کئی تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں، جن میں خطبات مغیثی، کاروان مغیثی، مجلس ذکر، احکام میت جیسی کتابیں شامل ہیں۔ مولانا کی عمر اس وقت 84 سال ہے- 15 مارچ 1937 میں اتر پردیش کے سہارنپور میں آپ کی ولادت ہوئی۔ 1954 میں دارالعلوم دیوبند سے آپ نے فراغت حاصل کی اور اس کے بعد سے مسلسل دینی، ملی اور سماجی خدمات میں مصروف ہیں۔

ہندستان اور نیوزی لینڈ جیتنے کے لیے بے تاب

ہندستان اور نیوزی لینڈ جیتنے کے لیے بے تاب
دبئی ، 30اکتوبر ۔پاکستان کے ہاتھوں شکست کے بعد نیوزی لینڈ کے خلاف اتوار کے روزٹی ۔20 ورلڈ کپ کے سپر 12 مرحلے کے گروپ-2 کا مقابلہ ٹیم انڈیا کے لئے 'کرویامرو' جیسی حالت والا ہوگا۔ یہ میچ ٹیم انڈیا کے ساتھ ساتھ وراٹ کوہلی کی کپتانی کابھی سخت امتحان ہوگا جس میں انہیںلوگوں کی توقعات پر کھرا اترنا ہوگا۔ گزشتہ اتوارکے روز پاکستان کے ہاتھوں 10 وکٹوں کی بڑی شکست کو بھول کر بھارت کو نیوزی لینڈ کے خلاف اپنی کارکردگی کو بہتر کرنا ہو گا۔ نیوزی لینڈ جیسی ٹیم کے سامنے یہ اتنا آسان نہیں ہوگا۔ ٹم ساودی اور ٹرینٹ بولٹ اکثر ہندوستانی بلے بازوں کے لیے پریشانی کا باعث رہے ہیں۔نیوزی لینڈ کے کپتان کین ولیمسن 100 فیصد فٹ نہیں ہیں اور مارٹن گپتل کے پیر میں بھی انجری کا شکار ہیں۔ ڈیون کونوے حالانکہ ایک بہت جارحانہ اور خطرناک بلے باز ہے۔ ہندوستان کے گیندباز پاکستان کے خلاف بری طرح ناکام رہے لیکن یہاں کوئی لاپرواہینہیں چلے گی۔ مکمل طور پرفٹ نہ ہونے کے باوجود کھیل رہے ہاردک پانڈیا اور خراب فارم سیجدوجہد کررہے بھونیشور کمار ہندوستانی ٹیم کی کمزور کڑیاں ثابت ہوئے ہیں۔ ہاردک کمر کی چوٹ سے ٹھیک ہونے کے بعد اپنے جانے پہچانے فارم میں نہیں ہیں اور اب ان کا کیریئر داؤں پر لگا ہوا ہے۔ نیٹ میں ان کی گیندبازی پریکٹس اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ کس دباؤ میں ہیں۔ ان کی ٹیم ممبئی انڈینس بھی انہیں آئی پی ایل کے نیلامی پول میں ڈالنے جارہی ہے، اس لیے ان کے پاس زیادہ وقت نہیں بچا ہے۔ممکنہ طور پر یہ بھونیشور کا آخری بین الاقوامی ٹورنامنٹ ہے۔ پچھلے دو سیزن میں ان کی رفتار میں نمایاں کمی آئی ہے اور دیپک چاہر جیسے نوجوان گیند بازوں کا مقابلہ کرنا ان کے لیے مشکل ہو گیا ہے۔ ہندوستان نے حال ہی میں پہلا میچ ہارنے کے بعد ٹیسٹ فارمیٹ میں شاندار واپسی کر کے دکھائی ہے۔ ٹی 20 کپتان کے طور پراپنا آخری ٹورنامنٹ کھیل رہے کوہلی اتنی آسانی سے ہار ماننے والے بھی نہیں ہیں۔ یہاں ناکامی کا مطلب ہے کہ 50 اوور اور ٹیسٹ فارمیٹ میں بھی ان کی کپتانی پر سوالات اٹھیں گے۔ کوہلی ایک ایسے کھلاڑی ہیں جس میں منفی حالات میں بہترین کارکردگی دکھانے کی صلاحیت ہے اور وہ ایسے چیلنجز کو بھی پسند کرتے ہیں۔ وہ کئی مواقع پر ٹیم کے ٹربل شوٹر رہے ہیں لیکن گزشتہ چند سالوں میں کپتان کوہلی اور بلے باز کوہلی کے درمیان ہم آہنگی نہیں رہی۔ہندوستانی ٹیمکا ٹورنامنٹ کے آخری مرحلے تک کھیلنا اس کے کروڑوں شائقین کی جذباتی ضرورت ہے بلکہ یہ ٹورنامنٹ کے تجارتی مفادات کے لیے بھی ضروری ہے۔ کم و بیش آسان گروپ میں ہونے کے باوجود آئی پی ایل میں اسٹار ثابت ہونے والے بڑے ہندوستانی کھلاڑیوں کے ٹورنامنٹ سے جلد باہر ہونے میں اب ایک جیت یا ہار کا فرق ہے۔ پاکستان نے تینوں سخت میچ کھیل کر تینوں جیت کر سیمی فائنل میں جگہ تقریباً یقینی کر لی ہے۔ اسے اب نمیبیا اور اسکاٹ لینڈ سے کھیلنا ہے۔ ایسے میں دوسرے مقام کے لیے مقابلہ ہندوستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان ہے اور جو بھی جیتے گا ،وہ دوسرے نمبر پر ہوگا

مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ فاصلاتی تعلیم کی حالت انتہائی افسوسناک،طلبہ کا کوئی پرسانِ حال نہیںقومی خبریں

مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ فاصلاتی تعلیم کی حالت انتہائی افسوسناک،طلبہ کا کوئی پرسانِ حال نہیں
قومی خبریں
مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ فاصلاتی تعلیم کی حالت انتہائی افسوسناک،طلبہ کا کوئی پرسانِ حال نہیں
نئی دہلی30اکتوبر(نمایندۂ خصوصی/عبدالرحیم دربھنگوی)  ’مانو‘ ایک سینٹرل یونیورسٹی ہے، جہاں ریگولر تعلیم کے ساتھ ساتھ فاصلاتی نظامِ تعلیم بھی رائج ہے،جس کے تحت ملک بھر کے ہزاروں طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کرتے ہیں اور اس کے نام پر پورے ملک میں اس یونیورسٹی کے کئی مقامی مراکز ہیں جہاں درس و تدریس کے ساتھ امتحانات بھی منعقد ہوتے ہیں ، اس عنوان سے یونیورسٹی کو اچھی خاصی گرانٹ بھی ملتی ہے،مگر زمینی سطح پر شعبۂ فاصلاتی تعلیم کی حالت انتہائی خستہ ، ناگفتہ بہ اور طلبہ کے لیے حد درجہ تکلیف دہ ہے ۔ اس شعبے میں داخلہ لینے والے طلبہ و طالبات کو نہ تو وقت پر کتابیں بھیجی جاتی ہیں اور نہ ہی وقت پر امتحان ہوتاہے اور رزلٹ شائع ہونے میں تو تقریباً پانچ مہینے تک کا وقفہ ہو جاتاہے ،پھر کاپی جانچ کرنے کا معلوم نہیں کیا نظام ہے کہ تمام سوالات کے مطلوبہ جوابات دینے کے باوجود عموماً طلبہ کے صرف ۴۵ یا زیادہ سے زیادہ ۵۰فیصد نمبرات آتے ہیں ،جس کی وجہ سے یہاں تعلیم پانے والے طلبہ ترقی کرنے اور تعلیمی میدانوں میں آگے بڑھنے سے محروم رہ جاتے ہیں ؛کیوں کہ ملک کی بڑی یونیورسٹیوں میں ماسٹرز یا پی ایچ ڈی میں داخلے کے لیے کم از کم ۵۰ فیصد نمبرات حاصل کرنا ضروری ہے ،نیز جو طلبہ یہاں سے بی اے کرنے کے بعد بی ایڈ کرتے ہیں ، وہ کم نمبر کی وجہ سے صلاحیت کے باوجود سرکاری اداروں میں بحالی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ سب سے زیادہ پریشان کن مرحلہ تو رزلٹ کا ہوتا ہے،وقت پر رزلٹ نہ آنے کی وجہ سے، بڑی مشکل سے کسی بڑی یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے بعد بھی وقت مقررہ پر مارک شیٹ اور سرٹیفکیٹ جمع نہ کرپانے کی بنا پر ان کا داخلہ ختم کردیا جاتاہے۔
اس سال تو کورونا کے نام پر یونیورسٹی کے اس شعبہ نے طلبہ پر ظلم کی انتہا ہی کردی ہے ،۲۰۲۰ء کے اگست میں ہونے والا امتحان ایک سال کی تاخیر سے ۲۰۲۱ء کے اگست میں کروایا گیا اور اب امتحان پر دو ماہ کا عرصہ گزر گیا ہے؛لیکن رزلٹ کا کوئی پتہ نہیں ہے ،حالانکہ بہت سے طلبہ کو مختلف یونیورسٹیوں کے مختلف کورسز میں داخلہ لینے کی وجہ سے کہیں ۱۵ اور کہیں ۲۰نومبر تک فائنل ایئر کا رزلٹ جمع کرنا ضروری ہے ،ورنہ ان کا داخلہ ختم ہوجائے گا۔ ایڈمیشن لینے والے طلبہ کا کہنا ہے کہ جب وہ ’مانو‘ کے ذمے داروں کو ای میل کرتے ہیں، تو ان کو کوئی جواب نہیں ملتاہے، اسی طرح اگر وہ فون کرتے ہیں،تو ان کا فون یاتورسیو نہیں ہوتا یا رسیو ہوتا ہے، تو ان کی رہنمائی کرنے کے بجائے یہ کہہ کرکہ مجھے نہیں معلوم ہے ،فون رکھ دیا جاتا ہے اور ان کو مایوسی کے غار میں بے دریغ ڈھکیل دیا جاتا ہے۔ اپنے ہی طلبہ کے ساتھ مانو کے ذمے داروں کا یہ رویہ نہایت شرمناک اور غیر اخلاقی؛بلکہ غیر انسانی ہے۔ ایک تو یوں بھی اس ملک میں مسلمانوں کے لیے تعلیم کی راہیں اتنی آسان نہیں،بہت سے نوجوان جو اپنے گھریلو حالات یا دوسری ناگزیر وجوہات کی بنا پر ریگولر کورسز میں داخلہ نہیں لے سکتے،وہ ’مانو‘ کے شعبۂ فاصلاتی تعلیم کے ذریعے اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتے ہیں،مگر یہ بھی اگر طلبہ کے تئیں ایسی سرد مہری اور بے حسی کا مظاہرہ کرے گی، تو کون اور کیوں یہاں داخلہ لے کر وقت برباد کرنا چاہے گا؟ یہی وجہ ہے کہ نئی نسل میں یہ رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے کہ مولانا آزاد یونیورسٹی کے فاصلاتی تعلیم کے شعبے میں داخلہ لینا اپنی زندگی کوبرباد کرنے کے مترادف ہے۔ ایک طالب علم نے بڑی عاجزی اور منت سماجت کے ساتھ وہاں کےایک ذمے دار سے کہا کہ رزلٹ آنے سے قبل حد درجہ ضرورت کے وقت یونیورسٹیز اپنے طلبہ کو کنڈیشنل رزلٹ؍سرٹیفکٹ دیتی ہیں ،آپ بھی دے دیجیے ؛تاکہ جہاں میرا داخلہ ہوا ہے وہاں داخلہ باقی رہ جائے ؛کیوں کہ میں نے بڑی مشقت ومحنت اورشب وروز ایک کرکے تیاری کرنے کے بعد وہاں داخلہ لیا ہے ،اگر سرٹیفکٹ نہیں دیاگیا تو میراداخلہ ختم ہوجائے گا ،تو انہوں اس طالب علم کے جذبات سے کھیلتے ہوئے کہاکہ ہمارے یہاں یہ سسٹم نہیں ہے اور اسی پر بس نہیں کیا ؛بلکہ اس سے اس اہل کار نے پوچھا کہ تمھیں میرا نمبر کہاں سے ملا ،پھر نمبر دینے والے کانام بتانے پر اسے بھی برا بھلا کہا اور اس طالب علم سے کہاکہ آیندہ مجھے فون مت کرنا۔ یہ کیسا شرمناک رویہ ہے،جبکہ تعلیمی اداروں میں دوسروں کے تعاون،ہمدردی،بلند اخلاقی اور رہنمائی کی تعلیم دی جاتی ہے اور ہر تعلیمی ادارہ اپنے طلبہ کے مستقبل کو روشن کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے ؛لیکن ’مانو‘ کے ذمے داروں کا رویہ اس کے بر عکس ہے۔بہت سے طلبہ کی ایک شکایت یہ بھی ہے کہ یونیورسٹی نے فالو آن کورسز کے لیے رجسٹریشن اور پیمنٹ کی تاریخ کا اعلان کیا اور اب اس میں ۲۱؍نومبر تک توسیع بھی کردی گئی ہے،مگر ویب سائٹ پر ۲۰۱۹ء میں داخلہ لینے والے طلبہ کے لیے رجسٹریشن کا آپشن ہی نہیں آرہا ہے اور طلبہ اگر مقامی مرکز یا ’مانو‘سے رابطہ کرتے ہیں تو انھیں تشفی بخش جواب نہیں مل رہا ہے،جس کی وجہ سے وہ بھی پریشان ہیں اور مزید ایک تعلیمی سال کے ضیاع کا خدشہ بڑھتا جارہا ہے۔
یونیورسٹی کے نئے وائس چانسلر پروفیسر سید عین الحسن، جو بظاہر کافی ایکٹیو نظر آرہے ہیں اور یونیورسٹی کے نظام کو بہتر کرنے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں،انھیں ترجیحی بنیاد پر شعبۂ فاصلاتی تعلیم کے نظام کو بہتر کرنے پر توجہ دینی چاہیے،خاص طورپر داخلے کے پروسیس، کتابوں کی ترسیل،امتحان کے نظام اور نتائجِ امتحان کے اجرا کے سلسلے میں جو لاپروائی اورغیر ذمے دارانہ رویہ اس شعبے کا رہتا ہے،اسے جلد از جلد ختم کرنے کی ضرورت ہے؛تاکہ طلبہ کا یونیورسٹی پر اعتماد بحال ہو اور وہ یہاں سے اپنے تعلیمی مراحل کی تکمیل کرکے ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینے کے قابل بن سکیں -

مولانا ہارون الرشید ؒ - یاد سے تیری دل ِ آشنا معمور ہےمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مولانا ہارون الرشید ؒ - یاد سے تیری دل ِ آشنا معمور ہے
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہعبدالرحیم دربھنگہ وی
جامعہ رحمانی مونگیر کے سابق استاذ، امیر شریعت رابع حضرت مولانا منت اللہ رحمانی کے دست گرفتہ، مدرسہ رحمانیہ سوپول دربھنگہ کے سابق شیخ الحدیث وصدر مدرس دارالعلوم مرکز اسلامی انکلیشور اور نور العلوم گٹھامن پالن پور گجرات کے شیخ الحدیث ، استاذ الاساتذہ، بافیض عالم دین ، اچھے خطیب اور بہترین ادیب، مولانا ہارون الرشید صاحب کا دربھنگہ کے وویکا نند اسپتال میں ۱۴؍ فروری ۲۰۲۱ء بروز اتوار بوقت ساڑھے بارہ بجے شب انتقال ہو گیا، پیرانہ سالی اور ضعف کے علاوہ ، لیور اور آنت میں انفکشن اور خون کی کمی کی شکایت تھی ، وقت موعود کا آجانا یہ سب سے بڑا سبب دنیا چھوڑنے کا ہے ، جس کی طرف نگاہیں کم جاتی ہیں، اور ہم ظاہری اسباب کو موت کا سبب سمجھ کر اطمینان کر لیتے ہیں، جنازہ کی نماز صاحب نسبت بزرگ ماسٹر محمد قاسم صاحب دامت برکاتہم نے ۱۴؍ فروری کو ہی بعد نماز ظہر پڑھائی اور مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ سات بیٹیاں ایک بیٹا مولانا محمد سفیان  دو پوتے حمدان رشید اور سفیان رشید کو چھوڑا۔
مولانا ہارون الرشید بن محمد طاہر حسین مرحوم بن امانت حسین بن صفدر خان بن فیض علی خان کی ولادت یکم جنوری ۱۹۳۹ء کو آبائی گاؤں جمال پور ،وایا بیرول دربھنگہ میں ہوئی ،ان کے نانا صغیر خان ، نانی قبولن اور والدہ کا نام تحیم النساء تھا، شادی گاؤں میں ہی مولانا مقبول بن تسلیم خان بن صفدر خان بن فیض علی خان کی دختر نیک اختر سے ہوئی تھی، نکاح مولانا محمد عثمان صاحب ؒ نے پڑھایا تھا، تین سال کی عمر تھی ، جب والدہ سفر آخرت پر روانہ ہو گئیں، بارہ سال کی عمر ہوئی تو والد بھی چل بسے پرورش وپرداخت دادا امانت حسین اور ماموں انیس خان کے زیر سایہ ہوئی، ابتدائی تعلیم گھر پر مولانا مقبول صاحب سے حاصل کرنے کے بعد ۱۹۵۱ء میں علاقہ کے مشہور ومعروف مدرسہ رحمانیہ سوپول میں داخل ہوئے،اس زمانہ میں مدرسہ رحمانیہ سوپول بہار مدرسہ بورڈ سے ملحق ہونے کے با وجود بہار کے مدارس میں اپنا ایک مقام رکھتا تھا، اور ماضی قریب تک اس پر سرکاری ہونے کے اثرات نہیں دِکھتے تھے، اساتذہ آہ سحر گاہی اور دعائے نیم شبی کے عادی تھے، اس لئے بورڈ کے اثرات اس مدرسہ سے دور تھے، مولانا مرحو م نے اس وقت کے جلیل القدر اساتذہ سے وسطانیہ چہارم تک کی تعلیم یہاں پائی،۱۹۵۶ء میں مدرسہ امدادیہ لہریا سرائے دربھنگہ ، ۱۹۵۷ء میں مدرسہ قاسمیہ شاہی مراد آباد میں تعلیم کا سلسلہ جاری رہا، ۱۵؍ شوال ۱۳۷۶ھ مطابق۱۹۵۷ء میں دا رالعلوم دیو بند میں داخل ہوئے اور ۱۹۶۰ء میں امتیازی نمبرات سے سند فراغ حاصل کیا، دیو بند کے قیام کے زمانہ میں اساتذہ کے منظور نظر رہے، تعلیمی انہماک کی وجہ سے اپنے رفقاء میں بھی ممتاز تھے۔
 تدریسی خدمات کا آغاز ۱۹۶۱ء میں نولی گڈھ راجستھان سے کیا، لیکن جلد ہی جامعہ رحمانی مونگیر سے بلاوا آگیا، یہاں ۱۹۶۳ء کے نصف تک متوسطات کی کتابیں پڑھاتے رہے،۱۹۶۳ء سے ۱۹۶۹ء تک مدرسہ امدادیہ لہیریا سرائے دربھنگہ میں مسند تدریس کو زینت بخشی، تین ماہ بحیثیت استاذ مدرسہ رحمانیہ یکہتہ موجودہ ضلع مدھوبنی کو بھی نوازا، ۱۹۷۰ء میں مدرسہ رحمانیہ میں بحیثیت استاذ تقرری عمل میں آئی، بعد یہاں کے پرنسپل (صدر مدرس) مقرر ہوئے، اور سبکدوشی کی عمر کو پہونچ کر یہاں سے سبکدوش ہوئے۔ سبکدوشی کے بعد بھی تدریس سے پوری زندگی کی وابستگی نے چین سے بیٹھنے نہیں دیا ، چنانچہ چند ماہ مدرسہ چشمۂ فیض ململ مدھوبنی میں پڑھانے کے بعد  ۲۰۰۷ء سے ۲۰۱۴ء تک دار العلوم مرکز اسلامی انکلیشور گجرات اور پھر حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری کی تحریک پر نور العلوم گٹھامن پالن پور میں شیخ الحدیث کی حیثیت سے بخاری شری کا درس دیتے رہے ، پیرانہ سالی کی وجہ سے ادھر ایک سال سے گھر پر ہی قیام فرماتھے۔
آپ کے اہم کارناموں میں ۱۴۱۵ھ مطابق ۱۹۹۴ء بچیوں کی بنیادی تعلیم کے لئے مدرسہ رحمانیہ نسواں اور چھوٹے بچوں کی تعلیم میں لئے دا رالقرآن کا قیام ہے، مولانا قیام کے بعد سے اسے ترقی دینے کے لیے کوشاں رہے، اور اسے علاقہ کا قابل ذکر ادارہ بنا کر دم لیا۔ مولانا کی زندگی صلاح وتقویٰ ، عبادت وریاضت ، تواضع ، انکساری، درس وتدریس ، تعلیم کے لیے فکر مندی سے عبارت تھی ، ان کے مزاج میں عفو ودرگذر اور احساس ذمہ داری کا عنصر دوسری تمام چیزوں پر حاوی تھا، اللہ رب العزت نے ان سے خوب کام لیا، آج ان کے ہزاروں شاگردجو دین اور دینی علوم کی ترویج واشاعت میں لگے ہوئے ہیں، ان کے لیے صدقۂ جاریہ ہیں۔
 مولانا مرحوم سے میرے تعلقات اس زمانہ سے تھے، جب میں مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی میں استاذ تھا، وہ مجھ پر بزرگانہ شفقت فرماتے تھے، کسی جلسہ میں ہم دونوں ساتھ ہوتے تو حوصلہ افزائی کے کلمات کہتے ، کم از کم دو بار انہوں نے اپنے مدرسہ رحمانیہ نسواں جمالپوربھی بلایا تھا، ایک ملاقات انکلیشور کی بھی یاد ہے ، جب وہ وہاں شیخ الحدیث ہوا کرتے تھے، جمبوسر میں فقہی سمینار میں شرکت کے بعد میں ان سے ملاقات کی غرض سے حاضر ہوا تھا، بڑے اونچے الفاظ میں انہوں نے میرا تعارف وہاں کے ذمہ داروں ، اساتذہ اور علماء سے کرایا تھا، اندازہ ہوا کہ مولانا کو خُرد نوازی میں خاص ملکہ حاصل ہے ۔
 مولانا بہترین مدرس تھے، ان کے شاگرد بتاتے ہیں کہ وہ درس گاہ میں نہ تو غیر ضروری بات کرتے تھے اور نہ ہی عبارت اور مسئلہ سے متعلق ساری باتیں طلبہ تک منتقل کرتے تھے، وہ اتناہی بتاتے جتنا طلبہ سمجھنے کی صلاحیت رکھتے تھے ، اس کی وجہ سے ان کا درس بوجھل نہیں ہوتا تھا، اور کلموا الناس علی قدر عقولھم  کی صحیح تصویر سامنے آجاتی تھی۔
 مولانا تقریر کے میدان کے بھی آدمی تھے، لیکن ان کی تقریر پیشہ وارانہ گھن گرج اور کرسی توڑنے کے فن سے نا آشنا ہوا کرتی تھی ، تقریر میں اتار چڑھاؤ کے بجائے سبک روی تھی، جو دلوں پر دستک دیتی تھی ، ایکشن اور اٹھا پٹک والی تقریر میں سامعین اٹھا پٹک دیکھنے میں ہی رہ جاتے ہیں، جو پیغام کو دل تک پہونچنے میں بڑی رکاوٹ ہوا کرتی ہے۔
 مولانا کو لکھنے کا بھی فن آتا تھا، ایک زمانہ میں نقیب میں ان کی تحریر یں شائع ہوا کرتی تھیں، ان کی ایک کتاب بھی ’’آداب زندگی‘‘ کے نام سے مطبوعہ ہے، لیکن طبیعت کا میلان اس طرف کم تھا وہ کتاب سازی کے بجائے رجال سازی کے قائل تھے۔
 بعض موقعوں سے انہوں نے اشعار بھی کہے، لیکن یہ سلسلہ بھی بہت دراز نہیں ہو سکا، چند اشعار ہی اب محفوظ ہیں، میں نے دیکھا نہیں ، لیکن بعض جانکار لوگوں نے بتایا کہ الجمعیۃ کے شیخ الاسلام نمبر میں بھی ان کی ایک نظم محفوظ ہے۔
 کل ملا کر مولانا کی شخصیت ہمہ جہت تھی، لیکن تمام جہتوں میں مدرسی والی جہت غالب تھی، عمر کے آخری پڑاؤ پر انہوں نے حضرت مولانا اشتیاق احمد صاحب جامع العلوم مظفر پور سے تعلق جوڑا تھا اور رمضان المبارک کے اخیر عشرہ کے اعتکاف میں انہیں کے پاس مقیم ہوا کرتے تھے۔
 اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں ان کے درجات بلند کرے، آمین یا رب العالمین وصلی اللہ علی النبی الکریم وعلیٰ اٰلہ وصحبہ اجمعین ۔

مغربی بنگال : پٹاخوں کے استعمال اور فروختگی پرہائی کورٹ نے لگائی مکمل پابندی

مغربی بنگال : پٹاخوں کے استعمال اور فروختگی پرہائی کورٹ نے لگائی مکمل پابندی

کولکاتہ:مغربی بنگال میں اس دیوالی پٹاخے نہیں پھوڑے جاسکیں گے ۔ دراصل ریاست میں پٹاخوں کی فروخت اور استعمال پر مکمل پابندی لگا دی گئی ہے۔ یہ پابندی دیوالی، کالی پوجا، چھٹھ پوجا، کرسمس اور نئے سال پر بھی جاری رہے گی۔ جمعہ کو کولکاتہ ہائی کورٹ نے اس سلسلے میں ایک حکم جاری کیا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ کرونا وبا کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ریاستی حکومت نے دیوالی، چھٹھ اور کالی پوجا پر دو گھنٹے تک آتش بازی کی اجازت دی تھی۔ وہیں کرسمس اور نئے سال پر 35 منٹ تک آتش بازی کی اجازت دی تھی ۔ اس کے علاوہ ریاستی حکومت نے یہ شرط بھی رکھی تھی کہ صرف گرین پٹاخے ہی پھوڑے جاسکیں گے۔ اس حکم کے خلاف ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرکے پٹاخوں پر مکمل پابندی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس کیس کی سماعت کرتے ہوئے عدالت نے مغربی بنگال میں پٹاخوں کی فروخت اور استعمال پر نئے سال تک کیلئے مکمل طور پر پابندی لگا دی ہے۔


تری پورہ میں مسلمانوں پرہورہے مظالم کے خلاف پاپولرفرنٹ آف انڈیاکاسخت احتجاج

تری پورہ میں مسلمانوں پرہورہے مظالم کے خلاف پاپولرفرنٹ آف انڈیاکاسخت احتجاجممبئی (بی این ایس)گذشتہ کچھ دنوں سے ریاست تریپورہ میں مسلمانوں پر، اُن کی عبادت گاہوں پر اور اداروں پر ہندو شر پسند عناصر کی جانب سے مسلسل ہتھیار بند حملے ہو رہے ہیں، جس کے نتیجے میں اب تک کئی لوگوں کی جانیں جا چکی ہیں۔ کئی مسجدوں کو نذر آتش کیا جا چکا ہے۔ توڑ پھوڑ کی وارداتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مسلم مرد و خواتین پر ناروا تشدد رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ انھیں ہراساں کرنے کے لیے زبردستی ان کے گھروں پر بھگوا جھنڈے لہرائے جا رہے ہیں۔ کئی مساجد میں خنزیر کا گوشت ڈالا گیا ہے۔ کئی علماء اور ائمہ کو بھی تشدد کا شکار بنایا گیا ہے۔ لیکن اب تک حکومت کوئی کارروائی کرنے اور بھگوا دہشت گردوں کو سزا دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ہندو شر پسند عناصر کا بلاخوف، قانون اپنے ہاتھ میں لے کر، اس طرح قتل وغارت گری کا بازار گرم کرنا ملک کے مستقبل کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ جس کا مقصد فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرکے مسلم نسل کشی کے سنگھی ایجنڈے کو پورا کرنا ہے۔ ایک جمہوری ملک میں اس طرح کی غنڈہ گردی کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کی جائے گی۔اس پس منظر میں 29 / اکتوبر 2021 بروز جمعہ کو جمعہ کی نماز کے بعد پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی جانب سے عروس البلاد ممبئی میں باندرہ، کرلا، ممبرا، چیتا کیمپ اور دیگر مختلف مقامات پر احتجاج کیا گیا، جس میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا نے مطالبہ کیا کہ سرکار تریپورہ میں ہونے والے ظلم وستم اور فرقہ پرستی کے خلاف مضبوط قدم اٹھائے ۔چیتا کیمپ میں منعقد احتجاج کے دوران پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے ذمہ دار جناب عبد الرحمن صاحب نے تمام ہندوستانیوں کو مخاطب کرتے ہوئے ایک پیغام دیا کہ اقتدار میں موجود ہندوتوا فسطائی طاقتیں جس طرح سے ہمارے وطن عزیز کی گنگا جمنی تہذیب، دستور اور آئین ہند کو نیست و نابود اور اس کا گلا گھونٹنے کی ناکام کوشش کر رہی ہیں، ہم وطن عزیز ہندوستان کی عوام مل کر اور متحد ہو کر دستور اور آئین ہند کی حفاظت کریں گے اور ہندوتوا فسطائی طاقتوں کے ناپاک نظریے کو ناکام بنائیں گے۔ انشاءاللہ

بہاراسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ:درجہ وسطانیہ کے فارم بھرنے کی توسیعی تاریخ کا اعلان!

بہاراسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ:درجہ وسطانیہ کے فارم بھرنے کی توسیعی تاریخ کا اعلان!


درجہ وسطانیہ ایویلیوشن 2022 کے فارم بھرنے کی تاریخ میں 07نومبر2021 تک توسیع کردی گئی ہے۔ تمام ملحقہ مدارس کے پرنسپل ؍ صدرمدرس ؍ طلبا وطالبات اور گارجین حضرات کو اطلاع دی جاتی ہے کہ درجہ وسطانیہ ایویلیوشن 2022 کا آن لائن فارم بھرنے کی تاریخ میں 07نومبر2021 تک توسیع کی جاتی ہے۔

آن لائن فارم بھر نے کے لیےنیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں!
www.bsmeb.org

متعین وقت کے درمیان بذاتِ خود فارم بھرنا یقینی بنائیں!


اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...